اطاعت کے قرینے
ماہنامہ ’’خالد‘‘ اپریل 1997ء میں مکرم پروفیسر پرویز پروازی صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں متعدد بزرگوں کی مثالیں پیش کی گئی ہیں جنہیں جب ان کے امام کا حکم ملا تو کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر تعمیل میں مصروف ہوگئے اور دوسرے تمام ضروری کام حکمِ امام کے بعد ثانوی حیثیت اختیار کرگئے۔ چنانچہ اپنے والد محترم حضرت مولوی احمد خان نسیم صاحب کا ذکر کرتے ہوئے مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ کئی بار حضرت صاحب کی طرف سے حکم موصول ہوا تو دفتر سے ہی تعمیل کے لئے روانہ ہوگئے۔ حالانکہ شوگر کے مریض تھے اور وقت پر کھانا کھانا ضروری تھا۔ ایک تھیلا ان کے پاس ہوتا جس میں گلوکوز کا ڈبہ، دوائیں اور اچار موجود رہتا۔ راستہ میں کسی تنور سے روٹی حاصل کرتے اور اچار سے کھا لیتے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ ربوہ سے نکلے اور لالیاں کے قریب تنور سے روٹی لے کر کھانے لگے۔ کسی نے پوچھ ہی لیا کہ اگر اتنی بھوک لگ رہی تھی تو گھر سے ہی کھا کر چلتے۔ جواب ملا ’ایسی صورت میں بھوک تو مٹ جاتی لیکن امام کی فوری اطاعت کا تقاضہ پورا نہ ہوتا‘۔ ان بزرگوں نے یہ قرینے اپنے بزرگوں سے سیکھے تھے چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے متعدد واقعات ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم ملتے ہی دیوانہ وار خدمت میں حاضر ہوگئے اور موسم اور وقت کی کوئی سختی آپؓ کی راہ میں حائل نہ ہوسکتی۔
حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ اپنی کتاب ’تحدیث نعمت‘ میں لکھتے ہیں ’’ہمارا کام امام کی اطاعت ہے اور غیرمشروط اور مکمل اطاعت ہے‘‘۔ چنانچہ آپؓ کا اپنا اسوہ بھی یہی تھا۔ ایک بار آپ ؓ کو حضورؓ کی طرف سے پیغام ملا کہ احمدیہ ہاسٹل کے سارے طلباء کے ساتھ فوراً قادیان پہنچیں ۔ …فوراً روانہ ہوگئے۔ بٹالہ پہنچے تو رات کا وقت تھا۔ دوستوں نے کہا کہ سحری تک انتظار کرلیں لیکن آپؓ نے فرمایا ’’حکم یہ ہے کہ فوراً قادیان پہنچیں، اس میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔ چنانچہ پاپیادہ روانہ ہوئے اور قادیان پہنچ کر رپورٹ کی۔