خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 8؍ اپریل 2011ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج مَیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کچھ روایات پیش کروں گا۔ پہلے بھی چند مرتبہ یہ روایات پیش کر چکا ہوں اور کوشش یہی ہے کہ یہ دوبارہ دہرائی نہ جائیں اور نئے صحابہ کی روایات سامنے آئیں۔ جو رجسٹر روایات صحابہ کا ہے اُس میں سے مَیں نے لی ہیں، تا کہ آپ کو پتہ چلے کہ اُس زمانے میں صحابہ نے، اُن لوگوں نے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی، کس طرح آپ کو دیکھا؟ آپ پہ اُن کے تاثرات کیا تھے؟ مختلف رنگ میں ہر ایک کی روایات ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان روایات کا ایک سلسلہ اپنے خطبات اور خطابات میں شروع کیا تھا۔ میری کوشش تو یہی ہے کہ نہ وہ دوبارہ سامنے آئیں اور نہ جو مَیں بیان کر چکا ہوں وہ آئیں بلکہ نئے صحابہ کے نئے واقعات سامنے آتے رہیں۔ یہ روایات ہمیں جہاں صحابہ کے اخلاص و وفا کے نمونوں اور اُن کے احمدیت میں شامل ہونے کے واقعات کا پتہ دیتی ہیں وہاں ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام اور اپنے مخلصین سے آپ کے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان میں بعض مسائل کا حل بھی موجود ہے۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا اُن لوگوں کی یہ روایات مَیں پیش کرتا ہوں جو آپ کی پاک جماعت کا حصہ بنے۔ جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جماعت نے اخلاص و وفا میں بڑی نمایاں ترقی کی ہے۔
پہلی روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ ولد میاں نادر علی صاحب کی ہے، جن کا بیعت کا سن اور زیارت کا سن 1900ء ہے۔ یہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے 1899ء میں بذریعہ خط کے بیعت کی اور اس سے پہلے بھی تین چار سال میرے والد صاحب نے بیعت کے لئے بھیجا تھا مگر مَیں بسبب بعض وجوہ کے واپس گھر چلا گیا اور بیعت نہیں کی۔ اس کے بعد سید بہاول شاہ صاحب جو ہمارے دلی دوست اور استاد بھی ہیں، اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی اور اُنہوں نے مجھے حضور کی کتابیں سنانی شروع کیں۔ جتنی اُس وقت تک حضور کی کتب تصنیف ہو چکی تھیں، قریباً قریباً ساری مجھ کو سنائیں۔ اُنہی دنوں میں مَیں نے رؤیا دیکھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں، مَیں حضور سے دریافت کرتا ہوں کہ حضور! مرزا صاحب نے جو اس وقت دعویٰ مسیح اور مہدی ہونے کا کیا ہے کیا وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں سچے ہیں۔ (خواب میں ہی کہتے ہیں کہ) مَیں نے کہا حضور !قسم کھا کر بتاؤ۔ آپؐ (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایاکہ مجھے قسم کھانے کی حاجت نہیں۔ مَیں امین ہوں اور زمینوں اور آسمانوں میں مَیں امین ہوں۔ اس کے بعد کہتے ہیں اُسی رات کی صبح کو مَیں نے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں بیعت کا خط لکھا۔ اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام بھی لکھ دیا۔ اُس کے بعد 1900ء میں قادیان حاضر ہو کر حضور کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب صفحہ نمبر120غیر مطبوعہ)
حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحبؓ۔ ان کی بیعت کا سن 1896ء ہے۔ کہتے ہیں کہ میری عمر قریباً 14سال کی تھی، جب مَیں نے اپنے والد صاحب حضرت مولوی نیک عالم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اور برادرم مولوی غریب اللہ صاحب سکنہ موضع کلری کے، کے ساتھ تحریری بیعت کی۔ اور 1898ء میں شروع دسمبر سے سالانہ جلسہ تک مَیں حضور کی خدمت میں حاضر رہا۔ (جلسہ سالانہ پہ گئے لیکن دسمبر کے شروع میں چلے گئے۔) پھر یہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی تشریف آوری جہلم بمقدمہ کرم دین بھیں پر حضور جری اللہ کی خدمت میں حاضر رہا۔ (اُس وقت بھی حضور کے ساتھ تھے) اور 1907ء کے جلسہ سالانہ میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری زیارت قریباً ڈیڑھ ہفتہ تک کی۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ حضرت جری اللہ کی پہلی زیارت میں پنجگانہ نمازوں میں راقم حضور علیہ السلام کے ایک نمبر بائیں یا دو نمبر بائیں صفِ اول میں رہتا تھا (یعنی دائیں یا بائیں کھڑے ہوتے تھے)۔ اُن دنوں حضور انور پانچوں نمازوں کے بعد اپنے عاشقین خدام میں آدھ گھنٹہ یا کچھ اِس سے کم و بیش عرصہ تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ اور اپنی قیمتی نصائح سے اپنے خدام کو مستفیض فرمایا کرتے تھے۔ اور اکثر طور پر مغرب کا کھانا مسجد میں ہی تناول فرمایا کرتے تھے۔ خصوصاً نمازِ صبح اور مغرب کے بعد عشاء تک اپنے عاشقوں اور فدائیوں کو روزانہ وعظ و تعلیم سے استفادہ فرمایا کرتے تھے۔ ان ایام میں خاکسار کو روزانہ حضور علیہ السلام کے پاؤں اور ہاتھ دبانے کا اکثر موقع ملا کرتا تھا۔ لیکن چونکہ میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اس لئے حضور علیہ السلام کے ادب و شرم اور نبیّانہ رعب کی وجہ سے خاکسار نے نہ تو کوئی بات حضور کی خدمت میں عرض کی اور نہ کبھی راقم کو کوئی بات کرنے کی جرأت ہوئی۔ حضور علیہ السلام کی تمام گفتگو نہایت ہمدردانہ اور نہایت مشفقانہ اور مربیانہ تھی۔ لیکن خدادادنبیانہ رعب کی وجہ سے اس ناچیز کو کبھی کچھ عرض کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ یہ میرا اپنا ہی قصور تھا کہ مَیں نے کبھی کوئی التماس نہ کی اور ساری فرحت اور خوشی حضور کے کلمات طیبات کے بادب اور ہمہ تن گوش بن کر سننے میں ہی محسوس کرتا تھا۔ ایک دن حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے سردار فضل حق صاحب مرحوم احمدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (سابق سندر سنگھ دفعدار) کی نسبت فرمایا تھا کہ اگر کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کی زیارت کرنی ہے تووہ سردار صاحب کو دیکھ لے۔ انہوں نے دنیا کی دولت کو لات مار کر اسلام کی روکھی روٹیاں قبول کی ہیں۔ پھر لکھتے ہیں کہ میر منشی مرزا جلال الدین صاحب احمدی مرحوم میرے حقیقی پھوپھا تھے اور حضور نے کتاب انجامِ آتھم میں مندرجہ فہرست میں صحابہ 313میں موصوف کا نام سب سے اوّل پر رکھا ہے۔ ان ہی کے فیضِ صحبت سے اور سید غلام شاہ صاحب مرحوم احمدی سکنہ نورنگ تحصیل کھاریاں اور مولوی برہان الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرحوم احمدی جہلم کے فیضِ صحبت سے احمدیت کی نعمت راقم اور اُس کے والد کو ملی ہے۔ سید صاحب موصوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مولوی صاحب موصوف میرے والد ماجد مرحوم کے استاد بھی تھے۔ مرزا محمد اشرف صاحب پنشنر مہاجر سابق محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان میرے حقیقی پھوپھی زاد تھے۔ انہی ایام میں حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کی خدمت میں کسی صاحب نے عرض کی۔ حضور انور مطبع خانہ میں کبھی کبھی تشریف لایا کریں۔ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ آپ مجھے معاف رکھیں مَیں وہاں نہیں آ سکتا۔ کیونکہ وہاں حقہ رکھا ہوا ہوتا ہے اور مَیں حقہ کو دیکھ کر سر سے پاؤں تک شرم میں پنہاں ہو جاتا ہوں۔ لیکن مَیں حقہ پینے والوں کو دل سے برا نہیں جانتا۔ پھر فرمایا کہ بعض لوگ بیعت کے واسطے میرے پاس آتے ہیں، اُن کی داڑھی اُسترے سے منڈھی ہوئی ہوتی ہے، اُن کے منہ سے شراب کی بُو آتی ہے اُن کو بھی دل سے برا نہیں جانتا۔ کیونکہ میرا ایمان ہے کہ اگر وہ میرے پاس رہیں گے یا کثرت سے میرے پاس آئیں گے تو خداوند کریم اُن کو ضرور متقی اور پاک صاف کر دیں گے۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت ماسٹر خلیل الرحمن صاحب صفحہ نمبر121تا123غیر مطبوعہ)
پھر ایک روایت حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ولد حافظ محمد حسین صاحب سکنہ وزیر آباد، گوجرانوالہ کی ہے، جن کی بیعت 1897ء کی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قادیان دارالمسیح میں جس مکان میں میاں بشیر احمد صاحب رہتے ہیں جس کا دروازہ مسقف گلی کے نیچے ہے۔ اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چند دوستوں کو جمع فرما کر ایک تقریر فرمائی کہ مَیں نے ہائی سکول اس لئے قائم کیا تھا کہ لوگ وہاں سے علم حاصل کر کے مخلوقِ خدا کو تبلیغِ حق کریں۔ مگر افسوس کہ لوگ انگریزی پڑھ کر اپنے کاروبار پر لگ جاتے ہیں اور میرا مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ اس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ خالص دینی مدرسہ قائم کیا جائے۔ کوئی ہے جو خدا کے لئے اپنے بچے کو اس سکول میں دینی علم حاصل کرنے کے لئے داخل کرے؟ اُس وقت میرا بیٹا عبیداللہ مرحوم سات آٹھ سال کا تھا۔ اُن دنوں مفتی محمد صادق صاحب مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ اتفاق سے وہ لڑکا اس وقت میرے پاس کھڑا تھا۔ مَیں نے اُس کو حضرت صاحب کے سپرد کر دیا۔ اور اُس وقت مدرسہ احمدیہ میں ایک فضل دین نامی درمیانہ قد ضلع سیالکوٹ کا چپڑاسی تھا۔ حضرت صاحب نے عبیداللہ کو اپنے دستِ مبارک سے پکڑ کر فضل دین کے سپرد کر دیا کہ اِس کو احمدیہ سکول میں لے جا کر داخل کرو۔ الغرض وہی عبیداللہ اس مدرسہ احمدیہ میں مولوی فاضل ہو کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے عہد میں ماریشس بھیجا گیا جو سات سال تبلیغ کر کے واصل باللہ ہو گیا اور خلیفہ ثانی کی زبانِ مبارک سے ہندوستان کا پہلا شہید کا خطاب پا گیا۔ (حضرت مولوی عبیداللہ صاحب ماریشس میں مبلغ تھے۔ وہیں اُن کی وفات ہوئی۔ وہیں اُن کی تدفین ہوئی۔ یہ اُن کا ذکر ہے جو اُن کے والد صاحب کر رہے ہیں)۔
پھر کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سُنا گیا کہ آج گورداسپور میں کرم دین بھیں والے کے مقدمہ کی تاریخ ہے، وہاں حضرت صاحب تشریف لے گئے ہیں اور یہ بھی سُنا گیا کہ جو سرمایہ ہمارے گھر تھا وہ سب خرچ ہو گیا ہے۔ میں یہ سُن کر گورداسپور پہنچا۔ حضور صبح کی نماز کے بعد لیٹے ہوئے تھے اور ایک آدمی دبا رہا تھا۔ مَیں نے بھی جاتے ہی حضور کو دبانا شروع کر دیا۔ چونکہ اِن دنوں طاقتور تھا اور ہمیشہ سے اپنے سابق استادوں کی خدمت کا شرف حاصل تھا گویا مجھے مٹھی چاپی کرنے کی عادت تھی۔ مَیں نے اسی طرح دبانا شروع کیا۔ حضرت صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو میرا دبانا محسوس ہوا۔ فوراً منہ سے چادر اُٹھا کر میری طرف دیکھ کر بدیں الفاظ ارشاد فرمایا۔ حافظ صاحب آپ راضی ہیں؟ خوش ہیں؟ کب آئے ہیں؟ مَیں نے عرض کیا کہ حضور ابھی آیا ہوں۔ مگر لکھتے ہیں کہ جو بات ذکر کے لائق ہے اور جس کی خوشی میرے دل میں آج تک موجزن ہے وہ یہ ہے کہ مَیں نے عرض کیا کہ حضور مجھے پہچانتے ہیں؟ فرمایا کیا حافظ جی! مَیں آپ کو بھی نہیں پہچانتا؟ یہ لفظ سنتے ہی مَیں خوشی سے چشمِ پُر آب ہو گیا۔ چونکہ حضور نے فرمایا ہوا تھا کہ جو مجھے پہچانتا ہے اور جس کو مَیں پہچانتا ہوں وہ طاعون سے محفوظ رہے گا۔ پھر کہتے ہیں حال پُرسی کی باتیں ہوتی رہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد کچھ اور آدمی بھی جمع ہو گئے اور سلسلہ گفتگو میں اتفاقاً یہ ذکر آ گیا کہ چوہدری حاکم علی صاحب پنیاری نے ذکر کر دیا کہ حضور آج جمعہ ہے۔ (چوہدری حاکم علی صاحب نو پنیار کے تھے) کہ حضور آج جمعہ ہے اور مولوی عبدالکریم صاحب نہیں آئے تو جمعہ کون پڑھائے گا۔ تو حضور نے بلا تامّل فرما دیا کہ یہ ہمارے حافظ صاحب جو ہیں، وزیر آبادی یہ پڑھائیں گے (یہ ان کا ذکر ہے)۔ میں یہ سُن کر کچھ بول نہ سکا۔ ایسا مرعوب ہو گیا کہ اس خیال سے کہ مَیں اس مامورِ خدا کے سامنے گناہگار آدمی ہوں، کیا کروں گا؟ اور کس طرح کھڑا ہوں گا؟ پھر دل میں خیال آیا کہ خیر ابھی جمعہ کا وقت دور ہے شاید اور کوئی شخص تجویز ہو جائے۔ آخر جمعہ کا وقت آگیا اور صفیں باندھ کر نمازی بیٹھ گئے۔ مَیں ایک صف میں ڈرتا ہوا شمال کی طرف بیٹھ گیا۔ آخر اذان ہو گئی۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ حافظ صاحب کہاں ہیں؟ آخر کسی شخص نے مجھے حاضرِ حضور کر دیا۔ مَیں نے حضور کے کانِ مبارک کے قریب ہو کر آہستہ آواز سے عرض کیا کہ حضور! مَیں گناہگار ہوں۔ مجھے جرأت نہیں کہ مَیں حضور کے آگے کھڑا ہو کر کچھ بیان کر سکوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ نہیں، آپ آگے ہو جائیں۔ مَیں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ گویا مجھے مصلّے پر کھڑا کر دیا۔ آخر مَیں نے متوکلاً علی اللہ خطبہ شروع کر دیا اور سورۃ فرقان کی تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا (الفرقان: 2) کی چند آیتیں پڑھیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ نے توفیق دی، سنایا۔ مَیں اُس وقت دیکھ رہا تھا کہ حضور علیہ السلام میرے لئے دعا فرما رہے ہیں اور میرا سینہ کھلتا گیا۔ اُس دن سے آج تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی کسی بحث میں یا تقریر میں کبھی نہیں جھجکا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ مَیں اسی کا نتیجہ سمجھتا ہوں کہ جب مَیں نومبر 1933ء میں ہجرت کر کے آیا ہوں تو مجھے مسجد اقصیٰ کی امامت کی خدمت سپرد ہوئی۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت غلام رسول صاحب وزیر آبادی صفحہ نمبر129تا131غیر مطبوعہ)
پھر یہ اپنا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مَیں نے قادیان پہنچ کر اپنے مقدمات کا ذکر کیا کہ مخالفین نے جھوٹے مقدمات کر کے اور جھوٹی قسمیں کھا کھا کر میرا مکان چھین لیا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب! لوگ لڑکوں کی شادی اور ختنے پر مکان برباد کر دیتے ہیں، آپ کا مکان اگر خدا کے لئے گیا ہے تو جانے دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور اس سے بہتر دے دے گا۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! یہ پاک الفاظ سنتے ہی میرے دل سے وہ خیال ہی جاتا رہا کہ میرا مکان چھن گیا ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس مقدس بستی قادیان میں جگہ دی اور مکان اس سے کئی درجے بہتر دے دیا۔ بیوی بھی دی، اولاد بھی دی۔
پھر لکھتے ہیں کہ اس ضمن میں ایک اور بات بھی یاد آئی ہے لکھ دیتا ہوں کہ شاید کوئی سعید فطرت فائدہ اٹھائے۔ وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ایک دن مسجد مبارک میں خواجہ کمال الدین صاحب نے کہا مدرسہ احمدیہ میں جو لوگ پڑھتے ہیں وہ مُلّاں بنیں گے۔ وہ کیا کر سکتے ہیں؟(بڑے فخر سے خواجہ صاحب نے کہا کہ تبلیغ کرنا ہمارا (یعنی خواجہ صاحب جیسے لوگوں کا) کام ہے۔ ) پھر کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ مدرسہ احمدیہ اُٹھا دینا چاہئے (یعنی ختم کر دینا چاہئے)۔ لکھتے ہیں کہ اُس وقت حضرت محمود اولوالعزم (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد) بیٹھے تھے وہ کھڑے ہو گئے (خلیفہ اول کے زمانے کی بات ہے) اور اپنی اس اولوالعزمی کا اظہار فرمایا کہ اس سکول کو یعنی مدرسہ احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے یہ جاری رہے گا اور انشاء اللہ اس میں علماء پیدا ہوں گے اور تبلیغِ حق کریں گے۔ یہ سنتے ہی خواجہ صاحب تو مبہوت ہو گئے اور مَیں اُس وقت یہ خیال کرتا تھا کہ خواجہ صاحب کو یقین ہو گیا ہے کہ ہم اپنے مطلب میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اور دیکھنے والے اب جانتے ہیں کہ اسی سکول کے تعلیم یافتہ فضلاء دنیا میں تبلیغِ احمدیت کر رہے ہیں۔ جو کہتے تھے کہ مسیح موعود کا ذکر کرنا سُمّ قاتل ہے اُنہی کے حق میں سُمّ قاتل ثابت ہوا۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت غلام رسول صاحب وزیر آبادی صفحہ نمبر132تا133غیر مطبوعہ)
لکھتے ہیں کہ ایک دن کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو نکلے تو خاکسار اور چند آدمی بھی ساتھ تھے۔ اُن میں سے ایک شخص مستری نظام الدین صاحب سابق سیکرٹری جماعت احمدیہ سیالکوٹ کے تھے جو ابھی تک بفضلِ خدا زندہ ہیں، انہوں نے مجھے کہا کہ حضرت صاحب آپ کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے ہیں اس لئے یہ عرض کہ پہلی تفسیریں تو کچھ ساقط الاعتبار ہو گئی ہیں (پہلی تفسیریں اب خاموش ہیں، اتنی زیادہ واضح نہیں ہیں اور نئے زمانے کے لحاظ سے بھی نہیں ہیں) تو اب مکمل تفسیر قرآنِ کریم کی حضور لکھ دیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں درخواست کریں کہ پہلی تفسیروں کا زمانہ تو اب گزر گیا حضور اپنی مکمل تفسیر لکھیں۔) چنانچہ مَیں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ حافظ صاحب!جو میرے رستے میں آیات قابلِ بیان اور قابلِ تفسیر آئی ہیں موجودہ زمانے کے لئے، وہ مَیں نے لکھ دی ہیں۔ اگر مَیں یا ہم مکمل تفسیر لکھیں تو ممکن ہے کہ آئندہ زمانے میں اور بہت سے معترض پیدا ہو جائیں۔ تو اللہ تعالیٰ اِن معترضین کے جواب کے لئے کوئی اور بندہ اپنی طرف سے کھڑا کر دے۔ مَیں یہ جواب سن کر خاموش ہو گیا اور مستری نظام الدین صاحب بھی سن رہے تھے، وہ بھی خاموش ہو گئے۔ (انہوں نے فرمایا کہ آئندہ زمانے کے ساتھ ساتھ قرآنِ کریم کی تفسیریں آتی رہیں گی۔) (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت غلام رسول صاحب وزیر آبادی صفحہ نمبر134غیر مطبوعہ)
پھر ایک روایت خان صاحب منشی برکت علی صاحبؓ ولد محمد فاضل صاحب کی ہے۔ یہ ڈائریکٹر جنرل انڈین میڈیکل سروس کے ملازم تھے۔ یہ قادیان میں ناظر بیت المال بھی رہے ہیں۔ 1901ء میں انہوں نے بیعت کی تھی اور 1901ء میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ جہاں تک مجھے یاد ہے، سب سے پہلے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر 1900ء کے شروع میں سننے کا اتفاق ہوا۔ جبکہ اتفاقاً مجھے شملہ میں چند احمدی احباب کے پڑوس میں رہنے کا موقع ملا۔ اُن دوستوں سے قدرتی طور پر حضور کے دعویٰ مسیحیت اور وفاتِ مسیح ناصری کے متعلق سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مَیں اگرچہ بڑی سختی سے اُن کی مخالفت کیا کرتا تھا۔ مگر بیہودہ گوئی اور طعن و طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا۔ (وفاتِ مسیح پر مَیں یقین نہیں رکھتا تھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ اس کے باوجود طعن اور طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا۔ آج کل بلکہ ہمیشہ سے ہی مخالفین کا جویہ طریقہ رہا ہے کہ گالم گلوچ پر آ جاتے ہیں۔ لیکن یہ نیک فطرت تھے، کہتے ہیں میں طعن و طنز سے ہمیشہ احتراز کرتا تھا)۔ آہستہ آہستہ مجھے خوش اعتقادی پیدا ہوتی گئی۔ (آہستہ آہستہ مجھے بھی اس بات پر اعتقاد ہوتا گیا)۔ حضور کا اُنہی دنوں میں پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ساتھ بھی بحث و مباحثہ جاری تھا۔ حضور نے اس بات پر زور دیا کہ مقابلہ میں قرآنِ شریف کی عربی تفسیر لکھی جاوے۔ اور وہ اس طرح کہ بذریعہ قرعہ اندازی کوئی سورۃ لے لی جاوے اور فریقین ایک دوسرے کے بالمقابل بیٹھ کر عربی میں تفسیر لکھیں۔ کیونکہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے کہ لَایَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (الواقعہ: 80) ایک کاذب اور مفتری پر اس کے حقائق اور معارف نہیں کھل سکتے۔ اس لئے اس طرح فریقین کا صدق و کذب ظاہر ہو سکتا ہے۔ ان ہی ایام میں پیر صاحب کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں حضرت مسیح موعود کی طرف چوبیس باتیں منسوب کر کے یہ استدلال کیا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام (نعوذ باللہ) ملحد اور اسلام سے خارج ہیں۔ اس اشتہار میں اکثر جگہ حضور کی تصانیف سے اقتباسات نقل کئے گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں عموماً فریقین کے اشتہارات دیکھتا رہتا تھا۔ (ابھی احمدی نہیں ہوا تھا لیکن فریقین کے دونوں طرف سے اشتہار دیکھتا رہتا تھا)۔ مذکورہ بالا اشتہار کے ملنے پر جو غیر احمدیوں نے مجھے دیا تھا مَیں نے احمدی احباب سے استدعا کی کہ وہ مجھے اصل کتب لا کر دیں تا کہ مَیں خود مقابلہ کر سکوں۔ مقابلہ کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ بعض حوالے گو صحیح تھے مگر اکثر میں انہیں توڑ مروڑ کر اپنا مدعا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ (اور یہی حال آج بھی ہے۔ اب مخالفین نے ایک نئی مہم شروع کی ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب سے حوالے دئیے جاتے ہیں اور اُن کو توڑ مروڑ کر پھر اس سے اشتہار لگا کریا پھر بڑے بڑے پوسٹر بنا کے یا جماعت کے خلاف کتابچہ شائع کر کے حضرت مسیح موعود کے خلاف دریدہ دہنی کی جاتی ہے اور ہمارا جو پروگرام ہے’’راہِ ھدی‘‘ اور اس کی اب ویب سائٹ بھی شروع ہو گئی ہے، اُس میں اس کے جواب آ رہے ہیں، اور اصل حوالے اور اصل کتب کا حوالہ دیا جاتا ہے کہ جا کے دیکھیں تو خود پتہ لگ جائے۔ اس سے بھی اب بعض ایسے لوگ جنہوں نے اس طرح جائزہ لینا شروع کیا تو اللہ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں بیعتیں بھی ہو رہی ہیں۔ تو یہ اعتراضات، یہ حربہ مولویوں کا ہمیشہ سے رہا ہے۔ یہ آج کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ بعض دفعہ لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ اسی طرح جو ویب سائٹ شروع ہوئی ہیں، اِن کے انچارج آصف صاحب ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ لوگوں نے بڑی بھرمار کر دی ہے اور ہمارے جواب اُس طرح نہیں جا سک رہے۔ تو مَیں نے اُن کو یہی کہا تھا آپ کچھ دیر انتظار کریں یہ لوگ خود ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ اور یہی ہوا۔ اُس میں اعتراضات کی جو بھرمار تھی ان پرجب ہماری طرف سے جوابات کی اس طرح ہی بھر مار ہوئی ہے توآہستہ آہستہ خاموش ہو کے بیٹھ گئے۔ بلکہ اب انہوں نے اپنے جودوسرے سائٹس ہیں ان میں یہ پیغام دینا شروع کر دیا ہے کہ الھُدٰی کی جوویب سائٹ ہے اس پر کوئی نہ جائے۔ اس میں یہ ہمیں صحیح طرح access نہیں دیتے حالانکہ خود اُن کے پاس جواب نہیں ہیں۔ کیونکہ مایوس ہو چکے ہیں اس لئے دوسروں کو بھی روک رہے ہیں۔ بہر حال ہمیشہ سے ہی یہ طریق رہا ہے) تو کہتے ہیں کہ مَیں نے جب کتابیں کھول کے یہ دیکھا، تو حوالے تو دئیے ہوئے تھے لیکن توڑ مروڑ کر اُن کو پیش کیا گیا تھا۔
پھر آگے لکھتے ہیں کہ پیر مہر علی شاہ صاحب کے مقابلے میں تفسیر نویسی کے منظور نہ کرنے پر حضور نے اعجاز المسیح رقم فرمائی اور اس میں چیلنج دیا کہ پیر صاحب اتنے عرصے کے اندر اندر اس کتاب کا جواب تحریر کریں۔ پیر صاحب نے عربی میں تو کچھ نہ لکھا گو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ انہوں نے اردو میں ایک کتاب لکھی تھی جو بعد میں سرقہ ثابت ہوئی (وہ بھی چوری کی ثابت ہوئی)۔ کہتے ہیں بہر حال اس کشمکش میں میری طبیعت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی جانب زیادہ مائل ہوتی گئی۔ پھر مَیں نے خیال کیا کہ احادیث کا تو ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے جس پر عبور کرنا مشکل ہے مگر احمدی احباب اکثر قرآنِ کریم کے حوالہ جات دیتے رہتے ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ قرآنِ کریم کا شروع سے آخر تک بنظرِ غائر مطالعہ کیا جائے۔ چنانچہ گو میں عربی نہیں جانتا تھا مگر مَیں نے ایک اور دوست کے ساتھ مل کر قرآنِ کریم کا اردو ترجمہ پڑھا اور اس کے مطالعہ سے مجھے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم میں ایک دو نہیں، بیس تیس نہیں بلکہ متعدد آیات ایسی ہیں جن سے وفاتِ مسیح کا استدلال کیا جا سکتا ہے۔
پھر لکھتے ہیں کہ 1901ء کے شروع میں جب مردم شماری ہونے والی تھی حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں درج تھا کہ جو لوگ مجھ پر دل میں ایمان رکھتے ہیں گو ظاہراً بیعت نہ کی ہو وہ اپنے آپ کو احمدی لکھوا سکتے ہیں۔ اُس وقت مجھے اس قدر حسنِ ظن ہو گیا تھا کہ مَیں تھوڑا بہت چندہ بھی دینے لگ گیا تھا اور گو مَیں نے بیعت نہ کی تھی لیکن مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی لکھوا دیا۔ مجھے خواب میں ایک روز حضور علیہ السلام کی زیارت ہوئی۔ صبح قریباًچار بجے کا وقت تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضور برابر والے کمرے میں احمدیوں کے پاس آئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں حضور سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کے لئے اس کمرے میں گیا اور جا کر السلام علیکم عرض کی۔ حضور نے جواب دیا وعلیکم السلام اور خواب میں فرمایا کہ برکت علی! تم ہماری طرف کب آؤ گے؟ مَیں نے عرض کی حضرت! اب آ ہی جاؤں گا۔ حضور اس وقت چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ جسم ننگا تھا (اوپر سے ننگے تھے)۔ سر کے بال لمبے تھے اور اُس وقت کے چند روز بعد مَیں نے تحریری بیعت کر لی۔ یہ نظارہ مجھے اب تک ایسا ہی یاد ہے جیسا کہ بیداری میں ہوا ہو۔ اس کے بعد جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے دارالامان میں حاضر ہو کر دستی بیعت بھی کر لی۔ اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ حضور کی شبیہ مبارک بالکل ویسی ہی تھی جیسی کہ مَیں نے خواب میں دیکھی تھی اور اُس سے کچھ عرصہ بعد اتفاقاً اس مہمان خانے میں اترا ہوا تھا جس میں اب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے ابن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سکونت پذیر ہیں۔ مَیں ایک چارپائی پر بیٹھا تھا کہ سامنے چھت پر غالباً کسی ذرا اونچی جگہ پر حضور آ کر تشریف فرما ہوئے۔ نہا کر آئے تھے۔ بال کھلے ہوئے تھے اور اوپر کا جسم ننگا تھا۔ یہ شکل خصوصیت سے مجھے ویسی ہی معلوم ہوئی جو مَیں خواب میں دیکھا چکا تھا اور مجھے مزید یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ نے میری ہدایت کے لئے مجھے دکھلائی ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر136تا139غیر مطبوعہ)
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجد مبارک سے حضور غالباً نماز ظہر سے فارغ ہو کر کھڑکی کے راستے اندر تشریف لے جا رہے تھے تو حسبِ دستور احباب نے آپ کو گھیر لیا۔ کوئی ہاتھ چومتا تھا، کوئی جسمِ اطہر کو ہاتھ لگا کر اسے منہ اور سینے پر ملتا تھا۔ مَیں بھی اُن میں شامل تھا۔ اتنے میں حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفۃ المسیح الاول قریب سے گزرے، اور فرمانے لگے، ’’اخلاص چاہئے، اخلاص‘‘۔ میرے دل نے گواہی دی کہ بیشک ظاہر داری کوئی چیز نہیں جب تک اس کے ساتھ اخلاص نہ ہو۔ (صرف چومنا اور ہاتھ لگانا کوئی چیز نہیں جب تک اخلاص نہ ہو۔ یہی حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے ان کوسبق دیا)۔ چنانچہ اُس وقت سے مَیں ہمیشہ اس کوشش میں رہا ہوں کہ خدا کے فضل سے اخلاص کے ساتھ تعلق قائم رہے۔
لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجد مبارک میں نماز ظہر کے بعد جبکہ حضور علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما تھے کسی نے عرض کی کہ دو تین آریہ صاحبان ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں۔ حضور علیہ السلام نے انہیں اندر بلا لیا اور گفتگو شروع ہو گئی۔ نجات کے متعلق ذکر آنے پر مَیں نے دیکھا کہ حضور کا رعب اس قدر غالب تھا کہ آریہ دوست کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بیان کیا کہ نجات کے لئے ویدوں کا ماننا ضروری نہیں بلکہ جو اچھے کام کرے گا نجات پا جائے گا۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر140تا141غیر مطبوعہ)
لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں مجھے نماز جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ نماز حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے پڑھائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا کر قبر کے نزدیک بیٹھ گئے۔ (وہاں مسجد اقصیٰ میں اُن کے والد کی جو قبر ہے)۔ مَیں بھی موقع پا کر پاس ہی بیٹھ گیا اور نماز میں حضور کی حرکات کو دیکھتا رہا کہ حضور کس طرح نماز ادا فرماتے ہیں۔ حضور نے قیام میں اپنے ہاتھ سینے کے اوپر باندھے مگر انگلیاں کہنی تک نہیں پہنچتی تھیں۔ آپ کی گردن ذرا دائیں طرف جھکی رہتی تھی۔ نماز کے بعد یہ مسئلہ پیش ہو گیا کہ کیا نمازِ جمعہ کے ساتھ عصر بھی شامل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ چنانچہ حضور کے ارشاد کے مطابق اُس دن نمازِ عصر جمعہ کے ساتھ جمع کر کے ادا کی گئی۔
حضور کے آخری ایام میں جماعت بفضلہ تعالیٰ ترقی کر گئی تھی اور چھ سات سو احباب جلسہ سالانہ پر تشریف لاتے تھے۔ (اُس وقت کے صحابہ یہ جماعت کی ترقی کی باتیں کر رہے ہیں کہ چھ سات سو احباب جلسے پر تشریف لاتے تھے) لکھتے ہیں کہ ایک بار ہمیں بتلایا گیا کہ حضور کا منشاء ہے کہ سب دوست بازار میں سے گزریں تا کہ غیر احمدی اور ہندو وغیرہ خدا کی وحی کو پورا ہوتے ہوئے مشاہدہ کر لیں کہ کس طرح دور دور سے لوگ ہماری طرف کھنچے چلے آ رہے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (اور آج کل کے احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر کتنی زیادہ حمد کرنی چاہئے۔ اُس زمانے کے بزرگوں کی نسلیں بھی آج دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں اور خود اُن کی ایک ایک کی نسلیں بھی سینکڑوں میں پہنچی ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ جو نئے شامل ہو رہے ہیں وہ تو ہیں ہی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیافرما رہے ہیں کہ قادیان کی گلیوں میں پھرو تا کہ اظہار ہو کہ ہم کتنی تعداد میں ہو گئے ہیں، اور آج دنیا جانتی ہے اور اخباروں میں لکھا جاتا ہے، ٹیلی ویژن پروگرام کئے جاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کیا چیز ہے؟ اس لئے اللہ تعالیٰ کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے)۔
پھر لکھتے ہیں کہ اس وقت یہ عام دستور تھا کہ مہمان روانگی سے قبل حضور سے رخصت حاصل کر کے واپس جاتے تھے۔ چنانچہ ایک بار مَیں نے بھی شام کے وقت رقعہ بھجوا کر اجازت چاہی۔ حضور نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اجازت ہے مگر صبح جاتے ہوئے مجھے اطلاع دیں۔ حسب الحکم اگلی صبح روانہ ہونے سے قبل اطلاع کی گئی تو حضور بنفسِ نفیس رخصت کرنے کو تشریف لائے۔ اَور بھی کئی دوست ہمراہ تھے۔ حضور علیہ السلام کچی سڑک کے موڑ تک ہمارے ساتھ تشریف لے گئے۔ راستے میں مختلف باتیں ہوتی رہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ حضور نہایت اطمینان سے چل رہے تھے اور بظاہر نہایت معمولی چال سے، مگر وہ دراصل کافی تیز تھی۔ اکثر خدام کو کوشش کر کے ساتھ دینا پڑتا تھا۔ بچے تو بھاگ کر شامل ہوتے تھے۔
پھر لکھتے ہیں کہ غالباً 1900ء میں جبکہ تقسیمِ بنگال کا بڑا چرچا تھا مَیں نے اس بات کو مدّنظر رکھ کر ایک مضمون حقوقِ انسانی پر لکھا۔ حضور علیہ السلام بغاوت کو بالکل پسندنہ فرماتے تھے اور اپنی جماعت کو بھی وفا دار رہنے کی ہدایت فرماتے رہتے تھے۔ اِن احکامات کی روشنی میں مَیں نے مضمون لکھ کر حضور کی خدمت میں بھیجا کہ اگر حضور علیہ السلام پسند فرماویں تو اس مضمون کو اخبار میں اشاعت کے لئے بھجوا دیں۔ چنانچہ اسے حضور نے البدر میں شائع کروا دیا۔
آج کل کے حالات میں بھی جو بعض ملکوں میں ہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بغاوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پسندنہیں فرمایا بلکہ بغاوت کے خلاف جو مضمون آیا اُسے شائع فرمایا۔
پھر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ بعدنماز مغرب حضور شاہ نشین پر بیٹھے تھے۔ کسی دوست نے عرض کی کہ تحصیل دار صاحب علاقہ صبح مینارہ کی تعمیر کے سلسلہ میں موقع دیکھنے کے لئے آ رہے ہیں۔ حضور علیہ السلام مینارۃ المسیح بنوانا چاہتے تھے (اُس کے بننے سے پہلے کا واقعہ ہے) مگر قادیان کے ہندو وغیرہ اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ اور انہوں نے سرکار میں درخواست دی ہوئی تھی کہ مینارہ بنانے کی اجازت نہ دی جاوے۔ حضور علیہ السلام نے تحصیل دار کی آمد کے متعلق سن کر فرمایا کہ بہت اچھا۔ ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ اُن کا مناسب استقبال کریں اور اُنہیں موقع دکھاویں۔ (جو مختلف احمدی لوگ ہیں وہ جائیں۔ اچھی طرح تحصیلدار کا استقبال کریں۔ اُس کو موقع دکھائیں۔) پھر فرمایا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہے کہ مینارہ ضرور تعمیر ہو گا اس کو کوئی نہیں روک سکتا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تعمیر ہوا۔
پھر لکھتے ہیں کہ حضور علیہ السلام عام طورپرمحفل میں کس طرح بیٹھتے تھے یا کس طرح چلتے تھے۔ اس بارہ میں کہتے ہیں کہ مَیں نے حضور کی محفل میں دیکھا ہے کہ حضور کی آنکھیں نیچے جھکی ہوئی ہوتی تھیں اور قریباً بند معلوم ہوتی تھیں۔ مگر جب کبھی حضور میری جانب نظر اُٹھا کر دیکھتے تھے تو مَیں برداشت نہیں کر سکتا تھا اور اپنی نظر نیچی کر لیتا تھا۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر142تا144غیر مطبوعہ)
لکھتے ہیں کہ غالباً آخری دنوں کا واقعہ ہے کہ مَیں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی معرفت عریضہ ارسال کیا اور ملاقات کی خواہش کی۔ موصوف اُس وقت سترہ اٹھارہ سال کی عمر کے تھے۔ حضور علیہ السلام نے اجازت مرحمت فرمائی اور اوپر کمرے میں بلوا لیا۔ مَیں نے حضور سے عرض کیا کہ مَیں غیر احمدی ہونے کی حالت میں دفتر میں ایک فنڈ میں شامل تھا جس کا نامFortune Fund تھا۔ پندرہ سولہ آدمی تھے۔ آٹھ آنے ماہوار چندہ لیا جاتا تھا۔ فراہم شدہ رقم سے لاٹری ڈالی جاتی تھی اور منافع تقسیم کر لیا جاتا تھا۔ یہ کام احمدی ہونے کے بعد تک جاری رہا۔ چنانچہ ایک دفعہ ہمارے نام تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے کی لاٹری نکلی۔ اور قریباً ساڑھے سات ہزار روپیہ میرے حصے میں آیا۔ (تواب احمدی ہونے کے بعدپوچھ رہے ہیں کہ) مجھے خیال ہوا کہ کیا یہ امر جائز بھی ہے؟ حضور سے دریافت کرنے پر جواب ملا کہ’’یہ جائز نہیں‘‘۔ (یہ لاٹری وغیرہ کا جوطریقہ ہے) اس رقم کو اشاعتِ اسلام وغیرہ پر خرچ کر دینا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی چیز حرام نہیں۔ پھر انہوں نے اُس کو کچھ چندے میں دیا۔ کچھ غرباء میں تقسیم کیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت منشی برکت علی صاحب صفحہ نمبر146تا147غیر مطبوعہ)
پھر ایک روایت حضرت محمد اسماعیل صاحب ولد مکرم مولوی جمال الدین صاحب سکنہ سیکھواں ضلع گورداسپور کی ہے، جنہوں نے 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی۔ پیدائشی احمدی تھے۔ کہتے ہیں مَیں قریباً بیس سال کا تھا کہ گورداسپور میں کرم دین جہلمی جودر اصل بھیں ضلع جہلم کا تھا، کے مقدمہ کا حکم سنایا جانا تھا۔ مَیں ایک دن پہلے اپنے گاؤں سے وہاں پہنچ گیا۔ وہاں پر ایک کوٹھی میں حضور علیہ السلام بھی اترے ہوئے تھے (یعنی وہاں ٹھہرے ہوئے تھے)۔ گرمی کا موسم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ادھر کے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں پر میرے والد صاحب میاں جمال الدین صاحب، میاں امام دین صاحب سیکھوانی اور چودھری عبدالعزیز صاحب بھی موجود تھے۔ مَیں نے جا کر حضور کو پنکھا جھلنا شروع کر دیا۔ حضور نے میری طرف دیکھا اور میرے والد میاں جمال الدین صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا کر فرمایا کہ میاں اسماعیل نے بھی آ کر ثواب میں سے حصہ لے لیا ہے۔ حضور کا معمولی اور ادنیٰ خدمت سے خوش ہو جانا اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو طبیعت میں سرور پیدا ہوتا ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 4روایت حضرت محمد اسماعیل صاحب صفحہ نمبر150غیر مطبوعہ)
محمد اکبر صاحب ولد اخوند رحیم بخش صاحب قوم پٹھان اور کزئی سکنہ ڈیرہ غازی خان لکھتے ہیں کہ خاکسار کے والد صاحب کے چچا اخوند امیر بخش خان ضلع مظفر گڑھ میں سَب انسپکٹر پولیس تھے۔ خاکسار کے احمدی ہو جانے کے بعد وہ پنشن پا کر اپنے گھر ڈیرہ غازی خان آ گئے۔ اُن دنوں جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خان کے سرکردہ مولوی عزیز بخش صاحب بی۔ اے تھے جو مولوی محمد علی صاحب (جوبعد میں پیغامیوں کے امیر بنے تھے) کے بڑے بھائی تھے۔ وہ مولوی عزیز بخش صاحب اس وقت ڈیرہ غازی خان میں سرکاری ملازم تھے۔ جس محلے میں وہ رہتے تھے وہاں ایک مسجد تھی جو ویران پڑی رہتی تھی۔ جماعت احمدیہ نے اُسے مرمت وغیرہ کر کے آباد کیا اور اُس میں نماز پڑھنی شروع کر دی۔ ایک غیر احمدی مولوی فضل الحق نامی نے اس محلے میں آ کر کرایہ کے مکان میں رہائش اختیار کی اور محلے کے لوگوں کو اُکسایا(اُس وقت بھی وہی کام ہوتا تھا آج بھی وہی کام ہورہا ہے) کہ احمدیوں کو اس مسجد سے نکالنا چاہئے اور اس مسجد میں چند طلباء جمع کر کے اُن کو پڑھانا شروع کر دیا۔ (مدرسے کایہ جو نظریہ ہے اور مدرسے کے لڑکوں کے ذریعے جلوس نکالنا اور توڑ پھوڑ کرنا، یہ آج بھی اُسی طرح جاری ہے)۔ کہتے ہیں کہ طلباء کو جمع کر کے اُن کو پڑھانا شروع کر دیا اور نماز کے وقت وہ اپنی جماعت علیحدہ کرانے لگا اور مسجد میں وعظوں کا بھی سلسلہ شروع کر دیا۔ خاکسار کے رشتے کے چچا اخوند امیر بخش خان مذکور نے شہر ڈیرہ غازی خان کے سب انسپکٹر پولیس کو اُکسایا کہ وہ رپورٹ کرے کہ اس محلہ میں احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فساد کا اندیشہ ہے، فریقین کے سرکردوں سے ضمانت لی جانی چاہئے۔ (پہلے تو یہاں مسجد ویران پڑی تھی کوئی آتا نہیں تھاجب احمدیوں نے ٹھیک کر کے، مرمت کر کے آباد کرلی تو سارا فساد شروع ہو گیا)۔ کہتے ہیں کہ خاکسار نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور ایک عریضہ لکھا جس میں اپنے رشتے کے دادا صاحب مذکور کی مخالفت کا ذکر کیا اور لکھا کہ اس کو اس قدر عناد ہے کہ اگر اس کا بس چلے تو خاکسار کو قتل کر دے۔ اور جماعت کے متعلق پولیس سے جو اس نے رپورٹ کرائی تھی اُس کا بھی ذکر کیا اور دعا کی درخواست کی۔ حضور نے ازراہِ ذرہ نوازی کمال شفقت سے خود اپنے مبارک ہاتھ سے اس عاجز کے عریضے کی پشت پر جواب رقم فرما کر وہ خط خاکسار کو بذریعہ ڈاک واپس بھیج دیا۔ حضور کے جواب کا مفہوم یہ تھا (اصل الفاظ نہیں )۔ مفہوم یہ تھا کہ ہمیں گھبرانا نہیں چاہئے اور پھر دعا فرمائی کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس کا جلدنیک نتیجہ ظاہر ہو گا اور جماعت کو چاہئے کہ ضمانت ہرگز نہ دیوے۔ (اس مسجد کے لئے کسی قسم کی ضمانت نہیں دینی یا پارٹی بن کے ضمانت نہیں دینی)۔ اگر مسجد چھوڑنی پڑے تو چھوڑ دی جاوے اور کسی احمدی کے مکان پر باجماعت نماز کا انتظام کر لیا جاوے۔ مگر جماعت کے کسی فرد کو ضمانت ہرگز نہیں دینی چاہئے۔ لکھتے ہیں کہ یہ خط خاکسار کے پاس محفوظ تھا۔ غالباً مولوی عزیز بخش صاحب نے خاکسار سے لے لیا تھا اور واپس نہ کیا اس لئے سامنے نہیں۔ (مفہوم انہوں نے یہ بیان کیا)۔ پھر کہتے ہیں کہ حضور کے اس جواب کے آنے کے تھوڑے دنوں کے بعد اس عاجز کے دادا مذکور بیمار ہو گئے اور چند دن بیمار رہ کر وہ فوت ہو گئے۔ جو رپورٹ سب انسپکٹر پولیس نے کی تھی وہ سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر کے پاس بمراد انتظام مناسب بھیج دی۔ ڈپٹی کمشنر صاحب نے ایک مسلمان ای۔ اے۔ سی کو مقرر فرمایا کہ وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں مصالحت کرا دے۔ چنانچہ وہ کئی ماہ مسلسل کوشش کرتا رہا کہ مصالحت ہو جائے مگر کامیابی نہ ہوئی۔ (ان لوگوں سے تو فیصلہ نہیں ہوا لیکن خدا تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا وہ بھی عجیب ہے)۔ آخر دریائے سندھ کی طغیانی سے وہ حصہ شہر کا غرق ہو گیا۔ (دریائے سندھ میں سیلاب آیا اور شہر کا وہ حصہ ہی غرق ہو گیا جس میں مسجد تھی) اور مسجد گر گئی اور بعد ازاں سارا شہر ہی دریا بُرد ہو گیا اور نیا شہر آباد کیا گیا جس میں جماعت احمدیہ نے اپنی نئی مسجد تعمیر کرائی اور جہاں تک خاکسار کا خیال ہے نئے شہر میں سب سے پہلے جو مسجد تعمیر کی گئی وہ احمدیوں کی تھی۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3روایت حضرت محمد اکبر صاحب صفحہ نمبر126تا128غیر مطبوعہ)
حضرت نظام الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولد میاں اللہ دتہ صاحب سکنہ وچھو کی تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ لکھتے ہیں کہ نومبر 1904ء کا واقعہ ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیالکوٹ تشریف لائے تھے۔ بندہ بھی حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ غالباً نمازِ ظہر کے بعد مسجد حکیم حسام الدین صاحب مرحوم میں حضرت نے مندرجہ ذیل نصیحت احبابِ جماعت کو فرمائی تھی۔ فرمایا کہ لوگ تمہیں جوش دلانے کے لئے مجھے گالیاں دیتے ہیں مگر تمہیں چاہئے کہ گالیاں سُن کر ہرگز جوش میں نہ آؤ اور جواباً گالیاں نہ دو۔ اگر تم اُنہیں جواباً گالیاں دو گے تو وہ پھر مجھے گالیاں دیں گے اور یہ گالیاں اُن کی طرف سے نہیں ہوں گی بلکہ تمہاری طرف سے ہوں گی۔ بلکہ تمہیں چاہئے کہ گالیاں سُن کر اُن کو دعائیں دو اور اُن سے محبت اور سلوک کرو تا کہ وہ تمہارے زیادہ نزدیک ہوں۔ اس کے بعد حضور علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ذکر فرمایا کہ جب کفار اُن کو گالیاں نکالتے تھے اور طرح طرح کی تکالیف دیتے تھے تو وہ اس کے عوض اُن سے نیکی اور ہمدردی کا سلوک کرتے تھے۔ ایسا کرنے سے بہت سے کفار اُن کے حسنِ سلوک کو دیکھ کر اسلام میں داخل ہوئے۔ پس تمہیں بھی اُن کے نقشِ قدم پر چلنا چاہئے۔ کہتے ہیں یہ الفاظ جو مَیں نے بیان کئے ہیں یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل الفاظ نہیں ہیں۔ مفہوم یہی ہے۔ انہوں نے اپنے الفاظ میں اُس کا خلاصہ یہ بیان کیا ہے۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3روایت حضرت نظام الدین صاحب صفحہ نمبر162غیر مطبوعہ)
پھر حضرت منشی عبداللہ صاحب احمدی محلہ اسلام آباد، شہر سیالکوٹ۔ ان کی بیعت 4؍نومبر1902ء کی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیالکوٹ تشریف لائے تھے تو انہوں نے بیعت کی تھی۔ تیرہ سال کی عمر تھی۔ اور ایک خواب کے ذریعے انہوں نے بیعت کی۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی سے انہوں نے تعلیم بھی حاصل کی۔ یہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں اپنا دعویٰ کرنے کے بعد 4؍نومبر 1902ء کو واپس قادیان تشریف لے گئے تو حضور نے ان لوگوں کے نام طلب فرمائے جنہوں نے سیالکوٹ کے احمدیوں کو تکالیف دی تھیں۔ جب نام تحریر کئے گئے تو اُس کے چند دن بعد سیالکوٹ میں بہت غلیظ طاعون پھوٹ پڑی تو خدا تعالیٰ قادر و قہار نے چُن چُن کر اُن لوگوں کے خاندانوں کو تباہ کر دیا۔ فَاعْتَبِرُوْا یَاُوْلِی الْاَبْصَار۔
پھر ان ہی ایام میں طاعون کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایک مخالف تھا جب اس کو طاعون ہوئی تو اس نے حکیم حسام الدین صاحب کو بلایا۔ آپ نے آ کر اُس کو صرف اتنا کہا کہ یہ کالا ناگ ہے اس کے نزدیک مت جاؤ۔ جب وہ قریب المرگ ہوا تو بیوی بوجہ محبت اُس سے چمٹ گئی۔ اور درحقیقت وہ عورت موت کو مول لے رہی تھی۔ اسی طرح اُس کی بچی نے کیا اور اس طرح سے اُس کے خاندان کے اُنیس افراد ہلاک ہو گئے۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے حضور سے دریافت کیا کہ حضور کیا کبھی آپ کو بھی ریا پیدا ہوا ہے، (دکھاوا، ریا پیدا ہوا ہے)حضور نے جواب دیا کہ اگر ایک آدمی جنگل میں مویشیوں کے درمیان نماز پڑھ رہا ہو تو کیا اُس کے دل میں کبھی ریا پیدا ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایامیرا تو یہ حال ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3روایت حضرت منشی عبد اللہ صاحب صفحہ نمبر154تا155غیر مطبوعہ)
حضرت محمد یحيٰ صاحب ولد مولوی انوار حسین صاحب ساکن شاہ آباد ضلع ہردوئی۔ ان کی پیدائش 1894ء کی ہے۔ 1904ء میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب مرحوم مولوی انوار حسین خان صاحب سکنہ شاہ آباد ضلع ہردوئی، یوپی نے 1889ء میں لدھیانہ آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی اور اس سے کچھ عرصہ قبل سے ان کی خط و کتابت تھی اور وہ بیعت کا شرف حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لینے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے ان کو قادیان آنے سے روکا ہوا تھا۔ جب حضور لدھیانہ اس غرض سے تشریف لے چلے تو والدصاحب کو اطلاع کر دی اور والد صاحب مرحوم اس کی تعمیل میں لدھیانہ آ کر فیض یاب ہوئے۔ والد صاحب دیوبند کے دستار بند مولوی تھے۔ (باقاعدہ دیوبند کے سرٹیفائیڈ مولوی تھے)۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی کا یہ واقعہ اکثر سنایا کرتے تھے کہ مَیں پہلی مرتبہ قادیان دارالامان 1892ء میں آیا تھا اور اس وقت مہمان گول کمرے میں ٹھہرا کرتے تھے۔ مَیں بھی وہیں ٹھہرا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہمارے ساتھ ہی کھانا تناول فرمایا کرتے تھے اور کھانا کھاتے کھاتے اُٹھ کر اندر تشریف لے جاتے اور کبھی چٹنی کبھی اچار لے کر آتے کہ آپ کو مرغوب ہو گا۔ غرضیکہ کھانا خود بہت کم کھاتے اور مہمانوں کی خاطر زیادہ کیا کرتے تھے۔ مسجد اقصیٰ میں نمازیوں کی کثرت دیکھ کر ایک مرتبہ والد صاحب مرحوم فرمانے لگے (یہ بعد کی بات ہے جب ان کے والد قادیان آئے اور دیکھا کہ مسجد اقصیٰ نمازیوں سے بھری ہوئی ہے تو کہتے ہیں ) کہ پہلی مرتبہ جب مَیں قادیان آیا تھا تو جمعہ کے دن نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد اقصیٰ تشریف لے چلے۔ رستے میں مولوی شادی کشمیری ملا۔ اُس کو نماز پڑھنے کے لئے ساتھ لے لیا اور میاں جان محمد صاحب کو ساتھ لے لیا۔ آگے چل کے کسی بچے کی میّت مل گئی تو آپ نے جان محمد کو نمازِ جنازہ پڑھانے کے لئے فرمایا اور خود اُن کے پیچھے نماز ادا فرمائی۔ جب مسجد اقصیٰ پہنچے اور نماز جمعہ پڑھی تو اُس وقت کل چھ نفوس تھے اور لکھتے ہیں کہ اب باوجود مسجد اتنی وسیع ہوجانے کے ارد گرد کی چھتیں بھری ہوتی ہیں۔ میرے لئے یہ بھی معجزہ ہے۔
پھر بچوں پہ شفقت کا ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کسی کام کی ضرورت پیش آئی تو ہم چھوٹے بچے بورڈنگ تعلیم الاسلام کے جو اُن دنوں مدرسہ احمدیہ میں ہوا کرتے تھے، کام کرنے کی خاطر شوق سے آ جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم بچوں کے متعلق دریافت فرماتے کہ یہ کون ہے اور وہ کون ہے؟ خاکسار کے متعلق ایک مرتبہ دریافت فرمایا تو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ انوار حسین صاحب آموں والے کے لڑکے ہیں۔ فرمانے لگے اسے کہو یہ بیٹھ جائے، کام نہ کرے۔ یہ ابھی چھوٹا ہے۔ مجھے بٹھا دیا اور دوسرے لڑکے کام کرتے رہے۔ ایک مرتبہ سخت سردی پڑی جس سے ڈھاب کا پانی بھی جمنے لگا۔ (جو وہاں ڈھاب ہے اُس کا پانی ان ایام میں جم گیا۔) کہتے ہیں کہ مَیں گرم علاقے کا رہنے والا ہونے کی وجہ سے بہت سردی محسوس کرتا تھا۔ (وہاں کے رہنے والے بھی محسوس کرتے تھے اور جو گرم علاقے سے آئے ہوں تو وہ انہیں بہت زیادہ لگتی ہے)۔ اور بورڈنگ میں قریباً سب لڑکوں سے عمر میں بھی بہت چھوٹا تھا تو فجر کی نماز کے لئے جانے میں سردی محسوس کرتا تھا۔ ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی۔ اے سابق مہر سنگھ صاحب نے حضور سے ذکر کیا ہو گا۔ تو آ کر مجھے کہا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ اس چھوٹے بچے کو سردی میں بہت تکلیف ہوتی ہے۔ نمازِ فجر کے لئے مسجدنہ لے جایا کرو۔ اُس دن سے مجھے فجر کی نماز تمام سردی بورڈنگ میں ادا کرنے کا حکم مل گیا۔
یہ کہتے ہیں ایک مرتبہ ہم حضور کے ہمراہ نہر تک گئے۔ رمضان کا مہینہ تھا پیاس لگی ہوئی تھی، حضور کو معلوم ہو گیا کہ بعض چھوٹے بچوں کا روزہ ہے تو حضور نے فرمایا ان کا روزہ تڑوا دو۔ بچوں کا روزہ نہیں ہوتا۔ اس حکم پر ہم نے نہر سے خوب پانی پی کر پیاس بجھائی اور حضور سے رخصت ہو کر قادیان واپس چلے آئے۔
مہمانوں کے جذبات کا احساس۔ باہر سے اکثر احباب تشریف لاتے تھے اور خوردہ کے خواہشمند ہوتے تھے(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستر خوان کا جوبچا ہوا کھانا ہوتا تھا اس کے خواہشمند ہوتے تھے) چونکہ بورڈران میں سے مَیں چھوٹا تھا اور اندر جایا کرتا تھا۔ احباب کے ذکر کرنے پر خوردہ لانے پر تیار ہو جایا کرتا تھا۔ کھانے کا وقت ہوا تو ام المومنینؓ سے عرض کرنے پر خوردہ مل گیا۔ (اکثر یہ ہوتا تھا کہ کھانے کا وقت ہوا تو مَیں جا کے حضرت اماں جان سے عرض کرتا تھا تو وہ دے دیا کرتی تھیں )۔ اور کھانے کا وقت نہیں ہوتا تھا تو تب بھی میں جا کے لوگوں کی خواہش کا اظہار کر دیا کرتا تھا تو ازراہِ شفقت روٹی منگوا کر اس میں سے ایک لقمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لے لیا کرتے تھے اور بقیہ دے دیا کرتے تھے جو مَیں خوشی خوشی لا کر اُن دوستوں کو دے دیا کرتا تھا جنہوں نے مانگا ہوتا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ جلد 3صفحہ 134تا 138)
حضور کی نماز میں رِقّت کو انہوں نے کس طرح دیکھا۔ لکھتے ہیں کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا جنازہ حضور نے خود پڑھایا تھا۔ نماز بہت لمبی پڑھائی۔ حتیٰ کہ مَیں کھڑے کھڑے تھک گیا۔ نماز سے کچھ قبل ایک ٹکڑا بادل کا آ گیا اور گرد اُڑنے لگی۔ (ہوا بھی چلنے لگی، مٹی اڑنے لگی) اور نماز کے سارے وقت میں یعنی ابتدائی تکبیر سے لے کر سلام پھیرنے تک خوب موٹے موٹے بوند کے قطرے بارش کے پڑتے رہے۔ اور سلام پھیرنے پر بارش ختم ہو گئی۔ اور تھوڑی دیر بعد آسمان کھل گیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ رجسٹر نمبر 3روایت حضرت محمد یحییٰ خان صاحب صفحہ نمبر134تا138غیر مطبوعہ)
اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی اور ہمارے اندر بھی احمدیت کی حقیقی روح ہمیشہ قائم فرماتا چلا جائے۔ ہمیں بھی اپنی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دے۔ ہمارے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو۔ ہر آنے والا دن ہمارے اندر بھی اور ہماری نسلوں میں بھی احمدیت کی محبت، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق اور قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے کی طرف ہمیشہ توجہ بڑ ھاتا چلا جائے۔