اردوترجمہ خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع یوکے نیشنل وقف نواجتماع یکم مارچ 2015ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج ایک مرتبہ پھر آپ کو وقف نو اجتماع میں شامل ہونے کی توفیق مل رہی ہے۔ان اجتماعات کے انعقادکا مقصد آپ میں یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ آپ واقف نو ہیں۔ اور آپ کو یہ موقع دینا مقصود ہے کہ آپ دوسرے احمدی نو جوانوں کی نسبت زیادہ جماعتی علم حاصل کریں اور پھر اُن تعلیمات پر دوسروں سے زیادہ عمل کریں۔ اس لئے آپ اجتماع میں شمولیت کو ایک معمولی بات نہ سمجھیں بلکہ آپ کو بخوبی سمجھنا چاہئے کہ اس کی انتہائی اہمیت ہے۔آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والدین نے آپ کی طرف سے ایک عہد کیا تھا کہ آپ جماعت کی خدمت کے لئے وقف ہیں۔ آپ میں سے ایک بڑی تعداد نے اَب اس عمر کو پہنچ کر اپنے اس عہد کی تجدید اور اس کا اعادہ کر لیا ہے۔ اس لئے مجھے آپ سے یہ امید اور توقع ہے کہ آپ سب جو آج یہاں میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اس عہد کو عمر بھر اپنے آخری دم تک نبھاتے چلے جانے کی کوشش کریں گے۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آج مَیں آ پ سے کچھ اہم باتیں کروں گا ۔ سب سے پہلی انتہائی اہم بات یہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ہم سے کیا توقع کی ہے؟ ہر احمدی اور خاص طور پر ہر واقف نو بیعت کرتے وقت اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ دین کو تمام دنیوی معاملات پر مقدّم رکھے گا ۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات اور تعلیمات کو ہمیشہ دنیا کی ہر چیز پر فوقیت دے۔ اس لئے ایک واقف نو کا پہلا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی تمام استعدادیں، قابلیتیں،حِرفت اور ہنر  اپنے دین کی خدمت کے لئے استعمال میں لائے۔ ایک شخص اپنے دینی فرائض کی سر انجام دہی کے بعد اللہ تعالیٰ کی اجازت کے موافق دنیاوی کاموں کو وقت اور توجہ دے سکتا ہے۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: عین ممکن ہے کہ آپ میں سے کئی واقفین نوسے باقاعدہ طور پر جماعتی خدمات نہ لی جائیں۔ یا یوں کہنا چاہئے کہ فی الحال جماعت کو آپ کی باقاعدہ خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔ واقفین نو میں سے ایک بہت معمولی تعداد ایسی ہے جن کا جماعت باقاعدہ خدمت کے لئے انتخاب کرتی ہے۔ لیکن آپ میں سے وہ جنہیں دنیاوی نوکریاں کرنے کی اجازت دی گئی ہے اُن کو ہمیشہ یہ بات اپنے مدّ نظر رکھنی چاہئے کہ جب کبھی بھی آپ کو دین کی خدمت کے لئے بلایا جائے گا چاہے وہ رضاکارانہ طور پر ہو یا باقاعدہ کارکن کے طور پرہو آپ کو فورًا بغیر کسی عذر کے اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش کر دینا چاہئے۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایک اور بہت بڑی ذمہ داری آپ پر یہ عائد ہوتی ہے کہ آپ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کا مقصد اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ اس لئے قدرتی طور پر آپ میں سے وہ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کرنے کا عہد کیا ہے انہیں لازمًا اپنی نمازوں کی حفاظت کا انتہائی اعلیٰ معیار اور نمونہ قائم کرنا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مَردوں کے لئے اپنی نماز کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ پانچوں نمازیں مقررہ اوقات میں ادا کی جائیں اور نمازیں با جماعت ادا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ارشاد فرمایا ہے ۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: قرآن کریم کی روزانہ تلاوت کرنا بھی ایک حقیقی مسلمان کے لئے بہت ضروری ہے۔ لیکن مَیں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بعض واقفین نو بھی باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس لئے آپ کوروزانہ باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ آپ کو صرف قرآن کریم کی عربی عبارت ہی نہیں پڑھنی چاہئے بلکہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا اور اس کا مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے آگاہی حاصل کریں اور پھر اپنی زندگیاں انہیں احکامات کی روشنی میں ڈھال کر بسر کر سکیں۔ جب آپ اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں ڈھالتے ہیں تو کئی ظاہری برایاں جو آپ میں موجود ہیں دُور ہو جاتی ہیں۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہاں مغرب میں رہتے ہوئے آپ بعض اوقات بُری اور غیر اخلاقی عادتوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور اس معاشرے کی برائیوں کی طرف کھچے جاتے ہیں۔ اس لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اصولوں اور احکامات کی روشنی میں ہمیشہ مسلسل استغفار کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ آپ نے ہمیشہ اپنے ذہن اور اپنے خیالات کو پاکیزہ رکھنا ہے ۔آپ معاشرے کے دباؤ میں آ کر اس سے متأثر ہونے والے نہ ہوں بلکہ آپ اُس معاشرے کو جس میں آپ رہتے ہیں متأثر کرنے والے ہوں۔بغیر کسی احساس کمتری کا شکار ہونے کے آپ دوسروں تک اسلام کی خوبصورت تعلیمات پہنچائیں۔ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ واقف نو کی حیثیت سے ایک عظیم خدمت سر انجام دے رہے ہوں گے۔ اب کئی ہزار واقفین نو ہیں اس لئے اگر ہر واقف نو اپنے دائرے میں اور اپنے ماحول میں اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرے کہ وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچائے تو اس طرح اسلام کی حقیقی تعلیمات جماعت احمدیہ کے ذریعہ معاشرے کے ایک اچھے خاصے بڑے طبقے تک پہنچ سکتی ہیں۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس زمانہ میں اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے اور یہ بعض لوگوں کے تشدّد پسندانہ رویے کو اختیار کرنے کے بعد شدّت پسند گروہوں اور تنظیموں میں شامل ہونے سے ہو رہا ہے۔ یہ تنظیمیں شدّت پسندی کی تعلیم دیتی ہیں اور شدّت پسندی کے کاموں میں بھی  ملوث ہیں۔ سینکڑوں ایسے نو جوان ہیں جو برطانیہ کو چھوڑ کر عراق اور شام چلے گئے ہیں اور نام نہاد اسلامی تنظیم ISISمیں یا ISمیں شامل ہو گئے ہیں۔ یہ نو جوان جنہیں دھوکے سے اس جال میں پھنسایا گیا ہے وہ اس دغا میں آ کر بڑے پُر جوش ہو کر یقین رکھتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے اس عمل کا اسلام سے دُور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ہم شاید نو جوانوں کو اس بات کے اصل ملزم نہیں ٹھہرا سکتے اگر اس بات کو مدّ نظر رکھا جائے کہ انہیں اسلام کی غلط تصویر پیش کی گئی ہے اور اسلام کی صریحًا غلط تعلیم دی گئی ہے۔ اس کے نتیجہ میں نو جوان اِن غلط عقائد کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور پھر بد قسمتی سے ان پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن جماعت احمدیہ مسلمہ کے نو جوان اور خاص طور پر واقفین نو نو جوانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بچپن سے ہی اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سیکھیں اور ان کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سکھائی جاتی ہیں۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:اسلام کی حقیقی تعلیمات کو صرف قرآن کریم سے ہی لیا جا سکتا ہے اور قرآن کریم ہی اُن کو دریافت کرنے کا منبع ہے۔اس لئے ہم پر اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل و احسان ہے کہ ہمیں اس دَور میں امام الزمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو قبول کرنے کی سعادت ملی ۔ آپؑ نے اسلام اور قرآن کریم کی حقیقی تعلیمات ہم پر آشکار کیں۔ دوسری طرف اِن ممالک میں ایسے نو جوان ہیں جو اسلام کے غلطی خوردہ عقائد پر اعتقاد رکھنے کی وجہ سے ظالمانہ اور بہیمانہ عمل    سر انجام دے رہے ہیں ۔ احمدی نوجوان اور خاص طور پر واقفین نو کو اس بات کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے کہ وہ دینی علم حاصل کریں ۔ آپ جہاں کہیں بھی ہوں، خواہ آپ سکول میں ہوں ، کالج میں ہوں ، یونیورسٹی میں ہوں یا کسی کمپنی میں ملازمت کر رہے ہوں آپ کو چاہئے کہ دنیا کو اس علم سے یعنی اسلام کی حقیقی تعلیمات کی تشہیر کے ذریعہ سے منور کریں۔ واقفین نو کو چاہئے کہ اپنے ایمان کو پختہ کریں اور یہ اس وقت ہی ممکن ہو گا جب آپ دین کی حقیقی تعلیمات پڑھیں گے۔ قرآن کریم کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ آپ کو چاہئے کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی کتب کا بھی مطالعہ کریں۔ اگر آپ کو اردو پڑھنی نہیں آتی تو آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ان کتب کا مطالعہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے جن کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ آپ کو دین کا حقیقی فہم اور ادراک یا حقیقی علم اِنہیں کتب کے ذریعہ نصیب ہو گا۔

                آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ:

               ’’جو شخص ہماری جماعت میں ہو کر برا نمونہ دکھاتا ہے اور عملی یا اعتقادی کمزوری دکھاتا ہے تو وہ ظالم ہے‘‘۔(ملفوظات جلد5 صفحہ455۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ )

 گو کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی یہ توقع عمومی طور پر ہر فرد جماعت سے ہے لیکن  ایک واقف نو نے تو اپنی تمام زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس لئے ایک واقف نو کو تو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں اُس میں کسی قسم کی عملی یا اعتقادی کمزوری نظر نہ آئے جس کے نتیجہ میں دوسرے احمدی یا غیر احمدی بھی بے ثبات ہو جائیں، ٹھوکر کھا جائیں یا گمراہ ہو جائیں۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آ پ میں انتہائی مضبوط اور غیر متزلزل اعتقاد ہونا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم خاتم النبیّین ہیں یعنی تمام نبیوں کی مہر ہیں ۔ آپ کو اس بات پر مکمل یقین ہونا چاہئے کہ قرآن کریم ہی آخری شرعی کتاب ہے۔ آپ کا اس بات پر کامل اعتقاداور کامل ایمان ہونا چاہئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی کے مطابق مبعوث کیا ہے ۔ آپ کا اس بات پر بھی کامل ایمان اور یقین ہونا چاہئے کہ آپؑ ہی وہ مسیح و مہدی ہیں جن کے اس دور میں ظہور کی پیشگوئی کی گئی تھی ۔ اور آپؑ کا منصب اور آپ کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئی کے مطابق بطور نبی کا ہے۔ لیکن آپ اُمَّتی نبی اور غیر شرعی نبی ہیں۔ یعنی آپؑ کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے بلکہ آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی لائی ہوئی شریعت اور پیغام کوتمام دنیا میں پھیلانے کے لئے آئے تھے۔ آپ کا اس بات پر بھی کامل ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس دَور میں یعنی حضرت     مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے دَور میں تکمیل اشاعت اسلام کے ذرائع اور وسائل پیدا کئے ہیں۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں دین مکمل ہو چکا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم    خاتم البنیّین تھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم تمام نبیوں کی مہرتھے۔لیکن اسلام کے پیغام کو تمام دنیا میں پھیلانے کے وسائل اور ذرئع ابھی ظہور میں نہیں آئے تھے۔ مثلاً میڈیا یا اَور دوسرے ذرائع جن سے پیغام کوپھیلایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ      و السلام کے دَور میں ایسے ذرائع اور وسائل مہیا ہو گئے ہیں جیسا کہ میڈیا ، ٹیلی ویژن، پریس وغیرہ جن سے اسلام کے پیغام کی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک تشہیر ممکن ہو گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کے ساتھ آج جماعت احمدیہ کو بھی یہ ذرائع عطا فرمائے ہیں تاکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دنیا میں پھیلایا جاسکے۔ اس لئے ہر فرد جماعت کا یہ فرض ہے چاہے وہ دنیا کے کسی خطہ کا باشندہ ہو کہ وہ ان جدیدوسائل کا بھر پور اور صحیح طریق پر استعمال کرے۔ افراد جماعت کو چاہئے کہ وہ پوری کوشش کریں کہ اسلام کا پیغام ہر سمت میں اور دنیا کے ہر خطہ میں پہنچ جائے۔ اور اس طرح وہ  اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں کے بھی وارث ٹھہریں گے جو اللہ تعالیٰ نے اس دَور میں جماعت احمدیہ کے ساتھ منصوب کر دئیے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس کے علاوہ آپ میں یہ کامل اور غیرمتزلزل اور ہر شک و شبہ سے پاک یقین ہونا چاہئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وصال کے بعد اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشگوئیوں کے مطابق سچی اور حقیقی خلافت کا نظام قائم کیا جا چکا ہے جس کی کامل اطاعت اور پیروی آپ پر فرض ہے۔ خلافت کی اطاعت اور خلیفۂ وقت کی ہدایات کی تعمیل کا ایک بہت اہم ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ایک عظیم فضل و احسان کی صورت میں قائم کیا ہوا ذریعہ ہے۔ اور وہ ایم ٹی اے ہے۔اس لئے آپ جہاں کہیں ہوں آپ کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ میرا ہر خطبہ ضرور سنیں خواہ وہ کسی بھی ذریعہ سے ہو۔ چاہے      وہ ٹیلی ویژن کے ذریعہ ہو ، Laptopکے ذریعہ ہویا آپ کے موبائل فون کے ذریعہ ہو ۔ اِس دَور میں کوئی بھی یہ جائز عذر نہیں کر سکتا کہ وہ پیغام یا تعلیمات کو موصول کرنے سے قاصر رہا ہے۔نشر و اشاعت کے جدید وسائل کی بدولت اب ہر چیز تک رسائی بآسانی اور فورًا ایک بٹن کے دبانے سے ممکن ہو چکی ہیں۔ اس لئے جہاں تک میرے خطبات کا تعلق ہے ان تک بھی آپ کی رسائی اور دسترس مختلف ذرائع سے ہو سکتی ہے۔ آپ میرے خطبات ایم ٹی اے پر سن سکتے ہیںیا اس کے علاوہ آپ ایم ٹی اے کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور ایم ٹی اے کی on demand سروس کے ذریعہ بھی میرے خطبات کو سن سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایم ٹی اے کے کئی دوسرے پروگرامز بھی آپ کے لئے دیکھنا بہت ضروری ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعہ آپ کا دینی علم بڑھے گا اور اس طرح آپ کا خلافت سے بھی تعلق پختہ اور مضبوط ہو گا۔اپنے دینی علم کو بڑھانے کا ایک اور ذریعہ alislamویب سائٹ بھی ہے جہاں وسیع پیمانے پر علمی مواد میسر ہے ۔ آپ میں سے جو پختہ عمر کو پہنچ گئے ہیں انہیں جہاں تک بھی ممکن ہو اپنے آپ کو ان تمام مختلف وسائل اور ذرائع سے جوڑ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے جہاں آپ اپنے علم کو بڑھا رہے ہوں گے وہاں آپ کو چاہئے کہ اِن ذرائع کو خلافت کے ساتھ بھی اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے استعمال میں لائیں۔ اور اپنی اس ذمہ داری کو نبھائیں کہ آپ دین کو دنیا کی ہر چیز پر مقدم رکھیں گے۔ اس دَور میں بیشمار ایسے پروگرام ہیں جو ٹی وی ، ویب سائٹس اور انٹرنیٹ وغیرہ پر دستیاب ہیںجو ایک انسان کی توجہ مسلسل اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ان کااستعمال ایک لا متناہی کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ اگر آپ یہ کہیں گے کہ ہمیں پہلے اپنے دنیاوی کاموں کو مکمل کرنا ہے اور پھر ٹی وی پر یا streaming کے ذریعہ ایم ٹی اے دیکھیں گے تو آپ کو کبھی ایم ٹی اے دیکھنے کا وقت نہیں ملے گا۔ یہ وسائل اور ذرائع آپ کے علم کو بڑھانے میں فائدہ مند ثابت ہوں گے لیکن اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو بہر حال اپنے دین کو مقدم رکھنا ہو گا۔اور اپنی دنیوی مصروفیات اور پروگراموں پر دین کو ترجیح دینی ہو گی۔

               حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:یہ بات بھی یاد رکھیں کہ حضرت مصلح موعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت کے نو جوانوں کو ایک ماٹو (motto) دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ہر احمدی خادم کو چاہئے کہ اس ماٹو کو ہمیشہ اورہر وقت اپنے سامنے رکھے ۔ لیکن ایک واقف نَو نوجوان کو تو خاص طور پر اس ماٹو کی طرف دوسروں کی نسبت زیادہ توجہ دینی چاہئے کیونکہ آپ وہ نوجوان ہیں جنہوں نے جیساکہ مَیں نے کہا ہے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کیا ہے۔ سوخواہ آپ جماعت کے ایک کُل وقتی کام کرنے والے کارکن ہیں یا نہیں آپ بطور واقف نو بہر حال اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ آپ اپنے نفس کی اصلاح کا  معیار اس حد تک بڑھائیں کہ ہر ایک اس بات کو محسوس کرے کہ آپ کا اصلاح نفس کا معیار اور آپ کا ہر عمل جماعت اور آپ کی قوم کی ترقی کا ذریعہ بننے والاہے۔ یہ اصلاح اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جیساکہ مَیں نے کہا ہے کہ جب آپ اسلام کی حقیقی تعلیمات کو سمجھیں گے، اپنے اعتقاد ، اپنے ایمان کو مضبوط کریں گے، اپنے ہر عمل کو ان تعلیمات کی روشنی میں ڈھالیں گے اور اپنی زندگی اسلام ہی کی تعلیمات کی روشنی میں بسر کریں گے۔ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ وہ غیر احمدی مسلمان نو جوان جو اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ اس دنیا کی اصلاح کے لئے ایک اسلامی حکومت کے قیام کی ضرورت ہے اور اس کے لئے جہادی تنظیموں میں شامل ہو کر اپنے آپ کو قربان کر دینے کی ضرورت ہے یہ ہر گز دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا رہے اور نہ ہی اپنے نفس کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔یہ نوجوان  اسلام کی شان و شوکت اور اعلیٰ مقام کو دنیا میں قائم کرنے میں بھی ناکام رہیں گے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اسلام کی عزت اور نیک نامی قائم کرنے کے لئے صرف ایک ہی اصول کامیاب اور فائدہ مند ثابت ہو گا ۔یعنی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں امام وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی رہنمائی کی۔آپؑ نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ انسان کو دو حقوق بہر حال ادا کرنے ہیں۔حقوق میں سے پہلی قسم جس کی تمام شرائط کے ساتھ ادائیگی لازمی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی ہے۔حقوق کی دوسری قسم اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق کے تمام حقوق ادا کرنا ہے۔ اور اسے اپنی تمام تر طاقتوں اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ادا کرنا ہے۔ اس لئے آج مَیں واقفین نو سے کہوں گا کیونکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ آپ ان دونوں حقوق کو اچھی طرح سے سمجھیں ۔ آپ کو چاہئے کہ آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور اسے سمجھیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تعلیمات کو سمجھیں اور خلافت کے ساتھ اپناتعلق مضبوط کریں ۔ اگر آپ ان تمام باتوں پر عمل کریں گے تو پھر آپ حقیقی معنوں میں بہترین واقف نو کہلانے کے لائق ہوں گے۔ پھر آپ دنیا میں جہاں کہیں ہوں گے یا جس کسی ادارے میں کام کر رہے ہوں گے آپ حقیقی واقف نو کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات دوسروں کو دکھا رہے ہوں گے۔ اس طرح پر آپ اپنی جماعت اور افراد جماعت کے حقوق کو ادا کرنے والے ہوں گے۔ اور آپ اپنے وقف کی ذمہ داری کو بھی نبھانے والے ہوں گے۔

 حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: وہ وقف نو بچے جو سکولوں کی چھوٹی جماعتوں میں پڑھ رہے ہیں انہیں بھی اس بات کو یاد رکھنا چاہئے۔ بچپن کے اس دَور میں جو دس سال سے شروع ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے نماز کی ادائیگی کو فرض قرار دیا ہے ۔ آپ اس عمر میں جو کچھ بھی سیکھتے ہیں وہ زندگی بھر آپ کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے ۔ آپ یہ مت سمجھیں کہ دس سال کی عمر بچپن کی عمر ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز اس عمر میں فرض ہے۔نماز اُس عمر میں فرض ہوتی ہے جب آپ اپنی ہوش کی عمر کو پہنچتے ہیں۔ اس لئے یہ عمر صرف کھیلنے کی عمر نہیں ہے بلکہ آپ اس عمر میں اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو استوار کرنے کا آغاز کرتے ہیں اور جماعت سے اپنے تعلق کو مستحکم کرتے ہیں اور اپنا خلافت کے ساتھ وفا کا تعلق مضبوط کرتے ہیں۔ اس لئے ان باتوں کی طرف بچپن ہی سے خاص توجہ دیں۔اگر آپ اِن تمام باتوں پر عمل کریں گے تو انشاء اللہ آپ اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں بھی ترقی کرنے والے ہوں گے کیونکہ جب آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت کرتے ہیں تو      اللہ تعالیٰ کے خاص فضل آپ پر نازل ہوتے ہیں ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کو چاہئے کہ اپنے والدین کی طرف سے کی گئی نصائح پر عمل کریں۔خاص طور پر اُن نصائح پر عمل کریں جو آپ کو اپنے دین سے مزید تعلق بڑھانے کاباعث ہوں۔ اپنے والدین کا کہا ماننے میں بہترین نمونہ پیش کرنے کی کوشش کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کی آئندہ زندگی بھی سنور جائے گی۔ یہ بات یاد رکھیں کہ محض وقف نو سکیم کا ممبر ہو نا ہی آپ کے لئے غیر معمولی اعزاز کی وجہ نہیں ہے ۔ ایک واقف نو کو چاہئے کہ اپنے اندر انتہائی عاجزی پیدا کرے اور کبھی بھی اپنے بھائیوں ، بہنوں یا افراد جماعت کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھے بلکہ ہر ایک سے انتہائی عزت و احترام کے ساتھ ملے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وقف نو کی تحریک میں شامل کیا ہے۔ دوسروں کی نسبت آپ کو اپنے والدین اور اپنے بہن بھائیوں کی زیادہ خدمت کرنی چاہئے ۔ آپ کو یہ کوشش کرنی ہے کہ اسی نہج پر اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ جب آپ اپنے سکول سے واپس لوٹتے ہیں تو فورًا ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھنے سے گریز کریں۔آپ کو چاہئے کہ جسمانی کھیل کود کے لئے ، سکول کے Homeworkکے لئے اور مزید مطالعہ کے لئے کچھ وقت مختص کریں ۔ اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ ان باتوں پر عمل کریں گے تو جوں جوں آپ کی عمر بڑھے گی آپ کی زندگیاں بہتر سے بہتر ہوتی رہیں گی۔ اور آپ کی زندگیاں دوسروں کے لئے مفید ثابت ہوں گی۔خدا کرے کہ آپ سب ان باتوں پر عمل کرنے والے ہوں۔ اب میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں