اردوترجمہ خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع سالانہ اجتماع واقفات نو 2016ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضورِ انور نے فرمایا:چند سال پہلے تک واقفات ِ نو کے اجتماع میں حاضر لڑکیاں سب چھوٹی عمر کی ہوتی تھیں۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اب خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کافی بڑی تعداد واقفات ِ نَو کی ایسی ہے جو خود بھی مائیں بن گئی ہیں۔اور ماں ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اپنے بچوں کو بھی تحریک ِ وقف ِ نو میں پیش کیا ہے۔ اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک ِ وقف ِ نو جو 29سال پہلے شروع ہوئی تھی ،اب ایک نسل سے دوسری نسل میں داخل ہو چکی ہے۔اب یہ تحریک اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ ایک نسل جس نے وقف ہونے کی حیثیت سے تعلیم و تربیت اور رہنمائی حاصل کی تھی وہ اب اس تعلیم و تربیت کو اگلی نسل میں منتقل کر رہی ہے۔

                حضور ِ انور نے فرمایا:اس حقیقت کی روشنی میں آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس زاویے سے واقفات ِ نو کی ذمہ داری پہلے سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔اس وقت تقریباً 25فیصد واقفات ِ نو اس عمر کو پہنچ چکی ہیں کہ یا تو اُن کی شادی ہو چکی ہے یا وہ  شادی کی عمر کو پہنچنے والی ہیں۔اور شادی شدہ میں سے کافی تعداد کے بفضل ِ تعالیٰ بچے بھی ہیں۔اور مستقبل میں یہ تعداد مستقل طور پر بڑھتی جائے گی انشاءاللہ تعالیٰ۔ ایک طرف تو اس خیال سے انسان بہت خوش ہوتا ہے کہ اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ جماعت کو ہزاروں ایسی مائیں عطا فرما رہا ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں دین کی خاطر وقف کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔مگر دوسری طرف خوف اور فکر بھی پیدا ہوتا ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ ان مائوں کی ذمہ داریاں بہت زیادہ وسعت اختیار کر جاتی ہیں۔اور یہ یقینی بات ہے کہ اگر وہ اپنے بچوں کی تربیت صحیح طور پر نہیں کریں گی تو وہ خدا تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہو ں گی۔

          اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں وضاحت سے فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو کوئی ذمہ داری یا امانت سپرد کی جاتی ہے اور وہ اُس امانت کا حق ادا نہیں کرتے تو اُن سے اس کا حساب لیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ قُرآنِ کریم میں مومنین کے بارہ میں فرماتا ہے:

وَالَّذِیۡنَ ھُمۡ لِاَمٰنٰتِھِمۡ وَعَھۡدِھِمۡ رٰعُوۡنَ

(سورۃ المومنون، آیت:9)

 ’’اوروہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں۔‘‘(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ)

حضور ِ انور نے فرمایا: اُس خوش نصیب گروہ میں شامل ہونے کی حیثیت سے جنہیں یہ سعادت ملی ہے کہ مومنین میں سے ہوتے ہوئے،وہ مزید آگے بڑھے ہیںاور انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ وہ ان امانتوں کا حق دوسروں سے بڑھ کر ادا کریں گے۔تو آپ اندازہ کریں کہ آپ کی ذمہ داریاں کس قدر وزن اور اہمیت رکھتی ہیں ۔آپ وہ ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنے کا عہد کیا ہوا ہے ۔آپ وہ ہیں جنہوں نے دنیاوی لذات کو خدا تعالیٰ کی خاطر ترک کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔

          حضور ِ انور نے فرمایا :یہ بات خاص طور پر اُن بچیوں کے لئے بہت اہم ہے جو پندرہ سال سے اوپر ہو چکی ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی قدر اور اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیں کیونکہ انہوں نے اپنی رضامندی سے، سمجھداری کی عمر کو پہنچ کر اپنے اُس عہد کی تجدید کی ہے جو اُن کے والدین نے اُن کی پیدائش سے پہلے کیا تھا۔اِس عمر میں آ کر اِن بچیوں کو اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وقف کا کیا مفہوم ہے؟اپنی تمام زندگی کو  دین کے لئے وقف کر دینا اور یہ کہ وقف کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ اور اس عہد کے کیا مطالبات ہیں ؟یہ عہد اُن سے کیا چاہتا ہے ؟

          حضور ِ انور نے فرمایا:

          وہ واقفات ِ نو جو اَب مائیں بن چکی ہیں ،اُن کو یہ احساس ہوگا کہ اندازاً بیس سال پہلے اُن کے والدین نے اُن کی زندگیاں دین کے لئے وقف کر دی تھیں ۔یہ انہوں نے قرآن ِ کریم میں بیان فرمودہ اس سنّت کے مطابق کیا تھا جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۔  اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ( اٰل عمرٰن:36)’’جب عمران کی ایک عورت نے کہا اے میرے ربّ!جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے یقینا وہ میں نے تیری نذرکر دیا(دنیا کے جھمیلوں سے)آزاد کرتے ہوئے۔پس تُو مجھ سے قبول کرلے۔یقینا تُو ہی بہت سننے والا (اور)بہت جاننے والا ہے۔‘‘(اردو ترجمہ بیان فرمودہ: حضرتحضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ)

          حضور ِ انور نے فرمایا:آج اپنی مائوں کے اُس عہد کو آپ پورا کر رہی ہیں اور آپ خود یہ عہد کر رہی ہیں کہ جو اولاد آپ کو ا للہ تعالیٰ عطا فرمائے گا اس کو آپ خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر رہی ہیں۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ اب آپ اُس عمر کو پہنچ چکی ہیں جہاں آپ کے خیالات میں پختگی پیدا ہو جانی چاہئے اور آپ کو اپنی وسیع ذمہ داریوںکا پورا احساس ہونا چاہئے۔  آپ کو احساس ہونا چاہئے کہ واقفات ِ نو کی تحریک کا حصہ ہونا کوئی عام سی بات نہیں ہے۔ آپ کو اپنی روز مرہ زندگی میں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے۔کسی بھی قومیت یا ثقافت سے آپ کو ہرگز مر عوب نہیں ہونا چاہئے۔اور نہ ہی آپ کو تازہ ترین فیشنوں اور رجحانات سے متاثر ہونا چاہئے ۔بلکہ آپ کی توجہ ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں پر مرکوز رہنی چاہئے۔آپ کو اس چیز کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ آپ کون ہیں اور کیوں ہیں؟  لہٰذا صرف زبانی یہ دعویٰ کرنا کہ آپ احمدی ہیں کافی نہیں۔ آپ کو یہ سوال بھی اپنے آپ سے کرنا چاہئے کہ آپ احمدی کیوں ہیں؟صرف یہ بات کافی نہیں کہ آپ کہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مانا ہے۔ بلکہ آپ کا سوال یہ ہونا چاہئے کہ:آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیوں مانا ہے؟

          حضور ِ انور نے فرمایا: یہ کافی نہیں کہ آپ صرف یہ کہہ دیں کہ آپ اپنے وقف کے عہد کو پورا کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں بلکہ آپ کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ آپ کس طرح اس عہد کو پورا کریں گی؟ اور کیوں؟

          یہ وہ سوالات ہیں جن پر آپ کو گہرائی میں اُتر کر غوروفکر کرنا چاہئے ۔یقینا پھر ہی آپ کو احساس ہوگا کہ زندگی وقف کرنے کی حیثیت سے آپ کا بنیادی فرض یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تشریف لانے کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے وقف ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کہ آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور آنحضور ﷺ کی پیشگوئیوں کو پورا کرنا تھا۔

          حضور ِ انور نے فرمایا :حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد کیا تھا؟آپ کی تشریف آوری کا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کو خدا تعالیٰ کے قریب کیا جائے اور مخلوق ِخدا کے حقوق کی حفاظت کا انتظام کیا جائے ۔ آپ کی بعثت کا اصل مقصد اپنے اقوال ،افعال اور  ذاتی نمونہ کو پیش کرکے ،دنیا کو سچی اسلا می تعلیمات کی روشنی سے منور کر نا تھا۔اوراسلام کے سچے  پیغام کو زمین کے کناروں تک پہنچانا تھا۔اس لحاظ سے واقفات ِ نَو ہونے کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمہ داری اور فرض ہے کہ آپ ان تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں لاگو کریں اور ہر سمت میں جہاں تک آپ سے ممکن ہو، پھیلائیں ۔اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے بنیادی چیز تو دعائیں ہیںاور عبادتِ الٰہی!صرِف اور صرِف جب آپ کا ذاتی تعلق خدا تعالیٰ سے قائم ہوگا اور صرف اس صورت میں کہ آپ عبادت کو صحیح رنگ میں، اُس کے تمام حقوق ادا کر کے بجا لا رہی ہوں گی یعنی پانچ فرض نمازیں اور نوافل ادا کرتے ہوئے ،تب ہی آپ دوسروں کو بھی صحیح اخلاقی نمونہ دکھانے والی ہو سکیں گی اور صرف تب ہی آپ دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر سکیں گی۔سچی اسلامی تعلیمات کو اپناتے ہوئے دوسروں کو بھی خالقِ حقیقی کے قریب لانے کا موجب ہو رہی ہوں گی۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:

          آپ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ایک احمدی لڑکی کی حیثیت سے اور خاص طور پر ایک واقفہ  ٔ نو کی حیثیت سے آپ کی زندگی کی اوّلین ترجیح اور مقصودخدا تعالیٰ کی رضا ہو۔

          سوال یہ ہے کہ اس مقصد کو کس طرح حاصل کیا جائے؟جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا اس کا سب سے بنیادی ذریعہ خدا تعالیٰ کی عبادت کاحق ادا کرنا ہے اور اُس کے بعد اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل کرنا ہے ۔اس سلسلہ میں آگے بڑھنے کے لئے از بس ضروری ہے کہ آپ مستقل اسلامی تعلیمات کا علم بڑھانے کی کوشش کرتی رہیں ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:ایک دفعہ جب آپ اپنے دین کا علم حاصل کر لیں گی تو پھر یہ آپ پر فرض ہے کہ آپ اس علم کو اپنے بچوں میں بھی منتقل کرتی رہیں۔اس ذریعہ سے جو امانت آپ کے سپرد کی گئی ہے آپ اُس کا حق ادا کرنے والی ہوں گی۔اور یہی ذریعہ ہے اُس عہد کو نبھانے کا بھی جو آپ کے والدین نے آپ کی پیدائش سے پہلے کیا تھا۔مگر صرف یہ کافی نہیں کہ آپ صرف اپنے ہی بچوں یا اپنے ہی خاندان تک اِس کو محدود رکھیں بلکہ ایک واقفۂ نَو کی حیثیت سے یہ آپ کی ذمہ داری بلکہ حقیقت میں آپ کا فرض ہے کہ آپ ان خوبصورت تعلیمات کو معاشرہ میں پھیلائیں تاکہ دوسرے بھی اس سے فیض حاصل کریں اور اسلام کی سچائی دور و نزدیک عیاں ہو جائے۔

          حضورِ انور نے فرمایا:یہ بات واضح ہے کہ آج کی دنیا میں خالق اور مخلوق کے درمیان خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔لوگ مذہب میں کم سے کم دلچسپی لینے لگے ہیںاور ایک بڑھتی ہوئی تعداد ایسی ہے جو خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکار کرنے لگی ہے ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ مذہب کو مضحکہ خیز سمجھنے لگے ہیں یا پھر اسے ہر وقت طعن و تشنیع اور ہنسی مذاق کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔اس قسم کی صورتحال میں رہتے ہوئے آپ کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے کہ آپ اپنے دین کی معرفت حاصل کریں اور اپنے ایمان میں مضبوطی حاصل کریں۔ آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ خدا تعالیٰ سے اپنا ذاتی تعلق پیدا کریں تاکہ آپ دوسروں کو بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین دلا سکیں اور اپنے عمل سے دکھا سکیں کہ خدا تعالیٰ اب بھی اُن کی بات سنتا ہے جو اُسے خلوص ِ نیت کے ساتھ تلاش کرتے ہیں ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:جب آپ کا ذاتی تعلق خدا تعالیٰ کے ساتھ ہو گا تب ہی آپ دوسروں کو یقین دلا سکیں گی کہ خدا تعالیٰ اُن لوگوں کی دعائوں کو قبول کرتا ہے جو اُس کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہیں اور وہ انہیں گناہوں اور برائیوں سے بچا لیتا ہے ۔اس سے بڑھ کراگلا قدم یہ ہے کہ آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ معاشرہ کو بتائیں کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ۔مثلاً یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ دوسروں کو سمجھائیں کہ آزادی کے نام پر بد اخلاقی میں مبتلا ہونا انسانی اقدار کو گرانے کے برابر ہے ،بجائے ان کی سر بلندی کے ۔اس قسم کا رویّہ عزت ِ نفس کو مجروح کرنے کا باعث ہوتا ہے بجائے اس کے کہ اُس میں ترقی ہو۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:آپ کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہوگاکہ جو مذہبی لوگ ہوتے ہیں اُن کے اخلاق اور معیار بہت بلند ہوتے ہیں ۔یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ دوسروں کو بتائیں کہ دنیاوی لذات کے پیچھے بھاگنا زندگی کا مقصد نہیں ہے بلکہ بہت اہم مقصود زندگی کا یہ ہے کہ اپنے خالق کے ساتھ انسان کا تعلق پیدا ہو جائے ۔جب کوئی شخص اس قسم کے تعلق باللہ کو حاصل کر لیتا ہے تو پھر اُس کو قدرتی طور پر دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ رہتی ہے اور زندگی کے ہر قدم پر وہ اعلیٰ اخلاق اور نیکیاں کرنے کی توفیق پاتا ہے ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا: یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ایک خوبصورت ،روادار اور پُرامن معاشرہ کو تشکیل دینے کا باعث ہوتا ہے۔ہم بہت خوش قسمت ہیں کیونکہ قرآن ِ کریم نے ہمیں زندگی کے تمام اصولوں پر رہنمائی عطا فرمائی ہے۔ اور ایک طرف تو قرآن ِ کریم ہمیں اُن نیکیوں کے بارے میں بتاتا ہے جن  کاحصول ہمارے لئے ضروری ہے اور دوسری طرف ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ کون سی چیزیں ایسی ہیں جو برائیاں اور گناہ شمار ہوتی ہیں اور ہمیں اُن سے ہر قیمت پر بچنا ہوگا۔ مثلاً: قرآن ِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک مومن کو غرباء کا خیال رکھنا چاہئے اور بھوکوں کو کھانا کھلانا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک انسان کو دوسروں کی خاطر قربانی کرنی چاہئے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ ایک شخص کو ہر قسم کے تکبر اور بدظنی سے اپنے آپ کو بچا کر رکھنا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک انسان کو ہمیشہ سچائی پر قائم رہنا چاہئے اور اپنے آپ کو ہر قسم کے جھوٹ اور دھوکہ سے بچانا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کا اور اُس کی مخلوق کا احسان مند رہنا چاہئے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو عفو اور درگزر سے کام لینا چاہئے اور جہاں تک ممکن ہو صبر اور حوصلہ قائم رکھنا چاہئے ۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے اور بہت سے احکامات عطا فرمائے ہیں جن پر اگر ہم عمل کریں تو ہم اپنی زندگیوں کو پاکیزہ اور معاشرہ کو خوبصورت بنانے میں بہت اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

          حضور انور نے فرمایا :واقفات ِ نو میں شامل تمام بچیوں کو اپنے گھروں کو پاکیزگی اور اعلیٰ اخلاق سے سجانا چاہئے اور اس کا طریق یہی ہے کہ فرض نمازوں کو باقاعدگی سے ادا کیا جائے اور ہر طرح کی اچھائی اور نیکیاں ظاہر ہو رہی ہوں۔اگر آپ اس میں کامیاب ہو جائیں تو یہ خوبیاں خودبخود آپ کے بچوں میں منتقل ہوتی چلی جائیں گی اور اس چیز کی ضمانت دینے والی ہوں گی کہ وہ احمدیت کے ساتھ مضبوط تعلق رکھنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے بھی ۔اگر آپ اِ ن بنیادوں پر نیکیوں کو حاصل کرنے والی بن جائیں گی تو آپ کو اپنے عہد میں کامیابی حاصل ہو جائے گی جو پہلے تو آپ کے والدین نے کیا تھا اور بعد میں آپ نے خود اس کی تجدید کی تھی ۔اپنے اعمال کے ذریعے آپ تمام معاشرہ میں نیکیوں کو پھیلانے کا موجب بنیں گی ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:اِن اُمور کو جب آپ اپنے ذہن میں ملحوظ رکھیں گی تو آپ کو یہ ہمیشہ یاد رکھنا ہوگاکہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آپ نے  اپنے دین کو ہر قسم کے معاملات میں،دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ اگر آپ روز کے تازہ فیشن کے رُجحانات میں اُلجھی رہیں گی تو لازمی بات ہے کہ آپ مذہبی تقاضوں سے دُور ہٹتی جائیں گی۔اِسی طرح اگر آپ دنیاوی دلچسپیوں اور دُنیاوی حصول کے پیچھے بھاگنے میں اپنی تمام طاقتیں خرچ کر رہی ہوں گی تو آپ کی دینی ترقی میں حرج واقعہ ہوگا اور آپ کے لئے دین ثانوی حیثیت اختیار کر لے گا۔اس وجہ سے میں آپ کو دوبارہ وضاحت سے کہتا ہوںکہ ممبراتِ وقفِ نَو ہونے کی حیثیت سے آپ میں سے ہر ایک کواپنی ذاتی ذمہ داری کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔آپ کو یہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کو اپنے عَہدوں اور معاہدوں کے بارہ میں جوابدہ ہونا ہے۔

          میرا خیا ل ہے کہ آج کی حاضرات میں سے تقریباً آدھی پندرہ سال کی عمر سے اوپر ہیں اور وہ سمجھداری کی عمر کو پہنچ چکی ہیں ۔اس کے نتیجہ میں آپ کو مکمل طور پر شعور حاصل ہو جانا چاہئے کہ آپ کے اچھے کردار اور اعلیٰ اخلاق ہی ہیں جن کے ذریعہ سے جو عہد آپ نے کیا ہے اور جو امانت آپ کے سپرد کی گئی ہے ،اُس کو آپ پورا کرنے والی ہوں گی۔

مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ اجتماعات اور جلسوں میں خالی شمولیت کیلئے حاضر نہیں ہوتیں بلکہ آپ اِن مواقع پر اس سچی نیت کے ساتھ حاضر ہوتی ہیں کہ آپ اپنی روحانیت میں ترقی کریں گی اور جو نیک باتیں آپ سنیں گی انہیں اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں گی ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کرے کہ صورتحال یہی ہو ۔اس سے پہلے کہ میں آگے بڑھوں ،میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت میں اس چیز کی خاص ضرورت ہے کہ احمدی خواتین ڈاکٹر اور ٹیچر بنیں۔

          اس کے علاوہ ہمیں میڈیا کے شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی خدمات چاہئیں جو ایم ٹی اے اور جماعت کے دیگر شعبہ جات میں ذمہ داریاں ادا کر سکیں ۔اور ہمیں صحافت کے شعبہ میں بھی خواتین کی ضرورت ہے ۔ آپ میں سے جو بھی ان شعبہ جات میں دلچسپی رکھتی ہوں انہیں ان شعبہ جات میں تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔

           حضور ِ انور نے فرمایا:آج کے اجتماع میں بارہ سال سے پندرہ سال کی بچیاں بھی شامل ہیں جویہاں میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں ۔یہ وہ عمر ہے جس میں سمجھداری شروع ہو جاتی ہے اور کچھ ذہنی پختگی بھی ۔ آپ سے مَیں یہ کہوں گا کہ آپ بچپنے سے ترقی کر کے سنجیدہ طریق پر سوچنا شروع کریں کہ آپ کس طرح اچھی احمدی بن سکتی ہیں ؟اور دوسروں کے لئے نمونہ بن سکتی ہیں ۔آپ کو اپنے دین اور مذہب پر غور کرنا چاہئے اور اُس عہد پر بھی جو آپ نے کیا ہے۔ اور اپنی اسکول کی سہیلیوں کے دنیا داری کے اور غیر اخلاقی مظاہروںکو دیکھ کر متاثر نہیں ہونا چاہئے۔آپ کا مطمحِ نظر اور خواہشات کا مرکز اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہو اور آپ کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ آپ  کاکام دوسروں کو بھی ہدایت دینا ہے ۔ ایک احمدی لڑکی کو بجائے اس کے کہ وہ دوسروں کے پیچھے چلے، دوسروں کے لئے نیک نمونہ قائم کرنے والی بننا چاہئے ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:اگر آپ اس طرز کی سوچ رکھیں گی تو پھر آپ اس بات کو سمجھ لیں گی کہ وقف ِ نو کی تحریک کا ممبر ہونے کی اہمیت کیا ہے ۔اپنی چھوٹی عمر کے باوجود آپ کو کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں تک ممکن ہو آپ اسلام کے بارے میں اپنے علم کو بڑھائیں ۔آج کے زمانہ میں اسلام کی سچی تعلیمات کو حاصل کرنے کا واحد ذریعہ وہ کتب ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسلامی تعلیمات کی وضاحت کے لئے تحریر فرمائی ہیں ۔اور جو ہدایات خلفا ئے احمدیت دیتے رہتے ہیں ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا: سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے اور آپ علیہ السلام نے قرآن ِ کریم کی صحیح تفسیر ہمارے سامنے رکھی ہے ۔اس لئے لجنہ میں شامل ہو جانے والی اور بڑی ناصرات جو آپ میں سے ہیں، آپ کو باقاعدگی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے اور جو علم وہ اس سے حاصل کریں اسے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانا ضروری ہے ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:یہاں پر بعض بہت چھوٹی بچیاں بھی میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہیں جو غالباً بارہ سال سے چھوٹی ہیں ۔انہیں بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر احمدی بچی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی حیا کی حفاظت کرے ۔چاہے کوئی بچی آٹھ سال کی یا نو سال کی یا دس سال کی ہے ،اُسے اپنے لباس میں حیا کا خاص خیال رکھنا چاہئے ۔ان کی مائوں نے عہد کیا ہوا ہے کہ یہ وقف ِ نو تحریک کا حصہ ہیں ۔اُنہیں چاہئے کہ وہ ان بچیوں کے دل میں یہ اہم چیز راسخ کر دیں کہ انہوں نے ہمیشہ شرم و حیا کے تقاضوں کے مطابق کپڑے پہننے ہیں ۔

       بہرحال تمام احمدی لڑکیاں جوکپڑے پہنتی ہیں اس میں شرم و حیا کو ملحوظ رکھنا ضروری  ہے مگر واقفات ِ نو کے لئے تو یہ اور بھی زیادہ اہم ہے کہ انہیں اس کا مکمل احساس ہو۔اگر بالکل چھوٹی عمر سے ان کو یہ احساس دلا دیا جائے تو پھر بڑے ہو کر انہیں باپردہ رہنے میں کوئی ہچکچاہٹ یا احساس ِ کمتری نہیں ہوتا ۔

          حضور ِ انور نے فرمایا:جو بچیاں آٹھ، نو یا دس سال کی بھی ہیں انہیں مناسب قسم کے فیشن اپنانے چاہئیں۔,خدا تعالیٰ کے فضل سے چھوٹی احمدی بچیاں بھی بہت ذہین ہیں ۔اس لئے انہیں دین کا علم حاصل کرنا چاہئے اور اپنی ذہانت کو استعمال کر کے اچھے اور مثبت رواج اپنانے چاہئیں ۔ایک چھوٹی بچی کے لئے یہ اہم ہو گا کہ اُس کو جو اچھی باتیں اُس کے والدین بتائیں وہ انہیں غور سے سنے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔

          حضور انور نے فرمایا:یہاں کچھ مائیں بھی موجود ہیں ۔ مَیں انہیں بھی ان کی ذمہ داریاں یاد کروانا چاہتاہوں۔آپ کے بچے صرف تب ہی اچھی چیزیں سیکھیں گے اگر آپ خود ان کے سامنے اچھا نمونہ قائم کر کے دکھائیں گی۔اس وجہ سے آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ نیکیوں کو اپنائیں اور اپنے گھروں کو اعلیٰ اخلاق اور نیکیوں کے ساتھ سجائیں ۔

          حضور ِ انو ر نے فرمایا:آخر میں میری دعا ہے کہ تحریک ِ وقف ِ نَو کی تمام ممبرات اُن امیدوں کو پورا کرنے والی ہوں جو اُن کے والدین نے اُن سے وابستہ کی تھیں جب انہوں نے اِن کی زندگیوں کو اسلام اور جماعت کی خدمت کیلئے وقف کیا تھا۔مَیں دعا کرتا ہوں کہ آپ سب اُن اعلیٰ اقدار کو حاصل کرنے والی ہوں جن کی امید آپ سے جماعت رکھتی ہے اور خلیفہ ٔوقت آپ سے وہ امید رکھتا ہے ۔خدا کرے کہ اس بابرکت تحریک سے تعلق رکھنے والی تمام ممبرات اُن اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے والی ہوں جن کے لئے اُن کے والدین نے انہیں وقف کیا تھا۔خدا کرے کہ ایسا ہو کہ وہ ہمیشہ اپنی زندگیاں رسولِ کریم حضرت محمد مصطفی  ﷺ کی خوبصورت تعلیمات کی روشنی میں گزاریں ۔اللہ تعالیٰ ممبرات ِ تحریک ِ وقف ِ نو کو ہر ہر برکت اور بھلائی سے نوازے۔ آمین۔

اپنا تبصرہ بھیجیں