مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا سالانہ اجتماع 2005ء
اسلام آباد(ٹلفورڈ) میں مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کا کامیاب و بابرکت انعقاد۔
علمی وورزشی مقابلہ جات اور مختلف موضوعات پر اہم تقاریر۔
سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اختتامی اجلاس سے خطاب
جماعتی ترقی کے لئے خدام کی بہترین تربیت اور ان کا فعال ہونا اور ان تمام باتوں پرعمل کرنا جو خلیفۂ وقت کی طرف سے وقتاً فوقتاً بتائی جاتی ہیں ، نہایت ضروری ہے۔
تم اپنے آپ کو معمولی نہ سمجھو۔ تم نے اس زمانہ کے امام کو مان کر ایک عہد کیاہے ۔اب اس کو پورا کرو۔ اپنی دینی ، روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف توجہ کرو۔ اب تمہاری ترقی سے ،تمہاری اصلاح سے ،جماعت کی ترقی وابستہ ہے۔
سچائی کو لازم پکڑنے ،جھوٹ سے پرہیز کرنے ،باہمی محبت و اخوت اور اتحاد واتفاق کواختیار کرنے اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کی ترغیب پر مشتمل نہایت اہم وتاکیدی نصائح
(رپورٹ :فرخ سلطان۔لندن)
(مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 9 دسمبر 2005ء)
امسال مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا سالانہ اجتماع 30؍ستمبر، یکم و 2؍اکتوبر 2005ء کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں منعقد ہوا۔ اس نیشنل اجتماع کا خصوصی موضوع ’’خدام الاحمدیہ کا عہد‘‘ رکھا گیا تھا۔
اجتماع کی تیاری کے لئے ملک بھر میں مجالس نے مقامی اور علاقائی سطحوں پراجتماعات منعقد کرائے۔ نیشنل اجتماع کمیٹی کے چیئر مین نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ UK مکرم طارق احمد بی ٹی صاحب تھے جن کے ساتھ ڈیڑھ سو سے زائد کارکنان پر مشتمل مختلف ٹیموں نے عمدگی سے اپنے فرائض سرانجام دیئے۔ امسال پہلی بار اطفال کے اجتماع کو خدام کے احاطہ سے باہر منعقد کیا گیا اور مرکز ربوہ کی طرف پر اُن کے انتظامات کرنے کی کوشش کی گئی۔
اجتماع کا آغاز جمعۃالمبارک کی شام مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیرUK کی زیرصدارت اجلاس سے ہوا۔ مکرم امیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہاکہ اسلام کے نام پر ایسی حرکتیں کی جارہی ہیں جن کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہم نے اس معاشرہ میں اسلام کی حقیقی تعلیم کو پھیلانا ہے تاکہ عوام کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوسکے۔ آپ نے جدید ٹیکنالوجی انٹرنیٹ کے صحیح اور مفید استعمال کرنے اور اس کے نقصانات سے بچنے کے لئے خاص محنت کرنی چاہئے۔اسی طرح ایمانداری، دیانت اور ہمدردی جیسی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی حفاظت کی طرف بھی توجہ دلائی۔
اجتماع میں بہت سے علمی و ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا جن میں تلاوت قرآن کریم، نظم خوانی، تقریر، فی البدیہہ تقریر، پیغام رسانی، حفظ قرآن، معلومات عامہ نیز ورزشی مقابلہ جات کے علاوہ تیراندازی، فٹ بال اور والی بال بھی شامل ہیں۔ میدان عمل کے ساتھ مقررہ جگہ پر تمام مجالس نے اپنے خیمہ جات بھی نصب کئے اور حسب روایت اجتماعی باربی کیو کا بھی اہتمام کیا گیا۔
ہفتے کے روز ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد مکرم مرزا فخر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے خطاب کیا اور خدام اور اطفال سے سچ بولنے کی عادت پر قائم ہوجانے پر زور دیا۔ آپ نے جلسہ سالانہ کی نئی جگہ کی خرید کے سلسلہ میں نئے وعدہ جات لکھوانے کی بھی اپیل کی۔ اسی روز ایک پروگرام میں تین ایسے خدام نے حضورایدہ اللہ تعالیٰ کی تحریک پر نظام وصیت میں شمولیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جنہوں نے حال ہی میں نظام وصیت میں شمولیت کی توفیق پائی ہے۔ اُن کے ایمان افروز خیالات سے سامعین نے بہت اثر قبول کیا۔
اجتماع کے آخری روز اتوار کو حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تشریف آوری اور اسلام آباد کے معائنہ کے معاًبعد چند نمائشی پروگرام منعقد ہوئے۔ سب سے پہلے خدام اور اطفال کی ٹیموں کے مارشل آرٹس اور باسکٹ بال کے میچز منعقد ہوئے نیز خدام اور انصار کی مجالس عاملہ کے مابین رسہ کشی کا مقابلہ بھی ہوا جس میں گزشتہ سال کی طرح انصار نے ہی کامیابی حاصل کی۔ پھر حضور انور ایدہ اللہ کے ساتھ عہدیداران کے مختلف گروپس نے تصاویر بنوائیں جس کے بعد اختتامی تقریب کا انعقاد عمل میں آیا۔
سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد تلاوت قرآن کریم کے بعد عہد دہرایا گیا جس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام پیش کیا گیا۔ پھر مکرم مرزا فخر احمد صاحب صدر مجلس نے رپورٹ پیش کی جس کے بعد تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی۔ مڈل سیکس ریجن نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر علم انعامی حاصل کیا جبکہ مورڈن کی مجلس کو خدام الاحمدیہ میں بہترین قیادت اور گلاسگو کو اطفال الاحمدیہ میں بہترین کارکردگی دکھانے کا انعام دیا گیا۔ تقسیم انعامات کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے حاضرین سے خطاب فرمایا۔
حضور انور نے فرمایا کہ اس وقت جیسا کہ آپ صدر صاحب کی رپورٹ میں سُن چکے ہیں یہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا آخری سیشن ہے اور اب اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ اس اجتماع میں بہت سے پروگرام ہوئے ہوں گے اور کچھ رپورٹ میں اُنہوں نے پیش بھی کی ہیں باتیں۔ علمی اور تربیتی پروگرام بھی ہوئے ہوں گے کچھ تقاریر بھی ہوئی ہوں گی۔ تو ان اجتماعوں کے منعقد کرنے کا مقصد یہی ہے کہ افرادِ جماعت کے کانوں میں نیکی کی باتیں مسلسل پہنچتی رہیں۔ابھی دو مہینے پہلے ہی آپ کا جلسہ سالانہ ختم ہو ا ہے۔ اُس میں بھی بہت سے علمی اور تربیتی خطاب ہوئے جو بہت سے سننے والوں کے لئے فائدے کا باعث بنے ہوں گے۔ بہت سے خدام کو بھی ان تقاریر کو سننے اور پروگراموں میں شامل ہونے کے بعد اپنی اصلاح کی توفیق ملی ہوگی، اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہوگی۔ لیکن جب جماعت کی مختلف ذیلی تنظیمیں اپنے اجتماعات منعقد کرتی ہیں تو اس میں، قدرتی طور پر، خاص طور پر توجہ پیدا ہوتی ہے۔ لجنہ کو اپنی انفرادیت کا احساس پیدا ہوتا ہے، انصار کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے، خدام کو اپنی اہمیت کا احساس ہورہا ہوتا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم بھی جماعت کا ایک اہم حصہ ہیں۔ جس نے اپنے علیحدہ پروگرام بنا کر (عمر اور مزاج کے لحاظ سے مختلف پروگرام تشکیل دیے جاتے ہیں)، ان پروگراموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعت کا ایک فعال حصہ بننا ہے۔ اطفال الاحمدیہ میں اپنی ایک انفرادیت اور اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ بچے اپنے پروگرام کر رہے ہوتے ہیں اور بالکل نوجوان خدام جو ہیں چھوٹی عمر کے پندرہ اور بیس سال کے قریب ان کو اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب تک کسی قوم کے ہر طبقے کو اور ہر فرد کو اپنی اہمیت کا احساس نہ ہوجائے کہ ہم جماعت کا ایک حصہ ہیں جس کے ساتھ جماعت کی ساکھ اور ترقی وابستہ ہے، اس وقت تک وہ ترقی کی روح نہیں پیدا ہوتی۔ ترقی کی روح تب ہی پیدا ہوتی ہے جب قوم کے ہر طبقے میں یہ احساس ہوجائے کہ ہماری ایک اہمیت ہے۔ پھر قومیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی منازل طے کرتی چلی جاتی ہیں۔ وہ ترقی کی منازل طے کرتی چلی جانے والی قومیں ہوتی ہیں۔ اس لئے حضرت مصلح موعود ؓ نے جنہوں نے جماعت کی تمام ذیلی تنظیموں کی بنیاد ڈالی تھی وہ فرمایا کرتے تھے کہ جس جماعت کی ذیلی تنظیمیں بھی فعال ہوں اور جماعتی نظام بھی فعال ہو، اس جماعت کی رفتار ترقی کی رفتار کئی گنا ہوجاتی ہے۔
اور پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ ان تمام تنظیموں کا کہ اگر کہیں جماعتی نظام میں ٹھہرائو کی کیفیت پیدا ہوجائے کیونکہ بعض دفعہ بعض جماعتوں کے عہدیدار بڑی عمر کے ہونے کی وجہ سے احتیاطوں اور مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ٹھیک ہے احتیاطیں اور مصلحتیں بھی ہونی چاہئیں کیونکہ مومن کا ہر قدم عقل سے اٹھنے والا قدم ہونا چاہیے لیکن بعض دفعہ سستیوں کوبھی احتیاطوں کا نام دیدیا جاتا ہے۔ تو بہرحال اگر کہیں مرد سُست ہیں تو عورتیں بعض دفعہ یا لجنہ بعض دفعہ activeہو جاتی ہے اور کچھ نہ کچھ ترقی تو ہوتی رہتی ہے۔ کہیں عورتیںاور بوڑھے سُست ہوں تو وہاں نوجوان activeہوتے ہیں، خدام activeہوتے ہیں اور جماعت میں ترقی کی رفتارنظر آتی رہتی ہے۔ کہیں ذیلی تنظیمیں اگر سُست ہوں اور جماعتی نظام یعنی صدر جماعت، امیر جماعت وغیرہ چُست ہوں تو وہاں بھی جماعتی ترقی ہوتی رہتی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا جماعتی مرکزی نظام یعنی اس جگہ کا جو جماعتی نظام ہے اور ذیلی تنظیمیں یہ سب فعال ہوں، ایک دوسرے سے تعاون کر رہی ہوں، مل جُل کر بھی اور اپنے دائرے میں بھی رہ کر اپنی تنظیموں کے تحت بھی تربیتی، علمی اور تبلیغی پروگرام بنا رہی ہوں تو وہاں جماعت کی رفتار کئی گنا ہوجاتی ہے۔ اب دوروں پہ جب بھی میں جاتا ہوں تو اسی نظر سے جب جائزہ لیتا ہوں تو سو فیصد یہ بات سچ ثابت ہوتی ہے کہ وہی جماعتیں ہر لحاظ سے ترقی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں جہاں ہر طبقے کا جماعتی نظام فعال ہے اور اپنا اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
پس اس لحاظ سے انصار بھی ذمہ دار ہیں اور پوچھے جائیں گے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں یا نہیں۔ لجنہ بھی اپنے دائرے میں ذمہ دار ہے اور پوچھی جائے گی کہ اُس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں یا نہیں۔ اور خدام بھی ذمہ دار ہیں اور پوچھے جائیں گے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا کی ہیں یا نہیں۔ اور خدام میں کیونکہ نوجوان لڑکے اور مرد شامل ہوتے ہیں جن میں زیادہ طاقت بھی ہوتی ہے اور صحت بھی اچھی ہوتی ہے، صلاحیت بھی ہوتی ہے اس لئے جماعتی ترقی کے لئے خدام کی بہترین تربیت اور فعال ہونا اور تمام پروگراموں میں حصہ لینا، تمام اُن باتوں پر عمل کرنا جو خلیفۂ وقت کی طرف سے وقتاً فوقتاً کی جاتی ہیں، زیادہ ضروری ہے۔ خدام ہی ہیں جنہوں نے مستقبل کی نسل کے باپ بننا ہے اور خدام ہی ہیں جن میں آئندہ نسل کے باپ موجود ہیں۔ جو شادی شدہ ہیں اور بچوں والے ہیں وہ آئندہ نسل کے باپ ہیں۔ اور ایک باپ کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا کہ اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی تحفہ نہیں ہے جو باپ اپنی اولاد کو دیتا ہے۔ پس یہ تربیت بھی اگلی نسل کی تب ہی ہوگی جب آپ لوگ خود بھی اپنی تربیت کی طرف توجہ دے رہے ہوں گے۔
خدام الاحمدیہ میں 25-30 سال کی عمر سے لے کر 40سال تک کے خدام اگر اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنی تربیت کی طرف توجہ دے رہے ہونگے، اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں گے تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنی اولادوں کی نیک تربیت، بچپن سے کرنے کا ذریعہ بن رہے ہوں گے بلکہ جو بالکل نوجوان خدام ہیں جو ان کے چھوٹے بھائیوں کا درجہ رکھتے ہیں ان کے سامنے وہ مثالیں قائم کر رہے ہوں گے اور غیرمحسوس طریق پر ان کی تربیت میں بھی حصہ لے رہے ہوں گے۔ یاد رکھیں کہ قوموں کی زندگی صرف ایک نسل کی زندگی نہیں ہوتی بلکہ ترقی کرنے والی قومیں، دنیا کو اپنے زیر اثر لانے والی قومیں، ایک کے بعد دوسری نسل میں وہ روح پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں جن سے اُن کی ترقی کی رفتار کم نہ ہو اور جماعت احمدیہ تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ اُس نے آنحضرتﷺ کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا ہے۔ پس اپنی اصلاح اور تربیت کی طرف توجہ دیں گے تو اس اہم کام کو پورا کرنے والے بھی ہونگے۔ اگر اس فکر سے آزاد ہونا ہے کہ قوم اصلاح کی طرف بڑھ رہی ہے اور ہر دن یہ خوش خبری دینے والا دن ہے۔ ہر دن اس خوش خبری کے ساتھ طلوع ہو رہا ہے کہ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے قوم ترقی یذیر ہے تو اُس کا بہترین حل یہ ہے کہ نوجوان نسل کا ہر قدم روحانی اور اخلاقی لحاظ سے ترقی کی طرف اُٹھنے والا قدم ہو۔ اسی لئے حضرت مصلح موعود ؓ نے فرمایا کہ قوموں کی اصلاح نوجوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ پس یہ نعرہ صرف اور صرف بینر پر لکھ کر لٹکانے کے لئے نہیں ہے یہ نعرہ لگانے کے لئے نہیں ہے یا خدام الاحمدیہ کے پروگراموں کے اُوپر پرنٹ کرنے کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ خدام الاحمدیہ کی انتظامیہ کے لئے بھی ایک چیلنج ہے کہ تم اپنے مقصد میں تب ہی کامیاب ہوسکتے ہو جب تم اپنے اور اپنے ساتھیوں کے قدم روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف لے جارہے ہوگے۔ ورنہ یہ عہدے اور یہ سرگرمیاں، یہ Activities، یہ پروگرام، یہ سب بے فائدہ ہیں۔
اس لئے عہدیداروں کو، نیشنل عاملہ کے عہدے دار ہوں یا ریجنل عاملہ ہو یا مقامی عاملہ ہو یا مختلف دوسرے عہدے دار ہوں، ہر لیول کے عہدیداروں کے اپنے معیار بھی بلند ہونے چاہئیں تاکہ دوسرے بھی اُن سے سبق حاصل کریں۔ لیکن یہ نعرہ عام خادم کے لئے بھی ایک ٹارگٹ مہیا کر رہا ہے کہ تم اپنے آپ کو معمولی نہ سمجھو۔ تم نے اس زمانے کے امام کو مان کر ایک عہد کیا ہے اور اب اس کو پورا کرو۔ اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف توجہ کرو تمہارا ہر قدم نیکی کی طرف اٹھنے والا قدم ہو۔ کیونکہ اب تمہاری ترقی سے، تمہاری اصلاح سے جماعت کی ترقی وابستہ ہے۔ چھوٹی عمر کے خدام یہ نہ سمجھیں کہ ہماری عمر ابھی پندرہ سولہ سال کی عمر ہے، کھیلنے کھُولنے کی عمر ہے، کچھ بڑھے ہونگے تو اس طرف توجہ کر لیں گے۔ یہ عمر ایسی ہے جس میں پختہ اور میچور (Mature) سوچیں پیدا ہوجانی چاہیں۔ اس لئے ہر خادم کو اپنے مقام اور اہمیت کو سمجھنا چاہئے۔
حضور انور نے خدام سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عہد پورے کرنے اور اپنے عہد نبھانے کے بارے میں بہت زور دیا ہے۔ فرمایا کہ ہر عہد کے متعلق ایک نہ ایک دن جواب طلبی ہوگی، پوچھا جائے گا۔ اور آپ ہر اجلاس میں، اجتماع میں کئی دفعہ یہ عہد دہراتے ہیں۔ تو اس میں آپ دینی قومی اور ملّی مفاد کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہنے کا عہد کرتے ہیں۔ یہ عہد صرف منہ سے الفاظ نکالنے کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر عہد کرتے ہیں۔ پس اس عہد کو پورا کرتے ہوئے دین، قوم اور ملت کے لئے اپنی اصلاح کرتے ہوئے تمام نیک اخلاق کو اپنانا چاہیے۔ ہر خادم کو اپنی نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرتے ہوئے، اپنے لئے، اپنے دین کے لئے، اپنی قوم کے لئے، ملک کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔
پھر دوسرے اخلاق ہیں جن کو اختیار کرنے کامومن کو حکم ہے۔ اس میں سب سے بڑھ کر ایک حکم جو ہے بہت ضروری حکم ہے میرے نزدیک جس پر اگر ہر خادم قائم ہوجائے تو ہر بُرائی سے بچنے اور اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اور وہ ہے سچائی کوا ختیار کرنا اور ہر حالت میں سچ کا دامن پکڑے رکھنا۔ گزشتہ چند سالوں میں دوسری جگہوں سے احمدی بھی آئے ہیں، پاکستان سے بھی اور یورپ سے بھی دوسرے ملکوں سے۔ ان میں خدام بھی ہیں اور مختلف پیشوں سے منسلک ہیں کچھ اسائلم سیکر(Asylum Seeker) بھی ہیں۔ تو جہاں جہاں بھی احمدی خادم ہے اُسے ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سچ کو نہیں چھوڑنا۔ مختلف طبقوں اور مزاجوں کے لوگ جب اکٹھے ہوں تو بعض دفعہ بظاہر چھوٹی چھوٹی بُرائیاں پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہیں لیکن وہ چھوٹی نہیں ہوتیں ان کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ اس لئے خدام الاحمدیہ کے شعبہ تربیت کو ہر لیول پر فعال کرنے کی ضرورت ہے کہ سچ کو کسی بھی موقع پر چھوڑنا اور جھوٹ کا سہارا لینا ایک بہت بڑی بُرائی ہے جو بہت سی بُرائیوں کے پیدا ہونے کا ذریعہ بنتی ہے۔ جھوٹ بولنے والے کی عبادتیں بھی بیکار جاتی ہیں کیونکہ جھوٹ کو اللہ تعالیٰ کے مقابل پہ رکھ رہا ہوتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سوجھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ پس جھوٹ کو چھوٹی موٹی بُرائی نہیں سمجھنا چاہیے۔ جیسے بھی حالات ہوں، اگر سچ پر قائم رہنے کی کوشش کریں گے تو اپنی اصلاح کی بھی کوشش کر رہے ہونگے اور معاشرے کی اصلاح کی بھی کوشش کر رہے ہونگے۔
پھر ایک اعلیٰ خُلق محبت و اتفاق ہے۔ کسی بھی قوم کی ترقی کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر رنجشیں پیدا ہوجاتی ہیں اور پھر ناراضگیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ خاندان کے دوسرے لوگ بھی پھر ناراضگیوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ تو یہ کوئی بہادری نہیں ہے کہ غصہ میں آکر فوراً لڑائی شروع کردی بلکہ حدیث میں ہے کہ اصل بہادر وہ ہے جو غصہ دبانے والا ہے۔ پھر ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا کہ جو لوگ میری خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اُن کو میں اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دوں گا۔ پس اپنی ناراضگیوں کو بڑھا کر اللہ کی رحمت سے دُور جانے کی بجائے آپس میں محبت اور اتفاق سے رہ کر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ خدام پر اپنے آپ پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آپ پر بھی اُن کی بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ آپ کی اصلاح سے قوم کی اصلاح وابستہ ہے۔ اس لئے ہر پہلو میں آپ لوگوں کو احتیاط کرنی چاہیے۔ ہر نیکی کو تلاش کر کے اختیار کرنا چاہیے اور ہر بُرائی کو بیدار ہوکر ترک کرنا چاہیے۔ یہاں بہت سے ایسے بھی ہیں جیسا کہ میں نے کہا اسائلم کی تلاش میں آئے ہیں۔ دنیاوی حالات بھی بہتر ہوں اس لئے بھی آئے ہیں یا روزگار کی تلاش میں آئے ہیں۔ تو یاد رکھیں یہ دنیا کمانا، یہ بھی آپ کے دین کے لئے ہی ہو۔ دنیاداری میں اتنے نہ بڑھ جائیں کہ دل میں صرف دنیا کی محبت ہی رہ جائے اور خدا کا خانہ خالی ہوجائے۔ اپنی ذمہ داری کا احساس مٹ جائے۔ یہ نہ ہو کہ دنیا صرف آپ کی زندگی کا مقصد بن جائے بلکہ یہ بہتر حالات اور یہ بہتر سہولتیں آپ کو اللہ تعالیٰ کے مزید قریب کرنے کا باعث بنیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی طرف لے جانے والی ہوں۔
حضور انور نے مزید فرمایا کہ آپ میں سے بہت سے سٹوڈنٹس بھی ہیں یہاں کا لجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں سکولوں میں پڑھ رہے ہیں جو چھوٹے خدام ہیں اُن کی شکر گزاری اس صورت میں ہوگی جب وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ دعائوں کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم پر بھی توجہ دے رہے ہونگے۔ اس ملک میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو موقع فراہم کیا ہے کہ جس طرح چاہیں جتنی محنت کریں اُتنے ہی تعلیم کے اعلیٰ درجے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لئے بجائے اس کے کہ بنیادی تعلیم حاصل کر کے O-Levelیا A-Levelزیادہ سے زیادہ کرکے کام کی تلاش شروع کر دیں اور عام معمولی کام کریں، ہر احمدی طالب علم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہر شعبے میں احمدی طالب علم کو آگے آنا چاہیے۔ عموماً احمدی بچیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کو بھی اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ آپ کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا جہاں آپ کے لئے فائدہ مند ہوگا وہاں جماعت کے وقار کو بلند کرنے والا بھی ہوگا۔ اور آپ کی اگلی نسلوں کے اعلیٰ علمی مستقبل کی بھی ضمانت ہوگا۔ یاد رکھیں یہ بھی آپ کی ایک ذمہ داری ہے ہر احمدی طالب علم کی۔ اُس کو ابھی سے اس بارہ میں سوچنا چاہیے۔ کیونکہ ایک احمدی نے علم و معرفت کے میدان میں سب سے آگے بڑھنا ہے۔ ذرا سی محنت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعودؑ سے یہ وعدہ ہے کہ آپ کے فرقہ کے لوگ علم و معرفت میں ترقی کریں گے۔ تو اس کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے ہمارے ہر طالب علم کو۔ اور جب کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ انشاء اللہ۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ ہر طبقے اور ہر عمر کا جو خادم ہے اپنے آپ کو ایسا وجود سمجھے کہ جس نے ہر جگہ جماعت کا نام روشن کرنا ہے اور اپنے اس عمل سے احمدیت اور اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بننا ہے۔ اللہ کرے کہ ہر خادم میں یہ احساس ذمہ داری کا پیدا ہوجائے اور آپ لوگ جماعت کا ایک فعال رکن بننے والے ہوں۔ آمین۔