سیدنا حضرت بلالؓ

مؤذن رسولؐ سیدنا حضرت بلالؓ کی کنیت ابوعبداللہ اور عبدالرحمن تھی۔ والد کا نام رباح اور والدہ کا نام حمامہ تھا اس لئے آپؓ ابن حمامہ بھی کہلاتے۔ آپؓ کا رنگ گندم گوں سیاہی مائل تھا۔ جسم دبلا پتلا، سر کے بال گھنے اور لمبے تھے۔ رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔ آپؓ کی والدہ حبشہ کی رہنے والی تھیں اور والد سرزمین عرب سے تعلق رکھتے تھے لیکن چونکہ والد کا رنگ سیاہ تھا اس لئے عرب انہیں حبشی ہی سمجھتے تھے۔ حضرت بلالؓ مکہ میں (یا بعض روایات کے مطابق یمن اور حبشہ کے قریب ایک جگہ سراۃ میں) پیدا ہوئے ۔ آپؓ کے بارہ میں ایک تفصیلی مضمون مکرمہ راحیلہ راشد کے قلم سے ماہنامہ ’’تشحیذالاذہان‘‘ دسمبر 1999ء کی زینت ہے۔
حضرت بلالؓ مکہ کے پہلے سات آدمیوں میں سے تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ قبولِ اسلام سے وقت آپؓ امیہ بن خلف کے غلام تھے جس نے آپؓ پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ ابوجہل بھی ظلم کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔ وہ آپؓ کو گرمیوں کی دوپہر کھلے میدان میں لے جاکر منہ کے بل لٹاکر اوپر بھاری پتھر رکھ دیتا۔ پھر آپؓ کے گلے میں رسی ڈال کر قبیلے کے آوارہ لڑکوں کے سپرد کر دیتا جو آپؓ کو گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے۔ ایک بار یہ مظالم دیکھ کر آنحضورﷺ نے فرمایا:’’ اگر ہمارے پاس کچھ ہو تو ہم بلالؓ کو خرید لیں‘‘۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آنحضورﷺ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے حضرت بلالؓ کو سات اوقیہ (قریباً تئیس تولے) سونے کے عوض خریدکر آزاد کردیا۔
امیہ کے بارہ میں آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جائے گا۔ جب جنگ بدر سے پہلے ابوجہل کفار کے لشکر کو لے کر مکہ سے نکلنے لگا تو امیہ کی بیوی نے امیہ کو آنحضورﷺ کے الفاظ یاد دلائے۔ اس پر امیہ نے کہا کہ مجھے یاد ہے اور مَیں لشکر کو روانہ کرکے خود واپس آجاؤں گا، آگے نہیں جاؤں گا۔ لیکن امیہ کسی نہ کسی طرح لشکر کے ساتھ ہی بدر کے میدان میں پہنچ گیا اور جنگ میں شریک ہوا۔ جب جنگ کا زور ٹوٹ گیا تو حضرت عبدالرحمن بن عوف نے امیہ سے باتیں شروع کیں۔ اتنے میں حضرت بلالؓ کی نظر امیہ پر پڑگئی اور آپؓ نے فرمایا: ’’کفر کا سردار امیہ اگر بچ کر نکل جائے تو میری بھی کیا زندگی ہے‘‘۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا کہ یہ میرا قیدی ہے تو بلالؓ نے پھر اپنی بات دہرائی۔ اس کے ساتھ ہی کئی تلواریں کوندیں اور امیہ ہلاک ہوکر آنحضورﷺ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والا بنا۔
مکہ میں نماز فرض ہوچکی تھی لیکن اذان مدینہ میں شروع ہوئی جب ایک صحابی حضرت عبداللہؓ بن خزرجی کو کشف میں اذان کے الفاظ بتائے گئے۔ انہوں نے آنحضورﷺ کی خدمت میں ذکر کیا تو آپؐ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ اٹھو اور جس طرح یہ بتاتے ہیں، تم اونچی آواز سے کہتے جاؤ۔ ابھی اذان مکمل نہ ہوئی تھی کہ حضرت عمرؓ وہاں پہنچے اور عرض کیا کہ مجھے بھی ایسا ہی بتایا گیا ہے۔ تب آنحضورﷺ نے فرمایا:’’ الحمدللہ یہ خدا کی طرف سے ہے‘‘۔ حضرت بلالؓ کی آواز کی خوبی یہ بیان کی گئی ہے کہ آواز بلند اور لمبی تھی۔
حضرت بلالؓ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ 8ہجری میں جب مکہ فتح ہوا تو آپؓ بھی آنحضورﷺ کے ساتھ تھے۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو بلال کے جھنڈے کے نیچے آجائے وہ بھی آج امن میں ہے۔
ایک دن فجر کی نماز کے بعد آنحضورﷺ نے بلالؓ سے فرمایا: بلالؓ! تُو نے مسلمان ہوکر سب سے بہتر عمل کیا کیا؟ کہ آج رات جب خدا نے مجھے جنت کی سیر کروائی تو مَیں نے ہر جگہ تمہارے پاؤں کی چاپ کو محسوس کیا‘‘۔ حضرت بلالؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! اَور تو مجھے کسی عمل کا علم نہیں۔ صرف اتنا ہے کہ ہر وقت باوضو رہنے کی کوشش کی اور وضو کیا تو دو رکعت نماز نفل ادا کئے‘‘۔
حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے ’’ہمارے آقا بلالؓ کو ہمارے آقا ابوبکرؓ نے آزاد کیا‘‘۔ جب آنحضورﷺ کا وصال ہوا تو حضرت بلالؓ نے اذان دینی بند کردی۔ پھر ایک بار حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی درخواست پر مسجد نبوی کی چھت پر کھڑے ہوکر فجر کی اذان کہی تو مدینہ میں کہرام مچ گیا۔ لوگوں کو اپنے آقا و مولیٰ محمد رسول اللہﷺ کا زمانہ یاد آگیا۔
حضرت بلالؓ نے قریباً 63سال کی عمر میں وفات پائی۔ وفات کے وقت جب آپؓ نے اپنی بیوی کو روتے دیکھا تو فرمایا: کیوں روتی ہو؟ مجھے ایک لمبی جدائی کے بعد کل اپنے محبوب آقا اور آپؐ کے اصحاب سے ملاقات کا موقعہ نصیب ہوگا۔ حضرت بلالؓ کی تدفین دمشق کے باب صغیر میں ہوئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں