خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع جلسہ سالانہ برطانیہ بروز اتوار24؍جولائی 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔ وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (الاحزاب:41)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے جیسے مَردوں میں سے کسی کا باپ نہیں ، بلکہ وہ اللہ کا رسول ہے اور سب نبیوں کا خاتم ہے، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔
آجکل مخالفینِ احمدیت اس بات پر کہ احمدی ختمِ نبوت کے قائل نہیں عامۃ المسلمین کے جذبات انگیخت کرنے کی بھی انتہا کر رہے ہیں اور بعض ممالک میں اپنی مخالفت کے اوچھے ہتھکنڈوں کے استعمال کی بھی انتہائی حدود کوچھُورہے ہیں اور یہ کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ گزشتہ سال 28؍مئی کے واقعہ کے بعد پاکستان میں ان لوگوں کے رویوں میں اس حد تک تیزی آ چکی ہے کہ پاکستان سے باہربیٹھے ہوئے احمدیوں کو اس کا اندازہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح انڈونیشیا میں بعض علماء بلکہ اکثریت اسی کام پر تُلی بیٹھی ہے کہ کسی طرح احمدیت کو انڈونیشیا سے ختم کیا جائے۔ جن مخالفتوں کا اُن کو سامنا ہے اس کا اندازہ باہر بیٹھے ہوئے لوگ کر ہی نہیں سکتے سوائے اُن لوگوں کے، اُن پاکستانی احمدیوں کے جو بیرونِ ملک آ کر آباد ہوئے ہیں اورجن کے قریبی رشتہ دار پاکستان میں ہیں ۔ وہ لوگ جو بظاہر پڑھے لکھے لگتے ہیں اُنہوں نے بھی ایسے رویے اپنا لئے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو محسنِ انسانیت کی اُمّت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ؟ لیکن حرکات وہ کر رہے ہیں جو یقینا اس محسنِ انسانیت کی روح کو بے چین کرنے والی ہیں ۔ بعض جگہوں پر سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں میں چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے لڑکے لڑکیوں تک کو ذہنی اذیّت کانشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میری روزانہ کی ڈاک میں اس اذیّت سے گزرنے والے طلباء و طالبات کے کئی خطوط ہوتے ہیں ۔پھر بعض جگہ کاروباری لوگ بھی بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں ۔ مُلّاں نے ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کے نام پر اکثر لوگوں کی جھوٹی دینی غیرت اور حمیت کو اُبھار کر احمدیوں کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہاں ایک صورت ہے جس سے تمہاری بچت ہو سکتی ہے (لیکن یہ بھی اُن کا جھوٹ ہے) کہ تم اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کر لو۔ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اگر نبی ماننا ہے تو ایک نئے مذہب کا نبی مان لو جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے تو پھر شاید ہم تمہارے ساتھ یہ سلوک نہ کریں ۔ پھرتمہیں اقلیت کا تحفظ بھی دے دیں گے۔ ورنہ ایک ایک کو چُن چُن کر قتل کر دیا جائے گا۔ آجکل یہ دھمکیاں بھی مل رہی ہیں ۔ تمہاری تجارتیں برباد کر دی جائیں گی۔ تمہارے مال لوٹ لئے جائیں گے۔ تمہاری جائیدادوں پر قبضہ کر لیا جائے گا اور یہ سب دعوے اور اعلان اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے بلکہ علی الاعلان پولیس کے سامنے، انتظامیہ کے سامنے، حکومت کے کارندوں کے سامنے انسانیت سے گری ہوئی ان باتوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ دیکھنے، سننے اور بعض جگہ اس سے عملی طور پر گزر جانے کے باوجود مسیح محمدی کے پیارے اُن کی ہر بات پر یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر تم اس بات پر ہماری گردنیں مارنا چاہتے ہو کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوڑ دیں تو مار لو، ہماری تجارتیں برباد کرنا چاہتے ہو تو کر لو، ہمارے مال لوٹنا چاہتے ہو تو لوٹ لو، ہماری جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہو تو کر لو، ایک ایک احمدی کو شہید کرنا چاہتے ہو تو کر لو، لیکن تم ہمیں ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ آپ کا دَر ہم سے نہیں چھڑوا سکتے۔ ہم اُس پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اپنی زندگیاں تو قربان کر سکتے ہیں لیکن اپنے آقا کا دَر نہیں چھوڑ سکتے۔ ہم احمدیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیتِ نبوت پر اُس سے زیادہ، اور کئی گُنا بڑھ کر یقین ہے اور اس کا فہم و ادراک ہے جتنا کسی بھی دوسرے مسلمان کو آپ کے خاتم النبیین ہونے کی حقیقت کا ادراک اور یقین ہے۔ اور یہ یقین ہمارے دلوں میں ، ہماری روحوں میں زمانے کے امام اور مہدی دوران اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے پیدا فرمایا ہے۔ ہمیں اپنے آقا و سید سے عشق و محبت کے وہ اسلوب سکھائے ہیں جن تک دوسرا کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔ اس عاشقِ صادق نے اپنے عمل سے، اپنے قول سے اس عشق و محبت کے وہ نمونے ہمارے سامنے پیش فرمائے ہیں جس نے ہمارے ایمانوں کو بھی جِلا بخشی ہے۔
پس نہ ہی ہم عشقِ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے سرِ مو انحراف کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہم اُس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکاری ہو سکتے ہیں جس نے ہمیں عشقِ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نئے اسلوب سکھائے ہیں ۔ جس نے ہم میں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قربان ہونے کی روح پھونکی ہے، یہ ادراک پیدا فرمایا کہ حضرت خاتم الانبیاء کے ساتھ جُڑے رہنے اور اس راہ میں قربان ہوجانے میں ہی تمہاری دنیا و آخرت کی زندگی ہے۔ پس کیا ہم اتنے احسان فراموش ہیں کہ جس امام الزمان اور غلامِ خاتم الانبیاء نے ہمیں یہ راستے دکھائے ہیں اُس سے تعلق توڑ دیں یا اُسے، اپنے آقا سے علیحدہ کوئی وجود سمجھیں ۔ صرف اس لئے کہ اس کے بغیر تمہارے بہیمانہ ظلموں سے ہم بچ نہیں سکتے۔ نہیں ، اے دشمنانِ احمدیت! نہیں ، تم کان کھول کر سُن لو کہ نہ ہم عشقِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے دستبردار ہونے والے ہیں اور نہ ہی ہم اس عاشقِ صادق سے علیحدہ ہونے والے ہیں ۔
پس مَیں عامۃ المسلمین سے پھر کہتا ہوں کہ آپ ان نام نہاد ملاؤں کے پیچھے نہ چلیں اور دیکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے اپنے آقا کے بارے میں کیا کہاہے؟ مقامِ ختم نبوت کو کس طرح سمجھا ہے؟ کیا مقامِ ختم نبوت کا حقیقی ادراک پیدا کرنے کی کوشش کی ہے یا اُس کی نفی کی ہے؟ کیا آپ کے کلام کے ہر ہر لفظ بلکہ ہر ہر حرف سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ٹپکتا؟
آج مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے محبوب اور محبوبِ خدا کے بارہ میں چند اقتباسات لئے ہیں جو یقینا ہر احمدی کے علم و عرفان اور ایمان میں بھی ازدیاد کا باعث بنتے ہیں اور بنیں گے۔ ا ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کو مزید جلا بخشتے ہیں ۔ بیشک پہلے بھی آپ لوگوں نے سنے اور پڑھے ہوں گے لیکن ہر مرتبہ ان کو سننے اور پڑھنے سے ایک نیا عرفان حاصل ہوتا ہے۔ اور اسی طرح اگر کوئی سعید فطرت میری یہ باتیں سُن رہا ہو اور میرے علم کے مطابق بہت سے ایسے ہیں جو سنتے ہیں تو یہ اقتباسات اُن سننے والوں کے شبہات بھی دور کرنے والے ہیں ، اور نہ صرف شبہات کو دور کرنے والے ہیں بلکہ مقامِ ختم نبوت کا نیا فہم عطا کریں گے اور اگر دلوں میں انصاف کی ہلکی سی رَمق بھی ہو گی تو کوئی ذی شعور، عقل والا ان الفاظ کو سُن کر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمائے ہیں ، یہ کہے بغیر نہیں رہے گا کہ یہ تو سچا اور حقیقی عاشقِ صادق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج ایسے بہت سے انصاف پسند ہیں اور حق کو پہچاننے والے ہیں جو آپ کی تحریرات کو پڑھ کر اور سُن کر احمدیت کی آغوش میں آتے ہیں اور عشقِ رسول کا صحیح ادراک پانے والے ہیں ۔ کل کی رپورٹ میں مَیں نے ایک آدھ کا ذکر کیا تھا ۔بہت سارے ایسے ہیں جو آپ کا کلام پڑھ کر پھر کہتے ہیں کہ یہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ یہ شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت کرنے والا نہیں ہو سکتا۔یہ تو سچا ،عاشقِ صادق لگتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے وہ نبیؐ دیا جو خاتَم المومنینؐ، خاتَم العارفین ؐ اور خاتَم النبیین ؐ ہے اور اسی طرح پروہ کتاب اس پر نازل کی جو جامع الکُتب اور خاتَم الکُتب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو خاتَم النبیین ہیں اور آپؐ پر نبوت ختم ہوگئی تو یہ نبوت اس طرح پر ختم نہیں ہوئی جیسے کوئی گلاگھونٹ کر ختم کر دے۔ ایساختم قابلِ فخر نہیں ہوتا۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہونے سے یہ مُراد ہے کہ طبعی طور پر آپ ؐ پر کمالاتِ نبوت ختم ہو گئے۔ یعنی وہ تمام کمالاتِ متفرقہ جو آدم ؑ سے لے کرمسیح ابن مریم تک نبیوں کو دیئے گئے تھے۔ کسی کو کوئی اور کسی کو کوئی، وہ سب کے سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع کردیئے گئے اور اس طرح پر طبعاً آپؐ خاتم النبیین ٹھہرے۔ اور ایسا ہی وہ جمیع تعلیمات ، وصایا اور معارف جو مختلف کتابوں میں چلے آتے ہیں ، وہ قرآن شریف پر آکرختم ہوگئے اورقرآن شریف خاتم الکُتب ٹھہرا‘‘۔
(ملفوظات جلد نمبر 1صفحہ 227ایڈیشن 2003ء)
یہ ہے خاتم النبیین کا اور قرآنِ کریم کے خاتم الکتب ہونے کا وہ اعلیٰ عرفان جو آپ نے ہمیں عطا فرمایا ہے۔
پھر فرماتے ہیں :
’’اس جگہ یہ بھی یادرکھناچاہئے کہ مجھ پر اور میری جماعت پر جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتَم النبیین نہیں مانتے۔ یہ ہم پر افترائے عظیم ہے۔ ہم جس قوتِ یقین، معرفت اور بصیرت کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتَم الانبیاء مانتے اور یقین کرتے ہیں ، اس کا لاکھواں حصہ بھی دُوسرے لوگ نہیں مانتے۔ اور ان کا ایسا ظرف ہی نہیں ہے۔ وہ اس حقیقت اور راز کو جو خاتَم الانبیاء کی ختمِ نبوّت میں ہے، سمجھتے ہی نہیں ہیں ۔ انہوں نے صرف باپ دادا سے ایک لفظ سُنا ہوا ہے، مگر اُس کی حقیقت سے بے خبرہیں اور نہیں جانتے کہ ختم نبوت کیا ہوتاہے اوراس پر ایمان لانے کا مفہوم کیا ہے؟ مگر ہم بصیرت تام سے(جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء یقین کرتے ہیں ۔ اور خداتعالیٰ نے ہم پر ختم نبوت کی حقیقت کو ایسے طور پر کھول دیا ہے کہ اس عرفان کے شربت سے جو ہمیں پلایا گیا ہے ایک خاص لذت پاتے ہیں جس کا اندازہ کوئی نہیں کرسکتا، بجزاُن لوگوں کے جو اس چشمہ سے سیراب ہوں ۔ دُنیا کی مثالوں میں سے ہم ختم نبوت کی مثال اِس طرح پر دے سکتے ہیں کہ جیسے چاند ہلال سے شروع ہوتا ہے اور چودھویں تاریخ پرآکر اُس کاکمال ہوجاتا ہے جب کہ اُسے بدر کہا جاتا ہے۔ اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر کمالاتِ نبوت ختم ہوگئے‘‘۔
پھر فرماتے ہیں : ’’…مَیں ایسے مریضوں کو کیا کہوں اور اُن پر کیا افسوس کروں ، اگر اُن کی یہ حالت نہ ہو گئی ہوتی اور وہ حقیقت اسلام سے بکلی دور نہ جاپڑے ہوتے تو پھر میرے آنے کی ضرورت کیا تھی؟ ان لوگوں کی ایمانی حالتیں بہت کمزورہوگئی ہیں اور وہ اسلام کے مفہوم اور مقصد سے محض ناواقف ہیں ، ورنہ کوئی وجہ نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اہل حق سے عداوت کرتے جس کا نتیجہ کافربنادیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر1صفحہ نمبر227-228۔ایڈیشن2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
یعنی مسیح موعود علیہ السلام سے دشمنی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ بجائے ہم پر کافر کے فتوے لگا نے کے خود اپنے آپ پر فتوے لگا رہے ہیں ۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’کیا بنی اسرائیل کے بقیہ یہود یا حضرت مسیح علیہ السلام کو خداوند خداوند پکارنے والے عیسائیوں میں کوئی ہے جو ان نشانات میں میرا مقابلہ کرے۔ مَیں پکار کر کہتا ہوں کہ کوئی بھی نہیں ۔ ایک بھی نہیں ۔ پھر یہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداری معجزہ نمائی کی قوت کا ثبوت ہے۔ کیونکہ یہ مسلّم مسئلہ ہے کہ نبی متبوع کے معجزات ہی وہ معجزات کہلاتے ہیں جو اس کے کسی متبع کے ہاتھ پر سرزد ہوں ۔ پس جو نشانات خوارق عادات مجھے دیئے گئے ہیں ، جو پیشگوئیوں کا عظیم الشان نشان مجھے عطا ہوا ہے یہ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ معجزات ہیں اور کسی دوسرے نبی کے متبع کو یہ آج فخر نہیں ہے کہ وہ اس طرح پر دعوت کر کے ظاہر کر دے کہ وہ بھی اپنے اندر اپنے ہی متبوع کی قُدسی قوت کی وجہ سے خوارق دکھا سکتا ہے۔ یہ فخر صرف اسلام کو ہے اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ زندہ رسُول ابدالآباد کے لیے صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہو سکتے ہیں ، جن کے انفاس طیبہ اور قوت قدسیہ کے طفیل سے ہر زمانہ میں ایک مردخدا خدانمائی کا ثبوت دیتا رہتا ہے‘‘۔(ملفوظات جلد نمبر1صفحہ نمبر275 ایڈیشن 2003ء)
یہ ختمِ نبوت کا مقام ہے جو آپ نے بیان فرمایا ہے کہ اب یہی نبی ہے جس کی شریعت تا قیامت ہے اور کامل ہے اور جس کے معجزات تا قیامت زندہ ہیں ، کوئی دوسرا مذہب اس زندہ نبی کے معجزات دکھانے میں مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اور فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اور آپ کی قوتِ قدسی ہی ہے جس کی وجہ سے عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے میرے سے نشان ظاہر فرمائے ہیں ۔ یہ میری برتری نہیں ہے، میرا مقام نہیں ہے بلکہ اُس نبی کا مقام ہے اور اُس کی قوتِ قدسی ہے جس کی میں پیروی اور اتباع کر رہا ہوں کہ خدا میرے ذریعے سے بھی معجزہ دکھا رہا ہے۔ اس میں میرا مقابلہ کر لو لیکن کوئی مقابلے پر نہیں آیا۔ پس آپ نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برتری ثابت کر کے دکھائی ہے، نہ کہ مقام گرایا ہے۔ اور آج تک عیسائیوں میں سے بھی اور دوسرے مذاہب میں سے بھی جو سعید فطرت روحیں ہیں وہ اس کو سمجھ رہی ہیں اور احمدیت کی آغوش میں آ رہی ہیں اور صحیح اسلام کا فہم و ادراک حاصل کر رہی ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے بن رہے ہیں ۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم بھی باقاعدہ ہوئی۔ میرے پاس ایک یہودی مصنف کی کتاب ہے۔اس نے صاف اور واضح طور پر لکھا ہے، بلکہ مسیحؑ کے اُستاد کا نام تک بتایا ہے اور پھر زَد بھی کی ہے کہ اسی وقت سے توریتؔ اورصحف انبیاء کے مضامین ان کو پسند آئے تھے اور جو کچھ انجیلؔ میں ہے وہ صحف انبیاء سے زائد نہیں ۔ اس نے بتلایاہے کہ ایک مدت دراز تک وہ یہود کے شاگرد رہے تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کسی یہودی، نصاریٰ، ہندی سے پوچھو کہ آپؐ نے بھی کہیں تعلیم پائی تھی،تو وہ صاف کہے گا کہ ہر گز نہیں ۔کتنی بڑی ربوبیت کا مظہر ہے۔ انسان جب بچپن کی حالت سے آگے نکلتا ہے جو بلوغ سے پہلے ہے تو عام طور پر مکتب میں بٹھا دیاجاتا ہے۔ یہ پہلا قدم ہوتا ہے، مگر آپؐ کی زندگی کا پہلا قدم ہی گویا اعجاز تھا۔ چونکہ آپؐ کو خاتَم الانبیاء ٹھہرایاتھا۔ اس لئے آپؐ کے وجود میں حرکات وسکنات میں بھی اعجاز رکھ دیئے تھے۔ آپؐکی طرززندگی کہ الفؔ۔بےؔ تک نہیں پڑھا اور قرآن جیسی بینظیر نعمت لائے اور ایسا عظیم الشان معجزہ امت کو دیا۔ پہلے نبی آئے اور ایک خاص وقت تک دُنیا میں رہ کر چل دئیے اور دین وہیں کالعدم ہو گیا۔اور خدا کو ان کا محو کرنا ہی منظور تھا،مگر اس دین کے اظلال وآثار کا قیام منظور تھا اور چونکہ کوئی دین معجزات کے بدوں رہ نہیں سکتا،ورنہ چند روز تک سماعی باتوں پر یقین رہتا ہے۔ پھر کہہ دیتے ہیں (پنجابی کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں )کہ’’ایہہ جہاں مٹھاتے اگلا کن ڈٹھا۔‘‘اس لئے خدا نے چاہا کہ اسلام کے ساتھ زندہ معجزہ ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر1صفحہ نمبر328-329 ا یڈیشن 2003ء)
پسیہ مقام دکھایا کہ آپؐ نبوت کے بعد خاتم النبیین نہیں بنے بلکہ آپ اپنی پیدائش سے ہی خاتم النبیین تھے اور آپ کی زندگی کا پہلا قدم ہی، اس دنیا میں آنا ہی آپؐ کو ختمِ نبوت کی مہر کے ساتھ لے کر آیا تھا اور پھر وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4)۔ کا اعجاز دکھا کر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نبیوں سے برتر ثابت کرنے کے لئے یہ معجزہ بھی دکھایا کہ آپ کے غلام کے ذریعہ بھی آپ کی نبوت کے تسلسل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کے رنگ سے اور اس کے ذریعے سے جاری فرمایا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :
’’یقینا یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتاجب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتَم النبیین یقین نہ کرے۔جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپؐ کو خاتم النبیین نہیں مانتا ،کچھ نہیں ۔ سعدی ؒنے کیا اچھا کہا ہے کہ ؎
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفی
(اس فارسی شعر کا مطلب یہ ہے کہ زہد، پرہیزگاری اور صدق و صفا کے لئے کوشش کرو لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے نہ بڑھو)۔
فرمایا ’’ہمارا مدّعا جس کے لئے خدا تعالی نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جوا ن لوگوں نے اپنی بدعتوں کے ذریعے قائم کی ہیں ۔ ان ساری گدیوں کو دیکھ لو‘‘ (پیروں فقیروں کی گدیوں کو) ۔’’اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لائے ہیں یا وہ؟
یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتَم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی ایک الگ شریعت بنا لو۔ بغدادی نماز ، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں ۔ کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتہ لگتا ہے؟ اور ایسا ہی ’’یَاشَیۡخ عبدالقادر جیلانی شَیْئًا لِّلّٰہ‘‘ کہنا۔ اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے؟ آنحضرت صلی ا للہ علیہ وسلم کے وقت تو شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا وجود بھی نہ تھا۔پھر یہ کس نے بتایا تھا؟شرم کرو۔کیا شریعت اسلام کی پابندی اور التز ا م اسی کا نا م ہے ؟اب خو د ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو ما ن کر، ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہوکہ مجھے الزام دو کہ مَیں نے خاتَم النبیین کی مہر کو توڑا ہے ۔اصل اور سچی با ت یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میں بدعا ت کو دخل نہ دیتے اور خاتَم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبو ت پر ایما ن لا کر آ پؐ کے طر ز عمل اور نقش قدم کو اپنا ا ما م بنا کر چلتے تو پھر میر ے آنے ہی کی کیا ضرو ر ت ہو تی۔ تمہار ی ان بد عتو ں اور نئی نبوّ تو ں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیر ت کو تحریک دی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبّوتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابُودکرے۔ پس اسی کام کے لیے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجاہے‘‘۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ :’’گدّی نشینوں کو سجدہ کرنا یااُن کے مکانات کا طواف کرنا، یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں ‘‘۔(اور یہی آجکل پاکستان میں ، ہندوستان میں اور دیگرجگہوں پر ہو رہا ہے)’’غرض اﷲ تعالیٰ نے اس جماعت کو اسی لئے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت اور عزّت کو دوبارہ قائم کریں ‘‘۔
(ملفوظات جلد نمبر2صفحہ نمبر64-65 ایڈیشن 2003ء)
پس مسیح موعود کے آنے سے شانِ ختمِ نبوت بڑھی ہے۔ اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں جیساکہ مَیں نے کہا کہ پیروں ، فقیروں کے درباروں پر حاضری دی جاتی ہے، قبروں کو سجدے کئے جاتے ہیں ۔ آپ نے آ کر سب بدعات کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا۔
پھر ایک علمی دلیل دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’ختم نبوت بھی ایک عجیب سلسلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نبوت کو بھی قائم رکھتا ہے اور اسی کے استفادہ سے ایک سلسلہ جاری کرتا ہے۔ یہ تو ایک علمی بات ہے مگر کجا یہ کہ اس سلسلہ کو الٹ پلٹ کر دوسرے نبی کو لایا جاوے‘‘۔(بجائے اس کو مسلمانوں میں سے لانے کے اس کو اُلٹ پُلٹ دو اور دوسرے نبی کو لاؤ جو اس امت میں سے نہیں ہے)۔ فرماتے ہیں ۔’’ حالانکہ خدا تعالیٰ کی حکمت اورارادہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا نبی آوے ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ شریعت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو۔خواہ شریعت نہ بھی رکھتا ہو تب بھی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی دوسرا نبی آپؐ کے سوا اور آپ کے استفادہ سے الگ ہو کر نہیں آسکتا‘‘۔ فرمایا کہ’’ علاوہ اس کے کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ (سورۃ النور:56) میں جو استخلاف کا وعدہ ہے یہ بھی اسی امر پر صاف دلیل ہے کہ کوئی پرانا نبی اخیر تک نہ آوے ورنہ ’’کَمَا‘‘باطل ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نیکَمَاکے نیچے تو مثیل کو رکھا ہے‘‘۔( یعنی اُس طرح کا)’’ عین کو نہیں رکھا‘‘ (یعنی وہی چیز دوبارہ نہیں آئے گی بلکہ اس کا مثیل ہو کے آئے گا)۔’’پھر یہ کس قدر غلطی اور جرأت ہے کہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ایک بات اپنی طرف سے پیداکر لی جائے اور ایک نیا اعتقاد بنالیاجائے اور پھرکَمَا میں مدت کی بھی تعیین ہے کیو نکہ مسیح موسیٰ ؑکے بعد چو دھویں صدی میں آیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ آنے والا محمدی مسیح بھی چو دھویں صدی میں آئے ۔غرض یہ آیت ان تمام امور کو حل کرتی ہے اگر کوئی سوچنے ولا ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد نمبر2صفحہ نمبر400-401 ایڈیشن 2003ء)
پھر ایک ایسی دلیل بیان کرتے ہوئے جو عقلی بھی ہے اور جذباتی بھی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی مقام کو ظاہر کرتی ہے، آپ فرماتے ہیں :
’’غور کر کے دیکھو کہ جب یہ لوگ خلافِ قرآن و سنت کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں تو پادریوں کو نکتہ چینی کا موقعہ ملتا ہے اور وہ جھٹ پٹ کہہ اُٹھتے ہیں کہ تمہارا پیغمبر مرگیا اور معاذ اللہ وہ زمینی ہے۔ حضرت عیسیٰ زندہ اور آسمانی ہے اور اس کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کر کے کہتے ہیں کہ وہ مُردہ ہے۔ سوچ کر بتاؤ کہ وہ پیغمبر جو افضل الرسل اور خاتم الانبیاء ہے ایسا اعتقاد کر کے اس کی فضیلت اور خا تمیّت کویہ لوگ بٹّہ نہیں لگاتے؟ ضرور لگاتے ہیں اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ پادریوں سے جس قدر تو ہین ان لوگوں نے اسلام کی کرائی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومُردہ کہلایا ہے۔ اسی کی سزا میں یہ نکبت اور بد بختی اُن کے شاملِ حال ہورہی ہے‘‘۔ (یہ اب تک جو اِن کی ذلت اور خواری ہو رہی ہے، یہ اسی وجہ سے ہو رہی ہے) فرمایا کہ’’ ایک طرف تو منہ سے کہتے ہیں کہ وہ افضل الانبیاء ہیں اور دوسری طرف اقرار کر لیتے ہیں کہ 63 سال کے بعد مَرگئے اور مسیح اب تک زندہ ہے اور نہیں مرا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے وَکَانَ فَضْلُاللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا (النساء :114)۔‘‘( کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ پر بہت بڑا فضل کیا ہے)۔’’ پھر کیا یہ ارشادِ الہٰی غلط ہے ؟ نہیں ، یہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ وہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مُردہ ہیں ۔ اس سے بڑھ کر کوئی کلمہ توہین کانہیں ہوسکتا۔ حقیقت یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی فضیلت ہے جوکسی نبی میں نہیں ہے۔ مَیں اس کو عزیز رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کو جو شخص بیان نہیں کرتا وہ میرے نزدیک کافر ہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس نبی کی اُمّت کہلاتے ہیں اُسی کو معاذ اللہ مُردہ کہتے ہیں اور اُسی نبی کو جس کی اُمّت کا خاتمہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ (البقرہ :62)۔ پر ہوا ہے اُسے زندہ کہا جاتا ہے ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم یہودی تھی اور اس کی نسبت خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ (البقرہ :62)۔اب قیامت تک اُن کو عزّت نہ ملے گی‘‘۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ اب قیامت تک اُن کو عزت نہ ملے گی۔)’’ اب اگر حضرت عیسیٰ پھر آگئے تو پھر گویا اُن کی کھوئی عزّت بحال ہوگئی۔ اور قرآن شریف کا یہ حُکم باطل ہوگیا ۔جس پہلو اور حیثیت سے دیکھو جو کچھ وہ مانتے ہیں اس پہلو سے قرآن شریف کا ابطال اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آتی ہے۔ پھر تعجب ہے کہ یہ لوگ مسلمان کہلا کر ایسے اعتقادات رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ تو یہود کے لیے فتویٰ دیتا ہے کہ اُن میں نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور وہ ذلیل ہوگئے پھر اُن میں زندہ نبی کیسے آسکتا ہے؟ ایک مسلمان کے لئے تو اتنا ہی کافی ہے کہ جب اس کے سامنے قرآن شریف پیش کیا جاوے تو وہ انکار کے لیے لب کشائی نہ کرے مگر یہ قرآن سنتے ہیں اور پڑھتے ہیں وہ اُن کے حلق سے نیچے نہیں جاتا‘‘ ۔(ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر18-19 ایڈیشن 2003ء)
(قرآن ان کے حلق سے نیچے جا بھی نہیں سکتا کہ یہ لوگ زمانے کے امام کے منکر ہیں اور جن کے بعض درس پسند کئے جاتے ہیں اگر تحقیق کی جائے تو پتہ چلے گا کہ وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پڑھتے ہیں جماعتی تفسیروں سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اور یہ بات مجھے ان کے اندر کے( غیر از جماعت) آدمی نے خود بتائی جس کا بعض علماء کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا ہے کہ ہماری تفاسیر دیکھ کر خاص طور پر تفسیرِ کبیر دیکھ کر یا بعض کُتب پڑھ کر یہ درس دیتے ہیں ۔
پھر ایک جگہ آپ ثابت فرماتے ہیں کہ نہ عقل کی رو سے، نہ ہی عقیدے کی رو سے یہ قابلِ تسلیم ہے کہ ختمِ نبوت کا مطلب یہ لیا جائے کہ نبوت پر ایسی مہر لگ گئی کہ اب کوئی آ ہی نہیں سکتا۔ وحی بالکل ختم ہو گئی۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ حضور! جب سلسلہ موسوی اور سلسلہ محمدی میں مماثلت ہے تو کیا وجہ ہے کہ اُس سلسلے کے خادم تو نبی کہلائے مگر ادھر اس طرح کوئی بھی نبی نہ کہلایا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاکہ:
’’مشابہت میں ضروری نہیں کہ مُشَبَّہ اور مُشَبَّہ بِہٖ بالکل آپس میں ایک دوسرے کے عین ہوں ۔ اور ان کا ذرہ بھی آپس میں خلاف نہ ہو۔ اب ہم جو کہتے ہیں کہ فلاں شخص تو شیرہے۔ تو اب اس میں کیا بھلا ضروری ہے کہ اس شخص کے جسم پر لمبے لمبے بال بھی ہوں ۔ چار پاؤں بھی ہوں اور دُم بھی ہو اور وہ جنگلوں میں شکار بھی کرتا پھرے؟ بلکہ جس طرح مِنْ وَجْہٍ تشابہ ہوتا ہے ویسا ہی مِنْ وَجْہٍ مخالف بھی ہونا ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ نے کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ تو ہمیں ہی فرمایا ہے۔جو اعلیٰ درجہ کے خیر اور برکات تھے وہ اسی امت میں جمع ہوئے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ایسے وقت تک پہنچ گیا ہوا تھا کہ دماغی اور عقلی قُویٰ پہلے کی نسبت بہت کچھ ترقی کر گئے تھے۔اس زمانہ میں تو ایک گونہ جہالت تھی۔ اب کوئی کہے کہ اس طرح بھی تشابہ نہ ہوا تو یہ اس کا کہنا درست نہ ہوگا۔ نبوت جو اللہ تعالیٰ نے اب قرآن شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حرام کی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اب اس امت کو کوئی خیر و برکت ملے گی ہی نہیں اور نہ اس کو شرفِ مکالمات اور مخاطبات ہوگا۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر کے سوائے اب کوئی نبوت نہیں چل سکے گی۔ اس اُمّت کے لوگوں پر جو نبی کا لفظ نہیں بولا گیا اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ حضرت موسیٰ کے بعد تو نبوت ختم نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عالی جناب،اولو العزم، صاحب شریعتِ کامل آنے والے تھے۔ اسی وجہ سے ان کے واسطے یہ لفظ جاری رکھاگیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چونکہ ہر ایک قسم کی نبوت بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بند ہوچکی تھی اس واسطے ضروری تھا کہ اس کی عظمت کی وجہ سے وہ لفظ نہ بولا جاتا۔ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ (الاحزاب:41)۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی طور سے آپ کی اولاد کی نفی بھی کی ہے اور ساتھ ہی روحانی طور سے اثبات بھی کیا ہے کہ روحانی طور سے آپؐ باپ بھی ہیں اور رُوحانی نبوت اور فیض کا سلسلہ آپؐ کے بعد جاری رہے گا اور وہ آپؐ میں سے ہو کر جاری ہوگا، نہ الگ طور سے۔ وہ نبوت چل سکے گی جس پر آپ کی مُہر ہوگی۔ ورنہ اگر نبوت کادروازہ بالکل بند سمجھا جاوے تو نعوذ باللہ اس سے تو انقطاعِ فیض لازم آتا ہے اور اس میں تو نحوست ہے اور نبی کی ہتک شان ہوتی ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اس اُمّت کو جو کہا کہ کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ یہ جھوٹ تھا
نعوذ باللہ ۔اگر یہ معنے کیے جاویں کہ آئندہ کے واسطے نبوت کا دروازہ ہر طرح سے بند ہے تو پھر خَیۡرُالْاُُمَّۃ کی بجائے شَرُّالْا ُمَمْ ہوئی یہ اُمّت ۔جب اس کو اللہ تعالیٰ سے مکالمات اورمخاطبات کا شرف بھی نصیب نہ ہوا ۔تو یہ تو کَالۡاَنۡعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلّ ہوئی اور بہائم سیرت اسے کہنا چاہئے نہ یہ کہ خَیْرُ الْاُ مَمْ ۔ اور پھر سورۃ فاتحہ کی دُعا بھی لغوجاتی ہے۔ اس میں جو لکھا ہے کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم تو سمجھنا چاہئے کہ ان پہلوں کے پلاؤ زردے مانگنے کی دُعا سکھائی ہے اور ان کی جسمانی لذّات اور انعامات کے وارث ہونے کی خواہش کی گئی ہے؟ ہرگز نہیں ۔ اور اگر یہی معنے ہیں تو باقی رہ بھی کیا گیا جس سے اسلا م کا عُلُوّ ثابت ہو وے۔ اس طرح تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی کچھ بھی نہ تھی اور آپؐ حضرت موسیٰ سے مرتبے میں گِرے ہوئے تھے کہ ان کے بعد تو ان کی اُمّت میں سے سینکڑوں نبی آئے مگر آپؐ کی اُمّت سے خدا تعالیٰ کو نفرت ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ مکالمہ بھی نہ کیا ۔کیونکہ جس کے ساتھ محبت ہوتی ہے آخر اس سے کلام تو کیا ہی جاتا ہے۔ نہیں ، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپؐ میں سے ہوکر اور آپؐ کی مہر سے اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں اس اُمّت میں سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص اُن میں موجود ہوتے رہے ہیں ۔ سینکڑوں بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے ایسے دعوے کئے۔ چنانچہ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ہی کی ایک کتاب فتوح الغیب کو ہی دیکھ لو۔ ورنہ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی(بنی اسرائیل:73) ۔ اگر خدا تعالیٰ نے خود ہی اس اُمّت کو اَعْمٰی بنایا تھا‘‘( اندھا بنایا تھا)’’ تو عجب ہے خود ہی اُسے اَعْمٰی بنایا اور خود ہی اَعْمٰی کے واسطے زجر اور توبیخ ہے کہ آخر ت میں بھی اَعْمٰی ہوگی‘‘۔( خود ہی اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو اندھا بنا دیا، اورپھر ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ آخرت میں تمہارے اندھے ہونے کی سزا ملے گی، وہاں بھی تم اندھے ہی رہو گے، یہ عجیب بات ہے۔) فرماتے ہیں کہ’’ اس اُمّت بیچاری کے کیا اختیار۔ اس کی مثال تو ایسی ہے کہ ایک شخص کسی کو کہے کہ اگر تو اس مکان سے گر جاوے گا تو تجھے قید کر دیا جاوے گا مگر پھر خود ہی اُسے دھکا دیدے۔گویا نبوت کا سلسلہ بند کر کے فرمایا کہ تجھے مکالمات اورمخاطبات سے بے بہرہ کیا گیا اور تو بہائم کی طرح زندگی بسر کرنے کے واسطے بنائی گئی اور دوسری طرف کہتا ہے کہ مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی(بنی اسرائیل:73) ۔اب بتاؤ کہ اس تناقض کا کیا جواب ہے؟ ایک طرف تو کہا خَیْرِاُمّت اور دوسری جگہ کہہ دیا کہ تُو اَعْمٰی ہے آخرت میں بھی اَعْمٰی ہوگی۔ نعوذ باللہ۔ کیسے غلط عقیدے بنائے گئے ہیں ‘‘۔
(ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر248-249۔ ایڈیشن2003ء۔مطبوعہ ربوہ)
پھراِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ کے حوالے سے ایک نکتہ بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ مَیں نے حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے تذکرے میں پڑھا ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ مَیں نے مراقبہ بلّی سے سیکھا ہے۔ اگر انسان نہایت پُرغور نگا ہ سے دیکھے تو اسے معلوم ہو گا کہ جانور کھلے طور پرخُلق رکھتے ہیں ۔ میر ے مذہب میں سب چرندپرند ایک خَلق ہیں اور انسان اُس کے مجموعہ کا نام ہے۔ یہ نفس جامع ہے اور اسی لیے عالمِ صغیر کہلاتا ہے کہ کل مخلوقات کے کمال انسان میں یکجائی طور پر جمع ہیں اور کُل انسانوں کے کمالا ت بہیئت مجموعی ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جمع ہیں اور اسی لیے آپ کل دنیا کے لیے مبعوث ہوئے اور رحمۃللعالمین کہلائے ۔اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْم ٍ(القلم:5) میں بھی اسی مجموعہ کمالات انسانی کی طرف اشارہ ہے۔ اسی صورت میں عظمت ِاخلاق محمدیؐ کی نسبت غور کر سکتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ آپ پر نبوتِ کاملہ کے کمالات ختم ہوئے ۔یہ ایک مسلّم بات ہے کہ کسی چیز کا خا تمہ اس کی علّتِ غائی کے اختتام پر ہوتاہے‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’ جیسے کتاب کے جب کُل مطالب بیان ہوجاتے ہیں تو اُس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پر رسالت اور نبوت کی علّتِ غائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی‘‘۔( جو اُس کے آنے کی اور آپ کے مقام کی، یا نبوت کے مقام کی وجہ تھی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوئی)۔ ’’اور یہی ختمِ نبوت کے معنے ہیں ۔ کیونکہ یہ ایک سلسلہ ہے جو چلا آیا ہے اور کامل انسان پرآکر اس کا خاتمہ ہو گیا ‘‘۔
(ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر35 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس بات کو کبھی بھولنا نہیں چاہئے کہ قرآنِ شریف کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر اور شرح ہیں ۔ ایک جگہ ایک امر بطریقِ اجمال بیان کیا جاتا ہے تو دوسری جگہ وہی امر کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ گویا دوسرا پہلے کی تفسیر ہے۔ پس اس جگہ جو یہ فرمایا: صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ(الفاتحہ:7) تو یہ بطریق اجمال ہے۔لیکن دوسرے مقام پر مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کی خود ہی تفسیر کر دی ہے۔ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصَّالِحِیْنَ (النساء:70)۔ مُنْعَمْ عَلَیْہِم لوگ چار قسم کے ہوتے ہیں ۔ نبی، صدیق، شہید، صالح۔ انبیاء میں یہ چاروں شانیں جمع ہوتی ہیں ۔ کیونکہ یہ اعلیٰ کمال ہے۔ ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ ان کمالات کے حاصل کرنے کے لئے جہاں تک مجاہدہ صحیحہ کی ضرورت ہے اس طریق پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے اپنے عمل سے دکھادیا ہے کوشش کرے۔مَیں یہ بھی تمہیں بتادیناچاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اورادکے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں یا خداتعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے اختیارنہیں کیاوہ محض فضول ہے۔آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم سے بڑھ کرمُنْعَمْ عَلَیْہِم کی راہ کاسچا تجربہ کار اور کون ہو سکتا ہے جن پر نبوّت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم )نے جو راہ اختیار کی وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے۔ اس راہ کو چھوڑکر دوسری راہ ایجاد کرنا،خواہ وہ بظاہر کتنی ہی خوش کُن معلوم ہوتی ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خداتعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے‘‘۔
فرمایا:’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے خد املتا ہے اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتارہے، گوہر مقصود اس کے ہاتھ نہیں آسکتا۔ چنانچہ سعدی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ضرورت بدیں الفاظ بتاتا ہے ؎
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ( وآلہ) وسلم کی راہ کو ہرگز نہ چھوڑو۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ قسم قسم کے وظیفے لوگوں نے ایجاد کرلئے ہیں ۔ الٹے سیدھے لٹکتے ہیں اور جوگیوں کی طرح راہبانہ طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ،لیکن یہ سب بے فائدہ ہیں ۔ انبیاء کی یہ سنت نہیں کہ وہ الٹے سیدھے لٹکتے رہیں یا نفی اثبات کے ذکر کریں اور اَرّہ کے ذکر کریں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ( وآلہ) وسلم کو اسی لئے اسوہ حسنہ فرمایا لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ ( سورۃ الاحزاب: 22) ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ( وآلہ) وسلم کے نقش قدم پر چلو اور ایک ذرہ بھر بھی ادھر یا ادھر ہونے کی کوشش نہ کرو۔
غرض مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ لوگوں میں جو کمالات ہیں اورصِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحۃ:7) میں جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ان کو حاصل کرنا ہر انسان کا اصل مقصد ہے اور ہماری جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ ہونا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کے قائم کرنے سے یہی چاہا ہے کہ وہ ایسی جماعت تیار کرے جیسی آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تیار کی تھی تا کہ اس آخری زمانہ میں یہ جماعت قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ( وآلہ) وسلم کی سچائی اور عظمت پر بطور گواہ ٹھہرے‘‘۔
فرمایا’’ ان کمالات میں سے جو منعم علیہم گروہ کو دئے جاتے ہیں پہلا کمال نبوت کا کمال ہے جو بہت ہی اعلیٰ مقام پر واقع ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ وہ الفاظ نہیں ملتے جن میں اس کمال کی حقیقت بیان کر سکیں ۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جس قدر کوئی چیز اعلیٰ ہو اس کے بیان کرنے کے واسطے اُسی قدر الفاظ کمزور ہوتے ہیں اور نبوت تو ایسا مقام ہے کہ انسان کے لئے اس سے بڑھ کر اورکوئی درجہ اور مرتبہ نہیں ہے،تو پھر یہ الفاظ میں کیوں کر بیان ہو سکے۔ مختصر اور ناکافی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ جب انسان سفلی زندگی کو چھوڑ دیتا ہے اور بالکل سانپ کی کینچلی کی طرح اس زندگی سے الگ ہو جاتا ہے۔ اُس وقت اس کی حالت اور ہو جاتی ہے۔ وہ بظاہر اسی زمین پر چلتا پھرتا کھاتا پیتا ہے اور اس پر قانون قدرت کا ویسا ہی اثر ہوتا ہے جیسے دوسرے لوگوں پر،لیکن باوجود اس کے بھی وہ اس دنیا سے الگ ہوتا ہے اور وہ ترقی کرتے کرتے اُس مقام پر جا پہنچتا ہے جو نقطۂ نبوت کہلاتا ہے اور جہاں وہ خدا تعالیٰ سے مکالمہ کرتا ہے۔ یہ مکالمہ یوں شروع ہوتا ہے کہ جب وہ نفس اور اس کے تعلقات سے الگ ہو جاتا ہے تو پھر اُس کا تعلق محض اللہ تعالیٰ سے ہی ہوتا ہے اور اسی سے وہ مکالمہ کرتا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلدنمبر1صفحہ نمبر236-237۔ایڈیشن2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مقام اور ختمِ نبوت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں قرآنِ شریف سے یہ استنباط کرتا ہوں کہ سب انبیاء کے وصفی نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے گئے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے کمالاتِ متفرقہ اور فضائلِ مختلفہ کے جامع تھے اور اسی طرح جیسے تمام انبیاء کے کمالات آپ کو ملے قرآن شریف بھی جمیع کتب کی خوبیوں کا جامع ہے۔ چنانچہ فرمایا ’’فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البَیِّنہ:4) اور مَا فَرَّطْنَا فِی الْکِتَابِ (اَلۡاَنعام:39)ایسا ہی ایک جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا ہے کہ تمام نبیوں کی اقتدا کر ۔
یہ یاد رکھنا چاہئے کہ امر دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک امر تو تشریعی ہوتا ہے جیسے یہ کہا کہ نماز قائم کرو یا زکوٰۃ دو وغیرہ اور بعض امر بطور خلق ہوتے ہیں جیسے یَا نَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّسَلَامًا عَلٰی اِبۡرَاھِیۡمَ (الانبیاء:70) یہ امر جو ہے کہ تُو سب کی اقتدا کر۔ یہ بھی خَلقی اور کونی ہے یعنی تیری فطرت کو حکم دیا کہ وہ کمالات جو جمیع انبیاء علیہم السلام میں متفرق طور پر موجود تھے اس میں یکجائی طورپر موجود ہوں ‘‘ (یعنی تمام کمالات جو تمام انبیاء میں تھے آپؐ میں جمع ہو جائیں )’’اور گویا اس کے ساتھ ہی وہ کمالات اور خوبیاں آپ کی ذات میں جمع ہوگئیں ‘‘۔(جب یہ حکم آیا) ’’چنانچہ ان خوبیوں اور کمالات کے جمع ہونے ہی کا نتیجہ تھا کہ آپ پر نبوت ختم ہوگئی اور یہ فرمایا کہ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْن (الاحزاب:41) ختمِ نبوت کے یہی معنے ہیں کہ نبوت کی ساری خوبیاں اور کمالات تجھ پر ختم ہوگئے اور آئندہ کے لیے کمالاتِ نبوت کا باب بند ہوگیا اور کوئی نبی مستقل طور پر نہ آئے گا۔ نبی عربی اور عبرانی دونوں زبانوں میں مشترک لفظ ہے جس کے معنے ہیں خدا سے خبر پانے والا اور پیشگوئی کرنے والا۔ جولوگ براہ راست خدا سے خبریں پاتے تھے وہ نبی کہلاتے تھے اور یہ گویا اصطلاح ہوگئی تھی۔ مگر اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو بند کر دیا ہے اور مُہر لگا دی ہے کہ کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ جب تک آپ کی اُمّت میں داخل نہ ہو اور آپؐ کے فیض سے مستفیض نہ ہو ۔وہ خدا تعالیٰ سے مکالمہ کا شرف نہیں پا سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں داخل نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا ہے کہ وہ بدوں اس اُمّت میں داخل ہونے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض پانے کے بغیر کوئی شرفِ مکالمہ الٰہی حاصل کر سکتا ہے تو اسے میرے سامنے پیش کرو۔
یہی ایک آیت زبردست دلیل ہے اس امر پر جو ہم کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ دوبارہ نہیں آئیں گے بلکہ آنے والا اس اُمّت میں سے ہوگا ۔کیونکہ وہ نبی ہوں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص نبوت کا فیضان حاصل کر سکتا ہی نہیں جب تک وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ نہ کرے جو صاف لفظوں میں یہ ہے کہ آپ کی اُمت میں داخل نہ ہو۔ اب خاتم النبّیین والی آیت تو صریح روکتی ہے پھر وہ کس طرح آسکتے ہیں ۔ یا اُن کو نبوت سے معزول کرو اور ان کی یہ ہتک اور بے عزتی روا رکھو اور یایہ کہ پھر ماننا پڑے گا کہ آنے والا اسی اُمّت میں سے ہو گا۔ نبی کی اصطلاح مستقل نبی پر بولی جاتی تھی مگر اب خاتم النبّیین کے بعد یہ مستقل نبوت رہی ہی نہیں ۔ اس لئے کہا ہے ؎
خارقے از ولی مسموع است معجزہ آں نبی متبوع است‘‘
(کہ وہ کرامت جو ولی سے سنی گئی ہے وہ اس نبی کا معجزہ ہے جس کی اتباع کی جاتی ہے)۔’’ پس اس بات کو خوب غور سے یاد رکھو کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور حضرت عیسٰے علیہ السلام کو نبوت کا شرف پہلے سے حاصل ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ پھر آئیں اور اپنی نبوت کو کھو دیں ۔ یہ آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مستقل نبی کو روکتی ہے۔ البتہ یہ امر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے کہ ایک شخص آپ ہی کی اُمت سے آپ ہی کے فیض سے وہ درجہ حاصل کرتا ہے جو ایک وقت مستقل نبی کو حاصل ہوسکتا تھا۔ لیکن اگر وہ خود ہی آئیں تو پھر صاف ظاہر ہے کہ پھر اس خاتم الانبیاء والی آیت کی تکذیب لازم آتی ہے۔ اور خاتم الانبیاء حضرت مسیح ٹھہریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا آنا بالکل غیر مستقل ٹھہر جا وے گا کیونکہ آپ (یعنی حضرت عیسیٰ) پہلے بھی آئے اور ایک عرصہ کے بعد آپ رخصت ہوگئے اور حضرت مسیح آپ سے پہلے بھی رہے اور آخر پر بھی وہی رہے۔ غرض اس عقیدہ کے ماننے سے کہ خود ہی حضرت مسیح آنے والے ہیں بہت سے مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور ختم نبوت کا انکار کرنا پڑتا ہے جو کُفر ہے۔ (ملفوظات جلدنمبر3صفحہ نمبر95-96۔ایڈیشن2003ء ۔مطبوعہ ربوہ)
پھر محی الدین ابنِ عربی کا مذہب عقیدہ نبوت کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’ختمِ نبوت پر محی الدین ابنِ عربی کا یہی مذہب ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہو چکی ورنہ اُن کے نزدیک مکالمہ الٰہی اور نبوت میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔ فرمایا’’ اس میں علماء کو بہت غلطی لگی ہے۔ خود قرآن میں اَلنَّبِیِّیْن جس پر ال پڑا ہے موجود ہے۔ اس سے مراد یہی ہے کہ جو نبوت نئی شریعت لانے والی تھی وہ اب ختم ہوگئی ہے۔ اگر کوئی نئی شریعت کا دعویٰ کرے تو کافر ہے اور اگر سرے سے مکالمہ الٰہی سے انکار کیا جاوے تو پھر اسلام توایک مردہ مذہب ہوگا اور اس میں اور دوسرے مذاہب میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ کیونکہ مکالمہ کے بعد اَور کوئی ایسی بات نہیں رہتی کہ وہ ہوتو اُسے نبی کہا جائے۔ نبوت کی علامت مکالمہ ہے لیکن اب اہلِ اسلام نے جو یہ اپنا مذہب قرار دیا ہے کہ اب مکالمہ کا دروازہ بند ہے اس سے تو یہ ظاہر ہے کہ خدا کا بڑا قہر اسی اُمّت پر ہے۔ اوراِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ (الفاتحہ:6 ،7)کی دُعا ایک بڑا دھو کا ہو گی‘‘ (نعوذ باللہ)’’ اور اُس کی تعلیم کا کیا فائدہ ہو اگویا یہ عبث تعلیم خدا نے دی ۔
(ملفوظات جلد 3صفحہ 52،53 ۔ایڈیشن2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں ۔
’’میرا دعویٰ صرف یہ ہے کہ موجودہ مفاسد کے باعث خدا تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے اور میں اس امر کا اخفاء نہیں کر سکتا کہ مجھے مکالمہ مخاطبہ کا شرف عطا کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے اور کثرت سے ہوتا ہے۔ اسی کا نام نبوت ہے مگر حقیقی نبوت نہیں ۔نَبَأ ایک عربی لفظ ہے جس کے معنی خبر کے ہیں ۔ اب جو شخص کوئی خبر خدا تعالیٰ سے پا کر خلق پر ظاہر کرے گا اُس کو عربی میں نبی کہیں گے۔میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ یہ تو نزاعِ لفظی ہے‘‘(یعنی لفظوں کا جھگڑا ہے) ’’کثرت مکالمہ مخاطبہ کو دوسرے الفاظ میں نبوت کہا جاتا ہے۔ دیکھو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ قول کہ قُوْلُوْا اِنَّہٗ خَاتَم النَّبِیِّیْنَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ۔ اس امر کی صراحت کرتا ہے۔ نبوت اگر اسلام میں موقوف ہو چکی ہے تو یقینا جانو کہ اسلام بھی مر گیا اور پھر کوئی امتیازی نشان بھی نہیں ہے۔ ایک باغ جس کو اس کے مالی اور باغبان نے چھوڑ دیا ،اُسے بھلا دیا ،اُس کی آبپاشی کی اُس کو فکر نہیں تو پھر نتیجہ ظاہر ہے کہ چند سال بعد وہ باغ خشک ہو کر بے ثمر ہو جاوے گا اور آخر کار لکڑیاں جلانے کے کام میں لائی جاویں گی۔ اصل میں ان کی اور ہماری نزاعِ لفظی ہے۔ مکالمہ مخاطبہ کا تو یہ لوگ خود بھی اقرار کرتے ہیں ۔ مجدّد صاحب بھی اس کے قائل ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ جن اولیاء اللہ کو کثرت سے خدا تعالیٰ کا مکالمہ مخاطبہ ہوتا ہے وہ محدث اور نبی کہلاتے ہیں ۔ فرمایا’’ اچھامَیں پوچھتا ہوں کہ ایک انسان خدا تعالیٰ سے خبر پا کر دنیا پر ظاہر کرے تو اس کا نام آپ لوگ عربی زبان میں بجز نبی کے اور کیا تجویز کرتے ہیں ؟ عجیب بات ہے کہ اسی لفظ کے مفہوم کو اگر زبانِ اُردو میں یا پنجابی میں بیان کیا جائے تو مان لیتے ہیں اور اگر عربی زبان میں پیش کریں تو نفرت اور انکار کرتے ہیں ۔یہ تعصب نہیں تو اور کیا ہے‘‘۔
(ملفوظات جلد5صفحہ 667،668۔ایڈیشن2003ء۔ مطبوعہ ربوہ )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’ پس میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔( ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اُس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا۔ اور اُس کی تاثیرِ قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں ۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اُس کی جان گداز ہوئی۔ اس لئے خدا نے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا، اُس کو تمام انبیاء اور تمام اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں ۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے۔ اور وہ شخص جو بغیر اقرارِ افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذرّیت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطاکیا گیاہے۔ جو اُس کے ذریعے سے نہیں پاتا وہ محرومِ ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے؟ہم کافرِ نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحیدِ حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعے سے پائی۔ اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعے سے اور اُس کے نور سے ملی ہے۔ اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعے سے ہمیں میسر آیا ہے۔ اس آفتابِ ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے۔ اور اُسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں ‘‘۔
(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلدنمبر22صفحہ نمبر118-119۔ ایڈیشن2011ء)
پس آپ نے آ کر ہمیں بتایا کہ مقامِ ختمِ نبوت کی حقیقت کیا ہے؟ ختمِ نبوت یہ نہیں کہ آپ کے آنے سے نبوت پر مہر لگ گئی اور اب اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام اور وحی کی جو ایک صفت تھی اُس صفت کو متروک کر دیا۔ اگر یہ تعریف ہو تو پھر تو ختمِ نبوت پر حرف آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خدائی پر حرف آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر حرف آتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپؐ کے معجزات کا تسلسل جاری ہے اور اس زمانے میں یہ مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے سے جاری فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی طرف رسول بن کر آئے تھے۔ اور آپؐ کی خصوصیات یہ ہیں جو آپ نے ہمیں بتائی ہیں کہ آپؐ تمام دنیا کی طرف رسول بن کر آئے۔یہ مقامِ ختمِ نبوت ہے کہ تمام نبیوں کی تمام صفات آپ میں جمع ہو گئیں ۔ یہ آپؐ کا مقامِ ختمِ نبوت ہے کہ آپ کو نبی کا مقام ملنے سے مقامِ ختم نبوت نہیں بلکہ آپؐ کی پیدائش کے وقت سے ہی آپؐ کو مقامِ ختم نبوت مل گیا۔آپ کے اسوہ حسنہ پر چلنے والے، اعلیٰ ترین معیاروں کو حاصل کر لیتے ہیں اُن کو بھی آپؐ کی پیروی میں وہ مقام مل سکتا ہے جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ وہ اُس کی ایک انتہا ہے۔ اس لئے حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کے حقیقی علماء آجکل کے وہ علماء نہیں جو لوگوں کو فساد پر اُبھارنے والے ہیں بلکہ حقیقی علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں ۔ (تفسیر کبیر امام رازی جلدنمبر9جز نمبر17صفحہ نمبر93تفسیر سورۃ یونس زیر آیت نمبر57دار لکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)
پس خاتم النبیین کا یہ مطلب ہے کہ آپؐ کی نبوت میں ہر چیز کی مہر لگ گئی ہے اور آپ کے زیرِ سایہ اب نبوت کا نظام جاری ہو سکتا ہے اس کے بغیر نہیں ۔
جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ یہ مضمون جو ایک احمدی کی روح ہے، جو ایک احمدی کے دین کی اساس ہے اورکئی مرتبہ بیان ہو چکا ہے۔ ہمارے علماء اور داعیین اس حوالے سے لوگوں کے شبہات اور غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات جومَیں نے پیش کئے ہیں اس کے علاوہ بھی آپ کی کتب اپنے آقا و سید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور عشق سے بھری پڑی ہیں ۔ اپنی پہلی کتاب براہینِ احمدیہ سے لے کے اپنی آخری کتاب تک جو پیغامِ صلح ہے آپ کی تمام کتب میں مقام رسول اور غیرتِ رسول کا اظہار ہمیں نظر آتا ہے۔ اور اسی کا نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر اس مضمون سے بھرا پڑا ہے۔ مَیں خود بھی اس کو مختلف رنگ میں ، حالات میں خطبات میں بیان کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں لیکن آج پھر ذرا تفصیل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے اس لئے بیان کیا ہے کہ وقتاً فوقتاً جیسا کہ میں نے کہا غیر از جماعت علماء یا اُن کے زیرِ اثر مسلمانوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے اور اس حوالے سے نئی نسل اور کم علم لوگوں کے ذہنوں کو زہر آلود کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور پھر احمدیت کی طرف منسوب کئے گئے جھوٹ کے ان پلندوں اور ظالمانہ الزامات کی وجہ سے عامۃ المسلمین میں سے ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے زعم میں ناموسِ رسالت کی خاطر اور غیرتِ دینی کی وجہ سے احمدیوں کی مخالفت میں جوش اور غیظ دکھاتے ہیں اور اس کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانے کا رویہ اپناتے ہیں ۔ تو شاید اُن کے ذہنوں میں حقیقت واضح ہو جائے۔ شاید کہ اس طرح کسی کے دل میں کوئی بات اثر کر جائے اور ہماری طرف سے ہر کوشش ہونی چاہئے۔ ہماری کوئی کوشش ایسی نہ ہو جو نامکمل رہ جائے۔ گو اب اتمامِ حجت تو ہو چکاہے لیکن پھر بھی ہمدردی کا جذبہ غالب آ جاتا ہے اور رحمۃللعالمین سے عشق اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کو سمجھانے کی ہر کوشش کی جائے۔
کل بھی مَیں نے اپنی تقریر میں واقعات سنائے تھے اُن میں بھی بعض لوگ ایسے تھے، جیسا کہ مَیں نے کہا ہے، جن کو جب حقیقت کا علم ہوا تو انہوں نے احمدیوں کے عشقِ رسول اور مقامِ خاتم النبیین کو پہچان کر اور احمدیوں کے دلوں میں جو مقامِ خاتم النبیین ہے اُس کو دیکھ کر اپنے علماء کو برا بھلا کہا اور جماعت میں شامل ہونے کی توفیق پائی۔ پس ہر مسلمان کہلانے والے کو سمجھنا چاہئے کہ اُس نے جان خدا کو دینی ہے۔ مولوی یا کوئی شدت پسند گروہ اُس وقت کام نہیں آئے گا جب حساب کتاب ہو رہا ہو گا۔ اُس وقت اِن لوگوں کا بھی یہی جواب ہو گا کہ ہم خود گمراہ تھے تمہیں کیا ہدایت دیتے؟ پس زمانے کو دیکھیں، حالات کو دیکھیں اور بلاوجہ مولوی کے غیظ و غضب دلانے کے زیرِ اثر نہ آئیں۔ یقیناً ایسے بھی بہت سے ہیں جو مولوی کی باتوں سے لا تعلق ہیں اور احمدیوں سے تعلقات بھی رکھتے ہیں ۔ اُن کو کہا جاتا ہے کہ تمہارے دل عشقِ رسول اور غیرتِ رسول سے خالی ہیں ۔ پمفلٹ تقسیم کئے جاتے ہیں اور کھلے عام تقسیم کئے جاتے ہیں اور دکانوں اور گھروں میں بھجوائے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا یہ شریفانہ یا لاتعلقانہ رویہ باوجود مولوی کے غیرت دلانے کے اس لئے ہے کہ وہ مسلمان ہو کر پھر درندگی نہیں دکھانا چاہتے۔ وہ انسانی قدروں کو پامال نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ناموسِ رسالت کے نام پر جھوٹی غیرت دکھا کر رحمۃ للعالمین کو بدنام نہیں کرنا چاہتے۔ پاکستان اور بعض ملکوں میں یہ ان لوگوں کے رویے ہیں جو مذہب کے نام پر سیاسی یا دنیوی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کا کوئی تعلق حبِّ رسول سے نہیں ہے بلکہ ان کے اپنے سیاسی مفادات ہیں ۔ اور ان کی بات ماننا، سننااپنی دنیا و عاقبت خراب کرنے کے مترادف ہے۔ یا پھر ان لوگوں کا تعلق دہشت گرد تنظیموں سے ہے جنہوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے یہ رویہ اپنایا ہوا ہے۔ جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اسلام کے نام پر جیساکہ مَیں نے کہا اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ اور ان لوگوں نے پاکستان میں خاص طور پرعوام الناس اور ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے جس کی وجہ سے شرافت نے اپنی زبان بند کی ہوئی ہے ۔
پس ہم احمدی ہی ہیں جنہوں نے ان گردنوں کو بھی آزاد کروانا ہے۔ ہمارے پاس کوئی دنیاوی طاقت تو نہیں لیکن حقیقی غیرتِ رسول ہم سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ آپؐ سے منسوب لوگوں کی گردنوں کو آزاد کروایا جائے۔ اس لئے ہم اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس محسنِ انسانیت کے صدقے آپؐ کی طرف منسوب ہونے والوں کو تباہ ہونے سے بچا لے کہ یہی سب سے بڑا ہتھیار ہے جو ہماری کامیابیوں کا راز ہے۔ساتھ ہی ہم ہر ذی شعور مسلمان سے یہ بھی کہتے ہیں کہ اپنے خود ساختہ یا خوف کے زیرِ اثر گونگے پن کو زبان دو۔ خدا کا خوف اپنے اندر پیدا کرو، نہ کہ دنیا والوں کا۔ اسلام کے نام پر انسانیت کی قدریں پامال کر کے اُس محسنِ انسانیت اور رحمۃ للعالمین کو بدنام کرنے والوں کا ساتھ دے کر اُس رسول کی ناراضگی اور خدا کی ناراضگی مول نہ لو۔ اپنی شرافت کو زبان دو۔ انسانی شرف کو قائم کر کے پاکستان اور اسلام کا وقار بلند کرنے کی کوشش کرو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بلند کر کے آپ کی اپنی امت کے لئے کی گئی دعاؤں کے وارث بنو۔ اپنی حالتوں کو دیکھو اور غور کرو کہ باوجود اسلام اور رسول کی غیرت کے اُس اظہار کے جو تم اب تک کرتے رہے ہویا کر رہے ہو، بدنامی اور ناکامی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کر رہے، نہ کر سکے۔ اس کی وجہ نعوذ باللہ ، میرے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام میں کسی قسم کی کمی نہیں ہے نہ ہی اسلام کے اعلیٰ اور مکمل دین ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک ہے بلکہ یہ تمہارے عمل اور رویے اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد یعنی وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِم ْ(الجمعۃ:4) پر غور کرنے کی بجائے اس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہے۔ پس سوچو اور غور کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں عقل دے۔
جیساکہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے کہ جہاں تک ہم احمدیوں کا سوال ہے ہم خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ کہتے ہیں کہ ہم غیرتِ رسول اور ناموسِ رسول کے لئے اپنی جانیں قربان کرنا جانتے ہیں اور کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ہر احمدی جو اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے شہادت کا مقام حاصل کرتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی وجہ سے کرتا ہے۔ وہ اپنی جان کا نذرانہ اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہوئے اور حضرت خاتم الانبیاء پر درود پڑھتے ہوئے پیش کرتا ہے۔ وہ حقیقی درود پڑھتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام کے نئے راستے ہمیں دکھاتا ہے۔ وہ درود جو ہمارے دل کی آواز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں سے افضل ہیں اور یہ درود آپؐ کے افضل ہونے کے اظہار کے طور پر پڑھا جاتاہے۔ وہ درود جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیتِ نبوت کا ادراک ہمارے دلوں میں مزید روشن تر کر کے پیدا کرتے ہوئے آپؐ کے مقامِ ختمِ نبوت کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلاتا ہے اور اس طرح درود شریف پڑھنے کا یہ سب فہم و ادراک ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں فنا ہو کر اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتوں سے ھٰذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوۡلَ اللّٰہِ(تذکرۃ صفحہ نمبر34ایڈیشن چہارم 2004ء)۔ کی خوشنودی کی سند لے کر پھر ہم میں پیدا فرمایا ہے۔ پس کون ہے جو ہم سے عشقِ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم چھین سکے۔ خدا کی قسم! ہمارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دئیے جائیں تو ہم اُسے خوشی سے قبول کرلیں گے لیکن اپنے آقا حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور آپؐ پر درود و سلام کے اس ادراک سے ایک انچ کا ہزارواں حصہ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ دنیاکے امتحان اور ابتلا تو ہم برداشت کر سکتے ہیں لیکن اپنے پیارے خدا کی ناراضگی اور اپنے آقا سے عشق میں کمی ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ اورجب ہم خدا اور رسول کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں تو پھر اپنے وعدے کے مطابق سب سے زیادہ پیار کرنے والا خدا بھی ہمارے ساتھ ہو گا۔ اور آج تک کی تاریخِ احمدیت یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے۔ اب خدا تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ وہ دنیا پر مقامِ ختمِ نبوت جماعت احمدیہ کے ذریعے واضح کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر دیا ہے کہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اب جماعت احمدیہ کے ذریعے دنیا پر لہرائے اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہم گزشتہ 123 برس سے قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں اور انشاءاللہ تعالیٰ قربانیاں دیتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ تمام دنیا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔
لیکن اے دشمنانِ احمدیت! جو اپنے ذاتی مفاد کی خاطر حضرت خاتم الانبیاء محسنِ انسانیت اور رحمۃ للعالمینؐ کے نام پر ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کر رہے ہو، تمہیں آج میں واضح طور پر اور تحدّی سے یہ کہتا ہوں کہ تمہارا مقدر ناکامیاں ہیں ، تمہارا مقدر تباہی و بربادی ہے اور تمہارا مقدر ذلّت و خواری ہے۔ جس خدا کے نام پر اور جس حبیبِ خدا کے نام پر تم یہ ظلم و بربریت کر رہے ہو وہ خدا ضروراپنی غیرت دکھائے گا۔ وہ خدا اپنے حبیب کی عزت و ناموس کی خاطر تمہیں ضرور پکڑے گا کہ وہی اپنے حبیب سے حقیقی پیار کرنے والا ہے جسے قطعاً یہ برداشت نہیں کہ محسنِ انسانیت کو ظلم و بربریت کر کے بدنام کیا جائے۔ پس اب بھی ہوش کرو اور وقتاً فوقتاً آفات کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تنبیہی پیغام مل رہے ہیں اُنہیں سمجھو ورنہ جس دن اذنِ الٰہی نے آخری فیصلہ کر لیا اُس دن تمہاری خاک بھی نظر نہیں آئے گی۔ پس ہوش کرو، ہوش کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں عقل دے۔ تم اس غلط فہمی میں نہ رہو کہ تم اپنے کسی بھی حربہ سے جماعت احمدیہ کو تباہ کر سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں ہر روز اپنے فضلوں کے وہ نظارے دکھا رہا ہے جو ہماری توقعات سے بھی بڑھ کر ہیں ۔ یہ اس لئے ہے کہ اُس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہ وعدے ہیں اور بیشمار جگہ مختلف حوالوں سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اِنِّیۡ مَعَکَ۔(تذکرۃ صفحہ نمبر177ایڈیشن چہارم 2004ء)۔ پس جس کے ساتھ اللہ ہو جو تمام طاقتوں کامالک ہے اور جو بہترین مددگار ہے اُس کا مقابلہ کوئی انسان کیا کر سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی رنگ میں عشقِ رسول کا حق اداکرنے والا بنائے۔ پہلے سے بڑھ کر درود شریف کا ادراک عطا فرمائے۔ ہمیں ہمیشہ ثباتِ قدم عطا فرمائے اور ہمیں فتوحات کے نظارے پہلے سے بڑھ کر دکھائے۔
اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں احمدیت کی خاطر ظلم میں پسنے والوں کے لئے بھی دعا کریں ۔ بہت دعا کریں ۔ اسیران کے لئے، واقفینِ زندگی کے لئے، جماعتی خدمات بجا لانے والوں کے لئے، جلسہ کی برکات کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کے لئے کہ جماعت کی روحانی ترقی اور تقویٰ کے لئے، امتِ مسلمہ کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے، کُل انسانیت کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اسلام کی آغوش میں لا کر حقیقی مسلمان بن کر اپنی دنیا و عاقبت سنوارنے کی توفیق بخشے۔ عمومی طور پر دنیا کے لئے جو فساد میں مبتلا ہے۔اب کل ہی ناروے میں بھی ایک واقعہ ہوا جہاں اکانوے(91) لوگ بم بلاسٹ میں قتل کردیے گئے اور مار دیے گئے۔ وہاں ناروے کا جو منسٹر، میئر صاحب آئے ہوئے تھے وہ اپنے لوگوں کی موت کی خبر سن کر اور موت کا نظارہ دیکھ کر کہہ رہے تھے کہ مجھے اُس درد کا اور بھی زیادہ احساس ہوا ہے جس میں آپ لوگوں کی لاہور کی مسجد میں چھیاسی شہادتیں ہوئی تھیں ۔ پس اللہ تعالیٰ اُس قوم کو بھی صبر عطاکرے اور اُن لوگوں کو جو اس قسم کے ظالمانہ فعل کرتے ہیں عقل بھی عطا کرے۔ ہماری ہمدردیاں اور جذبات ہمیشہ اُن لوگوں کے ساتھ ہیں جو مظلوم ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اُن کو ظلم سے ہمیشہ بچائے رکھے۔ اب ہم دعاکرتے ہیں ۔ دعا میں شامل ہو جائیں ۔