مکرم شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍جنوری 1999ء میں مکرم عبدالسمیع نون صاحب رقمطراز ہیں کہ مکرم شیخ محمد اقبال صاحب اور مکرم شیخ فضل الرحمان صاحب دونوں بھائی یک جان دو قالب تھے اور (1954ء میں جب مضمون نگار نے سرگودھا میں رہائش اختیار کی تو دونوں بھائیوں کو) جماعت احمدیہ سرگودھا کی دینی جدوجہد میں سرگرم عمل پایا۔ اس سے پہلے کمپنی باغ سرگودھا کے جلسہ عام میں جب حضرت مصلح موعودؓ نے تاریخی خطاب فرمایا تھا تو حضورؓ اور سامعین کی حفاظت کے لئے پراچہ صاحبان نے اپنی قیمتی بسوں کا جلسہ گاہ کے اردگرد ایک حصار بنادیا اور اس بات کی ذرہ بھر پروا نہ کی کہ لاکھوں کی جائداد کا کیا حشر ہوتا ہے۔ ربوہ کی آبادکاری کے سلسلہ میں بھی ان سرفروشوں کے کارناموں کی تفصیل تاریخ احمدیت میں محفوظ ہوچکی ہے۔ ان کی بسیں ضلع سرگودھا کے دوردراز راستوں پر چلتی تھیں اور اس زمانہ میں جب دیگر ذرائع مفقود تھے تو جماعتی رابطوں کا ایک بہت بڑا ذریعہ یہی بسیں تھیں جو جماعتی ڈیوٹی کیلئے ہر جگہ جانے کیلئے تیار ہوتی تھیں۔ بعض دفعہ صرف تین چار دوستوں کو لے کر پوری بس سفر پر روانہ کردی جاتی۔ جبکہ کار تو خدمت دین کے لئے وقف ہی کر رکھی تھی۔
ایک سال دریائے جہلم میں سیلاب آیا۔ حضرت مصلح موعودؓ مری سے واپسی پر خوشاب کے راستے ربوہ پہنچے تو چند گھنٹے بعد دریا میں ایسا خوفناک ریلا آیا کہ سڑک کا راستہ مسدود ہوگیا اور حضورؓ کے قافلے کا ایک حصہ خوشاب سے آگے نہ جاسکا۔ سیلاب کی ہولناکیوں کی خبر تو حضورؓ کو پہنچ گئی لیکن قافلے کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ چنانچہ آدھی رات تک انتظار کے بعد حضورؓ خود عازم سرگودھا ہوئے اور سیدھے پراچہ صاحب کے مکان پر پہنچے۔ خادم نے پراچہ صاحب کو اطلاع دی تو آپ ننگے پاؤں، نیم بیداری کی حالت میں سڑک پر پہنچے اور اپنے محبوب آقا کو آدھی رات کے بعد سڑک پر کھڑے دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ صورتحال معلوم ہوئی تو عرض کیا کہ میرے آقا اگرچہ سیلاب کا پانی بہت چڑھ چکا ہے لیکن ایک بالکل نئی بس جو سب سے زیادہ قابل اعتبار ہے اور ایک ماہر اور وفادار ڈرائیور کو ابھی خوشاب بھجواتا ہوں۔ … بعد میں اس قافلے کے بذریعہ ریل ربوہ پہنچنے کی خبر مل گئی۔
محترم پراچہ صاحب ہمیشہ اس ٹوہ میں رہتے کہ کب حضور ؓ نے اس راہ سے گزرنا ہے اور پھر ہمہ تن آرزو بنجاتے کہ کسی طرح شرف دست بوسی نصیب ہو جائے۔
محترم پراچہ صاحب کی دینی غیرت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے مضمون نگار لکھتے ہیں کہ احمدیہ مسجد نیوسول لائن میں جب ابھی چھپر ہی ڈالا ہوا تھا کہ ایک دن نماز پڑھ کر ہم وہاں بیٹھے ہی تھے کہ مخالفین کا ایک ریلا حملے کی نیت سے مسجد کی طرف بڑھنے لگا۔ اس پر پراچہ صاحب تن تنہا سینہ سپر ہوکر انہیں للکارنے لگے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنی بارعب شخصیت عطا کی تھی کہ مخالفین نے پسپا ہونے ہی میں عافیت جانی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں