خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 21مارچ 2008ء

اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم کے سب سے اعلیٰ پرتَو آنحضرتﷺ تھے اور پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آقا کی اتباع میں ان صفات کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا ہے۔
(اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم کے حوالہ سے آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی پاکیزہ زندگی کے نہایت ایمان افروز واقعات کا تذکرہ)
یہ نمونے ہیں جو ہماری اصلاح کے لئے بڑے ضروری ہیں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 21؍مارچ 2008ء بمطابق21؍ امان 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

ا(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں یہ ذکر ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات حلیم ہے اور باوجود بعض لوگوں اور قوموں کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے ہونے، زیادتیوں میں بڑھے ہوئے ہونے اور نافرمانیوں میں بڑھے ہوئے ہونے کے اپنی اس صفت کے تحت اس دنیا میں ایسے لوگوں اور قوموں سے عموماً صَرفِ نظر کرتے ہوئے انہیں فوری نہیں پکڑتا۔ اگر وہ اس طرح رحم نہ کرے اور نرمی کا سلوک نہ کرے اور فوری سزا اور پکڑ اور انتقام کی صفات حرکت میں آجائیں تو دنیا میں کوئی فرد بشر باقی نہ بچے بلکہ پھر کوئی جاندار بھی باقی نہ بچتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پر ایمان لانے والوں کو بھی اپنی صفات کے اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایک مومن کی یہی نشانی بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہو۔
انبیاء کو اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے وافر حصہ عطا فرماتا ہے تاکہ دنیا کی اصلاح کر سکیں، ان کے سامنے نمونہ بن سکیں اور آنحضرت ﷺ کو سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کا فہم و ادراک عطا ہوا اور آپ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی صفات کے پرتَوبنے۔ لیکن وہ لوگ جو اسلام اور آنحضرت ﷺ سے بُغض رکھتے ہیں، کینہ رکھتے ہیں اُن کو اُن کے اِن بغضوں اور کینوں نے اندھا کر دیا ہے۔ ان کو آپﷺ کی ذات میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا اظہار نظر ہی نہیں آتا۔ آنحضرت ﷺ نے امت کو کیا نصیحتیں کیں اور اس صفت کے حوالے سے آپؐ کے عمل کیا تھے(اس ضمن میں) آج مَیں صفت حلیم کے حوالے سے بعض احادیث پیش کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
‘’ایک دفعہ ایک ایلچی حضرت رسول کریم ﷺ کے پاس آیا۔ وہ بار بار آپؐ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا’‘۔ داڑھی کی طرف ہاتھ بڑھاتا تھا ’’اور حضرت عمر ؓ تلوار کے ساتھ اس کا ہاتھ ہٹاتے تھے۔ آخر حضرت عمر ؓ کو آنحضرت ﷺ نے روک دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی کہ یہ ایسی گستاخی کرتا ہے کہ میرا جی چاہتا ہے اس کو قتل کر دوں مگر آنحضرت ﷺ نے اس کی تمام گستاخی حلم کے ساتھ برداشت کی‘‘۔ (ملفوظات جلد 5صفحہ324 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)۔ آپؐ نے فرمایا نہیں، سختی نہیں کرنی۔
آنحضرت ﷺ کے حسن خلق اور صفتِ حلیم کا اظہار ایک اور روایت میں اس طرح ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ (یہ لمبی حدیث ہے، خلاصہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا) کہ زید بن سَعْنہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں تشریف لائے۔ وہ یہودی عالم کہتے ہیں کہ جب میں نے آنحضرت ﷺ کے چہرے کو دیکھا تو اس میں نبوت کی تمام علامات مجھے نظر آئیں۔ سوائے دو باتوں کے جن کا مجھے پتہ نہیں چلتا تھا۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نبی کا حلم اس کے غصے پر غالب ہو گا اور دوسری بات یہ کہ جتنا زیادہ اس کو غصہ دلایا جائے اور اس کی گستاخی کی جائے اتنا ہی زیادہ وہ حلم اور بردباری دکھائے گا۔ تو کہتے ہیں کہ میں اس جستجو میں رہا کہ مجھے کوئی موقع ملے تو میں ان د و علامتوں کی بھی پہچان کروں کہ آیا آپؐ میں ہیں کہ نہیں اور آپؐ حقیقت میں وہی نبی ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی تھی؟
وہ کہتے ہیں ایک دن ایک سوار آیا جو بدوی تھا، دیہاتی تھا۔ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ!ﷺ بنو فلاں کے گاؤں بُصریٰ کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور میں نے ان سے کہا تھا کہ اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو ان کو وافر رزق ملے گا۔ اب حالات یہ ہیں کہ بارش کی کمی کی وجہ سے قحط کا شکار ہو گئے ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ پھر لالچ میں آکر کسی اور سے یہ رزق لے کر یا مدد لے کر اسلام سے باہر نہ نکل جائیں۔ کیونکہ لگتا تھا کہ وہ کسی لالچ میں ہی اسلام لائے ہیں۔ تو آپ مہربانی کریں اور مناسب سمجھیں تو ان کی کچھ مدد اور دلداری فرمائیں۔ اس نے جب یہ آنحضرت ﷺ سے عرض کیا، اُس وقت آنحضورﷺ کے ہمراہ حضرت علیؓ تھے۔ حضرت علی ؓ سے آپؐ نے پوچھا تو انہوں نے کہا اس وقت ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو مدد کے طور پر بھیجی جا سکے۔ تو زید بن سَعْنہ نے کہا کہ اے محمدﷺ کہ اگر بنو فلاں کے باغ کی کھجوریں ایک طے شدہ پروگرام کے تحت مجھے بیچ سکتے ہوں تومَیں ان کی مدد کر سکتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے یہودی! طے شدہ مقدار اور مدت کی شرط پر کھجوریں تو بیچ سکتا ہوں لیکن یہ شرط نہیں مان سکتا کہ یہ کھجوریں فلاں کے باغ کی ہی ہوں۔ خیر انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ معاہدہ ہو گیا۔ انہوں نے اپنی تھیلی کھولی اور سونے کے 80مثقال ان کھجوروں کی قیمت کے طور پر پیشگی دے دئیے کہ فلاں وقت میں یہ ادائیگی ہو گی۔ آپ نے وہ رقم اس کو دی کہ جاؤ لوگوں میں برابر کی تقسیم کر دو۔ یہ زید بن سعنہ کہتے ہیں کہ اس قرض کی واپسی میں یا جو سودا ہوا تھا جس کے بدلے کھجوریں لینی تھیں، ان کھجو روں کی ادائیگی میں کچھ دن باقی تھے تو میں آنحضرت ﷺ کے پاس گیا اور آپ کا گریبان پکڑ لیا اور چادر کھینچی اور بڑے غصے کی حالت میں کہا کہ اے محمد!ﷺ کیا میر احق ادا نہیں کرو گے؟ پھر کہتے ہیں مَیں نے کہا خدا کی قسم !بنو عبدالمطلب کی اس عادت کو میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ قرض ادا کرنے میں بڑے بُرے ہیں اور تمہاری ٹال مٹول کی عادت کا بھی مجھے علم ہے۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پاس ہی بیٹھے تھے اُن سے رہا نہ گیا اور بڑے غصے سے انہوں نے اس کو دیکھا اور کہا کہ اے اللہ کے دشمن! اللہ کے رسولﷺ سے تُو ایسا کہتا ہے جو مَیں سن رہا ہوں۔ اس طرح گستاخی سے پیش آتا ہے جس طرح میں دیکھ رہا ہوں۔ اُس خدا کی قسم جس نے ان کو حق کے ساتھ بھیجا ہے کہ اگر مجھے ان کا ڈر نہ ہوتا تو میں اپنی تلوار سے سے تیرا سر اڑا دیتا۔ جبکہ رسول اللہﷺ بڑے اطمینان اور تسلی سے بیٹھے حضرت عمر ؓ کی طر ف دیکھ رہے تھے۔ پھر آپؐ مسکرائے اور آپؐ نے فرمایا کہ اے عمر! اس غصہ کی بجائے تم مجھے بھی کہو کہ حقدار کا حق ادا کرو اور اس کو بھی کہو کہ جو قرض کا تقاضا ہے یا حق کا تقاضا ہے اس کے کوئی اصول اور طریقے ہوتے ہیں، اسے پیار سے سمجھاؤ۔ اور فرمایا کہ جاؤ اس کو لے جاؤ اور جو معاہدہ ہوا تھا اس سے اس کو 20صاع زیادہ کھجوریں دے دینا۔ (صاع ایک پیمانہ ہے)۔ کہتے ہیں میں حضرت عمر ؓ کے ساتھ گیا اور انہوں نے زائد کھجوریں مجھے دیں۔ میں نے پوچھا عمر یہ زائد کس لئے؟انہوں نے کہا آنحضرت ؓ نے فرمایا تھا کہ جوسختی میں نے کی تھی اس کے بدلے میں تمہیں زائد دوں۔ انہوں نے حضرت عمرؓسے پوچھا کہ تم جانتے ہوکہ میں کون ہوں ؟ انہوں نے کہا نہیں، میں تو نہیں جانتا۔ زید بن سعنہ نے کہا کہ میں زید بن سعنہ ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے کہا وہی یہودی عالم؟اس نے جواب دیا ہاں میں وہی ہوں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اتنے بڑے عالم ہو کر رسول اللہﷺ کی گستاخی کا یہ طریق تم نے اختیار کیا ہے؟ اس پر میں نے کہا کہ اس شخص کو دیکھ کر(آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر) جتنی بھی نبوت کی علامات تھیں وہ مجھے نظر آرہی تھیں۔ لیکن دو علامات کا مجھے پتہ نہیں چلتا تھا۔ ایک یہ کہ کیا اس نبی کا حلم اس کے غصہ پر غالب ہے؟ اور دوسرے یہ کہ جتنا زیادہ ان سے تلخی یا جہالت سے پیش آیا جائے اتنا ہی زیادہ وہ حلم اور بردباری سے پیش آئیں گے۔ اب مجھے موقع ملا تھا تو مَیں نے آزمایا اور مَیں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ مَیں اللہ کو اپنا ربّ اور اسلام کو اپنا دین اور محمدﷺ کو رسول مانتا ہوں۔ اور اس خوشی میں میرا آدھا مال اُمّت مسلمہ کے لئے ہے۔ آنحضرت ﷺ کے اس حلم کو دیکھ کر وہ یہودی عالم اسلام لے آئے اور پھر کئی جنگوں میں آنحضرت ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے، غزوہ تبوک سے واپس آتے ہوئے راستے میں انہوں نے وفات پائی تھی۔
(مستدرک مع التلخیص۔ کتاب معرفۃ الصحابۃ باب ذکر اسلام زید بن سعنہ جلد 3صفحہ604-605)
یہ آنحضرت ﷺ کا خلق اور حلم ہے کہ دشمن یا مخالف سے حسن سلوک اس طرح ہے کہ باوجود اس کے کہ جو معاہدہ ہے اس کے پورے ہونے میں ابھی کچھ دن باقی ہیں لیکن پھر بھی بڑی نرمی سے، بڑے پیار سے، قرض خواہ کا قرض اس کو واپس کیا اور نہ صرف واپس کیا بلکہ زائد دیا۔ یہ کوئی ایک دو واقعات نہیں ہیں بلکہ بے شمار ایسے واقعات ہیں جو روایات میں ہیں اور لاکھوں ایسے واقعات ہوں گے جو ہم تک پہنچے ہی نہیں۔
آپ کے حلم کا ایک اور روایت میں یوں ذکر آتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم انے ایک شخص کا قرض ادا کرنا تھا۔ و ہ آپؐ کے ساتھ بڑی سختی سے پیش آیا۔ اس پر صحابہ ؓ اسے مارنے کے لئے لپکے تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ قرض لینے والا بات کرنے کا حق رکھتا ہے۔ (اسے کوئی جانور دینا تھا، اونٹ یا بکری وغیرہ جو بھی تھا)۔ آپؐ نے فرمایا اس شخص کے لئے اس عمر کا جانور اسے خرید کر دے دوجس عمر کا اس نے وصول کرنا ہے۔ تو صحابہ ؓ نے عرض کیا کہ ہمارے پاس اس کے جانور سے بڑی عمر کا جانور موجود ہے۔ آپؐ نے فرمایا تم وہ خرید کر اسے دے دوکیونکہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو عمدگی سے قرض ادا کرتا ہے۔ (اور کوئی سختی نہیں کرنی)۔ (مسلم کتاب المساقاۃ باب من استسلف شیئا فقضی خیرا منہ۔ حدیث نمبر4001)
حلم کے معنی برداشت کرنے کے ہیں اور مہربان کے بھی ہیں۔ ان دونوں مثالوں سے آنحضرت ﷺ کی برداشت اور مہربانی دونوں ظاہر ہوتے ہیں۔
پھر گھریلو معاملات میں ایک مثال ہے کہ کس طرح غصہ کو برداشت کرتے تھے اور آپؐ اس طریق سے تربیت بھی فرماتے تھے کہ دوسرے کو احساس بھی ہو جائے اور سختی بھی نہ کرنی پڑے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ بنی سُواءۃ کے ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا کہ مجھے آنحضرت ﷺ کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں بتائیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن کریم میں نہیں پڑھا

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(القلم:4)

پھر آپ ؓ فرمانے لگیں کہ ایک مرتبہ آنحضورﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ تھے۔ میں نے آپؐ کے لئے کھانا تیار کیا اور حضرت حفصہ ؓ نے بھی کھانا تیار کیا اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھ سے پہلے کھانا تیار کرکے بھجوا دیا تو میں نے اپنی خادمہ کو کہا کہ جاؤ اور حفصہؓ کے کھانے کے برتن انڈیل دو۔ اس نے حضورﷺ کے سامنے کھانے کا پیالہ رکھتے ہوئے وہ کھانا انڈیل دیا۔ اس طرح انڈیلا کہ پیالہ بھی ٹوٹ گیا اور کھانا بھی نیچے گر گیا۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے پیالے کے ٹکڑوں کو جمع کیا اور کھانے کو جمع کیا اور ایک چمڑے کے دستر خوان پرجو وہاں پر پڑا تھا اس کو رکھا اور وہاں سے اس بچے ہوئے کھانے کو کھایا اور پھر میرا پیالہ حضرت حفصہ ؓ کی طرف لوٹاتے ہوئے فرمایا کہ اپنے برتن کے عوض یہ برتن رکھ لو اور کھانا بھی کھاؤ۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے چہرہ مبارک پر اس وقت کوئی غصہ کے آثار نہیں تھے۔ (سنن ابن ماجہ۔ کتاب الاحکام۔ باب الحکم فیمن کسر شیئا۔ حدیث 2333)
آپؐ نے اس ایک فعل سے خادموں کو بھی نصیحت کر دی اور حضرت عائشہ ؓ کو بھی کہ آپس میں سوکناپے جائز حد تک رہنے چاہئیں بلکہ ایک دوسرے کی دشمنی ہونی ہی نہیں چاہئے۔ یہ جو عظیم اسوہ آپؐ نے اپنے ہر کام میں قائم کیا یہ صرف اس زمانے کے لوگوں کے لئے نہیں تھابلکہ یہ اسوہ جو آپؐ نے قائم کیا، یہ اسوہ ہمارے لئے رہتی دنیا تک ایک نمونہ ہے اور ہمارے عمل کرنے کے لئے ہے۔ صرف یہی نہیں کہ ہم پڑھ لیں اور سن لیں اور اس سے لطف اندوز ہو جائیں اور جب وقت آئے تو اس کی اہمیت بھول جائیں۔
کئی شکایات آتی ہیں۔ ذرا سی غلطی پر مالک اپنے ملازموں کے ساتھ انتہائی بدترین سلوک کرتے ہیں۔ اسی طرح بعض خاوند اپنی بیویوں کے ساتھ بڑے ظالمانہ سلوک کرتے ہیں۔ غلط طریق سے مارتے ہیں۔ بعضوں کے اس حد تک کیس ہیں کہ ان کو ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ یورپ میں تو بعض دفعہ پھر پولیس بھی آکر پکڑ لیتی ہے۔ پھر مقدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ تو گھر والوں سے نرمی اور پیار اور حسن سلوک کرنا جو آپؐ کی سنّت ہے وہ ہمارے لئے عمل کرنے کے لئے ہے۔ بلکہ بعض دفعہ تو اس پہ یہ بھی زیادتی ہو جاتی ہے کہ صرف خاوند نہیں بلکہ اس کے رشتہ دار بھی اس جھگڑے میں شامل ہو جاتے ہیں۔ نندیں اور ساسیں بھی مارنا شروع کر دیتی ہیں۔ تو بہرحال اس بات سے احتیاط کرنی چاہئے اور ہمیشہ غصہ کودبانے کے لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر آدمی غصّہ میں کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ استغفار پڑھے۔ لاحول پڑھے۔ ٹھنڈا پانی ڈالے۔ وضو کرے تو یہ ساری نشانیاں اس لئے بتائی ہیں کہ ان پر عمل کرو۔
پھر غیروں کی زیادتیوں سے کس طرح آپ نے درگزر کیا۔ کس طرح آپ ان سے حسن سلوک کرتے تھے۔ حلم کی آپؐ نے کیا مثال قائم کی۔ جب آپؐ فتحیاب جرنیل ہوئے تو ایک نئی شان سے یہ واقعات نظر آتے ہیں۔
فتح مکہ کے موقع پر رسول کریمﷺ نے خانہ کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر فرمایا: اے قریش کے گروہ! تم مجھ سے کس قسم کے سلوک کی امید رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا :خیر کی۔ آپ ہمارے معزز بھائی ہیں اور ایک معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا۔

اِذْھَبُوْافَاَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ۔

کہ جاؤ تم آزاد ہو۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔ صفحہ744 دخول الرسول ﷺالحرم مطبع دارالکتب العلمیہ بیروت۔ طبع اول 2001)
فتح مکہ کے موقعہ پر ہی پھر ایک واقعہ کا ذکر ہے ایک معاند اسلام صفوان بن امیہ(مکہ سے بھاگ کر) جدہ کی طرف چلے گئے تاکہ وہاں سے پھر یمن کی طرف چلے جائیں۔ تو عُمیر بن وھب رضی اللہ عنہ نے رسول کریمﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صفوان بن امیہ اپنی قوم کا سردار ہے لیکن آپ سے خوفزدہ ہو کر وہ یہاں سے بھاگ گیا ہے اور اپنے آپ کو سمندر میں ڈال رہا ہے آپ اسے امان بخشیں۔ اس پر رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اسے امان دی جاتی ہے۔ تو عمیر بن وھب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرمائیں جسے دیکھ کر وہ آپؐکی امان کو پہچان لے۔ تو رسول کریمﷺ نے وہ عمامہ اس کو دیا جو مکہ میں داخل ہوتے وقت آپ نے سر پر پہن رکھا تھا۔ یہ عمامہ ساتھ لے کر صفوان کی طرف روانہ ہوئے وہ انہیں راستے میں ملے۔ اس وقت صفوان سفر اختیار کرنے اور جہاز پر چڑھنے والے تھے۔ انہوں نے اس سے کہا کہ خدا کا خوف کر اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈال۔ میں ر سول کریمﷺ کی امان کو لے کر آیاہوں۔ صفوان نے کہا۔ تیرا بُرا ہو، میرے پاس سے دُور ہو اور میرے سے بات نہ کرو۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تمہیں پتہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ سب لوگوں سے افضل ہیں اور سب لوگوں سے زیادہ نیک سلوک کرنے والے ہیں۔ لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم طبیعت کے مالک ہیں۔ لوگوں میں سب سے زیادہ بہترین ہیں اور تیرے چچا زاد ہیں۔ ان کی عزت تیری عزت اور ان کا شرف تیرا شرف ہے اور ان کی بادشاہت تیری بادشاہت ہے۔ تو اس پر صفوان نے کہا کہ میں اپنے دل میں ان کا خوف رکھتا ہوں۔ مجھے ان سے خوف ہے۔ عمیر نے تسلی دی کہ وہ بہت زیادہ حلیم اور کریم ہیں۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ خیر عمیر واپس لوٹے یہاں تک کہ رسول کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو صفوان نے کہا کہ عمیر کہتا ہے کہ آپ نے مجھے امان بخشی ہے۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا ہاں سچ کہتا ہے۔ صفوان نے پھر عرض کی کہ مجھے دو ماہ کی مہلت دیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس بارے میں چار ماہ کی مہلت دی جاتی ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام۔ ذکر تحطیم الاصنام صفحہ747 طبع اول 2001دارالکتب العلمیہ بیروت۔ لبنان)
یعنی تمہیں مہلت ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ صرف اسلام قبول کرنے کی شرط پر تمہیں امان دی گئی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ یہ اُسوہ آنحضرت ﷺ نے ہمارے عمل کے لئے ہمیں ہر بارے میں قائم کرکے دکھایا۔ اس بارے میں حِلم اور برداشت اور مہربانی کی مزید چند احادیث ہیں کہ آپؐ اپنی امت سے کیا توقعات رکھتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا۔ طاقتور پہلو ان وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ اصل پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھتا ہے۔
(بخاری کتاب الادب باب الحذر عن الغضب 6114)
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت سلیمان بن صُرَدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور دو آدمی قریب ہی جھگڑ رہے تھے ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور اس کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں ایسی بات جانتا ہوں کہ اگر وہ اس بات کو کہے تو اس کی یہ کیفیت جاتی رہے گی۔ اور وہ بات یہ ہے کہ

اَعوُذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰن

کہ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں دھتکارے ہوئے شیطان سے۔ تو اس کا غصہ جاتا رہے گا۔ اس پر لوگوں نے اس جھگڑنے والے کو کہا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ تُو شیطان سے اللہ کی پناہ میں آتو تیرا غصہ ٹھیک ہو جائے گا۔
(بخاری کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ 3282)
پھر حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم اسے عرض کی کہ مجھے کوئی نصیحت کریں۔ آپؐ نے فرمایا تو غصہ نہ کیا کر۔ اس نے کئی مرتبہ پوچھا اور آپؐ نے ہر مرتبہ یہی جواب دیا کہ غصہ نہ کیا کر۔
(بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب6116)
بعض لوگ بات بات پر غصہ میں آجاتے ہیں۔ مغلوب الغضب ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی مشکل میں ڈال لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے یہ نصیحت خاص طور پر یاد رکھنے والی ہے۔ ورنہ غصہ تو ہر ایک کو کچھ نہ کچھ آتا ہی ہے۔ انسانی فطرت ہے۔ آنحضرت ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ کو کبھی غصہ آیا تو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اور اللہ تعالیٰ کے تقدس کی خاطر۔ اس کے علاوہ کبھی ذاتی معاملات میں آنحضرت ﷺ کو غصہ نہیں آیا۔
پھر آپؐ نے ایک جگہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا جس کی روایت حضرت ابوہریرہ ؓ سے ہے کہ ایک شخص نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں۔ میں ان سے حسن سلوک سے پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں۔ میں ان کے ساتھ حلم کے ساتھ پیش آتا ہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کے ساتھ برتاؤ کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا اگر تُو ایسا ہی کرتا ہے جیساکہ تُو نے کہا تو تُو ان پر خاک ڈالتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تیرے لئے ان کے خلاف اس وقت تک ایک مددگار رہے گاجب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا۔
(مسلم کتاب البر والصلۃ۔ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا)
بجائے اس کے کہ خود انسان بدلے لے کر شیطان کی گود میں چلا جائے اللہ تعالیٰ سے مدد لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک ر وایت میں آتا ہے۔ حضرت سہل اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جس شخص نے غصہ کو دبایا حالانکہ وہ اس بات کی استطاعت رکھتا ہو کہ غصہ کو نافذ کر سکے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو مخلوقات کے سامنے بلائے گا۔ (یہ دکھانے کے لئے کہ یہ شخص میرا قریب ترین ہے)۔
(ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی کظم الغیظ۔ حدیث نمبر 2021)
حضرت علی ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں اگر تو انہیں کہے تو بخش دیا جائے گا اگر واقعی تیری قسمت میں بخشش ہو گی۔ اور وہ کلمات یہ ہیں کہ

لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ الْحَلِیْمُ ُالْکَرِیْمُ۔ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔

کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو حلیم اور کریم ہے۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں جو بلند شان والا ہے اور عظمت والا ہے۔ پاک ہے اللہ جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور عرش عظیم کا رب ہے۔ ہر قسم کی تعریف کا مستحق اللہ ہی ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
(مسند احمد بن حنبل۔ مسند علی بن ابی طالب۔ جلد اول صفحہ282 حدیث نمبر92/1,712)
تویہ دعائیں ایسی ہیں جو بخشش کا سامان کرتی ہیں۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ وسلم نے اَشَجّ عبدالقیس کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم میں دو خوبیاں ایسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ان میں سے ایک حلم ہے اور ایک وقار۔
(مسلم کتاب الایمان۔ باب الامر بالایمان باللہ…۔ حدیث نمبر 26)
پس جیسا کہ ہم نے لغت میں بھی دیکھا۔ مَیں نے معنی بتائے تھے کہ حلم کے معنی ہیں رحم کرنا، معاف کرنا، برداشت کرنا، دوسروں سے مہربانی سے پیش آنا۔ ، غصے کو دبانا۔ اور یہ ایسی خصوصیات ہیں جو معاشرے کے امن کے لئے انتہائی ضروری ہیں اور روحانیت کی ترقی کے لئے بھی انتہائی ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کے لئے بھی بہت اہم ہیں۔ پس ان کو ہر احمدی کو اختیار کرنا چاہئے۔
اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے غلام صادق نے ہمارے سامنے اعلیٰ خُلق کے کیا نمونے پیش فرمائے ان میں سے چند ایک کا مَیں ذکر کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تویہ کہ گھر کے سکون کے لئے اس صفت کے اظہار کی آپؐ نے کس طرح تلقین فرمائی۔ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
‘’فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برداشت کرنی چاہئیں۔ ‘‘
اور فرمایا کہ:’’ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں۔ ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور درحقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے۔ اس کاشکر یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں ‘‘۔
ایک د فعہ ایک دوست کی درشت مزاجی اور بدزبانی کا ذکر ہوا اور شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے۔ حضورؑ اس بات پر بہت رنجیدہ خاطر ہوئے اور فرمایا کہ:
‘’ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہئے‘‘۔ اور پھر بہت دیر تک آپ نے عورتوں کے ساتھ سلوک پر نصیحتیں فرمائیں۔ (ملفوظات جلد اول۔ صفحہ307 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
پھر آپؑ اپنے خادموں کے ساتھ کس طرح حلم اور برداشت کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے۔ حافظ حامد علی مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک خادم تھے۔ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے لکھا ہے کہ’’وہ حضرت اقدس کی خدمت میں عرصہ دراز تک رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد صدر انجمن احمدیہ نے آخرعمر میں انہیں پنشن دے دی تھی۔ اوروہ قادیان میں رہنے کے لئے ایک مختصرسی دکان کرتے تھے۔ …… حضرت مسیح موعودؑکے اخلاق اور برتاؤ کا جو حضور حافظ صاحب سے کرتے تھے ان پر ایسا اثرتھاکہ وہ بارہا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے ‘’مَیں نے تو ایسا انسان کبھی دیکھا ہی نہیں ‘‘۔ بلکہ زندگی بھر حضرت کے بعد کوئی انسان اخلاق کی اس شان کا نظر نہیں آتا۔
حافظ صاحب کہتے تھے کہ’’مجھے ساری عمر میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ جھڑکا اور نہ سختی سے خطاب کیا۔ بلکہ میں بڑا ہی سست تھا اور اکثر آپؑ کے ارشادات کی تعمیل میں دیر بھی کر دیا کرتا تھا‘‘۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ۔ صفحہ349)
لیکن کبھی سوال ہی پیدا نہیں ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سختی کی ہو۔
پھرانسان پہ صحت اور بیماری کا دور بھی آتاہے۔ بیماری میں چڑ چڑا پن بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جن کو اس زمانے کی اصلاح کے لئے آنحضرت ﷺ کی غلامی میں اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا تھا۔ آپ کا اس زمانے میں کیا رویہ ہوتا تھا۔ اس بارے میں روایت سنیں۔
حضرت مولوی عبدالکریم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپؑ کو سخت دردِ سر ہو رہا تھا۔ اور میں بھی اندر آپ کے پاس بیٹھا تھا۔ اور پاس حد سے زیادہ شور و غل برپا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کو اس شور سے تکلیف تو نہیں ہوتی؟ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ہاں اگر یہ چپ ہو جائیں تو آرام ملتا ہے۔ تو میں نے عرض کیا کہ جناب کیوں حکم نہیں کرتے۔ فرمایا آپ ان کو نرمی سے کہہ دیں۔ میں تو کہہ نہیں سکتا۔ بڑی بڑی سخت بیماریوں میں الگ ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں اور ایسے خاموش پڑے ہیں گویا مزہ میں سو رہے ہیں۔ کسی کا گلہ نہیں کہ تو نے ہمیں کیوں نہیں پوچھا۔ اور تو نے ہمیں پانی نہیں دیا اورتُو نے ہماری خدمت نہیں کی‘‘۔ بیماری میں بھی آرام سے لیٹے رہتے تھے۔ کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہوتا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ ’’مَیں نے دیکھا ہے کہ ایک شخص بیمار ہوتا ہے اور تمام تیمار دار اس کی بدمزاجی اور چڑچڑاپن سے اور بات بات پر بگڑ جانے سے پناہ مانگ اٹھتے ہیں ‘‘۔ بعض دفعہ ایسی بیماری میں گالیاں بھی دیتا ہے۔ ’’اسے گالی دیتاہے۔ اسے گھورتا ہے اور بیوی کی تو شامت آجاتی ہے۔ بیچاری کو نہ دن کو آرام اور نہ رات کو چین۔ کہیں تکان کی وجہ سے ذرا اونگھ آگئی ہے۔ بس پھر کیا خدا کی پناہ۔ آسمان کو سر پر اٹھا لیا۔ وہ بیچاری حیران ہے۔ ایک تو خود چُور چُور ہو رہی ہے اور ادھر یہ فکر لگ گئی ہے کہ کہیں مارے غضب و غیظ کے اس بیمار کا کلیجہ پھٹ نہ جائے‘‘۔ غصے میں مجھے تو جو کہہ رہا ہے کہہ رہا ہے اس کی اپنی بیماری نہ بڑھ جائے۔ ‘’غرض جو کچھ بیمار اور بیماری کی حالت ہوتی ہے۔ خدا کی پناہ کون اس سے بے خبر ہے۔ بر خلاف اس کے سالہا سال سے دیکھا اور سنا ہے کہ جوطمانیت اور جمعیت اورکسی کو بھی آزا ر نہ دینا۔ حضرت (یعنی حضرت مسیح موعودؑ) کے مزاج مبارک کو صحت میں حاصل ہے۔ وہی سکون حالت بیماری میں بھی ہے۔ اور جب بیماری سے افاقہ ہوا معاً وہی خندہ رُوئی، کشادہ پیشانی اور پیار کی باتیں ہیں ‘‘۔ کہتے ہیں :’’میں بسا اوقات عین اس وقت پہنچا ہوں جبکہ ابھی ابھی سر درد کے لمبے اور سخت دورہ سے آپؑ کو افاقہ ہوا۔ آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا ہے تو مسکرا کر دیکھا ہے۔ اور فرمایاہے اب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس وقت مجھے ایسامعلوم ہوا‘‘۔ جب بیماری کے بعد فوری طور پر پہنچا اور آپ کو دیکھا’’کہ گویا آپ کسی بڑے عظیم الشان دلکشا نُزھت افزاء باغ کی سیر سے واپس آئے ہیں ‘‘ یعنی بہت خوبصورت اور دل کو اچھا لگنے والے کسی باغ کی سیر سے واپس آرہے ہیں اور اس وجہ سے ’’جویہ چہرہ کی رنگت اور چمک دمک اور آواز میں خوشی اور لذت ہے‘‘۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم ؓ صاحب سیالکوٹی صفحہ22-23 پبلشر ابوالفضل محمود قادیان)
پھر مخالفین کے ساتھ آپ کا حلم کیا تھا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے ہی بیان کیا کہ:
‘’محبوب رایوں والے مکان کا واقعہ ہے۔ ایک جلسہ میں جہاں تک مجھے یاد ہے۔ ایک برہمو لیڈر(غالباً انباش موزمدار بابوتھے) حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے اور حضرت جواب دیتے تھے۔ اسی اثناء میں ایک بدزبان مخالف آیا اور اس نے حضرت کے بالمقابل نہایت دلآزار اور گندے حملے آپ پرکئے۔ وہ نظار ہ میرے اس وقت بھی سامنے ہے۔ آپ منہ پرہاتھ رکھے ہوئے جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھاکہ پگڑی کے شملہ کا ایک حصہ منہ پر رکھ کر یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ خاموش بیٹھے رہے اور وہ شورِپشت بکتا رہا‘‘۔ مغلظات بکتا رہا۔ ’’آپ اس طرح پرمست اورمگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہو نہیں رہا‘‘۔ یا کوئی نہیں ہے۔ یا اس طرح بیٹھے تھے کہ گویا ’’کوئی نہایت شیریں مقال گفتگو کررہاہے’‘۔ اچھی اچھی باتیں سنا رہا ہے۔ ’’برہمو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ حضرت (مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام)نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں، کہنے دیجئے۔ آخر وہ خود ہی بکواس کرکے تھک گیا اور اٹھ کر چلا گیا۔ برہمو لیڈر بے حد متاثر ہوا اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے۔ اس وقت حضور اسے چپ کرا سکتے تھے۔ اپنے مکان سے نکال سکتے تھے اور بکواس کرنے پر آپ کے ایک ادنیٰ اشارے سے اس کی زبان کاٹی جا سکتی تھی۔ مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبط نفس کا عملی ثبوت دیا‘‘۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ۔ صفحہ443-444)
پھر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی لکھتے ہیں کہ:
‘’جالندھر کے مقام پر وہ (میر عباس علی صاحب۔ ناقل) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور بیٹھے ہوئے اعتراضات کر رہے تھے۔ حضرت مخدوم الملت مولانا عبدالکریم صاحب رضی اللہ عنہ بھی اس مجلس میں موجود تھے‘‘۔ کہتے ہیں ’’مجھے خودانہوں نے ہی یہ واقعہ سنایا۔ مولانا نے فرمایا کہ میں دیکھتا تھا کہ میر عباس علی صاحب ایک اعتراض کرتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہایت شفقت رأفت اور نرمی سے اس کا جواب دیتے تھے اور جوں جوں حضرت صاحب اپنے جواب اور طریقِ خطاب میں نرمی اور محبت کا پہلو اختیار کرتے میر صاحب کا جواب بڑھتا جاتا یہاں تک کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی اور بے ادبی پر اتر آیا اور تمام تعلقات دیرینہ اور شرافت کے پہلوؤں کو ترک کرکے تُوتُو مَیں مَیں پر آگیا‘‘۔ کہتے ہیں ’’میں دیکھتا تھا کہ حضرت مسیح موعوعلیہ السلاماس حالت میں اسے یہی فرماتے۔ جناب میر صاحب آپ میرے ساتھ چلیں۔ میرے پاس رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کوئی نشان ظاہر کر دے گا اور آپ کی رہنمائی کرے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ مگر میر صاحب کا غصہ اور بے باکی بہت بڑھتی گئی۔
مولوی صاحب کہتے ہیں میں حضرت کے حلم اور ضبطِ نفس کو دیکھتے ہوئے بھی میر عباس علی صاحب کی سُبک سری کو برداشت نہ کر سکا۔ اور میں جو دیر سے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم سمجھ رہا تھاکہ میرے سامنے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر یہ اس طرح حملہ کر رہا ہے اور میں خاموش بیٹھا ہوں، مجھ سے نہ رہا گیا اور میں باوجود اپنی معذوری کے اس پر لپکا اور للکارا اور ایک تیز آوازہ اس پرکَسا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اٹھ کر بھاگ گیا۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ضبط ِنفس اور حلم کا جو نمونہ دکھایا میں اسے دیکھتا تھا‘‘اور بڑا پریشان تھا۔ ’’مگر مجھے خوشی بھی تھی کہ میں نے اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم نہیں بنایا۔ کہ وہ میرے سامنے حضرت کی شان میں ناگفتنی بات کہے اورمیں سنتا رہوں ‘‘۔ کہتے ہیں کہ’’گو بعد کی معرفت سے مجھ پریہ کھلا کہ حضرت کا ادب میرے اس جو ش پر غالب آنا چاہئے تھا‘‘۔ یعنی مجھے حضور کے سامنے بولنا نہیں چاہئے تھا۔ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ۔ صفحہ 444-445)
پھر مولوی صاحب عبدالکریم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ
’’مجلس میں آپ کسی دشمن کا ذکر نہیں کرتے۔ اور جو کسی کی تحریک سے ذکرآ جائے تو برے نام سے یاد نہیں کرتے۔ یہ ایک بیّن ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں کوئی جلانے والی آگ نہیں۔ ورنہ جس طرح کی ایذاء قوم نے دی ہے اور جو سلوک مولویوں نے کیا ہے اگر آپ اسے واقعی دنیا دار کی طرح محسوس کرتے تو رات دن کڑھتے رہتے اورایر پھیر کر انہیں کا مذکور درمیان لاتے اور یوں حواس پریشان ہو جاتے اور کاروبار میں خلل آجاتا‘‘۔
(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ صفحہ52-51 پبلشرز ابوالفضل محمود۔ قادیان)
پھر لکھتے ہیں :’’ایک روز فرمایا کہ میں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خداتعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے آخر وہی شرمندہ ہو گا۔ اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا‘‘۔
(سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ صفحہ52-51 پبلشرز ابوالفضل محمود۔ قادیان)
پھر حضرت مولوی عبدالکریم ؓ صاحب ایک اورواقعہ سناتے ہیں کہ’’ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا‘‘۔ اور اپنے آپ کو بڑاتجربہ کاراور ہر طرح سے زمانے کو دیکھنے والا سمجھتا تھا۔ ……ہماری مسجد میں آیا۔ حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے بات کی اور تھوڑی گفتگو کے بعد اس نے کئی دفعہ کہا کہ آپ اپنے دعوے میں کاذب ہیں اور میں نے ایسے مکار بہت دیکھے ہیں اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں۔ غرض ایسے ہی بیباکانہ الفاظ کہے۔ مگر آپؑ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا۔ بڑے سکون سے سنا کئے اور پھر بڑی نرمی سے اپنی باری پر بات کی، کسی کا کلام کیسا ہی بیہودہ اور بے موقع ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم یا نثر میں سے کیسا ہی بے ربط اور غیر موزوں ہو آپ سننے کے وقت یا بعدخلوت کبھی نفرت و ملامت کا اظہار نہیں کرتے تھے اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جو ساتھ بیٹھے سننے والے ہوتے تھے اس دلخراش اور لغو کلام سے گھبرا کر اٹھ جاتے تھے اور آپس میں نفرین کے طور پر کانا پھوسی کرتے تھے اور مجلس کے برخاست ہونے کے بعد تو ہر ایک نے اپنے اپنے حوصلے اور ارمان بھی نکالے کہ کیابیہودہ کلام ہے جو یہاں سنایا گیا۔ یا فلاں شخص نے کیسی بیہودہ باتیں کی ہیں۔ لیکن مظہر خدا کے حلیم اور شاکر ذات نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا جس سے لگے کہ آپؑ کو بُرا لگا ہے۔
(ماخوذ از سیرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ صفحہ44 پبلشرز ابوالفضل محمود۔ قادیان)
1904ء کا ایک واقعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ سناتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے پاس ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا تو اس پر آپ نے فرمایا کہ صبر کرنا چاہئے۔ گالیوں سے کیا ہوتا ہے ایسا ہی آنحضرت ﷺ کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذمّم کہا کرتے تھے تو آپؐ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ میں ان کی مذمت کو کیا کروں میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمد رکھا ہوا ہے، ا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے۔

یَحْمَدُکَ اللّٰہُ مِنْ عَرْشِہٖ

یعنی اللہ تعالیٰ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے۔ یہ وحی براہین احمدیہ میں موجود ہے۔
(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ۔ صفحہ450)
آپ پرغصہ دلانے والی ایسی باتیں اثر نہیں کرتی تھیں۔ جیسا کہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے صبرکی طاقت ہے۔ میرے میں وہ حلم ہے جس سے میں سب کچھ برداشت کرتا ہوں۔ اگر آپ چاہتے تو جواب دے سکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی صفت کا مظہر تھے اس لئے آپ ہمیشہ صبر سے کام لیتے تھے بلکہ آپ نے ایک شعر میں اس کا اظہار یوں کیا ہے ؎

گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے

پھر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان کرتے ہیں کہ 1903ء فروری کا واقعہ ہے کہ ایک ڈاکٹر صاحب لکھنؤ سے تشریف لائے اور بقول ان ڈاکٹر کے وہ بغدادی نسل کے تھے اور عرصہ سے لکھنؤ میں مقیم تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ چند احباب نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حالات دریافت کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا اور ان کے بیان میں شوخ، استہزاء اور بیباکی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ان کی باتوں کا جواب دیتے تھے۔ ایک دفعہ باتیں کرنے کے موقع پر اس ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ آپ کا یہ د عویٰ ہے کہ عربی میں مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا کہ مَیں بہت اچھی عربی میں لکھ سکتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں میرا دعویٰ ہے۔ اس پر اس شخص نے بڑی شوخی اور استہزاء کے اندازمیں کہا کہ بے ادبی معاف! آپ کی زبان سے تو قاف بھی نہیں نکل سکتا۔ کہتے ہیں میں اس مجلس میں موجود تھا۔ اس کا بات کرنے کا جو طریقہ تھا وہ بہت دکھ دینے والا تھا اور ایسا تکلیف دہ تھا کہ ہم لوگ برداشت نہیں کر سکتے تھے مگر حضرت کے حلم کی وجہ سے خاموش تھے۔ وہاں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید بھی بیٹھے تھے ان سے ضبط نہ ہو سکا اور اس کو انہوں نے ڈانٹا اور کہا کہ حضرت اقدس کا ہی حوصلہ ہے جو تمہیں برداشت کیا ہوا ہے۔ اس پر اس نے بھی کوئی جواب دیا اور یہاں تک حالت ہو گئی کہ لگتا تھا کہ دونوں گتھم گتھا ہو جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو روک دیاکہ نہیں۔ اس پر اس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرکے کہا کہ استہزاء اور گالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہم تو ناراض نہیں ہوتے۔ یہاں تو خاکساری ہے۔ میں تو ناراض نہیں ہوتا۔ میری طرف سے تو صرف خاکساری ہے۔ اور جب اس نے قاف ادانہ کرنے کا حملہ کیا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں لکھنؤ کا رہنے والا تو نہیں کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو۔ مَیں تو پنجابی ہوں۔ حضرت موسیٰعلیہ السلام پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ

لَایَکَادُیُبِیْن

اور احادیث میں مہدی کی نسبت یہ آیا ہے کہ ان کی زبان میں لکنت ہو گی۔

لَایَکَادُیُبِیْن

کا مطلب یہ ہے کہ یہ اظہار بیان کی طاقت نہیں رکھتے۔ قرآن کریم میں آیا ہے حضرت موسیٰؑ کو بھی کہا گیا۔

اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ھٰذَاالَّذِیْ ھُوَمَھِیْنٌ وَّلَایَکَادُیُبِیْن(الزخرف:53)

کیامَیں اس شخص کی جو کھول کر بیان بھی نہیں کر سکتا، بیان کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا، اس کی بات مان لوں ؟ میں اچھا ہوں یا یہ اچھا ہے؟ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف سے جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضرت مسیح موعودؑ نے جو لوگ وہاں موجود تھے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سب و شتم تک بھی نوبت پہنچ جائے۔ یعنی گالیاں دینا بھی شروع کر دے تو اس کو گوارا کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ مریدوں میں توداخل نہیں ہے۔ ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جو مریدوں سے چاہتے ہیں۔ یہ بھی ہم ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں۔ اگر وہ نرمی سے باتیں کر لیتے ہیں تو یہ بھی ان کا احسان ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ پیغمبر خداﷺ نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں۔ یہ جو آپ کی ناراضگی ہوئی ہے، اس سے آپ دلبرداشتہ نہ ہوں۔ چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے۔ کلمہ ہمارا ایک ہے، ہم دونوں مسلمان ہیں۔

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

پڑھتے ہیں۔ جب تک یہ نہ سمجھیں جو کہیں ان کا حق ہے۔
وہ ڈاکٹر صاحب پھر کچھ دن اور ٹھہرے اور صبح شام حضرت مسیح موعودؑ سے سوال جواب کرتے رہے اور کہتے ہیں وہ سوال جواب اسی وقت اخباروں میں، بدر میں یا الحکم میں شائع ہوتے رہتے تھے۔ نووارد نے ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کہا کہ میرے لئے دعا کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا دعا تو میں ہندو کے لئے بھی کرتا ہوں مگر خداتعالیٰ کے نزدیک یہ امر مکروہ ہے کہ اس کا امتحان لیا جاوے۔ میں دعا کروں گا آپؑ وقتاً فوقتاً یاد دلاتے رہیں۔ اگر کچھ ظاہر ہوا تو اس سے بھی اطلاع دوں گا۔ مگر یہ میرا کام نہیں۔ خداتعالیٰ چاہے تو ظاہر کر دے۔ وہ کسی کے منشاء کے ماتحت نہیں بلکہ وہ خدا ہے۔ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہ ہے۔ ایمان کو کسی امر سے وابستہ کرنا منع ہے مشروط بالشرائط ایمان کمزور ہوتا ہے۔ نیکی میں ترقی کرنا کسی کے اختیار میں نہیں۔ ہمدردی کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس کے لئے شرائط کی ضرورت نہیں۔ ہاں یہ ضروری ہو گا کہ آپ ہنسی ٹھٹھے کی مجلسوں سے دور رہیں۔ یہ وقت رونے کا ہے نہ ہنسی کا۔ آپ جائیں گے موت و حیات کا پتہ نہیں۔ دو تین ہفتے تک سچے تقویٰ سے دعا مانگو کہ الٰہی مجھے معلوم نہیں تُوہی حقیقت کو جانتا ہے مجھے اطلاع دے۔ اگر صادق ہے تو اس کے انکار سے ہلاک نہ ہو جاؤں اور اگر کاذب ہے تو اس کے اتباع سے بچا۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو اصل امر کو ظاہر کر دے۔ بہرحال اس پر ڈاکٹر صاحب نے جو غیر از جماعت تھا کہاکہ مَیں سچ عرض کرتا ہوں کہ مَیں بہت بُرا ارادہ کرکے آیا تھا کہ مَیں آپ سے استہزاء کروں اور گستاخی کروں مگر خدا نے میرے ارادے کو رد ّکر دیا۔ مَیں اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ جو فتویٰ آپ کے خلاف دیا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ اور مَیں زور دے کر نہیں کہہ سکتا کہ آپ
مسیح موعودنہیں ہیں بلکہ مسیح موعود ہو نے کا پہلو زیادہ زور آور ہے اور مَیں کسی حد تک کہہ سکتا ہوں کہ آپ مسیح موعود ہیں۔ جہاں تک میری عقل اور سمجھ تھی میں نے آپ سے فیض حاصل کیا ہے اور جو کچھ میں نے سمجھاہے وہ ان لوگوں پر ظاہر کروں گا جنہوں نے منتخب کرکے مجھے بھیجا ہے۔ کل میری اَور رائے تھی اور آج اَور ہے۔ اور کہا کہ کیونکہ ایک پہلوان بغیر لڑنے کے ہار ماننے والا نہیں ہوتا وہ نامرد کہلائے گا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ بغیر اعتراض کے آپ کی باتیں تسلیم نہ کروں۔ تو اتنا انصاف تھا کہ حق کو حق سمجھا، قبول نہیں بھی کیاتب بھی اپنے خیالات یکسر بدل لئے۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ۔ صفحہ451-453)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ چوہدری حاکم علی صاحب کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک د فعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا کوئی خطاب دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کی جماعت اور آپ کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں نہیں آتا تھا۔ مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکا بوٹی اڑ جاتی۔ مگر آپؑ سے ڈر کر سب خاموش تھے۔ آخر جب اس کی فحش زبانی حد کو پہنچ گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ دو آدمی اسے نرمی کے ساتھ پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں۔ اگر یہ نہ جاوے تو پھر وہاں ایک سپاہی ہوتا تھا اس کے سپرد کر دیں۔ (سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ257-258)
اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم کے سب سے اعلیٰ پر تَوتو آنحضرت ﷺ تھے اور پھر اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے آقا کی اتباع میں ان صفات کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کی زندگی کے بھی چند واقعات میں نے بیان کئے ہیں۔ یہ نمونے ہیں جو ہماری اصلاح کے لئے بڑے ضروری ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہونے کی اور اس کی صفات اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں