آنحضور ﷺ کا مقامِ عبودیت
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 13 نومبر2020ء)
ماہنامہ ’’مشکوٰۃ‘‘ قادیان جون، جولائی 2012ء میں مکرم طاہر احمد بیگ صاحب نے رسول اکرم ﷺ کے مقام عبودیت پر روشنی ڈالی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم یعنی بہترین صورت میں اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے جیسا کہ فرمایا:
فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَالنَّاسَ عَلَیْھَا۔ (الروم:31)
اس آیت کی روشنی میں انسان کو ہمیشہ درِمولیٰ سے پیوست رہنا اور عبدحقیقی بننا چاہیے۔ اس پس منظر میں جو کامل انسان ہمیں نظر آتا ہے وہ آنحضور ﷺ تھے جن کے دَور میں ہر طرف حقیقی بندگی کا فقدان تھا اور آپؐ تن تنہا دنیاومافیہا سے بے رغبتی کا اظہار کرتے ہوئے غارحرا میں اپنے ربّ کے حضور سربسجود تھے۔ بعدمیں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو مخاطب ہوکر فرمایا:
فَاِذَا فَرَغْتَ فَاَنْصَبْ۔ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ۔
کہ جب تُو دن بھر کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو تو رات کو اپنے ربّ کے حضور کھڑا ہوگا۔
حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ آغازِ اسلام میں نماز دو رکعت ہوتی تھی، ہجرتِ مدینہ کے بعد چار رکعت ہوگئی۔
آنحضورﷺ نے نمازوں کی ادائیگی کا حق ایسا ادا کیا کہ دشمن بھی کہنے پر مجبور ہوئے کہ محمدﷺ تو اپنے ربّ کے عاشق بن گئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف وہ بدبخت عبادت کرنے پر آپؐ کو بہت دکھ دیتے۔ ایک بار تو کسی اونٹنی کی غلیظ نجاست سے بھری ہوئی بچہ دانی ایک بدبخت اٹھاکر لایا اور خانہ کعبہ میں سجدہ کی حالت میں آنحضورﷺ کی پشت پر ڈال دی۔ حضرت فاطمہؓ کو اطلاع ملی تو بھاگ کر آئیں اور بوجھ کو آپؐ کی پیٹھ سے ہٹایا۔ ایک اَور موقع پر ایک بدبخت نے آپؐ کے گلے میں چادر ڈال کر مروڑنا شروع کیا۔ جب آپؐ کا دَم گھٹنے لگا تو حضرت ابوبکرؓ نے دھکا دے کر اُسے ہٹایا اور کہا:کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ میرا ربّ ہے۔
نماز تو رسول کریم ﷺ کی روح کی غذا تھی۔ ایک بار گھوڑے سے گرجانے کے باعث جسم کا دایاں پہلو شدید زخمی ہوگیا۔ کھڑے ہوکر نماز ادا نہ فرماسکے۔ بیٹھ کر نماز پڑھائی مگر نماز میں ناغہ پسند نہ فرمایا۔ جنگوں کے دوران بھی نماز نہ چھوڑی۔ آخری بیماری میں تپ محرکہ کی نازک حالت میں بھی بار بار نماز کا ذکر فرماتے رہے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نماز و نوافل ادا کرنے کے باعث پاؤں متورم ہوجاتے۔ آپؐ فرماتے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ دوتہائی رات گزرنے پر آپؐ بآوازِ بلند فرماتے کہ لوگو! خدا کو یاد کرو۔ زلزلہ قیامت آنے والی ہے۔ … پھر بعض اوقات باقی ساری رات عبادت میں گزار دیتے۔
حضرت عائشہؓ کے ہاں ایک سرد رات آپؐ کی باری تھی۔ لحاف میں داخل ہوئے تو فرمایا: عائشہ! اگر اجازت دو تو آج کی رات مَیں اپنے ربّ کی عبادت میں گزار دوں؟ بخوشی اجازت دی گئی اور آپؐ ساری رات عبادت میں مشغول رہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ اتنی دیر نماز میں کھڑے رہے کہ مَیں نے اس بُری بات کا ارادہ کرلیا کہ رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر بیٹھ جاؤں۔
رمضان المبارک میں آپؐ کی عبادت میں بہت اضافہ ہوجاتا۔ خصوصاً رمضان کے آخری عشرے میں کمرِہمّت کس لیتے۔خود بھی راتوں کو زندہ کرتے اور اہل بیت کو بھی جگالیتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مَیں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! آپ کے تو تمام اگلے اور پچھلے گناہ معاف فرمادیے گئے ہیں پھر آپ اس قدر عبادت کیوں فرماتے ہیں؟ فرمایا:
یَاعَائِشَۃ! اَفلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔
یعنی جس خدا نے مجھے اس مقام پر فائز فرمایا، کیا مَیں اُس کا شکرگزار بندہ نہ بنوں۔
جنگ بدر میں فتح و نصرت اور غلبے کی اطلاع قبل از وقت آپؐ کو دے دی گئی تھی لیکن آپؐ ساری رات اپنے ربّ کے حضور مصروفِ دعا رہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حقیقی عباد کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب اُن پر خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضورسجدہ ریز ہوجاتے ہیں اور خشوع الی اللہ میں بڑھ جاتے ہیں۔ روایات میں آتا ہے کہ جب آنحضورﷺ کے سامنے کلامِ الٰہی سنایا جاتا تو آپؐ پر رقّت طاری ہوجاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے۔ آپؐ نے ایک روز حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا قرآن سناؤ۔ جب وہ اُس آیت پر پہنچے کہ ساری امّتوں پر تجھے گواہ کے طور پر لایا جائے گا تو آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور ہاتھ کے اشارے سے فرمایا: بس کرو۔ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے ایک سفر کی رات آنحضورﷺ کو دیکھا کہ آپؐ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گرگئے۔ بیس مرتبہ بسم اللہ پڑھی اور ہر دفعہ گر پڑے اور فرمایا:وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمٰن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے۔
اسی بندگی کا نتیجہ تھا کہ معبود حقیقی نے فرمایا: