سیدنا حضرت عمر فاروقؓ

دوسرے خلیفہ راشد سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کی سیرۃ و سوانح پر مشتمل ایک مضمون مجلس خدام الاحمدیہ وینکوور (کینیڈا) کے رسالہ ’’مشعل راہ‘‘ جنوری تا مارچ 2002ء کی زینت ہے۔ قبل ازیں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ 2؍اکتوبر 1998ء کے اسی کالم میں آپؓ کی سیرۃ پر ایک مضمون شائع ہوچکا ہے۔
اسم مبارک عمر تھا ، کنیت ابو حفص تھی، والد خطاب، دادا تفیل اور پردادا عبدالعزی بن رباح تھے۔ مورث اعلیٰ حدی بن کعب کی نسبت سے آپؓ کا قبیلہ بنوحدی کہلاتا تھا۔ یہ قریش کا قبیلہ تھا جو سفارتی تعلقات کے منصب سے ممتاز تھا نیز فصل مقدمات کا منصب بھی اسی خاندان میں تھا۔ والدہ حنتمہ بنت ہشام تھیں۔
حضرت عمرؓ آنحضورﷺ سے دس سال چھوٹے تھے۔ آپؓ کے بچپن کے حالات کا زیادہ علم نہیں تاہم آپؓ نے اونٹوں کی گلہ بانی کا کام بھی کیا اور عالم شباب میں مختلف فنون میں کمال حاصل کیا بالخصوص شہ سواری، فن حرب اور پہلوانی میں یکتائے روزگار تھے۔ تعلیم بھی حاصل کی اور لکھنے پڑھنے کے علاوہ فن خطابت میں امتیاز حاصل کیا۔ عکاظ کے سالانہ میلوں میں آپ اپنے کمالات کا مظاہرہ کرکے دادو تحسین پایا کرتے۔
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے سے کفر و شرک کے ایوان دہل اٹھے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے: ’’حضرت عمرؓ جب مسلمان ہوئے تو ہم لوگ غالب ہوگئے‘‘۔ آپؓ کا اسلام لانا آنحضورﷺ کی اس دعا کی قبولیت کا نتیجہ تھا: ’’اے اللہ! دین کو عمر بن خطاب سے عزت دے‘‘۔
آپؓ نے بیس صحابہؓ کے ہمراہ مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ مدینہ میں پہلی مواخاۃ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ کے بھائی بنے اور دوسری مواخاۃ میں حتبان بن مالکؓ کو حضرت عمرؓ کا بھائی بننے کی سعادت ملی۔ حضرت عمرؓ کی رائے کے بموجب ہی اذان دینے کا طریق قرار پایا۔ جہاد کے میدان میں اور بیرونی سفراء سے ملاقات کے وقت ہمیشہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سب سے پہلے بیعت کرنے کی سعادت بھی حضرت عمرؓ کو عطا ہوئی۔ خلافت اولیٰ میں تدوین قرآن کا کارنامہ حضرت عمرؓ کے اصرار اور توجہ کی بناء پر انجام پایا۔ حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے اُن کے بعد حضرت عمرؓ کی جانشینی کا فیصلہ بلاشبہ عالمی سیاست کا ایک نہایت اہم اور مدبرانہ فیصلہ تھا۔ حضرت عمرؓ نے حدود خلافت اسلامیہ کو بہت وسعت دی۔ عراق، شام، مصر اور روم زیرفرمان ہوئے۔ آپؓ کے زیرتسلّط ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل کا رقبہ تھا۔ دو مجالس شوریٰ آپؓ نے قائم فرمائیں۔ ایک مجلس کے نو یا دس ارکان تھے جبکہ دوسری میں اکابرین مہاجر و انصار شامل تھے۔ بعض معاملات میں حضرت عمرؓ عوام سے بھی رائے لیتے تھے۔ کوفہ کے عامل کی معزولی کا فیصلہ عوامی شکایات کی بنیاد پر ہی کیا۔
آپؓ راتوں کو گلیوں میں گشت کرتے اور حالات سے باخبر رہا کرتے۔ آپؓ نے مملکت اسلامیہ کو کئی صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کردیا اور اہم شہروں کو مراکز حکومت قرار دیا۔ ہر صوبہ میں تین اعلیٰ انتظامی عہدہ دار مقرر کئے۔ سارے ملک کی پیمائش کروائی، ترقی محاصل کا بندوبست کیا، صیغہ محاصل قائم کیا، زراعت کی ترقی پر توجہ دی، محکمہ افتاء اور صیغہ عدالت کے ساتھ محکمہ احتساب کا قیام عمل میں لائے، بیت المال قائم فرمایا، فوج کی تنظیم کی اور فوجیوں کے مشاہرے مقرر فرمائے، صیغہ مذہبی کو اختیارات دیئے۔ آپؓ خود نماز کی امامت اور حج کی امارت کیا کرتے تھے۔ علمی مجالس و مذاکرات کا انعقاد کرواتے۔ مملکت کے احوال سے واقفیت کے لئے خبررساں مقرر کئے۔ ذمیوں کے حقوق کی نگہداشت اور غلامی کے رواج کو کم کرنے کی طرف توجہ فرمائی، مہمانوں اور مسافروں کی آسائش کیلئے مہمان خانے بنائے۔ لاوارث بچوں کی تربیت کا خاص انتظام کیا۔ آپؓ نے دس سال چھ ماہ اور چار دن خلافت کے عظیم بار کو سنبھالا۔ آپؓ کے آٹھ فرزند اور تین صاحبزادیاں تھیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں