چند خوبصورت یادیں

جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہرؒ سووینئر‘‘ میں مکرم ڈاکٹر شریف احمد اشرف صاحب آف لندن رقمطراز ہیں کہ جب خاکسار لیبیا میں ملازم تھا تو ہر چار ہفتہ ڈیوٹی کے بعد تین ہفتے کے لئے مجھے چھٹی ملتی تھی جس کے دوران خاکسار براستہ لنڈن پاکستان جایا کرتا تھا اور اسی راستہ سے لیبیا واپسی ہوتی تھی۔ چنانچہ لنڈن سے جماعت کی ڈاک ربوہ لے جانے اور واپسی پر ڈاک ربوہ سے لندن پہنچانے کا یہ سلسلہ پورے انیس تک سال جاری رہا۔
ایک دفعہ حضور انور سے ملاقات پر حضور اقدس نے فرمایا کہ ایک میری چیزبھی پاکستان لے جائیں گے؟ خاکسار کے لئے اس سے بڑھ کر اَور کیا خوش قسمتی ہوسکتی تھی۔ عرض کی کہ حضور حکم کریں۔ حضور انور نے فرمایا کہ کچھ برتن شیشے کے پیک ہیں گتے کے ڈبّہ میں۔ وہ ڈبّہ ربوہ پہنچانا ہے۔ حضورؒ نے فرمایا کہ اوپر گھر سے لقمان سے پتا کرلیں کہ اس کے اندر کیا کچھ باندھاہے۔ یعنی تفصیل لے لیں تاکہ آپ کسٹم والوں کو بتاسکیں۔ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے مَیں نے پتہ کروایا تو معلوم ہوا کہ مرزا لقمان احمد صاحب وہاں موجود نہیں ہیں۔ میری جہاز کی فلائٹ کا وقت تنگ ہورہا تھا۔ اس لئے کچھ دیر کے بعد میں نے سامان لیا اور لندن ایئر پورٹ روانہ ہوگیا۔ سامان لنڈن سے کراچی کے لئے بک کرایا۔ کیونکہ کراچی کسٹم کلیئر کرانے کے بعد پھر کراچی سے فیصل آباد کی فلائٹ لینا تھی۔ جب میں کراچی پہنچا اور سامان لے کر حسب معمول باہر نکلنے لگا تو کسٹم انسپکٹر نے کہا کہ اپنا سامان مشین کے اندر سے گزاریں۔ جب سامان مشین سے باہر دوسری طرف نکلا تو کسٹم انسپکٹر نے مجھے کہا کہ اس کے اندر کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے علم نہیں مگر آپ نے مشین کے ذریعہ دیکھ لیا ہے۔ اس نے کہا کہ کھول کر دکھادیں۔ میں نے عرض کی کہ دیکھ لیں مگر آپ اسی طرح اس کو باندھ دیں کیونکہ میری دوسری فلائٹ فیصل آباد کے لئے ایک گھنٹہ کے بعد جانے والی ہے، تاکہ مجھے تاخیر نہ ہو۔ اس نے کہا کہ لے جائیں (سامان کافی رسیوں سے باندھا ہوا تھا)۔ میں نے سامان لے کر جلدی جلدی فیصل آباد کے لئے بک کرادیا۔ فیصل آباد پہنچ کررات وہاں رہا۔ پھر دوسرے دن اپنی کار کے ذریعہ ربوہ جاکر مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے حوالہ کیا۔
دوہفتے کے بعد جب واپسی کا سفر اختیار کیا اور ڈاک لے کر مسجد فضل لندن پہنچا تو حضور دفتر میں تشریف فرما تھے۔ مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے حضورؒ سے ملوادیا۔ میں نے اپنے سفر کی روداد بیان کی۔ پھر حضورؒ نے کچھ دریافت فرمایا اور ساتھ ہی مسکرا کرفرمایا کہ اشرف صاحب! آپ کو پتہ ہے کہ جب آپ ہمارا سامان لقمان سے بغیر تفصیل حاصل کئے، لے گئے تھے تو مَیں آپ کے لئے متواتر دعا کرتا رہا جب تک کہ ربوہ سے سامان کے ملنے کی اطلاع نہیں آئی۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسوآگئے کہ حضور اقدس کی یہ شفقت۔ میری ساری زندگی کے لئے یہ دعا ایک تسلّی کا سامان پیدا کرتی رہے گی۔ ساتھ افسوس بھی ہوا کہ حضور اقدس کو اتنی تکلیف میں ڈالا۔
اسی طرح کئی بار حضور نے ساہیوال کے اسیران راہ مولیٰ کے لئے چاکلیٹ اور رومال وغیرہ دئے جو کہ خاکسار نے جیل میں جاکر اسیران کے حوالے کئے۔ اور حضور انور کی طرف سے تسلی کے پیغام دئے۔
حضورؒ مجھ سے حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب (امیر ضلع فیصل آباد) کا حال بھی پوچھا کرتے تھے۔ وہ کافی کمزور ہوچکے تھے۔ خاکسار ان کی ہر دفعہ ایک تصویر کھینچ کر لاتا اور حضور اقدس کی خدمت میں پیش کردیتا۔ حضور فوٹو دیکھ کر خوش ہوتے، شکریہ ادا کرتے اور دعائیں دیتے ہوئے فرماتے کہ وہ ولی اللہ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں