تربیت اولاد کے نفسیاتی پہلو

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍جون 1995ء میں مکرم پروفیسر میاں محمد افضل صاحب نے ایک مضمون مشہور سوئس ماہرِ نفسیات ژالی پیا ژے کی تحقیق سے متاثر ہوکر تحریر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ تربیت سے پہلے بچوں کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے اور یہ کہ تربیت کو بنیادی طور پر چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:۔
دور اول پیدائش سے دو سال کی عمر تک ہے جس میں بچہ کو منع بھی کیا جائے تو وہ باز نہیں آتا اس لئے بہتر ہے کہ اسے تجربہ سے سیکھنے دیں۔ اسی طرح وہ اپنے ماحول کا جائزہ لیتا اور نقالی کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ وہ گھر کے ماحول کا عادی ہو جائے گا، آپ نماز پڑھیں گے تو وہ بھی ساتھ دینے کی کوشش کرے گا۔
دوسرا دور دو سے سات سال کا ہے جس میں بچہ زبان اور نئی باتیں سیکھتا ہے۔ ایسے میں اسے اچھی باتوں پر شاباش دینا اور بری باتوں پر سمجھانا بہت ضروری ہے۔ اس دور میں بچہ کے کہانیاں سننے کے شوق سے فائدہ اٹھا کر اس کی تربیت کرنی چاہئے۔ بچہ بہت سے سوالات بھی کرے گا، آپ صحیح جواب (معلوم ہو تو) بتائیں ورنہ غلط بات نہ بتائیں۔ نیز بچہ کو اندھیرے وغیرہ سے مت ڈرائیں، سزا دینے سے بھی پرہیز کریں کیونکہ اس سے ضد پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ اس عمر میں ضرورت سے زیادہ رعب یا لاڈ پیار دونوں غلط ہیں۔
تیسرا دور سات سے گیارہ سال کا ہے جس میں بچہ دوسرے بچوں سے تعارف حاصل کرتا ہے۔ والدین بچوں کی اعلیٰ تربیت کرنا چاہیں تو انہیں اپنے سب بچوں سے مساوی سلوک کرنا چاہئے۔ نیز بچے کے دوستوں کا انتخاب خود کیجئے کیونکہ یہ اس کے کردار کا اہم حصہ ہے۔
چوتھا دور جو گیارہ سے پندرہ سال تک ہے اور یہ بہت اہم دور ہے کیونکہ بچہ بلوغت کی راہ دیکھ رہا ہے۔ اس عمر میں تربیت کی کمی کے اثرات عمر بھر کے لئے مرتب ہوسکتے ہیں۔ اب سے دلائل سے قائل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ زور سے۔ بچہ کو دوست بنالیں تو وہ آپ کی عزت کرے گا اور اپنے مسائل میں آپ سے مشورہ لے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں