حضرت میر مردان علی صاحبؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍اپریل 2008ء میں مکرم غلام مصباح بلوچ صاحب کے قلم سے حضرت میر مردان علی صاحبؓ کے بارہ میں مضمون شامل اشاعت ہے۔
حضرت مسیح موعودؑ نے مخالفین کو اپنے الہام

یَاْتُوْن مِنْ کُلِّ فَجّ عَمِیْقٍ

کی صداقت کے طور پر دوردراز علاقوں میں احمدیت کے نفوذ کے متعلق فرمایا: ’’اور کہاں ہے حیدرآباد دکن جس میں ایک جماعت پُر جوش مخلصوں کی طیار کی گئی‘‘۔(سراج منیر)
اِس پُرجوش جماعت کے پہلے خوش نصیب حضرت میر مردان علی صاحبؓ تھے جو حضورؑ کی تصنیف ’’براہین احمدیہ‘‘ کے مطالعہ سے حضورؑ کے گرویدہ ہوئے اور بالآخر بیعت کرلی۔ آپؓ نے بیعت کا خط لکھتے ہوئے اپنی عمر کے پانچ سال بھی حضورؑ کو دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں اس طرح محفوظ ہے: ’’23؍ستمبر 1891ء مولوی مردان علی ساکن حیدرآباد دکن منتظم دفتر محاسب سرکار نظام حیدرآباد ‘‘۔
اُس وقت حضورؑ ’’ازالہ اوہام‘‘ تصنیف فرما رہے تھے۔ چنانچہ حضورؑ نے کتاب کے آخر پر آپؓ کا ذکر خیر کرتے ہوئے تحریر فرمایا: ’’اس جگہ اخویم مولوی مردان علی صاحب صدر محاسب دفتر سرکار نظام حیدرآباد دکن بھی ذکر کے لائق ہیں۔ مولوی صاحب موصوف نے درخواست کی ہے کہ میرا نام سلسلہ بیعت کنندوں میں داخل کیا جاوے چنانچہ داخل کیا گیا۔ اُن کی تحریرات سے نہایت محبت و اخلاص پایا جاتا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ میں نے سچے دل سے پانچ برس اپنی عمر میں سے آپ کے نام لگا دئے ہیں خدا تعالیٰ میری عمر میں سے کاٹ کر آپ کی عمر میں شامل کردے سو خدا تعالیٰ اس ایثار کی جزا ان کو یہ بخشے کہ اُن کی عمر دراز کرے۔ انہوں نے اور اخویم مولوی ظہورعلی صاحب اور مولوی غضنفرعلی صاحب نے نہایت اخلاص سے دس دس روپیہ ماہواری چندہ دینا قبول کیا ہے اور بہتّر روپیہ امداد کے لیے بھیجے ہیں‘‘۔
حضورؑ کی دیگر کتب میں بھی آپؓ کا ذکر خیرموجود ہے۔ چنانچہ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کے عربی حصہ میں ـ’’ذکر بعض الانصار‘‘ کے تحت دیگر مخلصین کے ساتھ آپؓ کا ذکر یوں فرمایاـ: ’’و حبّی فی اللہ المولوی محمد مردان علی و المولوی محمد مظہر علی حیدرآبادی ۔۔۔۔‘‘
کتاب ’’انجام آتھم‘‘ میں مولوی عبد الحق غزنوی کے ساتھ مباہلہ کے بعد اپنے اوپر نازل ہونے والی جسمانی نعمتوں اور مالی فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہماری عزیز جماعت حیدرآباد کی یعنی مولوی سید مردان علی صاحب اور مولوی سید ظہور علی صاحب اور مولوی عبد الحمید صاحب دس دس روپیہ اپنی تنخواہ میں سے دیتے ہیں ۔۔۔۔‘‘
حضورؑ نے اپنی کتب ’’آریہ دھرم ‘‘ اور ’’ کتاب البریہ‘‘ میں رقم کردہ دو مختلف فہرستوں میں بھی آپ کا نام شامل فرمایا۔ نیز ’’نور القرآن حصہ دوم‘‘ میں ’’ اُن صاحبوں کے نام جو آجکل حضرت امام کامل کی خدمت میں حاضر ہیں‘‘ عنوان کے تحت جو اسماء درج ہوئے ہیں ان میں 25ویں نمبر پر آپؓ کا نام شامل ہے۔
مارچ 1898ء میں حیدرآباد دکن کی جماعت نے حضور کی خدمت میں ایک عریضۂ نیاز لکھا جس میں نہایت درجہ یقین کامل اور اطاعت کا اظہار کیا۔ اس کے آخر پر جو نام لکھے ہیں، اُن میں حضرت میر مردان علی صاحبؓ کا نام بھی موجود ہے۔
1903ء میں حضور نے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت بڑھانے کی تحریک کی تو آپؓ نے 18روپے چندہ ادا کیا۔
اس سے چند ماہ قبل آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں ایک خط تحریر کیا جس سے آپ کے اور آپ کی اہلیہ محترمہ کے ایمان و اخلاص کا قابل رشک اظہار ہوتا ہے۔ اس میں آپ لکھتے ہیں کہ:
’’ میرے مکان میں مجھ سے یہ درخواست کی گئی ہے کہ میں اُن کا مہر جو پانسو روپیہ ہے اس کو اس طرح ادا کردوں کہ اُس کی رقم حضور کی خدمت عالی میں پیش کروں۔ میں اُن کی اس درخواست سے نہایت درجہ خوش ہوا اور وعدہ کیا ہے کہ میں بسر و چشم اُسی طرح اُن کا مہر انشاء اللہ تعالیٰ ادا کردوں گا اور بنظر سہولت و آسان بتدریج چند اقساط میں کُل رقم ادا کردی جائے گی چنانچہ من جملہ اُن کے آج مبلغ پچاس روپے کا منی آڈر خدمت اقدس میں روانہ کرتا ہوں۔ ہم اور ہمارے جان و مال وقف ہیں اور حضور بالکل مختار ہیں… جس روز سے براہین احمدیہ کے مطالعہ سے مشرف ہوا ہوں جس کو کم و بیش بارہ سال کا عرصہ ہوتا ہے آج تک کبھی کسی مسئلہ میں میرے دل پر شک و شبہ کا کوئی اثر نہ ہوا، جو کچھ ارشاد عالی ہوتا ہے کامل یقین و اطمینان کے ساتھ دل و جان اُس کو تسلیم کرتے ہیں حضور جو کچھ فرماویں وہ بالکل صحیح ہے اُس کے لیے ہم کو کسی دلیل و حجۃ کی حاجت نہیں ہے… خادم دلی مردان علی‘‘
مندرجہ بالا خط حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے اخبار میں اس نوٹ کے ساتھ شائع کروایا کہ: میر مردان علی صاحب اسسٹنٹ اکونٹنٹ جنرل حیدرآباد دکن کا خط … الحکم میں درج کر دیجیے۔ میر صاحب کو نہ خبر ہے اور نہ اُن کے گمان میں تھا کہ یہ خط شائع ہوگا میں نے اُن سے اجازت بھی نہیں لی۔ مگر جواخلاص اور صدق اور اتباع اور کامل محبت خلیفۃاللہ سے اور ایک عجیب اسوہ یہ سب باتیں اس مبارک خط میں ہیں مَیں گوارا نہیں کرسکتا کہ یہ گمنامی کی خاک میں مل جائے۔ مجھے اس کے پڑھنے سے از بس لذت محسوس ہوئی میں چاہتا ہوں کہ دوسرے بھائی بھی اس سے مستفید ہوں۔
حضرت مسیح موعودؑ سے عشق و محبت کا ایک اور اظہار حضرت اقدس کی وفات پر آپ سے ظاہر ہوا۔ حضرت سید عبدالحکیم صاحب ’’حیدرآباد دکن میں احمدیت‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں: ’’اس وقت میرے خیال اور اندازہ میں حیدرآباد دکن بلکہ ساری قلمرو میں صرف احمدی تھا جن کا نام نامی حضرت میر مردان علی صاحب تھا ۔۔۔۔ میں ان کو احمدیت سے بے تعلق سمجھتا تھا کبھی جمعہ و جماعت میں شریک نہیں ہوئے تھے ایک دو بار والد مرحوم کے ساتھ میں اُن کے مکان پر گیا ہوں جو چنچل یا چادر گھاٹ میں تھا، جس دن حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کی خبر آئی ہے اور … حضرت میر مردان علی تشریف لائے تھے اس دن میں نے دیکھا کہ آپ کو حضرت مسیح موعودؑ سے کس قدر عشق ہے۔ میں نے کسی باپ کو اپنے اکلوتے جوان بیٹے کے مرنے پر بھی اتنا روتے نہیں دیکھا…‘‘ (الحکم 28جون 1939ء)
حضرت میر مردان علی صاحبؓ کی وفات، تدفین اور اولاد کے بارہ میں معلومات حاصل نہیں ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں