درویش صحابہ کرام: حضرت الحاج مولانا عبدالرحمٰن صاحبؓ

ہفت روزہ ’’بدر‘‘ قادیان (درویش نمبر 2011ء) میں مکرم تنویر احمد ناصر صاحب کے قلم سے اُن 26 صحابہ کرام کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے جنہیں قادیان میں بطور درویش خدمت کی سعادت عطا ہوئی۔ ان میں 12 وہ صحابہ تھے جو 16 نومبر 1947ء کو آخری قافلہ کے چلے جانے کے بعد قادیان میں مقیم رہے، ایک صحابی اُس قافلہ میں شامل تھے جو 5؍ مارچ 1948ء کوپاکستان سے قادیان پہنچا اور بعدازاں حضرت مصلح موعود ؓ نے مجلس مشاورت 1948ء میں حفاظت مرکز کی تحریک فرمائی تو حضورؓ کی اس آواز پر لبیک کہنے والوں کا ایک خوش نصیب قافلہ مئی 1948ء میں لاہور سے روانہ ہوا۔ حضرت مصلح موعود ؓنے افراد قافلہ کو شرف مصافحہ بخشا اور اجتماعی دُعا کے ساتھ الوداع کہا۔ اس قافلہ میں 13 صحابہ بھی شامل تھے۔ اس طرح کُل 26 صحابہ کرام نے درویشی کی سعادت پائی۔ ان صحابہ کا مختصر تعارف ہدیۂ قارئین ہے
حضرت الحاج مولوی عبد الرحمن فاضل المعروف بہ جٹ۔ ابن ’’حبی فی اللہ شیخ برکت علی صاحب‘‘۔ (ازالہ اوہام حصہ دوئم صفحہ 820)۔ قوم ککے زئی ساکن فیض اللہ چک، (نزدقادیان) 1893ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت و بیعت کا شرف 1903ء میں حاصل کیا۔ اسی سال حضرت شیخ حامد علی صاحب (جو آپ ؓ کے ماموں اور خسر بھی تھے) کی ہدایت پر نوعمری میں بغرض حصول تعلیم قادیان آئے اور تحصیل علم کے بعد یہیں رہائش پذیر ہوگئے۔ آپ کو جب حضرت حافظ صاحب ؓ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کیا تو حضورؑنے آپؓ کے سر پر ہاتھ رکھا اور 5 روپیہ وظیفہ کی سفارش فرمائی جبکہ اُس وقت تین روپیہ ماہوار سے زیادہ کسی شخص کابھی وظیفہ نہ تھا۔ گو آپؓ بورڈنگ میں مقیم تھے لیکن اپنی ممانی (حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ کی اہلیہ) کے ساتھ حضورؑ کے گھر میں بھی رہے اور حضرت امّاں جان کے حسن سلوک سے لطف اندوز ہوئے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت اماں جانؓ جب اپنے کسی بچے کو کوئی چیزکھانے کو دیتیں تو اس خادم غلام زادے کو بھی کبھی فراموش نہ کرتیں ۔ یہ احسانات حضرت اماں جانؓ کے صرف مجھ پر ہی نہ تھے بلکہ مجھ جیسے بیسیوں غلاموں کی زندگی کا ہر ہر لمحہ حضرت ممدوحہ کے احسانات کا رہین تھا۔ … ہم صحن میں شور مچاتے اور کھیلتے۔ میری ممانی مجھے ڈانٹ دیتیں لیکن حضرت سیّدہ کبھی ناراض نہ ہوتیں بلکہ خوش ہوکر ہمیں دیکھتیں ۔ مجھے وہ زمانہ بھی یاد ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع حضرت امّ المومنین علیہا السلام کے، باغ میں تشریف لے جاتے ہم بچے بھی ساتھ ہوتے دونوں آقاؤں کے سامنے ہم درختوں سے شہتوت اور لوکاٹ وغیرہ کے پھل توڑتے اور کھاتے۔ لیکن ہمارے یہ محسن و مہربان اس پر کبھی گرفت نہ کرتے بلکہ ہماری خوشی سے حقیقی خوشی اور راحت محسوس کرتے اور ہم حقیقت میں یہی سمجھتے کہ یہ باغ اور اس کے پھل ہماری ہی ملکیت ہیں ۔
حضرت اماں جانؓ کی شفقت اور احسان کا سلوک صرف میرے بچپن تک ہی محدود نہ رہا۔ بلکہ جب میں قابل شادی ہوا تو میری شادی کے جملہ انتظامات بھی انہوں نے اور حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائے اور میرے آرام و سہولت کا ہر طرح خیال فرماتے رہے۔ جو ناز اور اعتماد کسی چہیتے بیٹے کو اپنے حقیقی والدین پر ہوسکتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں حضرت اماں جانؓ پر تھا۔ ایک دفعہ کسی تقریب پر حضرت اماں جان نے میری بیوی یا اس کی بہن کو نہ بلایا جس پر وہ روٹھ گئی تو حضرت اماں جانؓ نے ازراہ شفقت خاص طور پران کو بلوایا اور دلداری کی۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ بسا اوقات کئی ایک کام حضرت اماں جانؓ اپنے اس غلام کے سپرد فرماتیں ۔ حالانکہ مجھ سے زیادہ اہل موجود ہوتے اس کی وجہ میں یہی سمجھتا ہوں کہ حضرت ممدوحہ پرانے تعلق کو مدنظر فرماتیں ۔
حضرت مولانا عبدالرحمن صاحبؓ کی ساری زندگی ہی خدمت دین اور خدمت انسانیت سے معمور رہی۔ نہایت درجہ عالی ہمت جفاکش، بلند حوصلہ،معاملہ فہم، ذہین، بارعب ، عالم باعمل بزرگ تھے۔ آپؓ کے ان اوصاف حمیدہ میں سے ایک ایک وصف نے آپ کو دین کی خدمت میں نمایاں حصہ ڈالنے کا موقعہ دیا۔ ایک شفیق استاد تھے۔ ادب عربی ،فقہ اور انشا کے مضامین میں خاصی مہارت رکھتے تھے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کو پڑھانے کا شرف بھی حاصل کیا۔ عرصہ دراز تک مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ میں بطور ٹیوٹر بھی خدمت بجا لاتے رہے۔ سالہاسال تک بورڈنگ سے دور واقع اپنی رہائشگاہ سے فجر کی نماز کے لئے طلبہ کو جگاکر وقت پر نمازکے لئے لے جانا آپ کا معمول رہا۔ ملکی تقسیم سے سالہا سال قبل مسجد اقصیٰ میں امام مقرر ہوئے۔ لیکن جب امیر مقامی بنائے گئے تو قادیان کی دونوں مرکزی مساجد میں باری باری امامت فرماتے رہے۔ نماز باجماعت کی پابندی اور اوّل وقت میں نماز کی ادائیگی میں اپنی مثال آپ تھے۔
حضرت مولانا صاحبؓ 63سال تک مرکز قادیان میں مناصب جلیلہ پرفائزرہے۔ بطور ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ، پروفیسر جامعہ احمدیہ، ناظر سپلائی جلسہ سالانہ، جنرل پریذیڈنٹ (صدر عمومی) لوکل انجمن احمدیہ، بوقت تقسیم رُکن امن کمیٹی، ناظم دارالقضائ، رکن بورڈ قضائ، وقف جدید، صدر مجلس کارپرداز بہشتی مقبرہ، میونسپلٹی کے ممبر، نائب صدر اور صدر بھی رہے۔ سلسلہ کی خاطر اسیر بھی ہوئے۔ ملکی تقسیم کے وقت آپ ؓ نے قادیان میں ہی ٹھہرے رہنے کو ترجیح دی ۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ نے آپ ؓ کو قادیان میں امیر مقامی اور پھر ناظر اعلیٰ کے اہم عہدوں پر فائز کیا جن کو آپؓ نے آخری وقت تک نہایت درجہ خوش اسلوبی اور ذمہ داری کے پورے احساس کے ساتھ سرانجام دیا۔ اتنا طویل عرصہ ناظراعلیٰ ، وکیل الاعلیٰ اور امیر مقامی رہنے میں آپ منفرد تھے۔
ساڑھے 29سال کا لمبا عرصہ بطور امیر مقامی نہایت ذمہ داری سے گزارا۔ آپؓ کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا۔ کسی کو بھی اپنی شکایت اور ضرورت آپ کے سامنے بیان کرنے میں کسی طرح کی روک نہ تھی ۔ آپ ہر شخص کی بات بڑے صبر و تحمل اور بردباری سے سنتے اور اس پر بہت جلد کارروائی فرماتے اور ہر تکلیف رسیدہ کی تکلیف کو جلد از جلد دور کرنے کی پوری سعی فرماتے ۔
آپؓ ایک بزرگ عالم تھے ۔ علم فقہ اور میراث میں مستند عالم مانے جاتے تھے۔ انتظامی اُمور میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ علاقہ میں غیر مسلموں کے ساتھ آپؓ کے گہرے ذاتی مراسم تھے۔ ملکی تقسیم کے وقت قادیان کی کثیر آبادی اور وہاں آنے والے مہاجرین کو جن حالات میں سے گزرنا پڑا اُس سے ماحول میں کدورت پیدا ہوچکی تھی۔ لیکن آپؓ نے پاکستان سے آکر قادیان میں آباد ہونے والے غیرمسلموں کی دلداری اور اُن کے ساتھ حسن سلوک کا نمونہ پیش فرمایا کہ وہ سب آپ ؓ کو اپنا ہی بزرگ یقین کرنے لگے اور آپ کی وفات پر دکھ کا اظہار کیا، جنازہ و تدفین کے وقت موجود رہے اور آپؓ کی قبر پر مٹی ڈالی۔
آپؓ طبعی طور پر جہیر الصوت واقع ہوئے تھے۔ اور اپنی خوبصورت بلند آواز میں جب بھی قرآن کریم کی قرآت فرماتے تو دُور تک ہر لفظ بہت عمدگی سے سنا جاتا اور ہر سننے والا اس سے متأثر ہوتا۔
اگرچہ ابتدا میں آپ بطور مقرّر اور خطیب سامنے نہیں آئے۔ لیکن جب حضرت مصلح موعود ؓ نے آپؓ کو اور محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو باری باری جمعہ پڑھانے کا خصوصی ارشاد فرمایا تو اس وقت کے بعد سے آپ کا یہ وصف بھی خوب چمک کر سامنے آیا۔ بلکہ قومی اور ملکی تقریبات کے بہت سے پبلک جلسوں میں بھی آپ کو خطاب کرنے کا بارہا موقع ملا اور آپ بڑے ہی مؤثر طریق پر اور بڑی سادہ زبان میں اپنے مافی الضمیر کو ادا کیا۔
آپؓ لِمَا تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ کی روشنی میں ہمیشہ تاکیدی نصائح کیا کرتے تھے۔
عمر کے آخری سالوں میں اکثر مغرب کی نماز کے بعد نماز عشاء تک مسجد اقصیٰ میں ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔ اکثر روحانیت سے لبریز مجلس بھی جاری رہتی۔
آپؓ کی وفات21-20 جنوری 1977ء کی درمیانی شب بعمر 84 سال حرکت قلب بند ہوجانے کے نتیجہ میں ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں