پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’جماعت کے باہم اتفاق و محبت پر میں پہلے بہت دفعہ کہہ چکا ہوں کہ تم باہم اتفاق رکھو اور اجتماع کرو۔ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہی تعلیم دی تھی کہ تم وجود واحد رکھو ورنہ ہوا نکل جائے گی۔ نماز میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہونے کا حکم اسی لئے ہے کہ باہم اتحاد ہو۔ برقی طاقت کی طرح ایک کی خیر دوسرے میں سرایت کرے گی۔ اگر اختلاف ہو، اتحاد نہ ہو تو پھر بے نصیب رہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپس میں محبت کرو اور ایک دوسرے کے لئے غائبانہ دعا کرو۔ اگر ایک شخص غائبانہ دعا کرے تو فرشتہ کہتا ہے کہ تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی بات ہے۔ اگر انسان کی دعا منظور نہ ہو تو فرشتہ کی تو منظورہوتی ہے۔ میں نصیحت کرتا ہوں اور کہنا چاہتا ہوں کہ آپس میں اختلاف نہ ہو۔ میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ اول خدا کی توحید اختیار کرو۔ دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو۔ وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو۔ یہی دلیل تھی جو صحابہؓ میں پیدا ہوئی تھی۔

کُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَلَّفَ بَیۡنَ قُلُوۡبِکُمۡ (آل عمران:104)

یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے۔ یاد رکھو جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔ وہ مصیبت اور بلا میں ہے۔‘‘ فرمایا ’’…… چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے …… یاد رکھو بغض کا جدا ہونا مہدی کی علامت ہے اور کیا وہ علامت پوری نہ ہو گی۔ وہ ضرور پوری ہو گی ‘‘ لیکن ہم اپنے آپ کو نہیں بدلیں گے تو ان برکات سے ہم محروم ہو جائیں گے۔ فرمایا کہ ’’……میرے وجود سے ان شاءاللہ ایک صالح جماعت پیدا ہو گی۔ باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے رعونت ہے خود پسندی ہے اور جذبات ہیں۔‘‘ فرمایا ’’میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر اعتراض لینا نہیں چاہتا۔ ایسا شخص جو میری جماعت میں ہو کر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے۔ خشک ٹہنی دوسری سبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سرسبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2صفحہ48-49)

پس بہت ڈرنے کا مقام ہے۔ ہماری عیدیں کس طرح وہ عیدیں ہو سکتی ہیں جن میں ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق اپنی اخلاقی حالتوں کو درست کر کے حقوق العباد کی طرف توجہ دے کر آپس میں محبت و پیار پیدا کر کے اس معیار تک نہیں پہنچتے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ صرف چند قریبی عزیزوں سے مل کر اور ان کے حقوق ادا کر کے تو حقیقی عید کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ پس حقیقی عید منانے کے لیے ہمیں دیکھنا ہو گا کہ ہم نے کہاں تک آپس کی محبت و الفت کا معیار حاصل کیا ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں ’’اے سعادت مند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے۔ تم خدا کو واحد لاشریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو، نہ آسمان میں سے، نہ زمین میں سے۔ خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے۔ قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں ہے سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفس امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا سو تم دل کے مسکین بن جاؤ۔ عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو جب کہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو۔ سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے کہ اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو۔ خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے۔ نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے ہر ایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خدا کی قوت سے دور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین۔ روحانی خزائن جلد20صفحہ63)

پس یہ وہ تعلیم ہے جو حقیقی عید کی خوشیاں دے سکتی ہے۔ اگر ہم اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے تو حقیقی عید منانے والے ہوں گے۔ صرف سال کی دو عیدیں ہی نہیں بلکہ ہر دن ہمارے لیے عید کا دن ہو گا کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کے لیے اس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے جس سے اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر ہمیں نوازے گا۔ ہم قرآن کریم کو پڑھ اور سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کا ہمیں وارث بنائے گا۔ ہم حقوق العباد کی ادائیگی کی کوشش کریں گے تو خدا تعالیٰ اپنی محبت کی نظر ہم پر ڈالے گا اور یہی چیزیں ہیں جس کو مل جائیں اس کی حقیقی عید ہو جاتی ہے۔ دعا اور کوشش کرنی چاہیے کہ یہ حقیقی عید ہم حاصل کرنے والے ہوں۔

آخر میں میں دعا کی طرف بھی توجہ دلانی چاہتا ہوں۔سب سے پہلے تو فلسطینی لوگوں کے لیے دعا کریں جن پر آج کل بہت زیادہ ظلم ہو رہے ہیں اور ان کو اپنے علاقوں میں ہی جانے کے لیے، مسجد اقصیٰ میں جانے کے لیے پرمٹ کی ضرورت ہے جو دیے نہیں جاتے جس سے ان کو روکا جاتا ہے اور جو نماز پڑھنے کے لیے گئے تو وہاں زبردستی ان پر ظلم کیا گیا، ان کو مارا گیا۔ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے ان کو ظلم کا نشانہ بننا پڑا۔ پھر اسی طرح ان کو جو شیخ جرّاح ان کا محلہ ہے، ایک چھوٹی سی آبادی ہے وہاں سے ان کو زبردستی نکالا جا رہا ہے۔ وہ ان کی اپنی جگہیں ہیں۔ اس پر اب میڈیا نے بہت سارا لکھنا شروع کر دیا ہے بلکہ اسرائیل کے اپنے اخباروں نے بھی لکھنا شروع کر دیا ہے۔ بعض جگہ پہ ان کے میڈیا نے بھی لکھنا شروع کیا ہے جو انصاف پسند ہیں۔ اور پولیس لوگوں پرآنسو گیس اور گولیاں برسا رہی ہے بلکہ ایئر سٹرائکس(Air Strikes) بھی کیے ہیں اس لیے کہ یہاں دشمن چھپے ہوئے ہیں، ان کو ہم مار رہے ہیں لیکن حقیقت میں ظلم کیا جا رہا ہے اور عوام الناس کو مارا جا رہا ہے۔ پھر یہ ہے کہ جو زخمی ہوتے ہیں سنا یہ ہے، پریس کی یہ رپورٹ ہے بعض جگہ کی کہ اسرائیلی پولیس طبی خیموں تک بھی ان کو پہنچنے نہیں دے رہی۔ میڈیکل ایڈ سے بھی ان کو محروم کیا جا رہا ہے۔ تو بہرحال مسجد اقصیٰ میں جو ظلم ہوا مَیں نے بتایا، اللہ تعالیٰ ان مظلوموں پر رحم اور فضل فرمائے اور ظالموں کی پکڑ کرے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ امریکہ کہنے کو بڑا انصاف پسند ہے لیکن نَو بچوں کے قتل پہ کوئی انہوں نے سٹیٹمنٹ نہیں دی، کوئی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا جب تک یہ نَو تھے اب تو اَور بھی زیادہ ہو چکے ہیں۔

پھر نیو یارک ٹائمز نے بھی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسرائیل اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں پہ اسرائیل یہودیوں کو فوقیت دیتا ہے۔ انصاف تو ہے ہی نہیں تو ظاہر ہے فوقیت دینی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ بھی یہی ہے کہ فلسطینیوں پر بہت زیادہ ظلم کیا جا رہا ہے۔ اسرائیلی قومی اخبار ہیرٹز(Haaretz) لکھتا ہے کہ یروشلم ابل رہا ہے۔ دمشق گیٹ پر رکاوٹیں کھڑی کرنا ایک اشتعال انگیز احمقانہ قدم تھا جس نے شیخ جراح محلہ میں سینکڑوں فلسطینیوں کو گھروں سے بے دخل ہونے کے پس منظر میں رمضان المبارک کے مقدس موقع پر رہائشیوں کو پریشان کر دیا۔ پھر ہیرٹز یہ بھی لکھتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ انصاف کا انوکھا ورژن ہے جس کا اطلاق اس اصول پہ کیا جاتا ہے کہ جو میرا ہے وہ ہمیشہ کے لیے میرا ہے اور جو تمہارا ہے وہ بھی ہمیشہ کے لیے میرا ہے۔ اسی طرح ان سے فلسطینیوں کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔

بہرحال اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور یہ عید کی خوشیاں ان کے لیے تو غموں کا پہاڑ لے کر آئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے غموں کو خوشیوں میں تبدیل کرے۔ ان کو سکون کی زندگی میسر ہو۔ ان کو لیڈر شپ بھی ایسی اچھی ملے جو ان کی صحیح راہنمائی کرنے والی ہو۔ مسلم ممالک اکٹھے ہو کر اپنا کردار ادا کریں تو فلسطینیوں کو اور جو دوسری جگہ مظلوم مسلمان ہیں، جہاں بھی ہیں، ان کو ظلموں سے بچا سکتے ہیں۔ لیکن مسلم اُمہ بھی اکٹھی نہیں ہوتی مسلم ممالک کو جو ردّ عمل دکھانا چاہیے تھا اس زور سے نہیں دکھایا جا رہا۔ ہلکے پھلکے بیان دے دیتے ہیں حالانکہ بڑا اکٹھا ایک مشترکہ بیان ہوتا تو اس میں طاقت ہوتی۔ تو بہرحال اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی لیڈر شپ کو بھی عقل دے اور اسرائیلیوں کو بھی عقل دے کہ وہ ظلم نہ کریں۔ فلسطینیوں کو بھی جو بغیر لیڈر شپ کے اپنی مرضی کر رہے ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ اس لحاظ سے بھی عقل دے اگر ان کی طرف سے کوئی ظلم ہے، اول تو نہیں ہے، وہ مظلوم ہیں، اگر وہ ڈنڈے کا استعمال کر رہے ہیں تو وہاں توپوں کا استعمال ہو رہا ہے۔ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں طاقت کے توازن کی تو کوئی نسبت ہی نہیں ہے۔ پس فلسطینیوں کے لیے بہت زیادہ دعا کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ان کے حالات کو بہتر کرے اور ان کے لیے آزادی کے سامان پیدا کرے اور جو پہلے معاہدے کے تحت، ابتدائی معاہدے کے تحت جو ان کوجگہیں میسر ہیں وہ ان کو ملی رہیں اور اس پر قائم رہیں۔

اسی طرح تمام دنیا کے مظلوم احمدیوں کے لیے بھی دعائیں کریں جن پر سختیاں کی جا رہی ہیں پاکستان میں یا الجزائر میں یا کسی بھی ملک میں اللہ تعالیٰ ان کو بھی مخالفین اور اگر حکومتی کارندے ہیں تو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ دنیا کے تمام ضرورت مند لوگوں کے لیے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کی جائز ضرورتوں کو پورا فرمائے، ان کی مشکلات کو دور فرمائے۔ عمومی طور پر دنیا میں ظلم کے خاتمہ کے لیے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا سے ظلم کا خاتمہ کرے اور خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے یہ لوگ ہو جائیں۔ آج کل جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس کے لیے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اس وبا سے بھی جلد نجات دے اور وہیں دوبارہ ایسے حالات پیدا ہوں جہاں امن ہو اور دوبارہ نارمل حالات پہ دنیا آ جائے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب دنیا والے خدا تعالیٰ کو پہچانیں گے، اللہ کا حق ادا کرنے والے بنیں گے اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنے والے بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭