خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 3؍ دسمبر 2010ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

 

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

 

دشمن جب اپنی دشمنی کی انتہا کوپہنچتا ہے، اللہ والوں کو ختم کرنے کے لئے ہر قسم کے حیلے اور حربے استعمال کرتا ہے، مختلف طریقے سے نقصان پہنچانے کے لئے منصوبہ بندیاں کرتا ہے، جانی اور مالی نقصان پہنچانے کے لئے جو بھی اس سے بن پڑتا ہے کرتا ہے۔ ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد کو ہر وقت ذہنی اذیتیں پہنچانے کے لئے اور ان کا ذہنی سکون برباد کرنے کے لئے گھٹیا ترین اور انسانیت سے گرے ہوئے کام کرتا ہے۔ حتیٰ کہ نہ بچے کا لحاظ، نہ بوڑھے کا لحاظ، نہ عورت کا لحاظ رہتاہے۔ ظالمانہ اور بہیمانہ روشیں اپنا لیتا ہے تا کہ ان اللہ والوں کو اللہ کی رضا کے حصول سے دور ہٹانے کی کوشش کرے۔ تو اُس وقت صبر و استقامت دکھانے والے مؤمنین اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگتے ہیں۔ دشمن کی اس انتہا اور اس کے نتیجے میں مومنین کی اس کیفیت کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک شعر میں یوں کھینچا ہے۔ فرمایا

عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں

نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں

پس یہ وہ نقشہ ہے جو مجبور و مظلوم مؤمنین کا اُن کی مجبوری اور مظلومیت کی حالت اور اُس کے ردّ عمل کے طور پر ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ اور آج یہ کیفیت اس روئے زمین پر دنیا کے بعض مسلمان ممالک میں سوائے احمدیوں کے کہیں اور ہمیں نظر نہیں آتی اور پاکستان میں اس کی انتہا آئے دن ہمیں دیکھنے میں آتی ہے۔

اس شعر میں جہاں ایک طرف دشمن کی انتہائی حالت کا ذکر ہے تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والے اور صبر و استقامت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکتے چلے جانے والوں کا ذکر ہے۔ دشمن پر واضح کیا گیا ہے کہ تم نے تو یہ شورشیں، یہ زیادتیاں، یہ ظلم، یہ بربریت ہم پر اس لئے روا رکھی کہ ہم تمہاری بات مان کر تمہارے پیچھے چل پڑیں گے۔ تمہارے آگے ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگیں گے۔ تمہارے پاؤں پڑ کر تم سے زندگی کی فریاد کریں گے لیکن یہ سب تمہاری بھول ہے۔ ہم تو اُس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں جس نے خود بھی صبر اور عالی ہمتی کا عظیم نمونہ دکھایا اور اپنے صحابہ میں بھی قوتِ قدسی سے وہ جذبہ پیدا کیا جس نے صبر واستقامت کے وہ عظیم معیار قائم کر دئیے جن کا ذکر مَیں نے گزشتہ خطبات میں کیا تھا۔ ظلم و تعدی نے اُن سے اَحد اَحد کا نعرہ تو لگوایا لیکن کسی بُت کے بڑا ہونے کا نعرہ نہیں لگوایا۔ ظلم بڑھے تو ان کی سجدہ گاہیں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے تو تَر ہوئیں، کسی بُت یا بُت کے پجاری کے آگے ماتھا ٹیک کر گڑگڑاتے ہوئے نہیں۔ پس جب ہمیں حکم ہے کہ اُن نمونوں کو پکڑو تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اس اَصل کو بھول کر ان دشمنوں کے پیچھے چل پڑیں، ان مخالفینِ احمدیت کے پیچھے چل پڑیں۔ ہمیں ہمارے ایمان سے ہٹانے کی ہر کوشش اِنہی پر الٹ جائے گی۔ ان کے تمام منصوبے اکارت جائیں گے۔ ان کی خواہشات کبھی پوری نہیں ہوں گی، اس لئے کہ ہم نے اپنے سچے وعدوں والے خدا کو پہچان لیا ہے۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادتوں کو پورا ہوتے دیکھ لیا ہے۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ لیا ہے توپھر ہم ان ڈرانے والوں اور ان کے ظلموں کی وجہ سے اپنے خدا کو کس طرح چھوڑ دیں جس نے جماعت کو ہر آزمائش میں اور ہر ابتلاء سے دلوں کی تسکین پیدا کرتے ہوئے گزارا ہے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے غلامِ صادق پر ایمان اور یقین میں مزید پختہ کیا ہے۔ پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ہم اپنے خدا کو چھوڑ کر ان جیسوں کو جن کی ہمارے نزدیک ایک کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ہے، خدا بنا لیں۔ اپنے ایمانوں کو ضائع کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کے دنیا و آخرت میں پیار سے محروم ہو جائیں۔ اگر یہ ان لوگوں کی سوچ ہے تو ان جیسا شائد ہی دنیا میں اور روئے زمین پر کوئی پاگل ہو۔ اگر اس سوچ کے ساتھ یہ احمدیوں پر سختیاں اور تنگیاں وارد کر رہے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے۔ یہ مشکلات اور تکلیفیں تو ہمیں خدا تعالیٰ سے دور ہٹانے کی بجائے اس کے قریب تر کر دیتی ہیں۔ ہم تو اُن ایمان کا عرفان رکھنے والوں میں شامل ہیں اور شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جن کے بارے میں قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:

اَلَّذِیْنَ قَالَ لَھُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ فَزَادَھُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ (آل عمران: 174)

یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دشمنوں نے کہا تھا کہ لوگ تمہارے خلاف جمع ہو گئے ہیں اس لئے تم اُن سے ڈرو۔ اس بات نے ان کے ایمان کو اور بھی بڑھا دیا۔ اُن کو ایمان میں اور بھی مضبوط کر دیا اور انہوں نے کہا ہمارے لئے اللہ کی ذات ہی کافی ہے اور وہ کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ پس دشمن کا جتھہ، اُس کا ایک ہونا ہمیں ایمان میں بڑھاتا ہے۔ اس بات سے تو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوتی دیکھتے ہیں۔ اُس پر مزید یقین قائم ہوتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی تائید یافتہ جماعت کے مقابلے میں تمام دوسرے گروہ اور فرقے ایک ہو جائیں گے اور وہ ہو گئے۔ اور جب یہ ایک ہوں گے جس طرح ماضی میں انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ ایک ہوتے رہے تو اللہ والے اُس یار میں ڈوب جاتے ہیں۔ اس کی پناہ میں جا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ حَسْبُنَا اللّٰہُ۔ اللہ ہمیں کافی ہے۔ ہمیں اور کسی پناہ گاہ کی ضرورت نہیں۔ ہم صرف اور صرف اپنے خدا کی پناہ میں آتے ہیں جو حسیب ہے جو ہمارے دشمنوں کو سزا دینے کے لئے کافی ہے۔ جو دشمنوں سے بدلہ لینے کے لئے کافی ہے اور نہ صرف یہ کہ دشمن سے بدلہ لیتا ہے بلکہ اُن ظلموں اور تکلیفوں کو برداشت کرنے کی وجہ سے مومنین کو انعامات سے بھی نوازتا ہے۔ پس یہاں اللہ تعالیٰ کے حسیب ہونے کے معانی ہر پہلو کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ اور کیوں اللہ تعالیٰ مؤمنین کے لئے ہر لحاظ سے کافی نہ ہو؟ وہ بہترین کارساز ہے۔ اس سے زیادہ اور کون ہے جو اپنے بندوں کے معاملات کو سمجھ سکتا ہے۔ جب بندہ مکمل طور پر اُس کے آگے جھکتے ہوئے اُس کے سامنے اپنے تمام معاملات رکھ کر اُس پر انحصار کرتا ہے تو پھر جہاں وہ اپنی طرف جھکنے والوں کے دشمنوں کی پکڑ کرتا ہے وہاں اپنے انعامات کا اعلان کرتے ہوئے بَشِّرِ الصّٰبِرِیْن کی خوشخبری بھی دیتا ہے۔ اس کی وضاحت بھی میں گزشتہ خطبات میں کر چکا ہوں۔ اور پھر یار میں نہاں ہونے والے جو ان سب تکلیفوں کو جو خدا تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کی وجہ سے انہیں دی جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر انہیں برداشت کرتے ہیں اُن کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُوْلٰٓـئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَاُوْلٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ (القبرۃ: 158)۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور رحمت بھی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ پس جو تمام تر تکالیف میں، تمام تر مشکلات میں، ہر قسم کی ذہنی اذیتوں سے گزرنے کے باوجود خدا تعالیٰ کا دامن نہیں چھوڑتے بلکہ پہلے سے بڑھ کر اس میں نہاں ہونے کی کوشش کرتے ہیں، اس میں ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں، اُس سے چمٹنے کی کوشش کرتے ہیں تو اُن لوگوں کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں روحانی بلندیاں بھی ملیں گی اور مادی اور دنیاوی انعامات بھی ملیں گے۔ اور ان لوگوں کو یہ سند بھی اللہ تعالیٰ دیتا ہے کہ تمہی ہدایت پر ہو۔ اب مخالفینِ احمدیت لاکھ کہیں کہ دیکھو تمہارے بارہ میں ہم سب ایک ہیں اور تمہیں اسلام سے خارج کرنے کا ایک فیصلہ کیا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم حق پر ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابتلاؤں اور آزمائشوں میں جب مومن میری طرف جھکتے ہیں اور میری خاطر تکالیف برداشت کرتے ہیں، جتھوں کے مقابلے پر اپنے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہہ کر ہر تکلیف پر، ہر مصیبت پر، ہر ابتلا پرخاموش ہو جاتے ہیں تو یہی ہدایت یافتہ ہیں۔ مخالفین کا ایک ہونا انہیں ہدایت یافتہ ثابت نہیں کرتا بلکہ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں فرمایا تھا کہ مسیح موعودؑ کے زمانے میں تمام فرقے ایک ہو جائیں گے۔ اور ایک ہی فرقہ ہو گا جو ہدایت پر قائم ہو گا۔ پس یہ دلیل توان کے خلاف جاتی ہے۔ ان کا ایک ہونا جیسا کہ مَیں نے کہااُن کو ہدایت یافتہ نہیں بناتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول اور اس کے آگے جھکنا، غموں اور دکھوں میں بجائے بدلے لینے کے صبر اور استقامت دکھاتے ہوئے انہیں برداشت کرنا اور برداشت کرتے چلے جانا اور اللہ تعالیٰ کے حضور مزید جھکتے چلے جانا، یہی باتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی برکتوں اور رحمتوں کا وارث بناتی ہیں۔ اور یہی گروہ ہے جو آج بے شک اقلیت میں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ ہدایت یافتہ ہے اور دنیا کی ہدایت کا باعث بننے والا ہے انشاء اللہ۔ پس اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے، رحمتوں اور برکتوں کے حصول کے لئے، ہدایت یافتہ کہلانے کا حق دار بننے کے لئے، اپنے خدا کی رحمتوں اور برکتوں کی تلاش میں ڈوبنا ضروری ہے اور پہلا قدم بندے نے اٹھانا ہے۔ پھر بندہ خدا تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بنتا ہے۔ جب انسان اپنے پیارے خدا میں جو اپنے آگے جھکنے والوں کو اپنے راستے دکھاتا ہے جو گو بظاہر ایک دنیا دار کو نظر نہیں آتا لیکن ہر جگہ موجود ہے۔ ایک مومن کی آنکھ تو اسے دیکھ رہی ہوتی ہے اور پھر ان پر اپنی جلوہ گری بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے انعامات سے پہچانا جاتا ہے۔ دعاؤں کی قبولیت سے پہچانا جاتا ہے۔ جب اس کے بندے دنیا والوں کی تکالیف سے پریشان ہو کر اس کے حضور جھکتے ہیں تو وہ دوڑ کر آتا ہے اور اپنے بندوں کو اپنے حصارِ عافیت میں لے لیتا ہے۔ دشمنوں سے خود بدلے لیتا ہے اور اپنے بندے کو انعامات سے نوازتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ: اس تمام قدرتوں والے اور برکتیں عطا کرنے والے، رحم کرنے والے، دعاؤں کو سننے والے خدا میں ڈوب جاؤ۔ اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرو۔ اور یہی نسخہ ہے جو مومنین کے ہمیشہ کام آتا ہے۔ پس دنیا جب بھی ان اللہ والوں کی طرف اپنے زعم میں ہر بُری چیز پھینک رہی ہوتی ہے۔ ہر قسم کی تکلیف انہیں پہنچانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے یار میں نہاں ہونے والوں کے اوپر ہر رحمت اور برکت برسا رہے ہوتے ہیں۔ اور اللہ بھی اور فرشتے بھی یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اے دنیا والو! تم جتنے چاہو ان پر فتوے لگا کر اُن پر ظلم و تعدی کے بازار گرم کرولیکن یاد رکھو کہ یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے وارث ہیں اور یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہدایت یافتہ ہیں اور اب دنیا کی ہدایت بھی انہی لوگوں سے وابستہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے میری باتوں پر ایمان لاتے ہوئے زمانے کے امام کو مانا۔

پس مَیں ان تمام احمدیوں سے کہتا ہوں جو آج کل مختلف قسم کی تکالیف کے دور سے گزر رہے ہیں۔ جو مجھے خط لکھتے ہیں اور مخالفین کی کمینی حرکات سے بچنے کے لئے دعا کے لئے کہتے ہیں کہ اپنی دعاؤں میں وہ بھی مزید توجہ پیدا کریں۔ جو لوگ براہِ راست تکلیفوں میں گرفتار نہیں ہیں وہ بھی اپنے بھائی، اپنی بہنوں اور اپنے بچوں کی تکالیف کا خیال کرتے ہوئے ان کے لئے دعائیں کریں۔ صرف اپنے نفس کو ہی سامنے نہ رکھیں، صرف اپنی مشکلات جو دنیاوی مشکلات ہیں اُنہیں ہی سامنے رکھتے ہوئے پریشان نہ ہو جایا کریں بلکہ ظلم کی چکی میں پسنے والے اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں اور بچوں کو سامنے رکھیں۔ ہمدردی کے جذبے سے کی گئی یہ دعائیں آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کا وارث بنائیں گی۔ حقیقی ہدایت یافتہ تو وہی ہے جو حقیقی مؤمن ہے اور حقیقی مومن وہ ہے جو اپنے مؤمن بھائی کے درد کو بھی، اُس کی تکلیف کو بھی اپنے درد اور اپنی تکلیف کی طرح محسوس کرتا ہے۔ جس طرح جسم کا ایک عضو تکلیف میں ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے اس طرح ایک مؤمن دوسرے مؤمن کی تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ پس ان حالات میں دنیا بھر کی جماعتوں کے تمام افراد کو میں خاص طور پر اپنے مظلوم اور تکلیف اور مشکلات میں گرفتار بھائیوں کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ ہر احمدی کم از کم دو نفل روزانہ صرف ان لوگوں کے لئے ادا کرے جو احمدیت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ جو ظالمانہ قوانین کی وجہ سے اپنی شہری اور مذہبی آزادیوں سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح جماعتی ترقی کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔ پس اگر ہر احمدی اپنے دل کی بے چینی کو خدا تعالیٰ کے حضور پہلے سے بڑھ کر پیش کرے گاتو وہ خود مشاہدہ کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر اس پر کس طرح پڑ رہی ہے۔ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حصار میں لے لے گا۔

بعض طلباء بھی مجھے خط لکھتے ہیں، طالبات بھی لکھتی ہیں کہ ہمارے کالجوں، سکولوں، یونیورسٹیوں میں ہمارے ساتھی غیر از جماعت طلباء و طالبات ہمیں تنگ کرتے ہیں، مختلف قسم کے طعنے دیتے ہیں۔ پڑھائی میں اثر انداز ہوتے ہیں۔ حتی کہ جو ٹیچرز اور پروفیسر ہیں وہ بھی اتنی گھٹیا سوچ کے ہو گئے ہیں کہ اپنے پیشے کی اخلاقیات کو بھی بھول گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ استاد ایک خاص عزت کا مقام رکھتا تھا، اس کی ایک پہچان تھی۔ قطع نظر مذہب کے ہر طالب علم کا ہمدرد بن کر اس کے علم کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا تھا اور یہ ایک استاد کے فرائض تھے۔ لیکن آج اخلاقیات کے دعویدار اور اپنے آپ کو سب سے اچھا مسلمان کہنے والے اپنے معزز پیشے کی بھی دھجیاں اڑا رہے ہیں اور اس پر پھر دعویٰ بھی ہے کہ یہ مذہبی غیرت ہے جس کا اظہار ہم کر رہے ہیں۔ یہ مذہبی غیرت نہیں، یہ جہالتوں کی انتہا ہے۔ جو شخص اپنے پیشے سے انصاف نہیں کرسکتا اس نے اسلام کی بنیادی تعلیم ہی نہیں سمجھی۔ جو شخص اپنے کینے اور بُغض کی وجہ سے انصاف کوقائم نہیں رکھ سکتا وہ اسلام کی بنیادی تعلیم سے بھی روگردانی کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا (المائدہ: 9) کہ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس کام پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف سے کام نہ لو۔ پس یہ لوگ پڑھے لکھے جاہل ہیں جو جاہل ملاؤں کے پیچھے چل کر نہ صرف یہ کہ اپنے پیشے سے بے انصافی کر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کی بھی نافرمانی کر رہے ہیں۔ اور پھر دعویٰ یہ ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔ پس ایک مومن کے لئے ان تمام ظلموں اور زیادتیوں کا ایک ہی حل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائیں۔ یارِ نہاں میں نہاں ہونے کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں، اس میں ڈوب جائیں۔ اب یہ زیادتیاں اور یہ ظلم جو ہیں یہ صرف پاکستان تک نہیں ہیں بلکہ بعض مسلمان امیر ممالک ہیں جو اپنے تیل کی دولت کے بل بوتے پر غریب ملکوں میں بھی نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں۔ دلیل سے مقابلہ تو یہ لوگ کر نہیں سکتے۔ اگر اس سے کریں تو یہ اُن کا حق ہے کہ کریں۔ لیکن ان کے پاس دلیل ہے کوئی نہیں، اس لئے سوائے بُغض اور کینہ اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی کرنے کے ان کا کوئی کام نہیں رہا۔ جن غریب ملکوں کو اور خاص طور پر افریقہ کے بعض ممالک کو مدد دیتے ہیں، ایڈ مہیّا کرتے ہیں تو وہاں اپنی دولت کے بل بوتے پر احمدیوں پر بعض پابندیاں لگوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مضبوط ایمان کے ہیں، ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

پھر یہ دعویٰ بھی یہ لوگ کرتے ہیں کہ ہم اہلِ عرب ہیں۔ ہم سے زیادہ قرآن کو کون جانتا ہے؟ لیکن اس ایک حکم کو جس کی مَیں نے بات کی ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں بے انصافی پر مجبور نہ کرے، اس کو تو یہ سمجھنا نہیں چاہتے اور نہ سمجھتے ہیں نہ اس پر عمل کرتے ہیں۔ قرآن جاننا ایک علیحدہ چیز ہے، بے شک جانتے ہوں گے لیکن قرآنی احکامات کو بھول گئے ہیں۔ اسی لئے اس زمانے میں مسیح و مہدی کی ضرورت تھی جو ان کو راہِ راست پر لائے جس کو یہ لوگ اب قبول کرنا نہیں چاہتے۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے بجائے اسلام کی خدمت کرنے کے اسلام کو بدنام کیا ہوا ہے۔ آج اسلام کے خلاف دنیا میں جو مختلف محاذ کھڑے ہو رہے ہیں اور ہوئے ہوئے ہیں اس کے ذمہ دار یہی لوگ ہیں جو اپنے زعم میں اسلام کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ بلکہ اس قسم کی حرکات کر کے یہ مخالفینِ اسلام کے بھی مددگار بن رہے ہیں۔ اور کوئی بعیدنہیں کہ مخالفینِ اسلام کی شہ پر ہی یہ اس قسم کی منصوبہ بندیاں کر رہے ہوں۔ اور ان کی عقل پے پردے پڑ گئے ہیں کہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔ اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسلام کو یہ توختم نہیں کر سکتے۔ یہ دین تو اس لئے آیا تھا کہ اس نے پھیلنا ہے اور پھلنا ہے اور بڑھنا ہے اور انشاء اللہ بڑھے گا اور اسی لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبعوث فرمایا جو جری اللہ بن کر آئے اور اب آپ کی جماعت کا یہ کام ہے کہ اس دین کے پھیلانے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے کے لئے اپنی سرتوڑ کوشش کرے اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ ہم کرتے رہیں گے۔

پس پھر میں اپنی پہلی بات کی طرف آتا ہوں کہ دشمن کے تمام حربوں، حیلوں کا مقابلہ چاہے وہ پاکستان میں ہیں، ہندوستان کے بعض علاقوں میں ہیں، بعض افریقن ممالک میں ہیں جیسا کہ مَیں نے بتایا۔ انڈونیشیا میں گزشتہ دنوں احمدیوں کے خلاف ایک جگہ پر ایک جزیرے میں فساد اٹھایا گیا۔ وہ احمدی جن کے خلاف چند سال پہلے ظلم روا رکھا گیا تھا اور ان کے گھروں کو جلایا گیا تھا، توڑ پھوڑ کی گئی تھی، ان کو گھروں سے نکالا گیا تھا، وہ ایک عرصے کے بعد جب دوبارہ حکومت کے کہنے پر ہی اپنے گھر میں آباد ہونے کے لئے آئے تو پھر اُنہی شدت پسند ملاؤں نے جن کو بعض حکومتیں پیسے دے رہی ہیں اُن کے گھروں کو دوبارہ جلایا اور ان کو مارا پیٹا اور پھر آخر حکومت نے اُن کو کہا کہ تم واپس انہی جگہوں پر چلے جاؤ جہاں پر پہلے تھے اور اپنے گھر بار ان کو چھوڑنے پڑے، اپنی جائیدادیں چھوڑنی پڑیں۔ پس جب یہ ظلم روا رکھے جاتے ہیں اور رکھے جا رہے ہیں تو مومنین جو ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے چلے جاتے ہیں اور جھکتے چلے جائیں گے اور یہی ہتھیار ہیں جو ہماری فتح کے ہتھیار ہیں۔ آج یہ ظلم کرنے والے اپنے زعم میں اپنے آپ کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھ رہے ہیں لیکن وقت آئے گا کہ یہی لوگ ان مومنین کے، ظلم سہنے والوں کے زیرِ نگیں کئے جائیں گے۔ ہماری فتح کا ہتھیار تو یہ دعائیں ہی ہیں اور یہی ہتھیار ہے جو دشمن کے شر ان پر الٹائے گا۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں۔ جس شدت اور تڑپ کے ساتھ ہم اس ہتھیار کو استعمال کریں گے اُسی قدر جلد ہم احمدیت کی فتح کے نظارے دیکھیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعے سے ہی حاصل ہو سکیں گے۔ دعا میں بڑی قوتیں ہیں‘‘۔ فرمایا  ’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعے ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔ جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں خدا تعالیٰ اسے ظاہر کر کے دکھا دیتا ہے‘‘، فرمایا ’’اسلام کے واسطے اب یہی ایک راہ ہے جس کو خشک مُلّا اور خشک فلسفی نہیں سمجھ سکتا۔ اگر ہمارے واسطے لڑائی کی راہ کھلی ہوتی تو اس کے لئے تمام سامان مہیا ہو جاتے۔ جب ہماری دعائیں ایک نکتہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے‘‘۔ فرمایا ’’ہمارے نزدیک دعا سے بڑھ کر اور کوئی تیز ہتھیار ہی نہیں۔ سعید وہ ہے جو اس بات کو سمجھے کہ خدا تعالیٰ اب دین کو کس راہ سے ترقی دینا چاہتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 36 جدید ایڈیشن)

پس یہ ہتھیار ہے جس کو ہم نے استعمال کرنا ہے، یہ ہتھیار ہے جس کے استعمال کی انتہا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہم یارِ نہاں میں نہاں ہونے کا حق تبھی ادا کر سکتے ہیں جب اپنے فرائض کے ساتھ ہم اپنے نوافل کی ادائیگی اور دعاؤں کو اس کے نکتہ عروج پرپہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

دعا کی اہمیت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض مزید ارشادات پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:

’’سب سے عمدہ دعا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور گناہو ں سے نجات حاصل ہو‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 30) (اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے، گناہوں سے نجات حاصل ہو جائے تو پھر مومن کی باقی دعائیں بھی جلدی جلدی قبولیت پاتی چلی جاتی ہیں)۔ پھرفرمایا’’ہمارا تو سارا دارومدار ہی دعا پر ہے۔ دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 39) (اللہ تعالیٰ تو اس بات کے انتظار میں رہتا ہے کہ کب مؤمن مجھ سے مانگے اور میں اسے دوں، بشرطیکہ دعا کا حق ادا کرتے ہوئے دعا کی جائے)

پھر ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:۔ ’’دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔ وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے۔ جس طرح ایک مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت و سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیّاش کا کامل درجہ کا سرور جو اُسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتا ہے، ہیچ ہے۔ بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔ دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا ہے اور اسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جب مومن کی دعا میں پورااخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے تو خد اتعالیٰ کو بھی اس پر رحم آجاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کا متولی ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 46-45)

پھر آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’یقینا سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے دین اور دنیا پر آفت نہ آئے گی۔ وہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہے جس کے اردگرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 148)

پس اس زمانے میں دعا کا ہتھیار ہی اہم ہتھیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا ہے اور یہ دعا ہی کا ہتھیار ہے جس سے لیکھرام بھی اپنے انجام کو پہنچا تھا، جس سے ڈوئی کا بد انجام بھی دنیا نے دیکھا تھا۔ جس سے ہر مخالف جو آپ کی مخالفت میں انتہا کو پہنچا ذلت و رسوائی کا مورد بنا تھا۔ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا دعویٰ کرنے والوں کا مقابلہ بھی دعاؤں سے ہی کیا گیا تھا اور پھر ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ احمدیت کے ہاتھوں میں کشکول پکڑوانے والوں اور احمدیت کو کینسر کہہ کر ختم کرنے والوں کا مقابلہ بھی دعاؤں سے ہی ہوا تھا اور ان کے نام و نشان مٹ گئے۔ آج بھی انشاء اللہ تعالیٰ مخالفتوں کی آندھیاں ان دعاؤں کی وجہ سے ہی مخالفین پر الٹیں گی۔ اور دنیا دیکھے گی کہ کس طرح احمدیت فتوحات کی نئی منزلیں طے کرتی ہے۔ پس آج بھی ہمارا کام ہے کہ دعاؤں کی طرف ایک خاص توجہ اور رغبت پیدا کریں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دعاؤں کا ٹھیک محل نماز ہے۔ ہم اپنی نمازوں میں خوبصورتی پیدا کریں۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا خاص طور پر کم از کم دو نفل جماعت کی ترقی اور مظلوم احمدیوں کے لئے ادا کریں۔ ہر احمدی یہ اپنے اوپر فرض کرے۔ ایک وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی کہا تھا کہ کم از کم دو نفل اپنے اوپرضرور فرض کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فقرے کو ہمیشہ یاد رکھیں اور یاد رکھنا چاہئے کہ ’’جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے‘‘ (پوری توجہ پیدا ہو جاتی ہے، ہر سوچ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتی ہے، یار میں جب انسان نہاں ہو جاتا ہے ’’تو خدا تعالیٰ کو بھی اس پر رحم آ جاتا ہے‘‘۔ پس یہ اخلاص اور انقطاع پیدا کرنے کی اگر ہر احمدی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو پہلے سے بڑھ کر قریب تر پائے گا۔ یہ اخلاص اور انقطاع پیدا کرنے کے لئے یارِ نہاں میں نہاں ہونے کی ضرورت ہے، اُس یار میں ڈوبنے کی ضرورت ہے۔ اور جب ہماری یہ حالت ہو جائے گی تو دنیا والوں کے ہر شر سے ہم محفوظ ہو جائیں گے۔ انشاء اللہ۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہو جائیں گے جس کے ارد گرد مسلح سپاہیوں کا پہرہ ہے۔ اللہ ہمیں اس اہم نکتے کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آخر میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’یادرکھو کوئی آدمی کبھی دُعاسے فیض نہیں اُٹھاسکتا جب تک وہ صبر میں حدنہ کر دے۔ (جب تک وہ صبر میں حدنہ کر دے) اور استقلال کے ساتھ دُعاؤں میں نہ لگارہے۔ اللہ تعالیٰ پرکبھی بد ظنی اور بد گمانی نہ کرے۔ اُس کو تمام قدرتو ں اور ارادوں کا مالک تصور کرے، یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دُعاؤں میں لگا رہے۔ وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دُعاؤں کو سُن لے گا او ر اسے جواب دے گا۔ جو لو گ اس نسخہ کو استعما ل کر تے ہیں وہ کبھی بدنصیب اور محرو م نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناََ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو تے ہیں۔ خدا تعا لیٰ کی قد رتیں اور طاقتیں بے شما ر ہیں اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قا نو ن رکھا ہے۔ پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چا ہتا ہے کہ وہ اس قانو ن کو اس کے لئے بد ل دے وہ گویا اللہ تعا لیٰ کی جناب میں گستا خی کر تا ہے اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے۔ پھر یہ بھی یا د رکھنا چا ہیے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مدا ری کی طر ح چا ہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کا م ہو جائیں۔ مَیں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعا لیٰ کا کیا بگاڑے گا۔ اپنا ہی نقصا ن کرے گا۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہا ں جائے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 151)

اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمیں اپنے آگے صبر و استقامت دکھاتے ہوئے، صبر و استقامت دکھاتے ہوئے جھکائے رکھے اور دعائیں کرنے میں نہ ہم کبھی تھکیں، نہ ماندہ ہوں۔ کبھی صبر کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ صبر کا مطلب ہی یہی ہے کہ استقلال سے دعائیں کرتے چلے جانا اور جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان سے کبھی پیچھے نہ ہٹنا۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کریں کہ وہ ہماری دعاؤں میں، ہماری عبادتوں میں ترقی عطا فرمائے۔ ہماری عبادتوں میں اپنی محبت ڈال دے۔ جب یہ معیار ہم حاصل کریں گے تو ہم دیکھیں گے کہ مخالفین کی عارضی خوشیاں جلد حسرتوں میں بدل جائیں گی، انشاء اللہ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے جو انشاء اللہ ضرور پورا ہو گا۔

آخر میں ایک قرآنی دعا پڑھتا ہوں۔ رَبَّنَا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَاعَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ (البقرۃ251) اے ہمارے رب! ہم پر صبر نازل کر اور ہمارے قدموں کو ثباتِ قدم بخش اور کافر قوم کے خلاف ہماری مدد کر۔

اپنا تبصرہ بھیجیں