استخارہ کا طریق اور برکات

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 27؍جولائی تا 12؍اگست 2021ء – سالانہ نمبر)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 24؍اپریل 2013ءمیں نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ کی طرف سے مرسلہ ایک بہت اہم مضمون زیب قرطاس ہے جس میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں استخارہ کرنے کا طریق اور اس کی برکات کے حوالے سے راہنمائی پیش کی گئی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا ہے:

رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۔ (القصص:25)

اے میرے ربّ! یقیناً مَیں ہر اچھی چیز کے لئے، جو تُو میری طرف نازل کرے، ایک فقیر ہوں۔
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اہم امور میں استخارہ کا طریق اس طرح سکھایا کرتے تھے جیسے کوئی قرآن کا حصہ سکھا رہے ہیں۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جب تم میں سے کوئی اہم کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت نفل پڑھے پھر آخر میں یہ دعا مانگے:
اے اللہ! میں تجھ سے بھلائی کا طلبگار ہوں۔ تجھ سے طاقت و قدرت چاہتا ہوں۔ تیرے فضل عظیم کا سوالی ہوں کیونکہ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ میں قادر نہیں۔ تو ہر بات کو جانتا ہے میں نہیں جانتا۔ تو سارے علم رکھتا ہے اے میرے اللہ اگر تیرے علم میں میرا یہ کام (کام کا نام لے سکتا ہے)میرے لئے دینی اور دنیوی ہر لحاظ سے اور انجام کے اعتبار سے بہتر ہے یا فرمایا یوں کہے کہ میری اب کی ضرورت اور بعد میں پیدا ہونے والی ضرورت کے لحاظ سے بابرکت ہے تو یہ کام آسان کردے اور پھر اس میں میرے لئے برکت ڈال اور اگر تیرے علم میں یہ کام میری دینی اور معاشی حالت کے لحاظ سے اور انجام کار کے اعتبار سے مضر ہے۔ یایوں فرمایا: اب کی ضرورت یا مستقبل کی ضرورت کے لحاظ سے میرے لئے مضر ہے تو اس کام کو نہ ہونے دے اور اس کے شر سے مجھے بچالے اور میرے لئے خیر جہاں بھی ہو، وہ مقدر فرما اور مجھے اس پر اطمینان بخش۔ (بخاری کتاب الدعوات)
حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
استخارہ اہل اسلام میں بجائے مھورت (یعنی علم نجوم کے مطابق کسی کام کے کرنے کا مبارک وقت) کے ہے۔ چونکہ ہندو شرک وغیرہ کے مرتکب ہو کر شگن وغیرہ کرتے ہیں اس لئے اہل اسلام نے ان کو منع کر کے استخارہ رکھا۔ اس کا طریق یہ ہے کہ انسان دو نفل پڑھے۔ اول رکعت میں سورۃ قُل یایھا الکافرون … پڑھ لے اور دوسری میں قل ہو اللّٰہ … التحیات میں یہ (یعنی استخارہ کی)دعا کرے۔ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 604)
فرمایا: آج کل اکثر مسلمانوں نے استخارہ کی سنت کو ترک کردیا ہے۔ حالانکہ آنحضرت ﷺ پیش آمدہ امر میں استخارہ فرما لیا کرتے تھے۔ سلف صالحین کا بھی یہی طریق تھا۔ … لیکن اب مسلمان اسے بھول گئے حالانکہ استخارہ سے ایک عقل سلیم عطا ہوتی ہے۔ جس کے مطابق کام کرنے سے کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 230)
فرمایا: استخارہ مسنونہ کے بعد جس طرف طبیعت کا میلان ہو وہ منظور کرلو۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 226)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
ہم انجام سے بےخبر ہوتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے۔ اس لئے اول خوب استخارہ کرو اور خدا سے مدد چاہو۔ (خطبات نور صفحہ 478)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
استخارہ اسلام کے اعلیٰ رکنوں میں سے ایک رکن ہے اور اتنا بڑا رکن ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لئے فرض کیا گیا ہے اور بغیر اس کے اس کی عبادت مکمل ہی نہیں ہوسکتی کہ ایک دن رات میں پانچ وقت اور ہر ایک رکعت میں ایک بار استخارہ نہ کرے۔ … پھر سنن اور نوافل میں بھی استخارہ ہوتا ہے۔ … استخارہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ خداتعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اللہ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو میں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے۔ سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے۔ اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔ … فرق اگر ہے تو یہ کہ سورۃ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے، مگر استخارہ کرتے وقت کسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے۔ (خطبات محمود جلد 6 صفحہ 14، 15)
فرمایا: استخارہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک استخارہ عام ہوتا ہے اور ایک استخارہ خاص۔ استخارہ عام پہلے کیا جاتا ہے اور استخارہ خاص بعد میں۔ … استخارہ عام یہ ہوتا ہے کہ قطع نظر کسی خاص شخصیت کے دعا کی جائے کہ اے خدا! ہمارے لئے ایسا جوڑا مہیا فرما جو جنود مجندہ ہو۔ دوسرا استخارہ خاص اس وقت کیا جائے جب اس کا موقع آئے اور نام لے کر استخارہ کیا جائے۔ اس طرح استخارہ عام استخارہ خاص کا محافظ ہوجاتا ہے۔ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 435)
فرمایا: بعض لوگوں نے یہ خیال کرلیا ہے کہ جب کسی امر کے متعلق استخارہ کیا جائے تو ضرور ہے کہ اس کے بارے میں خدا کی طرف سے انہیں آواز کے ذریعہ بتایا جائے کہ کرو یا نہ کرو، لیکن کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی آواز آیا کرتی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں برکت ڈالی جاتی ہے اور جو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں ان سے روکا جاتا ہے۔ … خدا تعالیٰ انسانوں کے ماتحت نہیں۔ بلکہ آقا ہے اور آقا کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ نوکر کو ہر ایک کام کے متعلق کہے تب وہ کرے ورنہ نہ کرے۔ اکثر اوقات آقا کی خموشی ہی حکم ہوتا ہے۔… جو اس لئے استخارہ کرتا ہے کہ مجھے خوابیں آئیں، وہ ایک بے ہودہ حرکت کرتا ہے اور ایسی خوابیں اس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہوں گی۔ … استخارہ کے لئے خوابوں کا آنا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ تو دعا ہے۔ اس کے کرنے کے بعد جو خدا تعالیٰ دل میں ڈالے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اگر خداتعالیٰ اس کام کے متعلق انشراح کردے تو کرلیا جائے اور اگر قبض پیدا ہو تو نہ کیا جائے۔ (خطبات محمود جلد 6 صفحہ 15 ، 16)
فرمایا: دعا اور استخارہ کرتے وقت اپنی تمام آراء اور فیصلوں سے علیحدہ ہوجاؤ۔ کیونکہ اگر تم فیصلہ کرنے کے بعد دعا اور استخارہ کروگے تو وہ بابرکت نہیں ہوگا۔ استخارہ اور دعا وہی بابرکت ہوگی جس میں تمہاری رائے اور فیصلہ کا دخل نہ ہو۔ تم خدا پر معاملہ کو چھوڑ دو اور دل اور دماغ کو خالی کرلو اور اس کے حضور میں عرض کرو کہ خدایا جو تیری طرف سے آئے گا وہی ہمارے لئے بابرکت ہوگا اور ہماری بہتری کا موجب ہوگا۔ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 86، 87)
فرمایا: ایک شخص روئی کا بہت بڑا سودا کرنے لگا۔ حضرت خلیفہ اول سے مشورہ لیا آپ نے فرمایا استخارہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ اس میں یقینی فائدہ ہے۔ آ پ نے فرمایا کہ کیا حرج ہے، استخارہ کے معنے بھی خیر طلب کرنے کے ہیں۔ آخر انہوں نے استکراہ (ناخوشی) سے استخارہ کیا۔ جب وہ سودا کرنے لگے اللہ تعالیٰ نے ایسا سبب ان کے لئے بنایا کہ وقت پر ان کو علم ہوگیا اور وہ سودا کرنے سے رُک گئے اور کئی ہزار کے نقصان سے بچ گئے۔ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 93)
فرمایا: مسلمان کا کوئی کام استخارہ کے بدوں نہیں ہونا چاہئے۔ کم از کم بسم اللہ سے ضرور شروع ہو اور طریق استخارہ یہ ہے کہ دعائے استخارہ پڑھی جائے۔ ایک دفعہ کم از کم۔ ورنہ سات دن تک عموماً۔ صوفیاء نے چالیس دن رکھے ہیں۔ اس کی بہت برکات ہوتی ہیں جن کو ہر ایک شخص جس کو تجربہ نہ ہو نہیں سمجھ سکتا۔ (خطبات محمود جلد 3 صفحہ 93،92)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’بعض عورتیں اور مرد پانچ گھنٹے، چھ گھنٹے میں استخارہ کرکے جواب دے دیتے ہیں۔ اپنی مرضی کے رشتے کروا دیتے ہیں اور اس کے بعد جب رشتے ٹوٹ جاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تمہارا قصور ہے ہمارا استخارہ ٹھیک تھا۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ خود دعائیں نہیں کرتے۔ خود توجہ نہیں۔ خود نمازوں کی پابندی نہیں اور ایسے لوگوں پر اندھا اعتقاد ہے جنہوں نے کاروبار بنایا ہوا ہے۔ احمدیوں کو اس قسم کی چیزوں سے خاص طور پر بچنا چاہئے۔‘‘ (خطبات مسرور جلد 7 صفحہ85)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں