اداریہ: ’’اپنی اس عمر کو اِک نعمتِ عظمیٰ سمجھو‘‘

(مطبوعہ ’’انصارالدین’’ یوکے …………)

ابتدائے عمر میں بہت سے ایسے اقوال اور اشعار سن رکھے تھے جن کی اہمیت کا احساس و ادراک بڑھتی عمر اور شعور میں پختگی کے ساتھ ہوتا چلاگیا۔ انہی میں سے ایک زریں شعر  یہ بھی تھا کہ  ؎
اپنی اس عمر کو اک نعمتِ عُظمیٰ سمجھو
بعد میں تاکہ تمہیں شکوۂ ایّام نہ ہو
ہم جانتے ہیں کہ زندگی اور وقت ایک ہی شے کے دو نام ہیں۔ جو شخص اپنا وقت ضائع کرتا ہے وہ اپنی زندگی کا ہی ایک حصہ ضائع کرتا ہے۔ حضرت علیؓ کی طرف منسوب یہ قول بھی نصف صدی قبل پڑھا تھا کہ نعمتوں کی قدر کا احساس پیدا کرنے کے لیے اُن کے زوال کا زمانہ یاد رکھو۔ تب کسی بزرگ کی یہ بات بھی یاد تھی کہ عبادت کا اصل مزہ تب ہی آتا ہے جب جسمانی طور پر بشاشت اور ذہنی یکسوئی میسر آسکے۔ اسی لیے کسی صوفی  شاعر نے کہا تھا    ؎
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری
وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار
(جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں ہی کا شیوہ ہے۔بڑھاپے میں تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار ہوجاتا ہے)
باالفاظِ دیگر وقت پر ’وقت‘ کی اہمیت کا احساس اجاگر ہونا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو جسمانی عمر میں اضافے کے ساتھ انسانی شعور کی حسّاسیت تشنہ رہ جانے والے کاموں کی کسک میں اضافہ کرکے بعض اوقات تکلیف دہ صورتحال بھی پیدا کردیا کرتی ہے۔  اسی لیے بعض فلاسفروں کے نزدیک انسانی دانش کی تعریف محض اتنی ہی ہے کہ وقت یعنی حالات کے مطابق درست فیصلہ کرنے کی اہلیت ہو۔
thomas-alva-Edison
وقت کی مثال برف سے دی جاتی ہے جس نے آخرکار پگھل ہی جانا ہوتا ہے۔ اسی لیے وقت کو قیمتی ترین متاع بھی کہا گیا ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں جب ٹامس ایڈیسن سے پوچھا گیا کہ دنیا میں سب سے قیمتی شے کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا:’’وقت۔ کیونکہ آپ ایک ملین ڈالر دے کر بھی گزرا ہوا منٹ نہیں خریدسکتے۔‘‘
ہم انصار تو خصوصیت سے اپنی عمر کے اُس دَور سے گزر رہے ہیں کہ جس میں وقت کی اہمیت کا یہ احساس کہیں بڑھ کر ہونے لگتا ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصارسے اپنے خطابات میں بارہا اس طرف ہمیں توجہ دلائی ہے کہ اپنے ربّ کے حضور حاضر ہونے کی تیاری پہلے سے زیادہ توجہ اور سعی کے ساتھ کی جانی چاہیے۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:103) اور اس وقت تک موت نہ آئے جب تک فرمانبردار نہ ہو جاؤ۔ زندگی موت تو کسی کے اختیارمیں نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے زندہ رکھتا ہے اور جس کو چاہتا ہے مارتا ہے۔ اس حصہ کا پھر یہی مطلب بنتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنی زندگیوں کو گزارنا چاہیے تاکہ جب ہمیں موت آئے تو ایسی حالت میں آئے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ کوشش کرنے والے ہوں۔ پس ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والے بنے رہیں۔‘‘  (خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍ اپریل 2010ء)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’عمر ایسی بے اعتبار اور زندگی ایسی ناپائیدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی۔ اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اُٹھانے تک زندہ رہیں گے یا نہیں۔ پھر جب یہ حال ہے کہ موت کی گھڑی کا علم نہیں… تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اس کے لیے تیار رہے۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 68)
گویا مذہب کا مقصد ہی انسان میں یہ احساس اُجاگر کرنا ہے کہ وہ اپنی اس زندگی کی قدر کرے اور اپنی آخرت کی تیاری میں اس مختصر وقت کو گزار کر کامیابی کی اُن منازل کو حاصل کرلے جو روحانی ترقیات اور لذّات سے اُس کو اسی دنیامیں آشنا کرتی چلی جائیں۔ پس جن لوگوں پر خداتعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اُن کی ساری زندگی بامقصد اور بامراد گزرتی ہے اور اُن کے وقت کو ضائع نہیں ہونے دیا جاتا۔  حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی خداتعالیٰ کی طرف سے الہاماً یہ خوشخبری دی گئی تھی کہ  اَنْتَ الشَّیْخُ الْمَسِیْحُ الَّذِیْ لَایُضَاعُ وَقْتُہٗ   ’’تُو وہ بزرگ مسیح ہےجس کا وقت ضائع نہیں کیا جاوے گا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ۴۰۱) ۔ چنانچہ آپؑ اپنے معمولاتِ دن بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میرا تو یہ حال ہے کہ پاخانہ اور پیشاب پر بھی مجھے افسوس آتا ہے کہ اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے، یہ بھی کسی دینی کام میں لگ جائے۔ کوئی مشغول اور تصرف جو دینی کاموں میں حارج ہو اور وقت کا کوئی حصہ لے، مجھے سخت ناگوار ہے۔ جب کوئی دینی ضروری کام آپڑے تو میں اپنے اوپر کھانا، پینا اور سونا حرام کرلیتا ہوں جب تک وہ کام نہ ہو جائے۔ ہم دین کے لیے ہیں اور دین کی خاطر زندگی بسر کرتے ہیں۔ بس دین کی راہ میں ہمیں کوئی روک نہ ہونی چاہیے۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ 310)
حضورعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’سعادتمند وہ ہے کہ جس نے وقت پایا اور پھر اُسے غفلت میں ضائع نہ کیا۔‘‘ (اعجازالمسیح، روحانی خزائن جلد18صفحہ73)

یہی حال حضورعلیہ السلام کے خلفاء کا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:’’وہ کیا بد قسمت انسان ہے جو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے۔‘‘  (خطبات نور صفحہ147)
حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا:’’وقت نہایت قیمتی چیز ہے جو وقت کو استعمال کرے گا وہی جیتے گا اور جو ضائع کرے گا وہ ہارجائے گا۔‘‘    (الفضل 23؍فروری1952ء)
اسی طرح فرمایا:’’بیہودہ وقت ضائع کرنا روحانیت کو مارنے والی چیز ہے … ایسا نکمّا آدمی دنیا میں ایک تو بتاؤ جو خدا کا محبوب بن گیا ہو۔ بلکہ ایک ایسا انسان تو محبّ بھی نہیں بن سکتا کیونکہ خداتعالیٰ سے محبت بھی اسے نصیب ہو سکتی ہے جو وقت کی قدر جانتا ہو۔‘‘ (خطبات محمود جلد13صفحہ333)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ارشاد ہے:’’زندگی وقت کے ایک بامقصد مَصرف کا نام ہے۔‘‘   (مشعل راہ جلدسوم صفحہ38)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’میرا جائزہ اور تجربہ یہ ہے کہ جب مصروف آدمی کے سپرد کام کیے جائیں تو وہ ہو جاتے ہیں۔ فارغ وقت والے آدمی کے سپرد کام کیے جائیں تو وہ نہیں ہوتے۔ کیونکہ فارغ وقت والا وہی ہوتا ہے جس کو اپنے وقت کی قیمت معلوم نہیں ہوتی اور وقت ضائع کرنا اس کی عادت بن چکا ہوتا ہے۔اس لیے اگر فارغ وقت آدمی کو پکڑنا ہے تو رفتہ رفتہ اسے مصروف رہنا سکھانا ہوگا اور اس کے لیے بعض دفعہ اس کے مطلب کی چیز اس کے سپرد کی جائے تو رفتہ رفتہ اسے کام کی عادت پڑجاتی ہے۔‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ 26؍اپریل1992ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے بےشمار ارشادات اور عملی  اقدامات ہمارے پیش نظر ہیں۔ آپ نے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد جو ابتدائی ارشادات واقفین زندگی اور مربیان کرام کو فرمائے اُن میں وقت ضائع نہ کرنے کے حوالے سے احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی ہدایت بھی تھی۔ اسی مقصد کے لیے حضورانور نے ہر کارکن سے اپنا روزنامچہ (ڈائری) تیار کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ چنانچہ ایک عرصے تک کارکنان کی ڈائریاں حسب ہدایت خدمت اقدس میں بغرض ملاحظہ پیش کی جاتی رہیں جن پر حضورانور اپنے دست مبارک سے بہت اہم نصائح سے بھی نوازا کرتے تھے۔ حضورانور کی اس ہدایت کی افادیت اُس وقت مزید بڑھ گئی جب سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کا ایک خوبصورت اقتباس نظروں سے گزرا۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ ’’چند دن اپنے روزمرّہ کے کام کی ڈائری لکھیں۔ دن کو تین حصّوں میں تقسیم کرلیں اور ہر حصے کے ختم ہونے پر پانچ دس منٹ تک نوٹ کریں کہ آپ اس عرصے میں کیا کرتے رہے ہیں۔ اِس طرح آٹھ دس دن مسلسل ڈائری لکھنے کے بعد دوبارہ اپنی ڈائری پر نظر ڈالیں اور نوٹ کریں کہ ان میں سے کون کون سے کام غیرضروری تھے۔ اندازہ لگائیں کہ روزانہ کتنا وقت آپ نے ضروری کاموں میں اور کتنا غیرضروری کاموں میں صَرف کیا۔ اس طرح بہت جلد آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آپ کی بہت سی زندگی رائیگاں چلی جارہی ہے۔‘‘ (تاریخ احمدیت جلد12صفحہ304-305)
یکم اکتوبر 2005ء کو جامعہ احمدیہ یوکے کا افتتاح کرتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا تھا کہ ’’ہمیشہ یہ ذہن میں رہے کہ میں واقفِ زندگی ہوں۔ اب میرا اپنا کچھ بھی نہیں۔ میری ذات اب خدا کے لیے اور خدا کے مسیح کی جماعت کے لیے ہے۔ … ایک ایک لمحہ آپ کا قیمتی ہے۔ رات کو سوتے ہوئے اپنا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں کہ دن کے دوران کوئی لمحہ بھی ایسا تو نہیں جو میں نے ضائع کیا ہو۔ جب آپ اسی طرح اپنا جائزہ لے رہے ہوں گے تو ابھی سے آپ کو اپنے وقت کی قدر کا احساس بھی پیدا ہوجائے گا، وقت کے صحیح استعمال کی عادت بھی پڑ جائے گی۔ جب یہاں سے فارغ ہوں گے، مربی بن کر، مبلغ بن کر نکلیں گے تو اپنی زندگی ہر لمحہ اور ہر سیکنڈ دین کی خاطر گزارنے والے ہوں گے۔ اور جب اس طرح وقت گزاریں گے تو تبھی آپ اپنے عہد کو پورا کرنے والے کہلا سکیں گے۔‘‘  (مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل لندن 28 اکتوبر 2005ء)
اگرچہ یہ ارشاد واقفینِ زندگی کے لیے خاص ہے لیکن درحقیقت ہر احمدی ہی اپنے عہدِ بیعت اور اپنی ذیلی تنظیم کے عہد کو پیش نظر رکھے تو وہ بھی اس کا مخاطب ہے۔
جلسہ سالانہ پر بیعت کا منظر
چند روز بعد جلسہ سالانہ یوکے منعقد ہورہا ہے۔ اس حوالے سے بھی حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد قابلِ غور ہے۔ فرمایا کہ ایک مومن کے لیے اپنے وقت کا صحیح استعمال انتہائی ضروری ہے۔ جب ایسے اجتماعی موقعوں پر سب جمع ہوتے ہیں تو دُور دُور سے آئے ہوئے عزیزوں اور واقف کاروں کی ایک دوسرے سے ملاقاتوں اور مل بیٹھنے کی خواہش بھی ہوتی ہے۔  حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسے میں شامل ہونے والوں کا ایک مقصد یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جماعت کے تعلقاتِ اخوت استحکام پذیر ہوں۔ لیکن سارا دن جلسے کا جو پروگرام ہو رہا ہوتا ہے، اس کو سننے میں گزارنا چاہیے۔ بعض دفعہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ خوش گپیوں میں ساری ساری رات ضائع ہو جاتی ہے یا کھانے کی مارکی میں باتوں میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ نمازوں کے اوقات میں انتظامیہ کو یاددہانی کروانی پڑتی ہے۔ اسی طرح جو گھروں میں اپنے عزیزوں یا واقف کاروں کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں، وہ بھی لمبی مجلسوں کی وجہ سے وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور جلسے پر آنے کی اصل غرض کو بھول جاتے ہیں۔ پس ہر کام میں اعتدال ہونا چاہیے اور یہی ایک مومن کی شان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دعوت میں شمولیت کے حوالے سے مومنوں کو آنحضرتﷺ کے وقت کو ضائع کرنے سے بچانے کی نصیحت فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ خاص حکم جہاں آنحضرتﷺ کے مقام و مرتبہ اور آپ کے وقت کی قدر و قیمت کو مدّ نظر رکھ کر فرمایا ہے وہاں مومنین کو بھی وقت کے حوالے سے یہ عمومی نصیحت ہے کہ  لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ  (الاحزاب54:) کہ بیٹھے باتوں میں وقت نہ ضائع کیا کرو۔  اپنے وقت کا بھی کچھ پاس اور خیال کرو اور جس کے گھر میں یا جس انتظام کے تحت بیٹھے ہو اُن کا بھی کچھ خیال رکھا کرو۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 30؍ جولائی 2010ء)

پس انسان ترجیحات کے انتخاب میں جہاں آزاد ہے وہاں اُس کو اپنی عملی زندگی پر غور کرنے کی ضرورت بھی ہمہ وقت رہتی ہے کہ اُس کا وقت ایسے کاموں میں صرف ہو جس کے نتیجے میں اُس کے علم اور معرفت میں اضافہ ہو اور اُن امور سے پرہیز کیا جائے جو محض وقت کا ضیاع ہیں۔ وقت ایک ایسی دولت ہے جس کو لُوٹنے کے لیے بہت سے ایسے مشاغل ہمیں متوجہ کرتے ہیں جو محض آرام کرنے یا ریلیکس ہونے کے نام پر دھوکا دیتے ہیں۔ جبکہ آرام صرف اس لیے ہونا چاہیے کہ تازہ دم ہوکر دوبارہ کام میں مصروف ہوا جائے۔ حضرت چودھری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کو ہر وقت مصروف رہنے کا ایسا جنون تھا کہ ایک بار آپؓ نے فرمایا:’’میں جب امریکہ اور یورپ میں ہوتا ہوں تو تعطیلات میں دیہات کی طرف چلا جاتا ہوں اور تبلیغ کرتا ہوں ۔ مجھے اَور کوئی شوق نہیں ہے۔ حقیقتاً دلچسپی دوہی کاموں سے ہے۔ یا فرائض منصبی کی ادائیگی سے یا تبلیغ سے۔‘‘(نوائے وقت لاہور 17؍نومبر1963ء)
  اسی طرح ایک صحابیہ حضرت زینب بی بی صاحبہؓ بیان فرماتی ہیں کہ بعض فتنوں کے زمانے میں حضرت امّاں جانؓ کے گھر پر خواتین پہرہ دیاکرتی تھیں لیکن امّاں جانؓ نے اُن کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ اس کو اجازت ملے گی جس کو چرخہ کاتنا آتا ہو۔ آپؓ یہ پسند نہیں فرماتی تھیں کہ خواتین کا وقت ضائع ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے سورۃ العصر کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’زمانہ جس طرح پر تیزی سے گزر رہا ہے اسی طرح ہماری عمریں تیزی سے گزر رہی ہیں ۔ … اللہ تعالیٰ نے اس سورۂ شریف میں جہاں انسانی عمر کے اس طرح تیزی سے گزرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اس سورت میں اس کا علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پروا نہیں اگر ہمارا حکم مان لو۔ اس حکم کی تعمیل سے تم زندۂ جاوید ہو جاؤ گے اور وہ یہ ہے کہ آپ مومن بنو اور اعمال صالحہ کرو۔ دوسرے کو مومن بناؤ اور حق کی وصیت کرو۔ حق کے پہنچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو اور صبر و استقلال سے کام لو۔ اس علاج پر اگرمومن عمل کرے اور اس کو اپنا دستور العمل بنالے تو یقیناً یقیناً وہ ہمیشہ کی زندگی پالے گا۔‘‘(مرقاۃالیقین فی حیاۃ نورالدین صفحہ46)
ہم انصار کے پیش نظر حضرت مسیح موعودؑ کا یہ ارشاد ہمیشہ رہنا چاہیے جس میں آپؑ فرماتے ہیں:’’یاد رکھو قبریں آوازیں دے رہی ہیں اور موت ہر وقت قریب ہوتی جاتی ہے۔ ہر ایک سانس تمہیں موت کے قریب تر کرتا جاتا ہے اور تم اسے فرصت کی گھڑیاں سمجھتے ہو!‘‘ (بحوالہ الفضل 18؍دسمبر1995ء)
(محمود احمد ملک)

اداریہ: ’’اپنی اس عمر کو اِک نعمتِ عظمیٰ سمجھو‘‘” ایک تبصرہ

  1. جی بالکل ٹھیک فرمایا زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اور ہم اس مختصر سے زندگی کے میں اتنے فیصلے بنا لیتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے- لیکن افسوس کہ ہم وہ تمام چیزیں کرنہیں پاتے پھر ہم سوچتے ہیں کہ شاید خدا تعالی نے ہمارے لیے کچھ اور پلان رکھا ہوا ہے- آخری عمر میں کچھ خدا تعالی کو بھی ٹائم دے دیتے ہیں کوشش کرکے کہ چلو اخرت بھی سنور جائے- لیکن کیا کریں جو سوچتے ہیں وہ ہوتا نہیں- ویسے مضمون یہ اچھا تھا، ذرا چھوٹا تھا بس-

اپنا تبصرہ بھیجیں