مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 16؍اپریل 2021ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍مارچ 2013ء میں مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب کا ذکرخیر مکرم پروفیسر محمد شریف خان صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
مکرم پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب انبالہ میں 16؍ستمبر 1934ء کو مکرم بابو عبدالغنی صاحب کے گھر پیدا ہوئے۔ بابو صاحب نے 1909ء میں حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپ کے نانا حضرت چودھری سربلندخان صاحبؓ اور نانی حاکم بی بی صاحبہؓ دونوں صحابہ میں شامل تھے۔ آپ کی عمر چھ سال ہوئی تو والدہ کا انتقال ہوگیا۔
قیام پاکستان کے بعد یہ گھرانہ لو دھراں شفٹ ہو گیا جہاں سے آپ نے میٹرک کیا۔ B.Scتک تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں تعلیم حاصل کی اور شعبہ فزکس میں ڈیمانسٹریٹر کی حیثیت سے کام شروع کر دیا۔ پیارو محبت سے سمجھانے کے سادہ انداز کے باعث آپ ہمارے چہیتے استادوں میں سے تھے۔ کلاس میں مہربانی سے پیش آتے اور کلاس سے باہر مسکراتے ہو ئے چہرے سے سلام اور حال پرسی میں پہل کرتے۔ ہم اگر مذاق بھی کرتے تو خوب enjoy کرتے اور احسن پیرائے میں جواب دیتے۔
والد صاحب کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ مشفقانہ سلوک رہا۔ آپ کی زیر نگرانی اور رہبری میں بہن نے بی اے، بی ایڈ کیا۔ پھر اس کی شادی کی۔ جبکہ آپ کے دونوں چھوٹے بھائیوں نے تعلیم الاسلام کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی۔
مجھے آپ کے ساتھ بارہا جلسہ ہائے سالانہ کی ڈیوٹی کالج ہال میں مہمان نوازی سے لے کر شعبہ مکانات، معلومات، گوشت وغیرہ میں دینے کا موقع ملا۔ آپ ڈیوٹی پر وقت سے دس منٹ پہلے پہنچ جاتے۔ لیٹ آنے والوں کو محبت سے مسکراتے ہو ئے سرزنش کرتے۔ہر کوئی آپ سے ہر قسم کی بات بلاجھجک کرلیتا، کسی بات کا برا نہ مناتے۔
میں1959ء میں مزید تعلیم کے لیے لاہور چلا گیا اور 1963ء میں واپس آکر تعلیم الاسلام کالج میں پڑھانا شروع کیا تو پروفیسر عبدالرشید صاحب پشاور یونیورسٹی سے 1961ء میں حساب میں ایم ایس سی کرکے آ چکے تھے۔ آپ کے چہرے پر وہی پُرکیف محبت سے بھری ہوئی مسکراہٹ مزید نکھر آئی تھی۔ colleague ہونے کے ناطے آپ کی وسعتِ قلب اور معمولاتِ زندگی سے مزید آگا ہی ہو ئی۔ کالج میں پڑھانے کے علاوہ آپ نے مختلف حیثیتوں میں وائس پرنسپل سے لے کر کنٹرولر امتحانات، رجسٹرار، نگران لا ئبریری وغیرہ کے فرائض خوش اسلوبی سے ادا کیے۔ آپ حسنِ اخلاق کے باعث اساتذہ اور طلباء میں ہردلعزیز تھے۔ کالج ہاکی کلب کے انچارج بھی تھے۔ کالج کےnationalized ہو نے کے بعد حالات یکسربدل گئے تھے، اس پیار اور خلوص سے عاری ماحول میں آپ جیسے مخلص چہرے احمدی طلباء کے لیے سہارا بنے رہے۔ جنہوں نے اس متعصب ماحول میں طلباء کے جائز حقوق کے لیے حکمت سے طلباء کی پشت پناہی کی۔
کالج میں ریاضی جیسے دقیق مضمون کی تدریس کے علاوہ آپ کا علمی ذوق وسیع تھا، جس کی غمازی آپ کے وہ متعدد مضامین کرتے ہیں جو الفضل میں گاہے بگاہے اسلام اور سائنس کی طرح کے دقیق مو ضوعات پرچھپتے رہے۔ فضل عمر فاؤنڈیشن سے ’’اسلام کا ورا ثتی نظام‘‘ کے عنوان پر مبسوط مقالہ لکھ کر انعام حاصل کیا۔ یہ مقالہ کتابی شکل میں چھپا اور ملک کے مختلف لاء کالجوں اور جامعات کے نصاب میں ایک عرصے تک شامل رہا۔ اس کے سرسری مطالعہ سے مصنف کی عرق ریز محنت کا پتہ چلتا ہے۔ اس میں آپ نے قرآنِ کریم، احادیث اور جماعتی لٹریچر کے گہرے مطالعہ کا نچوڑ پیش کردیاہے۔ آپ نے ایک رسالہ ’’نماز‘‘ شائع کیا جس میں نماز سے متعلقہ تمام معلومات یکجا کردی تھیں۔
آپ باقاعدگی سے نمازِ تہجد کے لیے اٹھتے، کوشش سے نمازیں باجماعت ادا کرتے اور بچوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے۔ نمازِ فجر کے بعد صحن میں بلند آ واز سے تلا وتِ قرآنِ کریم کرتے۔ درود شریف کا ورد کرتے ہوئے اپنے والدین، بچوں اور عزیزو اقارب کے لیے دعائیں کر تے۔ آپ کا یہ معمول آخر عمر تک قائم رہا۔
ملازمت اور عیالداری کے ساتھ سالہا سال (1961ء سے 2004ء تک) خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ کی مرکزی مجالس عاملہ میں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔ قائد مال انصاراللہ، مجلس افتا اور قضا بورڈ کے کافی عرصہ ممبر رہے۔ سلسلے کی ہر طرح کی خدمت کے لیے حاضر رہتے۔ جن دنوں ربوہ میں گھڑ دوڑ ہوا کرتی تھی، آپ کی نگرانی میں قصرِخلافت سے گھوڑے میدان میں لے جائے جاتے تھے۔
1994ء میں کالج سے ریٹائر ہو نے کے بعد آپ کا تقرر بطور ایڈیشنل و کیل المال اول تحریکِ جدید ہوا۔ 2003ء تک یہ خدمت بجالائے۔ تحریک جدید اور الفضل کی خریداری کے سلسلے میں آپ نے متعددجماعتوں کے دورے کیے۔ آپ محنت اور لگن سے کام کرنے کے عادی تھے۔ جس شعبہ میں کام کیا وہاں کے کارکنان کے ساتھ تعاون اور خوش خُلقی کی فضا قائم رکھی اور جو خدمت سپرد ہوئی اسے نیک نیتی سے ادا کیا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو بلڈ پریشر اور سا نس کی تکلیف رہنا شروع ہوگئی تھی۔ ایک بار دل کے دورے سے بیمار بھی ہوئے۔ آخر 29؍مارچ 2004ء کو70سال کی عمر میں وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردِخاک ہوئے۔