خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمودہ 30؍جون 2006ء

اللہ تعالیٰ کا حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہر قدم پر تائید ونصرت کا سلوک اس سچے عشق کی وجہ سے ہے جو آپؑ کو آنحضرت ﷺکی ذات سے تھا۔
اللہ تعالیٰ کا آپ کی جماعت کے ساتھ بھی اپنی نصرت دکھانے کا وعدہ ہے اور جب تک ہم آنحضرت ﷺ کی پیروی کرتے رہیں گے اور آپ کے ساتھ سچے تعلق اور عشق کو قائم رکھیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان برکات سے ہمیشہ فیض پہنچاتا رہے گا اور اپنی نصرت کے دروازے ہم پر کھولے گا۔
حضر ت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے غیر معمولی سلوک کے بعض ایمان افروز واقعات کا دلربا تذکرہ۔
دنیا کو بتائیں کہ اب اسلام کی ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے سے ہی وابستہ ہے۔
UKمیں آلٹن کے مقام پر جلسہ کے لئے خرید ی گئی نئی جگہ کا نام ’’حَدِیْقَۃُ الْمَہْدِیْ ‘‘ ہوگا۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ مورخہ 30؍جون 2006ء (30؍احسان 1385ہجری شمسی)بمقام مسجد بیت الفتوح،لندن۔ برطانیہ

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں- چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاللہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ۔وَکَفٰی بِاللہِ وَلِیًّا وَّکَفٰی بِاللہِ نَصِیْرًا (النساء:46)

آج اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہر قدم پر جو سلوک فرمایا ہے اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کوشش کروں گا۔
اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہر قدم پر تائید و نصرت کا سلوک نظر آتا ہے اور یہ سب اس سچے عشق کی وجہ سے ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھا۔
آپؑ فرماتے ہیں :
’’ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے۔ اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسرہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اسی وقت تک ہم منور رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اس کے مقابل پر کھڑے ہیں ‘‘۔ (حقیقۃالوحی۔ روحانی خزائن جلد 22 صفحہ119)
پھرآپؑ فرماتے ہیں :
’’ جو شخص اس زمانے میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے وہ بلاشبہ قبر سے اٹھایاجاتا ہے اور ایک روحانی زندگی اس کو بخشی جاتی ہے نہ صرف خیالی طور پر بلکہ آثار صحیحہ صادقہ اس کے ظاہر ہوتے ہیں اور آسمانی مددیں اور سماوی برکتیں روح القدس کی خارق عادت تائیدیں اس کے شامل حال ہو جاتی ہیں اور وہ تمام دنیا کے انسانوں میں سے ایک منفرد انسان ہو جاتا ہے‘‘۔
پس اس زمانے میں یہ منفرد انسان جس کے ساتھ اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں شامل حال رہیں اور ہر ہر قدم پر اللہ تعالیٰ نے جو غیر معمولی اور خارق عادت نشانات دکھائے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں اور جیسا کہ آپؑ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنی نصرت کے جو بھی نظارے دکھائے اور جو آج تک دکھاتا چلا جا رہا ہے یہ سب کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی وجہ سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اور آپؑ کی جماعت کے ساتھ بھی اپنی نصرت دکھانے کا وعدہ ہے اور جب تک ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے رہیں گے اور آپؐ کے ساتھ سچے تعلق اور عشق کو قائم رکھیں گے اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان برکات سے ہمیشہ فیض پہنچاتا رہے گا اور اپنی نصرت کے دروازے بھی ہم پر کھولے گا۔ انشاء اللہ۔
ایک روایت میں آتا ہے حضرت معاویہ بن مُرّہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد پاتا رہے گا۔ جو بھی انہیں چھوڑے گا وہ انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ خداتعالیٰ کا میری امت سے یہ سلوک قیامت تک جاری رہے گا۔ (ابن ماجہ باب اتباع السنّۃ رسول اللہﷺ)
اور یہ گروہ یقینا آخرین کا گروہ ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ پس آج احمدیوں کا فرض ہے کہ دنیا کو بتائیں کہ ہمارے ساتھ آ جاؤ کہ اسی میں خیر ہے اب اسلام کی ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ جڑنے سے ہی وابستہ ہے۔ اب دنیا کی بقا اس مسیح و مہدی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مسیح و مہدی سے اپنی نصرت کاوعدہ فرمایا ہے۔
اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ کچھ الہامی فقرات بھی ہیں کہ:
’’ بخرام کہ وقت تو نزدیک رسید و پائے محمدیاں برمنار بلند تر محکم افتاد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ظہور کر اورنکل۔ تیرا وقت نزدیک آ گیا اور اب وہ وقت آ رہا ہے کہ محمدی گڑھے میں سے نکال لئے جائیں گے اور ایک بلند اور مضبوط مینار پر ان کا قدم پڑے گا۔
پھر آگے فرمایا: ’’پاک محمد مصطفی ؐ نبیوں کا سردار۔ خدا تیرے سب کام درست کردے گا۔ اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ ربّ الافواج اس طرف توجہ کرے گا۔ اس نشان کا مدّعا یہ ہے کہ قرآن شریف خدا کی کتاب اور میرے منہ کی باتیں ہیں۔ جناب الٰہی کے احسانات کا دروازہ کھلا ہے اور اس کی پاک رحمتیں اس طر ف متوجہ ہیں۔ وہ دن آتے ہیں کہ خدا تمہاری مدد کرے گا۔ وہ خدا جو ذوالجلال اور زمین او رآسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ تمہاری مدد کرے گا۔
یہ انگریزی کا الہام ہے کہ The days shall come when God shall help you.اور پھر آگے ہے کہ The Glory be to this Lord God maker of earth and heaven.۔’’حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے ایک دن بھاگنا ہی تھا‘‘۔(تذکرہ)
فرماتے ہیں کہ: ’’ہر ایک برکت (جو تجھ کو ملی ہے) وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہے۔وہ انسان بڑی برکت والے ہیں جن کی برکتیں کبھی اور کسی زمانے میں منقطع نہیں ہوں گی۔ ایک وہ یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جس کی طرف سے اور جس کے فیضان سے یہ تمام برکتیں تجھ پر اتاری گئی ہیں۔ اور دوسرا وہ انسان جس پر یہ ساری برکتیں نازل ہوئیں ‘‘۔
فرماتے ہیں : ’’(یعنی یہ عاجز)‘‘یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام۔’’ کہہ اگر مَیں نے افترا کیاہے اور خدا کے الہام سے نہیں بلکہ یہ بات خود بنائی ہے تو اس کا وبال میرے پر ہو گا اور میں اس جرم کی سزا پاؤں گا۔ نہیں، بلکہ حق یہ بات ہے کہ خدا نے اس رسول کو یعنی تجھ کو بھیجا تھا۔ اور اس کے ساتھ زمانے کی ضرورت کے موافق ہدایت یعنی راہ دکھلانے کے علم اور تسلی دینے کے علم اور ایمان قوی کرنے کے علم اور دشمن پر حجت پوری کرنے کے علم بھیجے ہیں۔ اور اس کے ساتھ دین کو ایسی چمکتی ہوئی شکل کے ساتھ بھیجا ہے جس کا حق ہونا اور خدا کی طرف سے ہونا بدیہی طور پر معلوم ہو رہا ہے‘‘۔ صاف طور پر معلوم ہو رہا ہے۔ ’’خدا نے اس رسول کو یعنی کامل مجدد کو اس لئے بھیجا ہے کہ تا خدا اس زمانے میں یہ ثابت کرکے دکھلا دے کہ اسلام کے مقابل پر سب دین اور تمام تعلیمیں ہیچ ہیں اور اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو تمام دینوں پر ہر ایک برکت اور دقیقہ معرفت اور آسمانی نشانوں میں غالب ہے۔ یہ خدا کا ارادہ ہے کہ اس رسول کے ہاتھ پر ہر ایک طرح پر اسلام کی چمک دکھلا دے۔ کون ہے جو خدا کے ارادوں کو بدل سکے۔ خدا نے مسلمانوں کو اور ان کے دین کو اس زمانے میں مظلوم پایا اور وہ آیا ہے کہ تا ان لوگوں اور ان کے دین کی مدد کرے۔ یعنی روحانی طور پر اس دین کی سچائی اور چمک اورقوت دکھلاوے اور آسمانی نشانوں سے اس کی عظمت اور حقّیّت دلوں پرظاہر کرے۔ اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اپنی قوت اور امنگ کے ساتھ زمین پر چل یعنی لوگوں پر ظاہر ہو کہ تیرا وقت آ گیا اور تیرے وجود سے مسلمانوں کا قدم ایک محکم اور بلند مینار پر جا پڑا۔ محمدی غالب ہو گئے۔ وہی محمدؐ جو پاک اور برگزیدہ اور نبیوں کا سردار ہے۔ خدا تیرے سب کام درست کر دے گا اور تیری ساری مرادیں تجھے دے گا۔ وہ جو فوجوں کا مالک ہے وہ اس طرف توجہ کرے گا یعنی آسمان سے تیری بڑی مدد کی جائے گی۔ اور تمام فرشتے تیری مدد میں لگیں گے اور ایک بڑا نشان آسمان سے ظاہر ہو گا۔ اس نشان سے اصل غرض یہ ہے کہ تا لوگوں کو معلوم ہو کہ قرآن کریم خدا کا کلام اور میرے مونہہ کی باتیں ہیں۔یعنی وہ کلام میرے مونہہ سے نکلا ہے۔ خدا کے احسان کا دروازہ تیرے پر کھولا گیا ہے اور اس کی پاک رحمتیں تیری طرف متوجہ ہو رہی ہیں اور وہ دن آتے ہیں (بلکہ قریب ہے) کہ خدا تیری مدد کرے گا۔ وہی خدا جو جلال والا اور زمین و آسمان کاپیدا کرنے والا ہے‘‘۔
فرمایا:’’ ان تمام الہامات میں یہ پیشگوئی تھی کہ خداتعالیٰ میرے ہاتھ سے اور میرے ہی ذریعہ سے دین اسلام کی سچائی اور تمام مخالف دینوں کا باطل ہونا ثابت کر دے گا۔ سو آج وہ پیشگوئی پوری ہوئی کیونکہ میرے مقابل پر کسی مخالف کو تاب و تواں نہیں کہ اپنے دین کی سچائی ثابت کر سکے۔میرے ہاتھ سے آسمانی نشان ظاہر ہو رہے ہیں اور میری قلم سے قرآنی حقائق اور معارف چمک رہے ہیں۔ اٹھو اور تمام دنیا میں تلاش کرو کہ کیا کوئی عیسائیوں میں سے یا سکھوں میں سے یا یہودیوں میں سے یا کسی اَور فرقہ میں سے کوئی ایسا ہے کہ آسمانی نشانوں کے دکھلانے اور معارف اور حقائق کے بیان کرنے میں میرا مقابلہ کر سکے؟‘‘۔ (تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد 15صفحہ267-265)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ صرف دعویٰ ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ہے کہ مَیں آسمانی نشانوں سے یا علمی معارف کے نشانوں سے اور ہر قسم کی تائید و نصرت تیرے لئے دکھاؤں گا۔بلکہ ہم نے دیکھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مسیح و مہدی کے لئے بے شمار نشانات دکھائے جو بڑی شان سے آپ کی تائید میں اپنی چمک دکھا رہے ہیں اور دکھاتے رہے ہیں۔ اس وقت میں چند ایک کا ذکروں گا۔
سب سے پہلے تو ایک ایسا نشان ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے مہدی کے لئے ایک ایسا نشان ہو گا جو دنیا نے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔ اور یہ ایک ایسا تائیدی نشان ہے جو آسمان پر ظاہر ہوا اور چانداور سوج کو گرہن لگا کر آپ کے مدد گار کے طور پر اللہ تعالیٰ نے کھڑا کر دیا۔ پھر طاعون کا نشان ہے۔ آپؑ کی سچائی کے مددگار کے طور پر ظاہر ہوا۔ زلزلوں کا نشان ہے۔ علمی میدان میں آپؑ کے بہت کارنامے ہیں۔ ایک اسلامی اصول کی فلاسفی کے مضمون کا ہے۔ خطبہ الہامیہ ہے۔ تفاسیر ہیں۔ پھر دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملانے کے نشانات ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کے اپنے وعدے کے مطابق مالی ضرورت کے اپنے وقت پر پورا ہونے کے نشانات ہیں۔ پھر لوگوں کے دلوں کو بغیر کسی انسانی کوشش کے آپ کی طرف پھیر کر اللہ تعالیٰ نے نشانات دکھائے۔غرض کہ بے شمار نشانات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آپؑ کے لئے تائید و نصرت کا پتہ دیتے ہیں۔ ان میں سے سب کا تو مشکل ہے لیکن چند ایک کا مَیں ذکر کروں گا۔
سورج گرہن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ اور منجملہ نشانوں کے ایک نشان خسوف وکسوف رمضان میں ہے۔ کیونکہ دارقطنی میں صاف لکھا ہے کہ مہدی موعود کی تصدیق کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے یہ ایک نشان ہو گا کہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا۔چنانچہ وہ گرہن لگ گیا اور کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ مجھ سے پہلے کوئی اور بھی ایسا مدعی گزرا ہے کہ جس کے دعویٰ کے وقت میں رمضان میں چاند اور سورج کا گرہن ہوا ہو۔سو یہ ایک بڑا بھاری نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ظاہر کیا۔‘‘
گرہن تو لگتے رہے لیکن کبھی بھی ایسا موقع نہیں آیا کہ اُس وقت کوئی دعویٰ موجود ہو۔
اب چانداور سورج گرہن پر اس وقت کے علماء تو یہ بحث کرتے رہے، اس روایت کے بارے میں بھی کہ اس کے بعض راوی کمزور ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یہ حدیث ایک پیشگوئی پر مشتمل تھی جو اپنے وقت پر پوری ہو گئی۔ پس جبکہ حدیث نے اپنی سچائی کو آپ ظاہر کر دیا تو اس کی صحت میں کیا کلام ہے‘‘۔(انجام آتھم۔ روحانی خزائن جلد 11صفحہ294-293)
اس کی صحت پر اب کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ تو جنہوں نے نہ ماننا ہو ان کے پاس تو سو بہانے ہوتے ہیں۔ جو ضد میں بڑھ جائیں اور عقل پہ پردے پڑ جائیں ان کو اللہ تعالیٰ کی واضح تائیدا ت بھی نظر نہیں آتیں اور یہ ضدی طبیعتیں ہر زمانے میں پیدا ہوتی رہتی ہیں، آج بھی یہ ضدی طبیعتیں موجود ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک صاحب جن کا نام (ویسے یہ تو عیسائی ہیں) Dr. David McNaughtan ہے۔ انہوں نے انٹرنیٹ پر ایک مضمون لکھا کہ Flaws in the Ahmadiyya Eclipse Theory۔یعنی جماعت احمدیہ کے گرہن کے نظریہ کے سقم۔ یہ پتہ نہیں کہ ان صاحب کو خود ہی اس تحقیق کا خیال آیا یا کسی مسلمان کے کہنے پر۔ کیونکہ انہوں نے آخر پر جو ریفرنس دئیے ہوئے ہیں اس میں کویت کے کسی صاحب نے معلومات دی ہیں ان کا بھی حوالہ ہے۔ تو بہرحال جو بھی صورت ہو انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سورج گرہن کے لئے جو درمیانی دن رکھا گیا ہے اس میں سورج گرہن نہیں لگ سکتا۔اور اس طرح چاند گرہن کی بھی پہلی تاریخ 13 نہیں بنتی بلکہ 12بنتی ہے۔ بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپؑ کی مدد کے لئے لوگوں میں سے بھی سلطان نصیر کھڑا کرتا رہے گا۔
ہمارے پروفیسر صالح الہ دین صاحب حیدر آباد انڈیا کے ہیں۔ انہوں نے ان صاحب کے اٹھائے گئے سوالات کے جواب د ئیے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ ان کو غلطی لگی ہے۔ دراصل تاریخیں یہی بنتی ہیں، یا کم از کم اس زمانے میں قادیان میں جو چاند سورج گرہن نظر آیا اس کی یہ تاریخیں تھیں۔ لیکن اصل چیز جو دیکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ دعویٰ کے وقت جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ دعویٰ پہلے موجود تھا اس وقت یہ تائیدی نشان ظاہر ہوا جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بہرحال مکرم صالح الہ دین صاحب کا مضمون ایک اچھا علمی مضمون ہے۔ انٹرنیٹ پر امید ہے انشاء اللہ آ جائے گا۔ یہ ذکر مَیں نے اس لئے ساتھ کر دیا کہ بعض لوگوں کو ڈاکٹر ڈیوڈ صاحب کامضمون پڑھ کر سوال اٹھ سکتے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ اگر اَور احمدی بھی اس فیلڈ میں ہوں ان کو بھی مزید تحقیق کرنی چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے۔ دوسرے یہ مضمون انہوں نے لکھ کے اس کا کافی حد تک رد ّکیا ہے۔
رسالہ نورالحق میں حضرت مسیح موعودؑ نے اس کی مزید وضاحت بھی فرما دی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’ جیسا کہ تدبر کرنے والے پر پوشیدہ نہیں اور اس کی تائید وہ حدیث کرتی ہے جو دارقطنی نے امام محمد بن علی سے روایت کی ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں وہ کبھی نہیں ہوئے یعنی کبھی کسی دوسرے کے لئے نہیں ہوئے جب سے کہ زمین آسمان پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ رمضان کی رات کے اوّل میں ہی چاند کو گرہن لگنا شروع ہو گا۔ اور اسی مہینے کے نصف باقی میں سورج گرہن ہو گا‘‘۔
پروفیسر صالح الہ دین صاحب اور پروفیسر جی ایم بالب (یہ شاید ہندوہیں) نے ایک فہرست تیار کی ہے جس میں سورج اور چاندگرہن کی تفصیل بتائی ہے کہ کتنے لگے اور کس طرح لگے اور کب لگے؟ اس میں انہوں نے دکھایا ہے کہ صرف 1894ء کا سال ایسا ہے کہ چاند کو گرہن رات کے شروع حصہ میں لگنا شروع ہوا۔(جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ رمضان کی رات کے اوّل میں ہی چاند کو گرہن لگنا شروع ہو گا۔) تو انہوں نے ثابت کیا ہے کہ 1894ء کا سال ایسا ہے کہ رات کے شروع حصہ میں لگنا شروع ہوا تو بہرحال جو عقل رکھتے ہیں، جو بینا ہیں جن کی نظر تھی، ان کو تو نظر آ گیا کہ یہ نشان ہے۔ اگر دل صاف نہ ہو تو کثرت اعجاز بھی اثر نہیں کرتی۔ لیکن جن کو خدا ہدایت دینا چاہے وہ اَن پڑھ اور جنگلوں میں بھی رہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی ہدایت دے دیتا ہے۔
بہت پرانی بات ہے۔ غالباً 1966ء کی۔ میں سرگودھا کے علاقے میں وقف عارضی پر گیا تو ایک دور دراز گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک بہت بوڑھی عورت ملیں۔ جب ہم نے اپنا تعارف کرایا کہ ربوہ سے آئے ہیں، احمدی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ مَیں بھی احمدی ہوں اور ہم لوگ چاند سورج گرہن کو دیکھ کراس زمانے میں احمدی ہوئے تھے۔ یہ کہتی ہیں مَیں چھوٹی تھی اور میرے والدین اس وقت ہوتے تھے تو اس علاقے میں بالکل جنگل میں، دیہات میں، دیہاتی ان پڑھ لوگ بھی چاندسورج گرہن کا نشان دیکھ کر احمدی ہو گئے۔ تو اللہ نے بہت سوں کو اس زمانے میں بھی اس نشان سے ہدایت دی تھی۔
پھر جیسا کہ مَیں نے کہا بعض ایسے نشانات ہیں جن کا ظہور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں زمین پر ہوا اور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور وہ ہیں زلزلے اور طاعون۔ یہ ثابت شدہ حقیقت ہے اور اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے بعد سے زلزلوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ اس طرح طاعون نے بھی آپ کے زمانے میں تباہی مچائی اور آج کل ایڈز بھی طاعون کی ایک قسم ہے تو ہر سال اس سے بھی لاکھوں افراد موت کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’میری تائید میں خداتعالیٰ کے نشانوں کا ایک د ریا بہہ رہا ہے‘‘۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ:’’ مَیں نے زلزلے کی نسبت پیشگوئی کی تھی جو اخبار الحکم اور البدرمیں چھپ گئی تھی کہ ایک سخت زلزلہ آنے والا ہے۔ جو بعض حصہ پنجاب میں ایک سخت تباہی کاموجب ہو گا۔ اور پیشگوئی کی تمام عبارت یہ ہے کہ زلزلہ کا دھکا۔

عَفَتِ الدِّیَارُ مَحَلُّھَا وَمَقَامُھَا۔

چنانچہ وہ پیشگوئی 4 ؍اپریل 1905ء کو پوری ہوئی‘‘۔
پھر فرمایا کہ:’’مَیں نے پھر ایک پیشگوئی کی تھی کہ اس زلزلے کے بعد بہار کے دنوں میں پھر ایک زلزلہ آئے گا۔ اس الہامی پیشگوئی کی ایک عبارت یہ تھی۔’’ پھر بہار آئی خداکی بات پھر پوری ہوئی‘‘۔ چنانچہ 28فروری 1906ء کو وہ زلزلہ آیا اور کوہستانی جگہوں میں بہت سا نقصان جانوں اور مالوں کے تلف ہونے سے ہوا‘‘۔
پھر فرماتے ہیں کہ:’’ پھرمَیں نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ کچھ مدت تک زلزلے متواتر آتے رہیں گے۔ ان میں سے چار زلزلے بڑے ہوں گے اور پانچواں زلزلہ قیامت کا نمونہ ہو گا۔ چنانچہ زلزلے اب تک آتے ہیں اور ایسے دو مہینے کم گزرتے ہیں جن میں کوئی زلزلہ نہیں آ جاتا۔اور یقینا یاد رکھناچاہئے کہ بعد اس کے سخت زلزلے آنے والے ہیں۔ خاص کر پانچواں زلزلہ جو قیامت کانمونہ ہو گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ یہ سب تیری سچائی کے لئے نشان ہیں۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ231)
تو آپؑ کے زمانے میں بھی یہ نشان ظاہر ہوئے لیکن اب پھر ہم دیکھتے ہیں دنیا میں یہ آفتیں آ رہی ہیں۔ احمدیوں کا یہ کام ہے کہ اس پیغام کو پہنچائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح و مہدی کے لئے یہ نشانات دکھائے اور اب بھی دکھا رہا ہے۔ اس لئے اس سے بچنے کے لئے اس عافیت کے حصار کے اندر آ جاؤ۔
زلزلوں اور طاعون کے سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ یاد رہے کہ مسیح موعود کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی اور زلزلوں اور طاعون کا آنا ایک مقدر امر تھا۔ یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے دم سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیح کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا۔ پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس حدیث میں مسیح موعود کو ایک ڈائن قرار دیا گیا ہے جو نظر کے ساتھ ہر ایک کا کلیجہ نکال لے گا۔ بلکہ معنے اس حدیث کے یہ ہیں کہ اس کے نَفَحَاتِ طَیِّبَات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوں گے تو چونکہ لوگ ان کا انکار کریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے اس لئے وہ انکار موجب عذا ب ہو جائے گا۔ یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود کا سخت انکار ہو گا جس کی وجہ سے ملک میں مری پڑے گی اور سخت سخت زلزلے آئیں گے اور امن اٹھ جائے گا۔ ورنہ یہ غیر معقول بات ہے کہ خوانخواہ نیکو کار اور نیک چلن آدمیوں پر طرح طرح کے عذاب کی قیامت آوے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بھی نادان لوگوں نے ہر ایک نبی کو منحوس قدم سمجھا ہے اور اپنی شامت اعمال ان پر تھاپ دی ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجت کے لئے نبی کو لاتا ہے اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے۔ اور سخت عذاب بغیر نبی کے قائم ہونے کے آتا ہی نہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (بنی اسرائیل:16)۔

پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبتناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے۔اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے جس کی تم تکذیب کر رہے ہو۔…… بغیر قائم ہونے کسی مُرْسَلِ الٰہی کے یہ وبال تم پر کیوں آ گیا جو ہر سال تمہارے دوستوں کو تم سے جدا کرتا اور تمہارے پیاروں کو تم سے علیحدہ کرکے داغ جدائی تمہارے دلوں پر لگاتا ہے۔ آخر کچھ بات تو ہے۔ کیوں تلاش نہیں کرتے‘‘۔(تجلیات الٰہیہ۔روحانی خزائن جلد 20صفحہ401-399)
ہر ملک میں دیکھ لیں آج کل زلزلے آرہے ہیں، آفتیں آرہی ہیں، اس بیماری کی وجہ سے موتیں ہو رہی ہیں۔ اب لاکھوں تک پہنچ چکی ہیں۔
پھرجیسا کہ مَیں نے کہا تھا اللہ تعالیٰ کے آپؑ کی تائید و نصرت میں علمی نشان بھی ہیں۔ ایک مضمون لکھوایا جس میں قرآن کریم کے معجزات آپ نے بیان فرمائے اور پہلے سے اعلان فرما دیا کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ کس شان سے اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا فرماتے ہوئے آپ کی مدد فرمائی۔ اس مضمون کے بارے میں پہلے ہی آپ نے ایک اشتہار شائع فرما دیا تھا جو یوں تھا کہ:’’ سچائی کے طالبوں کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری۔ جلسہ اعظم مذاہب جو لاہور ٹاؤن ہال میں 28-27-26؍دسمبر 1896ء کو ہو گا اس میں اس عاجز کا ایک مضمون قرآن شریف کے کمالات اور معجزات کے بارہ میں پڑھا جائے گا۔ یہ وہ مضمون ہے۔ جو انسانی طاقتوں سے برتر اور خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان اور خاص اُس کی تائید سے لکھا گیا ہے۔ اس میں قرآن شریف کے وہ حقائق اور معارف درج ہیں جن سے آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ درحقیقت یہ خدا کا کلام اور رب العالمین کی کتاب ہے۔ اور جو شخص اس مضمون کو اوّل سے آخر تک پانچوں سوالوں کے جواب میں سنے گامَیں یقین کرتا ہوں کہ ایک نیا ایمان اس میں پیدا ہو گا اور ایک نیا نور اس میں چمک اٹھے گا اور خداتعالیٰ کے پاک کلام کی ایک جامع تفسیر اس کے ہاتھ آ جائے گی۔ یہ میری تقریر انسانی فضولیوں سے پاک اور لاف و گزاف کے داغ سے منزہ ہے۔ مجھے اس وقت محض بنی آدم کی ہمدردی نے اس اشتہار کے لکھنے کے لئے مجبور کیا ہے کہ تا وہ قرآن شریف کے حسن وجمال کا مشاہدہ کریں اور دیکھیں کہ ہمارے مخالفوں کا کس قدر ظلم ہے کہ وہ تاریکی سے محبت کرتے اور اس نور سے نفرت رکھتے ہیں۔ مجھے خدائے علیم نے الہام سے مطلع فرمایا ہے کہ یہ وہ مضمون ہے جو سب پر غالب آئے گا۔ اور اس میں سچائی اور حکمت اور معرفت کا وہ نور ہے جو دوسری قومیں بشرطیکہ حاضر ہوں اور اسے اوّل سے آخر تک سنیں شرمندہ ہو جائیں گی۔ اور ہرگز قادر نہیں ہوں گے کہ اپنی کتابوں کے یہ کمال دکھلا سکیں۔ خواہ وہ عیسائی ہوں خواہ آریہ خواہ سناتن دھرم والے یا کوئی اَور۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ اس روز اس کی پاک کتاب کا جلوہ ظاہر ہو۔ مَیں نے عالم کشف میں اس کے متعلق دیکھا کہ میرے محل پر غیب سے ایک ہاتھ مارا گیا اور اس ہاتھ کے چُھونے سے اس محل میں سے ایک نور ساطعہ نکلا جو ارد گر د پھیل گیا۔ اور میرے ہاتھوں پر بھی اس کی روشنی پڑی۔ تب ایک شخص جو میرے پاس کھڑا تھا وہ بلند آواز سے بولا کہ اَللّٰہُ اَکْبَر خَرِبَتْ خَیْبَر۔ اس کی تعبیر یہ ہے کہ اس محل سے میرا دل مراد ہے جو جائے نزول و حلول انوار ہے اور وہ نور قرآنی معارف ہیں۔ اور خیبر سے مراد تمام خراب مذاہب ہیں جن میں شرک اور باطل کی ملونی ہے اور انسان کو خدا کی جگہ دی گئی یا خدا کی صفات کو اپنے کامل محل سے نیچے گرا دیا ہے۔سو مجھے جتلایا گیا کہ اس مضمون کے خوب پھیلنے کے بعد جھوٹے مذہبو ں کا جھوٹ کھل جائے گا اور قرآنی سچائی دن بدن زمین پر پھیلتی جائے گی جب تک کہ اپنا دائرہ پورا کرے۔ پھر مَیں اس کشفی حالت سے الہام کی طرف منتقل کیا گیا اور مجھے یہ الہام ہوا۔

اِنَّ اللّٰہَ مَعَکَ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَقُوْمُ اَیْنَ مَا قُمْتَ۔

یعنی خدا تیرے ساتھ ہے خدا وہیں کھڑا ہوتاہے جہاں توُ کھڑا ہو۔ یہ حمایت الٰہی کے لئے ایک استعارہ ہے۔ اب مَیں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا۔ ہر ایک کو یہی اطلاع دیتا ہوں کہ اپنا اپنا حرج بھی کرکے اس معارف کے سننے کے لئے‘‘ تشریف لائیں۔(انجام آتھم۔روحانی خزائن جلد 11صفحہ301-299)
چنانچہ یہ مضمون پڑھا گیا تو اپنوں اور غیروں نے اس کی تائید و نصرت الٰہی کی گواہی دی۔ جس کا بہت پہلے آپ نے اعلان فرما دیا تھا۔ ایک اخبار اس زمانے میں تھا جرنل گوہر آصفی کلکتہ سے۔ اس نے لکھا کہ غرض اس جلسہ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ’’صرف حضرت مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان تھے جنہوں نے اس میدانِ مقابلہ میں اسلامی پہلوانی کا پوراحق ادا فرمایا ہے‘‘۔ پھر کہتا ہے کہ’’ اگر اس جلسے میں حضرت مرزا صاحب کا مضمون نہ ہوتا تو اسلامیوں پر غیر مذاہب والوں کے روبر و ذِلّت اور ندامت کا قشقہ لگتا۔مگر خدا کے زبردست ہاتھ نے مقدس اسلام کو گرنے سے بچا لیا۔ بلکہ اُس کو اِس مضمون کی بدولت ایسی فتح نصیب فرمائی کہ موافقین تو موافقین، مخالفین بھی فطرتی جوش سے کہہ اٹھے کہ یہ مضمون سب پر بالا ہے، بالا ہے‘‘۔ صرف اس قدر نہیں ’’ بلکہ اختتام مضمون پر حق الامر معاندین کی زبان پر یوں جاری ہو چکا کہ اب اسلام کی حقیقت کھلی اور اسلام کو فتح نصیب ہوئی‘‘۔ (روحانی خزائن جلد 10صفحہ17۔ زیر تعارف کتاب ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘مطبوعہ لندن)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ نبوت سے بہت پہلے اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں میں الہامات کے ذریعہ سے مدد و نصرت کا یقین دلاتے ہوئے یہ بتا دیا تھا کہ اسلام کی فتح اب آپؑ کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس بارے میں 1883ء کا ایک الہام ہے۔ اس کے الفاظ یوں ہیں :

حَمَاکَ اللہُ، نَصَرَکَ اللہُ، رَفَعَ اللہُ حُجَّۃَ الْاِسْلَامِ، جَمَالٌ۔ ھُوَالَّذِیْ اَمْشَاکُمْ فِیْ کُلِّ حَالٍ۔

خدا تیری حمایت کرے گا۔ خدا تجھ کو مدد دے گا۔ خدا حجت اسلام کو بلند کرے گا،جمال الٰہی ہے جس نے ہر حال میں تمہارا تنقیہ کیا ہے‘‘۔ (تذکرہ صفحہ95۔مطبوعہ1996ء) یعنی تمہیں پاک صاف کیا ہے۔
تو پھر ایک علمی معجزہ جس میں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت شامل حال تھی خطبہ الہامیہ تھا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’ 11؍ اپریل 1900ء کو عید اضحی کے دن صبح کے وقت مجھے الہام ہوا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو۔ تمہیں قوت دی گئی اور نیز یہ الہام ہوا۔ کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْمٍ۔ یعنی اس کلام میں خد اکی طرف سے فصاحت بخشی گئی ہے۔ تب مَیں عید کی نماز کے بعد عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو گیا اور خداتعالیٰ جانتا ہے کہ غیب سے مجھے ایک قوت دی گئی اور وہ فصیح تقریر عربی میں فی البدیہہ میرے منہ سے نکل رہی تھی کہ میری طاقت سے بالکل باہر تھی۔اور مَیں نہیں خیال کر سکتا کہ ایسی تقریر جس کی ضخامت کئی جزو تک تھی ایسی فصاحت اور بلاغت کے ساتھ بغیر اس کے کہ اوّل کسی کاغذ میں قلمبند کی جائے کوئی شخص دنیا میں بغیر خاص الہام الٰہی کے بیان کر سکے۔ جس وقت یہ عربی تقریر جس کا نام خطبہ الہامیہ رکھا گیا لوگوں میں سنائی گئی اس وقت حاضرین کی تعداد شاید دو سو کے قریب ہو گی۔ سُبحان اللہ اس وقت ایک غیبی چشمہ کھل رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں بول رہا تھا یا میری زبان سے کوئی فرشتہ کلام کر رہا تھا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس کلام میں میرا دخل نہ تھا۔ خود بخود بنے بنائے فقرے میرے منہ سے نکلتے جاتے تھے اور ہر ایک فقرہ میرے لئے ایک نشان تھا ……یہ ایک علمی معجزہ ہے جو خدا نے دکھلایا اور کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتا‘‘۔(حقیقۃ الوحی۔روحانی خزائن جلد 22صفحہ376-375)
جب آپؑ کو یہ الہام ہوا تھا کہ آج تم عربی میں تقریر کرو۔ تم کو قوت دی گئی ہے اور یہ کلام

کَلَامٌ اُفْصِحَتْ مِنْ لَّدُنْ رَبٍّ کَرِیْم

یعنی کلام میں فصاحت بخشی گئی ہے جیسا کہ مَیں نے بتایا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کا جو حکم تھا اس کو سنتے ہی آپؑ نے اپنے بہت سے خدام کو اطلاع دی اور پھر مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اول) کو بھی ہدایت فرمائی کہ وہ عید کے وقت قلم دوات اور کاغذ لے کر آئیں تاکہ خطبہ کو لکھ سکیں۔ تو اس خطبہ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تھوڑا سا مختصر سا اردوکا خطبہ بھی دیا پھر حضورؑ نے عربی خطبہ شروع فرمایا۔اس کی رپورٹ یہ ہے کہ:’

یَا عِبَادَاللہ

سے فی البدیہہ عربی خطبہ پڑھنا شروع کیا۔ آپؑ نے ابھی چند فقرے کہے تھے کہ حاضرین پر جن کی تعداد کم و بیش 200تھی وجد کی ایک کیفیت طاری ہو گئی۔ محویت کا یہ عالم تھا کہ بیان سے باہر ہے۔ خطبہ کی تاثیر کا وہ اعجازی رنگ پیدا ہو گیا کہ اگرچہ مجمع میں عربی دان معدودے چند تھے مگر سب سامعین ہمہ تن گوش تھے‘‘۔
غرض یہ ایک ایسا روح پرور نظارہ تھا کہ 1300سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک مجلس کا نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ حالت تھی (لکھنے والے کہتے ہیں) کہ آپؑ کی شکل و صورت، زبان اور لب و لہجہ سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ آسمانی شخص ایک دوسری دنیا کا انسان ہے جس کی زبان پر عرش کا خدا کلام کر رہا ہے۔ خطبہ کے وقت آپؑ کی حالت اور آواز میں ایک تغیر محسوس ہوتا تھا۔ ہر فقرہ کے آخر میں آپؑ کی آواز نہایت دھیمی اور باریک ہو جاتی تھی۔ اس وقت آپؑ کی آنکھیں بند تھیں، چہرہ سرخ اور نہایت درجہ نورانی۔ خطبہ کے دوران میں حضور نے خطبہ لکھنے والوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر کوئی لفظ سمجھ نہ آئے تو اسی وقت پوچھ لیں۔ ممکن ہے کہ بعد میں مَیں خود بھی نہ بتا سکوں تو اس وجہ سے مولوی عبدالکریم صاحب اور (حضرت خلیفہ اوّل) مولانا نورالدین صاحب کو جو خطبہ نویسی کے لئے مقرر تھے بعض دفعہ الفاظ پوچھنے پڑتے تھے۔
پھر رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ خود حضرت اقدس علیہ السلام جو اس وقت آسمانی انوار و برکات کے مورد تھے۔ آپ کے اندر اس وقت اتنی غیبی قوت کام کر رہی تھی کہ جیسا آپ نے بعد ازاں بتایا کہ آپؑ یہ امتیاز نہیں کر سکتے تھے کہ مَیں بول رہاہوں یا میری زبان سے فرشتہ کلام کر رہا ہے۔ کیونکہ آپؑ جانتے تھے کہ اس کلام میں میرا دخل نہیں۔ خود بخود برجستہ فقرے آپؑ کی زبان پر جاری ہوتے تھے۔ بعض اوقات الفاظ لکھے ہوئے ہی نظر آ جاتے تھے۔ سامنے ایک کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ اور ہر ایک فقرہ ایک نشان تھا۔ اس طرح جوں جوں آپؑ پر کلام اترتا گیا آپؑ بولتے گئے۔ یہ سلسلہ کافی وقت تک جاری رہا۔ جب یہ کیفیت زائل ہو گئی تو حضورؑ نے خطبہ ختم کر دیا اور آپؑ کرسی پر تشریف فرما ہو گئے اور پھر اس اعجازی خطبے کے بعد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے دوستوں کی درخواست پر خطبے کا ترجمہ سنانا شروع کیا۔اس کے لئے آپ کھڑے ہوئے تو لکھنے والے کہتے ہیں کہ زبان کے خیالات مختلف ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا انداز مختلف ہوتا ہے۔ اور فوری ترجمہ بھی ساتھ ساتھ کرنا ایک نہایت مشکل ہے۔ مگر روح القدس کی تائید سے آپ (حضرت مولوی عبدالکریم صاحب) نے اس فرض کو بھی خوبی سے ادا کیا اور ہرشخص عش عش کر اٹھا۔مولوی صاحب موصوف ابھی اردو ترجمہ سنا ہی رہے تھے کہ حضرت اقدسؑ فرط جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں گر گئے۔ آپؑ کے ساتھ حاضرین نے بھی سجدہ شکر ادا کیا۔ سجدہ سے سر اٹھا کر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ابھی مَیں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ مبارک۔ یہ گویا قبولیت دعا کا نشان ہے۔
پس یہ چند مثالیں ان نشانات کی تھیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تائید میں دکھائے اور مَیں نے ابھی بیان کئے ہیں۔ اور بھی بہت سارے ہیں لیکن وقت کی وجہ سے اتنے ہی بیان کر رہا ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ اس بندہ حضرت عزّت سے اسی کے فضل اور تائید سے اس قدر نشان ظاہرہوئے ہیں کہ اس تیرہ سو برس کے عرصہ میں افراد امت میں سے کسی اور میں ان کی نظیر تلاش کرنا ایک طلب محال ہے۔……تمام وہ لوگ جو اس امت میں قطب اور غوث اور ابدال کے نام سے مشہور ہوئے ہیں۔ ان کی تمام زندگی میں ان کی نظیر ڈھونڈو پھر اگر نظیر مل سکے تو جو چاہو کہو۔ ورنہ خدائے غیور اور قدیر سے ڈر کر بے باکی اور گستاخی سے باز آ جاؤ‘‘۔(تریاق القلوب۔ روحانی خزائن جلد15صفحہ336)
اللہ تعالیٰ دنیا کو عقل دے اور زمانے کے امام کو پہچاننے کی توفیق دے اور آپ کی گستاخی سے یہ باز آ جائیں۔ ورنہ ہم روز نظارے دیکھتے بھی ہیں اور اس سے بڑھ کر بھی نظارے دکھائے جا سکتے ہیں کیونکہ خدا ئے غیور اور قدیر کی پکڑ بڑی سخت ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ ثانیہ میں فرمایا :
گزشتہ دنوں میں UK کی شوریٰ ہو رہی تھی۔ اس شوریٰ کے دوران UK جلسہ کے لئے آلٹن کی جو نئی جگہ لی گئی ہے، اس کے بارے میں لوگوں کو تجسس تھا کہ کیا نام رکھا گیا ہے۔ تو مَیں نے کہا تھا کہ صرف شوریٰ کو نہیں بلکہ جمعہ کے دوران بتا دوں گا۔ اس کے نام تو مختلف آئے تھے۔ بعض لوگوں نے تجویز کئے تھے لیکن جو مَیں تجویز کررہاہوں وہ نام ہے

’حَدِیْقَۃُ الْمَہْدِیْ‘۔
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں