خطبہ عیدالفطر سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم ستمبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حٰمٓ سجدہ:31)

               اس آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے، پھر استقامت اختیار کی، ان پر بکثرت فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ اور اس جنّت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دئیے جاتے ہو۔

               انسان کی زندگی میں خوشی کے دن بھی آتے ہیں اور غمی کے دن بھی آتے ہیں۔ خوشی کی وجوہات بھی کئی ہیں اور یہ کئی طرح اورقِسموں کی ہوتی ہے۔ اسی طرح غموں کی وجوہات بھی ہوتی ہیں اور یہ مختلف نوع کے ہوتے ہیں۔ ذاتی خوشی غمی بھی ہے، خاندانی خوشی غمی بھی ہے، جماعتی خوشی غمی بھی ہے، ملکی اور قومی خوشی غمی بھی ہے، دینی اور روحانی خوشی غمی بھی ہے۔ ایک مومن اور تقویٰ پر چلنے والے یا چلنے کی کوشش کرنے والے کے لئے خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور رضا بھی غمی اور خوشی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ غرض کہ بیشمار قسم کی خوشیاں اور غمیاں ہیں اور ان خوشیوں اور غمیوں کی بے شمار وجوہات ہیں۔ لیکن ایک مومن کے لئے دینی اور روحانی خوشی غمی اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور ناراضگی کی خوشی غمی بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور رکھنی چاہئے۔ دینی اور روحانی خوشی کا ذریعہ اپنے بچے اور قریبی بھی بنتے ہیں۔ جب اُن کی دینی اور روحانی حالت دیکھ کر یا جب وہ دین اور روحانیت میں ترقی کر رہے ہوں تو ماں باپ کو بھی اور قریبیوں کو بھی خوشی پہنچتی ہے ۔ اُن سے پیار کرنے والوں کو بھی خوشی پہنچتی ہے۔ خلیفۂ وقت کو بھی خوشی پہنچتی ہے کہ افرادِ جماعت تقویٰ میں ترقی کر رہے ہیں جو جماعت کی مضبوطی اور ترقی کا باعث ہے۔ اسی طرح دینی اور روحانی غمی کا ذریعہ بھی بچے اور قریبی بن رہے ہوتے ہیں۔ جب ماں باپ اور اُن سے محبت کرنے والے اُن کی دینی اور روحانی حالت میں تنزل دیکھتے ہیں تو ایک عجیب غم کی حالت ایسے حالات میں ہوتی ہے۔ بعض دفعہ مجھے کئی ماں باپ کے، قریبیوں کے بے چینی سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں ۔ بیویوں کے اور خاوندوں کے خط آتے ہیں جن میں شدید بے چینی اور تکلیف کا اظہار ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں یا قریبیوں یا خاوندوں یا بیویوں کی روحانی حالت اور دینی وابستگی میں کمزوری واقع ہو رہی ہے جس نے ہمیں بے چین کر رکھا ہے۔ دعاکریں اُن کی حالت سدھر جائے۔ بعض جن میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اُن کی حالت دیکھ کر تو اُن کے قریبی یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ ہمارا اِن سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر جماعت یا دین سے رُوگردان ہے تو ہمارا اور اس کا رشتہ بھی ختم ہے۔ وہ یہ لکھ تو دیتے ہیں، کہہ تو دیتے ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ یہ اظہار کرتے ہوئے اور یہ تعلق توڑتے ہوئے اُن پر کس قدر غم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ پھر اسی طرح خود انسان سے بعض غلطیاں ہو جاتی ہیں جو دین اور روحانیت میں گراوٹ کا باعث بنتی ہیں اور جب احساس ہوتا ہے، جب آنکھیں کھلتی ہیں کہ میں ان غلطیوں کی وجہ سے کہاں پہنچ گیا ہوں تو پھر انسان شدید غم کی کیفیت میں ڈوب جاتا ہے۔ جب غلطیوں کی وجہ سے، نظامِ جماعت کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے اور لوگوں کے حقوق غصب کرنے کی وجہ سے سزا ہوتی ہے تو پھر احساس ہوتا ہے کہ ہم تو تباہی کے گڑھے میں گر رہے ہیں۔ پھر معافیوں کے خطوط کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ بڑی شدت سے اس بات کا اظہار ہو رہا ہوتا ہے کہ ہم جماعت سے کٹ کر ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپ رہے ہیں۔ ایسی مچھلی کی طرح تڑپ رہے ہیں جس کو پانی سے باہر نکال دیا گیا ہو۔  اس کے ساتھ ہماری دنیا بھی اندھیر ہو گئی ہے۔ یہ احساس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر اُس احمدی میں ہو تا ہے جس کے دل میں جماعت سے محبت اور خدا کا خوف ہے۔ اور اِلاَّ ماَشَآئَ اللّٰہ خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے ہر احمدی کے دل میں یہ احساس ہے۔ اور جب اُس سزا سے معافی ہو جائے تو ایسے لوگوں اور اُن کے خاندانوں کی خوشی بھی دیدنی ہوتی ہے۔گویا یہ دن اُن کے لئے عید کا دن ہوتا ہے۔ پس ایک دنیادار کے لئے تو دنیا کے لہو و لعب خوشیاں پہنچانے والی ہوتی ہیں لیکن خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے اور خدا تعالیٰ کی رضا چاہنے والے ایک احمدی کے لئے جماعت سے جڑے رہنا حقیقی خوشی کا ذریعہ بنتا ہے جس نے زمانے کے امام کو اس لئے مانا ہے کہ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کا حکم ہے اور یہ اُس کی دنیا و عاقبت سنوار کر حقیقی خوشیاں پہنچانے والا ہے۔ لیکن کیا صرف جماعت میں آنا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر اپنا نام جماعت احمدیہ کی فہرست میں شامل کروا لینا ہی کافی ہے جس سے حقیقی خوشیاں ملیں؟ جس سے ہمارا ہر دن روزِ عید ہو جائے؟ نہیں، بلکہ اس کے لئے دین سے ایک تعلق، اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق، حقیقی توبہ جس سے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف دھیان رہے اُس کی ضرورت ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ توبہ کیا چیز ہے؟ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا باتیں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کر کے ہم دائمی خوشیاں پا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ انسان کے لئے حقیقی عید کا دن تو توبہ کا دن ہے۔ اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:

               ’’سب صاحب یاد رکھیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اسلام میں ایسے دن مقرر کئے ہیں کہ وہ دن بڑی خوشی کے دن سمجھے جاتے ہیں اور ان میں اﷲ تعالیٰ نے عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔ منجملہ ان دنوں کے ایک جمعہ کا دن ہے۔ یہ دن بھی بڑا ہی مبارک ہے‘‘۔ فرمایا ’’ایسا ہی اسلام میں دو عیدیں ہیں۔ ان دونوں دنوں کو بھی بڑی خوشی کے دن مانا گیا ہے اور ان میں بھی عجیب عجیب برکات رکھی ہیں۔ لیکن یاد رکھو کہ یہ دن بیشک اپنی اپنی جگہ مبارک اور خوشی کے دن ہیں۔ لیکن ایک دن ان سب سے بھی بڑھ کر مبارک اور خوشی کا دن ہے، مگر افسوس سے دیکھا جاتاہے کہ لوگ نہ تو اس دن کا انتظار کرتے ہیں اور نہ اس کی تلاش۔ ورنہ اگر اس کی برکات اور خوبیوں سے لوگوں کو اطلاع ہوتی یا وہ اس کی پروا کرتے تو حقیقت میں وہ دن ان کے لیے بڑ ا ہی مبارک اور خوش قسمتی کا دن ثابت ہوتا اور لوگ اُسے غنیمت سمجھتے۔وہ دن کونسا دن ہے جو جمعہ اور عیدین سے بھی بہتر اور مبارک دن ہے؟ مَیں تمہیں بتاتا ہوں ‘‘۔ فرمایا ’’مَیں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ دن انسان کی توبہ کا دن ہے جو ان سب سے بہتر ہے اور ہر عید سے بڑھ کر ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس دن وہ بد اعمال نامہ جو انسان کو جہنم کے قریب کرتا جاتا ہے اور اندر ہی اندر غضبِ الٰہی کے نیچے اُسے لا رہا تھا دھو دیا جاتا ہے اور اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ حقیقت میں اس سے بڑھ کر انسان کے لیے اور کونسا خوشی اور عید کا دن ہوگاجو اسے ابدی جہنم اور ابدی غضب الٰہی سے نجات دیدے۔ توبہ کرنے والا گنہگار جو پہلے اﷲ تعالیٰ سے دور اور اس کے غضب کا نشانہ بنا ہوا تھا۔اب اس کے فضل سے اُس کے قریب ہوتا اور جہنم اور عذاب سے دور کیا جاتا ہے‘‘۔  (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 114-115 ۔ایڈیشن 2003ء ۔مطبوعہ ربوہ)

               پس وہ کیا ہی خوش قسمت ہے جو اس دن کو پا لے۔

               اور توبہ کس قسم کی ہونی چاہئے؟ اس بارے میں بیان فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

               ’’ انسان کو چاہئے کہ اگر توبہ کرے تو خالص توبہ کرے‘‘۔ فرمایا’’ توبہ اصل میں رجوع کو کہتے ہیں۔ صرف الفاظ ایک قسم کی عادت ہو جاتی ہے‘‘۔ یعنی عادتاً توبہ کے الفاظ دہرانا یا استغفار کرنایہ تو ایک عادت ہے کہ الفاظ دہراتے گئے ۔ صرف الفاظ نہیں ہونے چاہئیں ورنہ یہ تو ایک عادت ہو جاتی ہے۔ فرمایا’’ اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ صرف زبان سے توبہ توبہ کرتے پھرو۔ بلکہ فرمایا کہ خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرو جیسا کہ حق ہے رجوع کرنے کا‘‘۔اب رجوع کرنا کیا ہے؟ رجوع کرنا واپس آنے اور لَوٹنے کو کہتے ہیں۔ انسان اپنے بد خیالات کی وجہ سے، اپنے بد اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے یا شیطان اُس کو بہکاوے میں لانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اُس کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔ اس لئے اگر انسان یہ سوچ کر مستقل توبہ کی طرف متوجہ رہے کہ مَیں نے شیطان کے حملوں سے بچنا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ہی چمٹے رہنا ہے۔ اُس سے مدد مانگنی ہے تو یہ حقیقی توبہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ جب متناقض جہات میں سے ایک کو چھوڑ کر انسان دوسری طرف آ جاتا ہے‘‘ یعنی جو سمتیں ایک دوسرے کے مخالف ہوتی ہیں اُن میں سے ایک کو چھوڑ کر دوسری طرف آ جاتا ہے۔ مشرق کو چھوڑ کر مغرب کی طرف آ جاتا ہے۔ شمال کو چھوڑ کر جنوب کی طرف آ جاتا ہے’’ تو پھر پہلی جگہ دور ہوجاتی ہے اور جس کی طرف جاتا ہے وہ نزدیک ہوتی جاتی ہے۔ یہی مطلب توبہ کا ہے کہ جب انسان خدا کی طرف رجوع کر لیتا ہے اور دن بدن اُسی کی طرف چلتا ہے تو آخر یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ شیطان سے دور ہو جاتا ہے اور خدا کے نزدیک ہو جاتا ہے۔ اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو جس کے نزدیک ہوتا ہے اُسی کی بات سنتا ہے۔ اس لئے ایسے انسان پر جو عملی طور پر شیطان سے دُور اور خدا سے نزدیک ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا نزول ہوتا ہے اور سفلی آلائشوں کا گند اُس سے دھویا جاتا ہے۔  (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 409 ۔ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

               پس یہ وہ مقصود ہے جسے حاصل کرنے کی ہمیںکوشش کرنی چاہئے۔ خوشی یا غمی صرف ظاہری تکلیفوں یا انعامات کے ملنے یا جماعتی تعزیرات اور معافیوں کے ہونے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ حقیقی غم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا غم ہے اور حقیقی خوشی اللہ تعالیٰ کی رضا اور توبہ قبول ہونے کی خوشی ہے۔ اس لئے ہر احمدی کو یہ مقصود اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے کہ اُس نے اللہ تعالیٰ کے قریب ہونا ہے اور شیطان سے دور ہونا ہے تبھی حقیقی خوشی کو پانے کی کوشش ہو گی اور تبھی حقیقی عید منانے والے ہم بن سکیں گے۔ کیونکہ یہ توبہ ہی ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ کا محبوب بنا سکتی ہے، اُس کے قریب لا سکتی ہے۔ اور جب بندے سے خدا تعالیٰ محبت کرنے لگ جائے تو اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کی بات ہو سکتی ہے۔

                حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

               ’’حقیقی توبہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور اس سے‘‘( یعنی توبہ سے)’’ پاکیزگی اور طہارت کی توفیق ملتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ  اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ  وَ یُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ  (البقرہ :223)

یعنی اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور نیز اُن لوگوں کو دوست رکھتا ہے جو گناہوں کی کشش سے پاک ہونے والے ہیں۔ توبہ حقیقت میں ایک ایسی شئے ہے کہ جب وہ اپنے حقیقی لوازمات کے ساتھ کی جاوے تو اس کے ساتھ ہی انسان کے اندر ایک پاکیزگی کا بیج بویا جاتا ہے جو اُس کو نیکیوں کا وارث بنا دیتا ہے۔ یہی باعث ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایساہوتا ہے کہ گویا اُس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ یعنی توبہ سے پہلے کے گناہ اُس کے معاف ہو جاتے ہیں۔ ……اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک عہدِ صلح باندھا جاتا ہے اور نیا حساب شروع ہو تا ہے۔  (ملفوظات جلد سوم صفحہ 432 ۔ ایڈیشن 2003ء۔مطبوعہ ربوہ)

               پرانے گناہ معاف اور نیا حساب شروع ہو جاتا ہے۔ پس جب ہم ایسی توبہ کی کوشش کریں گے تو اس سے زیادہ خوشی کا دن ہمارے لئے اور کیا ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے گزشتہ گناہوں کو معاف کرتے ہوئے ہمارا دوست بن جائے۔ ہمیں اُن نیکیوں کا وارث بنا دے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور جب یہ احساس ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہمارا دوست بن گیا ہے تو ہر اُس چیز سے نفرت ہو گی جو خدا تعالیٰ کو ناپسند ہے اور ہر اُس چیز سے محبت ہو گی جو خدا تعالیٰ کی محبوب ہے یا خدا تعالیٰ کو محبوب ہے۔

               پھر ایک مومن کی، اللہ تعالیٰ کی رضا کے طالب ایک شخص کی کوشش ہو گی کہ میں وہ اعمال بجا لاؤں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ پھر انسان ایک خوف اور خشیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی تلاش میں رہے گا۔ اُن حکموں کی تلاش میں رہے گا جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تا کہ اُن کو بجا لا سکے۔ اُن حکموں کی تلاش میں رہے گا جن کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تا کہ اُن سے بچ سکے۔ تا کہ کہیں پھر میرا خدا ،جس نے مجھے برائیوں سے نکال کر نیکیوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے اور جس نے میرے گزشتہ گناہ معاف کئے ہیں، میری کسی بدعملی سے ناراض نہ ہو جائے۔ گو یہ بھی ایک مخفی غم ہے  انسان کی جو فکر ہے وہ فکر بھی غم میں بدل جاتی ہے۔لیکن یہ غم اللہ تعالیٰ کے دوبارہ ناراض نہ ہو جانے کے خوف اور فکر کا غم ہے جو توبہ کی طرف مسلسل متوجہ رکھتا ہے۔ یہ غم اصل میں اپنے اندر خوشیاں لئے ہوئے ہے کیونکہ یہ غم اپنے مولیٰ، اپنے پیارے خدا کا حقیقی عبد بننے کے معیار حاصل کرنے کا غم ہے۔ یہ غم پیار کے نئے راستے تلاش کرنے کا غم ہے جو ہزاروں لاکھوں خوشیاں لانے والا ہے۔ پس ایسے غم کسی تکلیف اور برائی کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر کے اُس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لئے ہوتے ہیں۔ ایسے غم دنیا اور عاقبت سنوارنے کے لئے ہوتے ہیں۔ایسے غم عیدوں کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہ غم نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کے حصول کی تڑپ اور ایک لگن اور ایک جلن ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا کہ    ؎

اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب                      کہ راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب

(نشانِ آسمانی روحانی خزائن جلد چہارم صفحہ 410)

               پس وہ کیا ہی خوش قسمت ہیں وہ جن کے غم بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں اور اس کے لئے دل سے نکلی ہوئی دعائیں اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلا رہی ہوں۔ پس رمضان میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے حصول اور اُس کی رضا پر چلنے کے لئے ہم نے جو دعائیں اور کوششیں کی ہیں، اللہ تعالیٰ کے رحم اور مغفرت کی چادر میں لپٹنے کے لئے جو دعائیں کی ہیں، اپنے اعمال کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی مطابق ڈھالنے کی جو ہم نے حقیر معمولی کوششیں کی ہیں ، اللہ انہیں قبول فرمائے ۔اور یقینا وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہوں نے یہ کوششیں کی ہیں کیونکہ حقیقی عید تو ایسے ہی لوگوں کی ہوتی ہے جو یہ کوشش کرنے والے ہیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو رَبُّنَا اللّٰہ کا اِدراک رکھتے ہوئے اس کا نعرہ لگاتے ہیں اور جو رَبُّنَا اللّٰہ کا ادراک رکھتے ہوئے یہ آواز بلند کرتے ہیں۔ حقیقی عید تو اُنہی کی عید ہے۔ حقیقت میں یہی عید ہے جس کے حصول کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے لیکن جن کی کوشش توبہ کے حصول کے معیار حاصل نہیں کر سکی، اُن کے دروازے بند نہیں ہو گئے۔ اگر ہماری کمزوریاں ہمیں ہماری عبادت کے وہ معیار حاصل کرنے والی نہیں بنا سکیں جو ہدایت کے راستوں پر چلانے والے ہیں اور مستقل قائم رہنے والے راستے ہیں، ہدایت پر قائم رکھنے والے راستے ہیں جن کی وضاحت مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سورۃ فاتحہ کی تفسیر کی روشنی میں اِیَّا کَ نَعْبُدُ  وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی تفسیر کی روشنی میں گزشتہ دو خطبات میں بیان کی ہے تو ایسے لوگوں کے لئے مایوسی نہیں ہے۔ گو رمضان کی برکات سے جو فائدہ اُٹھایا جانا تھا وہ تو نہیں اُٹھایا جا سکا لیکن اگر آج عید کے دن بھی یہ احساس ہو جائے کہ ہمیں جو حاصل کرنا چاہئے تھا وہ ہم نہیں حاصل کر سکے، اب بھی ہمیں اُس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ حقیقی توبہ کی طرف متوجہ ہوں اور یہ عہد کریں کہ اس عید نے ہمیں جھنجوڑ دیا ہے اس طرف توجہ دلا دی ہے اور ہم آج سے اپنے ہر قول اور فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنائیں گے اور حقیقی توبہ کرتے ہوئے اُس کے آگے ہی جھکتے ہیں توجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے یہ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ  کی دل سے نکلی ہوئی دعا اور آواز ہی ہے جو حقیقی عید کا دن بن جائے گی۔

               لیکن جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تر طاقتوں سے رجوع اور اپنی کمزوریوں ،کوتاہیوں کو پیچھے چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی طرف  مسلسل بڑھنا ہو گا۔ قرآنِ کریم میں سے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کی تلاش کرنی ہو گی۔ ان حکموں کی تلاش کرنی ہو گی جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اُن حکموں کی تلاش کرنی ہو گی جن کے نہ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے تا کہ اُن سے بچا جا سکے کیونکہ حقیقی توبہ تمام نیکیوں کے بجا لانے اور تمام برائیوں سے بچنے کی کوشش سے ہی قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔ جب اس بات پر یقین پیدا ہو جائے گا کہ دنیا کی تمام خوشیاں عارضی ہیں لیکن میرا ایک ربّ ہے، ایک اللہ ہے جس سے تعلق جوڑنا ہی دنیا و آخرت کی خوشیوں اور حسنات کا وارث بنا سکتا ہے۔ وہی ایک خدا ہے جس سے تمام خوشیاں وابستہ ہیں۔ وہی ایک اللہ ہے جس کی ناراضگی سے دین و دنیا اندھیر ہو جاتے ہیں اور غموں کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں۔ پس اس سے مستقل تعلق اور اس کا صحیح عبد بننا حقیقی خوشیاں دلانے والا بناتا ہے۔پس یہ سوچ ہمارے اندر پیدا ہونی چاہئے۔

                یہ آیت جو مَیں نے شروع میں تلاوت کی ہے اس میں اسی مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں متوجہ فرمایا ہے کہ اللہ ہمارا رب ّہے۔ یہ اعلان خوفوں اور غموں کو دور کرتا ہے لیکن یہ واضح فرما دیا کہ رَبُّنَا اللّٰہ   کا اعلان یا صرف یہ نعرہ ہی اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا اور خوفوں اور غموں کو دور کرنے والا نہیں بنائے گا بلکہ مستقل مزاجی سے اس پر قائم بھی رہنا ہو گا۔ ایک دفعہ کا نعرہ یا چند دن کا نعرہ یا رمضان میں دعاؤں کی طرف توجہ کر کے رَبُّنَا اللّٰہ  کا اعلان کرنا کافی نہیں ہے بلکہ مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہنا ہو گا اور استقامت دکھانی ہو گی۔  جب استقلال حاصل ہو گا تو تمام برائیوں سے نفرت ہو گی، نیکیوں کے اختیار کرنے کی طرف توجہ ہو گی اور نیکیوں کی بجا آوری ہی ہے جن کے بجا لانے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر خوشخبری بھی ہے۔

                جیسا کہ مَیں نے گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں بھی کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بندہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیزپر مقدم کر لیتا ہے۔  رَبُّنَا اللّٰہ  کہہ کر خدا تعالیٰ کی ربوبیت کو کُلّی طور پر ہر قسم کی ربوبیت سے بالا سمجھتا ہے تو تبھی سمجھا جاتا ہے کہ اللہ جو خدا تعالیٰ کا اسمِ اعظم ہے اُس کو ہر چیز سے مقدم رکھتا ہے اور جب اللہ ہر چیز پر مقدم ہو اور مستقل مزاجی سے اور استقامت دکھاتے ہوئے بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا رہے، اُس کی رضا کے حصول کی کوشش کرتا رہے، اُس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہے تو بندے کی استقامت بندے کے لئے اسمِ اعظم بن جاتی ہے۔ ایک ایسی حالت ہو جاتی ہے جو بندے کا خدا سے مضبوط تعلق پیدا کر دیتی ہے۔ ایک مضبوط تعلق بن جاتا ہے اور پھر یہ دونوں اسمِ اعظم جب جمع ہو جائیں تو فرمایا اُس وقت دعا کا بھی ایک خاص مزہ ہوتا ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کا یہ اعلان کہ  اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمیعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعا سنوں گا، اس کا مزہ آ جاتا ہے۔ ایسی حالت کا مزہ ایک بالکل انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد سوم صفحہ 37  ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

               پس ایک مومن کے لئے تو حقیقی عید کا مزہ بھی تبھی دوبالا ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ دعاؤں کی قبولیت کے نظارے بھی دکھائے۔ جب ایک درد کے ساتھ دعائیں کرنے کی توفیق ملے۔ رمضان میں ہم میں سے اکثر ایسی دعاؤں کے کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ راتوں کو جاگتے ہیں، جاگتے رہے ہیں۔ نوجوانوں میں بھی مَیں نے دیکھا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعائیں کرنے اور اعتکاف بیٹھنے کا بڑا رجحان پیدا ہوا ہے لیکن جگہ کی تنگی کی وجہ سے اکثر نوجوانوں کو، لوگوں کو انکار بھی کرنا پڑا۔ بہر حال رمضان میں جو ایک کوشش اور تڑپ ہر ایک میں پیدا ہو ئی ہے اس میں جب استقامت ہو گی تو پھر رَبُّنَا اللّٰہ  کا حقیقی ادراک بھی حاصل ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ کو پکارنے، دعائیں کرنے اور اللہ تعالیٰ کے دعاؤں کو سننے کا مزہ بھی اور ہی طرح کا ہو گا۔ اور حقیقت میں اس عید کے حصول کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اس کے ساتھ جنتوں کی بشارتیں ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے، وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حٰمٓ سجدہ:31)۔  اس جنت کے ملنے سے خوش ہو جاؤ جس کا تم وعدہ دئیے گئے ہو۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ ’’اس جنت سے یہاں مراد دنیا کی جنت ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 558-559 ۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

                دنیا میں ہی اللہ تعالیٰ کی خوشی کے سامان پیداہوتے ہیں اور انسان اپنی دعاؤں کی قبولیت کے مزے دیکھتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو کر جن کواللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی جنت دکھا دے، وہ کس قدر خوش قسمت ہیں؟ اس دنیا کی جنت ہی ہے جو پھر آئندہ جنت کی خوشخبری بھی دیتی ہے اور اُس کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ بہت لوگ رمضان میں اور اس کے بعد اپنی رمضان میں کی گئی دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کے خاص سلوک کے بارے میں مجھے لکھتے ہیں ۔ پس حقیقی عید تو اُن کی اُس وقت ہو جاتی ہے جب اللہ تعالیٰ سے یہ تعلق پیدا ہو جائے اور ایسی ہی عید ہے جس کی تلاش ہر ایک کو کرنی چاہئے کہ رَبُّنَا اللّٰہُ  کا عرفان بھی حاصل ہو جائے اور  اُدۡعُوۡنِیۡ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ کا مزہ بھی انسان لے لے۔ ورنہ صرف اس انتظار میں رمضان گزارنا کہ عید آئے گی تو خوشیاں منائیں گے۔ شور شرابا کریں گے، دعوتیں کھائیں گے، کپڑے پہنیں گے، تو ایسا رمضان بھی بغیر برکتوں کے گزر جاتا ہے اور ایسی عید بھی شاید دنیاوی لحاظ سے تو ظاہری خوشی کے سامان کر رہی ہو لیکن جنت کی بشارت سے خالی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خاص تعلق کے اظہار سے خالی ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندے کے کان، آنکھ، ہاتھ، پیر ہو جاتا ہے۔ اس کا حدیث میں اس طرح ذکر ملتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے ولی سے دشمنی کرتا ہے مَیں اُس سے اعلانِ جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ سب سے زیادہ اُن باتوں سے میرے قریب ہوتا ہے جو مَیں نے اُس پر فرض کی ہیں اور مجھے سب سے زیادہ پیاری ہیں۔ اور میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ مَیں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پس مَیں اُس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔ اُس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اور اُس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔ اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور وہ مجھ سے مانگے تو میں اُس کو ضرور دوں گا۔ اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں ضرور اُس کو پناہ دوں گا ۔اور مجھے کبھی کسی کام کے کرنے میں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا تردّد کسی ایسے مؤمن کی جان لینے میں ہوتا ہے جو موت کو ناپسند کرتا ہے ۔مجھے اُس کی ناپسندیدگی گوارہ نہیں ہوتی۔ موت تو برحق ہے لیکن اُس کو ایک وقت تک ٹالتا ہے۔

 (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب التواضع حدیث 6502)

               پس خوش قسمت ہیں  ہم میں سے وہ جن کا رمضان اُن کو ایسی عید کی خوشیاں دلا گیا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے انعامات کے راستے بند نہیں کر دئیے۔اُس کی رحمت بہت وسیع ہے اور ہر چیز پر حاوی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے ملنے اور دنیا و آخرت کی حسنات کے ملنے کے راستے ہمیشہ کھلے ہیں۔ اگر انسان توبہ کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھے تو پھر اللہ تعالیٰ اُس کو دوڑ کر گلے لگاتا ہے۔ دنیا و آخرت کی جنت اُسے ملتی ہے جیسا کہ فرمایا وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ(الرحمن : 47)۔  اور جو شخص اپنے ربّ کی شان سے ڈرتا ہے اُس کے لئے اِس دنیا کی بھی اور اُس دنیا کی بھی دو جنتیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے مقام سے وہی ڈر سکتا ہے جس کو اللہ جو سب طاقتوں کا مالک ہے اُس کے ربّ ہونے کا ادراک ہو جاتا ہے۔ جو رَبُّنَااللّٰہ کی آواز بلند کرتا ہے تو پھر استقامت دکھاتے ہوئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے ہی اُس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ پھر جیسا کہ حدیث سے پتہ چلتا ہے بندہ جو قربت اللہ تعالیٰ سے فرائض کے ذریعے، نوافل کے ذریعے حاصل کرتا ہے وہ اُسے اللہ تعالیٰ کی محبت کا مورد بنا دیتی ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ بندے سے محبت کرنے لگ جائے تو پھر انسان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی جنّت نہیں ہے۔ اور انسان کے لئے کوئی خوشی کا دن نہیں ہے۔

                پس ہم نے رمضان میں ایک ماحول کے زیرِ اثر نوافل کے ذریعے خدا تعالیٰ کی رضا اور محبت حاصل کرنے کی جوکوشش کی ہے اِس میں استقامت اور اسے مسلسل جاری رکھنا ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت میں اور اللہ تعالیٰ کی ہم سے محبت میں بڑھائے گا اور پھر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اس حدیث میں فرمایا ہے اس محبت اور دوستی کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے ایسے بندے کے دشمن کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی عافیت کے حصار میں آ جاتا ہے۔ پس جب یہ صورت ہو تو ہر دن روزِ عید ہو جاتا ہے۔

               پس اس اہم نکتہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رمضان کے بعد کی عید جو عید الفطر کہلاتی ہے یا بڑی عید جو قربانی کی عید کہلاتی ہے ایک عید یا دو عیدوں کی طرف نہیں بلا رہی بلکہ اُن عیدوں کی طرف بلا رہی ہے جو نہ ختم ہونے والی عیدیں ہیں اور یہ عیدیں مستقل مزاجی اور استقامت دکھاتے ہوئے خدا تعالیٰ کا ہو جانے سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ عیدیں قربانی اور ایثار کے تسلسل سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ عیدیں اپنے فرائض کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہیں، یہ عیدیں اپنے نوافل کے ذریعے اپنے فرائض کو سجانے سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ عیدیںمخالفین کی ہر قسم کی کوشش کے باوجود اپنے عَہدوں کو نبھانے سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ عیدیں شیطانی وساوس اور دنیا وی لالچوںکے باوجودخداتعالیٰ کے ساتھ پختہ تعلق قائم رکھنے سے حاصل ہوتی ہیں ۔ یہ عید کی خوشیاں مسلسل اللہ تعالیٰ کا دامن پکڑے رہنے سے حاصل ہوتی ہیں۔

                پس رمضان میں راتوں کو اُٹھ کر خلوصِ نیّت سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کی ہم نے جو کوشش کی ہے۔ رمضان میں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے قسم ہا قسم کے کھانوں اور دوسری جائز باتوں سے ہم نے دن کے ایک حصے میں اپنے آپ کو روکے رکھا ہے، جس نے اطاعت کا ایک عظیم درس بھی ہمیں دیا ہے۔ رمضان میں جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے اپنے اموال کو اپنے بھائیوں کی ضروریات کے لئے اور دینی ضروریات کے لئے خرچ کیا ہے ان سب باتوں سے جو نیک عادات پیدا ہوئی ہیں، ان عادات کو ان نیکیوں کو حسبِ توفیق جاری رکھنا استقامت ہے اور یہی ایک مومن کا شیوہ ہے جو جنت کی خوشخبری کا باعث بنتی ہے اورجو حقیقی عید دلانے کا باعث بنتی ہے۔ اللہ کرے ہم یہ خوشخبریاں پانے والے ہوں اور ہماری عید حقیقی عید بن جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کا دشمن بن کر خود اُن سے انتقام لینے والا ہو۔ ہم اپنی روحانی ترقی کی بھی نئی منازل طے کرنے والے ہوں اور جماعتی ترقی کی بھی نئی سے نئی منازل دیکھنے والے ہوں۔ اس رمضان کے اطاعت کے سبق سے جو سبق ہم نے حاصل کیا ہے اس سے اطاعتِ نظام اور اطاعتِ خلافت کے اعلیٰ نمونے دکھانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری رمضان کی دعاؤں، ہمارے روزوں، ہمارے نوافل کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرما لے جن کے بارے میں ایک روایت میں آتا ہے۔

               حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عید الفطر کی رات میں

 اللہ تعالیٰ اُس کو اجر دیتا ہے جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے۔ پھر اللہ تعالیٰ عید الفطر کی صبح کو اپنے فرشتوں کو حکم دیتا ہے۔ پھر وہ زمین کی طرف اُترتے ہیں اور گلیوں کے دہانوں اور رستوں کے ملنے والی جگہوں پر کھڑے ہو کر ایسی آواز سے پکارتے ہیں جس کو انسانوں اور جنّوں کے سوا سب مخلوق سُن لیتی ہے۔ وہ آواز دیتے ہیں کہ  یَا اُمَّۃَ مُحَمَّدٍ کہ اے محمدؐ کی اُمت! اپنے ربّ جو عزت اور بزرگی والا رب ّہے اُس کی طرف نکلو جو تھوڑا عمل قبول کرتا ہے اور ثواب بڑھا کر دیتا ہے اور بڑا گناہ معاف کر دیتا ہے۔    (غنیۃ الطالبین جلد دوم صفحہ 496 فصل و انما سمی العید عیدًا۔۔۔ مطبوعہ: مطبع صدیقی لاہور)

                پس جب وہ اپنی عبادت کی جگہ یعنی عید گاہ کی طرف جاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں تو اُن کا پروردگار جو بہت برکت والا اور بلند شان والا ہے اُن کی کوئی حاجت نہیں چھوڑتا جسے وہ پورا نہیں کر دیتا اور نہ کوئی سوال رہنے دیتا ہے جس کا وہ جواب نہیں دیتا۔ اور نہ ہی کوئی گناہ رہنے دیتا ہے جسے وہ بخش نہیں دیتا۔ پھر وہ مَغْفُوْرٌ لَھُمْ کی حالت میں لوٹتے ہیں، ایسی حالت میں لوٹتے ہیںکہ جب اُنہیں بخش دیا گیا ہوتا ہے۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ دن’ یوم الجائزہ’ کا دن ہے یعنی انعامات اور اکرامات کا دن ہے۔

(المعجم الکبیر جلد اول صفحہ 226 ۔ اوس الانصاری باب فیما اعد اللہ عز و جل للمومنیہن یوم الفطر من الکرامۃ حدیث 617 دار احیاء التراث العربی بیروت 2002ء)

               ہماری دعا ہے کہ اگر ہماری عبادتوں میں، ہمارے روزوں کے حق ادا کرنے میں کمیاں بھی رہ گئی ہوں تب بھی خدا تعالیٰ یوم الجائزہ کی برکت سے، انعامات کے دن کی برکت سے ہمیں انعامات و اکرام سے محض اور محض اپنے فضل سے نوازتا رہے۔ ہمیںاپنی رحمت اور بخشش کے صدقے ہمیشہ نوازتا رہے۔ ہم بھی آج اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کے اس بہت بڑے انعام کو لے کرلَوٹیں۔ ہم اُس گروہ میں شامل ہوں جن کے بارے میں مَغْفُوْرٌ لَھُمْ کہا گیا ہے۔ جن کو بخش دیا گیا ہوتا ہے۔ ہم خدا تعالیٰ کی تمام تر رحمتوں کے وارث بن جائیں تا کہ ہماری عید حقیقی خوشیوں کی عید بن جائے۔

               اب ہم دعا کریں گے۔ دعا سے پہلے میں آپ کو عید مبارک کہتا ہوں اور اس خطبہ کی وساطت سے جو ایم ٹی اے پر نشر ہو رہا ہے تمام دنیا کے احمدیوں کو بھی عید مبارک۔ اللہ تعالیٰ کرے ہر لحاظ سے یہ عید خوشیوں کا باعث بنے، حقیقی عید بنے اور اس میں گناہوں کی مغفرت کے سامان پیدا ہوں۔ دعا میں جماعت کی ترقی کے لئے بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر دم، ہر آن جماعت کو ترقیات سے نوازتا چلا جائے اور ہم اُس کو دیکھنے والے بھی بنیں۔ واقفینِ زندگی کے لئے دعا کریں۔ واقفینِ نَو کے لئے دعا کریں۔ یہ لوگ جنہوں نے اپنا زندگی وقف کرنے کاعہد کیا ہے اس کو پورا کرنے والے ہوں اور اس کا حق بجا لانے والے ہوں۔ دنیاوی لالچ اُن میں کسی قسم کانہ ہو بلکہ خالصتاً لِلّٰہ  اپنے فرائض کی ادائیگی کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات اور پریشانیاں اور راستے کی روکیں بھی دور فرمائے اور میدانِ عمل میں ہر آن اُن کا حافظ و ناصر ہو۔ مالی قربانیاں کرنے والوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور اُن کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت ڈالے۔

               شہداء کے خاندانوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کا حافظ و ناصر ہو ۔اُن کو صبر، ہمت اور حوصلے سے اپنے صدمے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ شہداء کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے۔ اسیرانِ راہِ مولیٰ کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ جلد اُن کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ دنیا کے ظلموں سے بچنے کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر قسم کے ظلم سے بچا کے رکھے۔ قادیان کے احمدیوں کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو شعائر اللہ کی حفاظت کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ چار پانچ درویش رہ گئے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی عمر و صحت میں برکت دے۔

               ربوہ کے احمدیوں کے لئے جو براہِ راست خلافت کے سائے تلے رہے اور 1984ء کے بعد سے وہ اس سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی بھی دعائیں سنے اور دوبارہ اُن کی پرانی رونقیں جو ہیں واپس لوٹ آئیں۔ عمومی طور پر بھی پاکستان کے احمدیوں کے لئے، خاص طور پر نوجوان جو بڑی قربانیاں دے رہے ہیں اور مستقل مزاجی سے ہر خوف اور خطرے کا مقابلہ کر رہے ہیں اور(مقابلہ) کرتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بہترین اجر دے۔ ان سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ اُن کو شیطان کے ہر شر سے بچائے۔ پاکستان کے حالات تو بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُس کے بد اثرات سے احمدیوں کو محفوظ رکھے۔ ملک کو بھی بچائے کہ اس ملک کی تعمیر میں بھی اور اس کو قائم کرنے میں بھی جماعت احمدیہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں کے صدقے اس ملک کو بچانے کے سامان پیدا فرما لے۔

               انڈونیشیا کے احمدیوں کے لئے بھی کہ وہ بھی بڑی قربانیاں دے رہے ہیں اور بڑی مستقل مزاجی سے اور ایمان میں پختگی سے یہ قربانیاں دیتے چلے جا رہے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ احمدیوں پر مذہب کی بنیاد پر ظلم کیا جا رہا ہے اُن سب مظلوم احمدیوں کے لئے بہت دعا کریں۔اللہ تعالیٰ اُن کو ظلموں سے نجات دلائے۔ دنیا کو جنگ کی آفات سے بچانے کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو اس آفت سے بچائے جو بڑی تیزی سے تباہی کے گڑھے کی طرف جا رہی ہے۔

               احمدیوں کی ہر طرح کی دینی و دنیاوی مشکلات دور ہونے کے لئے دعائیں کریں۔ ہر ضرورتمند کی ضرورت پوری ہونے کے لئے دعا کریں۔ اپنی نسلوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی حقیقی عبد بننے کا ادراک عطا فرمائے اور جماعت سے اخلاص و وفا کا تعلق ہمیشہ اُن میں رہے۔ ہمیشہ جماعت سے اخلاص و وفا کے ساتھ وابستہ رہیں۔ ایک خدا کی پہچان کرتے ہوئے اُس کے آگے جھکنے والے ہم بھی بنیں اور دنیا بھی بنے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کے لئے ،ہماری کوششوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے۔ ہماری پردہ پوشی فرماتے ہوئے ہمیں فتوحات کے نظارے دکھائے۔ تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی پہچان کرنے والا بنائے اور آپ کا جھنڈا تمام دنیا میں ہم لہراتا ہوا دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ یہ نظارے ہمیں دکھائے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ عید بھی بابرکت فرمائے اور ہمیشہ ہمیں دعاؤں کی توفیق دیتا چلا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں