جلدی مرض ایگزیما – جدید تحقیق کی روشنی میں

جلدی مرض ایگزیما – جدید تحقیق کی روشنی میں
(شیخ فضل عمر)

اس وقت دنیابھر میں جِلدی امراض کے بڑھتے ہوئے خدشات نے انسان کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے- اس کی وجوہات کا ادراک ہونے کی صورت میں ان بیماریوں سے بچنا بہت آسان ہوجاتا ہے- پس جدید تحقیق کی روشنی میں چند امور درج ذیل ہیں جنہیں پیش نظر رکھنے سے فائدہ ہوسکتا ہے:
٭ برطانیہ میں بجلی کے روایتی بلبوں کی جگہ کم توانائی استعمال کرنے والے انرجی سیورز تبدیل کرنے کے حکومتی منصوبے پر عمل کی صورت میں ہزاروں افراد کے جِلدی امراض، خاص طور پر ایگزیما میں، مبتلا ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومتِ برطانیہ کی جانب سے ماحول کے تحفظ اور آلودگی میں کمی کے لئے روایتی فلوریسنٹ بلب کی جگہ انرجی سیور بلب لگانے کی مہم اِس مہینے سے شروع ہوچکی ہے اور 2011ء تک فلوریسنٹ بلبوں کو مکمل طور پر تبدیل کردیا جائے گا لیکن برٹش سکن فاؤنڈیشن کے ترجمان، ماہر امراض جِلد پروفیسر جان ہاک نے متنبہ کیا ہے کہ اس سے حساس جلد والے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا جبکہ اب بھی ان میں سے بعض لوگ فیکٹریوں اور دفاتر میں استعمال ہونے والے موجودہ فلوریسنٹ بلب کی روشنی میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں پاتے۔ ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ صارفین کو ٹوٹے ہوئے یا خراب انرجی سیورز بلبوں کو Dispose off کرتے ہوئے زیادہ احتیاط سے کام لینا ہوگا کیونکہ اس میں زہریلا پارہ موجود ہوتا ہے۔ ماحولیاتی ایجنسی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کمپنیوں اور حکومت، دونوں ہی کو صارفین کو اِن بلبوں کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں بہتر طور پر آگاہ کرنا ہوگا۔
٭ سائنسدانوں نے خون میں پائے جانے والے دو کیمیائی اجزاء کی نشاندہی کی ہے جن کا تعلق جِلد کی شدید خارش اور ایگزیمے سے بتایا گیا ہے۔ اس تحقیق کی روشنی میں اس تکلیف دہ جِلدی بیماری کے لئے زیادہ مؤثر دوا تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ ایک اندازے کے مطابق دس فیصد بچوں میں ایگزیمے کی علامات پائی جاتی ہیں اور یہ علامات عمر میں بڑے ہونے کے باوجود بھی موجود رہ سکتی ہیں۔ اب تک مریض کو ایگزیمے سے آرام کے لئے صرف سٹیرائیڈز کی حامل کریمیں ہی استعمال کے لئے دی جاتی تھیں کیونکہ اب تک ایگزیمے کی بنیادی وجوہات کے بارے میں زیادہ علم نہیں ہوسکا تھا اور کوئی دوائی تیار نہیں کی جاسکی تھی۔
ہانگ کانگ کی چائنا یونیورسٹی میں کی گئی حالیہ تحقیق میں ایگزیمے میں مبتلا چوبیس بچوں کا مشاہدہ کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ جب بھی اُن کے جسم پر خارش زیادہ ہوئی تو اُن کے خون میں دو کیمیائی اجزاء BDNF یعنی (Brain-Derived Neurotrophic factor) اور Substance P کی زیادتی بھی دیکھنے میں آئی۔ خیال ہے کہ یہ تحقیق ایگزیما کی بنیادی وجوہات کی تلاش میں ممد ثابت ہوگی جس کے بعد اس کے لئے دوائی تیار کرنے میں بھی مدد مل سکے گی۔
٭ سرد علاقوں میں عمارتوں کو اندر سے گرم رکھنے کے لئے جو مختلف طریق استعمال کئے جاتے ہیں اُن میں سے ایک وہ ہے جس میں بجلی کے مرکزی نظام کے ذریعے گھروں کو گرم رکھا جاتا ہے۔ لیکن اس قسم کے مصنوعی گرم ماحول والے مکانوں میں صحت کے بعض مسائل بھی دیکھنے میں آرہے ہیں کیونکہ مصنوعی طور پر گھروں کو گرم رکھنے کے نتیجے میں جراثیم کی افزائش بھی بڑھ جاتی ہے جس کے باعث جِلدی مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں اور ذہنی توجہ اور ارتکاز کم ہونے لگتا ہے اور سستی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔
یونیورسٹی آف ایسٹ اینجلیا میں کی گئی اس تحقیق کے مطابق جب بجلی یا گیس کی مدد سے ماحول کو گرم کیا جاتا ہے تو حرارت ہوا میں موجود نمی کو ختم کردیتی ہے جس کے نتیجے میں جراثیموں کے پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ جِلد پھٹنے لگتی ہے اور اُس میں خراش پڑنے لگتی ہے۔ چنانچہ تحقیق کے دوران ٹھنڈے موسم میں جب ماحول کو گرم کیا گیا تو وہاں رہنے والے افراد میں نہ صرف جِلدی بیماری ایگزیما کی شرح بڑھ گئی بلکہ جسمانی توانائی میں بھی واضح کمی دیکھی گئی۔ برطانوی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ تیس سال کے عرصے کے دوران برطانیہ کے مکانوں میں درجۂ حرارت اوسطاً پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھایا جاچکا ہے جس کے نتیجے میں جِلدی بیماریوں سمیت بعض بیماریوں میں اضافہ ہوا ہے۔
٭ طبّی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ گھروں میں پالتو بلیوں کی وجہ سے اور بلیوں کے بچے دینے کی وجہ سے چھوٹے بچوں میں ایگزیمے میں اضافہ ہورہا ہے۔ بلکہ بلیوں کے جسم سے جھڑنے والے بال اور دیگر ذرّات بچوں میں جلدی بیماریوں میں مسلسل اضافہ کررہے ہیں۔ اس سے پہلے کی جانے والی ایک تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ جینیاتی اور ماحولیاتی عناصر اس بیماری کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ تحقیق PLOS میڈیسن نامی جریدے میں شائع ہوچکی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ بچوں میں ایگزیما تیزی سے پھیلنے کی وجوہات میں بلیوں کی موجودگی بھی شامل ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں