حضرت حافظہ زینب بی بی صاحبہؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍جولائی 1999ء میں مکرمہ طاہرہ جبیں صاحبہ اپنی نانی جان حضرت حافظہ زینب بی بی صاحبہؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ آپؓ حضرت حافظ احمد دین صاحبؓ آف چک سکندر کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں جو بہت متقی اور بزرگ عالم دین تھے اور اپنی مسجد میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ حضرت حافظہ زینب بی بی صاحبہ کی شادی حضرت حافظ مولوی فضل الدین صاحبؓ سے ہوئی تو آپؓ کھاریاں آگئیں۔ یہاں بہت سی خواتین اور بچیوں نے آپؓ سے قرآن کریم پڑھا اور یہ سلسلہ زندگی بھر جاری رہا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے جب احمدیت قبول کی تو آپؓ نے بھی بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ زمیندارہ اور دیگر گھریلو کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے آپ کی شدید خواہش تھی کہ کچھ وقت ملے تو قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کا قرب حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت مولوی صاحبؓ نے کرایہ کا بندوبست کیا اور آپؓ دو ماہ کے لئے قادیان تشریف لے گئیں۔
قادیان میں آپؓ اکثر حضور علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا کرتی تھیں۔ ایک بار حضورؑ نے فرمایا کہ دعا کے لئے لکھ کر بیت الدعا کی کتابوں کی الماری پر لٹکادو، میری جب بھی نظر پڑے گی دعا کروں گا۔ سو آپؓ نے اسی طرح کیا۔
ایک دفعہ حضورؑ نے دریافت فرمایا کہ آپ میں کتنی عورتیں حافظ قرآن کریم ہیں۔ اس بات نے آپؓ پر گہرا اثر کیا اور باوجود یکہ آپؓ کے چھوٹے چھوٹے تین بچے تھے اور زمیندار گھرانہ تھا۔ آپؓ نے واپس آکر قرآن کریم حفظ کرنا شروع کردیا اور سارا قرآن حفظ کردیا۔
آپؓ تہجد گزار تھیں اور نہایت سوز و گداز سے نماز ادا کرتیں۔ نماز فجر کے بعد تسبیح و تحمید میں مصروف ہو جاتیں۔ پھر بچے اور عورتیں قرآن کریم پڑھنے کے لئے آنا شروع ہو جاتے اور سارا دن یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس میں احمدی اور غیراحمدی کی کوئی تفریق نہ تھی۔ آپؓ قرآن پڑھاتی جاتیں، دعوت الی اللہ بھی کرتی جاتیں اور دینی مسائل بھی سمجھاتی جاتیں۔ دعوت الی اللہ کے لئے آپؓ نے کئی سہ حرفیاں بھی لکھیں۔
1934ء میں کھاریاں میں لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا تو آپؓ پہلی صدر مقرر ہوئیں۔ 1947ء میں آپؓ نے اپنے سارے کپڑے مہاجرین میں تقسیم کردیئے۔ 1948ء میں آپؓ نے وفات پائی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں