حضرت مولانا کرم الٰہی صاحب ظفرؒ کی چند حسیں یادیں

(مطبوعہ رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری فروری 2025ء)

حضرت مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب

( تحریر: ڈاکٹر مبارز احمد ربانی)

سپین کے مبلغ احمدیت حضرت مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب وہ بزرگ شخصیت تھے جن کو سر زمین سپین میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے ساتھ ایسی عظیم الشان خدمات بجا لانے کی توفیق ملی جن کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔ خاکسار کے والد محترم ملک عابد ربانی صاحب کو بھی کچھ عرصہ سپین میں حضرت مولاناصاحب کے ساتھ رہنے اور کام کرنے کا موقع ملا۔ حضرت مولانا صاحب نے محترم والد صاحب کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا۔ نہ صرف آپ کا بلکہ آپ کی فیملی کا بھی والد صاحب کے ساتھ بہت پیار اور شفقت کا سلوک رہا۔خاکسار بچپن سے ہی والد صاحب سے حضرت مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر کا ذکرِ خیر سنتا رہا اور ہمیشہ آپ کی دنیا سے بے رغبتی اور سرزمین سپین میں اسلام کے نفوذ کے لیے کی جانے والی اَن تھک کوششوں سے متأثر رہا۔ والد صاحب کے علاوہ خاکسار کا بھی حضرت مولوی صاحب کی اہلیہ محترمہ رقیہ بشریٰ صاحبہ ( جن کو خاکسار بڑی امی کہتا تھا) کے ساتھ پیار اور عقیدت کا تعلق رہا۔
ذیل میں حضرت مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر کی بزرگ شخصیت کےچند ایسے قابل ذکر پہلو ہدیۂ قارئین ہیں جو والد محترم ملک عابد ربانی صاحب کی زبانی مجھ تک پہنچے ہیں اور اُن کی زبانی ہی یہاں تحریر کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے بیان فرمایا:

شخصیت

خاکسار جب اٹلی سے میڈرڈ سپین پہنچا تو ملاقات کے لیے محترم کرم الٰہی ظفر صاحب کے گھر حاضر خدمت ہوا۔ دروازے پر ایک انتہائی سادہ، منکسرالمزاج شخصیت کے مالک حضرت مولانا کرم الٰہی صاحب ظفر کو پایا۔ آپ انتہائی محبت کے ساتھ مجھے گھر کے اندر لے گئے اور محترم عبدالستار خان صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ کو فون کرکے فرمایا : ایک احمدی بھائی آئے ہیں۔ آپ تشریف لے آئیں۔

حضرت مولوی صاحب کی سب سے نماياں خوبی جس نے مجھے بے حد متأثر کيا وہ یہ تھی کہ آپ کی آنکھوں ميں دنيا کی بے ثباتی بڑی آسانی سے پڑھی جا سکتی تھی اور بعض اوقات آنکھوں ميں آنسو بھی تيرتے نظر آتے تھے۔ آپ کو دنيا سے کوئی غرض نہيں تھی۔ ہروقت ايک ہی دھن سوار تھی کہ سپين ميں مسلمان پھر سے غالب آ جا ئيں۔ طبیعت ميں بےحد سادگی تھی جو کہ بہت متاثر کن تھی۔ آپ کی آواز آپ کے بارعب چہرے کی طرح بھاری اورغير معمولی اثر رکھنے والی تھی۔ آپ کا رنگ سانولا ، قد خوبصورت اورقدم نپے تلے ہوتے تھے۔ خاکسا رنے جب آپ کو ديکھا تواس وقت جسم بھاری ہوچکا تھا اوردل کے بھی مريض تھے لیکن کبھی محسوس نہيں ہونے د يا۔ آپ کے چہرے پر نظر ڈالتے ہی مجھے ايسا لگتا تھا کہ يہ شخص اس دنيا کا رہنے والا نہيں ہے۔ کبھی ميرے سامنے د نياداری کی بات نہيں کی۔ چنانچہ ميڈ رڈ شہر ميں قيام کے دنوں میں جس فليٹ میں آپ مقیم تھے، اُس کا مالک آپ کو کہا کرتا تھاکہ کرايہ ميں اضافہ کردو ميں کچھ عرصہ بعد یہاں سے چلا جاؤں گا تو فليٹ آپ کودے جاؤں گا۔ مگر چونکہ آپ کو دنيا سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لیے آپ نے انکار کرديا۔
آپ میں تکلّف نام کی کوئی چيز نہيں تھی۔ مجھ پر بےحد اعتماد کرتے اور تقر يباً ہر بات شیئر کرتے تھے۔ آپ نہایت ہردلعزيز شخصیت کے مالک تھے۔ ميڈرڈ ميں جہاں سے بھی گزرتے ہر طرف سے لوگ آپ کو سلام کرتے۔ آپ کا خداتعالیٰ پرغير معمولی توکّل تھا۔ خليفۂ وقت اور خاندان حضرت مسیح موعود ؑ کے ساتھ بےحساب محبت اور احترام کا تعلق رکھتے تھے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ايک بار جب خاکسار مشن ہاؤس پہنچا تو ديکھا کہ آپ بہت افسردہ تھے۔ چہرے پر شديد غم کے آثار تھے۔ چند منٹ بعد خود ہی فرمایا : ملک صاحب! حضرت مسیح موعودؑ کے خاندان ميں وفات ہو گئی ہے۔
جب آپ گھر سے باہر نکلتے تو قدرے اونچی آواز سے يہ دعا پڑھا کرتے جو کہ سننے والوں کو صاف سنائی ديتی تھی :
بِسْمِ اللہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ العَظِيْم۔

دعوت الی اللہ

آپ نے ايک بار خواب ديکھا کہ آپ ایک پيپے کو بجابجا کریہ اعلان کررہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آگئے ہيں۔ ( ٹين کے بڑے ڈبے کو پيپا یا کنستر بھی کہتے ہيں جسے دیہات میں اعلان کرنے سے پہلے لوگوں کو متوجہ کرنے کے لیے بجایا جاتا ہے ۔)
خدمت دين کے سلسلے ميں ہی ايک اَور خواب آپ نے یوں بیان فرمائی کہ وہ سارے مبلغين جو آپ کے ساتھ ہی تبلیغ کے لیے یورپ بھجوائے گئے تھے سب ايک قطار ميں کھڑے ہيں۔ اُن سب کے پاس کاريں ہيں ليکن آپ کے پاس ایک سائيکل ہے۔ جب دوڑ شروع ہوئی تو آپ آگے نکل گئے اور کاروں والے پيچھے رہ گئے اورسب لوگ واہ واہ کرنے لگے۔ میدانِ عمل میں آپ کی تبلیغی کوششوں کے نتائج آپ کی ان خوابوں کی صداقت پر گواہ ہیں۔
تبليغ کرنے کے جرم ميں ميڈ رڈ ميں پوليس بارہا آپ کو پکڑ کرلے جاتی مگر آپ پھر بھی یہ فریضہ انجام دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ آخر تنگ آکر پولیس نے آپ کو پکڑناچھوڑديا تھا۔ ايک دفعہ ايسا اتفاق ہوا کہ پوليس کا ایک بڑاافسر کسی دوسری جگہ سے تبديل ہو کر ميڈرڈ آیا۔ اُسے آپ کے بارے میں پتہ چلا توآپ کو پکڑ کر لانے کو کہا۔ ساتھيوں نے مشورہ ديا کہ کوئی فا ئدہ نہیں۔ مگر اس کے اصرار پر پوليس آپ کو پکڑ کرلے گئی اور جيل ميں بند کر ديا۔ آپ نے مجھے بتايا کہ مَيں نے جيل ميں ہی تبليغ شروع کردی۔ شور سن کر بڑا افسر خود وہاں پہنچ گیا۔ اُس کے ساتھی بھی وہاں اکٹھے ہو گئے۔ افسر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ يہ کيا کر رہا ہے؟ انہوں نے جواب ديا کہ اسی لیے تو ہم کہتے تھے کہ اس کو مت پکڑو۔ تنگ آ کر اس نے آپ کو رہا کرنے کاحکم دے ديا۔

محترم مولانا کرم الٰہی ظفر صاحب

ايک بار خاکسار ميڈرڈ ميں آپ کے ساتھ جا رہا تھا تو ايک جگہ ٹھہر کر فرمانے لگے: ملک صاحب! يہاں میرے ساتھ ايک عجیب واقعہ پيش آيا تھا۔ مَيں ايک سپینش کو تبليغ کر رہا تھا۔ صبح کا پہلا پہر تھا۔ تھوڑی دير کے بعد يہاں سے ايک وکيل کا گزرہوا۔ اس نے مجھے تبليغ کرتے سن ليا۔ مجھے کہنے لگا کہ جھوٹے مذہب کی تبليغ قانوناً منع ہے۔ پھر مجھے اپنے ساتھ لے کر وہ نزديکی پوليس سٹيشن چلاگيا اور وہاں پہنچ کر اس نے سارا ماجرا بيان کيا اورمجھے حوالات میں بند کرنے کو کہا۔ پوليس والے اس کی بات کو نظر انداز کرکے اسے ٹالتے رہے۔ يہ ديکھ کر وکيل غصے ميں کہنے لگا کہ مَیں اس کو عدالت ميں لے کر جاؤں گا۔ آخر وہ مجھےساتھ لے کر عدالت ميں پہنچا۔ عدالت ميں داخل ہوتے ہی ہر طرف سے آوازيں آنے لگيں: کيتال سنور ظفر؟ کيتال سنور ظفر؟ (کيا حال ہے ظفر صاحب؟)۔ مَيں ہردفعہ اس وکيل کی طرف اشارہ کر ديتا۔ وکيل بہت جھنجلايا۔ آخر بہت دير ہوگئی اور عدالت کا وقت ختم ہونے کو ہو گيا تو مَيں نے وکیل سے کہا کہ ديکھو اگر مجھے يہاں د ير ہو گئی تو ميری بيوی تو یہ سوچ کر بے فکر ہو کر آرام سے سو جا ئے گی کہ آج پھرمَيں جيل ميں ہوں گا مگر تم سوچو کہ تمہارا کيا بنے گا۔ وہ بےچارا پہلے ہی تنگ پڑا ہوا تھا۔ يہ سنتے ہی فوراً مجھے چھوڑ کر وہ وہاں سے چلاگيا۔
یہ واقعہ سنانے کے بعد آپ کھل کر مسکرا دیے۔ اس وقت مجھے آپ کی مسکراہٹ بہت ہی پياری لگی۔
ايک بار تبليغ کے سلسلے ميں آپ ايک مشنری سکول ميں گئے۔ خاکسارکو بھی آپ کے ساتھ جانے کا شرف حاصل ہوا۔طلبہ کے ساتھ سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ کلاس ميں تقریباً 20 سے 30 لڑکياں تھيں۔ سکول کے پادری صاحب کلاس میں پیچھے ايک کرسی پر بیٹھ گئے۔ اسلام پرسوالات و اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا تو ايک لڑکی نے اٹھ کر سوال کيا کہ اسلام ميں مردوں کو 4عورتوں سے شادی کی اجازت ہے جب کہ عورتوں کو نہيں ہے۔ایسا کیوں ہے؟ آپ نے فرمايا کہ بیٹھ جاؤ۔ وہ بیٹھ گئی مگر پھر کھڑے ہو کر وہی سوال دوبارہ دہرايا۔ آپ نے پھر فرمايا کہ بیٹھ جاؤ۔ پادری صاحب سمجھ گئے اور انہوں نے بھی اُسے کہا کہ بیٹھ جاؤ۔ ان کے کہنے پر بھی وہ باز نہ آئی تو پھر آپ نے فرمايا : اچھا تو سنو! ايک شوہر آجاتا ہے۔ پھر تھوڑی دير بعد دوسرا اورپھر تيسرا اورپھر!۔آپ کا جواب سن کر وہ خاموش ہوگئی اور يکدم بیٹھ گئی۔ اس طرح آپ نے بہت احسن رنگ میں اسے بات سمجھا دی۔
ميڈرڈ ميں ايک بار تبليغی سٹال لگا ہوا تھا۔ خاکساربھی آپ کے ساتھ تھا۔ سٹال پر لوگ بھی موجود تھے۔ يکدم زوردار بارش شروع ہو گئی۔ ميں گھبرا کر وہاں سے ہٹ گيا۔ ايک آدھ منٹ بعد دیکھا تو آپ سٹال پر ہی موجود تھے اور بارش سے بےنياز ہوکر تبليغ ميں مصروف تھے جس پر خاکسار بے حد شرمندہ ہؤا اور واپس آپ کے پاس پہنچ گيا۔ ايک بارآپ نے پوپ کو بھی تبليغی خط لکھا تھا۔
آپ کا حلقۂ تبليغ بہت وسيع تھا۔ سپین کے جنرل فرانکو اور اُن کے تمام وزراء کو بھی آپ نے تبليغ کی ہوئی تھی۔ ايک بار جنرل فرانکو اپنی بيوی کے ہمرا ہ آپ کے سٹال پر بھی تشريف لائے تھے۔ اس کے علاوہ آپ نے دیگر سرکاری حکام اور يونيورسٹی کے پروفيسروں کو بھی تو حید کا پيغام بھرپور انداز میں پہنچايا۔
کہیں آتے جاتے آپ بارہا چلتے ہوئے رک جاتے اور کسی نہ کسی کو مخاطب کر ليتے تھے۔ بعض اوقات بات کرتے ہوئے لوگوں پر خوشبو کا سپرے کرديتے اور مسکراتے رہتے۔ ایسا کرنے سے ايک دوستا نہ ماحول پيدا ہو جاتا تھا۔ تو پھر لٹريچر ہاتھ ميں لیے ہوئے آپ فرماتے: جناب عالی! امن کا پيغام ۔
ايک بار آپ نے بتایا کہ ميڈرڈ ميں ہم صرف مخصوص لیٹر بکس ميں ہی لٹریچر پوسٹ ڈال سکتے ہيں۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ ایک بار اتنا لٹريچر لوگوں کو پوسٹ کيا گیا تھا کہ کئی ليٹر بکس بھر گئے تھے اورلوگوں کو مشکل پيش آنے لگی تھی۔ اس لیے بعد میں لوکل حکومت نے صرف مخصوص لیٹر بکس میں ہی پوسٹ ڈالنے کی اجازت دی ہے۔ بلاشبہ آپ عزم اوراستقلال کے پيکر تھے۔ ايک بارمجھے مخاطب ہو کر فرمايا : ملک صاحب! جس ملک ميں ايک احمدی ہو وہ ملک فتح ہو جاتا ہے۔ آپ کی بات سن کر ميں حيران رہ گیا۔
1982ء ميں جب آپ جرمنی کے جلسہ سالانہ پر تشريف لائے تو مسجد نور فرینکفرٹ کے باہر موجود احباب کی خواہش تھی کہ وہ آپ کے ساتھ تصوير بنوائیں۔ ميں ايک طرف کھڑا تھا مجھ پر آپ کی نظر پڑی تو فرمايا : آپ ادھر آجائيں، ايک يادگار فوٹو ادھربھی ہوجائے۔ آپ نے وہاں کھڑے کھڑے خاکسار کو مسجد بشارت پيدروآباد کا ايک پوسٹ کارڈ بھی عنايت فرمايا۔
جرمنی میں کسی دوست نے آپ کو دعوت پر مدعو کیا تومجھے بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ دعوت کے بعدايک بہت خوبصورت باغ ميں احباب آپ کولے کرگئے تو وہاں بھی آپ نے تبليغ شروع کر دی اور بہت سے لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے۔ دراصل آپ کی سير و تفريح بھی دعوت الی اللہ ہی تھی۔
جلسہ سالانہ جرمنی کے دوران ايک بار مَیں نے ديکھا کہ محترم نواب منصوراحمد خان صاحب امير و مشنری انچارج جماعت احمدیہ جرمنی نے آپ کا سامان اٹھايا ہوا تھا۔ آپ نے ايک بار مجھے فرمايا کہ ميں نواب صاحب کی اس وجہ سے زيادہ عزت واحترام کرتا ہوں کہ آپ نے نواب خاندان سے ہوتے ہوئے بھی زندگی وقف کی ہوئی ہے۔
کسی کی طرف سے ايک بارکسی دوست کی کوئی کمزوری آپ کے علم ميں لائی گئی۔ آپ چند منٹ خاموش رہے۔ دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہ رہے تھے۔ پھر آپ نے مجھے مخاطب کرکے فرمايا : ملک صاحب ! اس شخص کو بتا ديں کہ وہ يہاں سےچلا جائے۔ مَيں برداشت نہيں کرسکتا کہ کوئی چھوٹی سی بات بھی خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے اور اسلام کے غلبے کا ايک دن بھی آگے چلا جائے۔ ميری ساری زندگی اسی خواہش ميں بسرہوگئی ہے۔

شفقت و محبت

آپ دل کے بہت حليم تھے۔ ايک شفيق باپ کی طرح تھے جس کی شفقت اور محبت سب کے لیے برابر تھی۔ سپین میں آنے والے تمام احمد يوں کو کام کرنے کے اجازت نامے آپ کی کوششوں سے ملے۔ جہاں تک ميں نے غور کيا ہے آپ کی خواہش تھی کہ زيادہ سے زيادہ احمدی باہر سے سپین آئيں۔ سب احمدی اتوارکو میڈرڈ میں سٹال لگاتے تھے۔ آپ نےميرا بھی وہاں سٹال لگواديا۔ آپ ازراہ شفقت سٹال کے لیے سب چيزيں خود مہيا کرتے جن ميں خدا تعالیٰ ايسی برکت ڈالتا کہ مجھے خود بھی يقين نہ آتا۔ پانچ چھ گھنٹوں ميں تمام سامان فروخت ہوجاتا تھا جبکہ مَيں سٹال پرصرف تبليغ کرتا تھا۔ آپ نے ایک بار اپنے بیٹے عزیزم فضل الٰہی قمر صاحب کو فرمايا کہ اگر کوئی چيز ٹوٹی ہوئی بھی ہو تو وہ بھی ملک صاحب کی ميز پررکھ آؤ، اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود ہی بک جائے گی۔ جو منافع ہوتا مَيں آدھا آپ کی خدمت ميں بےحد احترام سے پيش کرديتا۔

خاکسار کی بطور آنریری مبلغ تقرری

1979ء کے گرمیوں کے دن تھے۔ ايک دن خاکسار مشن ہاؤس پہنچا تو آپ نے مجھے مبارک باد دی اور فرمايا : ملک صاحب مبارک ہو! حضور اقدس (حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ ) نے آپ کوسپين ميں آنریری مبلغ نامزد فرمايا ہے۔
خاکسار کے بارے میں لوگ آپ سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا نیا مبلغ آيا ہے؟ اس کا اظہارآپ ميرے ساتھ بہت خوشی سےکيا کرتے تھے۔
خاکسار سمجھتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی ان دعاؤں کا نتیجہ بھی تھا جو حضورؒ نے پاکستان سے روانہ ہوتے وقت خاکسار کو دی تھیں۔ الحمدللہ

رزق کی فراوانی

خاکسار نے ايک بار رؤيا ديکھی کہ مَيں بہت رو رہا ہوں۔ اتنے ميں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ تشريف لاتے ہیں اورمجھے اپنے با زوؤں کےحصا رميں لے کر سينے سے لگا ليتے ہیں۔ پھرخدا تعالیٰ کا ايسا فضل آيا کہ جلد ہی میڈرڈ کی سب سے بڑی شاہراہ سٹال لگانے کے لیے کھول دی گئی۔ لمبی لمبی قطاريں سٹالز کی لگی ہوتي تھيں جو مہينوں تک رہيں۔ اس سے بہت مالی فائدہ ہوا۔ ميری اس رؤيا کا ذکر حضرت مولوی صاحب نے اپنے جمعے کے خطبے ميں بھی کيا۔
ايک بارآپ نے مجھے نصیحت فرمائی کہ سٹال پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے اسماء کا ورد کیا کریں۔ ميں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ساری زندگی اس طريق سے بہت مالی فائدہ ہوا۔

تقویٰ کی باريک راہيں

آپ تقویٰ کی تمام باریک راہوں کا خاص خيال رکھتے تھے۔ ايک بار مجھے فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ پر بہت مالی فضل ہے۔ آپ لوگوں کے ساتھ اس کا ذکر کرنے سے احتياط کيا کريں کیونکہ اس سے بعض اوقات حسد پيدا ہو سکتا ہے اورکوئی کمزور انسان گناہگار بھی ہو سکتا ہے۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو سب کے اخلاق کا کتنا خیال تھا۔
آپ حسن ظنی ميں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ کبھی کسی سے ناراضگی کا اظہار نہيں کرتے تھے۔ اگر ضرورت ہوتی تو بڑی نرمی سے نیکی کی تلقين کرديتے تھے۔ آپ کے سامنے جب کسی کے بارے میں کوئی بات کی جاتی تو فرماتے کہ پہلے اچھی طرح تحقيق کرليں۔ یعنی آپ بات سن کر فوراً یقین نہیں کرلیتے تھے۔
آپ خاکسارپربےحد اعتماد اور حسن ظن رکھتے تھے۔ کبھی غير نہيں سمجھا۔ ايک بار کسی نے ميرے بارے میں آپ سے کچھ کہا تو فرمايا : توبہ کريں ملک صاحب کےبارےميں ايسی بات نہ کريں۔ اب بھی جب ميں يہ بات سوچتاہوں تواللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے سر جھک جاتا ہے۔
تربیتی نقطۂ نگاہ سے آپ نے خاکسار کو بُل فائٹنگ دیکھنے اور کینری جزائر میں جا کر سٹال لگانے سے منع فرمایا ہوا تھا۔

د رود شريف کی برکات

ايک بار مجھے مخاطب کرکے فرمايا کہ ملک صاحب! آپ کودرود شريف پڑھنے کی بہت عادت ہے۔آپ جب باہرجاتے ہيں تو سڑکوں پردرود شريف پڑھنے کی وجہ سےروشنی پھيلنی شروع ہو جاتی ہے اوراندھيرا چھٹ جاتا ہے۔
ایک بار آپ جلسہ سالانہ یو کے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے۔ میرے ایک عزیز نے میرے ساتھ ذکر کیا کہ جلسہ گاہ کی مردانہ مارکی ميں بہت شورتھا۔ سٹيج سےباربار خاموشی اختیار کرنے کے اعلان کے باوجود شور کم نہ ہوتا تھا۔ اتنے ميں آپ تشريف لے آئے اور سٹيج پر آکر بلند آواز سے دورد شريف پڑھنا شروع کرديا۔ انہوں نے بتايا کہ ميں حيران رہ گيا۔ يکدم خاموشی چھا گئی۔ اسی جلسہ کی ایک یادگار بات یہ تھی کہ آپ نے خاکسار کے ساتھ وہاں سے ہی فون پر بات کی اور بڑی محبت سے پنجابی زبان میں فرمايا :ميں تے تينوں پتر بنايا ہويا اے ( میں نے تو تمہیں بیٹا بنایا ہوا ہے ۔)

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی غيرمعمولی شفقت

ایک بار آپ نے خاکسار کو بتایا کہ جب بین الاقوامی کسرصلیب کانفرنس 1978ء ميں لندن ميں منعقد ہوئی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے کرسی پر تشريف فرما ہو کر فرمایا :کرم الٰہی ظفر! ميرے بائيں ہاتھ آکر بیٹھ جائیں۔ پھر حضور اقدسؒ نے فرمایا : چودھری ظفراللہ خان صاحب! ميرے دائيں ہاتھ آکر بیٹھ جائیں۔ آپ نے بيان فرمايا کہ یہ سن کر ميری آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے کہ حضوراقدسؒ نے پہلے مجھے یاد فرمایا اور پھر حضرت چودھری صاحبؓ کو بلایا۔


خاکسار سے آپ کی محبت اور شفقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار آپ کے صاحبزادے عزیزم فضل الٰہی قمر صاحب جب جرمنی کے جلسہ سالانہ پر تشریف لائے تو دوران گفتگو خاکسار کو بتایا کہ مسجد بشارت سپین کا سنگ بنیاد رکھنے کے وقت ابا جان نے آپ کے لیے بھی ایک اینٹ رکھی ہوئی تھی۔ (لیکن خاکسار اس تاریخی موقع پر پہنچ نہ سکا تھا۔)
حضرت مولوی کرم الٰہی ظفر صاحب بلاشبہ ایسے بابرکت وجود تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کا ذکرخیر ہماری نسلوں کے لیے اور خصوصاً داعیان الی اللہ کے لیے مشعل راہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس ميں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ہمیں آپ کی نيکياں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين

اپنا تبصرہ بھیجیں