خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 14؍ اکتوبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یہ زمانہ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا زمانہ ہے۔ وہ زمانہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے اسلام کی برتری تمام دینوں پر ثابت کرنی ہے۔ اور ہم احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس یقین پر قائم ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر لحاظ سے اسلام کی برتری تمام ادیان پر ثابت کر رہا ہے اور عیسائیت کے خاص طور پر بندے کو خدا بنانے کے عقیدے کے خلاف جس طرح جماعت احمدیہ کھڑی ہے اُن دلائل و براہین کے ساتھ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمائے اور اُن آسمانی تائیدات کے ساتھ جو خدا تعالیٰ ہر دم دکھا رہا ہے کوئی اور مسلمان فرقہ اس کا کروڑواں حصہ بھی مقابل کے سامنے پیش نہیں کر رہا اور نہ ہی کر سکتا ہیکیونکہ اس زمانے میں یہ کام اللہ تعالیٰ نے مسیح و مہدی اور اُس کی جماعت سے ہی لینا تھا اور لے رہا ہے۔ عیسائی دنیا ہے تو وہ اس بات کا اعتراف کر رہی ہے اور سعید فطرت مسلمان ہیں تو وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ راہِ ہدایت جو ہے وہ احمدیت میں ہی ہے اور اس سے راہِ ہدایت پا رہے ہیں۔ اُن سعید فطرت لوگوں کو اس بات پر یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا کی طرف سے ہی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب آج سے ساٹھ ستر سال پہلے افریقہ میں عیسائی پادری یہ نعرے لگا رہے تھے کہ عنقریب تمام افریقہ عیسائیت کی جھولی میں آ کر خدا کے بیٹے کی خدائی کو تسلیم کرنے والا ہے اور تقریباً آج سے ایک سو بیس تیس سال پہلے تک عیسائی مشنری ہندوستان کے بارے میں بھی یہ اعلان کر رہے تھے کہ عیسائیت کا ہندوستان میں جلد غلبہ ہونے والا ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بندے کو خدا بنانے کے نظریے کو خود اُن کی اپنی کتاب اور عقلی دلائل سے باطل کیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں مسلمان جو عیسائیت کی جھولی میں گرنے والے تھے یا عیسائیت کو اسلام سے بہتر سمجھتے تھے ہوش میں آنے لگے اور اُس جھوٹے نظریے کو اختیار کرنے سے بچ گئے۔ ایک بہت بڑی روک اور دیوار تھی جو آپؑ نے کھڑی کر کے خدائے واحد کی وحدانیت اور اسلام کی سچائی اور برتری دنیا پر ثابت کر دی۔ اسی طرح افریقہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغین نے اسلام کی تبلیغ کر کے تثلیث کے غلط نظریے کی حقیقت کھول کر عیسائی مشنریوں کے سامنے ایک روک کھڑی کر دی جس کا انہیں برملا اظہار کرنا پڑا کہ احمدی ہمارے سامنے روکیں کھڑی کر رہے ہیں۔ لیکن اسلام کے اس جری اللہ اور اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کے کام کو دیکھنے کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے بجائے خوشی سے اچھلنے اور آپؑ کی جماعت میں شامل ہونے کے آپ کے خلاف بغض، عناد اور کینہ کا وہ بازار گرم کیا کہ اَلْاَمَان وَالْحَفِیْظ۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے تو بہر حال اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کا ساتھ دینا ہے اور دے رہی ہے۔ سعید فطرت لوگ آہستہ آہستہ مسیح محمدی کی جماعت میں شامل ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں لیکن اکثریت نام نہاد مُلّاؤں کے خوف اور علم کی کمی کی وجہ سے مخالفت پر کمربستہ ہے اور ہر روز کوئی نہ کوئی مخالفانہ کارروائی مسلمان کہلانے والے ملکوں اور خاص طور پر پاکستان میں احمدیت کے خلاف ہوتی رہتی ہے۔ بعض ٹی وی چینل بھی اس میں پیش پیش ہیں جو یورپ اور دنیا میں سنے جاتے ہیں، جو کم علم مسلمانوں کے غلط رنگ میں جذبات بھڑکا کر احمدیت کے خلاف اُکساتے رہتے ہیں۔ بعض ٹی وی چینل اپنی پالیسی کے مطابق اس کی اجازت نہیں دیتے تو کسی رفاہی کام کے بہانے وقت خرید کر یہ شدت پسند لوگ اور فساد پیدا کرنے والے لوگ اس پر بھی کسی نہ کسی بہانے سے اعلان کر دیتے ہیں کہ احمدی واجب القتل ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک چینل پر یہاں یورپ میں ایک مولوی نے یہ اعلان کیا لیکن بہر حال جب چینل کے مالک سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے معذرت کی اور آئندہ اس مولوی کو اپنے چینل پر نہ آنے کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن بہر حال ان بدفطرتوں نے اسلام، ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے نام پر کم علم مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے کا کام سنبھالا ہوا ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اسلام کی تبلیغ اور برتری ثابت کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام دنیا پر واضح کرنے کے لئے جو کوشش جماعت احمدیہ کر رہی ہے اُس کا اعتراف تو خود اسلام مخالف قوتیں اور مشنری بھی کر رہے ہیں۔ یہ جو مسلمان کہلانے والے اور پھر احمدیوں پر اعتراض کرنے والے ہیں ان لوگوں کو تو اتنی توفیق بھی نہیں ہے کہ اسلام کی تبلیغ کے لئے چند روپے خرچ کر دیں۔ ہاں ملک کی دولت لوٹنے کی ہر ایک کو فکر ہے۔ آج اسلام اور ناموسِ رسالت کے نام پر جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے، جو ملک میں دہشت گردی پھیلی ہوئی ہے اُس نے ہر شریف النفس کو بے چین کر دیا ہے۔ کوئی جان بھی محفوظ نہیں ہے۔ احمدیوں کے خلاف تو یہ شدت پسندی ہے ہی اور احمدیوں کو اس کی ایک عادت پڑ چکی ہے۔ مَیں کئی دفعہ اس کا اظہار کر چکا ہوں لیکن خود پاکستان کا کوئی شہری بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ سوچتے نہیں کہ ایک طرف لا قانونیت ہے، ملک میں فساد پھیلا ہوا ہے، کوئی حکومت نہیں ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی آفات نے ملک کو گھیرا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے؟ قوم کس طرف جا رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ کس انجام کی طرف ان کو لے کر جا رہا ہے اور کیا انجام ان کا ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ان کو عقل دے کہ یہ سوچیں اور سمجھیں۔ جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے وہ تو ملک کے وفادار ہونے کی وجہ سے باوجود اس کے کہ اُن پر قانوناً بعض تنگیاں وارد کی جا رہی ہیں، اور تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملک کو ہر طرح کی تباہی سے بچائے۔

گزشتہ خطبہ میں جب مَیں نے دعا کی تحریک کی تھی اور روزہ رکھنے کا بھی کہا تھا تو اس بارے میں پھریہ کہا تھا کہ ایک نفلی روزہ ہر ہفتہ رکھیں تو ضمناً بتا دوں کہ مناسب ہو گا کہ جماعتی طور پر ایک ہی دن روزہ رکھا جائے۔ ہر مقامی جماعت اپنے طور پر بھی فیصلہ کر سکتی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ پھر مقامی جماعت میں بھی ایک فیصلہ ہو۔ پیر یا جمعرات کا دن رکھ لیا جائے۔ یہی پاکستان کے احمدیوں کو مَیں نے کہا تھا۔ بہر حال جو مَیں نے تحریک کی تھی اس پر جماعت کوبھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس دعا کی تحریک میں بھی جہاں مَیں نے جماعت کو ان دشمنوں اور دشمنیوں اور ظالموں اور ظلموں سے بچنے کے لئے کہا تھا وہاں ملک کو بھی ان سے پاک کرنے کے لئے کہا تھا کہ فسادیوں سے اللہ تعالیٰ ملک کو بھی پاک کرے تا کہ یہ ملک بچ جائے۔ ہمیں اپنے ملک سے محبت ہے۔ اس لئے ہمارے دل یہ چیزیں دیکھ کر بے چین ہو جاتے ہیں۔ بہر حال یہ ہمارا فرض ہے، ہر احمدی پاکستانی کا فرض ہے اور اُس نے اسے ادا کرنا ہے۔

اب مَیں واپس اپنی پہلی بات کی طرف آتا ہوں۔ مَیں نے کہا تھا کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ سے ہدایت پا کر آپ کی جماعت کے افراد ہی ہیں جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور اس کی تمام دینوں پر برتری ثابت کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ اور اس وجہ سے چاہے افریقہ ہو، یورپ ہو یا امریکہ ہو یا دنیا کا کوئی بھی علاقہ ہو اسلام کے دفاع کے لئے، نہ صرف دفاع کے لئے بلکہ اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے احمدی سب سے آگے بے دھڑک کھڑا ہو جاتا ہے۔ جہاں تیل کی کوئی دولت کام نہیں کرتی وہاں احمدی کا اپنی معمولی آمد سے خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیاہوا چندہ کام کرتا ہے۔ بیشک اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ کوئی فخر نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ وہ ہماری معمولی قربانیوں میں برکت ڈالتا ہے اور اس کے بیشمار پھل لگتے ہیں۔ پس ہمارا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے اُس کے حضور اپنی معمولی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں۔ ہم احسان فراموش نہیں ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی۔ اگر ہمارے باپ دادا کو یہ توفیق دی تو ہمیں اس پر قائم رہنے کی توفیق دی تا کہ ہم امام الزمان کے ساتھ جڑ کر اُس کے مشن کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دنیا اور عاقبت سنوار سکیں لیکن یاد رکھیں کہ صرف مالی قربانی کر کے ہمارے کام ختم نہیں ہو جاتے۔ ہم نے اپنے اندر اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دل پیدا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہم نے اپنے اعلیٰ اخلاق کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو جو اسلام کا حقیقی پیغام ہے اپنے اپنے ملک میں پھیلانے کی بھی کوشش کرنی ہے۔ اسلام کے خلاف اُٹھائے گئے الزامات کو دور کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم بھی دنیا کے سامنے پیش کرنی ہے۔

پس ہالینڈ کی جماعت بھی جو گو چھوٹی سی جماعت ہے اپنی اس ذمہ داری کو سمجھے۔ چند ایک کے کام کرنے سے یہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ ہالینڈ میں رہنے والے ہر احمدی کو اپنے ماحول میں اس اہم کام کو کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ یہ ہالینڈ ہی ہے جس میں وہ بدقسمت شخص بھی رہتا ہے جو اپنی سیاست چمکانے کے لئے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دریدہ دہنی میں بڑھتا چلا جا رہاہے، دشمنی اور مخالفت میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اس حد تک بُغض و عناد میں بڑھ گیا ہے کہ اسلام کے نام پر اُس کے منہ سے غصّہ میں جھاگیں نکلنے لگتی ہیں۔ گزشتہ دنوں جب کسی مسلمان تنظیم نے دہشت گردی کے عمل کی شدت سے مذمت کی تو اس ظالم نے جس کا نام ویل گلڈر ہے یہ اعلان کیا کہ یہ کافی نہیں ہے، ہم اُس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک تم یہ نہیں کہتے کہ اسلام مذہب ہی ایسا ہے جو شدت پسندی کی تعلیم دیتا ہے، جھوٹا ہے اور خدا کی طرف سے نہیں ہے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔ جب تک تم یہ اعلان نہیں کرتے ہم کسی قسم کی معذرت ماننے کو تیار نہیں۔ یہ اُس کے ارادے ہیں۔ پس یہ پیغام ہم نے اسے دینا ہے کہ اے ظالم شخص! سن لو کہ تم، تمہاری پارٹی اور تم جیسا ہر شخص تو فنا ہو گا لیکن اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاقیامت دنیا میں رہنے کے لئے آئے ہیں اور رہیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت چاہے وہ کتنے بڑے فرعون اور دشمنِ اسلام کی ہو، اسلام کو نہیں مٹا سکتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اُس جری اللہ کو بھیجا ہے جس نے تم جیسے دشمنوں کی انتہائی دشمنی کے باوجود اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسلام کو دنیا پر غالب کرنا ہے۔ اور ہر احمدی جو اس جری اللہ کی بیعت میں شامل ہے اس بات کا علم رکھتا ہے اور یہ عہد بھی کرتا ہے کہ ہم اپنی جان، مال، وقت قربان کر کے اس مقصد کو حاصل کر کے رہیں گے، انشاء اللہ۔

پس یہ ہے وہ پیغام جو آج آپ لوگ جو اس ملک میں رہ رہے ہیں۔ آپ نے یہاں کے ہر باشندے تک پہنچانا ہے۔ اور دنیا میں بسنے والا ہر احمدی جو ہے، اُس کے لئے بھی یہی پیغام ہے جو دنیا کو دینا ہے۔ آپ نے یہاں کے ہرباشندے تک پہنچاناہے۔ بیشک یہ سیاستدان، یہ اسلام کا بدترین دشمن حکومت میں سیٹیں جیتتا چلا جائے، پہلے سے زیادہ سیٹیں بھی لے لے لیکن آپ دنیا کو یہ بتا دیں کہ اس کی جو یہ حرکتیں ہیں یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھوں اس کی ہلاکت کے سامان کریں گی۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اپنے رسول کی لاج رکھی ہے، اُس کے ناموس کی حفاظت کی ہے، آج بھی کرے گا انشاء اللہ۔ ہم کوئی طاقت نہیں رکھتے، نہ ہم کوئی دنیاوی حربہ استعمال کریں گے لیکن جن کے دل زخمی کئے جائیں اُن کی دعائیں اللہ تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتی ہیں اور یہاں تو پھر سوال اللہ تعالیٰ کے حبیب کا ہے۔ یہاں تو ہماری دعاؤں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی غیرت خود وہ کام دکھائے گی کہ ایسے گھٹیا لوگوں کی خاک کے ذرے بھی نظر نہیں آئیں گے۔ ہالینڈ میں یہ نہیں کہ سب ایسے ہی ہیں۔ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو شریفانہ خیال بھی رکھتے ہیں۔ اس بدبخت کی باتوں کو رَد کرتے ہیں۔ تبھی تو اس بدبخت پر یہاں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ لگتا ہے یہ بھی سیاست کی نظر ہو گیا۔ لیکن ایسے شرفاء ضرور اس ملک میں ہیں جو اس کے اس قسم کے خیالات اور فعل سے بیزار ہیں۔ پس ایسے لوگوں کی تلاش کر کے اُنہیں اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچائیں۔ دنیا میں امن، محبت، بھائی چارے کو قائم کرنے والوں کی تلاش کریں اور پھر انہیں دنیا میں فساد پیدا کرنے والوں سے ہوشیار کریں۔ ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے والے اور ایک دوسرے کے مذہب کی عزت کرنے والوں کو جمع کر کے دنیا میں امن قائم کرنے کی مہم چلائیں۔ دنیا کو بتائیں کہ آج اسلام ان سب سے زیادہ اس امر کی تعلیم دیتا ہے کہ ایک دوسرے کی عزت کرو۔ یہاں تک کہ شرک جو خدا تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ ہے، ان شرک کرنے والوں کا بھی خیال رکھ کر یہ تعلیم دیتا ہے کہ ان کے بتوں کو بھی برا نہ کہو کہ جواب میں وہ خدا کے متعلق باتیں کریں گے اور ملک میں فساد پھیلے گا۔

پس آج ہالینڈ کے احمدیوں کو اپنی کوششوں کو تیز کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ آج اگر آپ نے اپنی ذمہ داری کا صحیح احساس کیا ہوتا جیسا کہ مَیں بہت عرصے سے توجہ بھی دلا رہا ہوں تو المیرے میں جہاں آپ مسجد بنانا چاہتے تھے، حکومت مسجد کی زمین دے کر پھر واپس نہ لیتی۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ دشمنِ اسلام کا علاقہ ہے اس کا وہاں زور ہے لیکن پھر بھی اس شہر میں بہت سے شرفاء ہیں جو آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہیں۔ پس اپنی کوشش کو پہلے سے زیادہ مربوط، مضبوط اور تیز کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے کوئی کام دعاؤں کے بغیر نہیں ہوتے۔ خدا تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ دعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ یہاں مَیں یہ بھی کہوں گا کہ ملک کی ملکہ کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ ایک طبقہ ملکہ کے پیچھے بھی اس لئے پڑ گیا ہے کہ ملکہ مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کے ظالمانہ سلوک سے روکتی ہے اور مسلمانوں کو بھی ملک کا شہری سمجھتے ہوئے اُن کے حقوق اور جذبات کا خیال رکھنے کے لئے کہتی ہے۔ اور مسلمانوں کے لئے تو حکم ہے کہ احسان کا بدلہ احسان سے چکاؤ۔ پس ملکہ کے لئے دعا کریں کہ اُس کے خلاف ہر قسم کی سازش ناکام ہو اور اللہ تعالیٰ اُس کا سینہ بھی کھولے اور اسی طرح اس ملک کے لوگوں کا بھی کھولے کہ وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کو سمجھنے والے ہوں۔ پس ہم نے انصاف کے قیام اور اسلام کی سربلندی کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہے۔ اس لئے کہ ہم اُس جری اللہ کو ماننے والے ہیں جس نے اسلام کی برتری اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو دنیا سے منوانا ہے، اُن کے قدموں میں لا کر رکھنا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے برصغیر میں باطل کی یلغار کو روکا۔ برصغیر کے مسلمان چاہے مانیں یا نہ مانیں، آپؑ ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کو شرک کی جھولی میں گرنے سے بچایا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ پھر افریقہ میں ہمارے مبلغین نے اسلام کی تبلیغ کر کے تثلیث کے قائل لوگوں کو توحید پر قائم کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والا بنا دیا۔ جلسوں پر افریقن احمدیوں کو ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ کی خوبصورت آواز میں ورد کرتے ہوئے ہم سنتے ہیں، اِن میں سے اکثریت عیسائیت سے ہی اسلام میں آئی ہوئی ہے۔ غانا میں تو اکثریت عیسائیت میں سے آئی ہے۔ پس یہ وہ کام ہے جو آج جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سیکھ کر دنیا میں کر رہی ہے۔ آج آپؑ سے جدا ہو کر اسلام کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہی نہیں جا سکتی کیونکہ آپ ہی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے وہ مہدی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ہدایت لے کر آئے ہیں جنہوں نے اس زمانے میں دنیا کی ہدایت کا کام کرنا تھا۔ آپ ہی وہ عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ مقامِ محمدیت کے منوانے کے لئے قربان کر دیا۔ آپؑ کے دل میں جو عشقِ رسول تھا اُس کا اندازہ آپ کی تحریرات سے ہو سکتا ہے۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ اور افضل سب نبیوں سے اور اَتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں۔ جن کی پیروی سے خدا تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اُٹھتے ہیں اور اس جہان میں سچی نجات کے آثار نمایاں ہوتے ہیں‘‘۔ (براہین احمدیہ روحانی خزائن جلدنمبر1صفحہ557)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اُس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء، امام الاصفیاء، ختم المرسلین، فخر النبیین جنابِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے ہمارے پیارے خدا! اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتدائے دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو‘‘۔ (اتمام الحجۃ روحانی خزائن جلدنمبر8صفحہ308)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے ہیں اُن سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے، جو ہمارے نبیؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے‘‘۔ (پیغام صلح روحانی خزائن جلدنمبر23صفحہ459)

پس کیا اس طرح عشقِ محمد اور مقامِ محمدیت اور غیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار کرنے والا آج اس زمانے میں ہمیں کوئی نظر آتا ہے؟ سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کوئی نظر نہیں آئے گا۔ روئے زمین پر تلاش کر لیں، ایسا عاشقِ صادق دنیا کو کہیں ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔ لیکن مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کی بدقسمتی ہے کہ پھر بھی نہ صرف اس عاشقِ رسول کا انکار کر رہے ہیں بلکہ ظالمانہ طور پر آپ کو بیہودہ گوئیوں اور گالیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں تو آئے دن جیسا کہ مَیں نے کہا یہ مُلاّں ایسے پروگرام کرتے رہتے ہیں۔ ربوہ میں بھی جہاں اٹھانوے فیصد احمدیوں کی آبادی ہے، وہاں احمدی جو ہیں اُنہیں تو جلسہ اور اجتماع کرنے کی اجازت نہیں لیکن ختمِ نبوت کے نام پر دشمنانِ احمدیت کو احمدیت کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ کل شام سے پھر ان لوگوں کا ایک جلسہ ہورہا ہے جو یہ اکتوبر میں ربوہ میں کرتے ہیں۔ جو آج شام ختم ہونا تھا جس میں اب تک کی جو رپورٹیں آئی ہیں عشقِ رسول کی بات تو کم ہوئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق دریدہ دہنی اور غلیظ زبان زیادہ استعمال کی جا رہی ہے۔ ختمِ نبوت کے نام پر اس عاشقِ رسول کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اُس کے ماننے والوں کے دلوں کو چھلنی کیا جا رہا ہے۔ لیکن ہم یہ سب کچھ عشقِ رسول کے نام پر ہی برداشت کرتے ہیں اور اپنے پیارے خدا کے آگے جھکتے ہیں جس نے کبھی ہمیں نہیں چھوڑا۔

ہماری طرف سے تبلیغِ اسلام کی کوشش اگر کم بھی ہو تو اللہ تعالیٰ اپنے پیارے مسیح و مہدی کی سچائی ثابت کرنے کے لئے خود لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے اور پچھلے ایک سو پچیس سال سے فرماتا چلا جا رہا ہے۔ اُن کے دلوں کو کھولتا ہے اور اُنہیں جماعت میں شامل ہونے کی توفیق دیتا چلا جاتا ہے۔ اس وقت میں چند واقعات آپ کے سامنے رکھوں گا جو آپ کے ازدیادِ ایمان کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے جرمنی کے مبلغ ہیں محمد احمد صاحب۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک غیر از جماعت دوست سربادباش صاحب کئی سال سے خاکسار کے زیرِ تبلیغ تھے۔ جماعت کے عقائد کو ہر لحاظ سے درست سمجھتے تھے لیکن بیعت کے متعلق اُنہیں قلبی اطمینان حاصل نہ تھا۔ یہ تبلیغ بھی کرتے تھے اور ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں بعض اور وں نے بیعت کر لی۔ خود بیعت نہیں کی لیکن احمدیت کی تبلیغ کرتے تھے اور کہتے تھے ابھی کچھ تحفظات ہیں۔ مربی صاحب لکھتے ہیں کہ یہ ایک دن خاکسار کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بیعت کرنے کا طریق کیا ہے۔ مَیں نے حیران ہو کر پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ کہنے لگے کہ رات مَیں نے ایک رؤیا دیکھی ہے۔ اس رؤیا میں مجھے یہ آواز آئی کہ احمدیت وہ سمندر ہے جس کے خزائن پر اطلاع پانا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے۔ کہنے لگے کہ اس آواز نے میرے قلب و روح کی کیفیت بدل دی ہے۔ چنانچہ انہوں نے اسی وقت بیعت کر لی۔

آئیوری کوسٹ کے ایک گاؤں سوسے آبے (Soce Abe) میں ہمارے مبلغ تبلیغ کے لئے پہنچے اور امام مہدی کی آمد کا اعلان کیا تو اس گاؤں کے بانی یحيٰ جِباتے صاحب (Yahya Diabate) نے کھڑے ہو کر اپنی رؤیا بیان کی کہ رات انہوں نے انتہائی شمالی اُفق پر تقریباً دو بجے صبح ایک روشنی اُبھرتی ہوئی دیکھی۔ پھر ایک ہفتے بعد ایک روشنی جنوبی اُفق کی طرف سے نمودار ہوئی۔ اس گاؤں کے چیف نے اپنا یہ خواب علماء کے سامنے بیان کیا تو علماء نے جواب دیا کہ تمہیں بہت بڑی خوش بختی ملنے والی ہے۔ اس خواب کے کچھ ہی دنوں بعد جب احمدی مبلغین کا وفد اُس گاؤں پہنچا اور امام مہدی کی خبر اُن کو سنائی گئی تو خوشی کے مارے اُچھل کر وہ لوگوں کے سامنے آئے اور سارا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ خوش بختی ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے شمال اور جنوب کی طرف سے نمودار ہونے والی روشنی کی صورت میں مجھے خبر دی تھی۔ میں صداقت کو قبول کرتا ہوں اور اپنے لوگوں کو کہا کہ جو تم میں سے قبول کرنا چاہے اُسے یقین دلاتا ہوں کہ احمدیت خدا تعالیٰ کی طرف سے بھجوائی ہوئی خوش بختی ہے اُسے قبول کر لو۔ اور پھر وہاں تقریباً پورے گاؤں نے بیعت کر لی۔

پھر عراق سے ایک صاحب ہیں وحید مراد صاحب۔ وہ کہتے ہیں کہ میں شیعہ ماحول میں رہتا ہوں۔ والد اور دادا بھی شیعہ ہیں لیکن امام مہدی کے بارے میں شیعہ عقائد پر اطمینان نہ ہوتا تھا اور خیال آتا تھا کہ ضرور کہیں کوئی خلل موجود ہے۔ ایک روز خواب میں دیکھا کہ ایک کمرے میں بیٹھا ہوں۔ اسی دوران چار اشخاص کے آنے کی آواز سنائی دی جن کو میں نہیں جانتا۔ باہر نکل کر دیکھا تو یہ چاروں پانی کا پائپ لے کر میرے گھر پر پانی چھڑک رہے تھے۔ میں حیرت سے پوچھتا ہوں کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں آپ کے گھر کو صاف کرنے کا حکم ہے۔ میں نے پوچھا کہ باقی پڑوسیوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟ کہنے لگے کہ ہمیں صرف آپ کے گھر کو صاف کرنے کا حکم ہے۔ خواب کے دوسرے روز ٹی وی کھولا تو سکرین پر چار افراد مصطفی ثابت صاحب، شریف صاحب اور ہانی صاحب اور مومن صاحب پروگرام اَلْحِوَارُ الْمُبَاشَر میں موجود تھے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ لہٰذا مجھے بیعت کر لینی چاہئے۔

فرانس کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ری یونین آئی لینڈ کی ایک خاتون میٹنگ میں شرکت کے لئے فرانس آ رہی تھی۔ آنے سے قبل اُنہیں خواب میں بتایا گیا کہ فرانس جا کر اپنے عزیز ایل ایم سے ضرور ملنا۔ چنانچہ وہ فرانس پہنچ کر اپنے اس عزیز کو ملیں جو اللہ کے فضل سے پہلے ہی بیعت کر چکے تھے۔ وہ اس خاتون کو مشن ہاؤس لائے۔ تبلیغی مجلس کے بعد اس خاتون نے بیعت کر لی۔ اگلے روز جب اس خاتون کو ائیر پورٹ پر چھوڑنے کے لئے اس کے قیام والی جگہ پر پہنچے تو وہاں اُس کاخاوند اور بیٹے بھی موجود تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں احمدیت کے بارے میں پتہ چل چکا ہے۔ اب آپ ہماری بیعت لے لیں۔ چنانچہ وہ سارا خاندان احمدی ہو گیا۔

پھر مصر سے عبدالمجید صاحب کہتے ہیں۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک چھوٹی سی کشتی میں سوار ہوں اور ہاتھ میں ایک چپو ہے اور بے مقصد و منزل گھوم رہا ہوں۔ جبکہ سمندر میں طغیانی ہے اور کشتی گرنے اُلٹنے کے قریب ہے۔ تب مَیں نے اللہ تعالیٰ کی آواز سنی کہ یہ لو موسیٰ کا عصا اور سمندرپر مارو۔ اس پر کسی قدر ٹیڑھا عصا ہاتھ آگیا۔ مَیں نے اُسے آسمان سے لیا اور سمندرپر مارا۔ اتنے میں کشتی ایک بلند مقام پر ٹھہر گئی جو خوبصورت عمارتوں والا ایک شہر ہے۔ اس میں سارے لوگ خوش شکل اور خوش و خرم تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ جماعت احمدیہ کا شہر ہے اس سے مَیں نے سمجھا کہ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ مجھے بیعت کر لینی چاہئے۔ چنانچہ مجھے بیعت کی توفیق ملی۔

صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ غیرمسلموں کو بھی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا ہے۔ ہالینڈ کے آپ کے جو مبلغ صاحب ہیں انہوں نے مجھے لکھا کہ ایک ہندو عورت جن کا نام مالتی ہے۔ انہوں نے تقریبا ً پندرہ سال قبل اسلام قبول کیا تھا۔ مراکش کے باشندے یوسف منصور اللہ سے شادی کی۔ شادی کے بعد اس خاتون نے خواب میں دیکھا کہ ہندوستان میں مختلف علاقوں کے لوگ جنہوں نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں ایک بزرگ کے گرد جمع ہو رہے ہیں اور یہ لوگ ہاتھوں کے اشارے سے کہہ رہے ہیں کہ یہ شخص مسیح موعود ہے۔ اُس خاتون نے اپنے خاوند کو خواب سنایا۔ خاوندنے ایم ٹی اے دیکھا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظہور کے حوالے سے بات ہورہی تھی۔ منصور باللہ صاحب نے اپنی اہلیہ کو بلا کر جو دکھایا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر دیکھ کر فوراً پہچان لیا کہ یہی وہ بزرگ ہیں جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اُن دونوں نے ایم ٹی اے دیکھا اور آخر بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اللہ تعالیٰ اب ان کو احمدیت پر قائم رکھے۔ جماعت کا کام ہے کہ ایسے سعید لوگ جو احمدیت میں شامل ہوتے ہیں اُن کو سنبھالے بھی۔ ایسے لوگوں سے مستقل رابطہ رہنا چاہئے تا کہ اُن کو قریب تر لے کے آئیں۔ پھر عیسائیوں کے واقعات بھی ہیں۔ امیر صاحب کینیڈا ایک خاتون برینڈی وِلسن (Brandy Wilson) کی قبولِ احمدیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ٹورنٹو میں رہنے والی یہ نوجوان خاتون ہمارے ایک داعی الی اللہ حسن فاروق صاحب کے زیرِ تبلیغ تھیں۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے اللہ تعالیٰ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خواب میں دیکھا۔ جنہوں نے اُنہیں تسلی دی اور اسلام کی طرف دعوت دی۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔

پھر کینیڈا میں ہی عمانوئل روویتھس (Emmanuel Rovithis) کی بیعت کا واقعہ ہے۔ انٹاریو کا رہنے والا یہ چوبیس سالہ سفید فام نوجوان بچپن سے ہی خواب میں روشنی دیکھا کرتا تھا جو شروع میں مدھم دکھائی دیتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ روشن ہوتی چلی گئی۔ ڈیڑھ برس قبل جب یہ نوجوان مسلمان ہوا تو یہ روشنی مزید واضح ہو گئی اور احمدیت کے متعلق تحقیق کے دوران مزید روشن ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ اُسے اس روشنی میں ایک چہرے کے دھندلے نقوش نظر آنے لگے۔ حتی کہ ایک روز ایک احمدی دوست کے ساتھ تین چار گھنٹے گفتگو کے بعد رات کو خواب میں ایک واضح چہرہ نظر آیا۔ اُس نے فوراً اس احمدی دوست کو اس بارے میں بتایا جس نے اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور خلیفہ رابع کی تصویر یا شاید خلفاء کی تصویریں دکھائیں لیکن جب میری تصویر دیکھی تو اس نے کہا کہ یہی وہ چہرہ تھا جومَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ چنانچہ مارچ 2011ء میں انہوں نے بیعت کر لی۔

یوگنڈا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارا وفد دورانِ تبلیغ جب ایک گھر میں پیغامِ احمدیت لے کر گیا تو صاحبِ خانہ جو ایک عیسائی تھا اُس نے ہمارے وفد سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ ہی وہ لوگ ہیں جن کی میں انتظار کر رہا تھا کیونکہ آج ہی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ مسلمان ہیں جو مختلف فرقوں اور قبائل کے لوگوں کو اکٹھا کر رہے ہیں صرف اس لئے کہ ان کو ایک خدا اور مسیح کی آمدِ ثانی کا بتایا جائے۔ آپ لوگوں نے میری خواب کو حقیقت میں بدل دیاہے۔ میری بیعت لے لیں۔ اس پر ہمارے وفدنے کہا کہ آپ بیعت فارم تو پڑھ لیں اور پہلے تسلی کر لیں۔ اس عیسائی نے کہا میں تو پہلے ہی ایمان لا چکا ہوں۔ میرے لئے تاخیر کے اسباب نہ کریں۔ چنانچہ اُسی وقت اُس نے اپنی فیملی کے ساتھ بیعت کر لی۔

سیرالیون کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حسن کمارا صاحب سیکنڈری سکول لُنگی میں لینگوئج اور آرٹ کے استاد ہیں۔ انہوں نے 2006ء میں خواب دیکھا کہ آسمان پر بہت ہی خوشخط اور روشن الفاظ میں یہ تحریر لکھی ہوئی ہے کہ “The Allah is greatest”۔ چونکہ یہ اُس وقت عیسائی تھے، ایک خدا کو نہیں مانتے تھے لیکن پوری تسلی بھی نہیں تھی کہ عیسیٰ جو کہ خدا کے نبی ہیں وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں؟ کہتے ہیں یہ تحریر دیکھتے ہی خوف سے اُن کا جسم کانپنے لگا اور گھبراہٹ سے آنکھ کھل گئی۔ 2008ء میں پھر اس سے ملتی جلتی خواب دیکھی کہ آسمان پر ایک روشنی کا بہت بڑا گولا نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پھٹ گیا اور اندر سے یہی الفاظ “The Allah is greatest” نکل کر آسمان پر پھیل گئے۔ پھر جولائی 2008ء میں خلافت جوبلی سوونیئر جو پاکستان سے شائع ہوا ہے خریدا اور مطالعہ شروع کر دیا۔ اور آہستہ آہستہ خدا کے فضل سے احمدیت کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئے۔ بہت سے سوالوں کے جوابات بھی اُن کو اس سوونیئر کے مطالعے سے مل گئے۔ 2009ء میں پھر ایک خواب دیکھی کہ وضو کر رہے ہیں اور تیاری کے بعد احمدیہ مسجد میں نماز کے لئے جاتے ہیں۔ جب پہنچتے ہیں تو باجماعت نماز ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ نماز باجماعت کےMiss ہونے کا بہت افسوس ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ ستمبر2010ء میں مبلغِ سلسلہ نے انہیں گھر بلایا اور پوچھا کہ بیعت کیوں نہیں کرتے؟ کہنے لگے کہ ابھی کچھ سوالات باقی ہیں۔ جب اُن کے جوابات ملیں گے تو بیعت کر لوں گا۔ اس سال جنوری 2011ء میں اپنے سوالات کے جوابات حاصل کر کے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو چکے ہیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ بھی بڑے شوق سے کر رہے ہیں۔ الحمد للہ۔

ایک ریڈیو جرنلسٹ مسٹر جین ٹیگامبو (Jaen Tangambu) ہماری نمائش میں آئے۔ انہوں نے کہا کہ ’’آج پہلی دفعہ اسلام کا پیغام سمجھا ہے۔ آج اسلام کو دریافت کیا ہے۔ آج اسلام کو بطور مذہب مانا ہے۔ میں اسلام کو بہت برا سمجھتا تھا۔ آج پہلی دفعہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو سمجھا ہوں‘‘۔

پھر ایک مہمان فوسٹن امبوائی (Fostin Maboyi) نے کہا ’’سنا تھا کہ مسجد جادونگری ہوتی ہے۔ آج پہلی بار مسجد میں داخل ہو کر جماعت احمدیہ کی مسجد میں داخل ہو کر پتہ چلا کہ یہ جگہ تو بہت پُرسکون ہے‘‘۔

پس جب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے نظارے دکھا رہا ہے، خود سعید فطرت انسانوں کی دنیا میں ہر جگہ رہنمائی فرما رہا ہے اور گھیر گھیر کر جماعت میں شامل کر رہا ہے جو مسیح محمدی کو پہچان کر اُس سے ایک پختہ تعلق جوڑ رہے ہیں تو پھر ہمیں ان مخالفینِ احمدیت کی روکوں اور مخالفتوں اور گالیوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں مخالفینِ احمدیت یا مخالفینِ اسلام جب ہمارے پیارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور آپ کے عاشقِ صادق کے لئے بیہودہ گوئی کرتے ہیں تو ہمارے دل ضرور چھلنی ہوتے ہیں اور اُس کا ایک ہی علاج ہے کہ دعاؤں کے لئے اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائیں۔ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں اور اپنے عمل سے بھی اور علم سے بھی اسلام اور احمدیت کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ یورپ میں احمدیوں کو مخالفینِ اسلام اور مخالفینِ احمدیت، دونوں کا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے بھی مخالفت ہے چاہے وہ کسی بھی ملک کے ہوں کیونکہ آجکل مولویوں نے اُن کے ذہنوں کو زہریلا کر دیا ہوا ہے اور اسلام مخالف قوتیں تو ہیں ہی۔ ہماری ترقی، ہماری مساجد دونوں کو چبھتی ہیں۔ بیلجیم میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ وہاں کی باقاعدہ پہلی مسجد کا سنگِ بنیاد بھی رکھنا ہے۔ وہاں دونوں حلقوں کی طرف سے جماعت کو مخالفت کا سامنا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ دشمن کا ہر مکر اور ہر شر اُن پر اُلٹائے اور خیریت سے بنیادکی یہ تقریب بھی ہو جائے اور مسجد بھی جلد مکمل ہو کر خدائے واحد کی وحدانیت کا اعلان کرے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے ہم پہلے سے بڑھ کر پیش کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں