مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب سابق امیر ضلع راولپنڈی

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 14؍مئی 2021ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8؍مارچ 2013ء میں مکرم سید حسین احمد صاحب نے مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ مرحوم کی شخصیت بہت سی خوبیوں کی مالک تھی۔خلافت سے محبت اور فوری اطاعت آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کا ایک خطبہ سننے کے بعد، جس میں شعبہ مال سے متعلق چند اہم ہدایات تھیں، آپ نے اسی روز مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا اور اُن ہدایات پر فوری عمل شروع کروادیا۔ آپ خلیفہ وقت کی ہدایات کو ہمیشہ فوری طور پر عہدیداران تک پہنچاتے اور عملدرآمد کا جائزہ لیتے رہتے۔


حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے تو آپ کو عشق تھا۔ خلافت سے قبل بطور ناظر اعلیٰ، دو تین بار دوروں پر مدعو کیا۔ مرکزی نمائندگان کو بھی فون کرکے باربار بلایا کرتے۔ غیر از جماعت سے سوال و جواب کی مجالس منعقد کروا تے۔ حضرت مرزا عبدالحق صاحب بھی سرگودھا سے اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ احمدی نوجوانوں اور واقفین نَو کی کئی ملاقاتیں کروائیں۔ آپ جماعتی اقدار کو نوجوان نسل میں دیکھنا چاہتے تھے اور بزرگان کے واقعات اکثر بیان کیا کرتے تھے۔ ضلعی جماعتوں کے دورہ جات پر خود جایا کرتے اور مربیان کو ہمراہ رکھتے۔ صحت کی خرابی کے باعث اگر خود نہ جاسکتے تو اکثر ذاتی گاڑی اور ڈرائیور بھجوادیتے۔
آپ کا ایک بڑا کارنامہ 800صفحات پر مشتمل تاریخ احمدیت راولپنڈی کی تیاری اور اشاعت ہے۔درجنوں دفعہ آپ نے کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی۔ مسودے کو لفظاً لفظاً پڑھا اور منظوری دی۔ جماعت کے ہر کام میں ذاتی دلچسپی لیتے تاکہ دیگر عہدیداران بھی دلجمعی سے حصہ لیں۔
مربیان سلسلہ اور دیگر کارکنان کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے۔ عیدین کے موقع پر مربیان کے گھر جاکر تحفہ دیتے۔ ایوان توحید میں واقع اپنے دفتر میں آتے تو میرے پانچ سالہ بیٹے وقاص کے ہاتھ جماعتی ڈاک دیگر دفاتر میں بھجواتے تاکہ بچپن سے خدمت دین کا جذبہ پیدا ہو۔
مسجد نور راولپنڈی کی عمارت کو سڑک کی توسیع کے باعث 2004ء میں گرانے کا حکم ملا تو آپ بہت پریشان تھے۔ دشمن کا منصوبہ تھا کہ مسجد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جائے۔ آپ نے حضورانور کو دعا کی فیکس کی تو حضور انور کا جواب آیا کہ مَیں نے خواب میں دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ راولپنڈی کو مزید وسعت دی ہے۔ اس پر آپ اور ساری جماعت بہت خوش ہوئے۔ چنانچہ چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے جماعت راولپنڈی کو16کنال کا قطعہ عطا فرمادیا۔
1952ء میں جب آپ انجینئرنگ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھے توکالج کے ا حمدی طلباء نے ایک پروگرام رکھ لیا جس میں غیرازجماعت اساتذہ اور طلبہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا خطاب کروانا تھا۔ پھر حضوؓر کی منظوری کے بغیر وقت مقرر کرکے مہمانوں کو اطلاع بھی کردی۔ اور پھر اپنا نمائندہ مکرم فضل الرحمٰن خان صاحب کو بنا کر ربوہ بھیجا۔ جب آپ نے حضوؓر کی خدمت میں پروگرام پیش کیا تو حضوؓر نے فرمایاکہ میَں اُس دن مصروف ہوں۔ آپ نے عرض کی کہ غیر احمدی طلبہ اور پروفیسرز کو اطلاع بھی کردی ہے۔ اس پر حضوؓر نے شفقت فرماتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اور اچھی طرح تیاری کرو، مَیں لاہور پہنچ جاؤں گا۔ چنانچہ یہ پروگرام بہت کامیاب ہوا۔ حضوؓر کی شفقت کا یہ واقعہ آپ اکثر بیان کیا کرتے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں