محترم محمد خان رانا صاحب ایڈووکیٹ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 و 26 جنوری 2009ء میں محترم محمد خان رانا صاحب کی وفات اور تدفین کی خبریں شامل اشاعت ہیں۔
محترم محمد خان رانا صاحب کا ایک انٹرویو 19ستمبر 1997ء کے شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ کی زینت بن چکا ہے۔ آپ بے لوث خادم سلسلہ اور ماہر قانون تھے۔ 20؍ جنوری 2009ء کو بہاولنگر میں بعمر 83 سال وفات پائی۔ آپ 1926ء کو محترم چوہدری احمد خان صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو امیر جماعت ریاست بہاولپور تھے۔ چھٹی کلاس میں تھے تو مزید تعلیم کے لئے قادیان تشریف لے گئے۔ قیام پاکستان کے بعد ٹی آئی کالج ربوہ سے گریجوایشن کیا۔ کالج کی کشتی رانی کی ٹیم کے اچھے کھلاڑی تھے۔ لاہور سے LLB کا امتحان پاس کیا اور قانون کی باقاعدہ پریکٹس 1952ء میں ہارون آباد سے شروع کی۔ 1954ء میں مستقل بہاولنگر آگئے اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں وکالت شروع کی۔ آپ آغاز سے ہی تقریر کے فن سے بخوبی آگاہ تھے اور ایک کامیاب وکیل بن کر سامنے آئے۔ آپ جماعتی کیسز میں بھی پیش ہوتے اور اس سلسلہ میں رحیم یارخان اور ملتان کے دورے کرتے۔ شخصیت بارعب اور باوقار تھی۔ دراز قد، سفید شلوار قمیص اچکن اور جناح کیپ پہنے آپ تحمل اور بردباری میں دوسروں کے لئے نمونہ تھے۔ انتھک محنت کرنے والے اور بے لوث جماعتی خدمات بجالانے والے وجود تھے۔ 1962ء میں امیر ضلع بہاولنگر مقرر ہوئے اور 42 سال تک اس عہدہ پر مامور رہے۔ 1959ء تا 1971ء، 1977ء تا 1980ء اور 1983ء تا وفات صدر جماعت احمدیہ بہاولنگر شہر بھی رہے۔ دینی امور کو بروقت سرانجام دیتے، مرکزی نمائندگان کی عزت اور احترام کرتے۔ بہت دعا گو اور ذکر الٰہی کرنے والے بزرگ تھے۔ مجلس مشاورت پاکستان اور جلسہ سالانہ UK میں باقاعدہ شریک ہوتے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ ایک بیٹے مکرم رانا ندیم احمد خالد صاحب (واقف زندگی) نصرت جہاں سکیم کے تحت سیکنڈری سکول کمپالہ میں بطور پرنسپل خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
بہاولنگر میں مرحوم کی نماز جنازہ میں احمدی اور غیر از جماعت احباب کی کثیر تعداد موجود تھی۔ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے چنانچہ تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 23؍جنوری 2009ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کے متعلق فرمایا: ’’40سال سے زائد عرصہ تک انہوں نے جماعت کی خدمت کی ہے ، امیر ضلع بہاولنگر رہے۔ فضل عمر فائونڈیشن کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ مرکز میں جو مختلف کمیٹیاں قائم ہوتی تھیں ان میں ممبر کی حیثیت سے کام کیا۔ نیک ، مخلص ، باوفا اور اطاعت شعار تھے۔ خلافت سے بڑا گہرا اور محبت کا تعلق تھا ۔ اپنوں اور غیروں سبھی پر ان کا نیک اثر قائم تھا‘‘۔
مسائل کو احسن رنگ میں حل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ملکہ دیا ہوا تھا۔ جہاں تک ممکن ہوتا اصلاح کرتے۔ آپ کا سزا دینے کی طرف رجحان نہ ہوتا تھا۔ درگزر کرنے والے اور نرم دل تھے۔ ہمیشہ ہر معاملے پر مثبت سوچ اختیار کرتے۔ مرکزی نمائندوں ، واقفین زندگی اور مربیان سلسلہ کا دل سے احترام اور قدر کرتے۔ یہ سب کچھ خلافت کے احترام اور محبت کی وجہ سے تھا۔ احباب جماعت کو بھی خلافت سے محبت کا درس دیتے۔ ہر جماعتی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ آپ چندوں میں بہت باقاعدہ تھے۔ چندہ جات کی بقایا رقم کے بارے میں احباب کو حکمت سے یاد کراتے۔ آپ کی طبیعت میں بہت سادگی تھی ۔ فضول خرچی ناپسند تھی ۔ چندوں کی رقوم کی حفاظت اورمالی معاملات میں بہت محتاط اور گہری نظر تھی۔
آپ کا خلفاء سلسلہ کے ساتھ بے لوث اور محبانہ تعلق تھا۔ آپ ایک دعا گو بزرگ تھے، ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول رہتے۔ سفر میں زیر لب کثرت سے دعائیں کرتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی ذکر الٰہی کی طرف متوجہ کرتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں