مکرم پروفیسر مبارک احمد انصاری صاحب کی چند یادیں – چند باتیں

ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا جنوری 2003ء میں مکرم پروفیسر مبارک احمد انصاری صاحب اپنی بعض یادوں کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعودؓ نے نوجوانوں کو زندگی وقف کرنے کی تحریک کی تو مَیں نے بھی اس کا فارم حاصل کیا لیکن جب شرائط پڑھیں تو وہ بہت سخت لگیں اور وقف کرنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ بعض لوگ جب کسی وجہ سے وقف پر قائم نہ رہ سکے تھے تو اُنہیں اخراج از نظام جماعت اور بعض کو مقاطعہ کی سزائیں دی گئی تھیں۔ میرے والد صاحب اور اساتذہ نے بھی مجھے وقف کی تحریک کی لیکن مَیں نے وقف نہ کیا۔ اس تمام عرصہ میں میرا نفس مجھے ملامت کرتا رہا اور مَیں دعا کرتا رہا۔ آخر میرا انشراح ہوگیا کہ مجھے کسی دفتر یا جماعت یا خلیفہ وقت کے لئے وقف نہیں کرنا بلکہ اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ اس خیال سے مجھے بہت تقویت ملی اور مَیں تحریک جدید کے دفتر چلا گیا جہاں میرے ماموں مکرم مولوی عبدالرحمن انور صاحب انچارج تھے۔ اُن کی طبیعت میں صاف گوئی بہت تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا کہ یہاں ماموں موجود ہے، فیصلہ اچھی طرح سوچ کر کرو۔ مَیں نے کہا اچھی طرح سوچ لیا ہے اور اسی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے۔ انہوں نے یہ سن کر الحمدللہ کہا اور مجھے فارم دیدیا جو مَیں نے پُر کرکے جمع کروادیا۔
میرے والد حضرت قاضی محمد رشید صاحب حکومت کے محکمہ آرڈیننس سے بطور سویلین گزیٹڈ آفیسر 1952ء میں ریٹائرڈ ہوئے تو انہوں نے زندگی وقف کردی اور حضورؓ نے انہیں وکیل المال ثالث تعینات کیا۔ 1954ء میں جب تعلیم الاسلام کالج لاہور سے ربوہ منتقل ہوا تو کالج کا یونیورسٹی سے الحاق کرانے کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ سائنس کے اساتذہ میں ایزادی کی جائے۔ حضورؓ کا اصول تھا کہ نئے M.Sc کرنے والے کو استاد رکھا جائے حالانکہ اُس وقت فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں پانچ M.Sc. موجود تھے لیکن جب ایک روز میرے والد صاحب نے دفتر ملاقات کے دوران حضورؓ سے عرض کیا کہ میرا بیٹا جو زندگی وقف ہے وہ M.Sc. کرچکا ہے تو حضورؓ نے فرمایا کہ اُسے مجھ سے ملوائیں۔ صورتحال یوں تھی کہ مَیں کیمیکل ٹیکنالوجی میں M.Sc. کرکے ایک انڈسٹری میں ملازم تھا کیونکہ ڈگری لینے کے لئے دو ماہ کی انڈسٹری ٹریننگ ضروری تھی۔ اچانک ہماری فیکٹری سالانہ بوائلر انسپکشن کے لئے بند ہوئی تو مَیں ریلوے ٹرین کے ذریعہ ربوہ چلا گیا جو رات بارہ بجے وہاں پہنچی۔ جب مَیں نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو میرے والد صاحب نے دروازہ کھولا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی تک نہیں سوسکے کیونکہ انہوں نے حضورؓ سے وعدہ کیا تھا کہ مجھے صبح حضورؓ کی خدمت میں پیش کردیں گے لیکن ایسا تقریباً ناممکن تھا کیونکہ کسی کو پیغام دے کر بھجوابھی دیتے تو اِن کو علم نہیں تھا کہ میری رہائش کہاں ہے۔ چنانچہ وہ دعا میں مصروف ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمالی۔
اگلی صبح میں حضورؓ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ حضورؓ نے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا آپ کو پڑھانے کا شوق ہے؟ چونکہ میرا طبعی میلان نہیں تھا اس لئے جواب دیا کہ حضور! مجھے پڑھانے کا شوق تو نہیں ہے۔ میرے اس غیرمتوقع جواب کو سن کر حضورؓ کافی دیر خاموش رہے۔ یہ خاموشی بہت دوبھر تھی۔ پھر دوسرا سوال فرمایا کہ اگر آپ کو پڑھانے کے کام پر لگادیا جائے تو کیا اس کام میں شوق پیدا کریں گے؟ اس سوال سے میری جان میں جان آئی اور عرض کیا کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ شوق پیدا کروں گا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ کالج میں جاکر (حضرت مرزا) ناصر احمد (صاحب) سے ملوں اور ہدایات حاصل کروں۔ چنانچہ میری کالج میں تعیناتی ہوگئی اور مجھے قریباً 35 سال پڑھانے کا موقع ملا۔
مضمون نگار ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں کہ مکرم میجر راجہ عبدالحمید صاحب سابق مبلغ امریکہ و جاپان جب 1930ء کی دہائی میں احمدی ہوئے تو وہ کسی سول محکمہ میں کلرک تھے، اُن کے والد نے سخت مخالفت کی۔ ایک بار جب حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ راولپنڈی میں رُکے تو انہوں نے اس خیال سے آپؓ کی دعوت کی کہ آپؓ کی کسی بات سے اُن کے والد صاحب متأثر ہوجائیں اور مخالفت میں کمی آجائے۔ حضرت مولوی صاحبؓ کا تعارف یہ کہہ کر کرایا گیا کہ یہ B.A. ہیں اور انگلینڈ ریٹرن ہیں۔ اُن دنوں یہ دونوں باتیں اعزاز ہوتی تھیں۔ بہرحال حضرت مولوی صاحبؓ نے سارا وقت کوئی بات نہ کی۔ بعد میں مکرم راجہ صاحب نے میرے والد صاحب سے شکوہ کیا کہ مَیں نے مشکل سے رقم مہیا کرکے دعوت کی لیکن حضرت مولوی صاحبؓ نے میرے والد صاحب کو احمدیت کے بارہ میں کچھ نہ سمجھایا۔ میرے والد صاحب نے تسلّی دی کہ بعض اوقات بات وہ کام نہیں کرتی جو صالح کی صحبت کرجاتی ہے۔ اور واقعہ میں ایسا ہی ہوا کہ راجہ صاحب کے والد نے دیکھا کہ یہ شخص تعلیم یافتہ اور انگلینڈ ریٹرن ہونے کے باوجود اتنا سادہ ہے تو احمدیت میں ایسی کیا خاص بات ہے۔ جب انہوں نے سلسلہ کی کتب کا مطالعہ شروع کیا تو جلد ہی احمدیت قبول کرلی اور پھر وصیت بھی کرلی اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں