صغیرہ گناہ ، کبیرہ کس طرح بنتے ہیں؟

حضرت امام غزالیؒ کی تصنیف ’’احیائے علوم‘‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان خطا کا پُتلا ہے اور لغزش کا ارتکاب ہونے کے بعد دعا کا محتاج ہے۔ کئی علماء نے گناہوں کو صغیرہ اور کبیرہ میں تقسیم کیا ہے۔ مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کے ایک مضمون میں اُن اسباب پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کے نتیجہ میں صغیرہ گناہ، کبیرہ میں بدل جاتے ہیں ۔ یعنی ہماری کم علمی یا غفلت سے کس طرح ہمارے صغیرہ گناہ کبیرہ بن سکتے ہیں ۔ یہ مضمون جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ نومبر و دسمبر 2011ء میں شامل اشاعت ہے۔
اس حوالہ سے پہلا سبب یہ بیان ہوا ہے کوئی شخص گناہ پر ڈٹ جائے اور اُسے بار بار کرے۔ دراصل کسی بھی گناہ کے بار بار کرنے کا مطلب یہی ہے کہ دل سے گناہ کا خوف ختم ہوگیا ہے اور اس طرح مزید بڑے گناہ کی طرف جانا آسان ہوتا جاتا ہے۔
صغیرہ گناہ کے کبیرہ بن جانے کا دوسرا سبب کسی گناہ کو معمولی اور چھوٹا سمجھنا ہے۔ جب انسان کسی گناہ کو چھوٹا سمجھتا ہے تو وہ گناہ اللہ تعالیٰ کے حضور بڑا ہو جاتا ہے۔ اور جب انسان کسی گناہ کو بڑا سمجھ کر پشیمان ہوتا اور معافی مانگتا ہے تو وہ گناہ اللہ تعالیٰ کے حضور چھوٹا ہوجاتا ہے۔ حدیث شریف میں بھی ہے کہ مومن اپنے گناہ کو پہاڑ کی طرح دیکھتا ہے جس کا اوپر گرنے کا ڈر ہو جبکہ منافق اپنے گناہ کو مکھی کی طرح دیکھتا ہے جو اُس کی ناک پر سے گزرتی ہے تو وہ اُسے اُڑا دیتا ہے۔ چنانچہ اسی اعتبار سے بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ دراصل صغیرہ گناہ کا وجود ہی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہر مخالفت گناہِ کبیرہ ہے۔
کسی صغیرہ گناہ کے کبیرہ بننے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی کے گناہ کی پردہ پوشی فرمائی ہے اور اُسے ڈھیل دی ہے تو وہ اس گناہ کو معمولی سمجھ کر گناہوں پر دلیر ہوجائے اور یہ سمجھنے لگے کہ ان گناہوں پر اس کا قادر ہونا اللہ تعالیٰ کی اُس پر عنایت ہے۔
اس کا چوتھا سبب یہ ہے کہ انسان گناہ کرکے اُسے ظاہر کرے یعنی اللہ تعالیٰ نے اُس کے گناہ پر اپنی بُردباری کی وجہ سے جو پردہ ڈالا تھا یہ اس پردے کو اٹھادے اور دوسروں کو اپنے اس فعل پر گواہ بنائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ تمام لوگوں کے لئے معافی ہے لیکن گناہ ظاہر کرنے والوں کے لئے نہیں ۔
یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور نعمتوں میں سے خوبصورت چیزوں کو ظاہر کرنا اور بری چیزوں کو چھپانا بھی ہے۔ پس گناہ کا اظہار اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری ہے۔ جب انسان کسی گناہ پر خوشی اور فخر کا اظہار کرتا ہے تو وہ کبیرہ ہوجاتا ہے۔
صغیرہ گناہ کے کبیرہ ہونے کا پانچواں سبب یہ ہے کہ گناہ کرنے والا عالِم ہو اور لوگ اس کی اقتدا کرتے ہوں ۔ عالِم کی لغزش کشتی کے ٹوٹنے کی طرح ہے وہ خود بھی ڈوبتی ہے اور اُس میں سوار بھی ڈوبتے ہیں ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ عالِم کے پھسلنے سے ایک عالَم پھسل جاتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ عالِم کے لئے خرابی اس کے اتباع کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے، پھر وہ اس سے رجوع بھی کرلیتا ہے لیکن لوگ اس کام کو کرنے لگتے ہیں اور زمانے بھر میں پھیلا دیتے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ جس نے کوئی بُرا طریق جاری کیا اس پر اس کا گناہ ہوگا اور اُن لوگوں کا بھی جو اس پر عمل کریں گے۔
پس علماء کے لئے جہاں گناہ کی سزا زیادہ ہے وہاں اگر وہ شریعت کے مطابق چلیں تو ثواب بھی عام لوگوں سے زیادہ ہوگا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں