اردومفہوم خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبرموقع اجتماع خدام الاحمدیہ2014ء
(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سال مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا اجتماع اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ یہ مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا بیالیسواں اجتماع ہے۔یہ امر انتہائی امید افزا اور خوش کن ہے کہ ہر سال مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کا قدم آگے سے آگے بڑھ رہا ہے اور مجموعی طور پر اس کی ترقیات میں دن بدن اضافہ ہوتاچلاجارہاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: خدام الاحمدیہ کو ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کامیاب قومیں اور کامیاب لوگ وہ ہیں جو محض جامد ہو کر ایک جگہ رُک نہیں جاتے بلکہ یقین کامل کے ساتھ آگے بڑھتے رہتے ہیں اورمسلسل بہتری پیدا کرنے اور دُور دراز علاقوں تک پھیلتے چلے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا ایسی جماعت جس کا مقصد ساری دنیا تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا اور ساری دنیا پراُس کی حاکمیت کو قائم کرنا ہے ایسی جماعت کا قدم تو باقی تمام اقوام کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہئے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق ہماری جماعت کا قیام عمل میں آیا تااللہ کا دین یعنی حقیقی اسلام تمام دنیا کے کناروں تک پھیل جائے۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے اُسی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کیا ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی دنیا کو خوشخبری دے دی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عین اُسی زمانہ میں دعویٰ فرمایا جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی اور محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے تک ہی یہ بات ختم نہیں ہو گئی بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت آپ کے حق میں ظاہر ہوئی۔ آغاز میں چند لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تبلیغ اورآپ علیہ السلام کی کتب کوجن میں آپ نے اسلام کا دفاع فرمایا پڑھ کر آپ کے دعویٰ پر ایمان لائے۔ لیکن ان لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی اور ہر طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کا بازار گرم تھا اس مخالفت میں مسلمان، عیسائی، ہندو اور دوسرے مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شامل حال تھی۔ اسی لئے باوجود اس تمام مخالفت کے آپ کی جماعت مسلسل ترقی کی طرف گامزن رہی اور جب1908ء میں آپ کا وصال ہؤا تو اس وقت احمدیوں کی تعداد چار لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی تھی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جہاںاس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تھا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک نشان تھا وہاں یہ بھی ثابت ہوتاہے کہ خداتعالیٰ آج بھی موجود ہے جو اپنی سنّت کے مطابق دنیا کی اصلاح کی غرض سے اپنے فرستادوں کو بھیجتا ہے۔ اگر آپ صرف اسی ایک حقیقت کو دیکھیں توآپ کو پتہ چلے گاکہ یہ ہستی باری تعالیٰ اوراسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے۔ ایک شخص جو ہندوستان کے دور افتادہ گاؤں میں پیدا ہوا۔ جس نے نہ تو باقاعدہ دنیاوی تعلیم حاصل کی اور نہ ہی اس کا اپنے خاندان یا برادری میں کوئی ظاہری مقام تھا۔ایسا شخص جب اللہ تعالیٰ کے نام پر دعویٰ کرتاہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے اوراس دعویٰ کے ساتھ وہ اپنے مشن کا آغازکرتاہے تواسے عظیم الشان کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں۔اور وہ کامیابیاں آج بھی جاری و ساری ہیں۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ آج جماعت احمدیہ دنیا کے 200 سے زائد ممالک تک پھیل چکی ہے۔ آج بھی وہ خدا پہلے کی طرح جماعت کی سچائی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو لوگوں کے دلوں میں براہِ راست ڈال رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں نفوس جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: جماعت میں داخل ہونے والوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان کی صداقت کی طرف رہنمائی فرمائی۔اب مَیں آپ کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی اور آج کے دَور کی بھی چند مثالیں پیش کرتا ہوں جن سے آپ کو اندازہ ہوگاکہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی کو لوگوں کے دلوں میں قائم کیا۔
حضرت رحمت اللہ صاحب احمدی رضی اللہ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جب کہ ان کی عمر صرف سترہ یا اٹھارہ برس تھی۔ آپ لوگ جو میرے سامنے بیٹھے ہیںآپ میں سے بہت سوں کی عمر بھی یہی ہوگی۔ آپ لوگ جب یہ واقعہ سنیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگاکہ اتنی کم عمر میں بھی ان کی سوچ کس قدر بلند تھی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میرے طالبعلمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ تشریف لائے اور کچھ دیر قیام فرمایا۔ میں وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر صرف نورہی نور نظرآتا ۔ مَیں اکثر سوچاکرتاتھا کہ مولوی کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف زبان درازی کر سکتے ہیں اور آپ علیہ السلام کے بارہ میں شبہات پیدا کرسکتے ہیں جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا چہرہ تو صرف حسن اور نور سے معمور ہے؟اور یہ کسی جھوٹے کا چہرہ ہو ہی نہیں سکتا! آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی کرنا چاہتا تھا۔ اسی لئے انہی دنوں مجھے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصنیف’ازالہ اوہام‘ کے دو حصے بھیجے ۔ جب مَیں نے اس کتاب کے دونوں حصوں کا مطالعہ کیا تو مجھے خالصتاً نور اور ہدایت ہی دکھائی دی۔ میں رات بھر کتاب کا مطالعہ کرتا رہتا اور بعض اوقات کتاب ہاتھ میں ہی ہوتی اور سوجاتا۔ میں نے اس کتاب کا مطالعہ جاری رکھا اور جوں جوں یہ کتاب پڑھتاجاتامیری آنکھوں سے آنسو رواںہونے لگ جاتے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں روتے روتے سوال کیا کرتاکہ ’اے اللہ! کیا وجہ ہے کہ دوسرے مولوی قرآن کریم کی تعلیم کو پس پشت ڈالتے ہیں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تو حرف حرف سے صرف قرآن کریم کی محبت ہی ظاہر ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جیسے ہی میں نے یہ کتا ب پڑھی میرے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت کا چشمہ پھوٹ پڑا۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت رشید احمد گنگوہی نا م کا ایک مشہور غیر احمدی مولوی تھا جو بہت بڑا عالم سمجھاجاتاتھا۔میں نے مولوی صاحب کو لکھ کرپوچھا کہ حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم کی تیس آیات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کو ثابت کیا ہے۔ آپ کو چاہئے کہ اگر مسیح علیہ السلام زندہ ہیں تو مجھے بتائیں کہ قرآنِ کریم کی کونسی آیات اور کن احادیث سے یہ ثابت ہوتاہے؟ آپ کو چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کی تیس آیات کے حوالہ سے وفاتِ مسیح کے جو دلائل پیش کئے ہیںآپ ان کا ردّپیش کریں۔ اگر آپ اس کا ردّ بھجوادیں گے تو مَیں اسے اپنے خرچ پر شائع کر واؤں گا ۔ مگر اس کے جواب میں مولوی صاحب نے مجھے لکھا کہ مرزا صاحب کے مریدوں کے ساتھ عیسیٰ کی وفات اور حیات کی بحث میں نہ پڑو۔ کیونکہ اگر تم صرف قرآن کریم کی ہی بات کروگے تو ایسی کئی آیات ہیں جن سے وفات مسیح نکلتی ہے۔ پس یہ ایک متنازعہ فیہ مسئلہ ہے۔ اس لئے اس کی بجائے مرزا صاحب سے صرف اس موضوع پر بات کروکہ انہوں نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیونکر کیاہے؟
حضرت رحمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اس کے جواب میں لکھا کہ اگر تو مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام سچے ہیں اور مجھے مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ اس پر مولوی صاحب نے کہا کہ تم پر مرزا صاحب کا بداثر ہو گیا ہے اس لئے میں دعا کروں گا کہ یہ بد اثر ختم ہو جائے۔ اس کے جواب میں حضرت رحمت اللہ صاحب نے جو اس وقت ابھی ایک نوجوان تھے مولوی صاحب کو لکھاکہ بہترہے کہ آپ اپنے لئے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے۔ اس کے بعد حضرت رحمت اللہ صاحب کامل عاجزی کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضورجھک گئے۔اور ان کا دل اللہ تعالیٰ کے سامنے پگھل گیا اور انہیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے عرش لرز اُٹھاہے۔وہ بیان کرتے ہیں کہ اسی حالت میں مَیں نے خلوص کے ساتھ دعا کی کہ مجھے صرف اللہ کی محبت اور رضا ہی چاہئے اور اس راہ میں اپنی عزت قربان کرنے کے لئے تیار ہوںاور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی رسوائی قبول کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مَیںنے دعاکی کہ اللہ میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ کے بعد مَیں نے 25؍دسمبر 1893ء کو خواب میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کادیدارکیا۔خواب میں ہی مَیں اپنے گاؤں میں وضو کر رہاتھا اور اسی اثناء میں کوئی شخص آیا اور اس نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گاؤں میں بنفس نفیس موجود ہیں اور آپ یہیں قیام فرمائیں گے۔ مَیں نے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ تو مجھے بتایاگیا کہ یہ جو تمام خیمے مجھے نظر آ رہے ہیں وہ خیمے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہیں۔ اس کے بعد مَیں نے خواب میں ہی جلدی سے نماز ادا کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کی معیت میں وہاں موجود تھے اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا اور کمال عاجزی سے اپنے آقا کے سامنے بیٹھنے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے مصافحے کا بھی شرف حاصل کیا۔اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عربی زبان میں خطاب فرما رہے تھے۔ میں نے حتی الوسع اس کو سمجھنے کی کوشش کی۔ بعض اوقات آپ چند کلمات اردو زبان میں بھی فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما رہے تھے کہ مَیں صادق ہوں اس لئے مجھے جھوٹا سمجھ کر ردّ مت کرو۔
حضرت رحمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں ہی جواباً عرض کیاکہ ’ اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا یَا َرسُوْلَ اللّٰہ۔ کہ یا رسول اللہ ہم آپ پر ایمان لاتے ہیں اور ہم آپ کی صداقت کا اقرار کرتے ہیں۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ اس خواب میں سارے کا سارا گاؤ ں مسلمانوں کا تھا لیکن اس کے باوجود بھی اس گاؤں کے رہنے والوں میں سے کوئی ایک بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوا جس کی وجہ سے مَیں سخت حیرت اور تعجب کا شکار تھا۔ خواب میں مَیں نے خیال کیاکہ آج ہی وہ دن ہے کہ جب اپنا آپ مکمل طور خدا کے حضور سپرد کردیا جائے اور اپنے آقا کے سامنے مکمل طور پر قربان ہوجایا جائے۔ میں نے ایسا محسوس کیا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نشأۃ اُولیٰ کا زمانہ ہے ۔گو پہلے مجھے بتایا گیا تھا کہ آنحضرت ؐ یہیں قیام فرمائیں گے لیکن پھر معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے جانے کے لئے روانہ ہونے لگے ہیں تو یہ سن کر مَیں آبدیدہ ہوگیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ کیا آپ واقعی تشریف لے جارہے ہیں اور اگر ایسا ہی ہے تو مَیں کس طرح آپ سے دوبارہ ملاقات کا شرف حاصل کر سکتا ہوں؟ اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ پریشان مت ہو۔ ہم تم سے خود ہی ملیں گے۔ حضرت رحمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس خواب کے بعد میرے دل میں یہ بات ڈال دی گئی کہ حضرت مرزا صاحب ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ہیں اوراس طرح یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ہدایت اور صداقت کا ایک عملی اظہار تھا ۔ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ انہوں نے بیعت کا خط حضور کی خدمت میں روانہ کر دیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:یہ خواب قرآن کریم کی سورۃ جمعہ کی تیسری اور چوتھی آیات کی تشریح ہی تھی جن کی ( اِس اجلاس کے)آغاز میں تلاوت کی گئی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: ’’وہی ہے جس نے اُمّی لوگوں میں انہی میں سے ایک عظیم رسول مبعوث کیا۔ وہ اُن پر اس کی آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب کی اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے جبکہ اس سے پہلے وہ یقینا کھلی کھلی گمراہی میں تھے۔ اور انہی میں سے دوسروں کی طرف بھی (اسے مبعوث کیا ہے) جو ابھی اُن سے نہیں ملے۔ وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحب حکمت ہے۔‘‘ (ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ ۔آیت3 و 4)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک اور صحابی حضرت محمود خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ 1902ء میں انہوں نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ان کی گود میں چاندآ گرا ہے ۔انہوں نے اس خواب کا ذکر سید محمد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ سے کیا جو ایک مخلص احمدی تھے اور سید محمد شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ اس خواب کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بہت بڑا رُتبہ حاصل ہوگا یاپھر آپ کسی متقی شخص کے ہاتھ پر بیعت کریں گے۔
اس وقت حضرت محمود خان صاحبؓ کی عمر صرف 24 برس تھی۔حضرت محمود خان صاحبؓ اور سید محمد شاہ صاحب دونوں ایک ہی سکول میں ملازمت کرتے تھے۔ سید محمد شاہ صاحب نے محمود خان صاحب کو تبلیغ شروع کر دی اور ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو پنڈت لیکھرام سے متعلق پیشگوئی تھی اس کا بھی بہت چرچا تھا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ میں سے وہ لوگ جو اس پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی سے آگاہ نہیں ہیں مَیں ان کو بتادیتا ہوں کہ پنڈت لیکھرام وہ بدبخت شخص تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے متعلق انتہائی غلیظ زبان استعمال کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بالآخر اسے تنبیہ کی کہ اگر وہ باز نہ آیا تو اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد بنے گااور ایک مقررہ میعاد کے اندر اس کی موت واقع ہوجائے گی۔حضرت محمود خان صاحبؓ نے سید محمدشاہ صاحب سے کہا کہ یہ بڑی مشہور پیشگوئی ہے۔ اگر یہ پیشگوئی سچی ثابت ہوئی تو میں حضرت مرزا صاحب کی بیعت کرلوں گا۔
حضرت محمود خان صاحبؓ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی بعینہٖ پوری ہوئی اور اس طرح انہوں نے فوراًبیعت کرلی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:اسی طرح ایک اَورواقعہ ہے۔ حضرت قائم دین صاحب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے خواب میں دیکھاکہ وہ مسجد میںنماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو کچھ لوگ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ایک آفت آئی ہے جس سے دنیا تباہ ہو جائے گی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس خواب میں ان کو بھی یہ خیال پیدا ہوا کہ اس آفت کے ذریعہ ہرشخص اور ہر چیز تباہ ہو جائے گی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک گہرے سیاہ رنگ کی لکڑی ہے اور انہوں نے لوگوں سے کہا کہ یہ وہ لکڑی ہے جو ہم سب کو تباہ کر دے گی۔ ہمیں چاہئے کہ کم از کم اس وقت تو اللہ تعالیٰ کو یادکریں۔ پھروہ لکڑی ایک بہت بڑے کیڑے کی شکل میں ظاہر ہوئی اوراس لکڑی کے ایک حصہ نے ان کی انگلی کوبھی پکڑلیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ اب میں بھی تباہ ہوجاؤں گا۔
حضرت قائم دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے اس کیڑے سے پوچھا کہ کیا تمہیں خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر مَیںنے پوچھا کہ کیا مرزا صاحب سچے ہیں؟ تو اس کیڑے نے کہا : ہاں! اگر تم نے ان کو نہ مانا تویقینا ہم تمہیں تباہ کر دیں گے کیونکہ وہ سچے ہیں۔ اور اس کیڑے نے تین مرتبہ کہا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچے ہیں۔اور اس کے بعد ان کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے فوراً اپنی والدہ سے پوچھا کہ جمعہ کب ہے ؟ ان کی والدہ نے جواب دیا کہ جمعہ پرسوں ہے۔اس کے بعد آپ قادیان چلے گئے اور وہاں جمعہ کے روز آپ نے بیعت کر لی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ خواب طاعون کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہندوستان میں ظاہر ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بیان فرمایا ہے کہ طاعون آپ علیہ السلام کے حق میں صداقت کا ایک نشان ہے۔ طاعون کی وبا کے پھیلنے سے بہت پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ اعلان فرمادیاتھا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:پس یہ ان نوجوانوں کی مثالیں تھیں جو بے چین اورمضطرب تھے اور جو صداقت کی تلاش میں تھے اوران کی اس طرف راہنمائی بھی کی گئی۔جن واقعات کا تذکرہ میں نے آپ کے سامنے کیا ہے وہ پرانے ہیں۔ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ان مثالوں کا تعلق تو ماضی سے ہے نہ کہ آج کے دَور سے۔اس لئے مَیں آپ کو ایسے واقعات بتاتا ہوں جن کا تعلق دَورِ حاضر سے ہے اور جو ثابت کرتے ہیں کہ ماضی کی طرح اب بھی اللہ تعالیٰ کی مسلسل تائید و نصرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ جماعت احمدیہ دور دور تک پھیل جائے اور متقی لوگ اس جماعت میں شامل ہو جائیں۔
رشید جلالی صاحب ایک مراکشی ہیں اور سپین میں مقیم ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں اپنے بھائی کے ساتھ بیٹھا ہواتھااور ہم ٹی وی پر کوئی مذہبی چینل تلاش کر رہے تھے کہ اتفاقاً ہمیں ایم ٹی اے مل گیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ایم ٹی اے پر امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا ذکرہو رہا تھا۔ شروع میں تو میرا خیال تھا کہ چینل والوں کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے لیکن پھر انٹرنیٹ پر تحقیق کرنے پر احمدیوں کا پتہ چلا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ تحقیق کے دوران مَیں نے ایک مشہور غیر احمدی مولوی شیخ حسن کا دعویٰ پڑھا کہ ظہور امام مہدی صرف سعودی عرب میں ہی ہو گا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے یہ بات بہت عجیب لگی کہ امام مہدی کے لئے ضروری ہے کہ وہ کسی خاص ملک میں ہی ظاہر ہو۔مجھے لگاکہ امام مہدی جہاں بھی ظاہر ہو اس کی بیعت کرلینی چاہئے قطع نظر اس کے کہ وہ سعودی عرب میں یاکہیں اور ظاہر ہو۔ پھرمیں نے انٹرنیٹ پر موجود ہانی طاہر صاحب جو ہمارے عربی ڈیسک میں کام کررہے ہیں ان کے پروگرام دیکھے اور مجھے یہ پروگرامز نہایت موزوں اور معقول لگے ۔ ان پروگرامز کو دیکھنے کے بعد وفاتِ مسیح کے متعلق میرا عقیدہ مکمل طور پر تبدیل ہوگیا اورختم نبوت کی حقیقت کا بھی علم ہوگیا جس کے مطابق امّتی نبی کا ظہور ممکن تھا۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی شکل میں ایسا نبی ظاہر بھی ہوچکاہے جس کے تمام دعاوی حکمت پر مشتمل ہیں اورہرقسم کی جعلسازی سے پاک ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں ایک فسادبرپاہے اور مَیں مغرب یعنی سپین میں رہ رہاہوں لیکن اس کے باوجواللہ تعالیٰ نے سچائی کی طرف میری رہنمائی کی۔
پھر نائیجیریا سے ہمارے ایک مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ وہ مقامی معلم کے ساتھ وہاں دور درازواقع ایک چھوٹے سے گاؤں ‘جاڈبو‘ میں گئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہم وہاں پہنچے تو گاؤں والوں نے اس بات کا قطعاً برا نہیں منایا کہ ہم انہیں تبلیغ کرنے کے لئے آئے ہیں۔ بلکہ پوچھنے لگے کہ یہ کیسے ثابت ہوسکتاہے کہ جوبات ہم کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور امام مہدی واقعی ظہورپذیر ہوچکے ہیں؟ اس پرہمارے مبلغ نے جواب دیا کہ مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں کہ اگر آپ خلوص دل کے ساتھ صحیح راہنمائی پانے کی دعا کریں تو اللہ تعالیٰ خود ہی سچائی کی طرف آپ کی رہنمائی کردے گا۔ اس کے بعدہمارے مبلغ اور معلم صاحب اس گاؤں سے واپس چلے گئے۔ دو ماہ کے بعد اس گاؤں کے دواکابرین جماعت کے مشن ہاؤس میں آئے اورجہاں وہ بیٹھے ہوئے تھے وہاں انہوں نے جماعت کا ایک کیلنڈر دیکھا اور کیلنڈر پر لوائے احمدیت کی تصویر تھی۔ ان مہمانوں نے فوراً پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ اس پرانہیں بتایاگیا کہ یہ ہماری جماعت کاجھنڈا ہے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک مہمان نے بتایا کہ انہوں نے خواب میں دیکھاتھا کہ وہ یہی جھنڈا تھامے ہوئے ہیں۔ وہ کہنے لگے کہ اب ہمیں علم ہو گیا ہے کہ ہمارا خواب سچا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ بھی ایک سچی جماعت ہے اور امام مہدی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزاغلام احمد قادیانی علیہ السلام کی شکل میں مبعوث فرما دیا ہے۔انہوں نے بخوشی اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سن لیا ہے اور فوراً اپنے گاؤں لوٹے اوردوسرے گاؤں والوں کو بتایاکہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی احمدیت کی سچائی کی طرف رہنمائی کی ہے۔ یہ سن کر گاؤں کے 200 سے زائد افرادنے بھی فوراً جماعت میں شمولیت اختیارکرلی۔
پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ خود ہی دنیا کے دُوردراز علاقوں میں رہنے والوں کی بھی رہنمائی کررہاہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ان کی رہنمائی فرماتا ہے جو سعید فطرت ہیں، جو متقی ہیں اور صداقت کی تلاش میں ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ دنیا میں کس جگہ رہتے ہیں۔ پس جب ہم اس بارے میں غورکریں تو ہماری توجہ استغفار اور بخشش طلب کرنے کی طرف مبذول ہونی چاہئے۔ ہمیں خلوص ِ دل کے ساتھ دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے اِ س حصہ میں رہنے والوں کی بھی سچائی کی طرف رہنمائی کرے۔
پھر مصر سے ایک دوست نے اپنا خواب بیان کیاجو انہوں نے احمدی ہونے سے پانچ سال قبل دیکھاتھا۔وہ بیا ن کرتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میں حج اور عمرہ کے لئے گیاہوں لیکن خانہ کعبہ جس علاقے میں واقع ہے وہاں ہر طرف ظلمت ہی ظلمت ہے اور خانۂ کعبہ بھی گردو غبارمیں لپٹاہوا ہے۔میں نے دیکھا کہ لوگ وہاں کعبہ کا طواف کر رہے ہیں لیکن ان کا رخ غلط ہے۔ کعبہ ان کے بائیں طرف ہونے کے بجائے ان کے دائیں طرف تھا۔ خواب میں ہی میں نے سوچاکہ کیا میں ان طواف کرنے والوں میں شامل ہوجاؤں لیکن پھر فیصلہ کیا کہ مَیں کعبہ کو اپنی بائیں طرف رکھتے ہوئے صحیح طریق پرطواف کروں۔ میں نے درست طریق پر طواف کرنا شروع کیا ہی تھا کہ کسی نے مجھ روک لیااور مجھے سے پوچھاکہ میں غلط طریق پر طواف کیوں کررہاہوں؟ مَیں نے اس شخص کو تحدّی سے جواب دیا کہ مَیںطواف ٹھیک کر رہاہوں جبکہ باقی لوگ غلط کررہے ہیں۔ اس پر اس شخص نے مجھے کہاکہ بڑی عجیب بات ہے کہ تمہارے خیال میں باقی سب غلط ہیں اورصرف تم ہی ٹھیک ہو۔ میںنے جواب دیاکہ ہاںصرف میں ٹھیک ہوں اور آپ سب غلط ہیں۔
یہ دوست بیان کرتے ہیں کہ خواب میں ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے میرے خلاف شورو غل برپا کر دیا اورمجھے گھیر لیااور خانہ کعبہ کی حدود سے پھینک باہر کیا۔ مَیںنے سوچاکہ میں کسی دینی عالم کے پاس جاؤں اور اس واقعہ کے متعلق پوچھوں۔ لیکن جب میں مولویوں اور مسلمان علماء کے گروہ کے پاس گیا تو دیکھاکہ یہ علماء بڑی خوبصورت کرسیوں اور صوفوں پر براجمان ہیں اور بڑی بڑی دنیاوی نعمتیں اور آسائشیں ان کے سامنے پڑی ہوئی ہیں۔ مجھے خیال گزرا کہ انہیں عبادت سے کوئی سروکار نہیں ، ان کو تو صرف دنیاوی چیزوں سے مطلب ہے۔یہ دیکھ کر مَیں سخت مغموم ہوگیا کہ اگر علماء دنیا میں پڑجائیں گے تو پھر ایک عام آدمی سے کیا امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے راستہ پر چلے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اُس وقت تو اِس خواب کی مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن جب میں احمدی ہوا تواس خواب کا مطلب مجھ پر واضح ہوگیا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت ہی سچی ہے۔ اور صرف آپ علیہ السلام کی اتباع سے ہی انسان اس زمانے میں راہ راست پر آ سکتا ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:آپ سب جو میرے سامنے اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں انہیں یہ واقعہ سن کر احساس ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق پانا آپ اور آپ کے والدین کے لئے کتنی بڑی خوش قسمتی ہے۔ لیکن احمدیت کے اس راستے پر مضبوطی کے ساتھ گامزن رہنے کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی پیروی کرنے کے لئے اور اپنے ہر عمل کو درست کرنے کے لئے عظیم کوششیں کرنا ہوں گی اور ہر قربانی کے لئے تیاررہناہوگا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:مَیں اب آپ کے سامنے ایک اور واقعہ بیان کرتاہوں جس سے آپ پر پھر واضح ہو گا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نیک بندوں کی رہنمائی فرماتاہے قطع نظر اس کے کہ ان کامذہب کیا ہے اوروہ کس علاقہ سے ہیں۔
لائبیریا سے ہمارے مبلغ نے بیان کیا کہ ایک دوست ابوبکر صاحب نے احمدیت قبول کی مگر ان کی اہلیہ اور بچے اپنے مذہب عیسائیت یاپھر افریقہ کے جو بھی روایتی مذاہب تھے ان پر قائم رہے۔اُس وقت ابو بکر صاحب کی ایک بیٹی نے خواب میں دیکھا کہ بہت سارے احمدی ہیں جو سفید لباس میں ملبوس ہیں اور اس کو کہہ رہے ہیں کہ وہ نماز پڑھے۔ اس لڑکی نے جواب دیا کہ اس کے پاس نماز پڑھنے کے لئے مناسب لباس نہیں ہے۔اور اسی لمحہ اس نے اذان کی آواز سنی اور باہر کی طرف دوڑی تا کہ معلوم کر سکے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اُس نے دیکھا کہ ہرشخص ایک ہی سمت بھاگ رہا ہے اوروہ بھی اسی طرف بھاگنے لگ گئی۔ پھر اس نے خواب میں ہی ہوا میں تیرتی ہوئی ایک چیز دیکھی جو انسانی چہرے سے مشابہ تھی اوراذان کی آوازبھی اس کے منہ سے آ رہی تھی۔ اسی لمحے وہ لڑکی جاگ گئی۔اگلے روز وہ اپنی والدہ کے پاس گئی اور اس سے کہا کہ وہ احمدی ہونے جارہی ہے۔ اس پر اس کی ماں نے کہا کہ تمہارے خاندان والے اوردوسرے عزیزو اقارب کیا کہیں گے؟ لیکن اس لڑکی نے بڑے عزم کے ساتھ جواب دیاکہ اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی کردی ہے اور اب مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ چنانچہ اس نے احمدیہ مشن ہاؤس آکر بیعت کرلی اور اب اپنے خاوند کو بھی تبلیغ کر رہی ہے۔
اسی طرح اردن میں ایک احمدی دوست ’احمد صاحب‘ اپنی بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں مسلسل اس کوشش میں تھا کہ حقیقی اسلام کو جانوں اور سچائی کو تلاش کروں ۔ ہرطرف اسلام کے متعدد فرقے نظر آتے تھے اور ہر فرقہ کے عقائدغیر واضح اور مبہم تھے۔لیکن میں نے مختلف کتب کا مطالعہ جاری رکھا اور مختلف ٹی وی چینلز دیکھتا رہا۔ 2011ء کے اوائل میں اتفاقاً میں نے ایم ٹی اے تھری پر عربی پروگرام ’الحوار المباشر‘ دیکھا جس میں ’جنّ‘ کے موضوع پر بات ہورہی تھی۔ ’جنّ ‘ کا مضمون مسلمانوں کے لئے اور خاص طور پر عرب مسلمانوں کے لئے بہت دلچسپی کا باعث ہے۔مجھے لگتاتھاکہ عرب مسلمان کی حقیقت کو سمجھ نہیں پائے ۔ اور جب میں نے ’الحوار المباشر‘ دیکھا تو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ مجھے اس مضمون کی سمجھ آئی اور احمدی مسلمانوں کے جنّ کے بارے میں عقائد اُن عقائد سے مختلف تھے جو مَیں نے پہلے سن رکھے تھے۔ اس واقعہ کے بعد میں نے جماعت احمدیہ کے متعلق تحقیق شروع کردی۔ مَیں نے مخالفینِ جماعت کے نظریات بھی پڑھے تاکہ میری تحقیق انصاف پر مبنی اور غیر جانبدار ہو ۔ تحقیق کے ساتھ ساتھ میں نے کثرت کے ساتھ دعابھی کی کہ اللہ تعالیٰ میری رہنمائی فرمادے۔ اس کے بعد ایک رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ میرے سامنے ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے قدموں کے نیچے سرخ رنگ کی زمین یا مٹی ہے۔ میں نے دیکھا کہ پاس ہی اور بھی کئی لوگ کھڑے تھے جو اس شخص کی تضحیک کر رہے تھے۔ وہ شخص زمین میں کچھ بو رہا ہے۔میں اُس شخص کے پاس گیا۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو اس شخص نے اپنا سر اٹھایا اورمیں نے دیکھا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عربی میں فرمایا کہ ’میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں صادق ہوں، مَیں کاذب نہیں۔‘ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مجھے اپنا ہاتھ آگے بڑھانے کو کہا۔ جب میں نے اپنا ہاتھ بڑھایاتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہی بیج میرے ہاتھ پر رکھ دیئے اور وہ بیج فوراً ہی بڑھنے لگے یہاں تک کہ میرے ہاتھ پر سبزشاخیں نظر آنے لگ گئیں۔ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کہ یہ کیسے بیج ہیں جو اس قدر تیزی سے پھل پھول رہے ہیں؟ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ برکتوں والے بیج ہیں جو ہمیشہ پھلتے پھولتے رہیں گے ۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ وہی کلمات دہرائے کہ ’’خداکی قسم! میں صادق ہوں، میں کاذب نہیں ہوں۔‘‘ یہ دوست بیان کرتے ہیں کہ اگلے روز جب میں نے ٹی وی لگایا تو ایم ٹی اے پر ایک قصیدہ پڑھا جارہاتھا اور جو شعر اس وقت پڑھا جارہا تھا اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ’خداکی قسم ! میں صادق ہوں۔ میں کاذب نہیں ہوں۔‘ جب میں نے یہ دیکھا تو مجھے یقین ہو گیا کہ میری خواب سچی ہے۔ چنانچہ میں نے فوری طور پر احمدیت قبول کرلی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: پس ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح دنیا کے ہر خطہ میں لوگوں کی رہنمائی فرماتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا بلکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خاص علم و بصیرت سے بھی نوازا اور یقینا حقیقی بصیرت ہی ہدایت کا موجب ہوتی ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تیونس سے ایک خاتون ’حیات صاحبہ‘ لکھتی ہیں کہ مجھے ہمیشہ مذہب میں دلچسپی رہی تھی اور میں نے کئی صوفیوں کی اور مذہبی علماء کی کتب پڑھی تھیں۔ لیکن مجھے لگا کہ ان کتابوں کو پڑھنے کے باوجود بھی میرے اندر کسی قسم کی روحانی تبدیلی پیدا نہیں ہو رہی ۔ لکھتی ہیں کہ مَیں نے چار سال تک صوفیوں کے ایک گروہ میں بھی شمولیت اختیار کی لیکن میرے اندر کسی قسم کی کوئی تبدیلی پیدانہیں ہوئی۔ اس کے بعد ایم ٹی اے کے ذریعہ میرا جماعت سے تعارف ہوا ۔ میں نے جماعت کے بارے میں تحقیق شروع کردی اور انٹرنیٹ پر موجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کرنا شروع کردیا۔جوں جوں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنا شروع کیں تو مَیں نے محسوس کیاکہ میرے اندر ایک روحانی تبدیلی پیداہونا شروع ہوگئی ہے۔ میرے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے بار ے میں مَیں آپ کو ایک واقعہ سناتاہوں ۔ مصطفی ثابت صاحب نے بیان کیاکہ ان کے ایک کزن ’احمد حلمی‘ صاحب جن کا تعلق مصر سے تھا وہ ایک مرتبہ نوجوانی کی عمر میں اپنے ایک دوست ’محمود زینی‘ صاحب کے گھر گئے جہاں میز پر انہوں نے ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کا ایک نسخہ دیکھا ۔ کہتے ہیں کہ اس کتاب پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی انہیں محسوس ہوا کہ یہ کتاب ان کے دل کوچُھو گئی ہے۔ اس پر وہ اپنے دوست سے اجازت لے کر اس کتاب کو گھرلے آئے ۔اور بڑی توجہ کے ساتھ اس کتاب کا مطالعہ شروع کردیا اور اس کتاب کو اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ انہوں نے اس کا آخری لفظ نہ پڑھ لیا۔احمد حلمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ اس کتاب کو پڑھ کر پوری طرح قائل ہوگئے اور فوراً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا۔
پس یہ وہ سعید فطرت لوگ ہیں جن کی خدا تعالیٰ رہنمائی فرماتاہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا: یہ واقعات جومَیں نے ابھی سنائے ہیں یہ صرف محظوظ ہونے کے لئے نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری حالتوں کو بدلنے کا محرّک بننے چاہئیں۔ یہ واقعات اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا باعث ہونے چاہئیںتا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے مطابق وہ معیار حاصل کرنے والے بن سکیں جن کی آپ علیہ السلام کو ہم سے توقع تھی ۔ ہمیں ان تمام مقاصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے جن کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا گیا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:احمدیت کی سچائی میں ذرہ بھر بھی شک نہیں ہے۔ میں نے تو چند ایک واقعات آپ کے سامنے رکھے ہیں جبکہ ایسے واقعات بے شمار ہیں جن سے ثابت ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہماری جماعت کے ساتھ ہے۔پس ہم جو اپنے آپ کواحمدی مسلمان کہتے ہیں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کوبھی سمجھنا چاہئے اور ہم ایسا تبھی کر سکتے ہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی توقعات پر پورااترنے کی کوشش کریں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مثال بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا مقصود اپنی طاقت اور کامیابی کو ثابت کرنا ہے تو وہ مناسب ہتھیار اور سامان جنگ سے اپنے آپ کو لیس کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی دنیاوی طاقت اور مقام کو قائم کرنے کے لئے اہل یورپ نے بڑے عجیب و غریب ہتھیار تیار کئے ہیں۔ اس لئے اگر مسلمان رہنما اور بادشاہ دنیوی کامیابی اور طاقت چاہتے ہیں تو انہیں اپنی نظر یورپ کی طرف رکھنی ہو گی۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ایک احمدی کا ہتھیار کوئی دنیوی اسلحہ نہیں بلکہ ایک احمدی کو تو روحانی ہتھیاروں کی ضرورت ہے اور دعاؤں کی حاجت ہے جو انہیں روحانی مقاصد کے حصول میں مدد دیتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہمارا مدّعا اسلام کی عظمت کو دنیا پر ظاہر کرنا ہے اور جماعت احمدیہ کی سچائی کو دُور دراز علاقوں میں قائم کرنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے لئے کسی دنیوی شئے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے لئے صرف روحانی ہتھیار درکار ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ایسا روحانی سامان اللہ تعالیٰ سے قریبی تعلق قائم کر کے ہی تیار کیا جا سکتا ہے اور یہ ہتھیار قرآن کریم کا مطالعہ کرنے اور اس کے مطالب کو سمجھنے کی جستجو میں مضمر ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:یادرکھیں! قرآن کریم کی بصیرت حاصل کرنے اور اس کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مجلس میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لئے مبعوث فرمایا کہ لوگ خدا تعالیٰ پر ایمان لائیں اور ایک نئی روح سے ایمان میں تقویت حاصل کریں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس لئے ہم سب کو خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے اس طرف توجہ کرنی ہوگی۔ہمیں اپنے ایمانوں کو تقویت دینا ہو گی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کامل پیدا کرنا ہو گا۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے کہ ہم اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس سے دعائیں کریں اور پنج وقتہ نمازوں کا التزام کریں۔
مَیں نے آپ کے سامنے نوجوان لوگوں کی مثالیںہی رکھی ہیں جو نہایت کم عمر میں بھی سچائی کے متلاشی تھے۔ وہ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی خاطر کامل اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک گئے۔ یہ سب لوگ آپ لوگوں کی عمر کے ہی تھے اور ان کے پاس کوئی خاص روحانی طاقت بھی نہ تھی۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ جس ماحول میں پروان چڑھ رہے تھے وہ کوئی مثبت ماحول نہ تھالیکن چونکہ ان کی فطرت نیک تھی اورخدا کا قرب حاصل کرنا چاہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی راہنمائی کی اور ان پر فضل نازل فرمایا۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:پس ایمان کے معاملہ میں عمر کی کوئی حد مقررنہیں ہے۔ جب ایک شخص احمدیت کو قبول کرلیتا ہے توپھراس کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک قریبی تعلق پیداکرے۔ جب یہ تعلق قائم ہوجائے گا تب ہی ہماری جماعت ان مقاصد کو حاصل کرنے والی ہو گی جن کے لئے جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ اگر ہم ان مقاصد کو حاصل نہیں کر رہے تو پھر ہمارے اوپر جو مظالم ہورہے ہیں ان کو برداشت کرنے کا کوئی جواز نہیں رہتا۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھاجائے تو ہم پہلے ہی اپنے آپ کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ اوراگر ہم اُن باتوں پربھی عمل نہ کریں جن پر عمل کرنے کا خدا تعالیٰ کے فرستادہ نے ہمیں حکم دیا ہے تو دینی اعتبار سے بھی ہمارے پاس کچھ نہیں رہے گا۔ ہمیں اس طرف نہایت سنجیدگی سے توجہ دینی ہوگی اور اگر ہم نے توجہ نہ دی تو خدا تعالیٰ کے غضب کو پانے والے بن جائیں گے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ جس مقصد کے لئے اس جماعت کو قائم کیا گیا ہے وہ اس سچائی کے ثبوت کے لئے ہے کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک اس بات کو نہ سمجھ سکے اور اس کے بجائے دنیاوی خواہشات کی پیروی کرے اور مذہب کو کم اہمیت دے تو پھرہم بطور احمدی مسلمان ہونے کے اپنے فرائض ادا کرنے والے نہیں ہوں گے۔
پس ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔ انہیں قرآن کریم کی روشنی میں ہر برائی سے بچتے ہوئے اورہر نیکی کو اختیارکرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزارنی چاہئیں۔ ہر احمدی کو اپنی نماز میں باقاعدہ ہونا چاہئے اور اس سچائی کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کا کردار اتنا اچھا ہونا چاہئے کہ ساری دنیا کے لئے نمونہ ہوتاکہ جب غیر احمدی ہمیں دیکھیں تو گواہی دیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ کے افراد واقعی دوسروں سے ممتازہیں۔آپ اعلیٰ مثالیں قائم کرتے ہوئے اپنے اچھے کردارکے ذریعہ دراصل خاموش تبلیغ کر رہے ہوں گے اور آپ وہ مقاصد حاصل کرنے والے بن رہے ہوں گے جن کے لئے جماعت کا قیام عمل میں آیا۔ دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنا محاسبہ کریں اوراپنے رویّوں پر غور کریں۔آپ لوگوں نے دھوکہ دہی اور منافقت سے پاک ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے حقیقی مقصد کو پوراکرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ زمانہ فساد کا زمانہ ہے کہ جب شیطانی قوتیں ہر طرف سے حملہ آور ہیں اس لئے لوگ مذہب سے دُور جا رہے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ اسلام کے خلاف بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور مسلمانوں کا رویہّ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی پیروی میں نہیں ہے۔ اس لئے اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا ہے کہ اس تمام گندگی اور دھول کو دور کر کے ایک نئے فرقے کا اس زمانے میں آغاز فرمائے۔ اور یہ اسی الٰہی سلسلے کا کام ہے جو احمدیہ مسلم جماعت ہے کہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرے اور دنیا کو بتائے کہ اسلام حقیقت میں کیا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دین کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق اعمال سے ہے اور دوسرے کا عقائد سے۔ آپ نے فرمایا کہ اس دَور میں مسلمان دونوں اعتبار سے اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ نہ تو مسلمانوں کا عمل ایسا ہے جیسا ہونا چاہئے اور نہ ہی ان کے عقائد اسلام کی حقیقی تعلیمات پر مبنی ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام ہر آلودگی سے پاک مذہب ہے اور ہر اعتبار سے اسلام میں فتوحات پانے کی اور ہر دوسری چیز پر اپنی فوقیت کو ثابت کرنے کی صلاحیت ہے۔ لیکن دوسرے مسلمان جو ہتھیار اور حربے بروئے کار لاتے ہیں وہ کبھی اسلام کی فتح کا باعث نہیں بن سکتے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت ہی دنیا کے سامنے حقیقی اسلام کو پیش کرسکتی ہے۔ لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ ہم میں سے ہر شخص مرد و زن، بچہ اور بوڑھا اپنی زندگیوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیمات سے آراستہ نہ کرلے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں اب غیر احمدی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور کھلے عام اس کا اظہارکرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ دوسرے مسلمان فرقوں سے جداہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میں وقتاً فوقتاًکہتارہتا ہوں اور دو دن پہلے بھی خطبہ جمعہ میں اپنے جرمنی کے دورہ کے حوالہ سے بعض غیر احمدی مہمانوں کے تأثرات کا ذکر کیاتھا۔ انہوں نے گواہی دی کہ جماعت احمدیہ اور اس کے افراد کو دیکھ کرانہیں احساس ہواہے کہ اسلام کو میڈیا میں غلط طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور درحقیقت اسلام تو ایک پُر امن مذہب ہے۔ لیکن چند ایک لوگوں پر اپنااچھا اثر چھوڑدینایا صرف چند ایک احمدیوں کا اچھے اخلاق سے پیش آجانا کافی نہیں۔ بلکہ چاہئے کہ ہر ایک احمدی عملی لحاظ سے بھی اور اپنے عقیدہ کے لحاظ سے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیمات کا مظہر ہو۔یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتاجب تک ہر احمدی اس کے لئے کوشش نہ کرے۔ جب اخلاص کے ساتھ یہ کوشش کی جائے گی تو آپ اپنے اندرایک مثبت روحانی تبدیلی اور مثبت اثر محسوس کریں گے اور آپ کے لئے تبلیغ کی راہیں کھلیں گی اور اسلام کی فتح کا وقت قریب آ جائے گا۔ اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ وہ حقیقی احمدی مسلمان بننے کی کوشش کرے اور اس مقصد کو حاصل کرنے والا ہو جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ اللہ کرے ہم سب ایسا کرنے والے ہوں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یقینا ان کوششوں کے سلسلہ میں مجلس خدام الاحمدیہ پر بھاری ذمہ داریاں ہیں۔اس لئے آپ کو آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہو گاا ور ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی کہ جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایاگیا تا کہ دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیمات دکھا سکیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ سب اپنی ذمہ داریوں کو اداکرنے والے ہوں۔
اس کے بعد حضو رانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اسائلم سیکرز سے مخاطب ہو کر اردو زبان میں فرمایا:
بعض جو نئے اسائلم سیکرز آئے ہوئے ہیں ان کو بھی مَیں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ یہاں آئے ہیں تو یہاں آ کر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں ۔ جماعت کی خاطر لوگ جو تکلیفیں وہاں برداشت کر رہے ہیں ان کی وجہ سے آپ اپنے ملک سے نکلے اور اس ملک میں آئے، اور اس ملک میں اکثر لوگوں کے کیس پاس ہوئے ، یہاں آپ کو پناہ ملی ۔ توآپ نے جماعت کی وجہ سے جو مقام یہاں حاصل کیا یا جو پناہ آپ نے حاصل کی اس کو ایک ذمہ داری سمجھیں ۔کیونکہ اب آپ ایک جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ پہلے آپ کو کوئی جانتا تھا یا نہیں جانتا تھا لیکن یہاں آپ کو لوگ اس لئے جانتے ہیں کہ آپ جماعت احمدیہ کے ممبر ہیں۔ اس لئے تمام اسائلم سیکرز اس بات کو سمجھیں۔ یہاں کی رنگینیوں میں نہ پڑ جائیں۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھیں ۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ قرآن کریم کی طرف توجہ دیں۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ اسلام کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اُس مشن کا حصہ بن جائیں جس کو مکمل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔اسی سے آپ کی بقا ہو گی اور اسی سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کی آئندہ نسلوں کی بقا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائے۔
