خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ستمبر 2008ء

اللہ تعا لیٰ جو عام حالات میں اتنا رحم کرنے والا ہے تو رمضان میں اس کی رحمت کس طرح برس رہی ہوگی اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔
پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جنہوں نے رمضان کے ان گزرے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے فائدہ اٹھایا۔
یہ مغفرت اور بخشش کے دن تبھی ہمیں فائدہ دیں گے جب ہم ان دنوں کے فیض کو اپنی زندگیوں کا حصّہ بنانے کی کوشش کریں گے۔
استغفار صرف گناہوں سے بخشش کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بچانے کے لئے بھی ضرور ی ہے۔ وہی استغفار دائمی بخشش کا سامان کرتا ہے جس کے ساتھ خالص توبہ ہو جس کو پھر انسان نیکیوں سے بھرتا چلا جائے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال رکھے۔
اس تربیتی مہینے میں خاص طورپر ہر احمدی کو دعاؤں، استغفار، نوافل اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کو قریب تر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(مکرم شیخ سعید احمد صاحب شہید اوردو دیگر احمدی مرحومین مکرمہ مروہ الغالول صاحبہ اور مکرم سامی قزق صاحب آف سیریا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب)
خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 19؍ستمبر 2008ء بمطابق19؍تبوک 1387 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح، لند ن (برطانیہ)

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یہ رمضان کا مہینہ ہے، یوں لگتا ہے کہ کل شروع ہوا تھا، بڑی تیزی سے یہ دن گزر رہے ہیں۔ دوسرا عشرہ بھی اب دو تین دن تک ختم ہونے والا ہے اور پھر آخری عشرہ شروع ہو جائے گا۔
ایک روایت میں رمضان کی اہمیت یوں بیان ہوئی ہے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا

ھُوَ شَہْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔

(صحیح ابن خزیمۃ کتاب الصیام۔ باب فضائل شہر رمضان)۔ یعنی وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔
اس حدیث کی مختلف روایات ہیں، کچھ ذرا تفصیل کے ساتھ ہیں اور کچھ مختصر۔ لیکن یہ جو تینوں عشروں کی اہمیت بیان کی گئی ہے وہ ہر ایک میں مشترک ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا کہ اس وقت دوسرے عشرے سے ہم گزر رہے ہیں۔ اس کے ابھی دو تین دن باقی ہیں اور پھر انشاء اللہ تعالیٰ تیسرا عشرہ شروع ہو گا، جس کے متعلق اس روایت کے مطابق کہا جاتا ہے کہ آگ سے نجات کا عشرہ ہے۔ اس وقت مَیں موجودہ عشرہ جو مغفرت کا عشرہ ہے اس کے بارہ میں اور پھر آخری حصہ کے بارہ میں کچھ بیان کروں گا۔ مغفرت توبہ اور آگ سے نجات کے بارہ میں مختلف حوالوں سے ہمیں جو توجہ دلائی گئی ہے وہ بیان کرتاہوں۔
استغفار کاحکم ایک ایسا حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی مومنوں کودیا اور انبیاء کے ذریعہ سے بھی کہلوایا اور مومنین کو استغفار کی طرف توجہ دلائی۔ انبیاء کو کہاکہ مومنوں کو استغفار کی طرف توجہ دلاؤ اور جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو

’’وَاسْتَغْفِرُوااللہ‘‘

یعنی اللہ سے بخشش مانگو، کا حکم دیتاہے تو ساتھ ہی یہ بھی فرماتاہے کہ

’’اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ’‘

یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور باربار رحم کرنے والاہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ یہ اعلان آنحضرت ﷺ سے بھی کرواتا ہے کہ مومنوں کو بتا دو کہ یہ مہینہ بخشش کا مہینہ ہے اور خود بھی اس بارہ میں یہ کہہ رہاہے کہ بخشش میرے سے مانگو، مَیں بخشوں گا۔ بڑ ابخشنے والااور رحم کرنے والا ہوں تو اللہ تعالیٰ پھر بخشتا بھی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتاکہ اللہ تعالیٰ کے بندے بخشش مانگتے ہوئے اس کے آگے جھکیں اور بخشے نہ جائیں۔ اصل میں تو یہ رحمت، بخشش اور آگ سے نجات ایک ہی انجام کی کڑیاں ہیں اور وہ ہے شیطان سے دُوری اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کاقرب حاصل کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی ایک انسان کوروزے رکھنے کی توفیق ملتی ہے۔ عبادت کی بھی توفیق ملتی ہے۔ اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے جائز کام چھوڑنے کی بھی توفیق ملتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ تمام پچھلی کوتاہیاں، غلطیاں اور گناہ معاف فرماتے ہوئے ایسے انسان کو پھر اپنی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ لیتا ہے۔ یہ مغفرت بھی خداتعالیٰ کی رحمت سے ہی ہے۔ مغفرت کے بعد خداتعالیٰ کی رحمت ختم نہیں ہوتی بلکہ مغفرت اور توبہ کا تسلسل جو ہے یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل سے جاری ہوتا ہے اور جب یہ تسلسل جاری رہتا ہے تو ایک انسان جو خالصتاً اللہ تعالیٰ کا ہونے کی کوشش کرتا ہے پھر اس سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو جذب کرنے والے ہوں۔ ایسے اعمال صالحہ بھی بجا لاتا ہے جن کے بجا لانے کا خداتعالیٰ نے حکم فرمایا ہے اور نتیجتاً پھر آگ سے نجات پاتا ہے۔
جب تسلسل کے ساتھ استغفار اور گناہوں سے بچنے کی کوشش ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اُس استغفار کی وجہ سے مومن نظارہ کر رہا ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتوں سے فیض پا رہا ہو تو پھر وہ نجات پا گیا۔ پھر اس کو آگ کس طرح چھو سکتی ہے۔ پس یہ رمضان کے تین عشرے جو بیان ہوئے ہیں یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اور اعمال سے مشروط ہیں۔ صرف رمضان کا مہینہ یا سحری اور افطاری کے درمیان کھانا نہ کھانا انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت مغفرت اور آگ سے نجات کا حقدار نہیں بنا دیتا۔ پس جب خداتعالیٰ اپنے بندے کو ان باتوں کے حاصل کروانے کے لئے رمضان کے مہینے میں ایک خاص ماحول پیدا فرماتا ہے، شیطان کو جکڑ دیتا ہے اور دعائیں سننے کے لئے اپنے بندوں کے قریب ہو جاتا ہے تو پھر اِن کے حصول کی بندوں کو زیادہ سے زیادہ کوشش بھی کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ جو خدا نے فرمایا ہے کہ اے بندو! مجھ سے ناامید مت ہو۔ مَیں رحیم و کریم اور ستّاراور غفّار ہوں اور سب سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہوں اور اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرے گا جو مَیں کرتا ہوں۔ اپنے باپوں سے زیادہ میرے ساتھ محبت کرو کہ درحقیقت میں محبت میں ان سے زیادہ ہوں۔ اگر تم میری طرف آؤ گے تو مَیں سارے گناہ بخش دوں گا اور اگر تم توبہ کرو تو مَیں قبول کروں گا اور اگر تم میری طرف آہستہ قدم سے بھی آؤ تو مَیں دوڑ کر آؤں گا۔ جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے گا وہ میرے دروازے کو کھلا پائے گا۔ مَیں توبہ کرنے والے کے گناہ بخشتا ہوں، خواہ پہاڑوں سے زیادہ گناہ ہوں۔ میرا رحم تم پر بہت زیادہ ہے اور غضب کم ہے کیونکہ تم میری مخلوق ہو۔ مَیں نے تمہیں پیدا کیا ہے، اس لئے میرا رحم تم سب پر محیط ہے۔
پس اللہ تعالیٰ جو عام حالات میں اتنا رحم کرنے والا ہے تو رمضان میں اس کی رحمت کس طرح برس رہی ہو گی اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔
پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جنہوں نے رمضان کے ان گزرے دنوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت سے فائدہ اٹھایا۔ ابھی بھی وقت ہے ان دنوں سے فیض پانے کا، ۔ جب انسان عاجز ہو کر اس کی طرف جھکتا ہے تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرتا جس طرح مَیں کرتا ہوں۔ جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا۔ پس اللہ کی رحمت کے حصول کے لئے، مغفرت کے حصول کے لئے اسے ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ بھی اعلان کر رہا ہے کہ جو تلاش میں آئے گا عام حالات میں بھی لیکن خاص طور پر ان دنوں میں، وہ میرا دروازہ کھلا ہوا پائے گا۔ مَیں چھپا ہوا نہیں، سامنے ہوں اور دروازہ بھی کھلا ہے۔
قرآن کریم میں جب رمضان کے روزوں کی تاکید کی گئی تو ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اِنِّیْ قَرِیْب کا لفظ استعمال کیا۔ تو اللہ تعالیٰ قریب ہے اور دروازہ کھلا ہوا ہے۔ فرماتا ہے آؤ اور میری مغفرت کی پناہ میں آجاؤ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا تو مخلوق کے لئے عام حالات میں بھی غضب بہت کم ہے اور رحم زیادہ ہے۔ ان دنوں میں تو اور بھی بڑھ کر رحمت کے دروازے کھولتا ہوں اور مغفرت میں ڈھانپ لیتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ کہہ کر کہ

لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(النساء: 66)

کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا پاتے، اس پر ایک طرح کا افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مَیں جو اتنا رحیم و کریم ہوں، مَیں توبہ قبول کرنے والا ہوں، اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹنے والا ہوں لیکن انسان پھر بھی اپنے نفس پر ظلم کرنے وا لا ہے اور بخشش طلب نہیں کرتا۔
پس اللہ تعالیٰ کا بار بار مختلف ذریعوں سے استغفار کی طرف توجہ دلانا یہ بتا رہا ہے کہ بندے کی استغفار اللہ تعالیٰ کی رحمت کو ضرور بالضرور جذب کرتی ہے۔ وہ لوگ غلط ہیں جو کہتے ہیں کہ استغفار انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا۔ یہ آنحضرت ﷺ کی حدیث بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو مَیں دوڑ کر آتا ہوں۔ اسی طرح قرآن کریم میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:70)

اور وہ لوگ جو ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور اُنہیں اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق بخشیں گے۔ پس استغفار اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا ایک رستہ ہے۔ لیکن استغفار ہے کیا؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں اس کے معنے بیان کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں :
’’استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے۔ …… سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے‘‘۔ (’مرزا غلام احمد‘ اپنی تحریرات کی رو سے۔ جلد دوم صفحہ 667)۔ یعنی جو استغفار کر رہا ہے اس کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔ اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ بشری کمزوری کبھی ظاہر نہ ہو۔ انسان ہے، بشر ہے کمزوریاں ظاہر ہوتی ہیں۔ شیطان ہر وقت حملے کی تاک میں ہے۔ جب انسان روحانی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے تو شیطان فوراً حملہ کرتا ہے۔ اس لئے شیطان سے بچنا اسی وقت ممکن ہے جب مسلسل انسان استغفار کرتا رہے اور مسلسل خداتعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش میں رہے۔ تبھی اللہ تعالیٰ کی حمایت اور نصرت کے حلقے میں ایک انسان رہ سکتا ہے۔ ورنہ جیسا کہ ایک جگہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تو انسان کی رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہا ہے جہاں کمزوری آئی شیطان نے حملہ کیا۔
پس یہ مغفرت اور بخشش کے دن تبھی ہمیں فائدہ دیں گے جب ہم ان دنوں کے فیض کواپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے۔ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے ہوئے استغفار سے اُن کا علاج کرتے رہیں گے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حلقے میں رہیں۔ ورنہ جس طرح بعض بیماریاں انسانی جسم میں علاج کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوتیں بلکہ ڈورمنٹ (Dormant) ہو جاتی ہیں یعنی بظاہر ان کے اثرات نہیں لگتے لیکن کسی وقت دوبارہ ایکٹو (Acitve) ہو کر وہ بیماریاں پھرابھر آتی ہیں۔ جب کوئی بیماری آئے جسم کمزور ہو تو ایسی سوئی ہوئی بیماریاں پھر جاگ اٹھتی ہیں اور حملہ کرتی ہیں اسی طرح انسان کی نفسانی، روحانی، اخلاقی بیماریاں ہیں۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے حکموں پر مکمل چلنے کی کوشش نہ کرتا رہے، استغفار اور توبہ سے اپنی ان حالتوں کو، ان بیماریوں کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے دبائے نہ رکھے تو پھریہ اپنے اثرات دکھا کر انسان کو پہلی حالت کی طرف لے جانے کی کوشش کرتی ہیں۔
پس استغفار صرف گناہوں سے بخشش کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بچانے کے لئے بھی ضروری ہے تاکہ فطرتی کمزوری کمزور پڑتی جائے اور انسان مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر قدم مارنے والا ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ایک تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسلسل کوشش کے ساتھ اور ہمیشہ کوشش کے ساتھ استغفار کی طرف متوجہ رہنے کا حکم فرمایا اور پھر سال میں ایک دفعہ ہمیں ایک Intensive یا جامع قسم کے پروگرام سے گزارتا ہے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کا مزید قرب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ایک دفعہ جب اس کے حلقے میں آگئے تو اس حلقے کے اندر جو مزید درجے ہیں، انہیں حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پس اس ٹارگٹ کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم اللہ تعالیٰ کی بخشش کے طالب ہوں گے تو تبھی یہ عشرہ جو گزر رہا ہے ہمارے گناہوں اور غلطیوں کو ڈھانکتے ہوئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے قریب لانے والا ہو گا۔ اگر صرف یہی مطلب لیا جائے کہ اس عشرے میں روزے رکھ کر نمازیں پڑھ کر یا کچھ نفل ادا کر کے پھر سارا سال بھول جائیں کہ رمضان میں کیا کیا تھا۔ تو پھر تو یہ مغفرت کا عشرہ نہیں بن سکتا۔ پس اس مہینے اور اس عشرے سے ہم تبھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں، تبھی کامیاب ہو کر گزر سکتے ہیں جب ہم یہ عہد کریں اور کوشش کریں کہ جو گزشتہ گناہ اور غلطیاں ہوئی ہیں ان کا ہم نے اعادہ نہیں کرنا۔ تو یہی حقیقی استغفار ہے اور وہ توبہ ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔
استغفار اور توبہ عموماً دو لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں فرق کیا ہے؟ یہ تھوڑا سا بتا دیتا ہوں۔ جیسا کہ ہم میں سے ہر ایک قرآن کریم پڑھتا ہے، جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال فرمائے ہیں، جیسا کہ فرماتا ہے

وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْآ اِلَیْہ (ھود:4)

اور تم اپنے رب سے استغفار کرو۔ پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو۔
اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :’’یاد رکھو کہ دو چیزیں اس اُمّت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے۔ دوسری حاصل کردہ قوت کو عملی طور پر دکھانے کے لئے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ67) یعنی استغفار وہ ہتھیار ہے جس سے شیطان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور توبہ اس ہتھیار کا استعمال کرنا ہے۔ یعنی ان عملی قوتوں کا اظہار جس سے شیطان دُو ر رہے۔ ہمارا نفس کبھی مغلوب نہ ہو اور اس کے لئے وہ نیکیاں اور اعمال کرنے کی مسلسل کوشش ضروری ہے جن کے کرنے کا ہمیں خداتعالیٰ نے حکم دیا ہے، ورنہ استغفار نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ بخشش کا حصول ممکن نہیں۔ ایک روزہ دار نمازیں بھی پڑھ رہا ہے، نوافل بھی ادا کر رہا ہے، قرآن کریم کی تلاوت بھی کر رہا ہے اگر ممکن ہو اور وقت ہو تو درس بھی سن لیتا ہے۔ لیکن اگر اُن احکامات پر عمل نہیں کر رہا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بھائیوں کے حقوق کے بارے میں قرآن کریم میں بیان فرمائے ہیں تو یہ حقیقی توبہ استغفار نہیں ہے، روزوں سے حقیقی فیض پانے کی کوشش نہیں ہے۔ حقیقی فائدہ تبھی ہو گا جب استغفار سے جو قوت حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس کا اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے استعمال کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے گناہوں کو ڈھانکنے کی جو قوت عطا کی ہے، جن گناہوں کو دُور کرنے کی توفیق بخشی ہے، استغفار کرتے ہوئے اپنے دل کو ایک انسان نے گناہوں سے جو خالی کیا ہے تو فوری طور پر انہیں نیکیوں سے بھرنے کی کوشش کی جائے۔ اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کی جائیں۔ ورنہ اگر دل کا برتن نیکیوں سے خالی رہا تو شیطان پھر اسے انہیں غلاظتوں سے دوبارہ بھر دے گا۔ اس لئے خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ

یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْآ اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (التحریم:9)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف خالص توبہ کرتے ہوئے جھکو۔ پس وہی استغفار دائمی بخشش کا سامان کرتا ہے جس کے ساتھ خالص توبہ ہو، جس کو پھر انسان نیکیوں سے بھرتا چلا جائے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا ہمیشہ خیال رکھے۔ ایک مسلسل کوشش کرے۔
خالص توبہ کے لئے کیا کچھ کرنا ضروری ہے؟ اس کے لئے تین باتوں کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔
پہلی بات یہ کہ ہر برائی کاتصور اور اس کی خواہش سب سے پہلے انسان کے دماغ میں پیدا ہوتی ہے۔ پس جب تک اپنے ذہن کو پاک رکھنے کی کوشش نہیں ہو گی، اس وقت تک توبہ خالص نہیں ہو سکتی۔ منہ سے

اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ

کچھ فائدہ نہیں دیتاجب تک ذہن بھی اس کے ساتھ نہ چل رہا ہو۔
اور پھر دوسری چیزیہ کہ اگر کوئی برائی یا بدی ہو ہی گئی ہے یا ذہن پہ خیال غالب آگیا ہے، نکل نہیں رہا تو اس کو نکالنے کی کوشش کے ساتھ اس پر ندامت اور پریشانی انسان کو ہونی چاہئے اور گناہوں میں صرف بڑے گناہ نہیں ہیں۔ ہر قسم کی برائی، دوسروں کے حقوق کی تلفی، کسی کو بُرے الفاظ کہنا یہ سب برائیاں ہیں اور توبہ کی قبولیت سے دور لے جانے والی ہیں۔
کئی لوگ مقدموں میں دوسروں کے حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ سگے بھائی ایک دوسرے کے حقوق مارنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں۔ تو اس قسم کی حرکتیں کرکے پھر اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید رکھنا اور سمجھنا کہ ہم توبہ کر رہے ہیں، یہ بالکل غلط خیال ہے۔ انسان کی خام خیالی ہے۔ سچی اور خالص توبہ اس وقت کہلائے گی جب اگر کوئی چھوٹی سی بھی غلطی ہو جاتی ہے تو اس پر ندامت اور پریشانی کی انتہا ہو جائے۔
اور پھر تیسری بات، تو بہ کرنے والے کا ارادہ پکا اور مصمم ہو کہ مَیں نے ہر قسم کی برائیوں کو چھوڑنا ہے۔ اس استغفار کے ساتھ اگر صرف یہی خیال ہو کہ یہ رمضان بخشش کا مہینہ ہے اس میں کچھ عرصہ برائیوں سے بچ جاؤ۔ دوسروں کے حقوق کے تلفی سے احتراز کرو۔ رمضان کے بعد دیکھی جائے گی تو اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جاننے والا ہے ایسے لوگوں کی مغفرت کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ اللہ تعالیٰ نے تو صاف فرما دیا ہے کہ توبۃ النصوح کرو یعنی خالص توبہ کرو۔ کوئی دھوکے والی بات نہ ہو۔ خداتعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
جب یہ تین باتیں توبہ کرنے والا اپنے اندر پیدا کرے گا تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ سیئات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے اور یہ فتح ہے اخلاق پر۔ اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے۔ تو یہ سچی توبہ جو برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتی ہے اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے۔ فرما تا ہے

مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاُوْلٰئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ۔ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (الفرقان:71)

یعنی جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے پس یہی وہ لوگ ہیں جن کی بدیوں کو اللہ تعالیٰ خوبیوں میں بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
پس یہ انقلاب لانے کی ضرورت ہے کہ پہلے ذہنوں کو پاک رکھنے کے لئے استغفار کے ساتھ جہاد کیا جائے۔ پھر چھوٹی سے چھوٹی برائی پر بھی احساس ندامت اور شرمندگی ہو اور پھر مضبوط قوت ارادی چاہئے کہ چاہے جو بھی حالات ہوں، جو بھی لالچ ملے برائیوں کے قریب نہیں جانا اور اپنے ہر فعل اور عمل کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کرنے کی کوشش کرنی ہے اور یہ جوروزے کے دن میسر آئے ہیں جس میں انسان برداشت اور قربانی کی ٹریننگ کی کوشش کرتا ہے اور روزے کی برکات سے فیض پانے کے لئے یہی کوشش کام آئے گی اور یہ کوشش کرنی چاہئے تو پھر ہی بخشش کا عشرہ بخشش کے سامان کرے گا۔ اور صرف درمیانی عشرہ ہی نہیں بلکہ اگلا عشرہ بھی بخشش کے سامان کرے گا اور صرف رمضان کا مہینہ نہیں بلکہ آئندہ آنے والا ہر مہینہ اور ہر سال بلکہ ہر سال کا ہر دن بخشش کے سامان کرے گا۔ پس اس روح کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے جو آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے پیچھے ہے کہ درمیانی عشرہ بخشش کا سامان کرنے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ‘’عقل کیونکر اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خداتعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے بلکہ خدا جس کی ذات نہایت کریم و رحیم واقع ہوئی ہے وہ بندہ سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں خداتعالیٰ کا نام… توّاب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ سو بندہ کا ر جوع تو پشیمانی اور ندامت اور تذلّل اور انکسار کے ساتھ ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا رجوع رحمت اور مغفرت کے ساتھ‘‘۔ (چشمہ ٔ معرفت۔ روحانی خزائن جلد نمبر23صفحہ134-133۔ مطبوعہ لندن)
پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جوحقیقی استغفار کرنے والے اور خالص توبہ کرنے والے ہیں اور رمضان کے بابرکت مہینے میں اس کے اثرات اپنے پر دیکھتے ہوئے خداتعالیٰ کی مغفرت اور رحمت کے نظارے دیکھنے والے ہیں۔ اگر سستیاں ہوتی ہیں تو بندوں کی طرف سے، اگر کوتاہیاں ہوتی ہیں تو بندوں کی طرف سے ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بندے سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہی یہ ہے کہ بندہ اس کے پاس آئے اور وہ اس کی توبہ کرے جیسا کہ فرمایا

وَاللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُم (النساء:28)

اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر شفقت کرے اور توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جائے۔ پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس کام کو اپنے لئے اللہ تعالیٰ نے خود چنا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے پورا نہ کرے۔ پس یہ بندے کا کام ہے کہ استغفار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے پھر دیکھے اللہ تعالیٰ کس طرح اس کی طرف بڑھتا ہے۔
پس اس ماہ میں جب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش پہلے سے بہت بڑھ کر اس کے بندوں پر نازل ہو رہی ہے ہمیں چاہئے اس سے فیض پانے کی حتی المقدور کوشش کریں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو سامنے رکھیں کہ

وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحاً فَإِنَّہُ یَتُوبُ إِلَی اللَّہِ مَتَاباً (الفرقان:72)

اور جو کوئی توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف حقیقی توبہ کرتے ہوئے رجوع کرتا ہے۔ پس حقیقی توبہ کے ساتھ اعمال صالحہ کا بجا لانا بھی مشروط ہے جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی بتایا تھا۔ پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ درمیانی عشرہ کو بخشش کا عشرہ بنایا ہے تو یہ اس وقت اثر دکھائے گا جب ہم اپنے تمام اعمال اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع کرنے کی کوشش کریں گے۔
پس استغفار اور نیک اعمال جب ہمیں رمضان کے آخر ی عشرے میں داخل کریں گے تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے رسول کے مطابق آگ سے آزاد کرانے کا عشرہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے کہ

وَمَا کَانَ اﷲُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ (الانفال:34)

اللہ ایسا نہیں ہے کہ انہیں عذاب دے جبکہ وہ بخشش کے طالب ہوں۔
اللہ تعالیٰ تو مختلف ذریعوں سے ہمیں سمجھاتا رہتا ہے۔ پرانے لوگوں کے واقعات بیان کرکے، انبیاء کے واقعات بیان کرکے، انبیاء کے ذریعہ نصائح فرما کر کہ کس کس طرح تم میری بخشش طلب کر سکتے ہو اور کس طرح مَیں پہلی قوموں سے سلوک کرتا رہا ہوں اور اب بھی کروں گا۔ ظاہرہے جب انسان ایک خاص توجہ کے ساتھ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہو، اپنی نمازوں کی بھی حفاظت کر رہا ہو، نوافل سے بھی انہیں سجا رہا ہو، استغفار بھی کر رہا ہو، اور دوسرے نیک اعمال بجا لانے کی بھی کوشش کر رہا ہو یہاں تک کہ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ اگر اس سے کوئی جھگڑے، اُسے برا بھلا کہے تو وہ بالکل جواب نہ دے اور یہ کہہ کے چپ ہو جائے کہ مَیں روزہ دار ہوں، مَیں تو اس ٹریننگ میں سے گزر رہا ہوں اور میری یہ کوشش ہے کہ خداتعالیٰ کے احکامات کو اپنی زندگی کا حصہ بناؤں۔ تو لازماً ایسا شخص پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لے وہ آگ سے یقینا نجات پا جاتا ہے اور اس کی جنت میں داخل ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس حدیث کے شروع میں جس کا میں نے حوالہ دیا تھا اس کی تفصیل میں یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص کسی بھی اچھی خصلت کو اس مہینہ میں اپناتا ہے یعنی کوئی بھی اچھا فعل کرتا ہے، کام کرتا ہے، نیکی کو اپناتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہو جاتا ہے جو جملہ فرائض ادا کر چکا ہو، جتنے اس کے ذمّہ فرض ہیں اس نے ادا کر دئیے ہوں۔ اور جس نے ایک فریضہ اس مہینے میں ادا کیا وہ اس شخص کی طرح ہو گا جس نے ستّر فرائض رمضان کے علاوہ ادا کئے اور رمضان کا مہینہ صبر کرنے کا مہینہ ہے اور صبر کا اجر جنت ہے۔ یہ مؤاخات اور اخوت کا مہینہ ہے یعنی دوسرے کے غم میں شریک ہونا، دوسروں سے نرمی سے پیش آنا، دوسروں کو معاف کرنا۔ آپس میں محبت، پیار اور بھائی چارے کو قائم کرنا اور یہ سب باتیں پھر حقوق العباد اور اعمال صالحہ کی طرف لے جانے والی ہیں۔ بلکہ یہ ان کی وضاحت ہی ہیں۔
اور جب یہ ساری باتیں جمع ہو جائیں تو ایسے لوگوں کو آنحضرت ﷺ نے آگ سے بچنے کی خوشخبری دی ہے اور مسلسل نیکیوں پر قائم رہنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اپنے خلاف ہونے والے ظلموں پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جنت کی خوشخبری دی ہے۔
عموماً رمضان میں پاکستان میں بھی اور بعض دوسرے ممالک میں بھی جہاں ان نام نہاد علماء نے اپنا اثر قائم کرکے مسلمانوں کو غلط راستے پر ڈالا ہوا ہے احمدیوں پر ظلم اور زیادتی کے نئے سے نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں جو ہمیں نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبے میں بھی کہا تھا احمدیوں کو جذباتی، روحانی، مالی اور جانی تکلیفیں اورنقصان پہنچانے کی کو شش کی جاتی ہے۔ لیکن ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ اور پھر رمضان میں تو خاص طور پر اُس مومن کو جو نیک اعمال بجا لارہا ہے اور صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول جنت کی بشارت دے رہے ہیں۔ اس لئے اس تربیتی مہینے میں تو خاص طور پر ہر احمدی کو دعاؤں، استغفار، نوافل اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا اور جنت کو اپنے قریب تر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور ایسے ہی اعمال کرنے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے عمل کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَجَزَاہُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّۃً وَحَرِیْراً (الدھر:13)

اور ان کے نیکیوں پر قائم رہنے اور صبر کرنے کی وجہ سے انہیں جنت اور ریشم عطا کیا جائے گا۔ پس آج اگر احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ یہ ظلم ہم پر اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے ہو رہا ہے کہ آنے والے امام کو ہم نے مان لیا، اس وجہ سے ہم پہ ظلم ہو رہا ہے تو دشمن کو یہ ظلم کرنے دیں اور صبر سے کام لیں کہ اس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے۔ ظالموں کو جو اللہ تعالیٰ نے انذار کیا ہے اس سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ ان آگ لگانے والوں سے کیا سلوک کرے گا۔ لیکن ان دنوں میں ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ انسانیت کے لئے بالعموم اور اُمّت مسلمہ کے لئے بالخصوص رحم کی دعا کریں۔ بعض احمدی سمجھتے ہیں کہ ان ظلموں کے بعد دعا نہیں ہو سکتی۔ لیکن ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کی اکثریت گو دین کے معاملے میں پُر جوش تو ہے لیکن دین کے علم سے بالکل نا واقف ہے یا معمولی علم رکھنے والے ہیں یا علماء سے خوفزدہ ہیں۔ اور یہ جو دین کے نام نہاد عالم ہیں یہ لوگ ہیں جو انہیں غلط راستوں پر ڈال رہے ہیں۔
پس رمضان کے اس آخری عشرے میں صبر کا انتہائی مظاہر ہ کرتے ہوئے، دعاؤں اور نوافل پر زور دیتے ہوئے، استغفار اور توبہ کرتے ہوئے، نیک اعمال بجا لاتے ہوئے، تقویٰ پر ہمیشہ چلنے کا عہد کرتے ہوئے، آگ سے دور ہونے والے اور جنت کو حاصل کرنے والے بننے کی کوشش کریں۔
ہمیں اس رمضان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَأُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْن (الشعراء:91)

اور جنت متقیوں کے قریب کر دی جائے گی۔ دُور نہیں ہو گی۔

ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ (سورۃ ق:33)

یعنی یہ ہے وہ جس کا تم وعدہ دئیے گئے تھے۔ یہ وعدہ ہر اس شخص سے ہے جو خدا کے آگے جھکنے والا ہے۔ اپنے اعمال کی حفاظت کرنے والا ہے، اس سے یہ وعدہ ہے۔ جو احکام شریعت اللہ تعالیٰ نے دئیے ہیں ان پر عمل کرنے والا ہے اس سے یہ وعدہ ہے۔ تو رمضان سے ہم میں سے ہر ایک کو اس طرح گزرنے کی کوشش کرنی چاہئے جس طرح اللہ اور رسول ﷺ نے گزرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آخری عشرہ میں بھی یہ برکات سمیٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا اور اس کی جنت میں داخل ہونے والا بنائے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج پھر جمعہ کے بعد مَیں جنازہ ہائے غائب پڑھاؤں گا۔ ایک تو افسوسناک اطلاع یہ ہے، جیسا کہ مَیں نے پچھلی دفعہ درخواست دعا کی تھی کہ ہمارے ایک بھائی شیخ سعید احمد صاحب جن کو اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے احمدیت کی دشمنی کی وجہ سے گولیاں ماری گئی تھیں، وہ، ہسپتال میں کافی زخمی حالت میں تھے۔ وہ 12 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد آخر پھر جانبر نہ ہو سکے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

اور انہوں نے بھی شہادت کا رتبہ پایا۔ اس شہید نے بھی نوجوانی کی عمر میں اپنا خون پیش کیا۔ ان کی 42 سال عمر تھی اور ان کی شادی گزشتہ سال ہی ہوئی تھی اور اس حملے کے دوران جب یہ ہسپتال میں تھے، اس عرصے میں ہی ان کے ہاں پہلے بیٹے کی ولادت بھی ہوئی۔ یہ تھوڑی دیرکے لئے ہوش میں آئے تھے تو ان کو بتایا گیا کہ آپ کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے تو وہ کچھ اظہار نہیں کر سکتے تھے لیکن ان کی آنکھوں میں ذرا نمی سی آگئی۔
اس خاندان میں جس کے یہ نوجوان شیخ سعید صاحب ہیں پہلے بھی تین شہادتیں ہو چکی ہیں۔ ان کے والد شیخ بشیر صاحب کو زہر دے کر احمدیت کی وجہ سے مارا گیا، شہید کیا گیا۔ پھر ایک بھائی شیخ محمد رفیق صاحب اور ان کے ماموں پروفیسر ڈاکٹر شیخ مبشر احمد صاحب کو فائرنگ کرکے شہید کیا گیا تھا۔ شیخ مبشر احمد صاحب کو تو اس سال کے شروع میں شہید کیا گیا۔
شیخ سعید صاحب بھی بڑے خاموش طبع انسان تھے، ہمیشہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی، انتہائی مخلص خادم دین اور دعوت الی اللہ کا بہت شوق رکھتے تھے۔ 1990ء میں مولویوں نے ان کے خلاف فوج کو شکایت کی جس پر انہیں گرفتار کیا گیا اور پھر ضمانت پہ رہائی ہوئی۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا، ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور ایک بیٹا ہیں اور والدہ ہیں۔ ان کی عمر 72 سال ہے۔ ان کے لئے بھی بڑھا پے میں یہ صدمہ بڑا بھاری ہے۔ ان سب کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔
گزشتہ جمعہ کو جب مَیں نے دو شہداء کا ذکر کیا تھا تو ڈاکٹر منان صدیقی صاحب کا ذکر ان کی علاقہ میں واقفیت اور بعض کاموں کی وجہ سے تھا اور دوسرے ضلع میرپور خاص بھی بہت بڑا ضلع ہے جہاں جماعت بھی بڑی ہے اس کے مقابلے میں نواب شاہ کا ضلع چھوٹا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کس سے کیا سلوک کرنا ہے، شہادت کا درجہ تو بہرحال دونوں نے لیا۔ گزشتہ دنوں مجھے بعض افسوس کے خط آرہے تھے تو ان میں سے ایک اچھلے بھلے پڑھے لکھے نے صرف ڈاکٹر صاحب کے افسوس کا ذکر کیا، حالانکہ اگر میرے سے افسوس کرنا ہی ہے تو پھر تو دونوں شہداء کا افسوس کرنا چاہئے تھا۔ سیٹھ صاحب سے بھی میری ذاتی واقفیت تھی، بڑے خاموش طبع اور کام کرنے والے، دین کا جذبہ و شوق رکھنے والے کارکن تھے۔ مَیں جب بھی نوابشاہ گیا ہوں، کئی مرتبہ گیا ہوں، خاص طور پر ملنے کے لئے آتے تھے، میٹنگ کرتے تھے، جماعتی کاموں میں مشورہ لیتے تھے اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ تو بہرحال میں اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔
آج دوسرا جنازہ غائب جو ابھی ادا ہو گا وہ ایک ہماری سیرئین (Syrian) بہن مروہ الغالول صاحبہ ہیں۔ یہ پیدل جا رہی تھیں ان کو پیچھے سے کسی ٹرک یا گاڑی نے ٹکر ماری اور کچھ عرصہ یہ ہسپتال میں رہیں اور پھر ان کی وفات ہو گئی۔ 24سال ان کی عمر تھی

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

یہ بھی ہماری عربی ویب سائیٹ

اَجْوِبَۃ عَنِ الْاِیْمَان

میں بڑی محنت سے کام کر رہی تھیں اور ہر مشکل کام انہوں نے اس میں کیا۔ پھر اسی طرح الاسلام ویب سائیٹ پر زکوٰۃ کے موضوع پر انگریزی میں لکھی گئی ایک کتاب کا انہوں نے عربی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ اس ترجمے کی تکمیل کے بعد دراصل یہ اس کو کتابی شکل دینے کے لئے پریس میں جا رہی تھیں، تو حادثے کا شکار ہو گئیں۔ بہت نیک خاتون تھیں۔ تقویٰ شعار تھیں، خدمت کا جذبہ رکھنے والی تھیں۔ اکثر کہتی تھیں کہ مجھے دین کا کام ملتا چلا جائے۔ یہاں ان کے منگیتر محمدملص صاحب ہیں جو ایم ٹی اے العربیہ میں کام کر رہے ہیں۔ عنقریب ان کی شادی ہونی تھی۔ بہرحال جو اللہ کی تقدیر۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک کرے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور پیچھے رہنے والوں کو صبر اور حوصلہ دے۔
ایک تیسرا جنازہ غائب ہو گا یہ بھی سیرین (Syrian) ہیں سامی قزق صاحب۔ ان کی چند روز قبل وفات ہوئی ہے۔ یہ بھی فلسطین کے ایک مخلص احمدی خضرقزق صاحب کے بیٹے تھے اور نوجوانی میں ہی یہ بڑا جذبہ رکھنے والے انسان تھے۔ 1996ء میں برطانیہ میں جلسہ میں شمولیت کے لئے آئے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی اور حضور رحمہ اللہ سے جو شفقت کا سلوک دیکھا تواس کے بعد ایمان میں یہ اور بھی بڑھ گئے اور واپس جاکر اپنا ایک مکان تھاجو جماعتی ضروریات کے لئے انہوں نے بغیر کرایہ کے جماعت کو دے دیااور کہاکہ مَیں جماعت کے لئے دے رہاہوں اس لئے کوئی پیسہ وصول نہیں کروں گا۔ جب یہ جلسہ پر آئے تھے توکہتے ہیں اب جلسہ پہ آکے مجھے پتہ لگا کہ جماعت احمدیہ کیا چیز ہے۔ بہت نیک طبع ملنسار انسان تھے۔ غریبوں کی مدد کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی اولاد کو بھی احمدیت کے زیور سے آراستہ کرے۔ ان کو توفیق دے کہ وہ بھی جماعت میں شامل ہوں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں