خطبہ جمعہ سیدنا امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ نومبر 2011ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

احمدیوں پر خاص طور پر پاکستان میں سختیاں تو اُس وقت سے روا رکھی جا رہی ہیں یا اُن پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جب سے کہ احمدیوں کو اسمبلی نے 1974ء میں غیر مسلم قرار دینے کے لئے قانون پاس کیا تھا اور پھر جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمریت کا بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس قانون کو یہ کہتے ہوئے مزید سخت کیا کہ یہ احمدی (وہ احمدی تو نہیں کہتے، قادیانی یا مرزائی کہتے ہیں) جن کی کوئی حیثیت نہیں ہے، جن کے خلاف ہم نے قانون پاس کیا، اُنہیں اپنے زعم میں اپنے میں سے، اُمّتِ مُسلمہ میں سے باہر نکالا۔ انہیں کہا کہ تم اپنے آپ کو غیر مسلم کہو۔ انہیں کہا کہ تم نے کلمہ نہیں پڑھنا۔ انہیں کہا کہ تم نے کسی کو السلام علیکم نہیں کہنا۔ انہیں کہا کہ تم نے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی جس سے معمولی سا بھی اس بات کا اظہار ہو کہ تم مسلمان ہولیکن تم پھر بھی ان تمام چیزوں سے باز نہیں آ رہے۔ تم پھر وہی باتیں اور عمل کر رہے ہو جو ایک سچے اور پکے مسلمان میں ہونی چاہئیں۔ اس لئے ہم تمہیں یا تو قید و بند کی سزا دیں گے یا تمہیں اس آرڈیننس کی نافرمانی میں اپنے آپ کو حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی وجہ سے تختہ دار پر لٹکائیں گے، تمہیں پھانسی دیں گے۔ تم میں اتنی ہمت کہ اتنی تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اکثریت کے دلوں کو اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر زخمی کرو۔

پس یہ خلاصہ ہے پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ سلوک اور قانون کا۔ احمدیوں کے متعلق یہ جو کچھ کہتے رہے اور احمدی اقلیت کا جونعرہ لگا کریہ احمدیوں کو اپنے ایمان سے ہٹانے کی کوشش کرتے رہے اور کر رہے ہیں یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ مذاہب کی تاریخ میں یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہر زمانے کے فرعون نے اپنے وقت کے انبیاء اور اللہ والوں کو یہی کچھ کہاہے۔ قرآنِ کریم کا یہ مضمون آج بھی جاری ہے جس میں فرعون نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اِنَّ ہٰٓؤُلَآءِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیْلُوْنَ۔ وَِاِنَّہُمْ لَنَا لَغَآئِظُوْنَ(الشعراء: 56-55) کہ یقینا یہ لوگ ایک کم تعداد حقیر جماعت ہیں اور اس کے باوجود یہ ضرور ہمیں طیش دلا کر رہتے ہیں۔ پس ہم احمدی تو جب اس مخالفت کو دیکھتے ہیں تو ایمان تازہ ہوتا ہے کہ انبیاء کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ ہم بیشک آج تھوڑے ہیں اور دنیا کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ ہمارے پر طیش اُنہیں اس لئے نہیں آتا کہ ہم کوئی گناہ کر رہے ہیں یا بڑا جرم کر رہے ہیں، ہم کوئی قانون توڑ کر ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہم قانون کی پابندی نہ کر کے لوگوں کے حقوق سلب کر رہے ہیں، ہم کسی قسم کی دہشت گردی کر رہے ہیں۔ ہمارے پر طیش اُنہیں اس لئے آ رہا ہے کہ ہم چونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و وفا کا رشتہ نبھا رہے ہیں۔ ہم کیونکہ وطن کی محبت میں امن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ہم اللہ کی مخلوق کے حقوق سلب اور پامال کیوں نہیں کر رہے۔ ہم کیوں اُس دہشت گردی کا حصہ نہیں بنتے جس نے ملک میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ پس ہمارا اُنہیں یہی جواب ہے کہ ہم اس زمانے کے امام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود کو ماننے والے ہیں جس نے دنیا میں آ کر اپنے آقا و مطاع کی سنت کو جاری کرتے ہوئے دنیا کو محبت، پیار، امن، آشتی اور صلح کے اسلوب سکھانے تھے۔ پس جب ہم اس امام الزمان کی بیعت میں آ کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو اپنے آقا و سید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا حق ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ نمونے قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں نے کئے تھے۔ ہمیں یہ جرأت اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہونے کا حوصلہ اُس جری اللہ نے دیا ہے جسے اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ ہمیں اپنی زندگیوں سے زیادہ اپنے ایمان کی حفاظت کرنے کا حوصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عاشقِ صادق نے دیا ہے جو ثریا سے زمین پر ایمان لے کر آیا ہے۔ پس ہم جب ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار ہیں، اس بات کا صحیح ادراک رکھتے ہوئے تیار ہیں کہ ہم اُس امام کو ماننے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’جَرِیُ اللّٰہ فِی حُلُلِ الْاَنْبِیَاء‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلدنمبر21صفحہ116) کہ رسولِ خدا ہے تمام نبیوں کے پیرائے میں۔ پھر براہینِ احمدیہ حصہ پنجم میں اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اس وحی الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ آدم سے لے کر اخیر تک جس قدر انبیاء علیہم السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آئے ہیں خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا غیر اسرائیلی ان سب کے خاص واقعات یا خاص صفات میں سے اس عاجز کو کچھ حصہ دیا گیا ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کے خواص یا واقعات میں سے اس عاجز کو حصہ نہیں دیا گیا۔ ہر ایک نبی کی فطرت کا نقش میری فطرت میں ہے۔ اسی پر خدا نے مجھے اطلاع دی ہے‘‘۔ (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلدنمبر21صفحہ116)

پس جب تمام نبیوں میں سے آپؑ کو حصہ ملا ہے تو بعض مخالفانہ واقعات بھی اُن انبیاء کی تاریخ کے آپ کے ساتھ اور آپ کی جماعت کے ساتھ ہونے تھے۔ لیکن یہ مخالفانہ کارروائیاں یا قانون سازیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اُن فتوحات کی بھی خبر دے دی، اُن کامیابیوں کی بھی خبر دے دی جو انبیاء کو ملیں بلکہ اُس سے بڑھ کر کامیابیوں کی خبر دی اور آپ کے ایک الہام میں ایک جگہ آپ کو فرمایا کہ بُشْرٰی لَکَ یَا اَحْمَدِیْ۔ (تحفہ بغداد روحانی خزائن جلدنمبر7صفحہ23) تجھے بشارت ہو اے میرے احمد!

پس یہ قانون، یہ سختیاں، یہ ظلم مسیح موعود کی جماعت کی ترقی کو روک نہیں سکتے۔ انجام کار فتوحات کے دروازے کھلنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہی خبر دی ہے۔ اور متعدد بار اور مختلف پیرائیوں میں یہ خوشخبری دی ہے۔ گو ایک دور میں سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ بعض جگہوں پر زیادہ سختی ہے اپنی کتاب آسمانی فیصلہ میں آپ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے کہ اَنَا الْفَتَّاحُ اَفْتَحُ لَکَ۔ تَریٰ نَصْرًا عَجِیْبًا وَیَخِرُّوْنَ عَلَی الْمَسَاجِدِ۔ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا اِنَّا کُنَّا خَاطِئِیْنَ۔ یعنی میں فتّاح ہوں۔ تجھے فتح دوں گا۔ ایک عجیب مدد تو دیکھے گا۔ اور منکر یعنی بعض اُن کے جن کی قسمت میں ہدایت مقدر ہے اپنے سجدہ گاہوں پر گریں گے یہ کہتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ہمارے گناہ بخش، ہم خطا پر تھے‘‘۔ (آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلدنمبر4صفحہ342)

پھر آپ کا ایک الہام ہے کہ لَکَ الْفَتْحُ وَلَکَ الْغَلَبَۃَ۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلدنمبر22صفحہ702) کہ تیرے لئے فتح ہے اور تیرے لئے غلبہ۔

پس جن مشکلات اور جماعت کے خلاف کارروائیوں اور قانون سازیوں سے خاص طور پر پاکستان کی جماعت اور پھر انڈونیشیا، ملائیشیا کی جماعتیں یا بعض اور مسلم ممالک کی جماعتیں گزر رہی ہیں ان کے پیچھے اس سے زیادہ کامیابیوں اور فتوحات کی نوید اور خوشخبریاں اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے جن سے ہمارے مظلوم احمدی گزر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو ایمانی جرأت زمانے کے امام نے ہمیں دی ہے وہ ان ظلموں اور تنگیوں کو ذرا بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ اگر کوئی اور دنیاوی جماعت ہوتی تو ان ظلموں کی وجہ سے کب کی ظالموں کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہوتی یا منافقانہ رویہ اپنا رہی ہوتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نہ صرف ظلم کا مقابلہ کر رہی ہے بلکہ تمام تر نامساعد حالات کے باوجود ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اگر کوئی عقل رکھنے والا ہو، انصاف پسند ہو تو اُس کے لئے اس جماعت کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے اور ہونی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا جو مَیں نے ابھی پڑھا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ جب انہی میں سے جو اس وقت نام نہاد مُلَّاں کے زیرِ اثر یا اُس کے خوف کے زیرِ اثر یا قانون کے خوف سے حق کو نہیں پہچان رہے، اپنی سجدہ گاہوں پر گر کر خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق سے وابستہ ہونے میں فخر محسوس کریں گے اور جو بدفطرت ہیں وہ اپنے انجام کو اس طرح دیکھیں گے یا وہ دنیا کے لئے اس طرح عبرت کا نشان بنیں گے جس طرح پہلے نبیوں کے مخالفین اور حق کے مخالفین بنتے رہے جس کا قرآنِ کریم میں کئی جگہ ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ اَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ کَانُوْا مِنْ قَبْلِھِم کَانُوْاھُمْ اَشَدَّ مِنْھُمْ قُوَّۃً وَّاٰثَارًافِی الْاَرْضِ فَاَخَذَھُمُ اللّٰہُ بِذُنُوْبِھِمْْ وَمَا کَانَ لَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ وَّاقٍ۔ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانَتْ تَّاْتِیْھِمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَکَفَرُوْا فَاَخَذَھُمُ اللّٰہُ اِنَّہٗ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَاب۔ (المومن: 23-22)

کیا انہوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ وہ دیکھ لیتے کہ ان لوگوں کا انجام کیسا ہوا جو ان سے پہلے تھے؟ وہ ان سے قوت میں اور زمین میں نشانات چھوڑنے کے لحاظ سے زیادہ شدید تھے۔ پس اللہ نے ان کو بھی ان کے گناہوں کے سبب پکڑا اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ یہ اس لئے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آتے رہے پھر بھی انہوں نے انکار کر دیا۔ پس اللہ نے ان کو پکڑ لیا۔ یقینا وہ بہت طاقتور اور سزا دینے میں سخت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جن الہامات کا مَیں نے ذکر کیا ہے یہ کوئی اپنی طرف سے کوئی دعویٰ نہیں تھا۔ یہ الہامات تھے کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور مجھے اُس نے فتوحات کی خبر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو نہیں بخشتا جو اللہ تعالیٰ کی طرف بات غلط بات منسوب کریں۔ پس جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کو دیکھ رہے ہیں تو یقینا یہ سب باتیں ہمیں اس یقین پرمزید قائم کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس طرح آپ کے زمانے میں آپ کے ساتھ تھا اور آپ کی تائید فرماتا رہا آئندہ زمانے میں بھی فرماتا رہے گا اور آج بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے فرما رہا ہے اور آج بھی حقائق اور واقعات اس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات سے نواز رہا ہے۔ ہاں جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے، مخالفینِ انبیاء اور الٰہی جماعتوں پر ظلم کرنے والوں کو خدا تعالیٰ ایک مدت تک چھوٹ دیتا ہے پھر ایک روز ضرور پکڑتا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو پھر کوئی قوت، کوئی طاقت، کوئی عددی اکثریت کام نہیں آتی۔ آج احمدیوں پر سختیاں وارد کرنے والے اور قانون بنانے والے اور کشکول پکڑوانے والے یا نعوذ باللہ احمدیت کے کینسر کو ختم کرنے والوں کے پاس تو تھوڑی سی طاقت ہے جن کو اللہ تعالیٰ جب ختم کرنا چاہے تو ان کو پتہ بھی نہیں لگنا۔ جن کی مثالیں اللہ تعالیٰ نے دی ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ختم کیا ہے وہ تو بہت دولت رکھنے والے تھے۔ ان لوگوں کی جو آج ہم پر ظلم کر رہے ہیں، ان کی تواپنی دولت بھی نہیں ہے۔ ملک چلانے کے لئے غیر قوموں کی طرف قرضے کے لئے دیکھتے ہیں۔ پس ہمارے حکمرانوں کے لئے بھی اور عوام الناس کے لئے بھی سوچنے کا مقام ہے کہ لاشعوری طور پر ظلم کر کے، ظلم کا ساتھ دے کر، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو اپنی ہر تحریر اور سرکاری کاغذ میں گالیاں دے کر، کیونکہ آجکل پاکستان میں کوئی ایسا کاغذ نہیں ہے، کوئی بھی document بنانا ہو، کوئی سند لینی ہو، کہیں داخلہ لینا ہو، کوئی چیز کرنی ہوتو کوئی ایسا کاغذ نہیں ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گند لکھا ہوا نہ ہو اور یہ نہ کہا جائے کہ اگر تم مسلمان ہو تو اس پر دستخط کرو۔ بازاروں اور دفتروں یا پارکوں میں بڑے بڑے غلیظ گالیوں کے پوسٹر لگا کر یہ سب لوگ بہت بڑے گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جو خاموش ہیں وہ بھی لاشعوری طور پر گناہ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یا تو شرافت ختم ہو گئی ہے یا خدا تعالیٰ پر یقین نہیں رہا۔ غلط رنگ میں احمدیوں پر مقدمے قائم کر کے ایسے عمل کے مرتکب ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں یقینا ناپسندیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم دشمن سے بھی عدل سے کام لو۔ اُن لوگوں سے بھی انصاف کرو اور ظلم نہ کرو جنہوں نے تم پر ظلم کیاہے۔ لیکن اس کے برعکس ان لوگوں کے عمل کیا ہیں؟ بالکل ہی الٹ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جھوٹ شرک ہے اور شرک ایک ایسی نجس چیز ہے اور گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ نہیں بخشتا۔ لیکن ان کی اپنی حالت کیا ہے۔ ان کے تقویٰ اور نیکی اور اللہ اور رسول کے نام کو اونچا کرنے کی حقیقت ہم احمدی توروز مشاہدہ کرتے ہیں۔ ایک واقعہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جس سے ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک احمدی پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا۔ قتل کے مقدمے میں اُس کو ملوث کیا گیا۔ جب ان کو بتایا گیا، سمجھایا گیا کہ یہ غلط ہے۔ تم یہ کیا ظلم اور زیادتی کر رہے ہو۔ تو انہوں نے، مدعیان نے جنہوں نے مولویوں کے زیرِ اثر مقدمہ قائم کیا تھاکہا کہ ہمیں پتہ ہے یہ غلط ہے اور یہ بے قصور ہے، معصوم ہے لیکن یہ احمدی ہے اس لئے ہم نے یہ مقدمہ قائم کیا ہے۔ اگر آج یہ احمدیت سے تائب ہو جائے، حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دے تو ہم مقدمہ واپس لے لیتے ہیں بلکہ جیل سے چھڑانے میں ہر طرح کوشش کریں گے۔ باہر آئے تو اس کو ہار پہنائیں گے۔ استقبال کریں گے۔ تو یہ ان لوگوں کی حالت ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ پکے مسلمان کہلانے والے ہیں اور احمدی کافر ہیں۔ جھوٹ کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔

پس اے مخالفینِ احمدیت! اُس خدا سے ڈرو جس کے سامنے تمہاری دولت، تمہارے گھمنڈ، تکبر، تمہاری مساجد کی امامت، تمہاری سیاسی پارٹیاں، تمہاری حکومت، تمہاری عددی اکثریت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ ہمارا ان تمام ظلموں کے جواب میں وہی جواب ہے جو قرآنِ کریم نے ان آیات میں دیا ہے کہ اِنَّہٗ قَوِیٌّ شَدِیْدُ الْعِقَاب کہ یقینا وہ بہت طاقتور اور سزا دینے میں سخت ہے۔

ظلم کی یہ انتہا اب اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ سکولوں کے احمدی معصوم بچوں کو کہا جاتا ہے کہ تم مرزائی کافر ہو اس لئے سکول میں نہیں رہ سکتے۔ ہاں سکول میں پڑھنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو گالیاں دو۔ اگر سکول کا کوئی ہیڈ ماسٹر یا کسی پرائیویٹ سکول کا مالک کچھ شرافت دکھانے والا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اگر احمدی بچے اس سکول میں پڑھیں گے تو ہم اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجیں گے اور تمہارے خلاف احتجاج کریں گے اور تمہارا سکول بند کروائیں گے۔ اگر کوئی شرفاء ان مولویوں اور فسادیوں کی بات نہیں مانتے تو ان کو بھی نتائج کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ غرض کہ ایک فساد ہے جو ملک میں برپا ہے اور انتظامیہ، سیاستدان اپنے سیاسی مقاصد اور نا اہلی کی وجہ سے ان مولویوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا چاہے مولوی ہوں یا مفاد پرست سیاستدان ہوں یا کوئی بھی حکومتی اہلکار ہو، جو بھی اس ظلم میں شریک ہے وہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ شَدِیْدُ الْعِقَاب ہے۔ یہ مضمون کوئی سابقہ قوموں کا قصّہ نہیں ہے بلکہ زندہ خدا کے زندہ ہونے اور سب طاقتوں کے مالک ہونے کی آج بھی نشانی ہے۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دشمنی کرنے والے اور مخالفت میں تمام حدوں کو توڑنے والے یاد رکھیں کہ حق و صداقت کا انکار اور پھر صداقت بھی وہ جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اور جو قرآنِ کریم میں بھی موجود ہے جس کو بڑے شوق سے یہ پڑھتے ہیں یا پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اس صداقت کا انکار کر کے وہ انہی لوگوں میں شامل ہو رہے ہیں جنہوں نے اپنے بد انجام دیکھے یا جن کے بد انجام آنے والی قوموں نے دیکھے یا آنے والی قوموں کے لئے عبرت کا نشان بنے اور پھر اس پر مستزادیہ کہ کونسا گناہ ہے جو آجکل یہ نہیں کر رہے۔ علاوہ اس کے جو احمدیوں پر ظلم ہو رہا ہے ہر قسم کا گناہ ملک میں پھیلا ہوا ہے۔ رشوت ہے، دوسرے ہر قسم کے گناہ ہیں، گند ہے، غلاظت ہے، اخلاقی برائیاں ہیں، چوری ہے، ڈاکے ہیں، قتل و غارت ہے۔ غرض ہر قسم کی جوبرائی ہے آج ہمیں نظر آتی ہے۔ پس کیا یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والا نہیں۔ کچھ تو سوچو غافلو!۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قوم پر رحم فرمائے۔ آج احمدی ہی ہیں جن کا یہ فرض بنتا ہے کہ باوجود تمام تر ظلموں کے سہنے کے پھر بھی اُمّت کی ہمدردی کے ناطے، انسانیت کی ہمدردی کے ناطے جہاں عملی کوشش ہو سکتی ہے وہاں عملی کوشش کریں اور ساتھ ہی سب سے بڑھ کر دعاؤں پر زور دیں اور جہاں عملی کوشش نہیں ہو سکتی، جہاں ہماری بات سننے کو کوئی تیار نہیں، جہاں سلام کہہ دینے سے ہی مقدمے قائم ہو جاتے ہیں، وہاں دعاؤں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ سے امت کی اصلاح کے لئے بھیک مانگیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فتح اور غلبہ عطا فرمانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے انبیاء کو، اپنے بھیجے ہوؤں کو غلبہ عطا فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ(المجادلۃ: 22) کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ اللہ یقینا طاقتور اور غالب ہے۔

جیسا کہ آیت سے ظاہر ہے کہ یہ غلبے کا فیصلہ خدا کا ہے۔ اور غلبے کا جو ذریعہ خدا تعالیٰ نے بتایا ہے یا جو غلبے کی دلیل دی ہے وہ خدا تعالیٰ کا طاقتور اور غالب ہونا ہے۔ پس اس بات میں مومنوں اور منکرین اور کافروں دونوں فریق کے لئے سبق ہے اور اعلان ہے کہ اس پر غور کرو۔ مومنوں کو بتا دیا کہ جب اللہ تعالیٰ جو تمام طاقتوں کا مالک ہے اور غالب ہے اُس نے یہ فیصلہ کر لیاہے کہ اُس نے اور اُس کے رسول نے غالب آنا ہے تو پھر تم اپنی کمزوری اور عددی کمی کو نہ دیکھو۔ یہ نہ سمجھو کہ ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو۔ اللہ تعالیٰ سے لو لگاؤ۔ اس لَو لگانے کے لئے، اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے جو کر سکتے ہو وہ کرو اور اُس کی انتہا تک پہنچو۔ تمہیں تو انگلی لگا کر غلبہ میں شامل کیا جا رہا ہے۔ پس تم نیکیوں کو بجا لاؤ۔ عبادات میں طاق ہو جو تمہارا مقصدِ پیدائش ہے۔ اُس میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اور غلبے کا حصہ بن جاؤ۔ اور مخالفین کو یہ چیلنج ہے کہ تم اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ زور لگا لو لیکن یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ قوی اور عزیزہے۔ اُس کا یہ فیصلہ ہے کہ اُس نے اپنے پیارے کو فتح دینی ہے، غلبہ دینا ہے، انشاء اللہ۔ تو پھر تمہارے مکر، تمہارے تمام حیلے، تمہاری معصوم بچوں کو تنگ کرنے کی کوششیں، تمہاری احمدی ملازموں کوتنگ کرنے کی کوششیں، تمہاری احمدی کاروباری لوگوں کو تنگ کرنے کی کوششیں، تمہاری راہ چلتوں پر مقدمے قائم کرنے کی کوششیں اللہ اور اُس کے رسول کے غلبے کو روک نہیں سکتیں۔ اگر یہ بندوں کا کام ہوتا تو بیشک تمہاری طاقت کام آ سکتی تھی لیکن یہ خدا کا کام ہے اور انجام کار اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہی غالب آتی ہے۔

پس جب اللہ تعالیٰ نے اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ کہا ہے تو یہ اعلان فرمایا ہے کہ یہ کام مَیں نے کرنا ہے اور یہاں تعداد کی قلت اور کثرت یا مال و دولت کی قلت یا کثرت یا سازو سامان کی قلت یا کثرت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کیا جنگِ بدر میں یا جنگِ اُحد میں یا کسی بھی جنگ میں مال و دولت کی کثرت نے وہ نتائج مترتب کئے تھے جوظاہر ہوئے۔ یقینا نہیں۔ ہاں ایک بات یقینا ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کے وعدوں کے، باوجود خدا تعالیٰ کی یقین دہانیوں کے، باوجود خدا تعالیٰ کے روشن نشانوں کے اللہ تعالیٰ کے رسول معمولی ظاہری کوشش اپنے وسائل کے مطابق ضرور کرتے ہیں۔ لیکن اصلی توجہ اُن کی دعاؤں کی طرف ہوتی ہے اور اس میں سب سے بڑھ کر کامل نمونہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا۔ بدر کی جنگ ہمیں اس کا عظیم نظارہ پیش کرتی ہے۔ باوجود تمام تر تسلیوں اور وعدوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی اور بے چین کیفیت میں دعائیں اور جو حالت تھی اور جو رِقّت تھی اور ایک ایسی حالت تھی کہ یوں لگتا تھا جس طرح بار بار کوئی جان کنی کی حالت ہو۔

بار بار آپ کی چادر اس رِقت کی وجہ سے کندھے سے اُتر جاتی تھی جو دعاؤں میں پیدا ہو رہی تھی۔ (شرح العلامۃ الزرقانی جلدنمبر2باب غزوۃ بدر الکبری صفحہ نمبر281تا284دار الکتب العلمیۃ بیروت1996)

پس جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب آتے ہیں تو اللہ کے رسول بھی خدا تعالیٰ میں ڈوب کر الٰہی فیصلوں کا حصہ بننے کی کوشش کرتے ہیں اور حصہ بن جاتے ہیں۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی اور تربیت نے وہ صحابہ پیدا کئے جن کے دن جنگوں میں مصروف ہوتے تھے تو راتیں عبادتوں میں۔ دنیاوی لحاظ سے دیکھیں تو کوئی بھی جنگ جو مسلمانوں نے لڑی کسی نسبت کے بغیر تھی۔ مسلمانوں میں اور مخالفین میں، دشمنوں میں کوئی نسبت ہی نہیں تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ سے تعلق اور عبادتوں نے اُنہیں اللہ اور رسول میں فنا ہو کر غلبے کا حصہ بنا دیا۔ یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دن کے وقت بھی باوجود دشمنوں کے حملوں کے اور جنگوں کے اور سخت حالات کے فرض نمازوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ایک موقع ایسا آیا کہ دشمن کے تابڑ توڑ حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کو موقع نہیں ملا کہ نمازیں پڑھ سکیں اور نماز کا وقت نکل گیا اور نمازیں جمع کر کے پڑھنی پڑیں۔ اُس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ تھا کہ آپ نے دشمنوں کو یہ کہہ کر بددعا دی کہ برا ہو، ہلاک ہو دشمن جس کی وجہ سے ہمیں نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑیں۔ پس کسی جانی مالی نقصان کی وجہ سے آپ کبھی پریشان نہیں ہوئے اور نہ دشمن کے حق میں بددعا دی۔ مگر یہ موقع آیا تو صرف اس وجہ سے کہ آج دشمن نے ہمیں وقت پر عبادت کرنے کا، اپنے خدا کے حضور جھکنے کاموقع نہیں دیا۔ باوجود اس کے کہ آپؐ کا دل ہر وقت خدا تعالیٰ کی یاد میں رہتا تھا۔ ذکرِ الٰہی سے زبان آپ کی ہر وقت تر رہتی تھی لیکن فرائض ضائع ہونے کا افسوس آپ کی برداشت سے باہر تھا۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کے غلبے کے وعدے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو نبھانے اور اُس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے عبادتوں کی طرف توجہ بھی ضروری ہے اور بہت ضروری ہے کہ اس کے بغیر اللہ کے رسول کی جماعت میں شامل ہونے والے نہیں کہلا سکتے۔ اللہ کے رسول کی جماعت میں وہی شامل ہوں گے جو اپنی عبادتوں کی طر ف بھی توجہ دینے والے ہوں گے۔ پس جب ہم مخالفینِ احمدیت کی سختیاں دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کا حصہ بننے کے لئے ہمیں اُس کی عبادت سے کبھی غافل نہیں ہونا۔ نبی اور رسول تو آتے ہی بندے کا خدا سے تعلق جوڑنے کے لئے ہیں۔ اگر ہم اس تعلق کو جوڑنے والے نہیں بنیں گے تو پھر نبی کی جماعت کس طرح کہلائیں گے؟ اُن فتوحات کا حصہ کس طرح بنیں گے جو نبی اور اُس کی جماعت کے لئے مقدر ہیں۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا بھی مقصد تھا۔ پس ہمیں ہمیشہ اس کو سامنے رکھنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب، کتاب البریہ کے مقدمے میں فرماتے ہیں کہ:

’’درحقیقت وہ خدا بڑا زبردست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے۔ دشمن کہتا ہے کہ مَیں اپنے منصوبوں سے اُن کو ہلاک کر دوں اور بد اندیش ارادہ کرتا ہے کہ مَیں ان کو کچل ڈالوں۔ مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان! کیا تُو میرے ساتھ لڑے گا؟ اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا؟ درحقیقت زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا کیا گیا ہے۔ پس ظلم کے منصوبے باندھنے والے سخت نادان ہیں جو اپنے مکروہ اور قابل شرم منصوبوں کے وقت اس برترہستی کو یادنہیں رکھتے جس کے ارادہ کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا۔ لہٰذا وہ اپنے ارادوں میں ہمیشہ ناکام اور شرمندہ رہتے ہیں اور اُن کی بدی سے راستبازوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا بلکہ خدا کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خلق اللہ کی معرفت بڑھتی ہے۔ وہ قوی اور قادر خدا اگرچہ ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا مگر اپنے عجیب نشانوں سے اپنے تئیں ظاہر کر دیتا ہے‘‘۔ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن۔ جلدنمبر13۔ صفحہ19-20)

پس اگر ہم محبت اور وفا سے اس قوی اور زبردست خدا کے آگے جھکے رہے تو دشمن کا کوئی مکر، کوئی کوشش انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کونقصان نہیں پہنچا سکتی۔ اسی لئے مَیں نے گزشتہ دنوں دعاؤں اور عبادتوں اور نفلی روزوں کی خاص تحریک کی تھی کہ اب جو دشمن اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ احمدیت پر حملہ کر رہا ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارا سب سے بڑا اور مؤثر ہتھیاریہ دعائیں ہی ہیں۔ احمدیت کی مخالفت اب جو بین الاقوامی شکل اختیار کر چکی ہے یہ جہاں اس بات کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے غلبے کے اظہار کے لئے پہلے سے بڑھ کر اپنے جلوے دکھانا چاہتا ہے اور انشاء اللہ دکھائے گا، وہاں دنیائے احمدیت کو بھی اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ ہم نے سب سے زیادہ عزیز اور پیارا اپنی عبادتوں کو رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت کو پہلے سے بہت زیادہ بڑھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے۔ ’’بعد11‘‘۔ (اربعین نمبر4روحانی خزائن جلدنمبر17صفحہ نمبر457حاشیہ)

احمدی اپنے طور پر اندازے لگاتے رہتے ہیں، مجھے بھی لکھتے رہتے ہیں۔ اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمایا ہے: ’’مَیں نہیں جانتا کہ گیاراں دن یا گیاراں ہفتے یا گیاراں مہینے یا گیاراں سال‘‘۔ (اربعین نمبر4روحانی خزائن جلدنمبر17صفحہ نمبر457حاشیہ)

فرمایا کہ اس عرصے میں میری بریت کا نشان ظاہر ہو گا۔

آج کیونکہ گیارہ نومبر ہے اور نومبر بھی گیارہواں مہینہ ہے اور 2011ء ہے۔ اس لئے احمدی اپنے اپنے خیال کے مطابق سوچتے ہیں۔ بہر حال اگر اس گیارہ میں کچھ مقدر ہے جو آج کی تاریخ اور آج کے مہینے اور آج کے سال میں ہے تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ ضرور ظاہر ہو گا۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بہت سے الہامات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی مدد، تائید و نصرت، رحمانیت کے جلوے دکھانے کے لئے ’’بَغْتَۃً‘‘ کے لفظ کا وعدہ ہے یعنی یہ سب کچھ اچانک ہو گا۔ بعیدنہیں کہ ان تاریخوں سے، آج کی تاریخوں سے، آج کے دن سے، اس مہینے سے، اس سال سے، اس تقدیر کا عمل شروع ہو جائے۔ لیکن بعض دفعہ خود ہی بعض کمزور طبائع اندازے لگا کر نتائج مرتب کر کے اگر اُس طرح واقع نہ ہو جس طرح وہ اندازے لگا رہے ہوتے ہیں تو مایوسی کی طرف جانا شروع ہو جاتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف جو توجہ ہے اُس میں کمی ہو جاتی ہے۔ مومن کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ کبھی مایوس ہو۔ غلبہ یقینی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ ہو کر رہے گا بلکہ ہو رہا ہے۔ دشمن کی جو مخالفتیں ہیں اور مخالفینِ احمدیت کی جو حالتیں ہیں جس طرح وہ حواس باختہ ہوئے ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے غلبے کی ہی تو دلیل ہے۔

اس ضمن میں ایک بات یہ بھی بتا دوں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی قادیان سے ہجرت کے وقت کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ کس طرح ہجرت ہوئی۔ وہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل تھا۔ ہجرت پر غور ہو رہا تھا۔ آپ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کا مطالعہ کر رہا تھا تو اُس وقت یہ الہام بھی میرے سامنے آیا۔ ’’بعد گیارہ‘‘ اور مَیں نے سمجھا کہ یہ تو یقینی بات ہے کہ ہجرت ہونی ہے۔ پھر کچھ ٹرانسپورٹ وغیرہ کے مسائل سامنے آئے تو اُس پر بھی تاریخوں کی وجہ سے اسی گیارہ تاریخ پر غور ہو رہا تھا۔ پھر آخر میں بڑی تگ و دَو کے بعد جو انتظام ہوا اُس میں دوبارہ روک پڑنی شروع ہو گئی اور جس دن جانا تھا اُس دن بھی روک پڑنے کے عموماً آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ دس بج گئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے کہا کہ وہ جو انتظام تھا اب تو لگتا ہے کہ مشکل ہے۔ لیکن حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ میرے ذہن میں یہ بعد گیارہ کا الہام تھا اور مَیں سمجھتا تھا کہ شاید گیارہ بجے کے بعد ہو۔ چنانچہ اچانک اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا فرمائے اور وہ سب کچھ بھی اچانک ہو گیا اور گیارہ بجے کے بعد انتظامات مکمل ہو گئے۔ (ماخوذ از الفضل31جولائی1949ء جلدنمبر3شمارہ174صفحہ5-6)

اور یہ تاریخی ہجرت جو قادیان سے پاکستان کی طرف ہوئی وہ واقع ہوئی۔

لیکن اور رنگ میں بھی کئی جگہ یہ الہام پورا ہو چکا ہے۔ یہ ڈکٹیٹر ہی جو احمدیت کو ختم کرنا چاہتا تھا، احمدیت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنا چاہتا تھا، اُس کی حکومت خود جڑ سے اُکھڑ گئی اور عین گیارہ سال کے بعد اُکھڑ گئی۔

بعض اَور بھی مواقع ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا جس پر یہ الہام چسپاں ہو سکتا ہے، لیکن پیشگوئیاں، الہامات بار بار پورے ہوتے ہیں۔ اس لئے مزید اور واضح اور روشن نشانوں کی ہمیں امید رکھنی چاہئے۔

لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ اس الہام کے ساتھ فارسی کا یہ الہام بھی لکھا ہے کہ ؎

بر مقام فلک شدہ یا ربّ

گر امیدے دیہم مدار عجب

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ’’ (خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تیری دُہائی اب آسمان پر پہنچ گئی ہے اب مَیں اگر تجھے کوئی امید اور بشارت دوں تو تعجب مت کر۔ میری سنت اور موہبت کے خلاف نہیں ) بعد11 انشاء اللہ۔ (فرمایا اس کی تفہیم نہیں ہوئی)۔ (تذکرہ صفحہ نمبر327ایڈیشن چہارم2004ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہاں پھر دعا کا مضمون بیان ہوا ہے کہ دہائی آسمان پر پہنچنا۔ ہمیں بڑی شدت سے دعاؤں کی طرف توجہ کرنی چاہئے جیسا کہ پہلے میں نے کہا۔ مَیں نے اس لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی تھی کہ اس شدت سے دعائیں کریں کہ دہائی کی طرح آسمان پر پہنچنے والی دعائیں ہوں اور عرش کے پائے ہلیں اور پھر ہم انشاء اللہ تعالیٰ فتوحات کے جلدنظارے دیکھیں اور دشمن کو نگوسار دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی پہلے سے بڑھ کر دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے۔

نمازوں کے بعد آج بھی مَیں دو نمازِ جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ ایک تو ہمارے درویش قادیان کے، مکرم چوہدری محمد صادق صاحب ننگلی ابن مکرم وریام دین صاحب ننگلی کاہے۔ یہ29 اکتوبر کو گر گئے تھے اور کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ دل کی تکلیف بھی تھی۔ علاج وغیرہ ہوتا رہا لیکن بہر حال پانچ نومبر کو ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جب درویشی کی تحریک کی تو آپ ابھی چھوٹے تھے لیکن آپ نے اس تحریک پر بڑے اخلاص کے ساتھ لبیک کہا اور آخر دم تک پوری وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا۔ آپ مرکزی دفاتر میں خدمت بجا لاتے رہے۔ علاوہ ازیں قادیان میں جماعت کی بہت سی ایسی زمینیں جو غیر ہموار تھیں، اُنہیں ہموار کرنے کی بھی توفیق پائی۔ آپ ایک ہمدرد، ذہین اور مخلص کارکن تھے۔ آپ کو خدمتِ خلق کا بہت شوق تھا۔ دودھ، سبزیاں، پھل اور اناج وغیرہ چونکہ گھر کا ہوتا تھا اس لئے آپ مختلف گھروں میں بلا معاوضہ کچھ نہ کچھ روزانہ بھجوایا کرتے تھے۔ جلسہ سالانہ قادیان پر آنے والوں مہمانوں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ اُن کے آرام اور کھانے پینے کے لئے اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کیا کرتے تھے۔ انتہائی ملنسار، غریب پرور، صابر و شاکر، صوم و صلوۃ کے پابند مخلص انسان تھے۔ اولاد کی بہترین رنگ میں تربیت فرمائی۔ موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں چار بیٹے ہیں جو ان کی یادگار ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر محمد عارف صاحب جو افسر جلسہ سالانہ اور ناظر بیت المال خرچ تھے گزشتہ سال وفات پا گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔

دوسرا جنازہ مکرم احمد یوسف الخابوری صاحب شہید کاہے۔ یہ شام کے عرب دوست ہیں۔ انہیں گزشتہ ماہ شہید کر دیا گیا۔ آجکل جو وہاں فساد ہو رہے ہیں اُس میں یہ شہید ہوئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا واقعہ اس طرح پیش آیا کہ 31؍ اکتوبر کو عصر کے وقت کام سے گھر آ رہے تھے۔ جس علاقے سے انہوں نے گزرنا تھا وہ نہایت فساد زدہ علاقہ ہے جہاں وقتاً فوقتاً گولی چلتی رہتی ہے۔ شہید مرحوم ذرا اونچا سنتے تھے۔ بعض لوگوں نے ان کو اس طرف سے گزرنے سے منع کیا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اونچا سننے کی وجہ سے ان کی بات نہیں سمجھ پائے اور وہاں سے گزر گئے۔ جب جا رہے تھے تو ان کے سر میں گولی لگی اور موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ 1976ء میں پیدا ہوئے تھے اور پرائمری تک معمولی تعلیم تھی۔ محنت مزدوری کرتے تھے۔ ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔ دس سال سے زیادہ عرصہ قبل انہیں احمدیت کی تبلیغ پہنچ چکی تھی تا ہم بیعت کی توفیق انہیں گزشتہ سال نومبر میں، تقریباً ایک سال پہلے ملی۔ شہید مرحوم کے ایک بھانجے مکرم یونس صاحب بیان کرتے ہیں کہ مرحوم مجھ سے جماعت کے بارے میں بڑی مؤثر گفتگو کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ان کی باتیں سن کر میں نے ان سے پہلے بیعت کر لی لیکن انہیں ایک ماہ بعد بیعت کی توفیق ملی۔ اسی طرح مرحوم کی بہن اور بھانجیوں نے بھی ان کی تبلیغ سے بیعت کر لی۔ شہید مرحوم بیعت سے قبل علوی فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور باوجودیکہ ان پر بڑا پریشر تھا انہوں نے بڑے اخلاص اور صدق سے بیعت کی۔ جماعت کے ہر پروگرام میں شامل ہوتے تھے۔ مرحوم بڑے اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ طبیعت میں سادگی اور دوسروں کی مدد کا جذبہ نمایاں تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان دونوں کے جنازے جمعہ کے بعد انشاء اللہ ہوں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں