تعارف کتاب: ’’برفیلی دھوپ‘‘
تعارف کتاب
’’برفیلی دھوپ‘‘
(از قلم فرخ سلطان محمود)
(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ یوکے جنوری و فروری 2011ء)
مختصر بحر میں طفیل عامر کی بعض نظمیں دس پندرہ سال پہلے جب چند جریدوں کی زینت بنیں تو اُن کا آسان انداز، سادہ زبان اور بے ساختہ پن تو متأثر کُن تھا ہی لیکن مضمون کی گہرائی بھی ایسی چونکا دینے والی تھی جس نے شاعر کے خیالات کی بلندیٔ پرواز سے نہایت عمدگی سے روشناس کروایا۔ چھوٹی بحر میں کلام یقینا سہل ممتنع تھا مگر معانی میں ایسی گہرائی اور وسعت کا حامل تھا کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کرکے زیب قرطاس کردیا گیا ہو۔ شاعر کے اظہار بیان کے لئے استعمال ہونے والے الفاظ صرف قلم سے نکلے ہوئے خالی الفاظ ہی نہیں لگتے بلکہ واقعتاً رعنائیوں اور تلخیوں سے براہ راست آشنائی رکھنے والے کسی فرد کی زندگی کے ایسے تجربات کا نچوڑ معلوم ہوتے ہیں جن کی صداقت ہر مصرعے اور ہر شعر سے عیاں ہوتی ہے۔ ایک خوبصورتی اس کلام میں یہ بھی ہے کہ الفاظ اور انداز اگرچہ سادہ ہیں لیکن جذبات کا اظہار نہایت ارفع، پُرجوش اور بھرپور ہے۔ تاہم اپنی بات کو کہنے کا انداز جارحانہ نہیں بلکہ ایک گزارش اور درخواست کا رنگ لئے ہوئے ہے۔ یقینا طفیل عامر کی شاعری ایسی آفاقی شاعری کی ذیل میں آتی ہے جس میں ہر قاری کو اُس کی پسند کے مطابق اور حسب حالات بہت کچھ دستیاب ہوسکتا ہے۔
’’برفیلی دھوپ‘‘۔ شاعری میں طفیل عامر کی پہلی کتاب ہے جسے غالب نما پبلیکیشنز لاہور نے بہت دیدہ زیب صورت میں شائع کیا ہے۔ سفید موٹا کاغذ، ہارڈ کور، رنگین سرورق، لکھائی صاف اور پڑھنے میں آسان یعنی طباعت عمدہ ہے۔
کتاب کا انتساب ہر اُس وجود کے نام ہے جس نے مصائب اور مشکلات میں صبر اور شکر سے کام لیا۔ اِن الفاظ کو سمجھنے کے لئے کتاب کے آغاز میں شاعر کا اپنے بارہ میں مختصر خاکہ پڑھنے کی ضرورت ہوگی۔ نہایت تکلیف دہ زندگی سے آغاز کرنے والا شخص جب صبر و ہمت اور عزم و حوصلے کا ستون بن کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کامیاب ہوا تو پھر قریباً ہر ایک پہلو سے اُس کا سفر کامیابیوں کی راہ پر گامزن ہے … اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو خدا کے فضل کے بعد یقینا اُس کی شاعری ہی ہے جس نے اُس کی شخصیت کو زندگی کی تلخیوں کے زیر اثر پامال ہونے سے بچائے رکھا۔
یہ کہنا یقینا بجا ہے کہ بے شمار مصائب و مشکلات سے نہایت بہادری سے گزرنے اور پھر دوسروں کے لئے بھی سایۂ شجر بننے والے طفیل عامر کا کلام واقعی پڑھنے، سمجھنے اور مکرّر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
آئیے اِس کتاب کی چند غزلوں کے منتخب اشعار سے لطف اندوز ہوں۔
اپنے وطن میں زندگی یوں کر رہے ہیں لوگ
ڈر ڈر کے پاؤں مسجدوں میں دھر رہے ہیں لوگ
کیا دیدنی ہے بے بسی کوئی کرے تو کیا
کہ موت کے بغیر اب تو مر رہے ہیں لوگ
……………
عشق ہو اپنی ذات تو پھر
اس میں کیوں کر مات بھی ہو
دستِ دُعا کے ساتھ عامرؔ
آنکھوں سے برسات بھی ہو
……………
ہاتھوں کو نہ ملتے رہیے
سیدھی راہ پہ چلتے رہیے
اوروں کو بھی جینے دیجیے
خود بھی پھولتے پھلتے رہیے
……………
سوال تو معقول تھے نہ جانے پھر بھی کیوں
ملے تو تلخ تھے بہت جواب زندگی کے
……………
پھیلا کے تھکے ہاتھ ، یہ لب سُوکھ چلے ہیں
ہوتا ہے دُعا میں جو اثر مانگ رہے ہیں
ویسے تو کٹھن ہوتی ہے ہر ایک مسافت
ہے ساتھ جو تیرا تو سفر مانگ رہے ہیں
……………
کب ایسا ہوا غیر کی دشنام پہ روئے
آیا جو ترا نام تو ہم نام پہ روئے
……………
سوائے اشکِ ندامت بصد وفا خیزی
نہیں سُنا کبھی ٹل جاتے ہوں عذاب کے دن
تمہارے دل کو جو لگتی تو جان لیتے تم
کہ کتنے کرب سے کٹتے ہیں اضطراب کے دن
……………
آج سے نہ کَل پرسوں سے
حال یہی ہے برسوں سے
دل تو خون ہی روئے گا
واسطہ ہے بے تَرسوں سے
آس لگائے بیٹھے تھے
عامرؔ تم تو عرصوں سے
قریباً ڈیڑھ صد صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو پڑھ کر قاری کا نہ صرف گزشتہ صفحات میں ایک بار پھر لَوٹ جانے کو جی چاہتا ہے بلکہ ایک ایسی تشنگی کا احساس بھی جنم لیتا ہے جو بیقراری سے یہ پوچھنے کی خواہش رکھتا ہے کہ اگلی کتاب کب آئے گی۔ … اور امید ہے کہ اُس کے لئے اب زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔