خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 25؍مئی 2007ء

اسلام ہی وہ دین ہے جو اپنے کامل ہونے کے لحاظ سے دنیا میں سلامتی پھیلانے والاہے۔ شریعت اسلامیہ میں ایک گھرانے کی سلامتی اور امن سے لے کر پوری دنیا کی سلامتی اور امن کی ضمانت دی گئی ہے۔
معاشرے میں امن اور محبت قائم کرنے کے لئے سلام ضروری چیز ہے۔
آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے کہ سلام کو پھیلاؤ تا کہ تم غلبہ پاؤ۔
سلام کو پھیلانے سے آپس کے محبت کے تعلقات ہوں گے اور محبت کے تعلقات ایک جماعتی قوت پیدا کریں گے اور یہ جماعتی قوت اور مضبوطی ہی ہے جس سے پھر غلبہ کے سامان پیدا ہوں گے۔
آنحضرتﷺ کے عاشق صادق کی جماعت پر ظلم روا رکھنے کی وجہ سے ہی مسلمانوں کے اندر سے سلامتی اٹھ رہی ہے۔
جماعت احمدیہ کی تعلیم ہمیشہ یہ رہی ہے اور انشاء اللہ رہے گی کہ پیار اور محبت کا پیغام تمام دنیا تک پہنچانا ہے۔
عرب ممالک میں عیسائیوں کی طرف سے جماعت کی شدید مخالفت اور اس حوالہ سے احباب جماعت کو خصوصی دعا کی تحریک
جماعت کو دعا کرنی چاہئے کہ آج کل مختلف جگہوں پر احمدیت کے خلاف جو مخالفت کی آگ بھڑک رہی ہے اس کو اللّٰہ تعالٰی اپنے وعدوں کے مطابق خود ٹھنڈا کرے اور ہمارے لئے سلامتی اور امن بنادے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
(فرمودہ مورخہ 25 ؍مئی 2007ء (25؍ہجرت 1386ہجری شمسی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یَھْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہٗ سُبُلَ السَّلَامِ وَیُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَھْدِیْھِمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ :17)

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اعلان فرما یا کہ

اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّٰہِ الْاِسْلَام

یعنی یقینا اب اللہ کے نزدیک دین صرف اور صرف دین اسلام ہی ہے اور یہی دین ہے جس پر عمل کرکے اب انسان اللہ تعالیٰ کا قرب پاسکتا ہے۔ کیونکہ اب یہی دین ہے جو اپنے کامل ہونے کے لحاظ سے دنیا میں سلامتی پھیلانے والا ہے۔ پس اس دین کو چھوڑ کر کسی دوسرے دین میں کس طرح سلامتی اور سکون مل سکتا ہے۔ اگر دوسرے دینوں کو دیکھیں یا تو ہمیں وہاں افراط نظر آتا ہے یا تفریط نظر آتی ہے۔ پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس پیارے نبی اور خاتم الانبیاءﷺ کے ماننے والے ہیں جس کے ذریعہ خداتعالیٰ نے یہ اعلان کیا کہ

اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدہ:4)۔

یعنی آج کے دن مَیں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا۔ کوئی نہیں جو اس میں کسی قسم کا سُقم یا کمی نکال سکے۔ یہ وہ دین ہے جس میں تمام قسم کے احکام بیان کر دئیے گئے ہیں، تمام قسم کے علوم اس کامل شریعت میں جمع کر دئیے گئے ہیں۔ تمام قسم کی نعمتیں اور تمام علمی خزانے اس میں جمع کر دئیے گئے ہیں۔روزمرہ کے معمولات سے لے کر بین الاقوامی تعلقات کے احکامات تک جن سے ایک گھرانے کی سلامتی اور امن سے لے کر پوری دنیا کی سلامتی اور امن تک بھی شامل ہیں، کی ضمانت دے دی گئی ہے اور اب یہی دین اسلام ہے جسے خداتعالیٰ نے تمہارے لئے پسند کیا ہے۔پس اگر اپنے گھروں میں بھی اور دنیا میں بھی سلامتی، پیار اور محبت کی خوشبو پھیلانا چاہتے ہو تو اِسے اختیار کرو۔
پس یہ خداتعالیٰ کا اعلان ہے اور وعدہ ہے ہر اس انسان سے جو اللہ تعالیٰ کی اس تعلیم پر ایمان لائے گا اور عمل کرے گا جو اس نے قرآن کریم کی صورت میں اپنے پیارے نبیﷺ پر اتاری ہے۔اِس کامل اور مکمل تعلیم کی کچھ جھلکیاں سلامتی کے حوالے سے مَیں گزشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں، کچھ آج بیان کروں گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس میں گھریلو معاملات پر بھی بحث کی گئی ہے، اس کی تعلیم دی گئی ہے۔ معاشرتی معاملات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کو قائم کرنے کے لئے بھی قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ تو بہرحال یہ مختلف صورتیں ہیں۔ تمام تو آج بیان نہیں ہوسکتیں کچھ حد تک آج بیان کروں گا۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کے لئے دعائیہ کلمات منہ سے نکالتا ہے تو خود بخود اس کے دل میں دوسرے شخص کے لئے نرم جذبات پیدا ہو جاتے ہیں سوائے اس کے کہ بالکل ہی کوئی منافقانہ طبیعت کا شخص ہو جو منہ سے کچھ کہنے والا ہو اور بغل میں چھری لئے پھرتا ہو۔ لیکن ایک مومن جو اس یقین پر قائم ہے کہ مرنے کے بعد کی بھی ایک زندگی ہے اور مجھے کوشش کرنی چاہئے کہ مرنے کے بعد کی جس زندگی کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، جس دارالسلام کا مجھے راستہ دکھایا ہے، اس کے حصول کے لئے اپنا ظاہر و باطن ایک کروں اور جیسا کہ مجھے حکم ہے اپنے بھائی کو سلامتی کے جذبات پہنچاؤں۔ تو صرف ظاہری منہ کی بات نہ ہو بلکہ دل کی گہرائی سے یہ سلامتی کی دعا نکلے تاکہ اللہ تعالیٰ سے سلامتی کی راہوں کی طرف ہدایت پانے والا بنوں اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے اندھیروں سے نور کی طرف آؤں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا مورد بنتے ہوئے صراط مستقیم پر چلنے والا بنوں۔ پس جب اس سوچ کے ساتھ ایک مومن کوشش کرتا ہے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ معاشرے میں کوئی اس سے نقصان اٹھانے والا ہو۔ بلکہ نقصان اٹھانا تو دور کی بات ہے، یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایسے شخص سے کوئی دوسرا بے فیض رہے۔
اب اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے جو اخلاق کے معیاروں کو اونچا کرنے کے لئے بھی ضروری ہے، فساد اور شکوک و شبہات کو ختم کرنے کے لئے بھی ضروری ہے اور ایک دعا بھی ہے جس سے ایک دوسرے کے لئے پیار و محبت کے جذبات ابھرتے ہیں اور یہ حکم اُس وقت سَلَام کہنے کا ہے جب تم کسی کے گھر جاؤ۔ بجائے اطلاع دینے کے دوسرے طریقے اپنانے کے، بہترین طریقہ کسی کے گھر پہنچ کر اطلاع دینے کا یہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ گھر والوں کو اونچی آواز میں سَلَام کیا جائے۔ بعض امیر لوگ جن کی بڑی بڑی کوٹھیاں ہیں یاایسے بھی گھروں والے ہیں جن کے گھروں میں گھنٹی بجنے کی آواز نہیں پہنچ سکتی تو انہوں نے گیٹ پر فون لگائے ہوتے ہیں تا کہ اس کے ذریعہ سے پیغام پہنچایا جائے۔ اگر گھنٹی بجائی ہے تو جب بھی گھر والا پوچھے تو پہلیسَلَام کیا جائے پھر نام بتایا جائے۔ یہ ایک ایسا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ فرماتا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَأْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا۔ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(النور:28)

کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام بھیجو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو۔اور یہ سلام بھیجنا بھی ایک دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے جس کے بارے میں مَیں آگے بیان کروں گا۔ اب سلامتی پھیلانے کے لئے یہ بڑا پُر حکمت حکم ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم کس طرح مومنین کی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔
پہلی چیز تو یہ ہے کہ اونچی آواز میں سَلَام کرنے سے اجازت کا عندیہ لیا جائے گا۔ اگر اجازت مل جاتی ہے تو پھر ٹھیک ہے ورنہ اگر اہل خانہ اپنی مصروفیت یا کسی اور وجوہات کی بنا پر ملنا نہیں چاہتے تو دوسری جگہ حکم ہے کہ پھر بغیر بُرامنائے واپس آجاؤ۔ ہمارے معاشرے میں بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ جواب نہ آئے تو مزید تجسّس کرتے ہیں، بعض دفعہ تاکاجھانکی تک کر لیتے ہیں تو یہ بڑی بری عادت ہے۔ اس سے بعض دفعہ فساد پھیلتے ہیں۔
بعض بے تکلف دوست ہوتے ہیں توبعض دفعہ بغیر آواز دئیے یا سلام کئے ایک شخص کسی دوسرے کے گھر میں بے تکلفی کی وجہ سے چلا جاتا ہے، گھر والے اُس وقت ایسی حالت میں ہوتے ہیں کہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی داخل ہو۔ اس سے پھر رنجشیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے۔ آج کل بھی ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ ان بے تکلفیوں کی وجہ سے، ایک دوسرے کے گھر آنے جانے کی وجہ سے یہ بے تکلّفیاں بغیر اطلاع کے آنے سے ناراضگیوں میں بدل جاتی ہیں۔ جب مردکسی کے گھر جاتے ہیں اور جس مرد کو ملنے کے لئے گئے ہیں اگر وہ گھر پر نہیں ہے تو بہترین طریقہ یہ ہے کہ واپس آجائیں، اسی سے سلامتی پھیلتی ہے اور دو گھر بدظنیوں سے بچ جاتے ہیں۔ گھر کے دوسرے فرد یا افراد کو مجبور نہیں کرنا چاہئے کہ دروازہ کھولو، ہم نے ضرور اندر بیٹھنا ہے اورجب تک صاحب خانہ یا وہ مرد گھر نہیں آجاتا ہم اس کا انتظار کریں گے۔ سوائے اس کے گھر کے کوئی قریبی محرم رشتہ دار ہوں، غیروں کا تو کوئی تعلق نہیں جتنی مرضی قریبی دوستیاں ہوں۔ اس سے بہت سار ی تہمتوں سے انسان بچ جاتا ہے، بہت سارے شکوک سے انسان بچ جاتا ہے۔ اور دوسرے لوگوں کی باتوں سے اس گھر میں آنے والا بھی اور گھر والے بھی بچ جاتے ہیں،بہت سی بدظنیوں سے بچ جاتے ہیں۔ تویہسَلَام پہنچانے کا طریق اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایک دوسرے کے لئے سلامتی طلب کی جائے اورسَلَام کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ آفات سے بچنا۔ پس سلام کایہ رواج دونوں کو، آنے والے کو بھی اور گھروالوں کو بھی بہت سی آفتوں اور مشکلوں سے بچا لیتا ہے۔
آنحضرت ﷺ سَلَام کرکے اطلاع دینے پر اس قدر پابندی فرمایا کرتے تھے کہ اس کے بغیر جانا آپؐ نے سختی سے منع کیا ہوا تھا۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص آپؐ کے پاس آیا اور اس نے دروازے سے باہر کھڑے ہو کر بغیر سلام کئے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے دوسرے صحابی جو قریب بیٹھے ہوئے تھے انہیں فرمایا کہ باہر جاؤ اور اِسے اجازت لینے کا طریقہ سکھاؤ اور سمجھاؤ کہ پہلے سَلَام کرو اور پھر تعارف کروا کر اور اجازت لے کر اگر اجازت مل جائے تو اندر آؤ۔ اس سے ایک تو دعائیہ کلمات سے لاشعوری طور پر دماغ پاک ہو کر انسان پاکیزگی اور بہتری کی بات ہی سوچتا ہے جس سے آپس کے نیک تعلقات بڑھتے ہیں۔
صحابہ ؓ اس دعا کی گہرائی کو جانتے تھے اور پھرجو دعا آنحضرت ﷺ کے منہ سے نکلی اس کے تو صحابہ بھوکے ہوتے تھے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ کسی صحابی کی چھوٹی عمر کی لونڈی (لڑکی) تھی وہ بازار میں کھڑی رو رہی تھی تو آنحضرت ﷺ کا اس کے پاس سے گزرہوا۔ آپؐ نے وجہ پوچھی کہ کیوں رو رہی ہو؟ اس نے بتایا کہ فلاں کام سے مجھے گھر والوں نے بھیجا تھا اور یہ نقصان ہو گیا ہے یا اس کا کوئی حرج ہو گیا ہے اور اب مَیں گھر والوں کی سختی کی وجہ سے ڈر رہی ہوں۔ آپﷺ اس کے ساتھ ہو گئے اور اس گھر میں پہنچے۔ سَلَام کیا لیکن اندر سے جواب نہیں آیا۔ دوسری دفعہسَلَام کیا پھر جواب نہیں آیا۔پھر تیسری دفعہسَلَام کیا تو گھر والے باہر نکلے اور سلام کاجواب دیا تو آپؐ نے پوچھا کہ پہلے کیوں جواب نہیں دیا تھا، کیا میرے پہلے اور دوسرے سَلَام کی آواز تمہیں نہیں پہنچی تھی؟ انہوں نے عرض کی کہ ضرور پہنچی تھی۔ ان کا جواب کتنا پیارا تھا کہ آواز تو ہمیں پہنچ گئی تھی لیکن گھر والے کہتے ہیں کہ ہم تو اس موقع سے فائدہ اٹھا رہے تھے کہ آپ سے سلامتی کی دعائیں لیں۔ اس سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے کہ اللہ کا رسولؐ ہم پر سلامتی کی دعا بھیج رہا ہے۔جس گہرائی سے آنحضرت ﷺ سلامتی کی دعا دیتے ہوں گے اُس تک توکوئی نہیں پہنچ سکتا اور جن کے حق میں دعا قبول ہوتی ہو گی ان کی تو دنیا وآخرت سنور جاتی ہو گی۔ گھر والے یہ بھی ادراک رکھتے ہوں گے کہ اگر تیسری دفعہ بھی جواب نہ دیا تو آنحضرت ﷺ واپس نہ چلے جائیں کیونکہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تین دفعہ سلام کرنے کے بعد بھی گھر والے جواب نہ دیں تو قرآنی حکم کے مطابق پھر واپس چلے جاؤ۔ بہرحال اس لونڈی کے ساتھ آکے آپ نے جہاں گھر والوں کو سلامتی کی دعاؤں سے بھر دیا وہاں اس لونڈی کو بھی آپ کی وجہ سے گھر والوں نے آزاد کر دیا اور وہ بھی اس سلامتی سے حصہ لیتے ہوئے غلامی کی قید سے آزاد ہو گئی۔
پھر صرف غیروں کے لئے ہی نہیں بلکہ یہ عمومی حکم بھی ہے کہ جب تم گھروں میں داخل ہو، چاہے اپنے گھروں میں داخل ہو توسلامتی کا تحفہ بھیجو، کیونکہ اس سے گھروں میں برکتیں پھیلیں گی کیونکہ یہ سلامتی کا تحفہ اللہ کی طرف سے ہے جس سے تمہیں یہ احساس رہے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تحفے کے بعد میرا رویہ گھر والوں سے کیسا ہونا چاہئے۔
اللہ فرماتا ہے

فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِاللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً۔ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(النور:62)

پس جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے لوگوں پراللہ کی طرف سے ایک بابرکت پاکیزہ سلامتی کا تحفہ بھیجا کرو۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آیات کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم عقل کرو۔
ایسے گھروں میں رہنے والے جب ایک دوسرے پر سلامتی کا تحفہ بھیجتے ہیں تو یہ سوچ کر بھیج رہے ہوں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ ہے۔ تو آپس کی محبتوں میں اضافہ ہو گا اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کی طرف زیادہ توجہ پیدا ہو گی۔ گھر کے مرد سے،اس کی سخت گیری سے، اگر وہ سخت طبیعت کا ہے تو اس سلامتی کے تحفے کی وجہ سے، اس کے بیوی اور بچے محفوظ رہیں گے۔ اس معاشرے میں خاص طور پر اور عموماً دنیا میں باپوں کی ناجائز سختی اور کھردری (سخت) طبیعت کی وجہ سے، بعض دفعہ بچے باغی ہو جاتے ہیں، بیویاں ڈری سہمی رہتی ہیں۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ باوجود سالوں ایک ساتھ رہنے کے میاں بیوی کی علیحدگیوں تک نوبت آجاتی ہے، علیحدگیاں ہو رہی ہوتی ہیں، بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ خاندانوں کو ان کی پریشانی علیحدہ ہو رہی ہوتی ہے۔ تو اس طرح اگر سلامتی کا تحفہ بھیجتے رہیں تو یہ چیزیں کم ہوں گی۔ اسی طرح جب عورتیں سلامتی کا پیغام لے کر گھروں میں داخل ہوں گی تو اپنے گھروں کی نگرانی صحیح طور پر کر رہی ہوں گی اور اپنے خاوندوں کی عزت کی حفاظت کرنے والی ہوں گی۔ جب بچوں کی اس نہج پر تربیت ہو رہی ہو گی تو جوانی کی عمر کو پہنچنے کے باوجود اپنے گھر، ماں، باپ اور معاشرے کے لئے بدی کا باعث بننے کی بجائے سلامتی کا باعث بن رہے ہوں گے۔
عام طور پرٹِین ایجرز (Teenagers) میں اس جوانی میں یہ بڑی بیماری ہوتی ہے، عام طور پر عادتیں کچھ بگڑ جاتی ہیں لیکن اگر شروع میں عادتیں اچھی ڈال دی جائیں تو یہ سلامتی کا پیغام بن کر گھروں میں جا رہے ہوں گے۔ پس یہ ماں باپ کی ذمہ د اری ہے کہ اپنے اندراس سلامتی کے پیغام کو رائج کریں تاکہ ان کی اولادیں بھی نیکی اور تقویٰ پر قدم مارتے ہوئے سلامتی کا پیغام پہنچانے والی ہوں۔ اور چھوٹی عمر میں یہ عادت ڈالنی چاہئے۔ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بچے سلام نہیں کر رہے ہوتے، ماں باپ کہہ دیتے ہیں کہ حیا کی وجہ سے، شرم کی وجہ سے یہ سلام نہیں کر رہا۔ اگر بچے کے ذہن میں چھوٹی عمر میں ڈالیں گے کہ سَلَام میں حیا نہیں ہے بلکہ بری باتوں میں حیا ہے اور اس میں حیا کرنی چاہئے تو باتوں باتوں میں ہی پھر بچے کی تربیت بھی ہو جاتی ہے۔ بعض بچے آپس میں لڑائی جھگڑے کر رہے ہوتے ہیں،مَیں نے دیکھا ہے کہ مسجدفضل کے احاطہ میں بھی کھیل کھیل میں لڑائیاں ہو رہی ہوتی ہیں اور ظالمانہ طور پر ایک دوسرے کو مار بھی رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت کوئی حیا اور شرم نہیں ہوتی۔ حالانکہ وہ چیزیں ہیں جن میں حیا مانع ہونی چاہئے، جن میں شرم آنی چاہئے اور روک بننی چاہئے۔
پس اللہ کی سلامتی کا وارث بننے کے لئے بچوں میں بھی سلام کی عادت ڈالیں اور یہ عادت اسی صورت میں پڑے گی جب بڑے چھوٹوں کو سلام کرنے میں پہلے کریں گے۔
صحابہ کو اس بات کا ادراک ہونے کے بعد کہ سَلَام کتنی اہم چیز ہے، اس کی اتنی عادت پڑ گئی تھی کہ حدیث میں آتا ہے، حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریمﷺ کے ہمراہ ہوتے اور اگر رستے میں چلتے ہوئے کوئی درخت ہمیں الگ کر دیتا (یعنی ہم چلے جا رہے ہیں اور بیچ میں کوئی درخت آگیا) تو جب دوبارہ آپس میں ملتے تو پھر ایک دوسرے کو سَلَام کہتے تھے۔
(الترغیب والترھیب جزء 3الترغیب فی افشاء السلام وماجاء فی فضلہ…حدیث نمبر 3989صفحہ373)
تو یہ تھے صحابہ کے طریقے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ معاشرے میں امن اور محبت قائم کرنے کے لئے سَلَام ضروری چیز ہے۔ یہ دعائیہ تحفہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، یہ ضروری چیز ہے۔ اور دوسرے اس بات کے بھی بھوکے تھے کہ کسی بھی طرح اللہ تعالیٰ کے سلامتی کے پیغام سے فیض پا سکیں اور اس طرح سے اپنی دنیا اور عاقبت سنوارنے والے بن جائیں۔
اس زمانے میں آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق حضرت مرزا غلام احمد قادیانیعلیہ السلامنے کس طرح قرآنی تعلیمات اور آنحضرت ﷺ کی سنت کو اپنے صحابہ میں رائج فرمایا جس سے یہ لوگ سلامتی کا پیغام پہنچانے اور سلامتی کا پیغام پھیلانے میں کس قدر کوشاں رہتے تھے۔ اس کی ایک د و مثالیں دیتا ہوں۔
شیخ محمدعلی آف مسانیاں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نماز فجر باجماعت ادا نہ کرسکا تو مَیں نے نماز گھر پر ہی ادا کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد مَیں کسی کام سے بازار کی طرف آرہا تھا کہ دارالانوار کے راستے پر حضرت مولوی شیرعلی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے آتے دکھائی دئے۔ مَیں نے اپنے دل میں فیصلہ کیا کہ آج تو مَیں ضرور حضرت مولوی صاحب سے سلام کرنے میں سبقت لے جاؤں گا کیونکہ مولوی صاحب چھوٹے بڑے ہر ایک کو پہلے سلام کر لیاکر تے تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ آج تو مَیں ضرور کروں گا، اس حد تک پہنچ جاؤں جہاں میری آواز پہنچ جائے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ مَیں ابھی اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی فکر میں ہی تھا کہ حضرت مولوی صاحب نے حسب دستور کافی فاصلے سے بلند آواز سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا۔ مَیں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کا شرف حاصل کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے مصافحہ کرتے ہی فرمایا کہ شیخ صاحب اگر انسان نماز باجماعت ادا کرنے سے رہ جائے تو اُسے وہ نماز مسجد میں ہی ادا کرنی چاہئے تاکہ مسجد میں نماز پڑھنے کی عادت رہے۔تو کہتے ہیں کہ مَیں حضرت مولوی صاحب کی اس فراست پر حیران رہ گیا کہ کس طرح انہوں نے میرے ذکر کئے بغیرمیری اس غفلت کو بھانپ لیا۔
(نجم الہدیٰ سوانح حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ صفحہ170مطبوعہ رضا سنز پرنٹرز لاہور)
تو یہ تھا اُن لوگوں کا نورِ فراست کہ سلامتی کے پیغام کے ساتھ ساتھ نیکی کی طرف بھی انتہائی پیار سے، شرمندہ کئے بغیر توجہ دلا دیا کرتے تھے۔
اسی طرح حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ کے بارے میں دوسری روایت ہے۔ مولوی عبدالرحیم صاحب عارف مبلغ سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ گھریلو زندگی آپؓ کے (یعنی حضرت مولوی شیر علی صاحب۔ناقل) کے وجودسے گویا جنت کا نمونہ تھی جب آپ ؓ گھر میں تشریف لاتے تو بلند آواز سے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے۔ اسی طرح قرآنی حکم کے مطابق کہ گھروں میں داخل ہو تو سلام کہو۔پھر جوں جوں گھر کے ایک ایک فرد سے ملاقات ہوتی ان کو الگ الگ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہتے۔ بچوں سے مصافحہ کرتے، چھوٹے بچوں کو پیار سے اٹھا لیتے اور کافی دیر تک محویت کے عالم میں خاموش صحن میں ٹہلتے رہتے اور لبوں پر دعائیں جاری ہوتیں۔
(سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓمرتبہ ملک نذیر احمد ریاض صفحہ76)
تو یہ تھے وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت پائی اور پھر کس طرح سلامتیاں بکھیرنے والے اور محبتیں بکھیرنے والے تھے۔
آنحضرت ﷺ سَلَام کو رواج دینے اور اس کی برکات کی طرف توجہ دلانے، سلامتی اور دعاؤں سے بھری ہوئی مجالس کے قیام کے لئے کس طرح توجہ دلایا کرتے تھے اس کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، ایک شخص آپؐ کے پاس سے گزرا اُس نے کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اس پر آپؐ نے فرمایا دس نیکیاں۔ پھر ایک اور شخص گزرا جس نے کہا

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ۔

اس پر آپؐ نے فرمایا 20نیکیاں۔ پھر ایک اور شخص گزرا اور اس نے کہا

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ۔

اس پر آپ نے فرمایا 30نیکیاں۔پھر ایک شخص مجلس سے اٹھا اور اس نے سَلَام نہ کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا لگتا ہے کہ تمہارا ساتھی بھول گیا ہے۔ جب تم میں سے کوئی بھی مجلس میں آئے تو اسے چاہئے کہ وہسَلَام کہے۔ اگر وہ بیٹھنے کے لئے جگہ پائے تو اسے چاہئے کہ وہ بیٹھ جائے اور جب کوئی کھڑا ہو تو وہ سَلَام کہے۔ (الأدب المفرد لامام بخاری ؒ با ب نمبر451فضل السلام حدیث نمبر 1015)۔ آتے جاتے بھیسَلَام کہنا چاہئے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم سَلَام کو پھیلاؤ۔ اس سے تم سلامتی میں آجاؤ گے، تمہارے گھر بار اور معاشرہ سب سلامتی میں آجائے گا۔
(الترغیب والترھیب جزء 3الترغیب فی افشاء السلام وماجاء فی فضلہ…حدیث نمبر 3979صفحہ372)
پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم سلام کو پھیلاؤ تاکہ تم غلبہ پا جاؤ۔
(الترغیب والترھیب جزء 3الترغیب فی افشاء السلام وماجاء فی فضلہ…حدیث نمبر 3984صفحہ373)
پس سلام کو پھیلانے سے آپس کے محبت کے تعلقات ہوں گے اور یہ محبت کے تعلقات ایک جماعتی قوت پیدا کریں گے اور یہ جماعتی قوت اور مضبوطی ہی ہے جس سے پھر غلبہ کے سامان پیدا ہوں گے۔ ورنہ اگر آپس کی پھوٹ رہی، سلامتی نہ رہی، اس کے پھیلانے کی کوشش نہ کی تو ایک طرف تو آپس کی، ایک جماعت کی طاقت جاتی رہے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاَطِیْعُوا اللّٰہ َ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا۔اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (الانفال:47)

یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہا کرو، آپس میں اختلاف نہ کیا کرو۔ ایسا کرو گے تو دل چھوڑ بیٹھو گے اور تمہاری طاقت جاتی رہے گی۔ اور صبر کرتے رہو، اللہ یقینا صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:’’اسلامی فرقوں میں دن بدن پھوٹ پڑتی جاتی ہے۔ پھوٹ اسلام کے لئے سخت مضر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا

لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ۔

جب سے اسلام کے اندر پھوٹ پڑی ہے دم بدم تنزل کرتا جاتا ہے۔ اس لئے خداتعالیٰ نے اس سلسلے کو قائم کیا تا لوگ فرقہ بندیوں سے نکل کر اس جماعت میں شامل ہوں جو بیہودہ مخالفتوں سے بالکل محفوظ ہے اور سیدھے راہ پر چل رہی ہے جو نبی کریمﷺ نے بتایا‘‘۔ (بدرجلد 7نمبر20-19 مورخہ 24؍مئی 1908ء صفحہ 4)
پس ہر احمدی کو غور کرنا چاہئے، یہ الفاظ ہمیں اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں۔ اپنے گھروں میں بھی، اپنے آپس کے تعلقات میں بھی ہمیں زیادہ سے زیادہ محبت و پیار اور سلامتی کے پیغام کو پہنچانے والا بننا چاہئے۔ اس طرح معاشرے میں، ماحول میں، اس سلامتی کے رواج سے پھر احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی بھی توفیق ملے گی۔جب آج کل کے معاشرے کی فضولیات میں ایک طبقہ کی منفرد حیثیت نظر آرہی ہو گی جو سلامتی اور محبت کی پیامبر ہے تو تبلیغی میدان میں بھی وسعت پیدا ہو گی اور اس زمانہ میں یہ دعا اور محبت اور سلامتی ہی ہے جس نے اسلام اور احمدیت کو انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ عطا کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا ہے کہ آپس کی مخالفت کی وجہ سے غلبہ کی بجائے اسلام دن بدن تنزل کی طرف جا رہا ہے اس کی آج ہم واضح مثالیں دیکھ رہے ہیں۔گو احمدیت کے خلا ف تو سارے ایک ہیں لیکن آپس میں سب پھٹے ہوئے ہیں۔ اگر کہیں اکھٹے ہو جائیں تو ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھ سکتے۔ خود کش حملے کرکے مسلمان، مسلمان کو ما ر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
گزشتہ دنوں ARY پہ مَیں نے اتفاق سے ایک پروگرام دیکھا۔ ہندوستان اور پاکستان کے بہترین تعلقات بنانے کی طرف کس طرح توجہ کی جائے اس پر بحث ہو رہی تھی۔ ایک تبصرہ نگار اور عالم پاکستان کی طرف سے تھے اور ایک ہندوستانی مسلمان اور ایک شاید ہندو تھے تو بات کا رخ اس طرف ہوا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت کا رونا روتے ہو کہ ان سے اچھا سلوک نہیں ہو رہا، مسلم ممالک ایک دوسرے کے ساتھ کیا کر رہے ہیں اور پھر ان کے اندر آپس میں فرقوں میں کیا کچھ ہو رہاہے۔ جو ہندوستانی مسلمان تھے وہ ایران کی مثال دے کر کہنے لگے کہ وہاں شیعوں کی اکثریت ہے۔ سُنیوں کے ساتھ وہاں کیا کچھ نہیں ہو رہا اور احمدیوں کے ساتھ اگر ہو تو کیا کچھ نہیں کریں گے۔ تو اس پروگرام میں جو مولانا صاحب تھے ان سے اور توکوئی جواب نہیں بن پڑا وہ اور اس پروگرام کے جو کمپیئر تھے فوراً بولے کہ احمدیوں کو چھوڑیں وہ توغیر مسلم ہیں۔
تو یہ حالت ہے آج کل کے مسلمانوں کی، کہ آپس کے تعلقات تو ٹھیک ہیں ہی نہیں اس کو تو چھوڑو، اس بات کو تو ٹال جاتے ہیں۔اگر دوسروں کے ساتھ تعلقات رکھنے ہوں، جن کو غیر مسلم سمجھتے ہیں ان کو بھی چھوڑو کیونکہ وہ غیر مسلم ہیں۔پس یہ سلامتی بکھیر نہیں سکتے۔ احمدیوں پر ظلم اس لئے جائز ہے کہ یہ بھی غیر مسلم ہیں۔ ان کو یہ پتہ نہیں چل رہا کہ آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کی جماعت پر یہ ظلم روا رکھنے کی وجہ سے ہی ان کے اندر سے سلامتی اٹھ رہی ہے اور وہ لوگ جنہوں نے تمام دنیا میں روحانیت اور علم و عرفان کا جھنڈا لہرایا تھا اپنے ملکوں میں ہی غیروں کے ہاتھوں محکوم اور مجبور بنے بیٹھے ہیں۔ کہنے کو تو آزاد ہیں لیکن اُن کا بھی وہی حال ہے کہ اُن کی جان ایک بوتل میں بند ہے اور وہ بوتل ایک جنّ کے پاس ہے، جس کے لئے ہر وقت جنّ پر نظر کئے رکھتے ہیں، کیونکہ اپنے پاس طاقت نہیں رہی اور طاقت زائل ہونے کی وجہ سے جنّ پر نظر کئے بغیر گزارہ نہیں ہے۔پس یہ مسلمانوں کی حالت ہے، ان کے لئے دعا کرنی چاہئے۔اللہ تعالیٰ رحم کرے۔ کاش کہ یہ اس سلامتی کے پیغام کو سمجھیں جو اس زمانے میں اب آنحضرت ﷺ کے اس عاشق صادق کے ذریعہ سے ہی مقدر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، جماعت احمدیہ ہی سیدھی راہ پر چل رہی ہے جو نبی کریمﷺ نے بتایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم میں سے ہر ایک اس راستے پر چلنے والا ہو جو صراط مستقیم کا راستہ ہے۔ جس پر چلنے کا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس پر چل کر ایک مومن ہدایت پاتا ہے، اندھیروں سے نور کی طرف آتا ہے۔ آج ہم دُنیا کے ان اندھیروں کو جو ہدایت اور سلامتی کے راستوں سے بھٹکانے والے ہیں دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور ہونی چاہئے جس نے ہمیں اس زمانہ کے امام کوماننے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کی جماعت میں شامل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔
ایک دعا کی طرف بھی اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی تعلیم ہمیشہ یہ رہی ہے اور انشاء اللہ رہے گی کہ پیار اور محبت کا پیغام تمام دنیا تک پہنچانا ہے۔اگر اسلام اور جماعت کے خلاف غلط پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے توبغیر کسی گالی گلوچ کے ہم دلائل سے اس کا جواب دیتے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ دیتے رہیں گے۔ یہ ہمارا فرض ہے اور اسلام کی سربلندی ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا پیغام جس سے پیار، محبت اور سلامتی کے چشمے پھوٹتے ہیں دنیا میں پھیلانا ہمارا مقصد ہے اور عشق رسول عربیﷺ ہماری جان ہے۔ آپؐ کے عاشق صادق احمد ہندی علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وفا ہم پر فرض ہے کہ آج اسلام کی صحیح تصویر ہم نے اس مسیح و مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی دیکھی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی خاطر ہم اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کر سکتے ہیں لیکن اس سے بے وفائی کے مرتکب نہیں ہو سکتے، اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
بہرحال مَیں یہ کہنا چاہتا تھا کہ گزشتہ چند سالوں سے عرب ممالک میں اسلام پر عیسائیت کی طرف سے ایسے حملے کئے جا رہے تھے جن کا جواب عام مسلمانوں کو تو کیا بلکہ علماء کے پاس بھی نہیں تھا اور نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے جب تک وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کلام سے فیض نہ پائیں۔ تو اس کے جواب کے لئے ہمارے عرب بھائیوں نے ایم ٹی اے کے دونوں ون (One)اور ٹو(Two)چینلز پرپروگراموں کا ایک سلسلہ شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے شکریہ کے بے شمار خطوط اور فیکس عامۃ المسلمین کی طرف سے بھی اور بڑے بڑے سکالرز کی طرف سے بھی آئے کہ ہم تو بڑے بے چین تھے کہ کوئی ان کا جواب دے، ہمارے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا۔ آپ لوگوں نے جواب دے کر ہمارے دلوں کی تسلی اور تسکین کے سامان پیدا کئے ہیں۔ ہم نے اس چینل پر عیسائی علماء کو بھی بولنے کا موقع دیا تھا۔ جب سوال جواب ہوتے تھے تو مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ بعض دفعہ وہ دوسرے سوال کرنے والے یا عیسائی، ہمارے جو جواب دینے والے بیٹھے ہوتے تھے ان سے زیادہ وقت لے رہے ہوتے تھے۔ بہرحال دونوں طرف کُھل کر ڈسکشن (Discussion) کا موقع دیا جاتا تھا۔ بحثیں ہوتی تھیں تو لوگوں پر حق واضح ہوا، اَور حق کھل گیا۔
پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا کہ ایم ٹی اے 3کا چینل شروع کیا گیا جو عربی پروگراموں کا چینل ہے اور یہ 24گھنٹے عربی میں پروگرام دے رہا ہے۔ اس میں بھی مختلف پروگرام ہیں۔ اس پر وہاں کے جو عیسائی پادری اور علماء ہیں، وہ گھبرا گئے اور ان میں سے ایک نے وہاں مصر میں جو متعلقہ وزارت ہے اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے کہ احمدیوں کو کیونکر اجازت دی گئی ہے۔ حالانکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے کسی وزارت سے اجازت نہ لی ہے اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ دوسرے ہمارا معاہدہ تو سیٹلائیٹ کمپنی سے ہے اور کمرشل کمپنیوں سے معاہدہ ہوتے ہیں کسی سیٹلائٹ کی اجازت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ بہرحال ان لوگوں کے دعوے کی قلعی کھل گئی جو اسلام پریہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور عیسائیت تبلیغ کے ذریعہ سے اور عقل سے اور دلائل سے پھیلی ہے۔ تو یہ بھی جو بات ہے اس جری اللہ کے حق میں ہے، اللہ تعالیٰ کی تائیدات کی ایک دلیل ہے کہ جو الزام یہ لوگ اسلام پر لگاتے تھے جو کہ حقیقت میں الزام تھا کیونکہ اسلام میں سوائے سلامتی کے کچھ ہے ہی نہیں تو اللہ کے اس پہلوان کی دلیلوں سے مجبور ہو کر جبر کا ہتھیار اب انہوں نے خود اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور مقدمہ بازی کر رہے ہیں، شور شرابے کر رہے ہیں۔پس جہاں ہمیں خوشی ہے کہ اس مقدمے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا ایک اور ثبوت ہمیں مہیا کر دیا ہے، وہاں دعا کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر شر سے بچائے، ہرشر سے جماعت کو بچائے۔ ان لوگوں کو بچائے جو اس پروگرام میں شامل ہیں اور ان کا کوئی حربہ بھی کبھی کارگرنہ ہو اور انشاء اللہ یہ یقینا نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ سب انتظام کسی انسان کی کوشش سے نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جو وعدے تھے ان کے پورا ہونے کے نتیجہ میں ہوا ہے۔یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ جہاں ہمارے سے اختلاف رکھنے والے بعض علماء نے ہمارے خلاف اُس وقت پہلے لکھا تھا انہوں نے غیر ت دکھائی ہے اور وہاں بعض عرب ممالک کے اخباروں میں عیسائیوں کو مسلمان علماء نے مخاطب کرکے لکھا ہے کہ تمہارے منہ میں جو آئے تم بک رہے تھے اور اسلام پر بے تکے اعتراضات کئے چلے جاتے تھے جبکہ اسلام کا دفاع کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ آج جب شریفانہ طور پر تمہیں جواب دیا جا رہا ہے تو تم چیخ پڑے ہو۔ تو اللہ تعالیٰ ان غیر از جماعت غیرت رکھنے والے لوگوں کو جزا دے جنہوں نے اسلام کے لئے غیر ت دکھائی ہے، آنحضرت ﷺ کے لئے غیرت دکھائی ہے۔ بہرحال جماعت کو دعا کرنی چاہئے کہ آج کل مختلف جگہوں پر احمدیت کے خلاف جو مخالفت کی آگ بھڑ ک رہی ہے دنیا میں تقریباً ہر جگہ اسی طرح ہی ہو رہاہے اس کو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کے مطابق خود ٹھنڈا کرے اور ہمارے لئے سلامتی اور امن بنادے۔ جس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان بھی کیا یا عیسائی بھی کیا، ان کی طرف سے جماعت کے خلاف جیسا کہ مَیں نے کہا مخالفت کی فضا پیدا ہوئی ہے تو لگتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کی تقدیر جماعت کے حق میں مزید کامیابیاں ہمیں دکھانے والی ہے انشاء اللہ۔ کیونکہ ہم نے اب تک اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس جماعت سے یہی سلوک دیکھا ہے کہ مخالفین کی طرف سے مخالفتوں کی جتنی کوششیں کی گئی ہیں، اتنی زیادہ جماعت نے ترقی کی ہے۔ پس ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے آستانے پر پہلے سے زیادہ جھکتے ہوئے ان کامیابیوں کو نزدیک تر لانے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس توفیق عطا فرمائے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں