حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ بورکینا فاسو کی یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5ستمبر 2008ء میں مکرم ظفر اقبال ساہی صاحب مربی سلسلہ کا سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دورۂ بورکینافاسو کی یادوں کے حوالہ سے تحریر کردہ ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
ربوہ میں قیام کے دوران میری ڈیوٹی لنگر خانہ نمبر1 میں تھی جس کے ناظم اس وقت حضور انور تھے۔ لنگرخانہ جات کی تیاری اور مشینوں کے چالو رکھنے کے لئے جو کارروائی ہوتی ہے اس کے دوران ڈیوٹیوں پر آپ جب ہدایات سے نواز رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ نماز باجماعت اور وقت پر ہونی چاہئے۔ جب نماز کا وقت ہو تو نماز سب سے پہلے پڑھو۔ اس کے علاوہ آپ ہمیشہ دو ٹوک، صاف اور سیدھی بات پسند فرماتے۔ فگرز میں تقریباً کا لفظ استعمال نہ کرنے کا فرماتے۔
بورکینافاسو کے وزیر سالف دیالو صاحب ایک بار حکومتی اخراجات پر لندن گئے اور صدر بورکینا کی طرف سے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کو بورکینا فاسو آنے کی دعوت دی۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ کا علم ہوا تو خاکسار نے اُس خط کی نقول وزیراعظم، صدر اور دوسرے حکومتی اداروں کو بھجوائیں کہ آپ نے خلیفۃ المسیح کو مدعوکیا تھا، گو کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ وفات پا گئے ہیں اور اب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس جماعت احمدیہ کے سربراہ ہیں۔ اس پر حضور انور ایدہ اللہ کو حکومت کی طرف سے صدر مملکت کا بھرپور پروٹوکول دیا گیا اور حضور سرکاری مہمان کے طور پر بورکینا فاسو میں ٹھہرے۔
حضور انور کے دورہ بورکینا فاسو کے دوران میری ڈیوٹی کایا ریجن میں تھی۔ جس دن حضور انور نے ڈوری سے کایا ریجن آنا تھا جو کہ 100کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔ تمام راستہ اُن دنوں کچا تھا۔ کایا ریجن میں آپ کی آمد صبح 10بجے تھی مگر حضور تین بجے تشریف لائے۔ وہاں موبائل فون کے سگنلز صرف شہروں کے قریب قریب تھے اور راستہ میں فون سگنلز نہ ہونے کی وجہ سے رابطہ بھی ممکن نہ تھا۔ ہوا یہ کہ راستہ میں حضور انور کے قافلہ کے آگے چلنے والی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا۔ وہاں کے قانون کے مطابق جب تک پولیس نہ آ جائے اور مکمل رپورٹس تیار نہ ہو جائیں گاڑی وغیرہ ہٹائی نہیں جاسکتی تھی۔ اب اگر حضورانور چاہتے تو چند ایک معاونین کی ڈیوٹی لگا کر خود تشریف لے آتے مگر آپ اُس وقت وہاں کھڑے رہے۔ زخمیوں کو دوائی وغیرہ دی۔ ان کی تیمارداری فرمائی حالانکہ یہ شدید گرمی کے دن تھے اور درجہ حرارت بھی 47 ڈگری سے زائد تھا مگر تمام کارروائی مکمل ہونے تک آپ وہاں رُکے رہے۔ یہ آپ کا اپنے غلاموں اور خادموں کے ساتھ شفقت و محبت کا عدیم المثال واقعہ ہے۔ جب آپ کایا پہنچے تو آپ نے مجھے رقم عطا فرمائی کہ پانچ بکرے صدقہ کے طور پر ذبح کر کے تقسیم کر دئیے جائیں۔ زخمیوں کو دارالحکومت بھجوانے کا ارشاد فرمایا اور خود تھکا دینے والے سفر کے باوجود اپنے پروگراموں میں مصروف ہو گئے۔
حضور انور کے خدام کے ساتھ شفقت و محبت کے کئی واقعات ہوئے۔ مثلاً جلسہ کے دوران ایک مقامی احمدی جو جلسہ میں شرکت کے لئے آئے تھے اُن کا بچہ بیمار ہو گیا۔ حضور انور نے اس کی عیادت فرمائی لیکن جب وہ فوت ہو گیا تو خود اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ نیز جلسہ میں حضور انور کے خطاب کے دوران ایک نوجوان ڈیوٹی دیتے ہوئے گر گیا۔ حضور انور نے فوراً اس کی مدد کا فرمایا اور خطاب کے بعد بھی اس کا حال دریافت فرماتے رہے۔ کسی نے بہت خوب کہا ہے کہ احمدی خلیفہ سے اتنی محبت نہیں کرتے جس قدر محبت خلیفۂ وقت احمدیوں سے کرتے ہیں۔
اسی موقع پر آپ کا اپنے غلاموں سے محبت کا ایک واقعہ یہ ہوا کہ جب حضور انور کو پروگرام بتایا کہ مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھنا ہے اور مسجد کا افتتاح فرمانا ہے ۔ خاکسار نے ازخود اضافہ کرتے ہوئے گزارش کی کہ خطاب بھی کرنا ہے تو فرمایا کہ یہ تو پروگرام میں شامل نہیں۔ پھر جب مسجد کے افتتاح سے فارغ ہوئے تو وہاں پر موجود احمدیوں کی آنکھوں میں دیدار کی پیاس محسوس کرتے ہوئے آپ سٹیج کی طرف تشریف لے گئے اور خطاب فرمایا۔ لوگوں کی عجیب حالت تھی جب کسی کو کہا جاتا کہ چھاؤں میں ہو جاؤ تو وہ کہتا نہیں وہاں سے حضور نظر نہیں آتے ہمیں حضور کا چہرہ دیکھنا ہے ۔
کایا ریجن کے چیف نے تیر کمان اور ہاتھ سے تیار کیا ہوا کتابیں رکھنے والا بیگ حضور انور کو تحفۃً دیا اور بتایا کہ بیگ دینے کی غرض یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ آپ علم کے سمندر ہیں اور تیر کمان اس لئے کہ آپ ہمیں فتح کریں ہم تیار ہیں۔
جب حضور انور واپس تشریف لے گئے تو خاکسار اُس ہوٹل کے مینیجر کے پاس گیا جہاں حضور انور نے قیام فرمایا تھا، اور کہا کہ حضور انور نے جو برتن استعمال کئے ہیں وہ ہمیں دیدیں ہم ادائیگی کر دیتے ہیں یا متبادل نئے برتن لا دیتے ہیں۔ اس پر مینیجر نے کہا میں نے انسانوں میں سب سے خوبصورت انسان اِن کو پایا ہے۔ اس لئے وہ چیزیں آپ کو نہیں دے سکتا۔ ہاں صرف ایک برتن لے جائیں چنانچہ ایک تھرماس مجھے دیا۔ ہوٹل کے دوسرے افراد نے بھی ایسے ہی تأثرات کا اظہار کیا۔ ایک نے کہا ہم نے فرشتے نہیں دیکھے لیکن فرشتوں جیسا انسان ہم نے دیکھا ہے۔
حضور انور کے مزاح کی ایک بات یوں ہوئی کہ بورکینا فاسو میں یہ طریق ہے کہ مہمان کے سامنے گلاس نصف بھر کر رکھتے ہیں اگر اور طلب ہو تو مزید دیا جائے۔ جب حضور انور مشن ہاؤس میں تشریف فرما ہوئے تو میں نے آپ کا گلاس نصف کے قریب بھرا اور باقی بوتل پاس رکھ دی۔ اس پر حضور نے مزاحاً فرمایا کہ ساہی صاحب! پہلے تو آپ جٹ ہوتے تھے اب کیا ہیں۔ میری سوالیہ نظروں کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ گلاس نصف بھرا ہے پورا نہیں بھرا۔ تو اس پر میں نے حضور سے بورکینافاسو کے رواج کے متعلق عرض کیا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں