جلسہ سالانہ برطانیہ 2007ء کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب

اللہ تعالیٰ کا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر احسان ہے کہ جہاں مردوں کو نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دی وہاں احمدی عورت بھی نیکیوں پر قدم مارنے اور تقویٰ میں بڑھتے چلے جانے والی ہے۔ بلکہ بعض دفعہ بعض عورتوں نے نیکی، تقویٰ اور قربانیوں کے مَردوں سے بھی زیادہ اچھے اور اونچے معیار قائم کئے اور اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسی مثالیں قائم کیں جو سنہری حروف میں لکھی جانے والی ہیں۔
اسلامی تاریخ کے دور اوّل اور آخرین کی جماعت میں عورتوں کے ذوق و شوق عبادت، دینی غیرت، مصائب و شدائد پر صبر واستقامت، جرأت و بہادری، مالی قربانی، تبلیغ و دعوت الی اللہ اور راہِ مولا میں قربانیوں کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔
جلسہ سالانہ برطانیہ 2007ء کے موقع پر 28جولائی 2007ء بروز ہفتہ
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مستورات سے خطاب

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔(العنکبوت: 70)
الّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَاللہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلیٰ مَآ اَصَابَھُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَ مِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ۔ (الحج: 36)
وَلَاتَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْـتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآء وَّلٰکِنْ لَّاتَشْعُرُوْنَ (البقرۃ: 155)

اللہ تعالیٰ کا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر احسان ہے کہ جہاں مردوں کو نیکی اور تقویٰ میں بڑھنے کی توفیق دی وہاں احمدی عورت بھی نیکیوں پر قدم مارنے اور تقویٰ میں بڑھتے چلے جانے والی ہے۔بلکہ بعض دفعہ بعض عورتوں نے نیکی، تقویٰ اور قربانیوں کے مَردوں سے بھی زیادہ اچھے اور اونچے معیار قائم کئے اور اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسی مثالیں قائم کیں جو سنہری حروف میں لکھی جانے والی ہیں۔ جیسا کہ قرون اولیٰ کی عورتوں نے ایسی مثالیں قائم کی تھیں جو ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔
یہ آیات جو مَیں نے پہلے تلاوت کی ہیں ان میں پہلی آیت سورئہ العنکبوت کی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’وہ لو گ جو ہمارے بارہ میں کو شش کرتے ہیں ، ہم ضرور انہیں اپنی راہوں کی طرف ہدایت دیں گے اور یقینا اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
تو یہ ہے خلاصہ اُن لوگوں کا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں کہ جہاد کا تعلق صرف تلوار سے نہیں ہے بلکہ اصل چیز ہے کوشش کر کے اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کرنا، اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور پیار حاصل کرنے کی کوشش کرتے چلے جانا۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی راہنمائی فرماتا ہے، ان کی خواہشات پوری کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے، اس کے راستے میں قربانیاں دینے سے، اس کے اور اس کے رسولؐ کے احکامات پر عمل کرکے اس کی راہیں اختیار کی جاسکتی ہیں۔ پس یہ آج جو جہاد ہے جو ہر احمدی کر رہا ہے، یہی جہاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جائے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی احمدی عورت کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں پیچھے نہیں ہے۔
پھر جو مَیں نے دوسری آیت تلاوت کی سورۃ حج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ان لوگوں کو کہ جب اللہ کا ذکر بلند کیا جاتاہے تو ان کے دل مرعوب ہو جاتے ہیں اور جو اس تکلیف پر جوانہیں پہنچی ہو، صبر کرنے والے ہیں اور نماز کو قائم کرنے والے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔
یہ جو آیت مَیں نے پڑھی اس سے پہلی آیت جو ہے اس کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے عاجزی کرنے والوں کو بشارت دی ہے اور پھر جیسا کہ اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یہ بشارت ان لوگوں کو دی گئی ہے جو اللہ کا ذکر بلند کرنے والے ہیں۔ تو فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کے خوف سے پُرہیں ، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی سختیاں جھیلتے ہیں اور اس پر انتہائی بشاشت سے صبر کرتے ہیں۔اور یہ بشارت والے وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازیں وقت پر پڑھتے ہیں ، اللہ کے عبادت گزار ہیں۔ اور چوتھی بات یہ کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں۔ دین کی ضروریات کے لئے اگر ضرورت پڑے تو بے دریغ خرچ کرتے ہیں۔ لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے اگر کہا جائے تو وہاں بھی خرچ کرتے ہیں۔ یعنی اللہ کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں ، اللہ کے دین کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق بھی ادا کرتے ہیں۔ پس یہ لوگ ہیں جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کی بشارت پانے والے ہیں۔
اور پھر تیسری آیت جو مَیں نے پڑھی وہ سورئہ بقرہ کی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کے متعلق یہ مت کہو کہ وہ مُردہ ہیں۔وہ مُردہ نہیں بلکہ زندہ ہیں مگر تم نہیں سمجھتے۔یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے، ثباتِ قدم دکھاتے ہوئے اگر قتل بھی ہو جائیں تو اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ کے نزدیک یہ لوگ جنہوں نے اپنی جان دی ہے وہ مُردہ نہیں ہیں ، مر نہیں گئے بلکہ ایک اُخروی زندگی پانے والے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق وہ جنتوں کے وارث بنیں گے۔ یہ احساس جس قوم میں پیدا ہو جائے کہ میری زندگی اور میری موت اللہ کے لئے ہے، وہ قوم مرا نہیں کرتی بلکہ اس کے ہر فرد کی قربانی ہزاروں قربانیوں کے بیج بوتی ہے۔ یہ نظارے ہم نے قرونِ اولیٰ میں صحابیات میں دیکھے اور یہ نظارے ہم نے اس زمانے میں مسیح ومہدی کے ماننے والوں میں بھی دیکھے اور دیکھتے ہیں۔
آج مَیں نے تاریخ سے کچھ واقعات لئے ہیں جو اسلامی تاریخ اور آخرین کی جماعت میں سے بھی ہیں جنہوں نے یہ قربانیاں دیں۔ یہ ہمیں احساس دلاتے ہیں کہ آج بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے قربانیاں دینی ہوں گی اوراللہ تعالیٰ کی رضا قربانیوں سے ہی حاصل ہوگی۔
پہلی مثال جو مَیں نے لی ہے، وہ یہ ہے کہ دعاؤں کی طرف کس طرح شغف ہوتا تھا۔ حضرت جویریہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں۔ ایک دن صبح کو مسجد میں جاکر دعا کر رہی تھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم گزرے اوردیکھتے ہوئے چلے گئے۔ دوپہر کے وقت آئے تو تب بھی ان کو اسی حالت میں پایا۔
(سنن الترمذی ،کتاب الدعوات ،باب منہ حدیث 3555 دارالمعرفہ ،بیروت2002ء)
تو یہ تھیں وہ عابدات جو عبادتوں میں اس طرح مشغول ہوتی تھیں کہ صبح سے دوپہر ہوجاتی تھی۔
پھر اوائل اسلام میں ایک مثال ہے کہ ُامِّ سلیم رضی اللہ عنہا مسلمان ہوئیں۔ ان کی اسلام سے محبت اس قدر شدید تھی کہ ان کے بارے میں آتا ہے کہ ان کے خاوند مالک چونکہ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہنا چاہتے تھے اور حضرت اُمِّ سُلیم رضی اللہ عنہا تبدیلیٔ مذہب پر اصرار کرتی تھیں اس لئے دونوں میں کشیدگی پیدا ہو گئی اور مالک ناراض ہو کر شام چلے گئے اور وہیں انتقال کیا۔ ابو طلحہ نے جو اسی قبیلے کے تھے اُمّ سُلیم سے نکاح کا پیغام دیا۔ تو اُمِّ سلیمؓ نے اسی عذرکی وجہ سے کہ ابو طلحہ بھی مسلمان نہیں تھے رشتے سے انکار کردیا۔ یعنی ابو طلحہ چونکہ مشرک تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ میں تو رشتہ نہیں کرسکتی کیونکہ میرے پہلے خاوند سے جھگڑے کی یہی وجہ تھی۔ تو انہوں نے کہا اگر تم اسلام قبول کرلو تو یہی میرا حق مہر ہو گا اس کے علاوہ کو ئی مہر نہیں مانگوں گی۔
(اسد الغابہ، جزء 6،صفحہ 355-356، ام سلیم بنت ملحان 7471،دارالفکر بیروت2003ء)
تو یہ تھے ان لوگوں کے نمونے جو آج بھی ہمارے سامنے مشعلِ راہ ہیں۔ بعض اس بات کو محسوس نہیں کرتیں کہ مذہب سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مذہب کا ہمیشہ ایک احمدی لڑکی کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ میں احمدی ہوں اور اگر میں کہیں باہر رشتہ کرتی ہوں تو میری آنے والی نسل جو ہے اس میں بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔اور میرے مذہب میں بھی بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ دوسرے گھر میں جاکر، ایک غیر مذہب میں جا کر میں ان کے زیرِاثر آسکتی ہوں۔ تو یہ ایسی چیزیں ہیں جو آج بھی ہمارے لئے مثال ہیں۔
پھر اُمّ المومنین حضرت اُمِّ حبیبہؓ کا ایک غیرتِ ایمانی کا واقعہ ہے۔ امام زُہری روایت کرتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے سے قبل ابوسفیان مدینہ آئے۔ وہ صلح حدیبیہ کی مدّت بڑھانا چاہتے تھے۔ وہ اپنی بیٹی اُمِّ حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھر گئے اور بستر پر جاکر بیٹھنے لگے اور وہ بستر تھا جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی بیٹھا کرتے تھے۔ تو حضرت اُمِّ حبیبہ ؓ نے بستر لپیٹ دیا کہ ابوسفیان اس پر نہ بیٹھیں۔ اس پر ابوسفیان نے کہا کہ بیٹی! تم نے اس بستر کو مجھ پر ترجیح دی ہے۔ تم سمجھتی ہو کہ یہ بستر ایسا پاک ہے کہ میں اس پر بیٹھنے کے لائق نہیں۔ اس پر حضرت اُمِّ حبیبہ ؓ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بستر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے، مقدس بستر ہے اور تم ایک ناپاک مشرک شخص ہو۔ گو میرے باپ ہو لیکن تمہارا وہ مقام نہیں کہ اس بستر پر بیٹھ سکو۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 8صفحہ 142،رملۃ بنت ابی سفیان 11191، داراکتب العلمیہ بیروت 2005ء)
پھر تکالیف کس طرح برداشت کرتی تھیں۔ حضرت اسماءؓ بنت ابوبکرؓبیان کرتی ہیں کہ جب رسولِ کریم ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے ہجرت کے لئے روانہ ہونے کے بعد قریش کا ایک وفد ہماری طرف آیا جن میں ابوجہل بھی شامل تھا۔ تو جب وہ دروازے پر آئے تو میں ان کی طرف نکلی۔ انہوں نے پوچھا کہ تیرا باپ ابوبکر کہاں ہے؟ مَیں نے جواب دیا کہ مَیں نہیں جانتی۔ حضرت اسماء کہتی ہیں کہ ابو جہل جو کہ بد گو اور خبیث تھا، اس نے میرے گال پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ میرے کان کی بالی بھی اس میں سے نکل کر دور جا پڑی۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، باب ہجرۃ الرسول ﷺ صفحہ 344، دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
تو یہ تکلیفیں شروع میں برداشت کرنی پڑیں۔ یہ تو ہلکی سی تکلیف ہے، آگے واقعات آئیں گے کہ کس طرح تکلیفیں برداشت کرتی تھیں۔
پھر قریش کے خاندان بنو عدی کی ایک شاخ بنی مؤمل کی لونڈی تھی حضرت لبینہؓ۔ بعد بعثت کے ابتدائی سالوں میں ان کو اسلام میں شامل ہونے کی سعادت ملی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب اپنے اسلام لانے سے پہلے اتنے برافروختہ ہوئے کہ ان کو روزانہ زدوکوب کیا کرتے تھے۔ جب مارتے تھک جاتے تھے تو کہتے تھے کہ اب میں تھک گیا ہوں اس لئے تجھے چھوڑا ہے اور اب بھی اس نئے دین کو یعنی اسلام کو ترک کردے، نہیں توجب دوبارہ میری طاقت بحال ہو گی پھر ماروں گا۔ وہ جواب میں کہتیں کہ ہر گز نہیں ، تو جتنا ظلم ڈھا سکتا ہے ڈھالے۔ میں یہی کہوں گی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کرے۔ بالآخر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انہیں خرید کر آزاد کروایا۔
( ماخوذ از تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ 248، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
حضرت صفیہؓ نے حضرت زبیرؓ کی تربیت بڑے عمدہ طریق پر کی۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا یہ بیٹا بڑا ہو کر ایک نڈر اور بہادر سپاہی بنے۔ چنانچہ وہ حضرت زبیرؓ سے سخت محنت اور مشقت کے کام لیتی تھیں۔
(ماخوذ از تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ 163، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
آج واقفینِ نَو کی جو مائیں ہیں ان کے لئے بھی یہ مشعلِ راہ ہے۔ بجائے اس کے کہ ناجائز ضروریات پوری کرکے، اپنے بچوں کے نخرے برداشت کرکے ان کو ایسی عادت ڈالیں کہ اُن کو سہل پسندی کی عادت پڑجائے، ان کو سختی کی عادت ڈالیں۔ یہ تربیت ہے جو آپ نے واقفینِ نَو کی کرنی ہے تاکہ جب وہ میدانِ عمل میں آئیں تو ہر آزمائش پر، ہر مشکل پر وہ ایک چٹان بن کر کھڑے ہوجائیں اور کبھی ان کا دل کسی مشکل کو دیکھ کر اور کسی مصیبت کو دیکھ کر ان کو کمزوری کی طرف لے جانے والا نہ ہو۔
پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارہ میں آتا ہے کہ جب انہوں نے حضرت زبیرؓ کے ساتھ ہجرت کی جن کا مَیں نے پہلے واقعہ سنایاتو غزوۂ اُحد میں جب مسلمانوں نے شکست کھائی تو وہ مدینہ سے نکلیں ، صحابہ سے عتاب آمیز لہجے میں کہتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو چھوڑ کر چل دیئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو آتے ہوئے دیکھا تو حضرت زبیرؓ کو بلا کر ارشاد کیا کہ حمزہ کی لاش نہ دیکھنے پائیں۔حضرت زبیرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پیغام سنایا تو بولیں کہ مَیں اپنے بھائی کے ساتھ جو سلوک ہؤا اس کی لاش کے ساتھ جو ماجرا ہؤا وہ تو مَیں سن چکی ہوں لیکن خدا کی راہ میں یہ توکوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔ یہ نہ فکر کرو کہ اس کو دیکھ کر میرا دل دُکھے گا اور میں برداشت نہیں کر سکوں گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر ان کو لاش دیکھنے کی اجازت دیدی اور وہ لاش کے پاس گئیں۔ بھائی کے بکھرے ہوئے ٹکڑے دیکھے لیکن

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

کہہ کر چُپ ہو گئیں اور مغفرت کی دعا کی۔
(ماخوذ از تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ166-167، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
پھر بنی دینار کی انصاری خاتون کا آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ محبت کا اظہار ہے۔ اسماعیل بن محمد بن سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اُحدسے واپسی پر بنو دینار کی ایسی عورت کے پاس سے گزرے جس کا خاوند، بھائی اور والد جنگِ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ گئے تھے اور شہید ہو گئے تھے۔ جب صحابہ نے ان کی وفات کی اطلاع دی تو کہنے لگیں کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: اے اُمِّ فلاں وہ خیروعافیت سے ہیں۔ الحمدللہ وہ اس حال میں ہیں جو تُو سننا پسند کرتی ہے۔ وہ کہنے لگی مجھے انہیں دکھادو تاکہ مَیں خود دیکھ لوں۔ راوی کہتا ہے کہ اس پر اس نے اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فلاں جگہ ہیں۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس نے دیکھ لیا تو کہنے لگی

’’کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلٌ‘‘

کہ اگر آپ بخیریت ہیں تو پھر ہر مصیبت معمولی ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، باب شان عاصم بن ثابت صفحہ 545دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہٗ اس تاریخ کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعد بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے چل رہے تھے۔ شہر کے پاس اُنہیں اپنی بڑھیا ماں نظر آئی جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی اور اُحد کی جنگ میں اُن کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھاتو وہ بھی عورتوں کے آگے کھڑی تھیں اور یہ معلوم کرنے کے لئے دیکھ رہی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کہاں ہیں۔ تو ان کے بیٹے سعدؓ بن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کا بھی غم ہو گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ان کی تسلّی کے لئے کچھ الفاظ کہہ دیں ، ان کو حوصلہ دلائیں اور تسلّی دیں۔آپؐ نے فرمایا کہ بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا لڑکا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے۔ بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپؐ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی، وہ اِدھر اُدھر دیکھتی رہی۔ آخر کار اس کی نظر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ پر ٹِک گئی۔ وہ آپؐ کے قریب آئی اور کہنے لگی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! جب میں نے آپؐ کو سلامت دیکھ لیا تو آپ سمجھیں کہ مَیں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔
(ماخوذ از الازہار لذوات الخمار حصہ دوئم صفحہ 174مطبوعہ قادیان)
پھر صبر کی ایک اَور مثال۔ ’’ایک دفعہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ سیدۃ النساء اونٹ کی کھال کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔‘‘ کھال کابڑا موٹا سا لباس ہے۔ ’’اوراس میں تیرہ پیوند لگے ہوئے ہیں۔‘‘ آج ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات کیے ہوئے ہیں کہ جب اعلیٰ سے اعلیٰ لباس ہم پہن سکتے ہیں ’’ اور آٹا گوندھ رہی ہیں اور زبان پر کلام اللہ کا وِرد جاری ہے۔ حضورؐ یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے‘‘۔ آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ اور فرمایا: ’’فاطمہ! دنیا کی تکلیف کا صبر سے خاتمہ کر اور آخرت کی دائمی مسرّت کا انتظار کر، اللہ تمہیں نیک اجر دے گا۔‘‘
(تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ135، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
اس کے بعد ایک اور مثال ہے۔ کس طرح یہ مشعلِ راہ ہے آجکل کی ان عورتوں کے لئے بھی، ان بیویوں کے لئے بھی جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہیں۔
ایک دفعہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے۔ حضرت فاطمہؓ سے کچھ کھانے کو مانگا کہ کچھ کھانے کو دو۔ تو آپؓ نے بتا یا کہ آج تیسرا دن ہے گھر میں جَو کا ایک دانہ تک نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے فاطمہ! مجھ سے تم نے ذکر کیوں نہیں کیا کہ مَیں کوئی انتظام کرتا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میرے باپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رخصتی کے وقت نصیحت کی تھی کہ مَیں کبھی سوال کر کے آپ کو شرمندہ نہ کروں۔ یہ نہ ہو کہ آپ کے حالات ایسے ہوں اور مَیں سوال کروں اور وہ میری خواہش پوری نہ ہو سکے اور اس کی وجہ سے آپ پر بوجھ پڑے یا قرض لے کر پورا کریں یا ویسے دل میں ایک پریشانی پیدا ہو کہ مَیں اس کی خواہش پوری نہیں کرسکاـ
(ماخوذ از تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ136، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
تو یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر عورت کے لئے مشعلِ راہ ہے۔ ہر اس عورت کے لئے جو خاوندوں سے ناجائز مطالبات کرتی ہے۔
پھر صبر کی ایک اور مثال ہے۔ علامہ ابن سعد نے طبقات میں بیان کیا ہے کہ حضرت اُمِّ شریک نے اسلام قبول کیاتو ان کے مشرک عزیزواقارب جو تھے وہ اُن کو دھوپ میں کھڑا کر دیا کرتے تھے اور ان کو اس حالت میں روٹی کے ساتھ شہد کھلاتے تھے تاکہ زیادہ گرمی لگے، حلق خشک ہو اور پھر پانی نہیں دیتے تھے۔جب اس طرح تین دن گزرگئے تو مشرکین نے کہا کہ جو دین تم نے اختیار کیا ہے اس کو چھوڑ دو۔وہ تین دن رات کی جو فاقہ کشی تھی اس سے بالکل بدحواس ہو گئیں تھیں۔ مشرکین کی بات کا مطلب نہیں سمجھیں۔ جب ان لوگوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیاتو وہ سمجھ گئیں کہ یہ لوگ مجھ سے توحید کا انکار کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ فوراً بولیں خداکی قسم! میں تو اسی عقیدے پر قائم ہوں۔
(ماخوذ از تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ243، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
یہ نہیں کہ صرف خود ہی انہوں نے اسلام قبول کر لیا بلکہ ان کے متعلق آتا ہے کہ نہایت سر گرمی سے قریش کی عورتوں کو بھی اسلام کی دعوت دیا کرتی تھیں اور کوئی کسی قسم کی سختی ان کو اس کام سے نہیں روک سکی جو اللہ تعالیٰ نے اُن کے سپرد کیا تھا اور جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھا۔
پھر حضرت اُمِّ عُبیس ؓکے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک لونڈی تھیں اور ابتدائی مسلمانوں میں سے تھیں اور اسلام لانے کی وجہ سے مکہّ کا مشرک رئیس اسود بن عبد یَغُوث ان پر بے پناہ ظلم کیا کرتا تھا لیکن وہ کسی صورت میں اسلام سے منحرف نہیں ہوتی تھیں۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓنے انہیں خرید کر آزاد کیا۔
(ماخوذ از تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ249، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
پھر حضرت سمیعہ اُمِّ عمّار بن یاسر کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ کا نمبر اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں تھا۔اسلام قبول کرنے کے بعد کچھ دن اطمینان سے گزرے تھے کہ قریش کا ظلم و ستم شروع ہو گیا اور بتدریج بڑھتا چلا گیا۔ چنانچہ جو شخص جس مسلمان پر قابو پاتاتھا، طرح طرح کی درد ناک تکلیفیں اسے دیتا تھا۔ حضرت سمیعہ کو بھی ان کے خاندان نے شرک پہ مجبور کیا لیکن وہ اپنے عقیدے پر نہایت شدت سے قائم رہیں۔ جس کا صلہ یہ ملا کہ مشرکین ان کو مکہّ کی جلتی اور تپتی ریت پر لوہے کی زِرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اُدھر سے گزرتے تو یہ حالت دیکھ کر فرماتے: آلِ یاسر صبر کرو، اس کے عوض تمہارے لئے جنت ہے۔ اور ابو جہل نے ایک دن ان کو ایک نیزہ مار کر شہید کردیا۔
(اسد الغابہ جزء 6 صفحہ 155-156باب سمیعۃ ام عمار دارالفکر بیروت 2003ء)
حضرت فاطمہؓ بنت خطاب کے بارہ میں آتا ہے کہ آپ اپنے خاوند سعید بن زید کے ساتھ مسلمان ہوئیں۔یہ اوائل اسلام کا واقعہ ہے۔ان کے کچھ دنوں کے بعد ان کے بھائی یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے جو کہ دراصل اُنہی کی وجہ سے مسلمان ہو ئے تھے۔ بڑا مشہور واقعہ ہے۔حضرت عمرؓ حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس قتل کے ارادہ سے جارہے تھے کہ راستے میں ایک صحابی سے ملاقات ہوئی۔ اس سے پوچھا کہ کیا تم نے آبائی مذہب چھوڑ کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مذہب اختیار کر لیا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں لیکن پہلے اپنے گھر کی خبر لو۔ تمہا رے بہن اور بہنوئی نے بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مذہب قبول کر لیا ہے۔ حضرت عمر سیدھے بہن کے گھر پہنچے۔ دروازہ بند تھا اور وہ قرآن پڑھ رہی تھیں۔ ان کی آہٹ پا کر چھپ گئیں اور قرآن کے جو اجزاء تھے، صفحے تھے اور کتاب کی صورت میں تو ہوتا نہیں تھا، مختلف جگہوں پر لکھا ہوتا تھا، ان کو چھپا دیا۔ لیکن آواز حضرت عمر کے کان میں پڑ چکی تھی۔ پوچھا یہ کیا آواز تھی؟ تو انہوں نے کہا کہ کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مَیں سن چکا ہوں کہ تم دونوں مرتد ہو گئے ہو۔ یہ کہہ کر بہنوئی سے لڑنے لگے۔ اُس کا گریبان پکڑا۔ حضرت فاطمہؓ بچانے کے لئے آگے آئیں تو اُن کو بھی مارا اور بال پکڑ کر گھسیٹے۔ اور اس قدر مارا کہ ان کا بدن لہو لہان ہو گیا۔ اس کی مختلف روایتیں ہیں کہ ناک سے خون بہہ گیا، جب مکاّ مارا۔ توبہرحال اس روایت میں یہ ہے کہ اس حالت میں حضرت عمر کی بہن کے منہ سے نکلا کہ عمر! جو ہو سکتا ہے کر لو لیکن اب اسلام ہمارے دل سے نہیں نکل سکتا۔ اِن الفاظ نے حضرت عمر کے دل پر ایک خاص اثر کیا۔ بہن کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھا۔ زخمی تو بہن پہلے ہی تھیں ، دل نرم ہو رہا تھا۔ اُن کے بدن سے خون جاری تھا، یہ دیکھ کر اَور بھی رقّت پیداہوئی۔ فرمایا کہ تم لوگ جو پڑھ رہے تھے مجھ کو بھی سناؤ۔ حضرت فاطمہ نے قرآن کے اجزاء لاکرسامنے رکھ دیئے۔ حضرت عمر اُن کو پڑھتے جاتے تھے اور ان پر رعب طاری ہوتا جاتا تھا یہاں تک کہ ایک آیت پر پہنچ کر پکار اٹھے کہ

اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ۔

(اسد الغابہ جلد 6 صفحہ 223باب فاطمۃ بنت الخطاب دارالفکر بیروت2003ء)
(اسد الغابہ جلد3 صفحہ 643-644باب عمر بن الخطاب دارالفکربیروت 2003ء)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 8صفحہ 271باب فاطمۃ بنت الخطاب، داراکتب العلمیہ بیروت2005ء)
پھر حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت عبدالمطلب کے بارے میں آتا ہے کہ غزوۂ اُحد کی طرح غزوہ خندق میں بھی انہوں نے نہایت ہمت اور استقلال کا ثبوت دیا۔ اور انصار کے قلعوں میں سب سے زیادہ مستحکم جو قلعہ تھا یہ بنوقریظہ کی آبادی سے ملا ہوا تھا۔ اُس کی حفاظت کے لئے حضرت حسّانؓ کو متعین کیا گیا۔ یہ ایک شاعر تھے۔ یہود نے یہ دیکھ کر کہ تمام جمعیت یعنی مسلمانوں کی تمام جو طاقت ہے اور تمام مسلمان لوگ ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خندق کی طرف ہیں تو اُس طرف سے جو محفوظ جگہ تھی قلعے پر حملہ کر دیا اور قلعے کے پھاٹک تک پہنچنے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا تو حضرت صفیہؓ نے دیکھ لیا اور حضرت حسّان سے کہا کہ اُتر کر قتل کر دو ورنہ یہ دشمنوں کوجا کرپتہ دیدے گا۔ کیونکہ مدینہ کا وہ حصہ کمزور تھا۔ حضرت حسانؓ نے معذوری ظاہر کی۔ حضرت صفیہؓ نے خیمے کی ایک چوب اکھاڑلی اور اُتر کر یہودی کے سر پر اس زورسے ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ حضرت صفیہ چلی آئیں اور حسّان سے کہا کہ اب مَیں نے اس کو مارا ہے، سر پھٹ گیا، بیہوش پڑا ہے تم جا کر اس کو باندھ دو یا کپڑے اتار لو اور اُس کا سر کاٹ کے قلعے کے نیچے پھینک دوتاکہ یہودی مرعوب ہو جائیں۔ لیکن انہوں نے انکار کردیا۔اور یہ کام بھی حضرت صفیہؓ کو ہی کرنا پڑا۔ اس طرح پھر یہودیوں کو اس طرف سے حملے کی جرأت نہیں ہوئی۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جزء 8صفحہ 214،کتاب النساء حرف الصاد المہملۃ، داراکتب العلمیہ بیروت2005ء)
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ اُحد کے دن جب لوگ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ دُور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہؓ اور حضرت اُمِّ سُلیمؓ کو دیکھا کہ یہ دونوں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے کپڑے سمیٹے ہوئے تھیں اور میں ان کے پاؤں دیکھ رہا تھا کہ پانی کی مشقیں اٹھائے ہوئے لارہی تھیں اور ان لوگوں کو یعنی زخمیوں کو پلارہی تھیں اور لَوٹ جاتیں اور پھر اَور مشقیں بھر کر لاتیں اور اُن کو پلانے لگتیں۔ تو اس طرح یہ خواتین بھی جنگ کے دنوں میں خدمات کیا کرتی تھیں۔
(صحیح البخاری کتا ب الجہاد والسیر باب غزوۃ النساء وقتالہن مع الرجال حدیث 2880دارالکتاب العربی بیروت2004ء)
ایک روایت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ ماں کے لئے سب سے بڑی قربانی بچے کی ہوتی ہے مگر میں اس کے لئے بھی ایک عورت کی مثال پیش کرتا ہوں جو پہلے شدید کافرہ تھی۔ ایرانیوں کے ساتھ ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت شکست ہوئی۔ وہ اس کا ازالہ کرنے کے لئے، شکست کا بدلہ لینے کے لئے پھر جمع ہوئے۔ مگر پھر ایرانی کثرتِ تعداد اور جو جنگ کا سازو سامان تھا اُس کی وجہ سے غالب ہوتے نظر آرہے تھے۔ ہاتھیوں کے ریلے کا مقابلہ بھی ان سے مشکل سے ہوتا تھا چنانچہ آخری دن کی جنگ میں بہت سے صحابہ مارے گئے۔ آخر مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اگلے روز آخری فیصلہ کُن جنگ کی جائے تو خنساء نامی ایک عورت جو بڑی شاعرہ اورادیب گزری ہے، اس کے چار بیٹے تھے۔ انہوں نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا اور کہا: میرے بچو! میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں۔ تمہارا باپ جواری تھا۔ میں نے چار دفعہ اپنے بھائی کی جائیداد تقسیم کراکر اُسے دی مگر اس نے چاروں دفعہ جوئے میں برباد کر دی۔ گویا نہ صرف یہ کہ اپنی جائیداد دی بلکہ میرے بھائی کی جائیداد بھی لٹا گیا۔مگر اس کے باوجود اس کی موت کے بعدمیں نے اپنی عصمت کی حفاظت کی اور اس کے خاندان کو بٹّہ نہیں لگایا اور بڑی محنت سے تم لوگوں کی پرورش کی۔ آج اس حق کو یاد کراکر میں تم سے مطالبہ کرتی ہوں یا تو تم جنگ میں فتح حاصل کرکے آنا یا مارے جانا، ناکامی کی حالت میں مجھے واپس آکر منہ نہ دکھانا ورنہ میں تمہیں اپنا یہ حق نہ بخشوں گی۔ اس جنگ کی تفصیل ایسی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہر مسلمان اپنی جان کو میدانِ جنگ میں اس طرح پھینک رہا تھا جس طرح کھیل کے میدان میں فُٹبال پھینکا جاتا ہے۔ عین دوپہر کے وقت جب معرکۂ جنگ نہایت شدّت سے ہو رہا تھا تو خنساء آئیں اور انہوں نے دیکھا کہ اس معرکے سے بہادروں کا واپس آنا مشکل ہے۔ انہوں نے اس وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ اے خدا! میں نے اپنے بچے دین کے لئے قربان کر دیئے ہیں ، اب تُو ہی ان کی حفاظت کر نے والا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ جنگ فتح ہوگئی اور ان کے بچے بھی زندہ واپس آگئے۔
پھر ایک واقعہ کا ذکر اس طرح ہے۔ ہندہ کی مثال ہے۔ اُن کے خاوند ابو سفیان نے بیس سال تک رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جنگ کی اور فتح مکہّ پر مسلمان ہوئے تو ہندہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پہلے شدید بغض رکھتی تھیں۔ جنگ اُحد میں حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد انہوں نے ہی ان کے ناک اور کان کٹوائے تھے۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ان کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا۔ اُحد کی جنگ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تھے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کوپیچھے ہٹناپڑا اور اس طرح مسلمان شہداء کی لاشیں کفار کے رحم وکرم پر تھیں۔ حضرت حمزہؓ نے ایک خاص آدمی کو مارا تھا تو اُس وقت ہندہ نے جیسا کہ میں نے کہا، ان کی لاش کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا۔ اس کا مُثلہ کروایاتھا۔وہ اسلام کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایسی خطرناک دشمن تھیں۔ فتح مکہّ کے بعد وہ اور ان کے خاوند ابوسفیان بھی جب ایمان لائے اور ان کے لڑکے حضرت معاویہ بھی ایمان لائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی قوتِ قدسی نے اُن کی کایا پلٹ دی۔ پھر وہ لوگ اسلام کے لئے لڑے اور اسلام کی بڑی خدمت کی۔ توکہتے ہیں کہ ایک جنگ کے موقعہ پر ہرقل کی فوجوں کے سامنے سخت معرکہ درپیش تھا۔ مسلمانوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ ساٹھ ہزار تھی اور دشمن کی تعداد دس لاکھ بعض نے لکھی ہے اور بعض عیسائی مؤرخین نے تین چار لاکھ بھی لکھی ہے۔ تو بہرحال مسلمانوں سے کم ازکم پانچ چھ گناہ زیادہ تعداد تھی۔ توایک دفعہ دشمن کی طرف سے ایسا سخت حملہ ہؤا کہ مسلمانوں کو پیچھے ہٹناپڑا۔ ہندہ نے جو اپنے خیمے میں تھیں ، جب غبار اٹھتا دیکھا۔ جب پیچھے ہٹ رہے تھے مٹی اٹھتی دیکھی تو کسی سے پوچھا کہ یہ کیسا غبار ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ مسلمانوں کو شکست ہو گئی ہے، وہ پسپا ہو رہے ہیں۔ ہندہ نے عورتوں سے کہا کہ اگر مردوں نے شکست کھائی ہے اور اسلام کے نام کو بٹّہ لگایا ہے تو آؤ ہم مقابلہ کریں۔ عورتوں نے اُن سے دریافت کیا کہ ہم کس طرح مقابلہ کر سکتی ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم مسلمانوں کے گھوڑوں کو ڈنڈے ماریں گی اور کہیں گی تم نے پیٹھ دکھائی ہے تو اب ہم آگے جاتی ہیں۔ اُس وقت ابو سفیان اور دوسرے صحابہ واپس آرہے تھے کیونکہ ریلا بہت سخت تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ ہندہ آگے آئیں اوراُن کے گھوڑوں کو ڈنڈے مارنے شروع کر دیئے۔ ہندہ نے ابو سفیان سے کہا تم تو کفر کی حالت میں بھی اپنی بہادری کی بہت شیخیاں ماراکرتے تھے۔ مگر اب مسلمان ہو کر اس قدر بزدلی دکھا رہے ہو حالانکہ اسلام میں تو شہادت کی موت زندگی ہے۔ اس پر ابوسفیان نے مسلمانوں سے کہا کہ واپس چلو، ہندہ کے ڈنڈے دشمن کی تلوار سے زیادہ سخت ہیں۔ چنانچہ مسلمانوں نے پھر حملہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے پھران کو فتح عطا فرمائی۔
(ماخوذ از الفضل قادیان 29نومبر 1934،صفحہ 7 جلد 22شمارہ66)
تو یہ ایک عورت تھی جس نے اس جنگ کی کایا پلٹوائی۔
حضرت عمر فاروق ؓکے عہدِ خلافت میں یرموک کی ہولناک لڑائی پیش آئی تو شوقِ جہاد نے حضرت اسماءؓ کو گھر نہ بیٹھنے دیا۔ وہ اپنے اہلِ خاندان کے ہمراہ اس لڑائی میں شریک ہوئیں اور بڑی ثابت قدمی سے داد شجاعت دی۔ ایک موقع پر عیسائی مسلمانوں کو دباتے دباتے عورتوں کے خیموں تک آپہنچے۔ جنگ ہو رہی تھی، عیسائی فوج زیادہ تھی انہوں نے اتنا سخت حملہ کیا کہ مسلمان پیچھے ہٹتے ہٹتے عورتوں کے خیموں تک آگئے۔ حضرت اسماء اور دوسری دخترانِ اسلام جو وہاں بیٹھی تھیں ، انہوں نے خیموں کی چوبیں اتارلیں۔ لکڑیاں جو تھیں ، بانس لگے ہوئے تھے وہ اتارلیے اوردشمنوں پر پل پڑیں اور ان کو پیچھے دھکیل دیا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس لڑائی میں حضرت اسماء نے تنہا اپنی لکڑی سے نو رومیوں کوقتل کیا۔
( تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ399، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
پھر حضرت ازدۃؓ بنتِ حارث کے متعلق آتا ہے جو ایک صحابی سیدنا حضرت عتبہ بن غزوان کی اہلیہ تھیں کہ انہوں نے عراق اور عرب کے کئی معرکوں میں اپنے شوہر کے ساتھ مجاہدانہ شرکت کی۔ روایت میں لکھا ہے کہ دریائے دجلہ کے قریب اہلِ میسان اور مسلمانوں کے درمیان خونریز لڑائی ہوئی۔ اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت مغیرہؓ عورتوں کو میدانِ جنگ سے بہت پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ جس وقت دونوں فوجوں میں گھمسان کی جنگ جاری تھی ازدۃ نے عورتوں سے کہا: اس وقت اگر ہم مسلمانوں کی مدد کرتے تو نہایت مناسب تھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دوپٹے کا ایک بڑا عَلم بنایا،دوپٹے سے جھنڈا بنایا۔ اور دوسری خواتین نے بھی اپنے اپنے دوپٹوں سے چھوٹے چھوٹے جھنڈے بنالئے۔پھر یہ سب اپنے جھنڈے لہراتی ہوئیں ، جنگ کا جو موقعہ تھا اس کے قریب پہنچ گئیں اور اہلِ میسان نے جو مسلمانوں کے مخالفین اور دشمن تھے انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں کے لئے کوئی نئی مدد آگئی ہے اور تازہ دم فوج آگئی ہے۔ اُن کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ میدانِ جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے۔
( تذکار صحابیات ؓ ، از طالب الہاشمی صفحہ457-458، البدر پبلی کیشنزلاہور 2005ء)
تو یہ تھی اس وقت عورتوں کی حاضر دماغی اور بہادری اور جرأت کہ کس طرح انہوں نے مردوں کی مدد کی اور جنگ کی کایا پلٹ دی۔
پھر مالی قربانیوں میں عورتوں کا ایک خاص مقام ہے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ؐ کی بعض ازواج نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ ہم میں سے کونسی جلدی آپ سے ملے گی؟ آپؐ نے فرمایا: جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں۔ تو وہ سمجھیں کہ ہاتھ لمبے ہوں گے اور انہوں نے ہاتھ ناپنے شروع کر دیئے۔حضرت سودہؓ کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا تھا۔ تو کہتی ہیں ہمیں بعد میں معلوم ہؤا کہ ہاتھ کی لمبائی سے کیا مراد ہے۔ اس کا مطلب صدقہ و خیرات تھا اور ہم میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وہ زوجہ سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ملیں جو صدقہ و خیرات کو بہت پسند کر تی تھیں۔
(صحیح البخاری کتا ب الزکاۃ باب 11 حدیث1420دارالکتاب العربی2004ء)
اِس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عورتوں میں جو انقلاب پیدا کیا ، اُن میں بھی مالی قربانیوں کا ذکر ملتا ہے اور بڑی کثرت سے ملتا ہے۔
بلقیس صاحبہ جو اہلیہ عمر شریف صاحب تھیں۔(یہ ریٹائرڈ ٹیلی فون سپروائزر تھے۔)1979ء میں ان کی وفات ہوئی۔ صاحبہ رؤیا وکشوف تھیں۔ بڑی نیک عورت تھیں ، عبادت گزار تھیں۔1/5 حصہ کی موصیہ تھیں۔ بڑے کھلے ہاتھ سے مالی قربانی کیا کرتی تھیں۔ زیورک کی مسجد کی تحریک ہوئی تو اپنا سارے کاسارا زیور اُس تحریک میں دیدیا۔
(ماخوذ از تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد5 صفحہ409مطبوعہ ربوہ)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ واقعہ بیان کیا کہ ایک نہایت غریب وضعیف بیوہ جو پٹھان مہاجر تھیں اور سوٹی سے بمشکل چل سکتی تھیں ، خود چل کر آئیں اور حضورؓ کی خدمت میں دو سو روپے پیش کر دیئے۔ یہ عورت بہت غریب تھی۔ اس نے دوچار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کر کے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھیں ،باقی دفتر کی امداد پر گزارا چلتا تھا۔
اسی طرح ایک پنجابی بیوہ جس کی واحد پونجی صرف ایک زیور تھا وہی اُس نے مسجد کے لئے دیدیا۔
ایک بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور یا نقدی کچھ بھی اُس کے پاس نہ تھا، اس نے استعمال کے برتن چندے میں دیدیئے۔قربانی کا ایک جوش تھا، ایک جذبہ تھا جس کے تحت انہوں نے یہ مالی قربانی کی۔
ایک بہاولپورکے دوست تھے۔ اُن کی بیوی کے پاس دو بکریاں تھیں وہ بکریاں لے کر چندے میں دینے کے لئے آگئی۔
(ماخوذ از الحکم 21فروری 1923ء صفحہ 7جلد 25شمارہ نمر 8)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ تحریک فرمائی تو ایک عورت نے پچیس تیس ہزار پاؤنڈ پیش کئے۔اسی طرح نائیجیریا کی ایک خاتون نے دس ہزار پاؤنڈ پیش کردئیے۔
(ماخوذ ازماہنامہ مصباح ربوہ جولائی 1993ء صفحہ 12)
اُس زمانے میں ان کی بڑی ویلیو(value) تھی، آج سے بہت زیادہ تھے۔ تو یہ دور دراز علاقے میں رہنے والی نائیجیرین عورت کی بھی یہ قربانیاں تھیں۔ با قی تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ خلافت سے قرب تھا۔ صحابہ کی اولاد میں سے تھے۔ قربانیوں کا پتہ تھا۔لیکن یہ لوگ جو خود احمدی ہوئے ہیں اور دُور دراز علاقوں میں رہنے والے ہیں ، ان کی بھی قربانیوں کی مثال دیکھیں کہ دس ہزار پاؤنڈز پیش کردیئے۔ الحاجہ لارگا اُن کا نام تھا۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ انقلاب ان میں زمانے کے امام کی قوتِ قدسی سے آیا جس کا ایک اظہار اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کی مدد کایہ نظارہ دکھاتے ہوئے، تائید کا نظارہ دکھاتے ہوئے، ہمیں دکھایا۔ وہ لوگ جو دُور دراز علاقوں میں رہنے والے تھے ان کے دلوں میں جماعت کی اور خلافت کی اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی اور عشق و محبت کی ایسی آگ لگا ئی جس نے دنیا کی تمام محبت کو ٹھنڈا کردیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ’’ ایک ماں نے میرے پاس دس ہزار روپے بھیجے۔ وہ لکھتی ہے کہ میرے پاس بیٹی کے زیور کے لئے دس ہزار روپے جمع تھے جو سنار کو دیئے ہوئے تھے کہ زیور خرید لوں لیکن جب آپ نے ایک مالی تحریک کی تو یہ خطبہ سن کر دل نے فیصلہ کیاکہ جب میرا خدا میری بیٹی کے لئے ساتھی دے گا تو زندہ خدا اُس کو زیور بھی دیدے گا۔ آج میرے حضور کو ضرورت ہے۔ چنانچہ سنار کو دیئے ہوئے وہ پیسے واپس لے کر یورپین مشن کے چندے میں دیدیئے۔‘‘(ماہنامہ مصباح ربوہ جولائی 1993ء صفحہ 13)
ایک واقفِ زندگی کی بیوی کے بارہ میں ہے کہ وہ لکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میں اس قربانی کے موقع پر حاضری دوں اور قرآنِ مجید کے حکم

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْآ مِمَّا تُحِبُّوْنَ

یعنی تم ہرگز نیکی کو نہیں پاسکو گے جب تک اس میں سے نہ خرچ کرو جو تمہیں محبوب ہے، جو تمہیں عزیز ہو جو تمہیں پیارا ہو۔ کہتی ہیں کہ اس آیت کے تابع میں نے سوچا کہ مجھے اپنی ملکیتی چیزوں میں سے سب سے زیادہ پیاری کونسی چیزہے جو مَیں پیش کروں۔ تو گلے کا ایک ہار جو میرے زیوروں میں سب سے زیادہ بھاری اور سب سے زیادہ پسندیدہ تھا، وہ میں نے اس تحریک میں پیش کر دیا۔
(ماخوذ از ماہنامہ مصباح ربوہ جولائی 1993ء صفحہ 13-14)
تو یہ مثالیں ہیں اور آج بھی یہ مثالیں قائم ہیں۔ابھی کچھ ہی دن ہوئے، گزشتہ دنوں میں ایک خاتون زیورکے کئی ڈبے اٹھا کر میرے پاس لے آئیں۔ تو میں نے کہا اتنا بڑا زیور آپ نے کس تحریک کے لئے دینا ہے اور گھر میں کیا رکھ کے آئی ہیں۔ انہوں نے کہا میرا کُل زیور ہے جو میں یہاں آپ کے پاس لے آئی ہوں۔ آواز اُن کی کانپ رہی تھی، کچھ خوفزدہ بھی لگیں۔ تو میں نے کہا خوفزدہ کس بات پہ ہیں آپ؟ انہوں نے کہا کہ خوف مجھے یہ آرہا ہے جس کی وجہ سے میں ڈر رہی ہوں کہ کہیں آپ یہ زیور لینے سے انکار نہ کر دیں۔ اور کئی لاکھ روپے کا وہ زیور تھا جو انہوں نے آرام سے دیدیا۔ تویہ عورتوں کی مثالیں اور قربانیاں آج بھی اسی طرح قائم ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ جب تقسیمِ ملک ہوئی اور ہم ہجرت کرکے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی۔ رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور میرا یہ زیور چندے میں دیدیں۔ مَیں نے کہا: بی بی! عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے۔ تمہارے سارے زیور سکّھوں نے لوٹ لئے ہیں۔ پارٹیشن کے وقت سکّھوں نے مسلمانوں کا سارا سامان لوٹ لیا تھا۔ تو یہی ایک زیور تمہارے پاس ہے۔ تم اسے اپنے پاس رکھو۔ اس پر اس نے کہا حضور! جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنا یہ زیور چندہ میں دیدوں گی۔ اگر سکھ باقی زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کر سکتی تھی۔ جس کی نیت کی تھی کہ چندہ میں دیدوں گی وہ بچ گیا اور باقی سارا زیور لوٹا گیا اور سارا سامان لوٹا گیا اس لئے میں مجبور ہوں، آپ میری اس بات کو ردّ نہ کریں اور اس کو وصول کرلیں۔
(ماخوذ از الازہار لذوات الخمار حصہ دوئم صفحہ 175مطبوعہ قادیان)
ایک واقعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے سنایا کہ کوپن ہیگن کی مسجد کی جب تحریک ہو رہی تھی تو عورتیں جس طرح والہانہ طور پر مالی قربانیاں کر رہی تھیں۔ اتفاق سے ایک غیر احمدی عورت بھی وہاں بیٹھی تھی، یہ نظارہ دیکھ رہی تھی تو اس نے یہ تبصرہ کیا کہ ہم نے دیوانہ وار لوگوں کو پیسے لیتے تو دیکھا ہے ، لیکن دیوانہ وار لوگوں کو پیسے دیتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا۔ یہ آج احمدی عورتوں نے ہمیں بتایا ہے کہ پیسے لیتے ہوئے جوش نہیں ہؤا کرتا، اصل جوش وہ ہے جو پیسے دیتے وقت دکھایا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ زندگی کی وہ علامت ہے جو احمدی خواتین کو سب سے زیادہ ممتاز کرتی ہے۔
(ماخوذ ازماہنامہ مصباح ربوہ جولائی 1993ء صفحہ 12)
پھر مبلغین کی بیویوں نے شروع میں جب حالات اچھے نہیں تھے، بڑی بڑی قربانیاں دیں اور بغیر خاوندوں کے رہیں اور بچے اس طرح پالے جیسے یتیمی میں پالے جاتے ہیں۔اسی طرح کا ایک واقعہ انڈونیشا کے مبلغ حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا ہے۔ بڑا لمبا عرصہ باہر رہے۔ ان کے بچے بچپن میں تو پوچھا کرتے تھے کہ ہمارے اباّ کہاں ہیں۔ آخر جب ایک وقت آیا جب بچے جوان ہو گئے، بڑے ہو گئے، شادیاں ہو گئیں تو مرکز نے فیصلہ کیا، حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے فیصلہ کیا کہ اُن کو واپس بلا لیا جائے تو اس وقت ان کی بیوی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پاس آئیں اور بڑے درد سے یہ بات کہی کہ دیکھیں جب میں جوان تھی تو اللہ کی خاطر مَیں نے صبر کیا تھا اور اپنے خاوند کی جُدائی پر اُف تک نہ کی۔ اپنے بچوں کوکسمپرسی کی حالت میں پالا پوسا اور جوان کیا۔ اب جبکہ میں بوڑھی اور بچے جوان ہوچکے ہیں، اب ان کو واپس بلانے سے کیا فائدہ۔ اب تو میری تمنا پوری کر دیجئے، میری یہ خواہش پوری کریں کہ میرا خاوند مجھ سے دور خدمتِ دین کی مہم میں دوسرے ملک میں مر جائے اور مَیں فخر سے کہہ سکوں کہ میں نے اپنی شادی شدہ زندگی دین کی خاطر قربان کردی۔
(ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ 3نومبر 2004ء صفحہ 5)
تو یہ تھے قربانیوں کے معیار اور آج بھی ہیں۔
امریکہ میں پرانے زمانے میں بڑی غربت تھی۔اکثر پیدائشی امریکن جو احمدی ہوئے وہ بڑے غریب تھے۔ ایک احمدی خاتون تھیں وہ کس طرح جماعت کی خدمت کر کے اپنی تسکین کیا کرتی تھیں۔انہوں نے ایک نیا طریقہ نکالا تھا۔ کلیو لینڈ او ہایو (Cleveland Ohio)سے تعلق رکھتی تھیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے واقعہ بیان کیا تھا کہ انہوں نے بتایا کہ ہم اتنے غریب تھے اور میرا سارا خاندان اتنا شکستہ حال تھا کہ ہم کچھ بھی خدمت کرنے کے لائق نہ تھے۔ مَیں اپنے جذبے کو تسکین دینے کے لئے یہ کیا کرتی تھی کہ جمعہ کے روز علی الصبح مشن ہاؤس جاتی، اپنے ساتھ پانی کی بالٹی اور گھر میں بنائے ہوئے صابن کا ٹکڑا لے جاتی تھی۔ یعنی اس زمانے میں امریکہ جیسے ملک میں صابن بھی میسر نہیں تھا۔ صابن بھی گھرمیں خود بناتی تھیں۔ افریقہ کے بہت سے غریب ممالک اور بہت ساری دوسری جگہوں میں بھی، ہمارے ملکوں میں بھی، دیہاتوں میں کپڑے دھونے کے لئے صابن خود بنایا جاتا ہے۔ بہرحال کہتی ہیں کہ میں صابن خود بناتی تھی اور وہ لے کر مسجد میں جاتی تھی اور پھر مسجد کو دھوتی تھی، اس سے پالش کرتی تھی اور جمعہ سے پہلے واپس آجایا کرتی تھی کہ کسی کو پتہ نہ لگے کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔ یعنی کہ ایسی قربانی تھی، ساتھ یہ بھی تھا کہ اظہار بھی نہ ہو کہ کون مسجد کی صفائی کر کے جاتا ہے۔
(ماخوذ ازماہنامہ مصباح ربوہ جولائی 1993ء صفحہ 12)
حضرت امّ المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ (جنہیں حضرت اماں جانؓ کہتے ہیں ) ان کی ایک صبر کی اعلیٰ مثال، ایک عجیب مثال ہے۔ جب ان کے بیٹے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جو اُن کے بڑے لاڈلے تھے وہ بیمار ہوئے۔ بہت علاج کروایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہر وقت ان کی فکر میں رہتے تھے۔ حضرت امّاں جان بھی دعاؤں اور علاج میں مشغول رہتی تھیں۔بہرحال تقدیر الٰہی سے جب وہ فوت ہو گئے تو حضرت اَمّاں جان نے کہا کہ

اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اور پھر کہا کہ میں خدا کی تقدیر پر راضی ہوں۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت اَمّاں جان کے اس عظیم الشان صبر کو دیکھا تو اس نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ اطلاع دی کہ ’خدا خوش ہو گیا‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ الہام حضرت اُمُّ المو منین کو سنایا کہ تمہارے اس فعل پر، راضی بہ رضا ہونے پر، اللہ تعالیٰ نے یہ الہام کیا ہے کہ ’مَیں خوش ہوگیا‘ تو حضرت امّاں جان نے کہاکہ مجھے اس الہام سے اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ دو ہزار مبارک احمد بھی مر جاتا تو میں پرواہ نہ کرتی۔
(ماخوذ از سیرت حضرت اَمّاں جانؓ۔ صفحہ 280-281)
مالی قربانیوں میں بہت بڑھی ہوئی تھیں۔ ہر تحریک میں حصہ لیتی تھیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں جب جلسے ہوتے تھے توچندہ جلسہ سالانہ کا باقاعدہ انتظام نہیں تھاتو بعض موقعوں پہ آپ اپنے ذاتی خرچ کیا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ اسی طرح پیسوں کی ضرورت پڑی۔ مہمانوں کے لئے کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی اور پیسے بھی ختم ہوگئے تھے۔ ان کے والدجو تھے حضرت میرناصر نواب صاحبؓ، وہ انتظام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے آکے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا۔ تو انہوں نے کہا جاؤ بی بی صاحبہ کے پاس جاؤ، حضرت امّاں جان کے پاس جاؤ، اُن سے کہو کہ اپنے کڑے دیدیں ، مہمانوں کے لئے ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے سونے کے کڑے فوراً اُتارے اور مہمانوں کے جلسے کے انتظام کے لئے دیدیئے۔
(ماخوذ از اصحاب احمد جلد 4صفحہ 183-184روایات حضرت منشی ظفر علی کپورتھلوی صاحبؓ)
پھر جو ہمارے احمدی شہید ہوئے اُن میں شہداء کی بیویوں نے بڑے صبر کے نمونے دکھائے۔ ڈاکٹر نسیم بابر صاحب جو اسلام آباد میں شہید ہوئے، اُن کی بیوی نے بتایا کہ میں ساری رات بچوں کے کمرے میں اُن کے سرہانے بیٹھی رہی۔ اس وقت مجھے یہ احساس تھا کہ گھر میں غیرمعمولی کیفیت دیکھ کر، روتی آنکھوں اور چیخوں سے وہ خوفزدہ نہ ہو جائیں۔ رات کو کسی نے آکے اُن کے خاوند کو شہید کر دیا تھا۔ تو خاوند کی لاش پڑی ہے اور وہ خاموشی سے بیٹھی رہیں۔ دوسرے لوگ آگئے۔ بہرحال اطلاع مل گئی تھی۔ شورشرابا تو گھر میں ہؤا ہوگا۔ اس خیال سے کہ بچے یہ شورشرابا سن کر کہیں پریشان نہ ہو جائیں ساری رات ان کے سرہانے بیٹھی رہیں۔ صبح اپنے وقت کے مطابق بچے اٹھے تو بیٹے نے خلافِ معمول جب مجھے سرہانے بیٹھے دیکھا تو پوچھا ممّی! پاپا کہاں ہیں؟ تو میں نے بہت آہستہ سے کہا، بچوں کو سمجھایا کہ رات کو آپ کے اباّ کو اللہ میاں نے اپنے پاس بلالیا ہے کیونکہ ان کی عمر ختم ہوگئی تھی۔ اور سب نے اللہ میاں کے پاس جانا ہے۔ پھر میں نے انہیں بتایاکہ تمہارے ابّا اللہ میاں کی راہ میں قربان ہوگئے ہیں، شہید ہوگئے ہیں اور وہ اس شہادت کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے ہیں۔ تو یہ آپ کی خوش قسمتی ہے، گھبرانے والی بات نہیں ہے۔ دونوں بچے پہلے تو رو پڑے۔ پھر آنسو پونچھ کر مسکرانے لگے اور گھر میں آئے ہوئے لوگوں سے ملنے گئے۔ (ماخوذ از ماہنامہ مصباح ربوہ فروری 1996ء صفحہ 33-34)
اسی طرح شمیم اختر صاحبہ کا واقعہ بیان ہؤا ہے کہ اُن کے شوہر مقبول احمد صاحب نے 1967ء میں بیعت کی تھی اور احمدیت قبول کرنے کے بعد مولوی آپ کو بہت تنگ کرتے تھے، دھمکیاں دیتے تھے۔ ان کا ایک لکڑی کا آرا تھا۔ ایک دن ایک نقاب پوش آیا اور خنجر نکال کر آپ پر وار کئے اور شہید کر دیا۔ شوہر کی شہادت پر سسرال والوں نے اُسے کہا کہ تم احمدیت چھوڑ دو۔ تو ہم تمہیں پناہ دیدیں گے۔ سسرال غیر احمدی تھا۔ دشمن بھی دھمکیاں دیتے تھے کہ احمدیت چھوڑ د و اور ہمارے ساتھ مل جاؤ، ہم تمہیں سینے سے لگائیں گے۔ لیکن اِس باحوصلہ عورت نے ہر بات کو ردّ کردیا اور کسی قیمت پر احمدیت کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔(ماخوذ از ماہنامہ مصباح ربوہ اکتوبر 1994ء صفحہ13)
یہ واقعات تو بہت ہیں۔ دیر ہو رہی ہے۔
رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاری عاشق حسین صاحب نے 1976ء میں احمدیت قبول کی اور سانگلہ ہل شہر کی رہنے والی تھیں اور احمدیت کے رستے میں ہر دکھ اور قربانی کو بڑی خوشی سے قبول کیا۔ آپ کی وفات کا نہایت ہی دردناک واقعہ ہے۔ آپ کے پالے ہوئے بیٹے نے، جسے آپ نے لَے پالک بنایا تھا ، آپ کو احمدی ہونے کی وجہ سے چھری سے حملہ کر کے قتل کر دیا، شہید کر دیا۔(ماخوذ از تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد 5صفحہ 271مطبوعہ ربوہ)
پھر مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ مبارک سلیم بٹ صاحب چونڈہ کے بارے میں لکھا ہے۔ 2 مئی1999ء کودعوت الی اللہ کے سلسلے میں قریبی گاؤں ڈوگرہ گئی تھیں۔ ایک نومبائع عابد صاحب کے گھر میں بیٹھی تھیں کہ ایک مخالف نے چھری سے وار کر کے شدید زخمی کر دیا، ہسپتال میں گئیں۔ علاج ہؤا اور بڑی خون کی بوتلیں لگیں لیکن زندگی نہ بچ سکی۔
(ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ 19جون 1999ء صفحہ 1)
پھر احمدی عورتوں کی غیرتِ ایمانی کے بارے میں حضرت مصلح موعود ؓ ایک واقعہ سناتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ سن 1719ء میں ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ امرتسری قادیان آئے اور وہاں ایک جلسہ ہوا۔ پانچ چھ ہزار غیر احمدی وہاں جمع ہوئے۔ اس وقت قادیان میں احمدی بہت تھوڑے تھے اور شہر کی آبادی بھی بہت کم تھی۔ اور جب سن 4719ء میں قادیان سے نکلے ہیں اُس وقت سترہ اٹھارہ ہزار احمدی تھے لیکن اُس سے پہلے بہت تھوڑے تھے،اُس زمانے میں تقریباً دس بارہ سو آدمی تھا۔ اور چھ سات ہزار غیراحمدیوں کا مجمع بہت بڑا مجمع تھا۔ تو کہتے ہیں مولوی ثناء اللہ صاحب نے خیال کیا کہ اُنہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف سخت بد زبانی کی۔ قادیان کے قریب ایک گاؤں بھینی ہے۔ وہاں کی ایک احمدی عورت اس جلسہ گاہ کے قریب کھڑی تھی۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے جب حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دیں اور تمام احمدی مرد بیٹھے رہے تو اس نے مولوی صاحب کو پنجابی میں گالی دے کر بڑا بُرا بھلا کہا کہ تم حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف بولتے ہو۔ اس پر غیراحمدی جوش میں آگئے اور اس عورت کو مارنے کے لئے اٹھے۔ بعض احمدی اسے بچانے لگے تو دوسرے احمدیوں نے کہا کہ ایسا نہ کرو، حضرت صاحب نے احمدیوں کو فساد کرنے سے منع کیا ہؤا ہے۔ اس پر حضرت صاحب نے کہا کہ میں ان احمدیوں پر بھی بڑا خفا ہؤا کہ اس احمدی عورت نے غیرت کا مظاہرہ کیا جبکہ مردوں کو کرنا چاہیے تھا اور پھر تم اس احمدی عورت پر جب غیراحمدیوں نے حملہ کر دیا تو اس عورت کی عزت کے لئے بھی کھڑے نہیں ہوئے، تم لوگ بے شرم ہو، میرے حکم کا مطلب یہ ہرگز نہیں تھا۔
(ماخوذ از الازہار لذوات الخمار حصہ دوئم صفحہ 183-184مطبوعہ قادیان)
پھر تبلیغ کا میدان ہے اس میں ہماری عورتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا حصہ لیتی ہیں۔ انڈونیشا کی لجنہ نے تبلیغ کاایک عجیب طریقہ نکالا کہ ایک گاؤں میں تبلیغ کے لئے انہوں نے جانا تھا، وہاں لجنہ نے وقارِ عمل کر کے تین کلو میٹر لمبی سڑک بنادی۔ اس سڑک کا گاؤں والوں کو اب بہت فائدہ ہو رہا ہے اور ان کو احساسِ تشکر بیدار ہو رہا ہے جس کے نتیجہ میں احمدیت کی طرف ان کی توجہ مبذول ہوئی۔ اور جب 1998ء کا یہ واقعہ لکھا گیا ہے تو اس وقت تک اس سڑک کی وجہ سے اس گاؤں میں تبلیغ کے موقعے پیدا ہوئے اور پانچ سو احمدی وہاں ہو گئے۔ اب تو شاید زیادہ ہوں۔
(ماخوذ از روزنامہ الفضل ربوہ 25اگست1996ء صفحہ 4)
پھر تبلیغ کا اور غیرتِ ایمانی کا ایک واقعہ سنیں۔ چک منگلا اورچنڈبھروانہ کے علاقے ربوہ کے قریب ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں یہاں بھی جماعت ترقی کر رہی ہے اوریہی وہ بہادر لوگ ہیں جن کی ایک عورت کی مثال حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے جلسے میں دی تھی۔ تقریر میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ بیعت کرنے یہاں آئی تھی کہ شام کو اس کی بیٹی بھی آگئی۔ اُس نے کہا امّاں ! تُو نے مجھے کہاں بیاہ دیا ہے؟ وہ لوگ تو میری باتیں سنتے نہیں۔ تُو نے مجھے کتابیں دی تھیں ، احمدیت کا لٹریچر دیاتھا کہ جا کے تبلیغ کرو۔ مَیں اُنہیں پڑھ کر سناتی ہوں توسنتے نہیں ہیں۔ میں احمدیت پیش کرتی ہوں تو ہنسی مذاق کرتے ہیں اور مجھے پاگل قرار دیتے ہیں۔ وہ عورت کہنے لگی بیٹی! میری جگہ آکر اپنے باپ اور بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کی روٹی پکا، مَیں تیرے سسرال جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ کون میری بات نہیں سنتا۔ مَیں ان سب کو احمدی بنا کر ہی دَم لوں گی۔ حضورؓ نے لکھا ہے کہ شایدیہی عورت جلسے سے پہلے، چند ماہ قبل یہاں آئی تھی۔ اُس کے پاس ایک بچہ تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے، وہ ربوہ نہیں آتا تھا۔ مَیں اس کا بچہ اُٹھا لائی ہوں کہ وہ اس بچے کی وجہ سے ربوہ تو آئے گا۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس کا وہ بھائی احمدیت کے قریب ہے۔ لیکن بعد میں پتہ لگا کہ اسی طرح وہ ربوہ آیااو ر پھر وہ اللہ کے فضل سے احمدی ہوگیا۔
(ماخوذ از الازہار لذوات الخمار حصہ دوئم صفحہ 190مطبوعہ قادیان)
حضور یہ واقعہ لکھ کر کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر آنے والے یہاں کا ماحول دیکھ کر اور یہاں کی ہماری تنظیم دیکھ کر، ایک نظام دیکھ کر، رویّے دیکھ کر اور احمدیوں کے آپس کے تعلقات دیکھ کر وہ مجبور ہوتے ہیں کہ پھر وہ دلچسپی لیں اور پھر احمدیت قبول کریں۔
اسلام کی تاریخ میں ایک بہادر خاتون کاذکر آتاہے جن کا نام حضرت اُمِّ عمّارہؓ تھا۔ حضرت اُمِّ عمّارہؓ نے اُحد کے بعد بیعت الرضوان، خیبر اور فتح مکہّ میں شرکت کی۔حضرت ابو بکر کے عہد میں یمامہ کی جنگ پیش آئی اس میں بھی بڑی جرأت سے لڑیں اور ان کو بارہ زخم آئے اور اُن کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔ ان کے بارہ میں آتا ہے کہ ہجرت نبوی کے تیسرے سال مسلمانوں کو اُحد کا معرکہ پیش آیا تھا۔ حضرت اُمِّ عمارہؓ بھی اس میں شریک ہوئیں اور ایسی شجاعت اور جانبازی اور عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا کہ تاریخ میں خاتونِ اُحد کے لقب سے مشہور ہوئیں۔
طبقات ابنِ سعد کی روایت ہے کہ ان کے شوہر اور ان کے دونوں بڑے فرزند عبداللہ اور حبیب بھی غزوۂ اُحد میں ان کے ساتھ شریک تھے۔ جب تک مسلمانوں کا پلّہ بھاری رہا،اُمِّ عمارہؓ دوسری عورتوں کے ساتھ مجاہدین کو پانی پلاتی رہیں اور زخمیوں کی خبر گیری کرتی رہیں۔ جب ایک اتفاقی غلطی کی وجہ سے جنگ کا پانسا پلٹ گیا اور مجاہدین انتشار کا شکار ہوگئے، اس وقت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس صرف چند جان نثار صحابی رہ گئے تھے۔ حضرت اُمِّ عمارہؓ نے یہ کیفیت دیکھی تو انہوں نے مشکیزہ پھینک کر( جو پانی کی مشک اٹھائی ہوئی تھی وہ پھینک دی) اور تلوار اور ڈھال سنبھال لی۔ اور حضور کے قریب پہنچ کر کفار کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں۔ کفار بار بار یورش کرتے تھے، حملہ کرتے تھے اور حضور کی طرف بڑھتے تھے اور حضرت اُمِّ عمارہؓ اُنہیں دوسرے ثابت قدم مجاہدین کے ساتھ مل کر تیر اور تلوار سے روکتی تھیں۔ یہ بڑا نازک وقت تھا۔ بڑے بڑے بہادروں کے قدم لڑکھڑا گئے تھے۔ لیکن یہ شیر دل خاتون کوہِ استقامت بن کر میدان جنگ میں ڈٹی ہوئی تھیں۔ اتنے میں ایک مشرک نے ان کے سر پر پہنچ کر اپنی تلوار کا وار کیا۔ اُمِّ عمارہؓ نے اسے اپنی ڈھال پر روکا اور پھر اس کے گھوڑے کے پاؤں پر تلوار کا ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ گھوڑا اور سوار دونوں زمین پر آگئے۔ پھر لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔ یہ سارا حال یہ ماجرا دیکھ کر آپؐ نے اُمِّ عمارہؓ کے بیٹے عبداللہ کو آواز دی اور فرمایا: عبداللہ اپنی ماں کی مدد کر۔ وہ فوراً اُدھر لپکے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس مشرک کو قتل کر دیا۔ تو عین اسی وقت ایک دوسرا مشرک تیزی سے اُدھر آیا اور حضرت عبداللہ کا بایاں بازو زخمی کرتا ہوا نکل گیا۔ حضرت اُمِّ عمارہؓ نے اپنے ہاتھ سے عبداللہ کا زخم باندھا اور پھر فرمایا: بیٹے جاؤ اور جب تک دَم میں دَم ہے لڑو۔ حضورؐ نے حضرت امّ عمارہؓ کے اس جذبۂ جان نثاری کو دیکھ کر فرمایا کہ اے اُمِّ عمارہؓ! جتنی طاقت تجھ میں ہے اَور کسی میں کہاں ہو گی؟ اسی اثناء میں وہی مشرک جس نے عبداللہ کوزخمی کیا تھا، پلٹ کر پھر حملہ آور ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمِّ عمارہؓ سے فرمایا: اُمِّ عمارہؓ سنبھلنا، یہ وہی بدبخت ہے جس نے عبداللہ کو زخمی کیا تھا۔ حضرت اُمِّ عمارہؓ جوشِ غضب میں اس کی طرف جھپٹیں اور تلوار کا ایک ایسا کاری وار کیا کہ وہ دو ٹکڑے ہو کر نیچے گر گیا۔ اس پر حضورصلی اللہ علیہ و سلم نے تبسّم فرمایا اور فرمایا: اُمِّ عمّارہؓ نے تو اپنے بیٹے کا خوب بدلہ لیا۔
اسی جنگ کے دوران ایک بدبخت نے دُور سے حضورؐ پر پتھر پھینکا جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دو دانت شہید ہوگئے۔ اور پھر اس وقت جو صحابہ تھے جو شمع رسالت کے پروانے تھے، وہ بڑے اضطراب میں ادھر متوجہ ہوئے اور ابنِ قمیئہ نامی ایک کافر بھی بڑا جوش سے حضورؐ کے قریب پہنچ گیا اور تلوار کا ایک بھرپور وار کیا اور حضورؐ نے جو خَود پہنا ہوا تھا، اُس کی تلوار سے، اس خود کی دو کڑیاں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرے پر اندر کھُب گئیں اوروہاں سے خون بہہ پڑا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہؤا کہ کسی کو کچھ پتہ نہ لگا۔ اُمِّ عمارہؓ بیتاب ہو گئیں اور آگے بڑھ کر ابنِ قمیئہ کو روکا۔ یہ شخص قریش کا بڑا مشہور شہسوار تھا لیکن اس شیر دل خاتون نے اس کی پروا نہیں کی کہ کتنا بہادر ہے اور نہایت جرأت کے ساتھ اس پر حملہ کیا۔اس نے دوہری زرّہ پہنی ہوئی تھی۔ اُمِّ عمارہؓ کی تلوار اس پر صحیح طرح نہ لگ سکی، اُچَٹ گئی۔ لیکن اس بہادر کو بھی جو کافر تھا یہ جرأت نہ پیدا ہوئی کہ اس عورت سے مقابلہ کر سکے۔ وہ پہلا حملہ کھا کے ہی وہاں سے دوڑ گیا۔امِّ عمارہؓ کو بھی زخم آئے۔ حضور نے خود پھر حضرت اُمِّ عمارہؓ کے زخم کی پٹی کروائی۔ اور کئی بہادر صحابہ کا نام لے کر فرمایا کہ واللہ! آج اُمِّ عمارہؓ نے ان سب سے زیادہ بڑھ کر بہادری دکھائی۔ اُمِّ عمارہؓ نے عرض کیا:یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ میرے لئے دعاکریں کہ مجھے جنت میں بھی آپ کی معیت نصیب ہو۔ حضورؐ نے نہایت خشوع سے اس کے لئے دعا مانگی اور با آوازِ بلند فرمایا

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھُمْ رُفَقَآئِی فِی الْجَنَّۃِ۔

حضرت اُمِّ عمارہؓ کو بڑی مسرت ہوئی اور ان کی زبان پر بے اختیار یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی کوئی پروا نہیں۔
لڑائی ختم ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت تک گھر تشریف نہیں لے گئے جب تک آپ نے حضرت عبداللہ بن کعب زمانی کو بھیج کر حضرت اُمِّ عمارہؓ کی خیریت دریافت نہ کر لی۔ حضورؐ فرمایا کرتے تھے: اُحد کے دن مَیں دائیں بائیں جدھر نظر ڈالتا تھا اُمِّ عمّارہؓ ہی اُمِّ عمارہؓ لڑتی نظر آتی تھیں۔
ایک روایت میں ہے کہ غزوہ ٔاُحد میں حضرت اُمِّ عمارہ ؓ کے جسم پر بارہ زخم لگے تھے اور علامہ ابنِ سعد کا بیان ہے کہ غزوۂ اُحد کے بعد انہوں نے بیعتِ رضوان میں ، جنگِ خیبر اور دوسری جنگوں میں شرکت کی اور ایک روایت میں ہے کہ فتح مکہّ کے وقت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھیں۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد ، جزء الثامن صفحہ 440تا442دارالاحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
حضرت اُمِّ عمّارہؓ کا یہ جرأتمندانہ فعل اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کے لئے تھا، اسلام کی خاطر قربانی کرنے کے لئے تھا۔ آج بھی احمدی عورتوں نے اس زمانے کی مناسبت سے اس مقصد کے حصول کے لئے قربانیاں دی ہیں اور دے رہی ہیں۔اور صبر کے نمونے دکھائے ہیں اور دکھارہی ہیں۔ چند ایک کی مَیں نے مثالیں دیں۔ اس زمانے میں اگر جنگ کے حالات ہوں تو احمدی عورت کو وہ نمونے دکھانے پڑے تو وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ دکھائے گی اور پیچھے نہیں رہے گی۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ ضرورت پڑے تو یہ نمونے احمدی عورتیں دکھا سکتی ہیں۔ قادیان میں پارٹیشن کے وقت جب شعائراللہ کی حفاظت کے لئے اور وہاں بہت ساری عورتیں جمع تھیں ، اُن کی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے ایک انتظام تھا۔ تو ایک انتظام کے تحت عورتوں کو عورتوں کی ہی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر سے باہر کے ایک محلے میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی۔ اُس عورت نے مَردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا۔ ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ سکھ اور ہندوؤں کو جو تلواروں اور بندوقوں سے ان پر حملہ آور ہوتے تھے تو یہ عورتیں بھگا دیتی تھیں اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور وہ اُن کی سردار بنائی گئی تھی۔ یہ نہیں کہ سردار بن کے پیچھے رہ رہی ہے، سب سے آگے سردار تھی۔اور وہ عورت اس زمانے میں جب بیان کیا زندہ تھی، عورتوں کو سکھاتی تھی کہ کس طرح لڑنا ہے۔
(ماخوذ از الازہار لذوات الخمار حصہ دوئم صفحہ 176مطبوعہ قادیان)
وہ جو عورت تھی جس نے یہ جرأت دکھائی اس عورت کے دل میں یہ جوش یقینا اس کے جوشِ ایمانی کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔
پس یہ نمونے ہمیں اس یقین پر مزید قائم کرتے چلے جانے والے ہونے چاہئیں کہ اصل زندگی خداتعالیٰ کی رضا ہے۔ آج ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان نمونوں پر قائم رہنا ہے اور اپنی نسلوں میں قائم رکھنا ہے تاکہ اس فیض سے محروم نہ رہیں جو اپنے ایمان کی اعلیٰ مثالیں قائم کر کے اوّلین نے حاصل کیا تھا اور جو آج بھی مسیح محمدی کے ماننے والے حاصل کر رہے ہیں۔پس پاک دل اور صاف روح ہو کر قربانیوں میں آگے سے آگے بڑھتی چلی جائیں اور اپنی روایات کو کبھی نہ چھوڑیں اور اپنی نسلوں کے ذہنوں میں بھی یہ احساس بٹھاتی چلی جائیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد خداتعالیٰ کی رضا ہونا چاہیے اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہو۔
مَیں پھر ایک بار کہتا ہو ں کہ اے احمدی عورتو اور اے بچیو اور خاص طور پر وہ بچیو جنہوں نے اپنے آپ کو وقف کیا ہے اور وقفِ نو میں شامل ہو! تمہیں اللہ تعالیٰ نے امامِ وقت کے دَور کی اُمِّ عمارہؓ بننے کا موقع دیا ہے۔ سب کچھ بھول جاؤاور اسلام کے خلاف جنگ میں ، جو براہین اور دلا ئل کی جنگ ہے، اپنے آپ کو تیار کر کے دشمن پر جھپٹ پڑو۔ دنیا کی چھوٹی چھوٹی لالچوں کو بھول جاؤ اور صرف اور صرف ایک خیال رکھو کہ آج ہم نے دنیا کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کے جھنڈے کے نیچے لاکر کھڑا کرنا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں