خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 25؍ نومبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کل براعظم افریقہ کے بعض ممالک کی آزادی کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔ ان تقریبات کے منانے میں ہماری پین افریقن ایسوسی ایشن بھی حصہ لے رہی ہے۔ یہ ایسوسی ایشن حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے وقت میں یہاں بنائی گئی تھی جو افریقن احمدی احباب کی ایسوسی ایشن ہے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا ہماری یہ ایسوسی ایشن بھی افریقن ممالک کی خوشیوں میں شامل ہو رہی ہے، پروگرام بنا رہی ہے۔ انہوں نے مجھے بھی کہا کہ اس موقع پر جو فنکشن کیا جا رہا ہے اُس میں شامل ہوں۔ اُن کا جو فنکشن ہو گا اُس میں تو انشاء اللہ میں شامل ہوں گا لیکن آج آزادی کے حوالے سے آپ کے سامنے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ غلامی سے آزادی اور آزادیٔ مذہب و ضمیر ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ افریقہ بھی وہ براعظم ہے جس کے اکثر ممالک بڑا لمبا عرصہ محکوم قوم کے طور پر غلام بن کر زندگی گزارتے رہے۔ اس لئے ان ممالک کی یومِ آزادی کی خوشیاں اور جوبلی منانا یقینا اُن کے لئے بہت اہم ہے اور یہ اُن کا حق ہے۔ اللہ کرے کہ یہ آزادی جو انہوں نے آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے مختلف ممالک سے حاصل کی، یہ حقیقی آزادی ہو اور دوبارہ وہ غلامی کی زندگی میں نہ جکڑے جائیں بلکہ اگر نیک نیتی سے، ایمان داری سے، انصاف سے یہ اپنی اس آزادی کا فائدہ اُٹھاتے رہے تو کوئی بعیدنہیں کہ آئندہ آنے والے سالوں میں ایک وقت میں براعظم افریقہ دنیا کی رہنمائی کرنے والا ہو۔

اگر مذاہب کی تاریخ پر ہم نظر ڈالیں تو بانیانِ مذاہب یا انبیاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں جن اہم کاموں کے لئے آتے ہیں اُن میں سے ایک بہت بڑا اور اہم کام آزادی ہے۔ چاہے وہ ظالم بادشاہوں اور فرعونوں کی غلامی سے آزادی ہو یا مذہب کے بگڑنے کی وجہ سے یا مذہب کے نام پر مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے اپنے مفادات کی خاطر رسم و رواج یا مذہبی رسومات کے طوق گردنوں میں ڈالنے کی غلامی سے آزادی ہو۔ ہر قسم کی غلامی سے رہائی انبیاء کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ بہت سی قوموں نے اس حقیقت کو نہیں سمجھا اور آزادی کے حقیقی عَلَم برداروں کا انکار کر کے نہ صرف اپنی حقیقی آزادی سے محروم ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کی پکڑ میں آ کر تباہ و برباد بھی ہوئے۔ انہوں نے دنیاوی حاکموں کی غلامی کو احکم الحاکمین کی غلامی پر ترجیح دی۔ اُس غلامی پر ترجیح دی جس غلامی سے آزادیوں کے نئے باب کھلتے ہیں۔ پس آزادی کی ترجیحات بدلنے سے نہ صرف آزادی ہاتھ سے جاتی رہی بلکہ دنیا و آخرت بھی برباد ہو گئی۔ پس اگر آزادی کی حقیقت کی گہرائی میں جائیں تو اصل آزادی انبیاء کے ذریعہ سے ہی ملتی نظر آتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے سامنے جو آزادی کا سورج ہے، جس کی کرنیں دور دور تک پھیلی ہوئی اور ہر قسم کی آزادی کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے جنہوں نے ظاہری غلامی سے بھی آزادی دلوائی اور مختلف قسم کے طوق جو انسان نے اپنی گردن میں ڈالے ہوئے تھے، اُن سے بھی آزاد کروایا۔ بلکہ آپؐ کے ساتھ حقیقی رنگ میں جڑنے سے آج بھی آپؐ کی ذات آزادی دلوانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین کے خطاب سے نوازا تو آپ کی خاتمیت تمام دینی و دنیاوی حالات کا احاطہ کرتے ہوئے اُس پر مہر ثبت کر گئی۔ پس اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ تعالیٰ کی گواہی اور اعلان کے بعد کسی سعید فطرت کے ذہن میں یہ شک پیدا بھی نہیں ہو سکتا کہ صرف اور صرف مُہرِ محمدی ہی ہے جو تمام قسم کے کمالات پرمُہر ثبت کرنے والی ہے اور ان کمالات کی انتہا آپؐ کی ذات میں ہی پوری ہوتی ہے۔ پس جب ہر کام اور ہر معاملے کی انتہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو کسی بھی رنگ میں آزادی دلوانے کے کمالات بھی آپؐ کی ذات سے ہی پورے ہونے تھے اور ہوئے۔ اور ایک دنیا نے دیکھا کہ یہ کمالات بڑی شان سے آپؐ کے ذریعے پورے ہوئے یا پورے ہو رہے ہیں اور جو حقیقت میں آپ کے ساتھ جڑنے والے ہیں وہ اب تک اس کا نظارہ دیکھ رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی کامل کتاب جو خاتم الکتب بھی کہلاتی ہے، اس میں آزادی کے مضمون کو مختلف حوالوں اور مختلف رنگ سے بیان کیا گیا ہے اور پھر اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اس خوبصورت تعلیم کی شان کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے فَکُّ رَقَبَۃٍ(سورۃ البلد: 14) گردن چھڑانا۔ یا اس طرح بھی کہہ سکتے ہیں کہ غلام کو آزاد کرنا یا آزادی میں مدد کرنا۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ایک آیت کا کچھ حصہ پڑھتا ہوں کہ وَاٰتَی الْمَالَ عَلیٰ حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ۔ وَالسَّائِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِ (سورۃ البقرۃ: 178)اور مال دے اُس کی محبت رکھتے ہوئے، اقربا کو، اور یتامیٰ کو اور مساکین کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو اور گردنوں کے آزاد کرنے کے لئے، یعنی غلاموں کے آزاد کروانے کے لئے۔

اور جو مضمون اس سے پہلے چل رہا ہے، اُس کو سامنے رکھیں تو بتایا گیا ہے کہ یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ، یومِ آخر اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر ایمان لانے کے بعد یہی نیکیاں ہیں جو بندے کو خدا کا قرب دلاتی ہیں اور ان میں غلاموں کی آزادی بھی شامل ہے۔ پس ایمان کی حالت کو قائم رکھنے کیلئے، نیکیوں میں بڑھتے چلے جانے کے لئے، نیکیوں کے اعلیٰ نمونے دکھانے کے لئے غلاموں کی آزادی یا کسی انسانی جان کوآزاد کروانا یہ ایک بہت بڑی نیکی ہے۔ احادیث میں بھی اس کی بہت ساری مثالیں ملتی ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے، یہ بخاری کی حدیث ہے جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو کوئی مسلمان غلام آزاد کرے گا، اللہ تعالیٰ اُسے دوزخ سے کُلّی نجات عطا کرے گا۔ (بخاری کتاب کفارات الأیمان باب قول اللہ تعالیٰ: أو تحریر رقبۃ…حدیث نمبر6715)

پھر اسلام میں مختلف مواقع پر کفّارہ کے طور پر غلام آزاد کرنے کی تعلیم قرآنِ کریم میں متعدد جگہ ہے۔ کہیں فرمایا کہ اگر کوئی مومن غلطی سے کسی مومن کے ہاتھ سے قتل ہو جائے تو غلام آزاد کرو اور خون بہا بھی ادا کرو۔ (النساء: 93) اور صرف مومن کے قتل پر ہی غلام آزاد کرنے کی یہ سزا نہیں سنائی گئی یا اس کی تحریک نہیں کی گئی۔ بلکہ فرمایا کہ اگر کسی قوم کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے اور اُس کا کافر بھی تم سے قتل ہو گیا ہے تو ایک غلام کو آزاد کرو۔ (النساء: 93) پھر خدا کی قسم کھا کر توڑنے کی سزا میں جہاں اپنی حیثیت کے مطابق مختلف امکانات دئیے گئے ہیں کہ اگر یہ نہیں تو یہ سزا ہے، یہ نہیں تو یہ سزا ہے، وہاں ایک سزا غلام آزاد کرنے کی بھی ہے۔ (المائدہ: 90)

پس مختلف موقعوں پر غلاموں کی آزادی کا جو ذکر ہے یہ اس لئے ہے کہ اسلام آہستہ آہستہ غلامی کے سلسلہ کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ اُس زمانے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یا آپ سے پہلے کا زمانہ تھا، غلام رکھنے کا عام رواج تھا۔ اسلام نے آ کر اس غلامی کے طریق کو ختم کرنے کے لئے مختلف موقعوں پر زور دیا ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا۔ بلکہ احادیث میں یہ بھی آتا ہے، ایک روایت اسماء بنتِ ابی بکر سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو فرمایا کرتے تھے کہ سورج گرہن کے موقع پر بھی غلام آزاد کیا کرو۔ (بخاری کتاب العتق باب ما یستحب من العتاقۃ فی الکسوف والایات حدیث نمبر2520) یعنی جو صاحبِ حیثیت ہیں جن کو توفیق ہے وہ ایسا ضرور کریں۔ پھر غلام کی عزت اور اُس کے حق کی آپ نے اس طرح بھی حفاظت فرمائی کہ ایک روایت میں آتا ہے۔ سات بھائی تھے اور اُن کے پاس ایک مشترک غلام تھا۔ ایک موقع پر ایک بھائی کو غلام پر غصہ آیا تو اُس نے اُس کو غصے میں زور سے ایک طمانچہ مار دیا، چپیڑ مار دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں جب یہ بات آئی تو آپ نے فرمایا اس غلام کو آزاد کرو۔ (مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک و کفارۃ من لطم عبدہ حدیث نمبر4304)

تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس غلام کو رکھو کیونکہ تمہیں غلام سے حسنِ سلوک ہی نہیں کرنا آتا۔

غرض کہ اگر اُس زمانے میں جائیں جہاں غلام رکھنا ایک عام بات بھی تھی اور جو امراء تھے اُن کے لئے ایک بڑی دولت بھی تھی۔ جتنے زیادہ کسی کے پاس غلام ہوتے تھے اُتنا ہی وہ امیر سمجھا جاتا تھااور امیر لوگ غلام رکھتے بھی تھے۔ اُس وقت یہ حکم ہیں کہ اگر اصل دولت چاہتے ہو جو ایمان کی دولت ہے تو بہتر ہے کہ غلاموں کو آزاد کرو۔ اُن کی آزادی کے سامان پیدا کرو۔ اور اس حکم کے تحت صحابہ نے حسبِ توفیق درجنوں سے ہزاروں تک غلاموں کو آزاد کیا ہے۔

حضرت عثمانؓ بن عفان کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے ایک ہی موقع پر بیس ہزار غلام آزاد کئے اور اس کے علاوہ اَوربھی بہت سارے کئے۔ جن کو جتنی جتنی توفیق تھی انہوں نے اتنے کئے۔ بعضوں نے درجنوں کئے اور بعضوں نے ہزاروں کئے۔ جن کے پاس کام کاج کے لئے بھی غلام تھے اُنہیں بھی اسلامی تعلیم یہ ہے کہ ان سے بھائیوں جیسا سلوک کرو۔ جو خود پہنو، اُنہیں پہناؤ۔ جو خود کھاؤ، اُنہیں کھلاؤ۔ (بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من أمر الجاھلیۃ…حدیث نمبر30)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوہ یہ تھا کہ حضرت خدیجہؓ نے جب شادی کے بعد دولت اور اپنے غلام آپؐ کو دے دئیے تو آپؐ نے آزاد کر دئیے۔ اُن میں سے ایک غلام حضرت زید بن حارثہ تھے اُن کو اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور ایسا شفقت اور پیار کا سلوک فرمایا کہ جب اُن کے حقیقی والدین اُن کو لینے آئے تو زیدنے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ (اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلدنمبر2زید بن حارثۃصفحہ نمبر141-142 دار الفکر بیروت2003ء)

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسنِ سلوک تھا۔ حسن و احسان کے کمال کی یہ وہ معراج تھی جس نے آزادی پر غلامی کو ترجیح دی، جس نے آپ کی محبت کے مقابلے میں خونی رشتے اور محبت کو جھٹک دیا۔

پس اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والے اس آزادی کے ہزارویں بلکہ لاکھویں حصے کی مثال پیش نہیں کر سکتے کہ کسی نے کبھی اس حد تک غلاموں کی آزادی کے سامان کئے ہوں، انسانیت کی آزادی کے سامان کئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو فرمایا کہ اپنے غلاموں سے اُن کے کام کاج کے دوران حسنِ سلوک کرو۔ اور اگر سخت کام دو تو اُن کا ہاتھ بٹاؤ۔ (بخاری کتاب الأیمان باب المعاصی من أمر الجاھلیۃ…حدیث نمبر30)

پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کی تعریف بدل دی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک اٹالین مستشرق ہے، ڈاکٹر ویگلیری (Vaglieri)لکھتی ہیں کہ:

’’غلامی کا رواج اُس وقت سے موجود ہے جب سے انسانی معاشرے نے جنم لیا اور اب تک بھی باقی ہے۔ مسلمان خانہ بدوش ہوں یا متمدن، ان کے اندر غلاموں کی حالت دوسرے لوگوں سے بدرجہا بہتر پائی جاتی ہے۔ یہ نا انصافی ہو گی کہ مشرقی ملکوں میں غلامی کا مقابلہ امریکہ میں آج سے ایک سو سال پہلے کی غلامی سے کیا جائے۔ حدیث نبوی کے اندر کس قدر انسانی ہمدردی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ مت کہو کہ وہ میرا غلام ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میرا لڑکا ہے۔ اور یہ نہ کہو کہ وہ میری لونڈی ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میری لڑکی ہے‘‘۔

پھر لکھتی ہیں کہ’’اگر تاریخی لحاظ سے اُن واقعات پر غور کیاجائے تو معلوم ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باب میں عظیم الشان اصلاحیں کیں۔ اسلام سے پہلے قرضہ ادا نہ ہونے کی صورت میں بھی ایک آزاد آدمی کی آزادی کے چھن جانے کا امکان تھا‘‘۔ (اگر ایک شخص نے کسی سے قرض لیا ہے اور وہ قرض ادا نہیں کر سکا تو جب تک وہ قرض ادا نہیں کرتا تھا اُس کو قرض دینے والے کی غلامی کرنی پڑتی تھی یا اس کے امکانات موجود تھے) لکھتی ہیں کہ’’لیکن اسلام لانے کے بعد کوئی مسلمان کسی دوسرے آزاد مسلمان کو غلام نہیں بنا سکتا تھا۔ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غلامی کو محدود ہی نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بارے میں اوامر و نواہی جاری کئے اور مسلمانوں کو کہا کہ وہ قدم آگے بڑھاتے رہیں حتیٰ کہ وہ وقت آ جائے جب رفتہ رفتہ تمام غلام آزاد ہو جائیں‘‘۔ (An Interpretation of Islam by Laura Veccia Vaglieri translated by Dr. Aldo Caselli page no. 72-73 The Oriental & Religious Publishing Corporation Limitd Rabwah Pakistan)

یہ پروفیسر ویگلیری جو ہیں، انہوں نے اٹالین میں کتاب لکھی ہے۔ اس کا انگلش میں ترجمہ ہوا ہے اور اس میں اسلام کی تعلیم کے بارے میں بڑے اچھے طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک زمانے میں جماعت احمدیہ امریکہ نے یہ کتاب شائع کی تھی اس کو دوبارہ شائع کرنا چاہئے۔ اگر کسی کے نام اُس وقت کے حقوق محفوظ نہیں ہیں اور امریکہ والوں کو اجازت ملی تھی تو اس کو شائع کرنا چاہئے۔ یہ اُن دشمنوں کا منہ بند کرنے کے لئے بہت کافی ہے جو اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے ہیں۔ پس یہ تعلیم، یہ اسوہ جس کا اعتراف غیر بھی کئے بغیر نہیں رہے وہ عظیم الشان تعلیم اور اسوہ ہے جو انسان کی آزادی کی حقیقت ہے۔ یہ چند مثالیں مَیں نے دی ہیں۔ قرآنِ کریم اور احادیث میں ہمیں اس بارے میں بے شمار احکامات اور رہنمائی اور ہدایات ملتی ہیں اور یہی حقیقی تعلیم ہے جس پر کاربند ہو کر دنیا کو آزادی مل سکتی ہے اور امن، انصاف اور صلح کا قیام ہو سکتا ہے۔

افریقہ میں جن کو آزادی ملی ہے وہاں جماعت احمدیہ کا، اُن لوگوں کا جو احمدی ہوئے یہ کام ہے کہ اس تعلیم کو عام کریں، اس کو پھیلائیں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں لائیں تا کہ اُن کو آزادی کی حقیقت معلوم ہو۔ صرف ایک دفعہ گولڈن جوبلی منا لینے سے آزادی نہیں قائم ہوتی بلکہ آزادی اُس وقت قائم ہو گی جب جو حکمران ہیں وہ بھی اور جو عوام ہیں وہ بھی اس حقیقت کو جانیں گے کہ ہم نے کس طرح اس آزادی کو قائم رکھنا ہے اور اس کے لئے کیا طریق اختیار کرنا ہے اور وہ طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں اور قرآنی تعلیم میں ہی ملے گا۔ ویگلیری صاحبہ نے تو صرف مسلمان غلام نہیں بن سکتا لکھا ہے لیکن جو حقیقی مسلمان معاشرہ ہے اس میں کبھی بھی کوئی غلام نہیں بن سکتا۔

یہ بات بھی ایک مسلمان کے لئے بہت اہم ہے اور ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل جو آخری نصیحت اُمّت کو فرمائی تھی وہ یہ ہے کہ نمازوں اور غلاموں کے متعلق میری تعلیم کو نہ بھولنا۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الوصایا باب ھل أوصی رسول اللّٰہﷺ حدیث نمبر2698)

لیکن مسلمانوں کی اکثریت کی اور خاص طور پر امراء اور اربابِ حکومت کی یہ بدقسمتی ہے کہ ان ہی دونوں تعلیموں کو بھلا بیٹھے ہیں۔ نہ ہی نمازوں میں وہ ذوق و شوق نظر آتا ہے اور خوفِ خدا نظر آتا ہے، نہ ہی غلامی کو دور کرنے کی کوشش ہے۔ گو وہ زر خرید غلاموں والی کیفیت تو آج نہیں ہے لیکن حکومت کے نام پر عوام سے غلاموں والا سلوک کیا جاتا ہے۔

بعض ملکوں میں جو بے چینی اور شور شرابہ ہے، خاص طور پر بعض مسلمان عرب ملکوں میں بھی وہ اس لئے ہے کہ عوام الناس کو یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم سے غلاموں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔ ایک حکومت جمہوریت کے نام پر آتی ہے تو پھر اُس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو صدر بنا ہے وہ تاحیات رہے اور اُس کے بعد جو اُس کی اولاد ہے وہ حکومت پر قبضہ کر لے۔ خوشامدیوں اور مفاد پرستوں نے ان لوگوں کے ارد گرد جمع ہو کراُن کی ترجیحات اور قدریں ہی بالکل بدل دی ہیں اور پھر وہ حکومت قائم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ اپنے ہی عوام پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ اور پھر اسلام دشمن طاقتیں یا بڑی طاقتیں یا مفاد حاصل کرنے والی طاقتیں اپنے مفادات کے لئے، ملک کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے ان فسادات کو جو عوام کی طرف سے حکومت کے ظلموں سے نجات کے لئے کئے جاتے ہیں اَور زیادہ ہوا دیتی ہیں۔ مدد کے نام پر آتے ہیں اور پھر یہ ایک ایسا شیطانی چکر شروع ہو جاتا ہے جو ملک کی ترقی کو بھی سو سال پیچھے لے جاتا ہے اور عوام کی آزادی کی کوشش کو بھی مزید غلامی میں جکڑ لیتا ہے۔ اگر براہِ راست نہیں تو بالواسطہ اپنوں کی غلامی سے نکل کر غیروں کی غلامی میں چلے جاتے ہیں۔ مَیں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بعض بڑی طاقتیں جن حکومتوں کی پشت پناہی کر کے اُنہیں سالوں کرسی پر بٹھائے رکھتی ہیں اور عوام کی آزادی کے سلب ہونے کی کبھی کوئی پرواہ نہیں کرتیں، ان کے اپنے مفادات جب اُن حکومتوں سے ختم ہو جاتے ہیں تو عوام کی آزادی کے نام پر اُن حکومتوں کے تختے الٹائے جاتے ہیں، اُن کو نیچے اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن اب بعض ملکوں میں ماضی قریب میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ جب تختے الٹے اور نئی حکومتیں بنی ہیں تو اُن کو دیکھ کر یہ طاقتیں بھی پریشان ہونے لگ گئی ہیں کہ ہماری مرضی کی حکومتیں نہیں آئیں۔ بعض جگہوں پر اُن کی مرضی کی تبدیلیاں نہیں ہوئیں یا ایسے امکانات پیدا ہو رہے ہیں کہ تبدیلیاں نہیں ہوں گی۔ یہ چیزیں پھر اُن کی پریشانی کا باعث بن رہی ہیں اور پھر ایک اور فساد کا سلسلہ اور منافقت کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے بلکہ بعض جگہوں پر ہو چکا ہے۔ عوام بھی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ایک حکومت کی غلامی سے نکل کر دوسرے کی حکومت کی غلامی میں جا رہے ہیں اور بعض جگہوں پر تو چلے گئے ہیں۔ اب اُن کو احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ملکی دولت اب بھی عوام کی بہبود پر، اُن کی بہتری کے لئے، اُن کو حق و انصاف دلانے کے لئے، اُن کو تعلیم یافتہ بنانے کے لئے خرچ نہیں ہو رہی اور نہ ہو گی کیونکہ جو حکومتیں آ رہی ہیں وہ بھی اپنے مفادات لے کر آ رہی ہیں۔ عوام میں غربت اور کم معیارِ زندگی پہلے بھی تھااور آئندہ بھی جو خوش فہمی ہے کہ دُور ہو جائے گا وہ نہیں دُور ہو گا بلکہ قائم رہے گا۔ یہ کچھ عرصے بعد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت پر حکمران عمل نہیں کرتے۔ مسلمان کہلاتے ہیں لیکن آپؐ کی نصیحت پر عمل کرنے والے نہیں۔ پہلے زمانوں میں تو ایک شخص اپنی دولت کے بل بوتے پر غلام رکھتا تھا۔ اب ملکی دولت کو ملک کے عوام کو ہی غلام بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اب تو میڈیا بھی بولنا شروع ہو گیا ہے اور ظاہر بھی کرتا ہیٗ تصویریں بھی آ جاتی ہیں کہ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں بھی غربت و افلاس ہے۔ ایک طرف سونے کے محلات ہیں تو دوسری طرف ایک گھرانے کو دو وقت کی روٹی بھی پیٹ بھر کر مہیا نہیں ہوتی۔ پس حقوق غصب کر کے عوام کو غلام بنایا جا رہا ہے اور بنا دیا گیا ہے۔

کہاں تو وہ زمانہ تھا کہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اپنی فوجوں کو عیسائی علاقے سے واپس بلانا پڑا کہ اُس وقت دشمنوں کی طاقت کی وجہ سے مسلمان اپنا قبضہ اُس علاقے میں برقرار نہیں رکھ سکتے تھے تو اُن عیسائیوں کو مسلمانوں نے اُن سے لی ہوئی وہ رقم واپس کی جو ٹیکس کے طور پرتھی اور اُن کی حفاظت اور بہبود کے لئے تھی، اُن کے حقوق ادا کرنے کے لئے تھی کہ ہم اب کیونکہ تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتے اس لئے جورقم لی گئی تھی تمہیں واپس کرتے ہیں۔ اُس وقت وہ جو عیسائی رعایا تھی وہ روتے تھے اور روتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ تم لوگ دوبارہ واپس آؤ۔ (ماخوذ از سیر الصحابہ جلدنمبر2حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ صفحہ نمبر171-172ادارہ اسلامیات لاہور) کیونکہ تم جیسے حاکم ہم نے نہیں دیکھے۔ مسلمان حکومت کے تحت ہمیں جو انصاف اور حقوق ملے ہیں وہ ہمیں ہماری حکومتوں میں نہیں ملے۔

اور کہاں اب یہ زمانہ ہے کہ مسلمان حکمران مسلمانوں کی دولت لوٹ رہے ہیں اور ملک میں انصاف ختم ہے۔ حقوق غصب کئے جا رہے ہیں۔ کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں ہے۔ اور پھر بڑی ڈھٹائی سے یہ دعویٰ ہے کہ ہم عوام کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں کوئی اور نہیں کر سکتا۔ یہ جو انقلابی صورت مختلف ممالک میں پیدا ہوئی ہے اور جس سے جیسا کہ مَیں نے کہا مفاد پرست فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ بعض مذہب کے نام پر اپنے مفاد حاصل کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کبھی نہ ہوتا اگر عوام کے حقوق اُنہیں دئیے جاتے۔ اگر حکومتیں انصاف پر قائم ہوتیں، عوام کی آزادی کی حفاظت کی جاتی اور حکومتیں بھی لالچ کے بجائے انصاف قائم رکھنے کی کوشش کرتیں تو کبھی یہ فسادنہ ہوتا۔ مذہبی لوگوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے تو انہوں نے عوام کو دینی تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے، دین کا علم نہ ہونے کی وجہ سے دین میں غلط رسوم پیدا کر کے، غلط تشریحات کر کے اُن کی گردنوں میں ان رسوم و رواج کے اور غلط تعلیمات کے طوق ڈال دئیے ہیں، اور اس طرح ان کو غلام بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو انسانیت کی عظمت قائم کرنے آیا تھا یہ فرمایا ہے۔ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ (الاعراف: 158) کہ یہ ہمارا نبی اُن کے بوجھ دور کرتا ہے اور جو طوق اُن کی گردنوں میں پڑے ہوئے ہیں اُنہیں کاٹتا ہے۔ لیکن یہاں آجکل کیا ہو رہا ہے؟ ہمیں تو بالکل اس کے الٹ نظر آتا ہے۔

مسلمان ممالک کو جو اس نبی کے ماننے والے ہیں یا ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، ماننے کے بعد حق و انصاف اور آزادی دینے کا نمونہ ہونا چاہئے تھا۔ دوسرے ممالک کو، غیر مسلم ممالک کوان کا حق و انصاف اور عوام کی آزادی اور ترقی کو دیکھ کر نمونہ پکڑنا چاہئے تھا۔ لیکن یہاں اس کے بالکل الٹ ہے اور علماء جو حقیقی اسلامی تعلیم کے پھیلانے والے ہو کر ہر قسم کی بدعات سے مسلمانوں کو پاک کرنے والے ہونے چاہئے تھے انہوں نے بھی اُن کے گلوں میں طوق ڈال دئیے ہیں۔ دونوں نے مسلمان عوام الناس کو غلامی کے بوجھوں تلے دبایا ہوا ہے اور طوقوں میں جکڑا ہوا ہے۔

پس صرف حکمرانوں پر ہی الزام نہیں ہے بلکہ آجکل کے علماء بھی اُن لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے جھوٹے رسم و رواج اور جھوٹے عقائد کو دین کا نام دے کر عوام کے جذبات سے کھیلتے ہوئے اُنہیں ایک طرح سے غلام بنا لیا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا، کبھی ختم نہیں ہو گا تاوقتیکہ یہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اُس فرستادے کو نہیں مان لیتے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں انسانی قدریں قائم کرنے کیلئے اور ہمیں ہر قسم کے بوجھوں اور طوقوں سے آزاد کروانے کیلئے بھیجا ہے۔ اور صرف اور صرف ایک غلامی میں آنے کی تعلیم دی ہے اور وہ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی ہے۔ جس غلامی سے پھر آزادیوں کے نئے راستے نظر آتے ہیں، انصاف نظر آتا ہے، برابری نظر آتی ہے اور ایک ایسا حسین معاشرہ نظر آتا ہے جہاں حقوق لینے کے لئے جلوس نہیں نکالے جاتے۔ آزادی حاصل کرنے کے لئے غلط طریق استعمال نہیں کئے جاتے بلکہ حقوق دینے کے لئے بادشاہ بھی اور فقیر بھی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔

پس اب مسلمانوں کے وقار اور ہر قسم کے فسادوں سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے، ایک ہی راستہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے احکامات اور تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ اور یہ ممکن نہیں ہے جب تک اُس شخص کے انکار سے باز نہیں آتے جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہر دو قسم کے حقوق قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف مواقع پر بڑے خوبصورت رنگ میں ہمارے سامنے اس تعلیم کو رکھا ہے جو حق و انصاف کو قائم رکھتی ہے، جو مستقل آزادی کی ضمانت ہے۔ آپ فرماتے ہیں:۔ ’’یاد رکھو کہ ایک مسلمان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورا کرنے کے واسطے ہمہ تن تیار رہنا چاہئے۔ اور جیسے زبان سے خدا تعالیٰ کو اُس کی ذات اور صفات میں وحدہٗ لا شریک سمجھتا ہے ایسے ہی عملی طور پر اُس کو دکھانا چاہئے اور اُس کی مخلوق کے ساتھ ہمدردی اور ملائمت سے پیش آنا چاہئے‘‘۔

فرمایا: ’’جب تک تمہارا آپس میں معاملہ صاف نہیں ہو گا اُس وقت تک خدا تعالیٰ سے بھی معاملہ صاف نہیں ہو سکتا۔ گو ان دو قسم کے حقوق میں بڑا حق خدا تعالیٰ کا ہے مگر اُس کی مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنا یہ بطورآئینہ کے ہے۔ جو شخص اپنے بھائیوں سے صاف صاف معاملہ نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے حقوق بھی ادا نہیں کر سکتا‘‘۔

لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ بھائی سمجھا بھی تو جائے۔ جو اپنے آپ کو بالا سمجھے، دوسرے کو حقیر سمجھے اور اُس کے لئے کوشش بھی کرتا رہے، اُس سے کبھی انصاف اور بھائی چارے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

بہر حال پھر آپ آگے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت بنائی تھی اُن میں سے ہر ایک زکی نفس تھا‘‘ (پاک نفس تھا) ’’اور ہر ایک نے اپنی جان کو دین پر قربان کر دیا ہوا تھا۔ اُن میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو منافقانہ زندگی رکھتا ہو۔ سب کے سب حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے تھے‘‘۔ (ملفوظات جلدنمبر5صفحہ 407-408۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس جب دین دنیا پر مقدم ہو تبھی وہ حالت پیدا ہوتی ہے جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والا بناتی ہے اور مخلوق کا حق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی ہے۔ آج بظاہر ہمیں ایک بھی لیڈر مسلمانوں میں، مسلمان ملکوں میں نظر نہیں آتا جو یہ معیار قائم کرنے والا ہو۔ اور جب حقیقی اور انصاف پسند اور حقوق ادا کرنے والے رہنما نہ ہوں تو پھر ہر ایک اپنے حق اور آزادی کے لئے اپنے طریق پر عمل کرتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا، اس سے مفاد پرست پھر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں اور پھر انصاف اور آزادی کے نام پر ظلموں کی نئی داستانیں رقم ہوتی ہیں، ایک نئی کہانیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ پس آجکل کی جو آزادی ہے وہ آزادی کے نام پر ایک غلامی سے نکل کر دوسری غلامی میں جانا ہے۔ افریقہ کے اکثر ممالک میں دیکھ لیں یا دوسرے مسلمان ممالک میں دیکھ لیں یہی صورت نظر آتی ہے۔ اگر غیروں کی غلامی سے نجات ملی ہے تو اپنوں کی غلامی نے گھیر لیا ہے۔

اللہ کرے کہ مسلمان ملکوں کے سربراہ بھی اور افریقن ممالک کے سربراہ بھی اور سیاستدان بھی اور فوج بھی جو اکثر انقلاب کے نام پر حکومتوں پر قبضہ کرتی رہتی ہے اور مذہبی لیڈر بھی یا علماء کہلانے والے بھی اس حقیقت کو سمجھ لیں کہ اپنے ہم قوموں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے سے، انصاف پر نہ چلنے سے، دوسروں کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنے سے وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ ہر راعی سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنی رعایا کا حق ادا کیا؟ جو تمہاری ذمہ داری تھی تم نے ادا کی یا ملکی دولت کو اپنی تجوریوں میں بھرتے رہے؟۔ اسلام اور اللہ رسول کا نام تو لیتے رہے۔ کیا اس نام کا پاس تم نے کیا؟ اور نفی میں جواب پر یقینا اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آئیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولا جا سکتا۔ خدا تعالیٰ سے کوئی چیز چھپائی نہیں جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔ حقیقی مؤمن وہ ہیں جو لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ (المومنون: 9) اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ پس سربراہان اپنی امانتوں کے بارے میں پوچھے جائیں گے جبکہ وہ خاص طور پر اپنے عہد لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کو گواہ بھی بناتے ہیں۔ یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ ملک کے مفاد اور عوام کی بہتری، اُن کے حقوق کی ادائیگی، انصاف کے قیام اور آزادی کی خاطر ہر کوشش بروئے کار لائیں گے لیکن یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ اکثر جگہ ہم قومی دولت کو لٹتا ہوا ہی دیکھتے ہیں۔ علماء ہیں تو انہوں نے دین کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے اور عوام کو جیسا کہ مَیں نے کہا غلط رسم و رواج اور تعلیم اور عقائد کے طوق پہنا کر صرف اور صرف اپنے زیر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام الناس ہیں تو وہ بھی اپنے حق ادا نہیں کر رہے۔ غرض کہ امانتوں کی ادائیگی کا حق ادا نہ کر کے بھی ہرکوئی اللہ تعالیٰ کی پکڑ کو آوازدے رہا ہے۔ اور آجکل کے ملکوں کے فساد اسی بات کا منطقی نتیجہ ہیں۔ اور دہشت گردی، معاشی بدحالی، بد امنی یہ نہ صرف آجکل حال کی حالت ہے بلکہ ایک انتہائی بے چین کر دینے والے مستقبل کی بھی نشاندہی کر رہی ہے۔

پاکستان میں ہی مثلاً آزادی کے بعد باسٹھ تریسٹھ سال میں ان تمام باتوں کی انتہا ہوئی ہوئی ہے اور ہر روز اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ اس لئے کس طرح ہم توقع کر سکتے ہیں کہ بہتر مستقبل ہو گا۔ انگریزوں کی غلامی سے تو ہمیں نجات مل گئی لیکن اپنوں کی غلامی کے طوق اور بھی زیادہ تنگ ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر بھی رحم فرمائے اور عوام پر بھی رحم فرمائے۔ جس پاکستان کو حاصل کرتے وقت قائداعظم نے اعلان کیا تھا کہ یہاں ہر مذہب کے ماننے والوں کو مذہبی آزادی ہے اور پاکستانی شہری کی حیثیت سے تمام شہری برابر ہیں، وہاں احمدیوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا جا رہا؟ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جن کی غلامی میں رہنا ہر احمدی ہزاروں آزادیوں پر ترجیح دیتا ہے اور اپنی گردنیں کٹوانے کے لئے تیار ہے، ان کے حوالے سے غلط باتیں احمدیوں کی طرف منسوب کر کے، احمدیوں پر افتراء کرتے ہوئے، جھوٹے الزام لگاتے ہوئے احمدیوں کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والے ہیں۔ ہم شہری حقوق سے محروم ہونے کو تو کوئی حیثیت نہیں دیتے اور نہ اس کی کوئی حیثیت سمجھتے ہیں، ہمیں تو تمام حقوق سے بھی محروم کر دیا جائے تو ہم یہ برداشت کرلیں گے اور کر رہے ہیں لیکن ان نام نہاد علماء اور حکمرانوں کی خواہش کے مطابق ہم کبھی اپنے آپ کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ احمدی کیوں پاکستان میں ووٹ کا حق استعمال نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ یہ کہتے ہیں کہ تمہارا یہ حق رائے دہی اور آزادی اس اعلان سے مشروط ہے کہ تم کہو کہ ہم مسلمان نہیں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب نہیں ہیں۔ خدا کی قسم !ہم میں سے ہر احمدی بوٹی بوٹی ہونا تو گوارا کر سکتا ہے لیکن ایسی آزادی اور حق رائے دہی پر تھوکتا بھی نہیں جو ہمیں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ کر دے۔ پس ایسی آزادی تم دنیا داروں کو مبارک ہو۔ ہم نے تو ایسی آزادی پر اُس غلامی کو ترجیح دی ہے جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کی خاک بناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنا دے۔ جو حقوق اللہ کی ادائیگی کا ادراک رکھتے ہوئے اُنہیں ادا کرنے والا بھی ہو اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ادراک رکھتے ہوئے اُنہیں بجا لانے والا بھی ہو۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ ایک دن آئے گا کہ ہماری یہی عاجزی، ہماری یہی غلامی دنیا کو حقیقی آزادی کا نظارہ دکھائے گی۔ اور اپنے آپ کو آزاد کہنے والے جو اغلال میں جکڑے ہوئے ہیں، بوجھوں اور طوقوں میں پڑے ہوئے ہیں یہ یا اُن کی نسلیں ایک دن مسیح محمدی کی غلامی پرفخر محسوس کریں گی۔ جن سے اُن کو اُس حقیقی آزادی کا ادراک حاصل ہو گا جس کے قائم کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے۔

اللہ کرے دنیا اس آزادی کے دن جلد دیکھ لے اور اُن خوفناک نتائج سے بچ جائے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کے انکار کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر احمدی کو بھی صبر اور استقامت سے ان سختیوں کے دن دعاؤں میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں