حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اسیران راہِ مولیٰ کے ساتھ بے پناہ شفقت کے انداز

26؍اپریل 1984ء کو آمر ضیاء الحق کے آرڈیننس کے نفاذ کے ساتھ ہی پاکستان کے احمدیوں پر مصائب کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہوگیا۔ اس ظالمانہ قانون کے نتیجہ میں بے شمار احمدیوں نے جان و مال کی قربانیاں انتہائی بشاشت کے ساتھ پیش کیں۔ بہت سے بے گناہ احباب کو مختلف مقدمات میں ماخوذ کرکے کئی کئی سال پس دیوارِ زنداں رکھا گیا۔ انہی میں ایک مکرم محمد الیاس منیر صاحب ہیں جنہیں احمدیہ مسجد ساہیوال پر رات کو احراری مولویوں کے حملے کے موقعہ پر احمدیوں کے اپنے دفاع میں گولی چلانے کی پاداش میں دس دیگر احمدیوں کے ساتھ جھوٹا مقدمہ قائم کرکے قید کردیا گیا اور آخر پھانسی کی سزا کے اعلان کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ان احمدیوں کو رہائی عطا فرمائی اور ایک نئی زندگی بخشی۔ ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان کے ’’سیدنا طاہر نمبر‘‘ میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی اسیران راہِ مولیٰ کے ساتھ بے پناہ شفقت کے انداز کو مکرم الیاس منیر صاحب نے قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے اور پاکستان بھر میں مختلف جیلوں میں قید اسیرانِ راہِ مولیٰ کے نام لکھے جانے والے حضورؒ کے بہت سے خطوط اس مضمون کی زینت بنائے گئے ہیں۔
یوں تو حضورؒ کا دل پاکستان کے ہر احمدی کے لئے ماہیٔ بے آب کی طرح تڑپتا تھا لیکن اسیرانِ راہ مولیٰ کا ذکر آتے ہی ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ جاتے۔ سانحہ ساہیوال کے بارہ میں جب حضورؒ کی خدمت میں رپورٹ بھجوائی گئی تو آپؒ نے ساری رات دعائیں کرتے ہوئے اضطراب میں گزار دی۔ ذرا سی دیر کو جو آپؒ کی آنکھ لگی تو آپؒ نے حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو دیکھا جنہوں نے حضورؒ کو السلام علیکم کہا۔ اس خواب سے حضورؒ کو یقین ہوگیا کہ جماعت اِس طوفانِ مخالفت میں سلامتی اور کامیابی کے ساتھ گزر جائے گی۔ لیکن اس کے ساتھ اسیرانِ غم کو آپؒ نے اپنے اوپر پوری طرح حاوی کرلیا۔ اور اپنے ایک خط میں فرمایا: ’’مجھے تو بعض دفعہ لگتا ہے کہ میرا جسم آزاد مگر اسیران راہ مولا کے ساتھ قید میں رہتا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ مَیں کہاں کہاں رہتا ہوں‘‘۔
ایک خط میں فرمایا: ’’آپ کے دورِ یوسفی میں ایک دن بھی مجھے ایسا یاد نہیں کہ آپ یاد نہ آئے ہوں۔ بارہا آستانہ الوہیت پر اس گداز دعا سے میرا دل پگھل پگھل کر بہا ہے کہ اے میرے پیارے ربّ! مجھے جلد تر اپنے پیاروں کی رہائی دکھاکر اس جان گسل غم سے رہائی بخش جس نے مجھے یرغمال بنا رکھا ہے اور جو میری آزادی کی خوشی میں ایسی تلخی گھولتا ہے کہ یہ آزادی جرم دکھائی دینے لگتی‘‘۔
حضورؒ نے اسیران کے لئے ایک لمبے عرصہ تک اس رنگ میں دعائیں کی کہ گویا ساری فضا میں شورِ قیامت برپا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر قربانی کے لئے اپنے ربّ کے حضور حاضر بھی دکھائی دیتے۔ چنانچہ اس کا حال یوں بیان فرماتے: ’’بعض اوقات اس درد کے ساتھ دل سے دعا نکلتی ہے کہ یقین نہیں آتا کہ رحمت باری اسے ٹھکراسکے گی لیکن وہ حکمتِ کُل ہے اور ہم نادان جاہل بندے۔ وہ ہماری فلاح اور بہبود کو ہم سے بہتر سمجھتا ہے۔ اگر اسلام کے احیائے نو کے لئے وہ ہم ناکارہ بندوں کو قربانی کی سعادت بخشنا چاہتا ہے تو ہم بسروچشم حاضر ہیں ۔ لیکن بڑے خوش نصیب وہ جنہیں اس کی نظر عنایت پھولوں کی طرح چُن لے لیکن اُن بے کسوں کا کیا حال ہوگا جن کے دل کے نصیبے میں اپنی محرومی کا احساس اور اپنے پیاروں کی یادوں کے کانٹے رہ جائیں‘‘۔
اپنے اشعار میں بھی حضورؒ نے اپنی محبت کا بے مثال اظہار کیا اور اپنی یہ نظم اپنی آواز ریکارڈ کرواکے اسیران کو جیل میں بھجوائی:

کیا تم کو خبر ہے رہِ مولیٰ کے اسیرو!
تم سے مجھے ایک رشتۂ جاں سب سے سوا ہے
کس دن مجھے تم یاد نہیں آئے مگر آج
کیا روزِ قیامت ہے کہ اک حشر بپا ہے

حضورؒ کو یہ بھی احساس تھا کہ ساری جماعت اپنے اسیر بھائیوں کے لئے دعا گو ہے۔ چنانچہ فرمایا: ’’اپنے دل کی کیفیت مزید کچھ نہیں لکھتا کہ تم بے چین نہ ہوجاؤ۔ کیا تمہیں علم نہیں کہ کروڑوں احمدیوں کے دلوں کا چین تم چند مظلوم احمدیوں کے دلوں سے وابستہ کردیا گیا ہے‘‘۔ پھر فرمایا: ’’تمہاری تو زندگی بھی زندگی اور موت بھی زندگی ہے۔ تم خاک بسر تھے، میرے مولا کی رضا نے تمہیں عرش نشین بنادیا، مسیح کی غلامی میں تم بھی زمین کے کناروں تک شہرت پاگئے۔ آج ایک کروڑ احمدیوں کے دھڑکتے ہوئے دل تمہیں دعائیں دے رہے ہیں اور دو کروڑ نمناک آنکھیں تم پر محبت اور رشک کے موتی نچھاور کر رہی ہیں۔ میرا دل بھی اُن دلوں میں شامل ہے ، میری آنکھیں بھی اُن آنکھوں میں گھل مل گئی ہیں‘‘۔
حضورؒ نے دورانِ اسیری تربیت کا پہلو بھی پیش نظر رکھا اور آئندہ آنے والے حالات کے لئے تیار فرماتے رہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب ’’تذکرۃالشہادتین‘‘ کے مطالعہ کی تلقین فرمائی۔ یہی وجہ تھی کہ کسی اسیر راہ مولیٰ کا سر دنیا کی عدالت کے سامنے اور پھانسی کی سزا کے اعلان کے بعد صدر کے سامنے رحم کی اپیل کرنے کو نہیں جھکا۔ اس وقت حضورؒ نے ایک خطبہ میں فرمایا: ’’ہم تو اس صاحب جبروت خدا کو جانتے ہیں، کسی اَور کی خدائی کے قائل نہیں اس لئے احمدیوں کا سر ان ظالمانہ سزاؤں کے نتیجہ میں جھکے گا نہیں بلکہ اَور بلند ہوگا یہاں تک کہ خدا کی غیرت یہ فیصلہ کرے گی کہ دنیا میں سب سے زیادہ سربلندی احمدی کے سر کو نصیب ہوگی کیونکہ یہی وہ سر ہے جو خدا کے حضور سب سے زیادہ عاجزانہ طور پر جھکنے والا سر ہے‘‘۔ اسی طرح ایک مکتوب میں فرمایا: ’’یہ چار دن کی زندگی تو بہت سخت ناقابل اعتبار ہے اور یہ بھی پتہ نہیں کہ کیسے انجام کو پہنچتی ہے۔ ہم ہرگز نہیں چاہتے کہ وہ ہم سے اتنی جلد جدا ہوں مگر مرضی مولا اگر یہی ہے تو اے خوش نصیبو! جو رضائے باری تعالیٰ کی لافانی زندگی پانے والے ہو اور آسمانِ احمدیت کے درخشندہ ستارے بن کر چمکنے والے ہو اور جو تاریخ احمدیت میں ہمیشہ محبت اور عظمت اور پیار اور احترام کے ساتھ یاد کئے جاؤ گے، دمِ واپسیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی فتح اور غلبہ کی دعا کرنا اور اس عاجز ناکارہ انسان کی بخشش کی بھی دعا کرنا۔ تم تو ہر امتحان میں کامیاب و کامران ٹھہرے اور ہر ابتلاء سے سرخرو ہوکر نکلے۔ کاش میری بھی یہ فریاد قبول ہو کہ ربّنا توفّنا مَع الاَبرار‘‘۔
سزائے موت سنائے جانے کے بعد جب اسیران نے پھانسی کی کوٹھڑی کے حوالہ سے خط لکھا تو حضورؒ نے جواباً تحریر فرمایا: ’’تم تو کال کوٹھڑی کے نہیں حجرۂ نور کے مکین ہو۔ یہ تم نے کیا لکھ دیا۔ رضائے باری تعالیٰ کے قیدی تو جس زنداں میں بھی رہیں اسے بقعۂ نور بنا دیتے ہیں۔ ایک اَور بات بھی تم نے اپنے خط میں غلط لکھ دی۔ تم تو لافانی زندگی کے سزاوار ٹھہرائے گئے ہو۔ کون ہے جو تمہیں ’’سزائے موت‘‘ دے سکے۔ وہ تو خود مُردہ ہیں۔ کبھی مُردوں نے بھی زندوں کی شہ رگ پر پنجہ ڈالا ہے۔ اگر شہادت تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے تو کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو تمہیں مار سکے۔ شہادت کی دائمی زندگی موت کی منزل سے ہوکر نہیں گزرتی‘‘۔ اس کے بعد اسیران نے بظاہر تاریک کوٹھڑیوں کو ’’زندگی کی بقعۂ نُور کوٹھڑی‘‘ لکھنا شروع کردیا۔
حوصلہ افزائی کا انداز اس خط میں ملاحظہ کریں: ’’اگر خدا کی تقدیر آپ کو ایک عظیم شہادت کا مرتبہ عطا کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے تو یہ ایک سعادت ہے جو قیامت تک آپ کا نام دین و دنیا میں روشن رکھے گی اور آپ ہمیشہ زندہ رہیں گے اور کوئی نہیں جو آپ کو مار سکے۔ قیامت تک آنے والی نسلیں آپ کے ذکر پر روتے ہوئے اور تڑپتے ہوئے آپ کے لئے دعائیں کیا کریں گی اور حسرت کیا کریں گی کہ کاش آپ کی جگہ وہ ہوتے۔ … مَیں نے اپنے دل کو ٹٹولا تو یہ معلوم کرکے میرا دل حمد اور شکر سے بھر گیا کہ اگر آپ کو بچانے کیلئے مجھے تختۂ دار پر لٹکا دیا جاتا تو مَیں بخوشی اپنے آپ کو اس کیلئے تیار پاتا‘‘۔
اسیران راہ مولیٰ کے خطوط کے حوالہ سے حضورؒ نے ایک بار لکھا: ’’محبت جب عقل و ذہن کو مغلوب کرلیتی ہے تو ایک پختہ کار انسان بھی بچوں کی سی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ یہی حال میرا ہوا جب مَیں نے آپ کا زندگی کی کوٹھڑی سے لکھا ہوا خط دیکھا۔ بے اختیار اسے چوما، اس کی پیشانی کے بوسے لئے اور اسے سر آنکھوں سے لگاکر عجیب روحانی تسکین حاصل کی‘‘۔
اپنے بے شمار خطوط میں حضورؒ نے اللہ تعالیٰ سے اسیران کی رہائی اور زندگی کی بھیک مانگی۔ کبھی فرمایا: ’’مَیں جانتا ہوں کہ شہادت اور پھر ایسی عظیم شہادت ایک قابل صد رشک سعادت ہے لیکن مَیں یہ بھی جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ظاہری جان لئے بغیر بھی لازوال زندگی عطا کرسکتا ہے‘‘۔ ایک خط میں عرض کیا: ’’اے اللہ! … انہیں موت کی تنگ راہ سے گزارے بغیر ابدالآباد کی زندگی عطا فرما اور اسی دنیا میں انہیں اہل بقا میں شمار فرمالے اور مجھے یہ خیر کی بھیک عطا کر کہ مَیں انہیں اپنے سینہ سے لگاکر ان کی پیشانی کو بوسہ دوں اور اپنے دل کی پیاس بجھاؤں‘‘۔
حضورؒ نے اسیران کو اپنے ہاتھ سے خطوط لکھنے کے علاوہ خطبات اور خطابات میں بار بار اُن کی قربانیوں کا ذکر فرمایا اور دعا کی تحریک فرمائی۔ حضورؒ کے خطاب جب اسیران تک پہنچتے تو جیل کی دیواروں میں بھی انہیں آزادی کا احساس ہونے لگتا۔ اسیران کی دلداری کے لئے حضورؒ ہر عید اور دیگر مواقع پر تحائف بھجواتے۔ دنیا بھر میں جماعت کو ملنے والی ترقیات کو شہداء اور اسیران کی قربانیوں کی طرف منسوب فرمادیتے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے کسی اسیر کو ظالموں کی قید سے رہائی بخشتا تو حضورؒ اللہ کی حمد و ثناء کے گیت گاتے ہوئے جشن تشکر مناتے، مٹھائی تقسیم کی جاتی، ایم ٹی اے کی کلاسوں میں ذکر ہوتا اور خطوط میں مبارکباد دیتے ہوئے کچھ اس قسم کا اظہار ہوتا: ’’انسان کے ہاتھوں انسان کے قید ہونے کی تاریخ میں اور پھر اس کی رہائی میں ایسا واقعہ کہیں نہیں ہوا کہ ساری دنیا سے لوگوں کو پہلے قید پر غم لگا ہو اور پھر رہائی کی خوشیاں منائی ہوں۔ یہ سب اللہ کا احسان ہے‘‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں