خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ یکم جون 2007ء

معاشرے پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاؤ
یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے قائم فنڈ اور غریب بچیوں کی شادی کے لئے قائم مریم فنڈ میں احباب جماعت کو دل کھول کر مدد کرنی چاہئے۔
ہمسایوں سے حسن سلوک جہاں سلامتی کی ضمانت ہے وہاں اس سے تبلیغ کا بھی بہترین راستہ کھل جاتاہے۔
آج احمدی کے علاوہ کوئی نہیں جو اسلام کی سلامتی کی تعلیم کو دنیا میں پھیلا سکے۔ اگر ہم نے اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر ادا نہ کیں تو ہم اس عہد پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کیا ہے۔
(اللہ تعالیٰ کی عبادت کے علاوہ والدین، قریبی رشتہ داروں،یتامیٰ و مساکین، پڑوسیوں اور مسافروں اور ماتحتوں سے حسن سلوک کی قرآنی تعلیم کے حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح)
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
(فرمودہ مورخہ یکم جون 2007ء (یکم احسان 1386ہجری شمسی)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاعْبُدُوْااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ وَمَامَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا (سورۃالنساء:37)

اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی، اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافر وں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے، یقینا اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہے۔
گزشتہ خطبہ میں گھروں میں سلام کرنے اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کے حوالے سے بات ہوئی تھی کہ گھروں میں سلامتی کی فضا، اللہ تعالیٰ کا سلامتی کا پیغام پہنچانے سے قائم ہوتی ہے۔ ان سلامتی کے تحفوں سے سلامتی کے سَوتے پھوٹیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور سلامتی کا پیغام پہنچانے والے خود اپنے لئے بھی دارالسلام کے دروازے کھول رہے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اپنے گھر والوں کے لئے بھی یہ دروازے کھلوا رہے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ اسلام کا یہ سلامتی کا پیغام معاشی،معاشرتی اور بین الاقوامی سلامتیوں کا پیغام ہے۔
مَیں نے گزشتہ خطبہ میں اپنے گھروں میں اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کے گھروں میں اس خوبصورت پیغام کو پہنچانے کی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں تلقین فرمائی ہے اس کا ذکر کیا تھا۔ جس سے صلح اور سلامتی کی فضا قائم کرنے اور دوسروں کو ہر قسم کے ظلموں سے محفوظ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتایا تھا۔ مَیں نے جو آیت تلاوت کی ہے یہ سورۃ النساء کی آیت 37ہے۔ اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے گو براہ راست نہیں لیکن احسان کے رنگ میں جن باتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ یہ،یہ کرو۔ ان سے سلامتی کا پیغام دنیا کو پہنچتا ہے اور ہر اس طبقے کو پہنچتا ہے جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ اور اگر ایک انسان، ایک مسلمان، ایک مومن اس پر عمل کرے تو معاشرے میں سلامتی کی فضا قائم ہونا یقینی امر ہے۔ اس ایک آیت میں محبت، صلح اور سلامتی کا معاشرہ قائم کرنے کے لئے جو ہدایات بیان کی گئی ہیں وہ گیارہ ہدایات ہیں جن پر عمل کرکے ایک خوبصورت معاشرہ جنم لے سکتا ہے جو سلامتی کی خوشبو سے معطر معاشرہ ہو گا۔
اس میں پہلی بات جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرو، وہ بات جو اللہ تعالیٰ کے حق سے تعلق رکھتی ہے یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ فرمایا

وَاعْبُدُوااللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا،

ایک مسلمان تبھی مسلمان کہلا سکتا ہے جب اسلام کے اس بنیادی مقصد کو سمجھنے والا ہو جس کے لئے انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔کیونکہ اس مقصد کو حاصل کئے بغیر اسلام کی حقیقی روح پیدا نہیں ہو سکتی، خداتعالیٰ کی صفات کا ادراک نہیں ہوسکتا اور ایک انسان، ایک مومن صفت اَلسَّلَام سے آشنانہ ہونے کی وجہ سے اس کی برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکتا۔ پس اس بنیادی چیز کو ہر مسلمان مومن کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے تاکہ سلامتی کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس سے خود بھی فیضیاب ہو سکے اور اپنے ماحول کو بھی اس سے فیض پہنچا سکے۔ جب اس حقیقت کو سمجھ لو، جب اس مقصد کو اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنالو، تو فرمایا پھر حقوق العباد کی کوشش کرو، اس کے قیام کی کوشش کرو، جس کی اس آیت میں تفصیل بیان کی گئی ہے کہ یہ نیک سلوک جو تم ایک دوسرے سے کرو گے، معاشرے کی سلامتی کی ضمانت بن جائے گا۔ پھر آخر میں جس بات کی طرف متوجہ کیا گیا ہے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق سے بھی ہے اور بندوں کے حقوق سے بھی ہے۔ اب ایک ایک کرکے مَیں ان حکموں کو لیتا ہوں جو معاشرے کے ہر طبقے میں صلح، سلامتی اور پیار کی فضا پیدا کرنے اور قائم کرنے کی ضمانت دیتے ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ حکم دیا گیا کہ

وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔

یعنی والدین کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ کرو۔ اس بات کی طرف توجہ دلا دی کہ خداتعالیٰ کی عبادت کے بعد تمہیں والدین کو ہر شر سے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے کیونکہ انہوں نے بھی تمہیں بچپن میں ہر شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ تمہارے والدین ہی ہیں جو تمہاری صحت و سلامتی کے لئے تکلیفیں اٹھاتے رہے۔ پس آج بڑے ہو کر تمہارا فرض بنتا ہے کہ ان کے حقوق ادا کرو۔ ایک جگہ فرمایا اگر ان پہ بڑھاپا آجائے تو انہیں اُف تک نہ کہو، ان کی باتیں مانو۔ ایک جگہ فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ

وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل25:)

پس یہ دعا بھی اس لئے ہے کہ تمہارے جذبات، تمہارے خیالات ان کے لئے رحم کے رہیں اور پھر یہ دو طرفہ دعائیں ایک دوسرے پر سلامتی برسانے والی ہوں۔ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے والدین سے احسان کا سلوک کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور شکر گزار بندہ بننے کا ذکر فرمایا۔
فرماتا ہے

وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا۔ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا۔ وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا۔ حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً۔ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ۔اِنِّی تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ (الاحقاف:16)

اور ہم نے انسان کو تاکیدکی، نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ 30مہینے ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور 40سال کا ہو گیا تو اس نے کہا کہ اے میرے رب! مجھے توفیق عطا کر کہ مَیں تیری اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی اصلاح کر دے، یقینا مَیں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یعنی حقیقی فرمانبردار مَیں تبھی بن سکتا ہوں، حقیقی اسلام میرے اندر تبھی داخل ہو سکتا ہے، سلامتی پھیلانے والا میں تبھی کہلا سکتا ہوں جب ان حکموں پر عمل کرتے ہوئے جس میں سے ایک حکم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو۔ ان کے احسانوں کو یاد کرکے ان سے احسان کا سلوک کرو۔ان نعمتوں کا شکر گزار بنو۔جو انسان یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ تُو مجھے ان نعمتوں کا شکر گزار بنا جو تُو نے مجھ پر کی ہیں،جو مجھ پر اللہ تعالیٰ نے کی ہیں میرے والدین پر کی ہیں کہ ان کی اولاد سلامتی پھیلانے والی اور نیک اعمال کرنے والی ہو اور پھر آئندہ نسل کی سلامتی اور نیکیوں پر قائم رہنے کی بھی دعا اے خدا میں تجھ سے مانگتا ہوں۔
یہاں والدین کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ یہاں ایسے والدین کا ذکر ہے جن کی اولاد نیکیوں میں بڑھنے والی اور نیک اعمال کرنے والی ہو۔ پس والدین کو اللہ تعالیٰ کا فضل مانگتے ہوئے اس کے حضور جھکتے ہوئے اولاد کی ایسی تربیت کرنی چاہئے جو سلامتیاں بکھیرنے والی ہو۔ جو فرمانبردار ہو ورنہ وہ ماں بھی تو تھی جس کا کان یا زبان اس کے بیٹے نے اس لئے کاٹ لی تھی کہ اگریہ مجھے صحیح راستے پر ڈالنے والی ہوتی، مجھے سلامتی اور فساد کا فرق بتانے والی ہوتی تو آج میں ان جرموں کی وجہ سے جو میرے سے سرزد ہوتے رہے پھانسی کے تختے پر چڑھنے کی بجائے تیرے لئے رحم اور فضل کی دعا مانگ رہا ہوتا، ہر شر سے محفوظ رہنے کی دعا مانگ رہا ہوتا۔
پس والدین کو بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے۔ اس آیت میں دونوں کو توجہ دلائی ہے۔ پہلے اولاد بن کر والدین کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے لئے دعا پھر ماں باپ بن کر اولاد کی اصلاح اور نیکیوں پر قائم رہنے کے لئے دعا۔ تو یہ دعائیں ہیں جو ایک سچے عابد کو اپنے بڑوں کے بھی اور اپنے بچوں کے بھی حقوق ادا کرتے ہوئے اسے سلامتی پھیلانے والا بنائیں گی۔
پھر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اپنے قریبی رشتہ داروں کا بھی خیال رکھو، ان سے بھی احسان کا سلوک کرو۔ یہ حسن سلوک ہے جس سے تمہارے معاشرے میں صلح اور سلامتی کا قیام ہو گا۔
قریبی رشتہ داروں میں تمام رحمی رشتہ دار ہیں، تمہارے والد کی طرف سے بھی اور تمہاری والدہ کی طرف سے بھی۔ پھر بیوی کے رحمی رشتہ دار ہیں۔ پھر خاوند کے رحمی رشتہ دارہیں۔دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہو گئی کہ ایک دوسرے کے رحمی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو،ان کی عزت کرو، ان کا احترام کرو، ان کے لئے نیک جذبات اپنے دل میں پیدا کرو۔ غرض کہ وہ تمام حقوق جو تم اپنے قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو، ان قریبی رشتہ داروں کے لئے پسند کرتے ہو جن سے تمہارے اچھے تعلقات ہیں، کیونکہ قریبی رشتہ داروں میں بھی تعلقات میں کمی بیشی ہوتی ہے بعض دفعہ قریبی رشتہ داروں میں بھی دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ صرف ان سے نہیں جن سے اچھے تعلقات ہیں، جنہیں تم پسند کرتے ہوبلکہ جنہیں تم نہیں پسند کرتے، جن سے مزاج نہیں بھی ملتے ان سے بھی اچھا سلوک کرو۔ پس یہ حسن سلوک ہر قریبی رشتہ دارسے کرناہے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ صرف ان سے نہیں جن سے مزاج ملتے ہیں بلکہ ہر ایک سے۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ نہ صرف اپنے قریبی رشتہ داروں سے بلکہ مرد کے لئے اپنی بیوی اور عورت کے لئے اپنے خاوند کے قریبی رشتہ داروں کے لئے بھی حسن سلوک کرنے کا حکم ہے۔ یہ سلوک ہے جو اللہ کی سلامتی کے پیغام کے ساتھ سلامتی پھیلانے والا ہوگا۔
کئی جھگڑے گھروں میں اس لئے ہو رہے ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے لئے عزت اور احترام نہیں ہوتا۔ میاں اور بیوی کے سب سے قریبی رشتہ دار اس کے والدین ہیں۔ جہاں اپنے والدین سے احسان کے سلوک کا حکم ہے وہاں میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کے والدین سے بھی حسن سلوک کا حکم ہے۔ بعض دفعہ خاوند زیادتی کرکے بیوی کے والدین اور قریبیوں کو برا بھلا کہتے ہیں اور بعض دفعہ بیویاں زیادتی کرکے خاوندوں کے والدین اور قریبی رشتہ داروں کو برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہیں۔ تو احمدی معاشرے میں جس کو اللہ اور رسولﷺ کا حکم ہے کہ سلامتی پھیلاؤ، اس میں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ اس کے بعد کہ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا، اس کے بعد کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کے طریقے بھی سکھا دئیے۔ یہ بھی بتا دیا کہ میرے سے تعلق رکھنا ہے تواُن اعلیٰ اخلاق کو اپناؤ جن کا اللہ اور اس کا رسول حکم دیتا ہے، ہمیں سوچنا چاہئے کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کے بعد جبکہ ہمیں مخالفتوں کا سامنا اس لئے ہو رہا ہے کہ تم نے کیوں اس شخص کو مانا جو کہتا ہے کہ مَیں مسیح موعود نبی اللہ ہوں۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد بعض لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے بھی بڑی تکلیف اٹھانی پڑی۔ اپنوں نے بھی رشتے توڑ دیئے۔ باپوں نے اپنے بچوں پر سختیاں کیں اور گھروں سے نکال دیا۔ اس لئے نکال دیا کہ تم نے احمدیت کیوں قبول کی۔ تو اس صورتحال میں ایک احمدی کو کس قدر اپنے رشتوں کا پاس کرنا چاہئے۔ ہر ایک کو یہ سوچنا چاہئے کہ اُس شخص سے منسوب ہونے کے بعد جس کا نام خداتعالیٰ نے سلامتی کا شہزادہ رکھا ہے ہمیں کس قدر سلامتی پھیلانے والا اور رشتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے۔
پس ہر احمدی کو اپنے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ ہم سلامتی کے شہزادے کے نام پر بٹہ لگانے والے نہ ہوں۔ اگر ہم اپنے رشتوں کا پاس کرنے والے، ان سے احسان کا سلوک کرنے والے، ان کو دعائیں دینے والے، اور ان سے دعائیں لینے والے نہ ہوں گے تو ان لوگوں سے کس طرح احسان کا سلوک کر سکتے ہیں، ان لوگوں سے کس طرح احسان کا تعلق بڑھا سکتے ہیں، ان لوگوں کا کس طرح خیال رکھ سکتے ہیں جن سے رحمی رشتے بھی نہیں ہیں۔
بعض عہدیداروں کے بارے میں بھی شکایات ہوتی ہیں کہ بیوی بچوں سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ پہلے بھی مَیں ذکر کر چکا ہوں، اس ظلم کی اطلاعیں بعض دفعہ اس کثرت سے آتی ہیں کہ طبیعت بے چین ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کیا انقلاب پیدا کرنے آئے تھے اور بعض لوگ آپؑ کی طرف منسوب ہو کر بلکہ جماعتی خدمات ادا کرنے کے باوجود، بعض خدمات ادا کرنے میں بڑے پیش پیش ہوتے ہیں اس کے باوجود، کس کس طرح اپنے گھر والوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ رحم کرے اور ان لوگوں کو عقل دے۔ ایسے لوگ جب حد سے بڑھ جاتے ہیں اور خلیفۂ وقت کے علم میں بات آتی ہے تو پھر انہیں خدمات سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔ پھر شور مچاتے ہیں کہ ہمیں خدمات سے محروم کر دیا تو یہ پہلے سوچنا چاہئے کہ ایک عہدیدار کی حیثیت سے ہمیں احکام قرآنی پر کس قدر عمل کرنے والا ہونا چاہئے۔ سلامتی پھیلانے کے لئے ہمیں کس قدر کوشش کرنی چاہئے۔
پھر اسی آیت میں ایک یہ حکم ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یتیموں سے بھی احسان کا سلوک کرو کیونکہ یہ معاشرے کا کمزور طبقہ ہے پھر فرمایا مسکینوں سے بھی حسن سلوک کرو۔یہ دونوں طبقے یعنی یتیم اور مسکین معاشرے کے کمزور ترین طبقے ہیں ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔ اگر ان پر ظلم ہو رہا ہے تو ان کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہوتا اور پھر بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ یہ کمزور طبقے ردّ عمل کے طور پر پھر فساد کی وجہ بنتے ہیں۔ اور فساد کی وجہ اس طرح ہے کہ پہلے چھوٹی چھوٹی باتوں اور برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ پھر مفاد اٹھانے والے گروہ ان لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ معاشرے کے خلاف ان کے ذہنوں میں زہر بھرتے ہیں۔ ایسا مایوس طبقہ جس کے حقوق ردّ کئے گئے ہوں، پھر یہ جائز سمجھتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ اپنا حق لینے کے لئے کر رہا ہے، وہ جو مرضی چاہے حرکتیں کر رہا ہو وہ ٹھیک کر رہا ہے۔ اس کو یہ خیال ہوتا ہے کہ اس کے یہ ہمدرد ہی اس کے خیر خواہ ہیں جو حقیقت میں اس کو معاشرے میں فساد پھیلانے کے لئے استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ غریب ملکوں میں اگر جائزہ لیں تو ایسے یتیم جن کے خاندانوں نے، ان کے عزیزوں نے ان کا خیال نہیں رکھا یا اس حیثیت میں نہیں کہ خیال رکھ سکیں خود بھی غربت نے انہیں پیسا ہوا ہے ایسے محروم بچے پھر تربیت کے فقدان کی وجہ سے بلکہ مکمل طور پر جہالت میں پڑجانے کی وجہ سے تعمیری کام نہیں کر سکتے اور پھر ان لوگوں کے ہاتھ میں چڑھ جاتے ہیں جو ان سے ناجائز کام کرواتے ہیں۔
اسی طرح ایسے لوگ جو کثیر العیال ہوں جن کی اولادیں بہت زیادہ ہیں، بچے زیادہ ہوتے ہیں، ان کی پرورش نہیں کر سکتے، وہ اپنے بچوں کو،مثلاً مَیں نے پاکستان میں دیکھا ہے۔ مدرسوں کے سپرد کر دیتے ہیں، بیشمار بچے جو مدرسوں میں ہیں وہ غریبوں کے بچے ہیں۔ گووہاں بظاہر ان کی دینی تعلیم ہو رہی ہوتی ہے لیکن ایک بڑی تعداد مذہب کے نام پر ہڑتالوں، فسادوں اور بعض دفعہ خود کش حملوں کے لئے تیار ہو رہی ہوتی ہے۔ جہاد کے نام پر، جہاد کے غلط تصور سے ان کی برین واشنگ (Brain Washing) کی جا رہی ہوتی ہے۔ اگر ایسے بہت سے یتیموں کو، غریب لوگوں کو سنبھالا گیا ہوتا، ان کے معاشی مسائل نہ ہوتے، پڑھنے کے مواقع میسر ہوتے تو بڑی تعداد اس قسم کے فتنے اور فساد کے کاموں سے بچ جاتی۔
ایک دفعہ مَیں بھیرہ کے علاقے میں گیا، بھیرہ سے نکل کر ہم دیہاتوں میں شکار کے لئے گئے تھے تو کچھ لڑکے وہاں آگئے اور وہ مدرسے کے لڑکے تھے۔ ان سے باتیں شروع ہو گئیں۔ مَیں نے پوچھا کیا کچھ پڑھتے ہو، کیا کچھ کرتے ہو؟تو انہوں نے پڑھائی کی باتیں کم بتائیں، یہ بتایا کہ ہم یہاں ہینڈ گرنیڈ بھی بناتے ہیں، ہم یہاں اپنے کارتوس بھی بھرتے ہیں بلکہ بندوقیں بنانے کی ہمیں ٹریننگ دی جاتی ہے۔ تو یہ حال ہے۔ ماں باپ ان کو دینی تربیت کے لئے بھیجتے ہیں اور وہاں جا کر ان غریب بچوں کو جو تربیت دی جا رہی ہوتی ہے وہ ایسی کہ بعد میں ان کو جہاد کے نام پر غلط طور پر شدّت پسندی کے لئے استعمال کیاجاتا ہے، فساد پھیلانے کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ ماں باپ بیچارے اس امید پر بیٹھے ہیں کہ کم از کم دینی علم حاصل ہو جائے گا، ہمارا بچہ بچ جائے گا لیکن یہ پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کن ہاتھوں میں ہے جو اپنے مفاد کے لئے ان بچوں سے مذہب کے نام پر خون کروانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔پس اس فساد سے بچنے کے لئے یہ معاشرے کا کام ہے اور وقت کی حکومت کا کام ہے کہ ایسے طبقے کو سنبھالیں، انہیں دھتکارنے کی بجائے انہیں سینہ سے لگائیں۔ ان کو جذباتی چوٹیں پہنچانے کی بجائے زیادہ بڑھ کر ان کے جذبات کا خیال رکھیں۔ کیونکہ یہ کمزور طبقہ جذباتی طور پر بہت حساس ہوتا ہے۔ معاشرے کو اس کے جذبات کو تعمیری رخ دینے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ بات اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک ان سے انتہائی احسان کا سلوک نہ کیا جائے اور یہ بات جہاں معاشرے میں محروم طبقے کو عزت دلوانے والی ہو گی وہاں معاشرے کے امن اور سلامتی کی بھی ضامن ہوجائے گی اور پھر یتیموں کی خبر گیری کرنے والے، مسکینوں کا خیال رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے پیار کے بھی مورد بنتے ہیں۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مَیں اور یتیم کی دیکھ بھال کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جس طرح دو انگلیاں (اپنی دو انگلیاں کھڑی کرکے ملا کر بتایا کہ اس طرح) یعنی ایسا شخص میرے قریب ہو گا۔
(ابن ماجہ ابواب الادب۔ با ب حق الیتیم)
پھر ایک روایت میں آپؐ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے گھروں میں سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کی پرورش کی جائے۔(ابن ماجہ ابواب الادب۔ با ب حق الیتیم)
ایک روایت میں آتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ انسان کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ غریبوں اور مسکینوں کو جو بعض لوگ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں، ان کے لئے بڑی فکر والی بات ہے۔(مسلم کتاب البر والصلۃ۔بات تحریم ظلم المسلم وخذلہ)
مَیں ضمناً یہاں یہ ذکر کر دوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتیموں کی خبر گیری کا نظام ہے، پاکستان میں بھی ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے جو باقاعدہ جائزہ لے کر ان کی تعلیم کا،ان کے رہن سہن کا مکمل خیال رکھتی ہے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی، خاص طور پر افریقن ممالک میں بھی اللہ کے فضل سے کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ اس کے لئے یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے ایک فنڈ ہے، اس میں بھی احباب جماعت کو دل کھول کر مدد کرنی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ یتیموں کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔
اسی طرح غریب بچیوں کی شادیوں کے لئے جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مریم فنڈ کی تحریک کی تھی۔ شروع میں تو اس طرف بہت توجہ تھی اور جماعت نے بھرپور حصہ لیا، بچیوں کی شادیوں میں کوئی روک نہیں تھی۔ اب بھی اللہ کے فضل سے کوئی روک تو نہیں ہے لیکن جس کثرت سے، جس شوق سے جماعت کے افراد اس میں حصہ لے رہے تھے اور چندہ دیتے تھے، رقمیں آرہی تھیں اس طرح اب نہیں آرہیں۔ تو اس طرف بھی جماعت کو اور خاص طور پر مخیر حضرات کو توجہ کرنی چاہئے۔یہ یتیموں، غریبوں اور مسکینوں سے حسن سلوک ہے جو یقینا ان حسن سلوک کرنے والوں کے لئے جنت کی خوشخبری دیتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ اس دارالسلام کی خوشخبری دیتے ہیں کہ انہوں نے چند لوگوں کی بہتری اور سلامتی کے لئے کوشش کی، ان کی تکلیفوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔
ایک روایت میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا جو کمزوروں پر رحم کرے، ماں باپ سے محبت کرے اور خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے۔ (ترمذی۔صفۃ القیامۃ)
پھر معاشرے کی سلامتی، صلح اور محبت کی فضا پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا کہ ہمسایوں سے اچھا سلوک کرو۔ اور صرف رشتہ دار ہمسایوں سے اچھا سلوک نہیں کرنا کہ اس میں 100فیصد
بے نفسی اور صر ف اور صرف خداتعالیٰ کی رضا کے لئے حسن سلوک نظر نہیں آتا بلکہ غیر رشتہ داروں سے بھی کرنا ہے۔ یعنی رشتہ د اروں سے حسن سلوک میں تو پسند اور ناپسند کا سوال آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی بندہ جو اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوشش کرتا ہے اس کا تو تب پتہ لگے گا کہ غیروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ جو غیر رشتہ دار ہمسائے ہیں ان سے بھی حسن سلوک کرو۔ ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس قدر تلقین کی گئی، اس قدر تواتر سے آنحضرت ﷺ کو اس طرف توجہ دلائی گئی کہ آپؐ نے فرمایا کہ مجھے خیال ہوا کہ شاید اب ہمسائے ہماری وراثت میں بھی حصہ دار بن جائیں گے۔ تو ہمسائے کی یہ اہمیت، یہ احساس دلانے کے لئے ہے کہ اس کا خیال رکھنا، اس سے حسن سلوک کرنا، اس کی ضروریات کو پورا کرنا بہت اہم ہے۔ کیونکہ یہ بھی ہمسائے ہیں جو گھر کی چاردیواری سے باہر قریب ترین لوگ ہیں۔ اگر یہ ایک دوسرے سے حسن سلوک نہ کریں، ایک دوسرے کے لئے تکلیف کا باعث بنیں، تو جس گلی میں یہ گھر ہوں گے جہاں حسن سلوک نہیں ہو رہا ہو گا تووہ گلی ہی فساد کی جڑ بن جائے گی۔ اس گلی میں پھر سلامتی کی خوشبو نہیں پھیل سکتی۔ گھر سے باہر نکلتے ہی سب سے زیادہ آمنا سامنا ہمسایوں سے ہوتا ہے۔ ان کو اگر دل کی گہرائیوں سے سلامتی کا پیغام پہنچائیں گے تو وہ بھی آپ کے لئے سلامتی بن جائیں گے۔
ان مغربی ممالک میں عموماً ہر کوئی اپنے میں مگن رہتا ہے ان لوگوں کی ایک زندگی بن گئی ہے کہ اپنا گھر یا اپنے بہت قریبی۔ ہمسائے کا وہ تصور یہاں ہے ہی نہیں جو اسلام نے ہمیں سکھایا ہے۔ یہی اسلام کی خوبی ہے کہ ہر بظاہر چھوٹی سے چھوٹی بات کی طرف بھی توجہ دلا دی اور پھر اس کے نتیجے کے طور پر بڑی بڑی جنتوں کی خبریں دیں تاکہ ہر طرح سے معاشرے میں سلامتی پھیلانے کے لئے ہر مومن کوشش کرے۔ تو جب ان لوگوں سے سلامتی کا پیغام پہنچاتے ہوئے ہم تعلق رکھیں گے، جب ان لوگوں کو یہ پتہ چلے گا کہ یہ لوگ بے غرض ہو کر ان سے تعلق رکھ رہے ہیں، ان کے یہ تعلق ہماری ہمدردی کے لئے ہیں،تو یہ لوگ خوش بھی ہوتے ہیں اور حیران بھی ہوتے ہیں کیونکہ اس کی ان کو عادت نہیں ہے۔ ان باتوں کا، اس خوشی کے اظہار کا، ان کی باتوں اور خیالات سے بڑا واضح پتہ لگ رہا ہوتا ہے۔ اس تعلق کو بڑھانے کی وجہ سے فطرت کی جوآواز ہے۔اگر نیک فطرت ہے تو فطرت تو ہر ایک سے یہ چاہتی ہے کہ نیکی کا سلوک ہو۔ فطرت کی وہ آواز ان کے اندر بھی انگڑائی لیتی ہے۔وہ بھی اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے ہمسائے ہمارے سے نیک تعلق کی وجہ سے رابطہ رکھ رہے ہیں۔ کوئی مفاد یا ذاتی منفعت حاصل کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔ اِلاّماشاء اللہ اکثریت اس بات پر خوش ہوتی ہے۔
جب سے مَیں نے ان مغربی ممالک کے رہنے والوں کو خاص طور پر ہمسایوں سے اچھے تعلق رکھنے کی طرف توجہ دلائی تھی، بعض جگہ سے بہت خوش کن رپورٹس آئی ہیں۔ وہی لوگ جو پاکستانی یا ایشین مسلمان ہمسایوں سے خوفزدہ تھے جب ان کے یہ تعلق بڑھنے شروع ہوئے، عید، بقر عید پر، ان کے تہواروں پر،جب تحفے ان کی طرف جانے شروع ہوئے تو اس کی وجہ سے ان میں نرمی پیدا ہونی شروع ہو گئی، ان کے خوف بھی دور ہوئے۔ وہی لوگ جو اسلام کو شدت پسند اور امن برباد کرنے والا مذہب سمجھتے تھے اسلام کی سلامتی کی تعلیم سے متاثر ہو رہے ہیں۔ مسجد فضل کے حلقے میں بھی دو سال سے ہمسایوں کو بلا کر ان کی دعوت وغیرہ کی جاتی ہے۔ علاوہ اس ذاتی تعلق کے جو لوگ اپنے طور پر گھروں میں بھی کرتے ہوں گے۔ اس سال بھی جو انہوں نے فنکشن کیا تھا مَیں اس میں شامل ہوا تھا تو مَیں نے ہمسایوں کے تعلق میں جب ان کے سامنے اسلامی تعلیم پیش کی تو سب نے حیرت اور خوشی سے اس کو سنا اور اس کا اظہار کیا اور شکریہ ادا کیا اور اب تک بھی مختلف حوالوں سے مختلف موقعوں پر ان ہمسایوں کے مجھے خطوط آتے رہتے ہیں، کارڈز بھی آتے رہتے ہیں۔ تو سب ہمسایوں سے حسن سلوک جہاں سلامتی کی ضمانت ہے وہاں اس سے تبلیغ کا بھی بہترین راستہ کھل جاتا ہے۔
اگر ان لوگوں میں مذہب سے دلچسپی نہیں ہے تو کم از کم ایسے لوگوں کے ذہنوں سے اسلام کے خلاف جو زہر بھرا گیا ہے وہ نکل جاتا ہے۔ اگر ہمسائیگی کی وسعت ذہن میں ہو تو پوری دنیا میں سلامتی اور صلح کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔ دنیا سے فساد دُور ہو سکتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ہمسائیگی تو 100کوس تک بھی ہوتی ہے۔ پس آج جبکہ احمدی دنیا کے 185سے زائد ممالک میں ہیں۔ بعض علاقوں میں شاید تھوڑے ہیں یا زیادہ ہیں۔ اپنے
ارد گرد کے 100-100میل کے علاقے کو بھی اپنی سلامتی کے پیغام سے معطر کر دیں تو دنیا کے ایک و سیع حصے میں اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں، اس کے خلاف جو پُرتشدّد اور ظلم کرنے والاہونے کا الزام لگایا جاتا ہے وہ سب داغ دُھل سکتے ہیں۔اگر ہم ایسا نہ کریں تو اس عہد کی کوتاہی کر رہے ہوں گے جو ہم نے اس زمانے کے امام سے باندھا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے پیار محبت کے تعلقات جس سے تمہارے حقیقی مسلمان ہونے کا پتہ چلے، مزید وسیع ہونے چاہئیں، اَور وسیع ہونے چاہئیں۔ کیونکہ تمہارے تعلقات کی جتنی و سعت ہو گی یا وسعت ہوتی جائے گی۔ پُر امن اور سلامتی بکھیرنے والا معاشرہ اتنا وسیع ہوتا چلا جائے گا۔ کس حد تک وسعت دینی ہے؟ سارے معاشرے کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ایک تو ہمسائیگی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پھر فرمایا کہ تمہارے ہم جلیس جو مجلسوں میں تمہارے ساتھ ہیں جو تمہارے ساتھ کام کرنے والے ہیں۔ دفتروں میں تمہارے ساتھ ہیں، کاروباری جگہوں پر تمہارے ساتھ ہیں،تم سے ان سب کے ساتھ احسان کی توقع کی جاتی ہے۔ پھر میٹنگز ہیں، اجلاس ہیں، آپس کے معاشرے میں بھی جلسے ہیں تو یہاں بھی پیار اور محبت اور احسان کا سلوک کرنے کا حکم ہے۔ اب اگر اتنا وسیع معاشرہ ہے اور معاشرے کے حقوق کا اسلام نے حکم دیا ہے کہ اگر انسان تصور کرے تو کوئی باہررہ ہی نہیں جاتا اور یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ دل میں کسی بھی شخص کے خلاف کسی بھی قسم کی قبض ہو بلکہ کُھلے دل سے ہر ایک کو انسان سلامتی کا تحفہ بھیج رہاہو گا، کوئی دل میں رنجش رہ ہی نہیں سکتی۔
بعض دفعہ اجتماعوں پر جلسوں پر بعض بدمزگیاں ہو جاتی ہیں اور پھر جلسہ بھی آرہا ہے اور اجتماعات بھی آرہے ہیں۔ تو اگر یہ سوچ ہو کہ میرے سے ان سب کے لئے احسان کے جذبات کے سوا کسی قسم کا کوئی اور اظہار نہیں ہونا چاہئے تو یہی چیز ہے جو معاشرے میں سلامتی پھیلانے والی ہو جائے گی اور حسن سلوک سے لوگ ایک دوسرے سے اچھے تعلقات بنانے والے ہو جائیں گے۔
پھر معاشرے پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سلامتی کے پیغام کو دوسروں تک پہنچاؤ۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ اپنوں میں بھی اور غیروں میں بھی سلام کو رواج دو،۔جب کوئی مسلمان کسی کو سلام کرے تو مسلمان کے لئے یہ حکم ہے کہ اس کو پہلے سے بڑھ کرسلامتی لوٹاؤ۔ ایسی سلامتی جب ایک مسلمان معاشرے میں، جب ایک احمدی معاشرے میں لوٹائی جا رہی ہو گی تو ہر قسم کے جھگڑوں اور فسادوں اور لڑائیوں اور رنجشوں کی بیخ کنی ہوجائے گی، وہ ختم ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ احسان کا جواب احسان سے دو اور سلام کے بارے میں بھی آیا ہے کہ سلام کرو تو احسن رنگ میں اس کو لوٹاؤ۔ تحفے کے بارے میں آیا ہے کہ اگر کوئی تمہیں تحفہ دے تو بہترین رنگ میں اس کو لوٹاؤ یا کم از کم ویسا ہی اس کو لوٹا دو۔
ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک شخص آیا جس نے آنحضرت ﷺ کو

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ

کہا اور بیٹھ گیا۔ آنحضور ﷺ نے جواب دیا

وَعَلَیْکُمُ السَّلَام وَرَحْمَۃُ اللّٰہ

پھر دوسرا شخص آیا اس نے کہا

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللّٰہ۔

آپؐ نے فرمایا

وَعَلَیْکُمُ السَّلَام وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ،

تیسرا شخص آیا اس نے کہا

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔

آپؐ نے فرمایا

وَعَلَیْکُمُ السَّلَام

یا شاید

وَعَلَیْکُم

اس پر ایک قریب بیٹھے ہوئے صحابی نے پوچھا کہ باقی دو کو تو آپ نے دعائیہ کلمات کہے اور بڑا اچھا جواب دیا۔ اس کو صرف

وَعَلَیْکُم

کہا ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ انہوں نے جتنا سلام کیا تھا اس میں گنجائش تھی کہ بہتر کرکے لوٹا سکتا، اس لئے ان کو مَیں بہتر کرکے سلام واپس کرتا رہا ہوں۔ اس شخص نے بہترین دعائیہ کلمات کہے اس کے علاوہ کچھ اور جواب بنتا نہیں تھا تو مَیں نے کم از کم اس حکم کے تحت کہ وہی چیز لوٹا دو مَیں نے

وَعَلَیْکُم

کہہ کر اسی طرح کا اس کو سلام واپس کر دیا۔ تو یہ ہے سلامتی پہنچانے کے طریقے اور آنحضرت ﷺ کا اسوہ۔
پھر فرمایا کہ

وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ

سے مرا دیہ بھی ہے کہ ساتھ کام کرنے والے، جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہہ دیا ہے۔ ماتحتی میں کام کرنے والے ہیں، افسران بالا ہیں۔ ان سب کے لئے نیک جذبات ہونے چاہئیں۔ ان سب کو سلامتی کا پیغام پہنچانا چاہئے۔
پھر فرمایا کہ مسافروں سے بھی یہ سلوک کرو۔ سفر میں جو ایک تھوڑے سے عرصہ کے لئے ساتھ ہوتا ہے۔ اس میں بھی تمہارے اندر حسن و احسان کی تصویر نظر آنی چاہئے تاکہ یہ معمولی وقتی تعلق بھی کوئی بداثر نہ چھوڑے۔ تو خداتعالیٰ کی اپنے بندے سے یہ توقعات ہیں کہ معمولی سا بھی کوئی ایسا موقع پیدا نہ ہو جو معاشرے میں فساد یا جھگڑے کا باعث بنے۔
پھر فرمایا ان سے بھی یہ نیک سلوک ہو جن کے تمہارے دائیں ہاتھ مالک ہیں، تمہارے ماتحت ہیں، تمہارے ملازم ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ سب جاندار جو تمہارے قبضے میں ہیں ان سے احسان کا سلوک کرو۔ تو یہ ہے کمزور طبقے کی،غلاموں کی عزت قائم کرنے کا اسلامی حکم کہ جن کو تم اپنا غلام سمجھتے ہو جو تمہارے ملازم ہیں ان سے بھی سختی اور ظلم نہ کرو۔ حکم یہ ہے کہ ان سے بھی کوئی ایسا کام نہ لوجو ان کی طاقت سے باہر ہو۔ اگر کوئی ایسا مشکل کام ہو تو پھر ان کا ہاتھ بٹاؤ تو یہ وہ اصول ہیں جن سے معاشرہ صلح جو اور سلامتی پھیلانے والا بن سکتا ہے۔ یہی اصول ہے کہ ہر وقت ذہن میں ہو کہ مَیں نے احسان کرنا ہے جس سے محبتیں جنم لیتی ہیں۔ جس سے ملازم بھی مالک کے لئے قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں۔ ورنہ ملازم سے بھی اگر اس کی طاقت سے بڑھ کر کام لیا جائے تو پھر یہ ان لوگوں کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوتے ہیں جو آخر کار سلامتی کی بجائے فساد پر منتج ہوتے ہیں۔
اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا

یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر اور شیخی بگھارنے والا ہو۔ جیساکہ مَیں نے کہا تھا کہ یہ آخری حکم دے کر یا اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ جوان باتوں پر عمل نہیں کرتا وہ متکبر ہے نہ وہ اللہ کا سچا عابد بن سکتا ہے اور پھر اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء کو بھی قبول نہیں کرتا۔ تمام انبیاء کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔ بلکہ اس تکبر کی وجہ سے شیطان کے پیچھے چلنے والا ہوتا ہے کیونکہ شیطان نے تکبر کی وجہ سے ہی انکار کیا تھا۔
تو اس زمانے میں بھی دیکھ لیں، یہ ان لوگوں کا تکبر ہی ہے جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے سے روک رہا ہے یا اس راستے میں روک بنا ہوا ہے اور یہی تکبر ہے جو حقوق العباد ادا کرنے میں روک بنتا ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ یہ لوگ جو تکبر کرنے والے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرما چکا ہے اس لئے یہ لاکھ سلامتی کے دعوے کریں اور اس کے لئے کوشش کریں یہ کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس لئے کہ انہوں نے اس تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے امام کا انکار کیا اور اس وجہ سے اس سلامتی سے محروم ہو گئے ہیں جس کا آنا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ سلامتی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے پیاروں سے تکبر کا سلوک کرو گے، ان کا انکار کرو گے تو سلامتی سے بھی محروم ہو جاؤ گے۔ پس ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس امام کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس لئے ہمیں ان باتوں پر غور کرتے ہوئے حقیقی عابد اور صحیح رنگ میں نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرنے والا بننا چاہئے۔ ورنہ یہ نہ ہو کہ ہم میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کی ناپسندیدگی کی لپیٹ میں آجائے اور پھر ان نعمتوں سے محروم ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے پیدا کی ہیں۔ ان بشارتوں سے محروم ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے مومن بندے کو دی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے، اس سے مدد مانگتے ہوئے ہمیں اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اگر ماضی میں کوئی کمیاں، کوتاہیاں ہو گئی ہیں تو خداتعالیٰ کی رحمت طلب کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بڑا رحیم ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ غلطی سے اگر تم کوئی کام کرتے ہو تو مَیں معاف کرنے والا ہوں۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت طلب کرنی چاہئے تاکہ اللہ تعالیٰ کا سلامتی کا پیغام ہمیں پہنچے اور ہم اس کی بخشش کی لپیٹ میں آجائیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:’’مومن حسین ہوتا ہے۔ جس طرح ایک خوبصورت انسان کو معمولی اور ہلکا سا زیور بھی پہنا دیا جائے تو وہ اسے زیادہ خوبصورت بنا دیتا ہے اگر وہ بدعمل ہے تو پھر کچھ بھی نہیں۔ انسان کے اندرجب حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا ہے تو اس کو اعمال میں ایک خاص لذت آتی ہے اوراس کی معرفت کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ وہ اس طرح نماز پڑھتا ہے جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہوتا ہے۔ گناہوں سے اسے بیزاری پیدا ہو جاتی ہے۔ ناپاک مجلس سے نفرت کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اوررسول کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے اپنے دل میں ایک خا ص جوش اور تڑپ پاتا ہے۔ ایسا ایمان اسے حضرت مسیح ؑ کی طرح صلیب پر چڑھ جانے سے بھی نہیں روکتا۔ وہ خداتعالیٰ کے لئے اور صرف خداتعالیٰ کے لئے حضرت ابراہیم ؑ کی طرح آگ میں بھی پڑ جانے سے راضی ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی رضا کو رضائے الٰہی کے ماتحت کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ جو

عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْر

ہے اس کا محافظ اور نگران ہو جاتا ہے اور اسے صلیب پر سے بھی زندہ اتا ر لیتا ہے اور آگ میں سے بھی صحیح و سلامت نکال لیتا ہے۔ مگر ان عجائبات کو وہی لوگ دیکھا کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ پر پورا یمان رکھتے ہیں۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 249جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کامل الایمان بنائے اور ہمیشہ ہم پر اپنی پسندیدگی کی نظر ڈالتے ہوئے ہمیں ہر آگ سے سلامت نکالتا رہے اور ہم ہر دم اس کی رحمت اور بخشش اور فضل کے نظارے دیکھتے رہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں