اداریہ: ایمان بالغیب – یقینِ کامل کی بنیاد

حصول علم کے دو ذرائع

انسان کے پاس حصول علم کے دو ذرائع ہیں: تجربہ و مشاہدہ اور عقلی استدلال۔

عقل، تجربہ و مشاہدہ کے ذریعے سے حاصل ہونے والے معلوم سے نامعلوم پر استدلال کرتی ہے۔ ثابت شدہ کی بنیاد پر غیرثابت کو استدلال و استنباط کے طریقے سے پہلے مفروض کرتی اور پھر دستیاب شواہد کی بنیاد پر استدلال سے اس کا اثبات کرتی ہے۔ ممکن ہو تو تجربے اور مشاہدہ سے حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر مستنبط کو تجربے کے ذریعے سے شہود کی سطح پر ثابت بھی کر کےدکھا دیا جاتا ہے۔لیکن ایمانِ کامل کا تقاضا یہی ہے کہ پہلے وہ امور غیبیہ پر ایمان لا کر فرمانبرداروں میں داخل ہوں اور پھر عرفان کا مرتبہ عطا کرکے سب عقد ے ان کے کھولے جائیں ‘‘۔ تو پہلے فرمانبرداری ضروری ہے۔ سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا کرنا ضروری ہے۔ اس کے بعد پھر اس کو عرفان بھی حاصل ہو جائے گا، اس کی حکمتیں بھی معلوم ہو جائیں گی۔


قرآن کریم میں ایمان بالغیب کو متقیوں کی اوّلین صفت قرار دیا گیا ہے: الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ” (البقرہ:3) ایک اعلیٰ ایمان والا شخص یہ دیکھتا ہے کہ اُس کے محبوب کا کیا حکم ہے۔ وہ دلیلوں کی تلاش میں نہیں رہتا۔ بلکہ سَمِعْنَاوَاَطَعْنَا کہتا ہے کہ ہم نے حکم سن لیا ہے اور ہم اس کے دل سے فرمانبردار ہو چکے ہیں۔
حقیقی مومن وہی ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بتائے ہوئے تمام غیبی حقائق پر ایمان رکھے، جیسے اللہ کی ذات، اس کی صفات، فرشتے، آخرت، وحی، تقدیر اور انبیاء کی سچائی۔ یہ ایمان محض ایک فلسفیانہ نظریہ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جس کا ادراک وہی شخص کر سکتا ہے جو تقویٰ کی راہ پر چلتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑایمان بالغیب محض اندھا دھند مان لینے کا نام نہیں، بلکہ یہ وہ ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور نشانات کے عملی تجربے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص اللہ کی راہ میں چلتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کے غیبی انعامات ظاہر ہوتے ہیں، اور یوں اس کا ایمان زبردست یقین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔یاد رہے کہ خداتعالیٰ نے ایمان بالغیب کا حکم فرما کر مومنوں کو یقینی معرفت سے محروم رکھنا نہیں چاہا بلکہ یقینی معرفت کے حاصل کرنے کے لئے ایمان ایک زینہ ہے جس زینہ پر چڑھنے کے بغیر سچی معرفت کو طلب کرنا ایک سخت غلطی ہے لیکن اس زینہ پر چڑھنے والے معارف صافیہ اور مشاہدات شافیہ کا ضرور چہرہ دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ ان کو صاف کھلے معارف بھی نظر آجاتے ہیں جن پر چڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کو بڑے تسلی دینے والے مشاہدات بھی نظر آتے ہیں۔ ’’جب ایک ایماندار بحیثیت ایک صادق مومن کے احکام اور اخبار الٰہی کو محض اس جہت سے قبول کرلیتا ہے کہ وہ اخبار اور احکام ایک مخبر صادق کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے اس کو عطا فرمائے ہیں تو عرفان کا انعام پانے کے لئے مستحق ٹھہر جاتا ہے‘‘۔ یعنی ایک سچا مومن، اللہ تعالیٰ جواحکامات دیتا ہے یا ان کو نبی کی طرف سے جو احکامات ملتے ہیں یا جو اللہ تعالیٰ ان کو خبریں دیتاہے، ان کوصرف اس لئے قبول کرتا ہے کہ یہ ایک سچے خبر دینے والے نے خداتعالیٰ کی طرف سے اطلاع پا کر خبریں دی ہیں۔ تو پھر اس کو اس کاعرفان بھی حاصل ہوتا ہے۔لیکن افسوس کہ جلد باز انسان اِن راہوں کو اختیار نہیں کرتا۔ خداتعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ وعدہ ہے کہ جو شخص ایمانی طور پر نبی کریمﷺ کی دعوت کو مان لیوے تو وہ اگر مجاہدات کے ذریعہ سے ان کی حقیقت دریافت کرنا چاہے وہ اس پر بذریعہ کشف اور الہام کے کھولے جائیں گے‘‘۔ پہلے ایمان لانا ضروری ہے۔ پھر مجاہدات کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اطلاع دے گا’’ اور اس کے ایمان کو عرفان کے درجہ تک پہنچایا جائے گا‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد نمبر 5صفحہ 251تا 253حاشیہ)
ہمارا خدا آج بھی بولتا ہے جیسے پہلے بولتا تھا، وہ آج بھی اپنے خاص بندوں پر وحی اور کشوف کے ذریعے اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے، اور یہی سچا ایمان بالغیب ہے جو انسان کو خدا کے قریب کر دیتا ہے۔

ایمان بالغیب کے تقاضے

ایمان بالغیب محض ایک نظریہ نہیں بلکہ ایک عملی حقیقت ہے، جس کے درج ذیل تقاضے ہیں

1 ۔ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین

انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات پر مکمل ایمان رکھے، اور اس یقین کو اپنی زندگی میں عملی طور پر ظاہر کرے۔ کیونکہ ہم تو اس مزکّی کے عاشق صادق کو ماننے والے ہیں جو توحید کا پھیلانے والا تھا۔ اور جس کے ماننے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ پیغام دیا تھا کہ خُذُوا التَّوْحِیْدَ اَلتَّوْحِیْدَ یَا اَبْنَآءَ الْفَارِس کہ توحید کو پکڑو، توحید کو پکڑو، اے فارس کے بیٹو۔ (تذکرۃ صفحہ197ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

2. وحی اور نبوت پر ایمان

مسجد نبوی مدینہ منورہ

ایمان بالغیب کا ایک لازمی تقاضا یہ بھی ہے کہ سیّدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ کو مسیح موعود اور مہدی معہود تسلیم کیا جائے، کیونکہ آپؑ کی بعثت بھی ایک غیبی پیشگوئی کے مطابق ہوئی۔ پس اے وہ لوگو! جو اپنے آپ کو محمد رسول اللہﷺ کی طرف منسوب کرتے ہو! اس عظیم رسول کی طرف منسوب کرتے ہوجس کی تعلیم تاقیامت دلوں کو پاک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس تعلیم کی روشنی دکھانے کے لئے محدود پیمانے پر نہیں جیسا کہ سابقہ صدیوں میں آتے رہے بلکہ وسیع پیمانے پر پاک کرنے کے لئے اور کمزور دلوں اور دنیاداروں اور فلسفیوں میں بھی پاکیزگی اور حکمت کے بیج ڈالنے کے لئے آخرین میں پھر یہ نبی مبعوث ہو گا۔ جو اپنے اس جسم کے ساتھ نہیں بلکہ بروزی رنگ میں مبعوث ہو گا اور یہ اس خدا کا فیصلہ ہے جو عزیز اور حکیم ہے۔ اور اس خدا کی طاقتوں کو محدود نہ سمجھو۔ اس کے فیصلوں کو بغیر حکمت کے نہ سمجھو۔ پس جس طرح اس عظیم نبی نے ایک پاک جماعت کا قیام کیا تھا اور بگڑے ہوؤں کو خدا سے ملایا تھا اس نبی کا غلام بھی اس بگڑے زمانے میں خدا سے ملانے کا کام کرے گا۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ ؓ نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہوں گے؟ وہ ہوگا کون جو آخرین میں مبعوث ہو گا؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو ان کی نسل میں سے ایک شخص اسے زمین پر واپس لے آئے گا۔ (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منہم لما یلحقوا بہم حدیث:4897)

3 ۔ عبادات اور تقویٰ

اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے کے لیے عبادات خصوصاً نماز کو زندگی کا لازمی حصہ بنایا جائے۔
ایک انسان کی زندگی کا اصل مقصود نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ اور احکامات کی حکمتیں نہیں ہیں بلکہ اصل مقصود تزکیہ نفس ہے اور ہونا چاہئے۔ اگر ظاہری نمازیں کوئی لمبی لمبی پڑھتا ہے اور نفس کی اصلاح نہیں۔ یا اگر زکوٰۃ دیتا ہے اور ناجائز کمائی کررہا ہے۔ یا اگر حج کیا ہے اور دل میں یہ ہے کہ دوسروں کو پتہ لگے کہ میں حاجی ہوں یا اس لئے کہ کاروبار زیادہ چمکے۔ کئی کاروباری لوگ اس لئے بھی حج پر جاتے ہیں۔

4 ۔ خلافت سے وابستگی

ایمان بالغیب کا ایک مظہر خلافت احمدیہ سے وابستگی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق حقیقی اسلام کی قیادت کر رہی ہے۔ہم احمدی کہلانے والوں کی اب دوہری ذمہ واری ہے کہ ایک تو اپنے پاک ہونے اور اس کتاب پر عمل کرنے کی طرف مستقل توجہ دیں۔ دوسرے اس پیغام کو ہر شخص تک پہنچانے کے لئے ایک خاص جوش دکھائیں تاکہ کسی کے پاس یہ عذر نہ رہے کہ ہم تک تو یہ پیغام نہیں پہنچا۔ کیونکہ آج سوائے احمدی کے کوئی نہیں جس کے سپرد امت مسلمہ کے سنبھالنے کا کام کیا گیا ہے۔ بڑے بڑے اسلام کے نام نہاد چیمپٔن تو نظر آئیں گے اور بزعم خویش اپنے آپ کو سب کچھ سمجھنے والے بھی ہوں گے۔ ہر گروہ اور ہر فرقہ اصلاح کا دعوٰی کررہا ہے لیکن ایمان سے عاری ہیں اس لئے ہر طرف یہی شور ہے کہ مسلمانوں کو سنبھالو۔ اور اس گروہ بندی اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکار کی وجہ سے یہ علیحدہ علیحدہ گروہ بنے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے انکار کی وجہ سے دلوں کی پاکیزگی ختم ہو رہی ہے۔ تعلیم و حکمت سے عاری ہو رہے ہیں اور دشمن کے پنجے میں جکڑے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی یہ آواز اٹھتی ہے کہ خلافت ہونی چاہیے لیکن یہ سب جس وجہ سے ہورہا ہے وہ نہیں سوچتے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اس آیت کا ماحصل یہ ہے کہ خدا وہ خدا ہے جس نے ایسے وقت میں رسول بھیجا کہ لوگ علم اور حکمت سے بے بہرہ ہوچکے تھے اور علوم حکمیہ دینیہ جن سے تکمیل نفس ہو اور نفوس انسانیہ علمی اور عملی کمال کو پہنچیں بالکل گم ہو گئی تھی اور لوگ گمراہی میں مبتلا تھے یعنی خدا اور اس کی صراط مستقیم سے بہت دور جا پڑے تھے تب ایسے وقت میں خداتعالیٰ نے اپنا رسول اُمِّی بھیجا اور اس رسول نے ان کے نفسوں کو پاک کیا۔ اور علم الکتاب اور حکمت سے ان کو مملوّ کیا یعنی نشانوں اور معجزات سے مرتبہ یقین کامل تک پہنچایا اور خداشناسی کے نورسے ان کے دلوں کو روشن کیا اور پھر فرمایا کہ ایک گروہ اَور ہے جو آخری زمانے میں ظاہر ہوگا۔ وہ بھی اول تاریکی اور گمراہی میں ہوں گے اور علم اور حکمت اور یقین سے دور ہوں گے تب خدا ان کو بھی صحابہؓ  کے رنگ میں لائے گا یعنی جو کچھ صحابہؓ نے دیکھا وہ ان کو بھی دکھایا جائے گا۔ یہاں تک کہ ان کا صدق اور یقین بھی صحابہؓ کے صدق اور یقین کی مانند ہو جائے گااور حدیث صحیح میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس آیت کی تفسیر کے وقت سلمان فارسی کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ لَوْکَانَ الْاِیْمَان مُعَلَّقًا بِالثُّرَیَّا لَنَالہٗ رَجُلُٗ مِّنْ فَارس یعنی اگر ایمان ثریا پر (یعنی آسمان پر) بھی اٹھ گیا ہو گا۔ تب بھی ایک آدمی فارسی الاصل اس کو واپس لائے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ ایک شخص آخری زمانہ میں فارسی الاصل پیدا ہوگا۔ اس زمانے میں جس کی نسبت لکھا گیا ہے کہ قرآن آسمان پر اٹھایا جائے گا یہی وہ زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور یہ فارسی الاصل وہی ہے جس کا نام مسیح موعود ہے کیونکہ صلیبی حملہ جس کے توڑنے کے لئے مسیح موعود کو آنا چاہئے وہ حملہ ایمان پر ہی ہے اور یہ تمام آثار صلیبی حملہ کے زمانہ کے لئے بیان کئے گئے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ اس حملے کا لوگوں کے ایمان پر بہت برا اثر ہوگا۔ وہی حملہ ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دجّالی حملہ کہتے ہیں۔ آثار میں ہے کہ اس دجّال کے حملہ کے وقت بہت سے نادان خدائے لاشریک کو چھوڑ دیں گے اور بہت سے لوگوں کی ایمانی محبت ٹھنڈی ہوجائے گی اور مسیح موعود کا بڑا بھاری کام تجدید ایمان ہو گا کیونکہ حملہ ایمان پر ہے اور حدیث لَوْکَانَ الْاِیْمَان سے جو شخص فارسی الاصل کی نسبت ہے یہ بات ثابت ہے کہ وہ فارسی الاصل ایمان کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے آئے گا…‘‘۔
آج کے سائنسی دور میں، جہاں مادی نظریات کو فوقیت دی جاتی ہے، ایمان بالغیب کی ضرورت اَور بھی بڑھ گئی ہے۔ سچا ایمان وہی ہے جو تجربے اور عملی مشاہدے سے مضبوط ہو۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’وہ خدا جو پہلے قوموں سے ہمکلام ہوا، وہی آج بھی زندہ ہے۔ اگر تم خالص ہو جاؤ تو وہ تم سے بھی ہمکلام ہوگا اور تمہارے ایمان بالغیب کو یقینِ کامل میں بدل دے گا۔‘‘
پس ایمان بالغیب صرف ماضی کے قصے یا فلسفیانہ تصورات پر یقین رکھنے کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک زندہ حقیقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ وحی، اس کے نشانات اور تجربات کے ذریعے بار بار ثابت ہوتی ہے۔ جو شخص تقویٰ اور سچائی کی راہ پر چلتا ہے، اللہ تعالیٰ خود اس پر اپنی ہستی کے ثبوت ظاہر کر دیتا ہے۔ یہی ایمان بالغیب کی اصل حقیقت ہے، جو انسان کو نہ صرف دنیاوی کامیابی عطا کرتی ہے بلکہ آخرت میں بھی سرخرو کرتی ہے۔
پھر قرآن کریم میں جو آتا ہے کہ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ کہ غیب پر ایمان ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی نہایت لطیف تشریح فرمائی ہے۔ ایک جگہ فرمایا کہ غیب بھی خدا کا نام ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد10صفحہ11، ایڈیشن 2022ء)

(محمود احمد ملک)(بشکریہ ج)

اداریہ: ایمان بالغیب – یقینِ کامل کی بنیاد” ایک تبصرہ

  1. اچھا مضمون تھا یہ شکریہ کس کو بلا ہوا ہے ویسے بھی اب پتہ نہیں کتنے لوگوں کے نام ج سے شروع ہوتے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں