مکرم سید سہیل احمد صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍دسمبر 2004ء میں مکرمہ نصرت احمدنوشی صاحبہ کا اپنے والد محترم سید سہیل احمد صاحب کی یادوں کے حوالہ سے تحریر کردہ ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
مکرم سید سہیل احمد صاحب 15 دسمبر 1931ء کورانچی صوبہ بہار، انڈیا میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد سید محی الدین احمد نامور وکیلوں میں سے تھے۔ وہ حضرت مصلح موعودؓ کے دست مبارک پر انیس سال کی عمر میں (اپنے خاندان میں سب سے پہلے) احمدی ہوئے تھے۔ ہجرت کے وقت انہوں نے قادیان کی زمینوں کے لئے کئی مقدمات بلامعاوضہ لڑے اور بفضل تعالیٰ جیتے۔ آپ نے اُس وفد کی قیادت بھی کی تھی جو اسی سلسلہ میں حضورؓ کے ارشاد پر پنڈت نہرو سے ملا تھا۔ 1957ء میں بہار کے حضرت سید ارادت حسین صاحبؓ کی بیٹی سے آپ کی شادی ہوئی۔
محترم سید سہیل احمد صاحب نے 1955ء میں C.S.P کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا جس کے بعد مزید ٹریننگ کے لئے آکسفورڈ اور کیمبرج تشریف لے گئے۔ یہاں آپ کے تعلقات حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ سے بھی استوار ہوگئے۔ پھر جب آپ بریسالؔ کے ڈپٹی کمشنر تھے تو حضورؒ آپ کے ہاں بھی تشریف لے گئے اور آپ کے ذاتی بحری جہاز پر شکار کی غرض سے کئی دنوں کے لئے سندر بن میں قیام کیا۔
آپ کی پہلی پوسٹنگ سیالکوٹ میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر ہوئی۔ جس کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کے مختلف اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور 35 سالہ سرکاری ملازمت میں بہت ایمانداری کا نمونہ پیش کیا۔ ریٹائرمنٹ کے وقت آپ کی خدمت کے اعتراف کے لئے گورنمنٹ کی طرف سے میریٹ ہوٹل میں ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ اس تقریب میں آپ کو بے داغ سرکاری سروس پر انعام دیا گیا۔ آپ نے 1974ء میں (N.D.C) نیشنل ڈیفنس کالج کا کورس بھی کیا اور کئی بار بیرون ملک پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ خدمت دین کی بھی خوب توفیق پائی۔ کئی بار آزمائش آئی لیکن آپ توکّل اور شکر کے میدان میں ترقی کرتے چلے گئے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے شہداء سے متعلق خطبات میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بہت نڈر اور جوشیلے احمدی رہے ہیں۔ حضورؒ نے براہمن بڑیہ کے ایک جلسے کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی بہت تعریف فرمائی جس کی صدارت آپ کر رہے تھے کہ اچانک مخالفین نے حملہ کر دیا۔ پتھراؤ کیا اور آگ لگا دی۔ آپ بھی کافی زخمی ہوئے۔ حضورؒ نے مزید فرمایا کہ اسلام آباد میں اپنے قیام کے دوران بھی آپ کا یہی طرز عمل ہے۔
حقیقت بھی یہی تھی کہ اسلام آباد میں ہمارے گھر میں لجنہ اور انصار اللہ کے اجلاس خوب ہوتے تھے۔ آپ جماعت کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور ویسے بھی خدمت کرتے رہے۔ انگریزی اخباروں میں جب بھی احمدیت پر کسی رنگ میں حملہ ہوا تو آپ نے ہمیشہ احمدیت کا مدلل طریق پر دفاع کیا۔ دعوت الی اللہ کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ دل کی بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں رہنا پڑا تو وہاں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا۔
قرآن پاک سے انہیں بے انتہا عشق تھا اور اسے محبت سے پڑھنے کی بہت تلقین کرتے۔ ہر وقت باوضو رہتے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی ہر کتاب کئی کئی دفعہ پڑھی۔ موصی بھی تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں سنت رسولؐ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے۔ ملازموں سے بہت احسان کا سلوک کرتے۔
آخری پانچ سال دل کی بیماری کی وجہ سے کچھ تکلیف میں گزرے، لیکن کبھی ناشکری یا بے صبری کا کلمہ نہیں کہا۔ قادیان سے اتنی محبت تھی کہ ایک دفعہ میں نے جلسے پر ایسے ہی کہہ دیا کہ لنگر کی روٹی سخت ہوجاتی ہے تو آپ نے مجھے ڈانٹا کہ مسیح موعود کے لنگر کے بارہ میں ایسا نہیں کہتے۔ نماز سے اتنی محبت تھی کہ آخری بیماری میں جب بھی ہوش آیا تو نماز کا ہی پوچھا اور نماز کے دوران ہی بے ہوشی میں چلے جاتے۔ شدید بیماری کے علاوہ ہمیشہ کھڑے ہوکر نماز ادا کی۔ بیمار ہونے سے پہلے تک نہ صرف رمضان میں اہتمام سے روزے رکھتے بلکہ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں