خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 27؍فروری 2004ء

انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی باریک راہوں پرقدم مارنا ہے۔
ہر وہ عہد جو انصاف اور سچائی پر مبنی ہے اس کا اللہ تعالیٰ ضامن ہوتا ہے
ہمیشہ اس کے آگے جھکو اور چھوٹے سے چھوٹے رنگ میں بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ
ہر سطح پر اب یہ احمدی کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاہدوں کی پاسداری کرنے والے اور کرانے والے ہوں
خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
27؍فروری2004ء بمقام مسجد بیت الفتوح،مورڈن لندن

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
بَلٰی مَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ وَاتَّقٰی۔ فَاِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ۔ (سورۃ ال عمران آیت ۷۷:)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں کیوں نہیں جس نے بھی اپنے عہد کو پورا کیا اور تقویٰ اختیار کیا اللہ متقیوں سے محبت کرنے والا ہے۔
آج کل کے معاشرے میں ایک یہ بھی بیماری عام ہے کہ بات کرو تو مکر جاؤ، وعدہ کرو تو اسے پورا کرنے میں ٹال مٹول سے کام لو، جب کوئی عہد کرو تو اس کو توڑنے کے بہانے تلاش کرو کیونکہ دوسری طرف بہتر مفاد نظر آ رہا ہوتا ہے۔ اور یہ باتیں انفرادی طور پر بھی اور جہاں پانچ دس افراد اکٹھے مل کر کام کررہے ہوں ، کوئی مشترکہ کاروبار ہو وہاں بھی۔ اور بدقسمتی سے ملک ملک سے بھی جب معاہدے کرتے ہیں تو بدعہدی اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں- خاص طور پر جب کسی امیر ملک اور غریب ملک میں کوئی معاہدہ ہو تو بعض دفعہ اپنے مفاد منوانے کی خاطر دباؤ ڈالتے ہیں اور اگر دباؤ میں آنے سے کوئی انکاری ہو تو پھر معاہدوں میں بد عہدیاں شروع ہو جاتی ہیں تو بہرحال یہ ایک ایسی برائی ہے جو شخصی معاہدوں سے لے کر بین الاقوامی معاہدوں تک حاوی ہے، سب تک پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ فرمایا اگر تم میری محبت چاہتے ہو، یہ چاہتے ہو کہ میں تم سے راضی رہوں ، یہ چاہتے ہو کہ میں تمہاری دعاؤں کو سنوں تو تقویٰ اختیا کرو، مجھ سے ڈرو، میری تعلیم پر عمل کرو۔ اور تعلیم میں سے بھی ایک بہت اہم تعلیم اپنے عہد کو پورا کرنا ہے، اپنے وعدوں کا پاس رکھنا ہے۔ تو قرآن کریم نے مختلف پیرایوں میں ، مختلف حالات میں عہد کی جو صورتیں ہو سکتی ہیں ان پر روشنی ڈالی ہے۔ فرماتا ہے کہ نیکیاں قائم کرنے کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی ادا کرو اور ان کو ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد کو بھی پورا کرو اور بندوں سے کئے گئے معاہدوں اور وعدوں پر بھی عملدرآمد کرو۔
امام رازی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں اَوْفُوْا بِالْعَھْدِ خداوند تعالیٰ کے اس حکم کے مشابہ ہے کہ

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْ بِالْعُقُوْدِ

اور اس قول میں تمام عقد مثلاً عقد بیع، عقد شرکت، عقد یمین، عقد نظر، عقد صلح اور عقد نکاح وغیرہ سب شامل ہیں- تو کہتے ہیں کہ خلاصہ یہ کہ اس آیت کا منشاء یہ ہے کہ دو انسانوں کے درمیان جو بھی عقد ہو اور جو عہد قرار پائے اس کے مطابق دونوں پر اس کا پورا کرنا واجب ہے۔(تفسیر کبیر رازی جلد ۵ صفحہ ۵۰۵)
اب دیکھیں آج کل کیا ہوتا ہے۔ بہت سے جھگڑے اس بات پر ہو رہے ہوتے ہیں کہ فروخت کرنے والا کہتا ہے کہ میں نے فلاں چیز اتنی تعداد میں دی یا اگر زمین کا معاملہ ہے تو اتنا رقبہ دیا ہے اور معاہدے میں اتنا ہی لکھا ہوتا ہے لیکن اصل میں موقع پر کچھ اور ہوتا ہے۔ اب بیچنے والا اپنے اس عمل کی وجہ سے اس سودے میں بد عہدی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے اور جھگڑے ہوتے ہیں پھر جھگڑے قضا میں جاتے ہیں ، عدالتوں اور پولیس میں جاتے ہیں ، کیس بن رہے ہوتے ہیں، تو ایک فریق تو بدعہدی کا مرتکب ہو رہا ہوتا ہے اور دوسرا بے صبری اور کم حوصلگی کا۔ پھر جیسا کہ امام رازی نے لکھا ہے، کاروبار میں شراکت داریاں ہیں اس میں بھی عہد کی پابندی کی ضرورت ہے، معاہدے ہوتے ہیں جس جس کا جتنا جتنا حصہ ہو جتنا جتنا شیئر (Share) ہو اس کے مطابق کاروبار ہو گا۔ پھر یہ کہ کس نے کیا کام کرنا ہے کس نے کتنا سرمایہ لگانا ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر کسی فریق میں بھی کوئی بدنیتی پیدا ہو جائے تو پھر اس کے ساتھ ہی بدعہدی بھی شروع ہو جاتی ہے۔ معاہدے بھی ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں- اور پھر جھگڑے شروع ہوتے ہیں- ان میں خاندانوں کے خاندان اس طرح اجڑ رہے ہوتے ہیں-
عام روزمرہ کے کاموں میں بھی وعدہ خلافیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ہوتے ہوتے بعض دفعہ سخت لڑائی پر یہ چیزیں منتج ہو جاتی ہیں- جھگڑوں کے بعد اگر صلح کی کوئی صورت پیدا ہو تو معاہدے ہوتے ہیں اور جب صلح کرانے والے ادارے دو فریقین کی صلح کرواتے ہیں تو وہاں صلح ہو جاتی ہے، وعدہ کرتے ہیں کہ سب ٹھیک رہے گا، بعض دفعہ لکھت پڑھت بھی ہو جاتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ صلح کرکے دفتر یا عدالت سے باہر نکلے تو پھر سر پھٹول شروع ہو گئی، کوئی وعدوں اور عہدوں کا پاس نہیں ہوتا۔ پھر نکاح کا عہد ہے فریقین کا معاملہ ہے اس کو پورا نہیں کر رہے ہوتے۔ یہ معاہدہ تو ایک پبلک جگہ میں اللہ کو گواہ بنا کر تقویٰ کی شرائط پر قائم رہنے کی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ لیکن بعض ایسی فطرت کے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ اس کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ بیویوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے ان پر ظلم اور زیادتی کر رہے ہوتے ہیں ، گھر کے خرچ میں باوجود کشائش ہونے کے تنگی دے رہے ہوتے ہیں ، بیویوں کے حق مہر ادا نہیں کر رہے ہوتے، حالانکہ نکاح کے وقت بڑے فخر سے کھڑے ہو کر سب کے سامنے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہاں ہمیں اس حق مہر پر نکاح بالکل منظور ہے۔ اب پتہ نہیں ایسے لوگ دنیا دکھاوے کی خاطر حق مہر منظور کرتے ہیں کہ یا دل میں یہ نیت پہلے ہی ہوتی ہے کہ جو بھی حق مہر رکھوایا جا رہا ہے لکھوا لو کو نسا دینا ہے، تو ایسے لوگوں کو یہ حدیث سامنے رکھنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس نیت سے حق مہر رکھواتے ہیں ایسے لوگ زانی ہوتے ہیں- اللہ رحم کرے اگر ایک فیصد سے کم بھی ہم میں سے ایسے لوگ ہوں ، ہزار میں سے بھی ایک ہو تو تب بھی ہمیں فکرکرنی چاہئے۔ کیونکہ پرانے احمدیوں کی تربیت کے معیار اعلیٰ ہوں گے تو نئے آنے والوں کی تربیت بھی صحیح طرح ہو سکے گی۔ اس لئے بہت گہرائی میں جا کر ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

وَاَوْفُوْا بِعَھْدِاللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوْا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا۔ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ (سورۃ النحل آیت ۹۲:)

اور تم اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپرکفیل بنا چکے ہو اللہ یقینا جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ کے ساتھ جو تم عہد کرتے ہو اس کو بھی پورا کرو اور جو تمہارے آپس میں معاہدات ہوتے ہین ان کو بھی مت توڑو، یعنی جب تم خدا تعالیٰ کو ضامن کرکے کسی انسان سے معاہدہ کرو تو اس کو ضرور پورا کرو کیونکہ تم خداتعالیٰ کو ضامن مقرر کر چکے ہو۔ پس خدا کا نام لے کر کئے گئے معاہدے کو اگر تم توڑو گئے تو گویا خداتعالیٰ کو بدنام کرنے والے ہو گے اور خداتعالیٰ کو غیرت آئے گی اور اسے تمہیں سزا دینی پڑے گی فرمایا کہ اس عہد کو پورا کرو جس میں تم نے
اللہ تعالیٰ کو ضامن مقرر کیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے عہد پورے نہ کرو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ خدائی عہد میں سچ بولنا شامل ہے۔ بلکہ ان الفاظ سے اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انہی عہدوں کی پابندی انسان پر فرض ہے کہ جن کا ضامن اللہ تعالیٰ ہو اورجن عہدوں کا ضامن اللہ تعالیٰ نہ ہو ان کا پور اکرنا غیرضروری ہی نہیں بلکہ گناہ بھی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر وہ عہد جو انصاف اور سچائی پر مبنی ہے اس کا اللہ تعالیٰ ضامن ہوتا ہے، چاہے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے یا نہ لیاجائے۔ جو بھی عہد انصاف اور سچائی پر مبنی ہو گا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق ہو گا اس عہد کا بہرحال ضامن اللہ تعالیٰ ہے، چاہے وہاں
اللہ تعالیٰ کا نام لیا جائے یا نہ لیاجائے فرماتے ہیں کیونکہ وہ ہرمومن سے سچائی کا عہد لے چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ ہر ایک سے عہد لے چکا ہے کہ میں سچ بولوں گا اور جو شخص اس عہد کے بعد کسی انسان سے کسی جائز امر کا اقرار کرتا ہے وہ اس عہد کے ساتھ گویا خداتعالیٰ سے بھی ایک عہد باندھتاہے اور خداتعالیٰ اس عہد کا ضامن ہو جاتا ہے لیکن جو عہد کسی ناپاک امر یا کسی ظلم کے متعلق ہو اس کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس عہد کا ضامن نہیں کیونکہ وہ گناہ اور ناپاکی کے لئے ضامن نہیں ہوتا۔ غرض
اللہ تعالیٰ کے ضامن ہونے سے اس طرف اشارہ نہیں کیا کہ جن عہدوں پر قسم کھاؤ صرف انہیں پورا کرو بلکہ اس مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سب وہ عہد جو عدل، احسان اور ایتائے ذی القربیٰ کے مطابق ہوں انہیں پورا کرو اور وہ عہد جن میں فحشا، منکر اور بغی کا رنگ پایا جاتا ہو انہیں پورا نہ کرو ان کے بارے میں تم سے کوئی سوال نہ ہو گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کا ضامن نہیں بلکہ ان سے منع کرتا ہے تو مذکورہ بالا حکم میں ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو اگر کسی ناجائز امر پر قسم کھا لیتے ہیں تو عہد کی پابندی کے نام سے اس پر مصر رہتے ہیں-(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ ۲۳۷۔۲۳۸)
جیسے کہہ دیتے ہیں کہ فلاں سے ہماری بول چال اس لئے بند ہے یا قطع تعلقی اس لئے کی ہوئی ہے کہ فلاں وقت اس نے مجھے تکلیف پہنچائی تھی اور باوجود کوشش کے ہماری صلح نہیں ہوئی اور یہ نہیں ہوا اور وہ نہیں ہوا، شکوے اور شکایتیں ہوتی ہیں تو اب میں نے بھی یہ عہد کر لیا ہے کہ میں اس سے کبھی بات نہیں کروں گا۔ تو یہ غلط قسمیں ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے حکم تو یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے قطع تعلقی نہ کرو۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس ضمن میں فرماتے ہیں کہ اسلامی اخلاق میں یہ داخل ہے اگر وعید کے طور پر کوئی عہد کیا جائے تو اس کا توڑنا حسن اخلاق میں داخل ہے مثلاً اگر کوئی اپنے خدمت گار کی نسبت قسم کھائے کہ میں اس کو ضرور پچاس جوتے ماروں گا تو اس کی توبہ اور تضرع پر معاف کرنا سنت اسلام ہے تا تخلق باخلاق ہو جائے۔ مگر وعدہ کا تخلف جائز نہیں ترک وعدہ پر باز پرس ہو گی مگر ترک وعید پر نہیں- (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۲۶۔۲۷)
اب ایک اور بہت بڑا عہد ہے جو احمدیت میں شامل ہو کر ہم نے کیا ہے اور وہ یہ کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کریں گے اور یہ عہد کسی عام آدمی سے نہیں کر رہے بلکہ نبی کے ساتھ یہ عہد کیا ہے۔ او رنبی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک عہد باندھ رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰہَ یَدُاللّٰہَ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ۔ فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِہٖ وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰھَدَ عَلَیْہُ اللّٰہَ فَسَیُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا- (سور ۃ الفتح آیت ۱۱)

یقینا وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ پر ہے پس جو کوئی عہد توڑے تو وہ اپنے ہی مفاد کے خلاف عہد توڑتا ہے اور جو کوئی اس عہد کو پورا کرے جو اس نے اللہ سے باندھا تو یقینا وہ اسے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔
اب اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت میں بھی شامل ہو رہے ہیں- کیونکہ آپؐ کے حکم کے مطابق ہی ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا۔ تو کچھ نے تجدید بیعت کی ہے اور کچھ نئے شامل ہو رہے ہیں تو اس کے بعد بدعہدی کرنا تو اپنے آپ کو خسارے میں ڈالنے والی بات ہے۔ اور اگر اس عہد پر قائم رہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر میں اتنا بڑا اجر عطا کروں گا کہ جس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے، جس کے بارے میں تم سوچ بھی نہیں سکتے لیکن شرط یہ ہے کہ تمہیں بہرحال میری باتیں ماننی ہوں گی یہی کہ میری عبادت کرو، اپنے دل میں نوع انسان کی ہمدردی پیدا کرو، کبھی کسی انسان کو تمہارے سے دکھ نہ پہنچے اور دکھ پہنچانے والی ہر چیز سے تمہیں نفرت ہو۔ ہر وقت لوگوں کی بھلائی کا سوچو اور جھگڑوں کو ختم کرو اور صلح کی فضا پیدا کرو‘‘۔
پھر فرمایا کہ:’’ یہ تمہیں حکم ہے کہ یہ یہ کرو لیکن اگر تم باز نہ آئے اور زمین میں فساد پیدا کرتے رہے تو یقینا تم خسارہ پانے والے ہو اور ایسے لوگ پھر عبادالرحمن نہیں ہوتے۔ رحمن خدا کے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں جیسا کہ فرمایا ہے۔

اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَاللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ۔ اُوْلٰئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ۔ (سورۃ البقرہ آیت۲۸)

یعنی وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو مضبوطی کے ساتھ باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور ان تعلقات کو کاٹ دیتے ہیں جن کا جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں-
اب کن تعلقات کو اللہ تعالیٰ نے باندھنے کا حکم دیا ہے، جوڑنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک تو یہی ہے جیسا کہ پہلے میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرو، اس کی عبادت کرو، ہمیشہ اس کے آگے جھکو اور چھوٹے سے چھوٹے رنگ میں بھی اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ تمہاری نوکریاں ، تمہارے کاروبار، تمہاری مصلحتیں اس کی عبادت سے تمہیں نہ روکیں- اس کے علاوہ قرابت داروں سے، عزیزوں سے، دوستوں سے، ہمسایوں سے ایک تعلق پیدا کرو، ایسا مضبوط پیار اور محبت کا تعلق پیدا کرو جیساکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ پھر کہا جا سکتاہے کہ تم صلہ رحمی کرنے والے ہو اور قطع رحمی کرنے والے نہیں ہو کیونکہ قطع رحمی کرنے
وا لے آخر کار وہی ہوتے ہیں جو زمین میں فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں اور فساد پیدا کرنے والے خسارے میں ہیں گھاٹا پانے والے ہیں- اب جس کے دل میں خوف خدا ہے وہ تو اس بات سے ہی کانپ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو خسارے کی وارننگ دی ہے لیکن بعض اس بات کو آسانی سے نہیں سمجھتے تو ان کے لئے مزید کھول کر فرما دیا کہ

وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَاللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُوْلٰئِٓکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓء الدَّارِ- (سورۃ الرعد آیت۲۶)

اور وہ لوگ جو اللہ کے عہد کو پختگی سے باندھنے کے بعد توڑ دیتے ہیں اور اسے قطع کرتے ہیں جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے لعنت ہے اور ان کے لئے بدتر گھر ہو گا۔
تو یہاں فرمایا کہ دیکھو یہ خسارہ کیا ہے جو تمہیں اپنی بدعہدی کی وجہ سے ہو گا۔ یہ نقصان کیا ہے جو تمہیں اپنے عہد توڑنے کی وجہ سے برداشت کرنا پڑے گا۔ تو سنو اس کو معمولی نہ سمجھو یہ بہت بڑا نقصان ہے جس کی برداشت کی تم میں طاقت نہیں ہے، ان بد عہدیوں کی سزا یہ ہو گی، ایسے بد عہدں کو فرمایا کہ پھر تم پر لعنت ہو گی، اب اللہ جس پر لعنت ڈال دے اس کا تونہ دین رہا نہ دنیا رہی اور پھر بدتر گھر ہو گا مرنے کے بعد بھی تمہارا ٹھکانہ جہنم ہی ہو گا اور وہ ایسا ٹھکانہ ہے کہ پھر اگر تم ہاتھ بھی جوڑتے رہو گے کہ اے اللہ تعالیٰ! ہم سے غلطی ہو گئی، ہمیں ایک موقع دے واپس دنیا میں بھیج دے تو ہم نیکیاں کریں تو وہ سب بے فائدہ ہو گا۔
تو دیکھیں کتنا خوفناک انذار ہے۔عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ عہد کرو، معاہدے کرو، توڑ دو کوئی فرق نہیں پڑتا اور کیونکہ عمومی طو ر پر معاشرہ بگڑا ہوا ہے اس لئے جب ایسے لوگوں کے پا س (یہ دنیادار لوگوں کی میں بات کر رہا ہوں) جب حکومت آتی ہے تو حکومتی معاہدوں کو بھی عذر تلاش کرکے توڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اس لئے ہر سطح پر اب یہ احمدی کی ذمہ واری ہے کہ وہ معاہدوں کی پاسداری کرنے والے اور کرانے والے ہوں- اور اس اعلیٰ خلق کو قائم کرنے والے ہوں-
حدیث میں آتا ہے حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں- (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحہ ۱۳۵ مطبوعہ بیروت)
پھر حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے بھائی سے جھگڑے کی طرح نہ ڈالو اور نہ اس سے بیہودہ تحقیر آمیز مذاق کرو اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جسے پورا نہ کر سکو۔ (الادب المفرد لامام بخاری۔ الجامع الصغیر لسیوطی حرف ’لا‘)
بعض لوگ ضرورت کے وقت کسی سے قرض لے لیتے ہیں اور بڑے اعتماد سے اس کی لکھت پڑھت بھی کر لیتے ہیں کبھی شک ہی نہیں پڑتا اور قرض لینے والے کو خود یہ پتہ ہوتا ہے کہ ہم اس مدت میں یہ ادا نہیں کر سکیں گے تو ایسے لوگوں کو بھی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ جب یہ پتہ ہو کہ نہیں ادا کر سکتے تو پھر صاف صاف بات کرنی چاہئے، قول سدید سے کام لینا چاہئے کہ اتنی مدت سے پہلے ادا کرنا ممکن نہیں جتنی مدت میسر ہے کرو، دینے والا اگر اس مدت میں برداشت کر سکے گا تو دے دے گا نہیں دے گا تو کہیں اور سے انتظام کر لے گا۔ تو بہرحال بدعہد ی نہیں ہونی چاہئے۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین علامتیں ہیں جب گفتگو کرتا ہے تو کذب بیانی سے کام لیتا ہے، جب اس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔(بخاری کتاب الشہادات باب من امر بانجاز الوعد وفعلہ الحسن)
اب اگر کسی کو یہ پتہ چلے کہ فلاں نے مجھے منافق کہا تو فوراً مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ، یہ تصور ہے لیکن اگر وہی بد عہد ہے اور اپنے وعدے کے خلاف کرتا ہے تو اس کوکبھی احساس ہی نہیں ہو تا پرواہ ہی نہیں ہو رہی ہوتی۔ ایک عام آدمی کے منافق کہنے پر تو بہت زیادہ غصے میں آ جاتے ہیں لیکن اللہ کے رسولؐ نے ایسے لوگوں کو کو منافق کہا ہے تو پھر ایسے لوگوں کو بہرحال دل میں خوف ہونا چاہئے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یاد رکھو کہ منافق وہی نہیں ہے جو ایفائے عہد نہیں کرتا، زبان سے اخلاص ظاہر کرتا ہے مگر دل میں اس کے کفر ہے بلکہ وہ بھی منافق ہے جس کی فطرت میں دورنگی ہے اگرچہ وہ اس کے اختیار میں نہ ہو۔ صحابہ کرام کو دیکھو (اب یہ بہت باریک تشریح حضرت مسیح موعودؑ فرما رہے ہیں ) کہ صحابہ کرام کو اس دورنگی کا بہت خطرہ رہتا تھا، ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہؓ رو رہے تھے تو حضرت ابو بکرؓ نے پوچھا کہ کیوں روتے ہو کہا کہ اس لئے روتا ہوں کہ مجھ میں نفاق کے آثار معلوم ہوتے ہیں- جب میں پیغمبر خداصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتا ہوں تو اس وقت دل نرم اور اس کی حالت بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے مگر جب ان سے جدا ہوتا ہوں تو وہ حالت نہیں رہتی۔ ابو بکرؓ نے فرمایا کہ یہ حالت تو میری بھی ہے پھر دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور کل ماجرا بیان کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم منافق نہیں ہو، انسان کے دل میں قبض اور بسط ہوتی رہتی ہے یعنی تنگی بھی آتی ہے مختلف حالتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں- جو حالت تمہاری میرے پاس ہوتی ہے اگر وہ ہمیشہ رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں-
تو اب دیکھو صحابہ کرام اس نفاق اور دورنگی سے کس طرح ڈرتے تھے جب انسان جرأت اور دلیری سے زبان کھولتا ہے تووہ بھی منافق ہوتا ہے۔ دین کی ہتک ہوتی سنے اور وہاں کی مجلس نہ چھوڑے یا ان کو جواب نہ دے تب بھی منافق ہوتا ہے۔ اگر مومن میں غیرت اور استقامت نہ ہو تب بھی منافق ہوتا ہے، جب تک انسان ہر حال میں خدا کو یاد نہ کرے تب تک نفاق سے خالی نہ ہو گا اور یہ حالت تم کوبذریعہ دعا حاصل ہو گی، ہمیشہ دعا کرو کہ خداتعالیٰ اس سے بچاوے جو انسان داخل سلسلہ ہو کر پھر بھی دورنگی اختیار کرتاہے تو وہ اس سلسلے سے دور رہتا ہے اس لئے خداتعالیٰ نے منافقوں کی جگہ اسفل السافلین رکھی ہے کیونکہ ان میں دورنگی ہوتی ہے اور کافروں میں یک رنگی ہوتی ہے۔(ملفوظات جلد سوم صفحہ۴۵۵۔۴۵۶ جدید ایڈیشن)
یعنی کافر کم از کم کھل کر دشمن ہوتے ہیں منافقت نہیں کر رہے ہوتے۔
حضرت زید بن ارقمؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس وقت کوئی آدمی اپنے بھائی کے ساتھ وعدہ کرے اور اس کی نیت اسے پورا کرنے کی ہو مگر کسی وجہ سے وہ اس کو پورا نہ کر سکے اور وقت پر نہ آئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں- (سنن ابو داؤد۔ سنن ترمذی)
تو ایسے لوگوں کی پھر اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے۔ کیونکہ ان کی نیت نیک ہوتی ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا تھا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کا قصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ وہ اپنی قوم کے ایک امیر شخص کے پاس گیا اور ایک ہزار اشرفی کا اس سے قرض مانگا تو اس شخص نے کہا تمہارا ضامن کون ہے تو اس نے کہا کہ میرا ضامن تواللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ پھر اس نے کہا کہ گواہ کون ہو گا، اس نے کہا گواہ بھی میرا خداتعالیٰ ہی ہے۔ قرض دینے والے نے اس کی بات پر اعتبار کر لیا اور مقررہ مدت کے لئے ایک ہزار اشرفی اس کو دے دی اس کے بعد قرض لینے والا اپنے کام سے سمندری جہاز پر بیٹھا اور چلا گیا جب قرض کی واپسی کا وقت قریب آیا تو وہ ساحل سمندر پر آیا کہ واپس جائے کیونکہ اس کا کام بھی ختم ہو گیا تھا اور جس سے قرض لیا ہے اس کی ایک ہزار اشرفی بھی واپس کر سکے تو کئی دن وہ ساحل پر انتظار کرتا رہا لیکن کوئی جہاز نظر نہیں آ رہا تھا جس پر وہ جا سکے۔ تو آخر اس نے یہ سوچا کہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس عرصے میں اس وقت تک بہرحال میں رقم ادا کروں گا اور اللہ تعالیٰ میرا گواہ ہے اور اللہ تعالیٰ ہی میرا ضامن ہے تو اس نے ایک لکڑی لی اس میں سوراخ کیا اور اس میں ایک ہزار اشرفی ڈال کر اور ساتھ ایک خط لکھ کر کہ مَیں نے بڑی کوشش کی ہے مجھے سواری نہیں مل سکی تو میں نے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ضامن ٹھہرایا ہے، اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرایا ہوا ہے اس لئے اسی کے بھروسے پر یہ لکڑی سمندر میں ڈالتا ہوں اور پھر دعا کی کہ
اے اللہ! تیری خاطراس شخص نے مجھے قرض دیا تھا اور تو میرا ضامن اور گواہ ہے اس لئے اس تک پہنچا بھی دے۔ اتفاق سے جس دن قرض کی واپسی کا وعدہ تھا جس شخص نے قرض دیا تھا وہ بھی دوسری طرف سمندر کے کنارے کھڑا ہو کر شاید جہاز آتا ہو اور جس نے میرا قرض واپس کرنا ہے آ جائے، تو اس کو جہاز تو کوئی نظر نہیں آیا البتہ ایک لکڑی تیرتی ہوئی نظر آئی، درخت کا ایک ٹکڑا۔ اس نے اس لکڑی کو کنارے سے نکال لیا اور گھر لے گیا کہ جلانے کے کام آئے گی۔ تو گھر جا کر جب اس نے چیرا، لکڑی کو کلہاڑے سے پھاڑا تو اس میں سے ایک ہزار اشرفی اور وہ خط نکل آیا۔ اس میں لکھا ہوا تھا کہ یہ وجہ ہو گئی جس کی وجہ سے میں نہیں آ سکا۔ بہرحال کچھ دنوں کے بعد اس کو جہا ز بھی مل گیا اور وہ جہاز پہ بیٹھ کر وہ اپنے گھر پہنچ گیا، جس سے قرض لیا تھا اس شخص کو بھی پیسے دینے کے لئے گیا کہ یہ لو اپنی ایک ہزار اشرفی۔ تو جس نے قرض دیا تھا اس نے کہا کہ تم نے مجھے پہلے بھی کوئی رقم بھیجی ہے؟ اس نے کہا ہاں یہ رقم میں نے بھیجی تھی، اس نے کہا ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ نے وہ مجھے پہنچا دی ہے۔ اور عین وقت پہ پہنچا دی ہے۔ (بخاری کتاب الکفالۃ باب الکفالۃ فی القرض والدیون)۔ تو یہ ہے عہدوں کا پاس۔ کہ جب اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر کوئی عہد کریں تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ اصحاب جبکہ ہم ابھی بچے تھے جھوٹی قسمیں کھانے اور جھوٹی گواہی دینے اور عہد کرکے پورا نہ کرنے پر ہماری سرزنش فرمایا کرتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل)
تو اعلیٰ اخلاق کی تربیت ہمیشہ بچپن سے ہی ہوتی ہے۔ اس لئے ہمیں بھی اپنے بچوں کی بچپن سے ہی تربیت کرنی چاہئے اور یہ نہیں کہ ابھی عمر نہیں آئی اس لئے تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جو بظاہر چھوٹی لگتی ہیں یہی بڑے ہو کر اعلیٰ اخلاق بنتے ہیں-
حضرت ابو امامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا مجھ سے کون عہد باندھتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبانؓ نے عرض کیا حضورؐ میں عہد باندھنے کے لئے تیار ہوں، حضورؐ نے فرمایا عہد کرو کہ تم کبھی کسی سے کچھ نہیں مانگوگے، اس پر ثوبان نے عرض کیا حضور اس عہد کا اجر کیا ہوگا۔ حضورؐ نے فرمایا جنت۔ اس پر ثوبان نے حضورؐ کے اس عہد پر عمل کرنے کا اقرار کیا۔ ابو امامہ کہتے ہیں میں نے ثوبان کو مکے میں دیکھا کہ سخت بھیڑ کے باوجود بھی اگر وہ گھوڑے پر بیٹھے ہوتے تھے تو اگر چابک بھی گر جاتا تھا تو کسی کو یہ نہیں کہتے تھے کہ اٹھا کر دو بلکہ اتر کر زمین پر سے اٹھاتے تھے اور اگر کوئی شخص پکڑانا بھی چاہتا تھا تو نہ لیتے بلکہ خود اتر کر اٹھاتے تھے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد کیا ہوا ہے۔(الترغیب والترھیب) تو عہد نبھانے کے یہ معیار ہیں-
پھر حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ مجھے ابو سفیان نے بتایا کہ ھرقل نے انہیں کہا کہ میں نے یہ پوچھا تھا کہ محمدؐ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے اس کا تو نے جواب دیاکہ وہ نماز، صدق، پاک دامنی، عہد پورا کرنے اور امانتیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ھرقل نے کہا یہی تو ایک نبی کی صفت ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الشہادات)
شہنشاہ روم ھرقل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تبلیغی خط ملنے پر اپنے دربار میں سردار قریش ابوسفیان کو بلا کر جب بغرض تحقیق کچھ سوال کئے تو یہی پوچھا تھا کہ کیا اس مدعی رسالت نے کبھی کوئی بدعہدی بھی کی ہے۔ تو ابوسفیان رسول اللہؐ کا جانی دشمن تھا مگر پھر بھی اسے ھرقل کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ آج تک اس نے ہم سے کوئی بدعہدی نہیں کی۔ البتہ آج کل ہمارا ایک معاہدہ چل رہا ہے،( جو حدیبیہ کا تھا)، دیکھیں اس میں وہ کیا کرتے ہیں تو ابوسفیان کہتا ہے کہ میں ھرقل کے سامنے اس سے زیادہ میں اپنی گفتگو میں حضورؐ کے خلاف کوئی بات داخل نہیں کر سکا تھا۔(بخاری بدء الوحی)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عہدوں کی پابندی کی اس قدر تلقین فرمائی ہے کہ بعض دفعہ مسلمانوں کو انتہائی تکلیف دہ صورتحال دیکھ کر بھی کبھی عہد شکنی نہیں کی۔
ایک روایت ہے کہ صلح حدیبیہ میں ایک شق یہ تھی کہ مکے سے جو مسلمان ہو کر مدینے چلا جائے گا وہ اہل مکہ کے مطابق واپس کر دیا جائے تو عین اس وقت جب معاہدے کی شرطیں زیر تحریر تھیں اور آخری دستخط نہ ہوئے تھے حضرت ابوجندل پابہ زنجیر مکہ کی قید سے فرار ہو کر آ گئے اور رسول اللہؐ سے فریادی ہوئے اور تمام مسلمان اس درد انگیز منظر کو دیکھ کر تڑپ اٹھے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان سے ان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ اے ابو جندل! صبر کرو ہم بدعہدی نہیں کر سکتے۔
اللہ تعالیٰ عنقریب تمہارے لئے کوئی راستہ نکالے گا۔(صحیح بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجہاد)
صلح حدیبیہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ مسلمان بھاگ کر مدینے جائے گا تو اس کو واپس اہل مکہ کی طر ف لوٹایا جائے گا۔ اس شق پر مسلمانوں نے تکمیل معاہدہ سے بھی پہلے عمل کرکے دکھایا اور مکہ سے بھاگ کر آنے والے ابو جندل کو دوبارہ اس کے باپ کے سپرد کر دیا گیا جس نے پھر اسے اذیت ناک قید میں ڈال دیا۔ تو یہ ہے معاہدوں کی پابندی۔
پھر صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدہ امن توڑنا چاہا اور قریش کے ایک گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کرکے تاریک رات میں مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا تو خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی لیکن پھر بھی اس کے 23آدمی نہایت بے دردی سے قتل کر دئیے گئے۔ خود سردار قریش ابو سفیان کو پتہ چلا تو اس نے اسے اپنے آدمیوں کی شر انگیزی قرار دیا اور کہا کہ اب محمدؐ ہم پہ ضرور حملہ کریں گے۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع بذریعہ وحی اسی صبح کر دی تھی۔ تو آپؐ نے حضرت عائشہؓ کو یہ واقعہ بتا کر فرمایا کہ منشاء الٰہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بدعہدی کاہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہو اور پھر تین روز بعد قبیلہ بنو خزاعہ کا چالیس شتر سواروں کا ایک وفد رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی بنو بکر اور قریش نے مل کر بدعہدی کرکے شب خون مار کر ہمارا قتل عام کیاہے۔ اب معاہدہ حدیبیہ کی رو سے آپ کا فرض یہ ہے کہ ہماری مدد کریں تو بنو خزاعہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا حال زار بیان کرکے خدا کی ذات کا واسطہ دے کر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا ؎

یَا رَبِّ اِنِّی نَاشِدٌ مُحَمَّدًا
خَلْفَ اَبِیْنَا وَاَبِیْہِ اِلْا َتْلَدَا

یعنی اے میرے رب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکارتا ہوں اور اپنے آباء اور اس کے آباء کے پرانے حلف کا واسطہ دے کر عہد پورا کرنے کا خواستگار ہوں-
تو خزاعہ سے مظلومیت کا حال سن کر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھر آیا، آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے ایفائے عہد کے جذبے سے سرشار ہو کر فرمایا کہ اے بنو خزاعہ ! یقینا یقینا تمہاری مدد کی جائے گی، اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے۔ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عہد پورا کرنے والا اور باوفا پاؤگے، تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوں اسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا۔ (السیرۃ النبویہ لابن ھشام جلد ۴ صفحہ ۸۶۔ مطبوعہ بیروت)
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو بکر کے ساتھ کیا گیاعہد پورا فرمایا اور دس ہزا ر قدوسیوں کو ساتھ لے کر ان پر ہونے والے مظالم کابدلہ لینے کے لئے نکلے اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ کی شاندار فتح عطا فرمائی۔ (السیرۃ الحلبیہ جز ۳ صفحہ ۸۲ تا ۸۵۔مکتبہ دار احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان کے جان و مال اور تمام قسم کے آرام خدا کی امانت ہے۔ جس کو واپس دینا امین ہونے کے لئے شرط ہے لہٰذا ترک نفس وغیرہ کے یہی معنے ہیں کہ یہ امانت خداتعالیٰ کی راہ میں وقف کرکے اس طور سے یہ قربانی ادا کرے اور دوسرے یہ کہ خداتعالیٰ کے ساتھ ایمان کے وقت اس کا عہد تھا اور جو عہد اور امانتیں مخلوق کی اس کی گردن پر ہیں ان سب کو ایسے طور سے تقویٰ کی رعایت سے بجا لاوے پھر وہ بھی ایک سچی قربانی ہو جاوے کیونکہ دقائق تقویٰ کو انتہا تک پہنچانا یہ بھی ایک قسم کی موت ہے۔(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ ۳۸۷)
پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خدوخال ہیں اور ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواقع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ عملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے جو انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے۔ اور خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیاہے چنانچہ لِبَاسُ التَّقْوٰی قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اورعہدکی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تابمقدور کار بند ہوجائے۔ ( جتنی طاقت ہے ان کا پابند رہے، ان کو بجا لائے)۔(تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد سوم صفحہ ۳۶۷۔۳۶۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے کئے گئے تمام عہدوں پر کاربند رہنے اور ان کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ کی مخلوق سے کئے گئے تمام وعدے اور عہد بھی پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق زندگیاں گزارنے والے ہوں-

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں