خدائی تصرّف

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 20 مئی 2022ء)
مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ نومبرو دسمبر 2013ء میں مکرم محمود احمد انیس صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں چند ایسے واقعات پیش کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیاروں پر جب کوئی نادان حملہ کرنے لگتاہے تو کس طرح خداتعالیٰ اپنے پیاروں کی طرف سے خود دفاع فرماتاہے اور تصرفِ الٰہی کا ایسا جلوہ ظاہر ہوتاہے کہ دشمن کی زبان گُنگ اورہاتھ ساکت ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے:

اِنَّ اللّٰہَ یُدَافِعُ عَنِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا۔ (الحج: 39)

یعنی یقیناً اللہ ان کی جو ایمان لائے مدافعت کرتاہے۔
اس حوالے سے چند واقعات درج ذیل ہیں:
٭…حضرت رسول کریمﷺ جابر دشمن کے مقابل پر بھی مظلوم کی مدد کے لئے کھڑے ہوجاتے تھے۔ چنانچہ جب ایک اجنبی ’الاراشی‘ سے ابوجہل نے اونٹ خریدا اور قیمت کی ادائیگی میں پس و پیش کرنے لگا تو اراشی قریش کے مجمع میں آکر مدد کا طالب ہوا اور کہا کہ مَیں اجنبی مسافر ہوں، کوئی ہے جو ابوجہل سے مجھے میرا حق دلائے؟ سردارانِ قریش نے ازراہ تمسخر رسول کریمﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شخص تمہیں ابوجہل سے حق دلا سکتا ہے۔ چنانچہ اراشی آپؐ کے پاس جاکر مدد کا طالب ہوا تو رسول کریمﷺ اُس کے ساتھ چل پڑے۔ سردارانِ قریش نے اپنا ایک آدمی پیچھے بھجوایا تاکہ دیکھے کہ ابوجہل کیا جواب دیتا ہے۔ رسول کریمؐ نے ابوجہل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُس نے پوچھا کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا میں محمدؐ ہوں۔ وہ باہر آیا تو آپؐ کو دیکھ کر اُس کا رنگ فق ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا: اس شخص کا حق اسے دے دو۔ ابوجہل نے کہا اچھا۔ آپؐ نے فرمایا: میں یہاں سے واپس نہیں جائوں گا جب تک اس کا حق ادا نہ ہوجائے۔ ابوجہل اندر گیا اور اس شخص کی رقم لاکر اسے دے دی۔ تب آپؐ واپس تشریف لے گئے۔ پھر اراشی نے واپس سردارانِ قریش کی مجلس میں آکر کہا کہ اللہ محمدؐ کو جزائے خیر دے اس نے مجھے میرا مال دلوادیا ہے۔ اتنے میں قریش کا بھجوایا ہوا آدمی بھی آگیا اور کہنے لگاآج مَیں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا ہے کہ ادھر محمدؐ نے ابوجہل کو اراشی کا حق دینے کو کہا اور ادھر اُس نے فوراً رقم لاکر اداکردی۔ تھوڑی دیر میں ابوجہل بھی آگیا۔ سب اس سے پوچھنے لگے کہ تمہیں کیا ہوگیا تھا؟ ابوجہل نے کہا کہ جونہی میں نے محمدؐ کی آواز سنی، مجھ پر سخت رعب طاری ہوگیا۔ جب باہر آیاتو دیکھا کہ محمدؐ کے سر کے پاس خونخوار اُونٹ ہے، اگر مَیں انکار کرتا تو وہ اُونٹ مجھے چیرپھاڑکررکھ دیتا۔
٭…آنحضورﷺ نے جب مکہ سے ہجرت فرمائی تو قریش مکہ نے سخت غصہ میں آکریہ اعلان کیا کہ جوکوئی محمد کو زندہ یا مُردہ پکڑکرلائے گا، اس کو سو اُونٹ انعام دیئے جاویں گے۔ چنانچہ کئی لوگ انعام کی طمع میں مکہ کے چاروں طرف اِدھر اُدھر نکل گئے۔ خود رؤسائے قریش بھی سراغ لیتے لیتے آپؐ کے پیچھے نکلے اور عین غار ثور کے منہ پر جاپہنچے۔ یہاں پہنچ کر اُن کے سُراغ رساں نے کہا کہ بس سُراغ اس سے آگے نہیں چلتا اس لئے یا تو محمد یہیں کہیں پاس ہی چھپاہواہے یاپھر آسمان پر اُڑ گیاہے۔ کسی نے کہا کوئی شخص ذرا اس غار کے اندر جاکر بھی دیکھ آئے۔ مگر ایک شخص بولا کہ واہ یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے۔ بھلا کوئی شخص اس غار میں جاکر چھپ سکتاہے؟ یہ ایک نہایت تاریک وتار خطرناک جگہ ہے اور ہم ہمیشہ سے اسے اسی طرح دیکھتے آئے ہیں۔ یہ بھی روایت آتی ہے کہ غار کے منہ پر جو درخت تھا اس پر آپ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد مکڑی نے جالا تن دیا تھا اور عین منہ کے سامنے کی شاخ پر ایک کبوتری نے گھونسلا بناکر انڈے دے دیے تھے۔ یہ روایت تو کمزورہے لیکن اگرایسا ہواہو تو ہرگز تعجب کی بات نہیں۔ اس لئے اگر خداتعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی حفاظت کے لئے ایسا تصرف فرمایا ہوتو ہرگز بعید نہیں ہے۔
٭…انعام کے لالچ میں سراقہ بن مالک بھی حضورﷺ کے تعاقب میں گھر سے نکلا۔ وہ خود بیان کرتا ہے کہ مَیں اپنی قوم بنومدلج کی مجلس میں بیٹھا ہواتھا کہ قریش میں سے ایک شخص ہمارے پاس آیا اور مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا کہ مَیں نے ابھی ابھی ساحل سمندر کی سمت میں دُورسے کچھ شکلیں دیکھی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید وہی ہوں گے۔ مگر میں نے اسے ٹالنے کے لئے (اور یہ فخر خود حاصل کرنے کی غرض سے )کہا کہ یہ تو فلاں فلاں لوگ ہیں جو ابھی ہمارے سامنے سے گزرے ہیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد مَیں اس مجلس سے اٹھا اور اپنے گھر آکر اپنی خادمہ سے کہا کہ میرا گھوڑا تیارکرکے گھر کے پچھواڑے میں کھڑاکردے۔ پھر مَیں نے ایک نیزہ لیا اور گھر کی پشت کی طرف سے ہوکر چپکے سے نکل گیا اور گھوڑے کی رفتار تیز کرکے محمدؐ اور ان کے ساتھیوں کے قریب پہنچ گیا۔ عین اُس وقت میرے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور مَیں زمین پر گرگیا، لیکن مَیں جلدی سے اٹھا اور دستور کے مطابق اپنا ترکش نکال کر تیروں سے فال لی۔ فال میرے منشاء کے خلاف نکلی۔ مگر (اسلام کی عداوت کا جوش اور انعام کا لالچ تھا) میں نے فال کی پروا نہ کی اور پھر سوار ہوکر تعاقب میں ہو لیا اور اس دفعہ اس قدر قریب پہنچ گیا کہ آنحضرتﷺ کی (جو اس وقت قرآن شریف کی تلاوت کر تے جارہے تھے)قراءت کی آواز مجھے سنائی دیتی تھی۔ آنحضرتﷺ نے تو ایک دفعہ بھی منہ موڑ کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔ مگر ابوبکرؓ (آنحضرتﷺ کی فکرکی وجہ سے )باربار دیکھتے تھے۔ مَیں جب ذرا آگے بڑھا تو میرے گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور اس دفعہ اس کے پاؤں ریت کے اندر دھنس گئے اور مَیں پھر زمین پر آرہا۔ آخر بڑی مشکل سے گھوڑا اُٹھ سکا جس کی وجہ سے میرے اردگرد غبار ہی غبار ہوگیا۔ تب میں نے پھر فال لی اور پھر وہی فال نکلی۔ جس پر میں نے اپنا ارادہ ترک کردیا۔ اور آنحضرتﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو صلح کی آواز دی۔ اس آواز پر وہ ٹھہر گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوکران کےپاس پہنچا۔ اس سرگذشت کی وجہ سے جو میرے ساتھ گذری تھی میں نے یہ سمجھا کہ اس شخص کا ستارہ اقبال پر ہے اور یہ کہ بالآخر آنحضرتﷺ غالب رہیں گے؛ چنانچہ میں نے صلح کے رنگ میں ان سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنے یا پکڑلانے کے لئے اس اس قدر انعام مقرر کررکھاہے اور لوگ آپ کے متعلق یہ یہ ارادہ رکھتے ہیں اور میں بھی اسی ارادے سے آیاتھا مگر اب مَیں واپس جاتا ہوں۔ اس کے بعد میں نے انہیں کچھ زادِراہ پیش کیا مگر انہوں نے نہیں لیا اور نہ ہی مجھ سے کوئی سوال کیا۔ صرف اس قدر کہا کہ ہمارے متعلق کسی سے ذکر نہ کرنا۔ اس کے بعد مَیں نے (یہ یقین کرتے ہوئے کہ کسی دن آنحضرتﷺ کو ملک میں غلبہ حاصل ہوکر رہے گا ) آپؐ سے عرض کیا کہ مجھے ایک امن کی تحریر لکھ دیں۔ جس پر آپؐ نے عامر بن فہیرہ کو ارشاد فرمایا اور اُس نے مجھے ایک چمڑے کے ٹکڑے پر امن کی تحریر لکھ کر دی۔ اس کے بعد آنحضرتﷺ اور آپؐ کے ساتھی آگے روانہ ہو گئے۔
٭…آنحضرتﷺ کی حیات مبارکہ کے ایسے بےشمار واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ اسی طرح آپؐ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ بھی خداتعالیٰ کا غیرمعمولی پیارکا تعلق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے خلاف بھی مخالفین کے ہروار کو ناکام کیا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک ہندوجو گجرات کا رہنے والا تھا قادیان کسی بارات کے ساتھ آیا۔ یہ شخص علم توجہ کا بڑا ماہر تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ہم لوگ قادیان آئے ہوئے ہیں چلو مرزاصاحب سے ملنے چلیں۔ اور اس کا منشا یہ تھا کہ لوگوں کے سامنے حضرت صاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈال کر آپؑ سے بھری مجلس میں کوئی بیہودہ حرکات کرائے۔ جب وہ مسجد میں حضور سے ملا تواُس نے اپنے علم سے آپؑ پر اپنا اثر ڈالنا شروع کیاتو تھوڑی دیرکے بعد وہ یکلخت کانپ اٹھامگر سنبھل کر بیٹھ گیا اور اپنا کام شروع کردیا اور حضرت صاحب اپنی گفتگو میں لگے رہے مگر پھر اس کے بدن پر سخت لرزہ آیا اور اُس کی زبان سے بھی کچھ خوف کی آواز نکلی مگر وہ پھر سنبھل گیا۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک چیخ ماری اور بے تحاشا مسجد سے بھاگ نکلااور بغیر جوتا پہنے بھاگتاہوا چلاگیا۔ اس کے ساتھی اور دوسرے لوگ اس کے پیچھے بھاگے اور اس کو پکڑ کر سنبھالا۔ جب اُس کے ہوش ٹھکانے ہوئے تو اُس نے بیان کیا کہ مَیں علم توجہ کا بڑاماہرہوں۔ میں نے یہ ارادہ کیا تھا کہ مرزاصاحب پر اپنی توجہ ڈالوں اور مجلس میں اُن سے کوئی لغو حرکات کروادوں لیکن جب میں نے توجہ ڈالی تو مَیں نے دیکھا کہ میرے سامنے ایک فاصلے پر ایک شیر بیٹھاہے۔ مَیں اسے دیکھ کر کانپ گیا لیکن مَیں نے جی میں ہی اپنے آپ پر ملامت کی کہ یہ میرا وہم ہے۔ چنانچہ مَیں نے پھر مرزاصاحب پر توجہ ڈالنا شروع کی تو پھر دیکھا کہ وہی شیر میرے قریب آگیا ہے۔ اس پر پھر میرے بدن پر سخت لرزہ آیامگر مَیں پھر سنبھل گیا اور جی میں اپنے آپ کو بہت ملامت کی کہ یونہی میرے دل میں وہم سے خوف پیدا ہوگیا ہے۔ چنانچہ اپنا دل مضبوط کرکے اور اپنی طاقت کو جمع کرکے پھر مرزاصاحب پر اپنی توجہ کا اثر ڈالا اور پورا زور لگایا۔ اس پر ناگہاں مَیں نے دیکھا کہ وہی شیر میرے اوپر کودکر حملہ آور ہواہے۔ اس وقت مَیں نے بے خودہوکر چیخ ماری اور وہاں سے بھاگ اٹھا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ بیان فرماتے تھے کہ وہ شخص پھر حضرت صاحب کا بہت معتقدہوگیاتھا اور ہمیشہ جب تک زندہ رہا آپؑ سے خط و کتابت رکھتا تھا۔

٭…حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں: میاں فخر الدین صاحب ملتانی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں ایک دفعہ میرے والد یہاں آئے اور وہ سخت مخالف اور بدگوتھے اور یہاں آکر بھی بڑی تیزی کی باتیں کرتے رہے اور وہ جب ملتان میں تھے تو کہتے تھے کہ میں اگر کبھی مرزا سے ملا تو (نعوذباللہ ) اس کے منہ پر بھی لعنتیں ڈالوں گا۔ خیر میں انہیں حضرت صاحبؑ کے پاس لے گیا۔ حضوؑ ر جب باہر تشریف لائے تو وہ ادب سے کھڑے ہوگئے اور پھر خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹ کربیٹھ گئے۔ اُس وقت مجلس میں اَور لوگ بھی تھے۔ حضورؑ نے بیٹھے بیٹھے تقریر فرمانی شروع کی اور کئی دفعہ کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس آئیں اور ہماری باتیں سنیں اور ہم سے سوال کریں اور ہم ان کے واسطے خرچ کرنے کو بھی تیارہیں لیکن اوّل تو لوگ آتے نہیں اور اگر آتے ہیں تو خاموش بیٹھے رہتے ہیں اور پھر پیچھے جاکر باتیں کرتے ہیں۔ غرض حضورؑ نے کھول کھول کر تقریر کی اور تبلیغ فرمائی اور انہیں بات کرنے پر کئی دفعہ ابھارا۔ میرا والد بڑا چرب زبان ہے مگر اُن کے منہ پر گویا مہر لگ گئی اور وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکے۔ وہاں سے اٹھ کر مَیں نے ان سے پوچھاکہ آپ وہاں بولے کیوں نہیں؟ تو انہوں نے کچھ کہہ کر ٹال دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’حدیث صحیح میں ہے

وَمَنْ عَادَیٰ وَلِیًّا لِیْ فَقَدْ آذَنْتُہُ لِلْحَرب

یعنی جو شخص میرے ولی کا دشمن ہو تو میں اُس کو متنبہ کرتاہوں کہ اب میری لڑائی کے لئے طیارہوجا۔ غرض اہلِ اصطفاء خدائےتعالیٰ کے بہت پیارے ہوتے ہیں اور اُس سے نہایت شدید تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کی عیب جوئی اور نکتہ چینی میں خیر نہیں ہے۔ اور ہلاکت کے لئے اس سے کوئی بھی دروازہ نزدیک تر نہیں کہ انسان اندھا بن کر محبّان اور محبوبانِ الٰہی کا دشمن ہو جائے۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ91)
پس یہ سنت اللہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لیے بہت غیرت رکھتاہے اور جو ان کی اہانت کا ارادہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بے بس اور ناکام و نامراد کرتا ہے۔ حضور علیہ السلام ہی کا ایک نہایت پُرمعرفت شعر ہے ؎

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں
ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے روبۂ زار و نزار

100% LikesVS
0% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں