اردومفہوم خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز برموقع اجتماع لجنہ اماء اللہ یوکے 2014ء

(نوٹ: سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے پرمعارف خطبات و خطابات قرآن کریم، احادیث مبارکہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی لطیف تفسیر ہیں – چنانچہ دوستوں کی خواہش پر ویب سائٹ ’’خادم مسرور‘‘ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد فرمودہ تمام خطبات جمعہ اور خطابات upload کئے جارہے ہیں تاکہ تقاریر اور مضامین کی تیاری کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ مواد ایک ہی جگہ پر باآسانی دستیاب ہوسکے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اس سے پہلے کہ میں اپنے خطاب کا آغاز کروں میں ایک بات کی وضا حت کرنا چاہتا ہوں کہ صدر صاحبہ لجنہ  اماء اللہ نے صد سالہ تشکر کے سلسلے میں جو تحفہ پیش کیا ہے اس سے متعلق پہلے میرا خیال تھا کہ یہ یوکے(UK) جماعت کو ان کے مختلف منصو بہ جا ت کی مدّ میں دے دینا چاہئے۔ لیکن پھرمجھے خیال گز را اور میرے نز دیک یہ بہتر فیصلہ ہے کہ مجھے اس رقم کو لجنہ اماء اللہ یوکے(UK) کو اپنی پراپرٹی خریدنے کے لئے دے دینا چا ہئے کیونکہ اب ہر ذیلی تنظیم اپنی پرا پر ٹی خریدنے کے لئے کوشش کر رہی ہے جہاں وہ اپنی تقریبات کا انعقاد کر سکیں اور لجنہ اماء اللہ کو بھی اپنی پراپرٹی کی ضرورت ہے۔ اس لئے میرے نز دیک یہ بہتر اور مناسب فیصلہ ہے کہ اس رقم کو اس فنڈ میں شامل کر لیا جائے۔ اگر ایسے فنڈکو جاری کیا جا چکا ہے تو اِس رقم کو اُس میں شامل کر لیا جائے اور اگر ابھی تک پراپرٹی خریدنے کے سلسلے میں کسی قسم کے فنڈ کو جاری نہیں کیا گیا تو اب انہیں چاہئے کہ اِس رقم کے ساتھ ایسے فنڈ کا آغاز کر دیں۔ مجھے امید ہے کہ لجنہ اماء اللہ یوکے(UK) مستقبل قریب میںاپنی پراپرٹی خریدنے کی کوشش کرے گی۔ انشا ء ا للہ ۔

               اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج لجنہ اماء اللہ یوکے کا اجتماع اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ کئی مواقع پر مَیں نے آپ کو اس انتہائی اہم اور قابل عزت مقام کی یاددہانی کرائی ہے جو جماعت احمدیہ میں لجنہ اماء اللہ کو حاصل ہے۔ اگر ہم محض تعداد کے حوالے سے بھی جا ئزہ لیں تو ہماری جماعت میںخوا تین کی تعداد مردوں کی تعد اد کے با لمقا بل زیادہ ہے اور یہی رجحان عمومی طور پر دنیا بھر کی آبادی میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ امر کہ لجنہ اماء اللہ کو جماعت میںایک خاص اور نما یاںمقا م حاصل ہے اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ لجنہ کی تمام سرگرمیاں ان تعلیمات کی روشنی میں ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئیں۔ جیسا کہ آپ سب جانتی ہیں کہ اِس دَور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسلام کی خا لص اورحقیقی تعلیمات کے احیاء اور ا ن کو مضبوطی کے سا تھ قا ئم کر نے کے لئے مبعوث فرمایا۔ اس لئے آپ سب انتہائی خوش قسمت ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو امام الزمان کو پہچاننے اور ان کی جماعت میں شا مل ہو نے کی توفیق عطا فرمائی۔

               ہمیشہ یاد رکھیں کہ جہاں قرآن کریم نے عورتوں کو بعض ذمہ داریاں سونپی ہیں یا بعض حد ود مقرر فر ما ئی ہیں وہاں قرآن کریم نے عورتوں کے بے شمار حقوق بھی وضع فرمائے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ تمام اعمال صالحہ کا اجر عطا فرمائے گا وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان انعامات کے حقدار صرف مَردہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں کو ان کے اعمال صالحہ کی مناسبت سے اجر دیا جائے گا۔ لہٰذااگر اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے احکامات جاری فرمائے ہیں جن پر بعض حالات میں عمل کر ناعورتوں کو مشکل لگے یا وہ اسے پابندی خیال کریںتوان پر عمل کرنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر بھی بہت بڑھاکر دیا جائے گا۔ مثلاً جہاں اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم دیا ہے وہاں یہ بھی فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت محبت اور بخشش ان عورتوں پر بارش کی طرح نازل ہو گی جو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی فرمانبرداری کرتی ہیں ۔

               مز ید بر آں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو پردہ کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ یہ فلاح پانے کا ذریعہ ہے۔ اس ایک لفظ فلاح کے کئی معا نی ہیں اور کئی مثبت پہلوہیں۔ چند کا ذکر کرتا ہوں۔ فلاح کے معنی ہیں ترقی ، کامیابی اور اس چیز کا حصول جس کی ایک انسان کا دل تمنا یا جستجو کرتا ہے اس کے معنی خوشی، سکون، سلامتی اور حفاظت بھی ہیں۔ فضلوں کی ایک دائمی حالت ، زندگی کا حقیقی آرام اور طمانیت کو بھی فلا ح کہا جاتا ہے۔

                فلاح کے ان مطالب کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری کس قدر بھلائی چاہنے والا اور پیار کرنے والا ہے جہاں اس کے محض ایک حکم کی اطاعت کرنے کے ساتھ کس قدر وسیع فضل اور کئی قسم کے اجر منسلک ہیں۔ یقینا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ محض اس ایک حکم کی تعمیل کے نتیجے میں دائمی تحفّظ اور سلامتی عطا ہوتی ہے اور عمر بھر کے لئے فضل نازل ہوتے ہیں جو صرف اس دنیا تک محدود نہیں بلکہ آخرت میں بھی انسان ان فضلوں کو حاصل کرتا ہے۔ ایک عورت کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا اور کیا ذریعہ ہو گا کہ اسے علم ہو جائے کہ محض اس ایک حکم کی اطاعت کے بد لے میں اسے اس قدر اجر عطا کیا جائے گا۔ اگر عورتیں صحیح طریق پر پردہ کریں تو وہ اپنے آپ کو بیشمار خطرناک اور نامناسب حالات سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔

                ایک غیر مسلم عورت نے کچھ عرصہ پہلے ایک مضمون تحریر کیا جس کا مَیں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ اس عورت نے لکھا کہ وہ مرد جو حجاب کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور اس مقصد کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں دراصل وہ عورتوں کے حقوق کے لئے نہیں لڑ رہے بلکہ وہ صرف اپنی شہوانی اور ناپاک خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک حکم بھی بغیر کسی وجہ یا مقصد کے نہیں دیا۔ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم ایک شخص کے لئے انفرادی طور پر اور معاشرے کی سطح پر بھی منفعت کا موجب ہے۔ احکاماتِ الہٰیہ اس زند گی میں مو جود کئی خطرات اور رکاوٹوں سے حفاظت کا ذریعہ ہیں اور یہ ا خروی زندگی میں بھی ہمارے لئے بہترین اجر اور انعامات کے حصول کی یقین دہا نی کا ذریعہ ہیں۔

               بطور احمدی ہم حقیقی طور پر خوش قسمت ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اسلام کی حقیقی راہ سے روشناس کرایا جو اعتدال پسندی کی راہ ہے۔ ہم ان انتہا پسند مسلمانوں کی طرح نہیں جو اپنی عورتوں کو اپنے چہرے اور جسم کے ہر حصے کو یہا ں تک ڈھانپنے پر مجبور کرتے ہیں کہ گویا وہ چوروںاور ڈاکوؤں کے بھیس میں نظر آتی ہیں جو اپنی شناخت چھپانے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ ہم ایسے مسلمانوں کی طرح بھی نہیں جو اس شدید عمل کے ردّ عمل کے طور پر دوسری انتہا کوپہنچ رہے ہیں جہاں انہوں نے اپنے سکارف یا دوپٹے بھی اتار دئیے ہیں اور بے حیائی سے اس قدر    میک اَپ(make up) کئے ہوئے چلتی پھرتی ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کھلم کھلا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو تضحیک یا تمسخر کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اب تو پاکستان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے غیر مناسب لباس تیار کئے جا رہے ہیں جہاں شلوار قمیض کے سا تھ دوپٹہ بھی نہیں ہو تا ۔ چنانچہ عورتیں اور لڑکیاں اپنے گلے اور سینے کو ڈھانپے بغیر کھلم کھلا گھومتی پھرتی ہیں۔ اس قسم کے لباس کو تو محض بے شرمی اوربے حیائی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہم احمدی اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جو اعتدال پسندی کی تعلیمات ہیںاورہم ان انتہا پسندوں کی طرح نہیں جو اپنی عورتوں کو اس طرح برقع اوڑھنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ان کی آنکھیں بھی نظر نہیں آتیں۔ بدقسمتی سے ایسے لوگ موجود ہیں اور اس کے متعلق حال ہی میں ایک لطیفہ منظر عام پر آیا جس میں کسی نے ایک کارٹون بنایا ہوا تھا جس میں ایک گاڑی کو  شٹل کاک برقع پہنے د کھایاگیاجس کے سا منے مکمل پردہ تھا۔ اس کارٹون کے نیچے یہ تحریر کیا گیا تھا کہ طالبان نے عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دے دی ۔ یعنی اگر ایک گاڑی برقع پوش یا مکمل طور پر پردے سے ڈھکی ہو گی تو تب ہی ایک عورت کو گاڑی چلانے کی اجازت ہو گی۔ یہ مضحکہ خیز باتیں ہیں۔ گو کہ یہ ایک مذاق تھا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ انتہا پسندانہ رویہ بعض لوگوں میں رائج ہے جنہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول نہیں کیا۔ اس لئے وہ صریحاً غلط اور غیرمنطقی نظریات کی پیروی کرتے ہیں۔

                اسلام کی حقیقی تعلیمات جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائیں اور آپ نے واضح طور پر فرمایا کہ عورتوں کو گھروں سے باہر لے جانے میں کوئی حرج نہیں بلکہ آپؑ تو خود اپنی حرم مبارکہ حضرت ام المومنین ؓکے ساتھ سیر پر تشریف لے جایا کرتے تھے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ہم راستوں یا کھیتوں میں سیر کرتے تھے اور آپؑ کسی ایسے شخص کی پر واہ نہیں کر تے تھے جو سمجھے کہ ایسا کرنا غلط ہے یا جو اعتراض یا نکتہ چینی کرے ۔

               حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزیدفرماتے ہیں کہ احادیث سے ثابت ہے کہ انسان کو تازہ ہوا سے لطف اٹھانا چاہئے تا ہم ایسا کہیں نہیں کہا گیا کہ صرف مرد ہی تازہ ہوا سے فائدہ اٹھائیں۔ بلکہ حضرت اقدس مسیح موعود  علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا کہ مسلسل گھر کی چار دیواری میں محصور رہنے سے کئی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال سامنے رکھتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو باہر لے جایا کرتے تھے اورجنگوں میں بھی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتی تھیں اور زخمیوں کی تیمارداری کرتی تھیں۔(ماخوذ از ملفوظات جلد6 صفحہ321-322۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

               پس پردے سے متعلق اللہ تعالیٰ کے احکامات کو اعتدال اور میانہ روی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ دونوں طرف ہمیں انتہا پسندی نظر آتی ہے۔ یورپ اور عموماً مغربی دنیا میں معاشرہ اس قدر آزاد خیال اور بے حیائی میں آگے بڑھ چکا ہے کہ زنا، فحاشی اور بدکاری اب عام ہے۔ دوسری طرف ایسے مسلمان ہیں جن کی مَیں نے مثال دی ہے جیسے طالبان جو اس قدر انتہا پسند ہیں کہ ان کی عورتوں کو گھر سے نکلنے پر بھی پابندی ہے۔ چنا نچہ کبھی اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو مت بھولیں کہ اس نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی ہے کیونکہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اسلام کی حقیقی راہ دکھائی ہے۔

                جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ جہاں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم دیاہے وہاں اس نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس کے احکامات کی پیروی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور وہ انعامات کئی گنا زیادہ ہیں جواس جہان میں اور اگلے جہان میں بھی انسان کو عطا کئے جائیں گے۔ جب ہم یہ ادراک حاصل کر لیتے ہیں تو کیا عقل اس بات کا تقاضانہیں کرتی کہ ہم اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالیں اور اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنے کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہیں۔

                چند ماہ قبل مَیں نے عملی اصلاح کے مو ضوع پرسلسلہ وار خطبات دئیے تھے اور واضح کیا تھا کہ عملی اصلاح کی کنجی یہ ہے کہ کسی گناہ یا برائی کو چھوٹا یا معمولی نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ ہر وہ بات جس سے بچنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اسے گناہ سمجھنا چاہئے خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔یاد رکھیں بظاہر معمولی گناہ بڑے گناہوں اور برائیوں کے لئے دروازے کھول دیتے ہیں اور بڑی برائیاں آہستہ آہستہ اندر آجاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ہم کو ئی ایسا عمل کر تے ہیںجو خدا تعالیٰ کی تعلیمات کے خلاف ہو تو ہم اللہ تعا لیٰ سے دُور ہو جاتے ہیںا ور جب ہم اللہ تعالیٰ سے دُور ہوتے ہیں تو ہم اس کے فضلوں سے محروم ہوجاتے ہیں اور گنا ہ کے ارتکا ب سے بچنے کے لئے عطا کردہ تحفّظ سے محروم ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں کروڑوں مسلمان ہیں مگرپھر بھی چند ہی ایسے ہیں جو دین کی حقیقی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ اس روحانی انحطاط یا گراوٹ کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کے بظاہر نسبتاً چھوٹے احکامات کوا ہمیت دینا چھوڑدیا ہے۔ اس لئے وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے دین سے مکمل طور پر دُور ہو چکے ہیں۔ لیکن ہم جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا ہے ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ اپنی زندگیوں کو اس نہج پر گزاریں کہ جس کا اللہ تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص بیعت میں داخل ہوتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ سمجھے کہ بیعت محض زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ اپنے آپ کو دین کی راہ میں بیچ دینا ہے۔ سو بیعت کنندہ کو اپنے عقیدے کی خاطر ہر قسم کی تذلیل اور نقصان کوبرداشت کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو زبانی طور پر تو بیعت کے الفاظ دہراتے ہیں مگر وہ شرائط بیعت پر پورے نہیں اترتے۔ اس لئے جب کبھی انہیں کسی مصیبت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ انہیں نقصان کیوں پہنچا۔ آپ  علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایسے لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف بیعت کر لینا کافی ہے اور پھر توقع کرتے ہیں کہ انہیں کبھی مشکلات یا مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔(ماخوذ از ملفوظات جلد6 صفحہ17۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

 لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بیعت کرنے کے بعد انسان کو اللہ تعالیٰ کے بظاہر چھوٹے سے چھوٹے حکم کی بھی اطاعت کرنی چاہئے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان کو جو بنیادی تعلیم دی ہے وہ غیب پر ایمان ہے ۔ ایمان بالغیب اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ انسان موت کے بعدزندگی پر غیر متزلزل ایمان لائے۔ اس لئے ہمیں اس ابدی زندگی کو ہمیشہ سا منے رکھنا چاہئے۔ ایمان بالغیب ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس بات پر ایمان لائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور ہمارے دل میں مخفی ہر بات کو جانتا ہے اور اسی مناسبت سے جزا اور سزا دیتا ہے۔ اس لئے اگر ہم  اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نہیں مانتے تو ہمیں یہ کہہ کر بیچارگی کا اظہار نہیں کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو ہم سے بہتر سلوک کرنا چاہئے ۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم پر ایک اور احسان یہ بھی ہے کہ آپ نے ہمیں سکھایا کہ مردوں کو عورتوں پر دبائو ڈالنے یا اپنے تسلّط میں لانے کا حق نہیں بلکہ آپ نے توفرمایا کہ ہر مرد کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونا چاہئے اور اس طرح عورتوں کے لئے نمونہ بننا چاہئے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ217-218۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ مرد عورتوں پر ناحق پابندیاں عائد کرتے پھریں اور اپنے آپ کو مکمل طور پر آزاد کر لیں۔ سو پہلا حکم مَردوں کے لئے ہے کہ تقویٰ سے زندگی بسر کریں اور اگر وہ ایسا کریں گے تو عورتیں قدرتی طور پر ان کا نمونہ پکڑتے ہوئے اقتدا کریں گی۔ اگر ہم قرآن کریم کے پردے سے متعلق احکامات کا مطالعہ کریں جو سورۃ  النور میں درج ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ عورتوں کو حکم ہے کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور پردہ کریں لیکن اس سے پہلے یہ حکم درج ہے کہ مرد بھی اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اس لئے حقیقی اسلامی معاشرے میں پہلے مَردوں کو نیکی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ عورتوں کو بتایا گیا ہے کہ اگر وہ اس حکم کی فرمانبرداری کریں گی تو انہیں فلاح کی شکل میں اجر دیا جائے گا۔ یعنی تحفّظ اور وہ تمام اجر دئیے جائیں گے جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔اور مَردوں سے کہا گیا ہے کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح با خبر ہے۔ اس سے یہ بات و اضح ہوتی ہے اللہ تعالیٰ عورتوں کو اپنی محبت اور قرب کی شکل میں انعام عطا فرما رہا ہے جبکہ مَردوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ جو کچھ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے اچھی طرح باخبرہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر وہ اس کے احکامات کی خلاف ورزی کریں گے تواللہ تعالیٰ انہیں سزاد ے گا۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر عورتیں پردہ نہ کریں اور حیاداری سے کام نہ لیں اور مَردوں کے ساتھ آزادانہ ملیں جلیں تو یہ اس بات کے مترادف ہے کہ گویا کوئی شخص کُتّے کے آگے روٹی ڈال دے اور اس بات کی توقع کرے کہ کُتّا اس روٹی پر منہ نہ مارے۔ اس لئے عورتوں کو اپنی پاکدامنی کی خود حفاظت کرنی چاہئے اور مَردوں کی آزاد نظروں سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ (ماخوذ از اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ343-344)

               ہمیشہ اس بات کو یاد رکھیں کہ احمدی عورت کو ہمیشہ اپنے وقار اور عزت کی حفاظت پر دہ میں رہ کر کرنی چاہئے۔ آج کے معاشرے میں ہر قسم کے شعبے اور قومیت کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ان کی اکثریت مسلمان عورت کے حقیقی مقام کو نہیں پہچانتی۔ اس لئے ہماری عورتوں کو اپنی پاکدامنی کے تحفظ کے لئے بہت محتاط ہونا چاہئے اور اپنے وقار اور عزت کی حفاظت کرنی چاہئے۔ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ بیعت محض زبانی اقرار کا نام نہیں بلکہ ایک احمدی کو مسلسل اپنے آپ کو بہتر کرنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ اس لئے مَیں ہر احمدی عورت سے اور بچی سے کہتا ہوں کہ وہ ہر رنگ میں اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کریں۔ آپ کی روحانی ترقی صرف موجودہ نسل کو فائدہ نہیں پہنچائے گی بلکہ ہماری آئندہ نسلوں کی حفاظت کی بھی ضامن ہوگی کیونکہ اگلی نسل آپ ہی کی گود میں پروان چڑھ رہی ہے، پرورش پا رہی ہے اور تربیت حاصل کر رہی ہے۔

                حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مز ید فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی بیعت میں شامل ہوتا ہے اسے اپنی بیعت کے مقصد کو سمجھنا چاہئے۔ اسے اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہئے کہ اس نے دنیا کی خاطر بیعت کی ہے یا اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمتوں اور انعامات کے حصول کے لئے کی ہے۔

                حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بیعت کرتے ہیں مگر روحانیت میں ترقی نہیں کرتے اور وہ دینی علم سے بے بہرہ رہتے ہیں اور روحانیت کے ادراک اور بصیرت سے محروم رہتے ہیں۔ ان کے عمل حقیقی حسن اور نیکی سے خالی ہوتے ہیں۔ نیکی میں ترقی کرنے کی بجائے وہ اپنے تئیں گناہ اور معصیت میں ڈوبے ہوتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے افراد کو تنبیہ فرمائی کہ یاد رکھو کہ یہ زندگی عارضی ہے۔ چاہے عُسر ہو یا یُسر،یہ چند دن ،ماہ یا سا لوں میں ختم ہو جائے گی۔ آپ نے فرمایا کہ اگلے جہان کی زندگی دائمی ہے۔ اس لئے اس عارضی زندگی کا ہر لمحہ آخرت کی زندگی کے لئے بیج بونے میں صرف ہونا چاہئے۔

               حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں مزید اس بات کی تعلیم دی کہ بیعت کے ذریعہ دو عظیم فائدے حاصل ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ خالص ہو کر روحانی اصلاح کی تو فیق پاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے چنیدہ بندے کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ انسان شیطانی حملوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد6 صفحہ141،142و145۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اس لئے ہمیں مسلسل اپنامحاسبہ کرنا چاہئے کہ کیا ہم اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ کر رہے ہیں اور اپنے دلوں کو گناہ سے پاک کر رہے ہیں؟ ہم شیطانی حملوں سے اس وقت ہی بچ سکتے ہیں جب ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق بجا لانے اور اس کے احکامات کی پیروی کرنے کی طرف توجہ دیں گے۔ اگر ہم ایسا کر رہے ہیں تو پھر ہی ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم بیعت کا حق ادا کر رہے ہیں۔ آپ میں سے اکثریت جو میرے سامنے بیٹھی ہوئی ہے پیدائشی احمدیوں کی ہے جن کے آباؤ اجداد نے احمدیت قبول کی۔ یہ حقیقت کہ ان کی آنے والی نسلیں احمدیت اور خلافت سے وابستہ ہیں اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں اور نیک اعمال کو قبول فرمایا۔

               یاد رکھیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کے آباؤ اجداد نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا اور قربانیاں دیں۔ ان میں سے کئی افراد کو اپنے دوستوں اور خاندانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ ہمیشہ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ وہ اس دنیا اور اپنے پیاروں کو اپنے ایمان کی خاطر چھوڑ نے کو تیار تھے اور یقینا آپ میں سے کئی ایسے ہیں جن کے بڑوں کو پاکستان میں احمدیوں پر مسلسل ڈھائے جانے والے مظا لم کے نتیجہ میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ مگر اس قسم کی قربانیاں بے سُود ہیں اگر ان کے ساتھ مذہب پر عمل پیرا نہ ہوں اور اپنی بیعت کا حق ادا کرنے والے نہ ہوں۔ اس لئے آپ سب کو دوسروں کے لئے نیک نمونہ بننے کی کوشش کرنی چاہئے اوراس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے یہاں کے مقامی لوگوں کے لئے نجا ت اور ان کی حق کی طرف رہنما ئی کا  ذریعہ بنیں۔ آپ کا کردار اور شخصیت آپ کے ماحول میں رہنے والوںکو اپنی طرف کھینچنے والی ہو تا کہ آپ حقیقی اسلام کی خوبصورتی اس معاشرے پر ظاہر کرنے کا موجب بن جائیں ۔ آج اسلام پر ہر طرف سے حملے کئے جا رہے ہیں اور اس کو بدنام کیا جا رہا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود   علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی یہ ذمہ داری ہے اور اس کا یہ کام ہے کہ ان غیر منصفانہ الزامات کا جواب دے۔ یہ احمدی مسلمانوں کا کام ہے کہ ان دھبوں کو دھوئیں جو اسلام کے وقار کو دھندلا کررہے ہیں اوراسلام کی حقیقی اور خالص تعلیمات پر تیز چمکتی ہوئی روشنی ڈالیں۔ لیکن آپ صرف اس وقت ایسا کر سکتے ہیں جب آپ کے اپنے اعمال کا معیار اعلیٰ ترین ہو۔جب آپ ایسے معیار حاصل کریں گے تب ہی آپ کا عمل اس بات کا ثبوت ہوگا کہ اسلام وہ سچا مذہب ہے جو فطرت انسانی سے عین مطابقت رکھتا ہے۔

               لجنہ اماء اللہ کی ممبرات ہونے کی حیثیت سے خاص طور پر یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس الزام کا تدارک کریں کہ نعوذ باللہ اسلام عورتوں پر سختی اور ظلم کی تعلیم دیتا ہے۔ آج میں نے خاص طور پر پردے کے متعلق بات کی ہے حالانکہ اسلام میں متعدد اور احکامات بھی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سمجھا جاتا ہے کہ پردہ عورت سے اس کے بنیادی حقوق چھینتا ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ درست نہیں۔ امر واقعہ تو یہ ہے کہ پردہ اور حجاب عورت کو اس کا حقیقی وقار، خود مختاری اور آزادی دلاتا ہے۔ حجاب ایک عورت کو محض ظاہری تحفظ نہیں دیتا بلکہ اسے روحانی تحفظ اور دل کی پاکیزگی دینے کا بنیادی ذریعہ ہے۔

                جیسا کہ مَیں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بھی معمولی یا غیر اہم نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہر حکم اہم ہے۔    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بنی نوع انسان اس کی عبادت کریں اور یہ عبادت ہی تخلیق کا اصل مقصد ہے۔ عبادت دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنے اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کا نام ہے۔ لیکن اس کے علاوہ حقیقی عبادت اس بات کا بھی تقاضا کرتی ہے کہ ہمارا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر ہو۔ اگر یہ ہمارا مقصد ہو گا تو ہمارا ہر عمل چاہے بڑا ہو یا چھوٹا وہ عبادت کی ایک صورت بن جائے گا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ارشاد فرمایا ہے کہ اپنے گھروں کی نگرانی کریں اور بچوں کی تربیت کریں تو اگر وہ ایسا کریں گی تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہی کے زُمرہ میں آ جائے گا۔

                اگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عورت اپنے وقار اور پاکدامنی کا تحفظ کرے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے شادی کرے تو یہ بھی عبادت ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بیشمار اور احکامات ہیں جن کی پیروی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں داخل ہے۔ اگر آپ ایسے معاشرے میں رہتی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے کسی خاص حکم کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یا اس کی تضحیک کی جاتی ہے اور آپ مسلسل اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی فرمانبرداری کرتی ہیں تو پھر آپ اپنی ثا بت قد می کی و جہ سے مز یداللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور انعامات کی وارث قرار پا ئیں گی ۔ اس لئے اس معاشرے میں آپ حجاب کے مناسب معیار کو اختیار کرنے پر یقیناً اللہ تعالیٰ کے اجر عظیم کی مستحق ہوں گی۔ اگر آپ ایسا کریں گی تو آپ بیرونی اور اندرونی طور پر پاکیزگی کی حامل ہوں گی۔ جب آپ کا لباس باوقار ہو گا تو قدرتی طور پریہ آپ کے دلوں اور ذہنوں میں پاک خیالات داخل ہونے کا ذریعہ ہو گا۔ جب آپ مناسب اور احسن لباس اللہ تعالیٰ کی خاطر پہنیں گی تو قدرتی طور پر آپ کی سوچ کا اگلا قدم یہی ہو گا کہ آپ اور کن طریقوں سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکتی ہیں اور آپ ایک پاک اور صالح زندگی کے حصول کے لئے نئی راہوں کو تلاش کرنے والی ہوں گی۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارا ہر عمل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہونا چاہئے اور جو کچھ بھی اس کی خاطر کیا جاتا ہے چاہے وہ نماز ہویا کوئی اور عمل ہو وہ عبادت ہی کے زمرہ میں آتا ہے اور ہر احمدی کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے۔ آپ کو ہمیشہ اپنے اس ایمان پر پختہ ہونا چاہئے کہ جماعت احمدیہ ہی وہ جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خود قائم فرمایا ہے اور وہ ہر ممکن رنگ میں جماعت کی مدد اور نصرت فرما رہا ہے۔ بہت سی عورتیں جو میرے سامنے آج بیٹھی ہوئی ہیں ایسی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے خود جماعت احمدیہ کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ اس طرح ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی جماعت میں شامل ہونا ضروری تھا۔ اس سال کے جلسہ سالانہ اور عالمی بیعت کی تقریب اور احمدیوں کے نمو نہ کو خود مشاہدہ کرتے ہو ئے بہت سے ایسے لوگ تھے جن میں ایک انگریز خاتون بھی شامل تھیں جنہوں نے احمدیت میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو بدل رہا ہے اور انہیں احمدیت کی طرف مائل فرما رہا ہے یہ اس بات کا عظیم ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کو کامیاب اور کامران کرنا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لئے ایسا چاہتا ہے تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات اور شان و شوکت ایک مرتبہ پھر دنیا کے ہر کونے میں قائم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور نصرت جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے اور اگر ہم اس نصرت الٰہی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک فرد جماعت کو اپنی روحانی حالت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منشاء کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔

یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بیعت کے دو حصے ہیں ایک حصہ ایمان اور عقیدے کا ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بدعات سے منسلک خطرات کے بارہ میں تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ اس جماعت کو ان تمام باتوں سے بچنا چاہئے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ بدعات کئی مختلف طریق پر ظاہر ہو سکتی ہیں جو لوگوں کو ایمان کی اصل روح سے دُور لے جاتی ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد6 صفحہ364۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

مثلاً دوسروں کے خوف کی وجہ سے حجاب سے اعراض کرنایا دوسروں کی خواہش کی پیروی میں شادیوں پر فضول خرچی کرنایا نمازوں کو بغیر وجہ کے جمع کر کے ادا کرنا یہ تمام بدعات ہیں۔

               حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ تمام بدعات کی مثالیں ہیں جو بنی نوع کو مذہب سے ایمان سے اور خدا تعالیٰ سے دُور لے گئی ہیںاور حقیقت تو یہ ہے کہ انہوں نے مذہب کو ہی آلودہ کر دیا ہے۔ آپ نے ہمیں تعلیم دی کہ آپ کی بیعت کا دوسرا حصہ اسلام کی تعلیمات اور عقیدے کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالنا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ محض کلمہ پڑھنا ہی کافی نہیں۔ ورنہ قرآن کریم کے اس قدر طویل اور مفصّل ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ ایک انتہائی خوبصورت تمثیل بیان کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ایمان ایک باغ کی طرح ہے جو انتہائی خوبصورت پھولوں اور پھلوں سے لدا ہوا ہے۔جبکہ ایمان کا عملی حصہ اس شفّاف پانی کی طرح ہے جس کے ذریعہ اس باغ کی پرورش کی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ قطع نظر اس کے کہ کس قدر خوبصورت باغ ہے آخر کار وہ باغ اجڑ جائے گا اگر وہ اس پانی سے محروم ہو جائے۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل پیراہو۔ خواہ تعلیمات کتنی ہی پائیدار کیوں نہ ہوں اگر ان پر عمل نہ کیا جائے تو شیطان مداخلت کر کے انہیں ناقص کر دے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اسلام کی یہی حا لت اس کی تیسری صدی ختم ہونے کے بعد ہوئی جب وقت گزرنے کے ساتھ مسلمان اپنی تعلیمات بھول گئے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم اپنی اصل حالت میں محفوظ تھا مگر ان کے دل ایمان سے محروم ہو گئے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد6 صفحہ365-366۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

                اب یہ دَور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دَور ہے اور اسی طرح وہ لوگ جو آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں ہوں گے وہ دیکھیں گے کہ ان کا ایمان کمزور پڑ جائے گا اور آخر کار کلیۃً ان کے دلوں سے غائب ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا تھا کہ حقیقی اسلام آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے دنیا میں دوبارہ قائم ہو گا اور اس مقصد کے حصول کے لئے ہماری جماعت کو قائم فرمایا گیا۔ ہمیں ہمیشہ اس مقصد کو اپنی زندگیوں کا مطمح نظر بنائے رکھنا چاہئے اور ہمیں اسلام کی حقیقی تعلیمات پر اپنی تمام استعدادوں کو بروئے کار لاتے ہوئے عمل پیرا ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا تو ہم بارہا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت افرادِ جماعت کے ساتھ ہے۔ آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے۔

               اب مَیں اس کی چند مثالیں دیتا ہوں۔ ایک احمدی خاتون جن کا تعلق کینیڈا سے ہے انہوں نے پردے سے متعلق اپنا تجربہ تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں نوکری کے حصول میں اس وجہ سے دشواری پیش آئی کیونکہ وہ پردہ کرتی تھیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے اپنے آپ سے یہ عہد کیا تھا کہ جو کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے پردہ پر سمجھوتا نہیں کریں گی۔ انہیں بعد ازاں مختلف نوکریاں ملیں مگر حجاب پر پابندی کی وجہ سے انہیں وہ نوکریاں چھوڑنی پڑیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی خاطر انہوں نے دنیا کو پس پشت ڈال دیا لیکن کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس قربانی کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس کا اجر عطا فرمائے۔

               ایک اور خاتون جن کا نام ماریہ صاحبہ ہے اور جرمن خاتون ہیں لکھتی ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد انہوں نے حجاب پہننا شروع کر دیا۔ وہ جرمنی میں ایک ہسپتال میں کام کرتی تھیں اور انتظامیہ نے کہا کہ حفظان صحت کے مدّنظر انہیں حجاب ترک کرنا ہو گا۔ انہوں نے مجھے دعا کے لئے لکھا اور میں نے جواب میں لکھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے حالات پیدا کرے کہ وہ امن اور سکون کے ساتھ کام کر سکیں۔ آخر کار انہیں اپنی نوکری سے مستعفی ہونا پڑا کیونکہ ہسپتال کی انتظامیہ اپنے مطالبات سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں تھی لیکن ان کا ایمان متزلزل نہیں ہوا اور پھر ایسا ہوا کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں بہتر نوکری عطا فرما دی۔ الحمد للہ

               بنگلہ دیش سے ایک احمدی خاتون صدیقہ صاحبہ جو انجنیئر تھیں اور ایک نجی کمپنی میں کام کرتی تھیں انہوں نے 2011ء میںجلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے اپنے کام سے چھٹی کی درخواست داخل کی۔ جب ان کی کمپنی کے افسران کو علم ہوا کہ وہ ایک احمدی ہیں اور اپنے خلیفہ کو ملنے کے لئے لندن کے سفر پر جانا چاہتی ہیں اور وہاں جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنا چاہتی ہیں تو انہوں نے ان پر مستعفی ہونے کے لئے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ انہوں نے نتیجۃً نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ ایسا کرنے کے بعد انہوں نے مجھے دعا کے لئے لکھا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے مضبوط ایمان کی جزا دی۔ وہ لکھتی ہیں کہ عام طور پر بنگلہ دیش میں نوکری حاصل کرنا ایک بہت ہی محال امر ہے۔ انہیں بغیر کسی مشکل کے بہت بہتر نوکری ایک سادہ آن لائن ایپلیکشن(application) کے ذریعہ مل گئی۔ اس لئے دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ ان پر اپنے فضل کرتا ہے اور ان پر اپنے انعام نازل فرماتا ہے جو اپنے دین کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں اور قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہ بیعت کے ان الفاظ کا حقیقی مفہوم ہے کہ مَیں اپنے دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔

               یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قربانی کو رائیگاں نہیں جانے دے گا خواہ وہ بڑی ہو یا کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کوئی فردِ جماعت جسے احمدی ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کے ظلم یا مخالفت کا سامنا ہے وہ دیکھے گا کہ اللہ تعالیٰ اسے اس کے صبر اور استقامت کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ یہ مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت جماعت احمدیہ کے ساتھ ہے اور یہ مثالیں ہمیں اپنے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نے اوراپنے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے لئے تحریک کرنے والی ہونی چاہئیں۔ اگر ایسا ہو گا تو پھر ہی ہم حقیقی احمدی کہلانے کے مستحق ہوں گے۔ مَیں ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ آپ اپنے ایمان کے کسی بھی حصے یا  اللہ تعالیٰ کے کسی بھی حکم کو غیر اہم مت سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات یکساں طور پر اہم ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور قرب کی طرف لے جاتے ہیں۔

                اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے کہ آپ اپنے ایمان کے ہر پہلو کا عملی طور پر احسن رنگ میں اظہار کرنے والی ہوں۔ خدا کرے کہ آپ سب جو اس معاشرے میں رہتی ہیں مسلسل اپنے وقار اور شرم و حیا کی حفاظت کرنے والی ہوں اور دوسروں کے لئے نیکی کا بہترین نمونہ بننے والی ہوں جسے دیکھ کر دوسرے اس کی تقلید کریں۔ خدا کرے کہ آپ اپنی آئندہ آنے والی نسلوں میں ایمان کی حقیقی روح پھونکنے والی ہوں۔ خدا کرے کہ آپ سب اپنے کردار سے ان لوگوں کو غلط ثابت کرنے والی ہوں جو اسلام پر الزام لگاتے ہیں کہ اسلام عورتوں سے ناروا سلوک کی تعلیم دیتا ہے۔ درحقیقت آپ سب تمام دنیا پر یہ بات ثابت کریں کہ جماعت احمدیہ کی عورتیں اور بچیاں اسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشن مثالیں ہیں اور  آزادی کے حقیقی مفہوم کو سمجھتی ہیں جس کے ذریعہ عورت کا وقار اور عزت قائم ہوتا ہے۔

اس سال کے جلسے کے ایک واقعہ کے ساتھ میں اپنے خطاب کو ختم کرتا ہوں۔

ایک عیسائی صحافی خاتون جلسہ دیکھنے کے لئے آئیں اور بڑے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے سکارف بھی پہنا۔ انہوں نے کافی وقت جلسے کے زنانہ حصے میں گزارا اور ہماری کئی لجنہ کی ممبرات سے ملاقات کی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ پہلے ان کا یہ خیال تھا کہ شاید مسلمان عورتوں کو آزادی حاصل نہیں اور مَردوں اور عورتوں کو علیحدہ رکھنا ظلم ہے۔ لیکن احمدی عورتوں میں وقت گزارنے کے بعد ان کا اب یہ تاثر ہے کہ احمدی عورتوں کی تعظیم اور احترام دوسری ہر عورت سے زیادہ ہے۔ درحقیقت انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا کہ انہیں اپنے ہی گرجے میںبھی کبھی اتنی عزت اور احترام نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ انہیں ایسے ماحول میں چلنے پھرنے کی افادیت کا بھی علم ہوا جہاں کوئی مرد نہیں تھا اور اس سے انہیں ایک آزادی کا احساس ہوا۔ اس لئے ہماری خواتین یا بچیوں کو حجاب سے متعلق کسی قسم کے بھی احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ یاد رکھیں کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے دوسروں کو سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ ہم نے ان کی تقلید نہیں کرنی۔ اس لئے یہ وہ معیار ہیں جن کو آپ نے حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ ایسا کر سکیں تا کہ تمام دنیا حقیقی اسلام اور عورتوں کو اسلام میں دی جانے والی حقیقی آزادی سے روشناس ہو جائے ۔ اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ پر ہر رنگ میں اپنے فضل نازل فرمائے۔

                یہاں بہت سی ایسی خواتین ہیں جو انگریزی زبان نہیں سمجھتیں۔ سواُن کے لئے مَیں چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔

 حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اردو زبان میں مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ:

آپ میں سے اکثر پاکستان سے آنے والی ہیں جو گزشتہ چند سالوں میں پاکستان سے آئی ہیں یا جرمنی سے آنے والی ہیں جو گزشتہ چند سالوں میں جرمنی سے آ کر یہاں آباد ہوئی ہیں۔اکثریت ایسی ہے چاہے وہ جرمنی سے آنے والی یا پاکستان سے آنے والی ہوں، سوائے چند ایک کے اکثریت ان خواتین، ممبرات کی ہے جن کو اپنے ملک میں مذہب کی آزادی نہیں ہے اور مذہبی آزادی کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ملک چھوڑنا پڑا۔اور مذہب کی وجہ سے ہجرت جو ہے اس کی اللہ تعالیٰ نے بھی اجازت دی ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جن کی persecutionہوتی ہے، جن پر ظلم کئے جاتے ہیں اگر وہ مذہب کی وجہ سے اپنے ملک کو چھوڑتے ہیں، اپنے وطن کو چھوڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو بہتر انعام دے گا۔ ان کے حالات کو بہتر کرے گا۔ اور آپ سب جانتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اِلّا ما شاء اللہ ساروں کے حالات یہاں آ کر بہتر ہی ہوئے ہیں۔ آپ کی اپنی کوئی قابلیت نہیں تھی کہ آپ سمجھیں کہ اپنی قابلیت کی وجہ سے یہاں آ کر آپ کو اس ملک میں رہنے کی اجازت ملی ہے۔

ان ملکوں پہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس لئے ہے کہ یہ لوگ محنت کرتے ہیںاور یہاں تعلیم کی قدر ہے۔اور تعلیم کی وجہ سے اِن کے حالات بھی بہتر ہیں۔اکثریت جو عورتوں کی پاکستان سے یا جرمنی سے آئی ہے ان کے تعلیمی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ان کو کہا جائے کہ کسی اعلیٰ لیاقت اور قابلیت کی وجہ سے برٹش گورنمنٹ مجبور ہو گئی ، یوکے کی حکومت مجبور ہو گئی کہ ان کو یہاں اسائلم دیا جائے یا ان کو ٹھہرنے کے لئے جگہ دی جائے۔ یہ سب کچھ جو آپ کو ملا ہے وہ احمدیت کی وجہ سے ملا ہے۔ اس وجہ سے ملا ہے کہ اپنے ملک میں آپ پر ظلم ہو رہا تھا۔ جو جرمنی سے آئی ہیں وہ لوگ بھی کچھ عرصہ پہلے اسی وجہ سے پاکستان سے جرمنی آئے تھے کہ پاکستان میں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو یہ انعام دیا ہے یہ جماعت احمدیہ کی وجہ سے دیا ہے۔ آپ کے حالات جو بہتر ہو رہے ہیں یہ جماعت احمدیہ کی وجہ سے ہو رہے ہیں اور مَیں نے جو باتیں ابھی انگریزی میں انگریزی دان طبقے کے لئے کہیں ہیں وہ یہی ہیں کہ، ہمیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کے بعد ہم نے اپنا بیعت کا حق ادا کرنا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ بیعت کا حق اس وقت ادا ہوتا ہے جب ہم عملاً اسلامی تعلیمات پر عمل کریں۔ ہم عملاً قرآن کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کریں۔ قرآن کریم نے ہمیں بہت سارے احکامات دئیے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک جگہ سات سو احکامات کا ذکر فرمایا ہے۔ (ماخوذ ازکشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)

 گو دوسری جگہوں پر اور بھی تعداد لکھی ہوئی ہے لیکن بہرحال سات سو احکامات کے بارے میں بتایا۔ تو اگر ہم لوگ قرآن کریم کے احکامات کو دیکھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتیں یا کرتے تو ہم بیعت سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو اللہ تعالیٰ نے بیعت کرنے والوں کے لئے مقدر کیا ہوا ہے۔ پس اپنے حالات کو دیکھیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری عبادت کرو۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ اپنے بچوں کی نمازوں کی حفاظت کریں۔ اپنی اور اپنی بچیوں کی عزت و ناموس اور عصمت کی حفاظت کریں۔ اپنے گھروں میں اپنے بچوں اور خاوندوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ بعض دفعہ بعض چھوٹے چھوٹے معاملات میں گھروں میں جھگڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور اس میں جو ہماری بڑی بوڑھیاں ساسیں، مائیں ہیں ان کا کردار بھی بہت ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ گھروں میں امن اور سکون پیدا کریں اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے گھروں کو بعض دفعہ بعض عورتیں برباد کر رہی ہوتی ہیں۔ ان سے بھی مَیں کہتا ہوں کہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ صبر اور حوصلے کے ساتھ یہ برداشت کرنی چاہئیں ۔ یہ نہیں کہ ذرا سی بات ہوئی اور فوری ردّعمل میں آ کر جتنا ظلم ہوا ہوتا ہے اس سے بڑھ کر ظلم کر دیا جائے۔ تو یہ ساری باتیں آپ کو یاد رکھنی چاہئیں۔

 جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ نے عبادت کا حکم دیا ہے تو عبادت میں نماز کے علاوہ سب احکامات بھی آ جاتے ہیں۔ جب آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دوسرے احکامات پر عمل کرنے والی ہوں گی تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی عبادتوں میں شمار کر لیتا ہے۔ پس آپ لوگ اپنے عملی نمونے یہاں دکھائیں۔ اس قوم کے لئے بھی، اپنے بچوںکے لئے بھی، آئندہ نسلوں کے لئے بھی۔ ان نسلوں کی تربیت کرنا آپ کا کام ہے کیونکہ اس ماحول میں پہلے سے زیادہ کوشش آپ کو کرنی پڑے گی۔ اپنی روحانیت میں ترقی کریں۔ آپ کے عملی نمونے روحانیت میں بھی ہونے چاہئیں اور اپنی نسل کی تربیت کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ دیں۔ عام طور پر ہماری بڑی بوڑھیوں میں زیادہ بدعات ہوتی ہیں۔یہاں باہر کے ممالک میں بہت ساری ہیں جب ان کے پاس پیسے کی کُھل ہوئی تو وہاں شادی بیاہ پہ بلا وجہ کی رسومات اور بدعات کو انہوں نے شروع کر دیا ہے۔ زیور کپڑا اس کا بہت زیادہ رجحان ہو گیا ہے۔ گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثریت احمدی خواتین کی، ممبرات کی ایسی ہے جو چندوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی ہیں بلکہ بعض ایسی ہیں جو مَردوں کو چندوں کی ادائیگی کی طرف مائل کرتی ہیں۔ بعض ایسی ہیں جو مَردوں سے بڑھ کر خود چندے ادا کرنے والی ہیں۔ پس سب ایسی عورتیں جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہیں، ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان کا جو طرز عمل ہے اس کے پیچھے چلنے کی کوشش کریں، نہ کہ اس دنیا میں آ کر دنیا کے پیچھے دوڑنے لگیں۔ اگر دنیا کے پیچھے دوڑنے لگیں تو یہاں شاید دنیا تو آپ کو مل جائے لیکن جیسا کہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے باتیں کی ہیں کہ پھر آخرت میں کوئی rewardاس کا نہیں ہو گا۔ کوئی بدلہ اس کا نہیں ہوگا۔ کوئی جزا نہیں ہو گی۔ پس ایک احمدی عورت کا کام ہے اور فرض ہے کہ وہ اللہ کی خاطر ہر کام کرنے کی کوشش کرے تاکہ اس دنیا میں بھی جزا پانے والی ہو اور اگلے جہان میں بھی جزا پانے والی ہو۔

پس پھر مَیں کہوں گا، بار بار یہی کہوں گا کہ اپنی حالتوں کا بھی جائزہ لیں اور اپنے بچوں کی تربیت کی طرف بھی بہت زیادہ توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

               اب دعا کر لیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں