افضالِ ربی

زندگی کا سفر ایسا ہے کہ بہت سی منزلیں انسان طے کرتا ہے اور ہر منزل کے نشان اس کے دل ودماغ پر ایک عکس چھوڑتے ہیں۔اور جب انسان اپنی زندگی کے سفر کا ایک لمبا راستہ طے کر چکا ہوتا ہےاور پیچھے مڑ کر اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانکتا ہےتو گزرے ہوئے وقت کے حسین لمحات ماضی کے دھندلکوںسے نظر آتے ہیں اور اسے اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔تب وہ سوچتا ہے کہ کاش وہ لمحات پھر دوبارہ میسر آجائیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے ان لمحات کی بکھری ہوئی یادوں کے سوا کچھ باقی نہیں ہوتا۔اور یہ یادیں ہیں جو تا دم آخرانسان کے لئے ایک گنج بے بہا بن کر اس کے ساتھ رہتی ہیں۔خاکسار نے اپنی اس کاوش میں انہیں بکھری ہوئی اپنی یادوں کوسمیٹنے کی کوشش کی ہے۔اپنےآباؤ اجدادکے حالات اور ان کی خدمات اور قربانیوں کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرنے کی کوشش کی ہےتاکہ ان کی نیکیاں زندہ رہیں۔
خاکسار نے اس مقصد کی غرض سے دور دراز ملکوں کے سفر کئے۔مرحوم بزرگوں کے اور ان کے لواحقین کے بیان قلمبند کئے۔بعض بزرگوں کی مزار کے کتبوں سے انکے حالات جمع کئے۔بعض عزیزوں کے پرانے دستاویزات سے استفادہ کیا۔جن عزیزو رشتہ داروں کے پاس جا نہ سکا ان سے بذریعہ فون رابطہ کرکے معلومات حاصل کیں۔سلسلہ کے پرانے اخبارات جو تقریباً نصف صدی قبل کے ہیں ان کی ورق گردانی کی اور حاصل ہونے والے تمام واقعات کو یکجا کیا۔وفات یافتہ بزرگوں کے حالات جمع کرنے میں بیحد دقتیں پیش آئیں مگر خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے ساری مشکلیں دور کیں اور کبھی مایوس نہیں ہونے دیااور نہ ہمت ہارنے دی۔حالات میسر آتے رہے اور تصنیف کا کام جاری رکھا۔خاکسار نے بعض بزرگوں کے حالات مفصل اور بعض کے مختصر لکھے۔غرض جسقدر اور جیسے بھی حالات معلوم ہوئے وہ شامل کئے گئے۔صحابہ کرامؓ کے حالات بھی شامل کئے گئے ہیں۔اور آبائی شہر بٹالہ کے بارہ میں بھی لکھا گیا ہے۔ اور واقعات شامل کرتے وقت تاریخ اور ترتیب کو خاص طور پر مد نظر رکھا گیا ہے۔
نوجوان نسل کی تربیت اور ان میں خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے کی یہ حقیر کو شش ہے۔نئی نسل میں بزرگان کی قربانیاں اور خدمات مشعل راہ کا کام دیں گی۔ اس طرح انکی یادیں ہم میں قائم رہیں گی۔آنے والی نسلیں اس طرح پیار اور محبت سے اپنے بزرگوں کے احسانات کے تئیں اپنا سر جھکاتی رہیں گی اور ان کی نیکیوںکو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔
خاکسار نہ تو کوئی ادیب ہے اور نہ ہی صاحب علم۔سیدنا حضور انور حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ للہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی دعاؤں کے ساتھ میں نے اس کتاب کے لئے اپنا قلم اٹھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے فضل سے اس عاجز کی حقیر کوشش میں برکت ڈال دے تا اس کتاب کی تالیف کا مقصد پورا ہو۔اور خاکسار کی یہ سعی بارگاہ الٰہی میں قبول ہو۔ آمین
خاکسار
ظفر احمد خان

باب اوّل
قومی وخاندانی حالات
قوم ککّےزئی کا ذکر

فہرست مضامین show

کسی قوم یا انسان کے حالات زندگی کو ذکر کرنے کا نام تاریخ ہے۔مختلف اقوام کی آمد و رفت کے حالات کو بھی تاریخ کہا جاتا ہے۔بعض حضرات نے تاریخ کی تعریف کچھ اس طرح کی کہ فطرت کے واقعات نےانسان کے حالات میں جو تغیرات پیدا کئےہیں اور انسان نے عالم فطرت پر جو اثر ڈالا ہےان دونوں کے مجموعہ کا نام تاریخ ہے۔تاریخ کے لئے دو باتوں کا ہونا ضروری ہے۔روایت کااوردرایت کا۔ کسی واقعہ کو ایسے شخص کے ذریعہ بیان کرنا جو خود اس واقعہ کے وقت موجود ہواورآخری راوی تک روایت کا سلسلہ مفصل بیان کیا جائے۔اسکی زبان سے بیان کیا جائے جو خود شریک تھا۔اور یہ دیکھا جائے کہ جو لوگ سلسلہ روایت میں آتے ہیں وہ کون تھے۔ ان کے کیا مشاغل تھے۔ثقہ تھے یا غیر ثقہ تھے۔عالم تھے یا غیر عالم تھے،اس کوروایت کہتے ہیں۔اصول عقلی سے واقعات کی تنقید کرنے کو درایت کہتے ہیں۔اور درایت کے بارہ میں یہکہنا ہوگاکہ مسلمان مؤرخین نے اپنی تاریخ لکھتے وقت درایت سے بہت کم کام لیا ہے۔حالانکہ تاریخ کے لئے اس کا ہونانہایت ضروری ہے۔جب فلسفہ تاریخ کی بنیاد ڈالی گئی تو درایت کے اصول نہایت باریک بینی کے ساتھ مرتب کئے گئے۔
اس جگہ ککے زئی قوم کی تاریخ بیان کرنی مقصود ہے۔ککے زئی ہندوستان بھر میں موجود مسلمان تاجروں کا ایک طبقہ ہے جو مغرب میں قندھار تک پائے جاتے ہیں۔یہ ستان کی نسل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ان کا سلسلہ نسب کرران کے بیٹے’’ ککا‘‘سے شروع ہوا۔پٹھان قبیلے بھی ککے زئی کی شاخوں میں سے تھے۔ککے زئی قوم نے ہندو اور خواجگان سے بھی دو سو سال قبل اسلام قبول کیا۔سکھوں کے دور میں بھی شیخ کہلوانے والے کشمیری ککے زئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔
ککے زئی قوم آج سے تقریباً چار صد سال پیشتر اسی نام سے منسوب چلی آرہی ہے۔ککے زئی اور کاکا زئی ایک ہی قوم کے نام ہیں۔ککے زئی میں چونکہ زئی کی نسبت ککے کی طرف ہےاور ککے صرف پٹھانوں کا نام ہےاس لئے ککے زئی پٹھان ہیں۔ککے کے ساتھ لفظ زئی ہے جس کو صرف افاغنہ استعمال کرتے ہیں۔اور یہ لفظ پشتونی ہے،اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ککےزئی قوم پٹھانوں کی نسل ہے۔
کتاب لغت فیروزی میں لکھا ہےکرال ایک ہندی لفظ ہےجس کے معنے ’’ڈراؤنا‘‘کے ہیں۔اور کلال کے معنی’’برتن سازی‘‘کے ہیں۔کلال قوم کا لباس لمبا کرتہ اور اونچا پائجامہ اور لمبی لمبی ٹوپیاں پہنا کرتے تھے۔دوسری قوم کے لوگوں پر اس پہناوے سے خوف طاری ہوتا تھا۔انہوں نے اپنے نام کرال کی بجائے کلال لکھنا شروع کر دیا۔ کلال سے مراد ککے زئی پٹھان ہیں۔ان کا حسب ونسب یہ ہے کہ ان کے اجداد میں کرران نام کا شخص گزرا ہے جسکے دو بیٹے تھے۔ایک ’’کودے‘‘ اور دوسرا ’’ککے‘۔کودے کے پانچ لڑکے ہوئےاور ککے کے چار لڑکے ہوئے۔ککے کے بیٹوں نے پٹھان روایت اپنا لی اور کلال کا پہلا حرف’’کاف‘‘اور پٹھانوں کا’’زئی‘‘ ملا کر یہ ککےزئی کہلانے لگے۔

افاغنہ(افغانی قوم)کی ہندوستان میں آمد

افغان حملہ آوروں کی حیثیت میں سب سے پہلے محمود غزنوی کے ہمراہ 1001ء میں ہندوستان آئے۔سلطان محمود غزنوی کی فوج کا زیادہ حصہ افغان پر مشتمل تھا۔ جن کے مندرجہ ذیل 9 جرنیل قابل ذکر ہیں۔
(1)ملک خانوے
(2)ملک عامون
(3)ملک معزالدین
(4)ملک یحیٰ
(5)ملک احمد
(6)ملک محمود
(7)ملک عارف
(8)ملک غازی
(9)ملک داؤد
سلطان محمود غزنوی نے 34 برس سلطنت کی اور اس عرصہ میں 17 حملے ہندوستان پر کئے۔اسکی فتوحات کا انحصار بفضلہ تعالیٰ زیادہ تر افواج افغانی پر منحصر تھا۔سلطان محمود غزنوی کی طرف سے ایک گورنر لاہور میں رہتا تھااور پنجاب کے مختلف مقامات میں چند چھاؤنیاں تھیں جن کا زیادہ حصہ افغانی افواج پر مشتمل تھا۔
سلطان محمود کے بعد ملک پنجاب 140 برس سےکچھ زیادہ اسکی اولاد کے قبضہ میں رہا۔لیکن وسط ایشیا جو سلطنت غزنی کا علاقہ تھا وہ سلطان محمود کے بعد ہی ان کے ہاتھوں سے نکل گیا تھا۔انجام کار خاندان غوری نے ان کو مغلوب کیا اور جب سلطان شہاب الدین غوری نے ہندوستان پر حملہ کیا اس سے پیشتر خاندان غزنی کا آخری بادشاہ قید خانہ میں قتل ہو چکا تھا۔
سلطان شہاب الدین غوری جو کہ خود افغان نسل اور بہرام بن شنسب کی اولاد سے تھا سلطان محمود غزنوی کے بعد اس نے 1193ء میں ہندوستان کو فتح کرنے کا ارادہ کیا، کئی مرتبہ غزنی سے ہندوستان آیا۔اوّل مرتبہ لاہور سے واپس گیا، دوسری بارنہرو والا سے نامراد لوٹا۔تیسری مرتبہ کئی ہزار افغانوں کو غور سے طلب کرکے اپنے ہمراہ ہندوستان لایا۔جب فتح حاصل ہوئی اور مہاراجہ پرتھوی راج چوہان کو جو تمام ہندوستان کے راجاؤں میں سب سے طاقتور راجہ تھا اس کو قتل کرکے ہندوستان میں استحکام حاصل کیا۔سلطان نے ملک معزالدین(اپنے مصاحب) کو قوم افغانی کو متفرق مقامات میں آباد کرنے کا حکم دیا۔حسب الحکم سلطان ملک موصوف کوہستان غور سے کوہ سلیمان،اشغر،سوا،بجوڑ،حدود کابل سے نیلاب تک اور قندھار سے ملتان تک جہاں مناسب سمجھا آباد کیا۔
اوّل شہر جو افغان نے آباد کیا وہ اشغر تھا،اس کے آباد ہونے پر سلطان نے بہت خوشی ظاہر کی اور باشندوں کو جاگیریں عطا کرکے سر بلند کیا۔سلطان شہاب الدین کے بعدقطب الدین ایبک اس کا غلام دہلی کے تخت پر 1206ء میں بیٹھا جس نے مع اپنے جانشینوں کے قریب 100 سال تک حکومت کی۔
1290ء میں کیقباد کو جلال الدین خلجی نے قتل کرکے حکومت غلامان کا خاتمہ کر دیا ۔اس کے بعد جلال الدین خلجی اور علاؤ الدین خلجی نے 30 برس تک سلطنت کی اور علاؤالدین خلجی کے بعد اس کے غلام اور جا نشین خسرو خان کو غیاث الدین تغلق نے 1330 ء میں قتل کرکے سلطنت تغلقیہ کی بنیاد رکھی جس میں یہ بادشاہ نہایت مشہور گزرے ہیں:
اوّل سلطان محمد ابن غیاث الدین تغلق
دوم فیروز شاہ برادر زادہ محمد تغلق
سوم سلطان محمود تغلق
امیر تیمور کے جانے کے بعد اس کے جانشین خضر خان اور اسکی اولاد نے 1450ء تک سلطنت کی مگر انکی حکومت دہلی کی حدود تک محدود تھی۔آخر کار ایک افغان بہلول لودھی نے سادات کے بے حقیقت بادشاہ کو تخت سے اتار دیا اور خود تخت دہلی پر قابض ہو کر خاندان لودھی کا بانی ہوا۔
بہلول لودھی نے 1450ء سے 1488ء تک سلطنت کی اور وہ 26 سال شاہان جونپور سے لڑتا رہا۔اس مہم میں اس نے لاکھوں افغانیوں کو افغانستان سے ہندوستان میں بلا لیا اور بالآخر فتحیاب ہوا۔اس کے بعد سکندر شاہ 1488ء سے 1510ء تک حکمران رہا۔اس نے اپنا دارالخلافہ دہلی کی بجائے آگرہ مقرر کیا۔اسکے بعد ابراہیم لودھی نے 1501ء سے لیکر 1522ء تک سلطنت کی۔ اسکی ساری عمر مختلف اطراف میں جنگ کرنے میں گزر گئی۔بالآخر 1526 ء میں بابر کے ساتھ پانی پت کے میدان میں بہت بڑی جنگ ہوئی جس میں ابراہیم لودھی کے قتل ہونے پر خاندان لودھی کا خاتمہ ہوا۔
(بحوالہ تاریخ ککے زئی ترکانی صفحہ85- 87مصنفہ ہدایت اللہ سوہدروی)

سلطان بہلول لودھی کے فرمان پر قوم ککےّ زئی کی آمد

سلطان بہلول لودھی افغان نےجو کہ ملک کالا کا پوتا تھاوہ 1450ء (855ھ)میں تخت پر بیٹھا اور تمام شمالی ہند پر قابض ہو گیا۔تخت پر بیٹھتے ہی اس کی محمد شاہ والیٔ جونپور سے ایک بڑی جنگ ہوئی۔جیسا کہ تاریخ ابراہیم شاہی و تاریخ نظامی و تاریخ لودھیاں سے ثابت ہوتا ہے،سلطان بہلول نے اسی سال یعنی1450ء (855ھ)میں جملہ افغانی قبائل کے نام ایک فرمان جاری کیا جس میں سب قبائل کو ہندوستان چلے آنے کی دعوت دی۔اور افغانوں کی ہر قوم بلکہ ہر قبیلہ کے نام سلطان بہلول لودھی نے فرمان جاری کیا تھا۔تو یقیناً قوم ککے زئی کے نام بھی ضرور فرمان جاری ہوا ہوگا۔اور اس فرمان کی رو سے قوم ککےزئی کے کثیر حصے نےبھی ہندوستان میں بودو باش اختیار کی چنانچہ اسی زمانہ کا ایک مکتوب نوشہ لالہ دیوی سہائے کا اُردو ترجمہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ اس وقت ککے زئی افراد ہندوستان میں موجود تھے۔یہ مکتوب چوہدری جان محمد ککے زئی کی ملکیت ہے:
’’فدوی لالہ دیوی سہائے کی طرف سے بعد سلام مطلع ہو کہ محمد وزیر ککے زئی ولد غلام محی الدین سوداگر ہماری طرف سے کشمیر کو روانہ کیا گیاہے۔یہ شخص سرکار کا خاص خیر خواہ اور قابل اعتماد آدمی ہے۔اس سفر میں اس کی غور و پرداخت اور نیز خوراک و رہائش کا انتظام اسی طرح پر ہو کہ اس کو وہاں لین دین میں آسانی ہو جائے۔(تحریر شدہ 8 ماہ صفر888ھ)‘‘
(بحوالہ تاریخ ککے زئی ترکانی صفحہ195-196مصنفہ ہدایت اللہ سوہدروی)
آج سے دو سو سال قبل تک صرف مالدار لوگ ہی ککےزئی کہلاتے تھے۔اور اب ان کے علاوہ تعلیم یافتہ لوگ بھی ان میں شامل ہیں۔ککےزئی قوم اس وقت ہند وپاکستان اور افغانستان کے علاوہ دنیا کے کئی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔یہ قوم تقسیم ملک سے قبل تقریباً پورے پنجاب میں پھیلی ہوئی تھی اور ضلع گورداسپور میں سب سے زیادہ تعداد میں تھی۔چنانچہ ضلع گورداسپور کے گردو نواح میںموضع دھرم کوٹ رندھاوا،دھرم کوٹ بگہ،سبحانپور،ست کوہا، وزیرچک،فیض اللہ چک،کرالیاں،شہاب پورہ،بہبل چک، دھاریوال اور فتوپورہ میں یہ قوم کثیر تعداد میں آباد تھی۔علاوہ ازیںشہرپٹھانکوٹ ، بٹالہ،گورداسپوراور ہوشیارپور میں بھی یہ لوگ آباد تھے۔تقسیم ملک کے وقت ان کو بھی دوسرےمسلمانوں کی طرح ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنا پڑا۔
مغربی پنجاب میںیہ قوم لاہور ،سیالکوٹ،گجرات،پسرور،کنجاہ،بھنڈ گراں،جلال پور جٹاں،ضلع راولپنڈی اور پشاور میں کثیر تعداد میں آباد ہے۔اسی طرح سمبڑیال سے دو میل دور جنوب میں ککے زئیوں کی مشہور بستی کوٹلی ملکان پورہ ہے۔
اس قوم کی سوشل حالت عام طور سےبہت اچھی ہے۔ملازمت پیشہ اور کاروباری طبقہ جو مغرب میں قندھار تک پائے جاتے ہیںاور زراعت کے شعبہ میں بڑی تعداد میں ہیں۔اور اسکی وجہ سے دوسری اقوام کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں۔اس قوم کے افراد کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے۔ان کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔اپنی تعلیم اور اخلاق اور تموّل کی وجہ سے ایک ممتاز قوم خیال کی جاتی ہے۔ گورنمنٹ کے مختلف اداروں میں ذمہ دار عہدوں پر فائز ہونے کی وجہ سے حکومت کی نگاہ میںاس قوم کی خاص عزت ہے۔
مغلیہ دور میں شاہجہاں اور اورنگزیب کے عہد میںپسرور سیالکوٹ کے ایک گورنرامین الملک محمد عبد الہادی خان گزرے ہیں ۔یہ اسی قوم کے فرد تھے۔ان کا اصل وطن موضع داوَد تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ تھا۔جہاں اب بھی آپ کی اولاد اور خاندان کے کچھ گھر آباد ہیں۔قریباً دو سو سال ہوئےگورنر موصوف کے بعد شیخ عبد الرحیم صاحب ککے زئی بھی ترقی کرتے ہوئے گورنر پنجاب کے عہدہ پر فائز ہوئے۔اسی طرح پسرور ضلع سیالکوٹ کے دو ککے زئی گورنر جنرل بنے۔آبادی کے لحاظ سے یہ قوم تقسیم ملک سے قبل دو لاکھ سے زائد تھی۔اور اب لاکھوں کی تعداد میں ککےزئی دنیا کے مختلف ممالک میں آباد ہیں۔ہمارے آبائو اجداد بھی اسی قوم میں سے ہیں۔

ککےزئی قوم اور احمدیت

اللہ تعالیٰ کا اس قوم پر اپنا فضل رہا کہ اس قوم کےایک حصہ نے آنے والے مسیح موعودؑ کو پہچانا اور اس پر ایمان لائے۔اور پھر یہی نہیں بلکہ مسیح موعود ؑکے مشن کو پورا کرنے کے لئےمعاون و مددگار بنے۔اس روحانی جماعت سے تعلق رکھنے والے ککےزئی قوم کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ان میں سے چند کا یہاں ذکر کروں گا۔
1۔حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ ایم اےمرحوم مبلغ انگلستان
2۔حضرت مولانا عبد الرحمٰن صاحب فاضل جٹؓمرحوم ناظر اعلیٰ وامیر مقامی قادیان
3۔حضرت حکیم دین محمد صاحب صحابی رضی اللہ عنہ
4۔حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ
5۔مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش مؤلف اصحاب احمد
6۔مکرم کیپٹن ملک طاہر محمود خان صاحب ایئر فورس پاکستان
7۔مکرم ملک عزیز احمد صاحب ایڈووکیٹ ڈیرہ غازی خان
8۔مکرم ملک نسیم احمد صاحب ایڈووکیٹ ڈیرہ غازی خان
9۔مکرم ملک منصور احمد خان صاحب ایڈیشنل کمشنر لاہور
10۔مکرم میجر ملک محمود احمد خان صاحب ریٹائرڈآرمی پاکستان
11۔مکرم ملک مظفر احمد مینیجنگ ڈائریکٹر سیمنٹ فیکٹری لاہور
12۔پروفیسر ڈاکٹر ملک کرشن احمد صاحب امریکہ
13۔مکرم ملک کرنل منور احمد صاحب لاہور ریٹائرڈآرمی پاکستان
14۔مکرم ملک مبارک احمد صاحب لاہور
15۔مکرم ملک نور الدین صاحبکنجاہ گجرات
16۔مکرم ملک دوست محمد خان صاحب ایڈیٹر اخبار لاہور
17۔مکرم میجر ناصر محمود صاحب لاہور ریٹائرڈآرمی پاکستان
18۔مکرم ملک ناصرالدین صاحب بی اے انسپیکٹر پاکستان ریلوے لاہور
19۔مکرم ملک شریف خان صاحب G-H-Qراولپنڈی ریٹائرڈآرمی پاکستان
20۔مکرم ملک لطیف خان صا حب ریٹائرڈپائلٹ ایئرفورس پاکستان
21۔مکرم عبد الرؤف سہیل صاحب انجینٔرواپڈا لاہور
22۔مکرم شیخ غلام قادر صاحب اکاؤنٹنٹ جنرل لاہور
23۔مکرم عبدالجلیل عشرت صاحب ڈپارٹمنٹ آف اکاؤنٹنٹ لاہور
24۔مکرم مولانا عبدالماجد صاحب سلیک جرنلسٹ لاہور
25۔مکرم پروفیسر ڈاکٹر ابرار بی ملک فارماکولوجی یونیورسٹی النوس چینگو USA
26۔مکرم افتخارالحق صاحب بیرسٹرہائی کورٹ لاہور
27۔مکرم ملک غلام ربّانی مشنری انچارج ویسٹ افریقہ
28۔مکرم شیخ فضل حق صاحب لاہور
29۔مکرم حکیم فضل الرحمٰن صاحب لاہور
30۔مکرم ڈاکٹر فہیم الحق خان صاحب مانچیسٹر برطانیہ
31۔مکرم ڈاکٹر نویدالحق خان صاحب مانچیسٹر برطانیہ
32۔مکرم ڈاکٹر تنویرالحق خان صاحب لندن برطانیہ
33۔مکرم ملک فیض الحق خان صاحب ایڈووکیٹ لاہور
34۔مکرم شیخ ظفر الحق خان صاحب ڈپٹی کمشنر لاہور
35۔مکرم ملک نعیم الحق خان صاحب تاجر لاہور
36۔مکرم ڈاکٹر داؤد خان صاحب لندن برطانیہ
37۔مکرم ملک حمید احمد خان صاحب ساؤتھ ہال لندن برطانیہ
38۔مکرم ڈاکٹر مجیب الحق خان صاحب ساؤتھ فیلڈ لندن برطانیہ
39۔مکرم ملک غلام محمد خان صاحب تاجرقصورلاہور
40۔مکرم ملک عبد الرحمٰن صاحب تاجر لاہور
41۔مکرم ملک عبد العزیز صاحب تاجر لاہور
42۔مکرم ملک دین محمد خان صاحب انسپیکٹر پولیس بٹالہ (قبل از تقسیم ملک)
43۔مکرم ملک نعیم احمد خان صاحب تاجر لاہور
44۔مکرم ملک اکرم خان صاحب تاجر لاہور
45۔مکرم ملک وسیم احمد خان صاحب تاجر لاہور
46۔مکرم ملک عبد الماجد خان عمیر صاحب کینیڈین امیگریشن کنسلٹینٹ لاہور
47۔مکرم ملک عبد الخبیر احمد خان صاحب کیلگیری کینیڈا
48۔مکرم ملک عبد السمیع صاحب سہیل لندن برطانیہ
49۔مکرم ملک عبد الرؤف عنان صاحب لندن برطانیہ
50۔مکرم ملک عبدالقادر خان صاحب لندن برطانیہ
51۔مکرم ملک عامر خان صاحب لندن برطانیہ
52 ۔مکرم ملک ارشادصاحب ایئرفورس کراچی
53۔مکرم معمّر خان صاحب ایڈووکیٹ لندن
54۔مکرم ناصر خان صاحب برٹش ریلوے لندن
55۔مکر حامد خان صاحب انجینٔر الیکٹرسٹی لندن
56۔مکرم ملک عبد الحمید خان صاحب راولپنڈی
57۔مکرم محمود احمد ملک خان صاحب ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن آفیسر راولپنڈی حال مقیم لندن
58۔مکرم فاروق احمد خان ملک لندن برطانیہ
59۔مکرم ملک عبد الرحیم وزیرآباد تاجر بلڈنگ میٹیریل
60۔مکرم ملک نذیر احمد پشاوری درویش قادیان
61۔مکرم ملک یونس صاحب ڈی ایس پی ،ایف آئی اے اسلام آباد
62۔مکرم مولانا لئیق احمد طاہر صاحب مربیٔ سلسلہ لندن برطانیہ
63۔مکرم ملک محمد بشیر صاحب درویش قادیان
ہمارا آبائی وطن ’’بٹالہ‘‘

جماعت احمدیہ عالمگیر کے مقدس مرکز قادیان دارالامان سے 17 کلومیٹرکی دوری پر جانب مغرب ہمارے آباؤ اجدادکا وطن ’’بٹالہ‘‘ ضلع ’’گورداسپور‘‘ صوبہ ’’مشرقی پنجاب ‘‘ہے۔1947ء میںتقسیم ملک کےنتیجہ میںہمارا وطن مشرقی پنجاب(بھارت)کے حصہ میں آیا اور ہمارے خاندان کو ہی نہیں بلکہ ہماری پوری ککےزئی قوم کو یہاں سے ہجرت کرنی پڑی۔بٹالہ میں ہماری قوم ککےزئی کب سے ہے اسکا تو علم نہیں ہو سکا مگرایک محتاط اندازہ کے مطابق تقریباً200سال قبل یہ قوم یہاں آکر آباد ہوئی۔

بٹالہ کی مختصر تاریخ

تحصیل بٹالہ بھارت کا ایک آباد مقام ہے،جو ضلع گورداسپور میں واقع ہے بٹالہ کا رقبہ 33 کلو میٹر ہے اور اِس کی مجموعی آبادی 1,56,404افراد پر مشتمل ہے اور 249 میٹر سطح سمندر پر واقع ہے۔ بٹالہ میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو و سکھ اکثریت سے آباد ہیں۔ بٹالہ میں پنجابی ہندی انگریزی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ آب و ہوا گرم مرطوب ہے۔ ضلع گورداسپور کی چار تحصیلیں ہیںگورداسپور، بٹالہ، ڈیرہ بابا نانک، دینانگر۔ بٹالہ کے گرد و نواح 370 کے قریب دیہات ہیں۔تقسیم ملک سے قبل بٹالہ کےٹھٹھیاری دروازہ کے ایریا میںاحمدیہ مسجد تھی اور یہیں پر احمدیوں کے گھر بھی آباد تھے۔ بٹالہ محلہ ہاتھی دروازہ میں بڑی تعداد میں مسلمان آباد تھے۔ جس میں تعلیم یافتہ مالدار اورسرکردہ لوگ تھے۔ اُن افراد میں شیخ صوبہ خان جو کہ ای ۔اے۔سی کے بڑے عہدہ پر فائز تھے۔ اُس زمانہ میں خال خال ہی کوئی ہندوستانی اُس وقت کے ایسے جلیل القدر عہدے پر فائز ہوتا تھا۔ صوبہ خان بٹالہ کے بڑے رئیس تھے۔ اُن کے بیٹے شیخ نور احمد صاحب کا بٹالہ میں بڑے کاروباری لوگوں میں شمار تھا۔ فضل الحق، ظفر الحق، ماسٹر محمد طفیل خان اِن کے پاس بہت بڑی جائیداد تھی۔ رئیس خاندان تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کا خاندان بھی رئیس تھا۔ اِس لئے اِن کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔
(بحوالہ مبشرین احمد صفحہ 54 مصنفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش)
بٹالہ آبادی کے لحاظ سے لدھیانہ، امرتسر، جالندھر، پٹیالہ، بٹھنڈہ، موہالی اور ہوشیارپور کے بعد ریاست پنجاب، بھارت کا آٹھواں بڑا شہر ہے۔ بٹالہ کا شمار بٹھنڈہ کے بعد دوسرے قدیم ترین شہر کے طور پر ہوتا ہے۔ یہ ایک میونسپل کارپوریشن ہے۔بٹالہ شہر ضلع کے صدر مقام گورداسپور سے تقریباً 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک پولیس ڈسٹرکٹ بھی ہے۔بٹالہ کل آبادی کے لحاظ سے ضلع کا سب سے زیادہ آبادی والے شہر کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ ضلع کا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ بٹالہ پنجاب کے ماجھا علاقہ کا مرکز ہے۔
بٹالہ سکھ عقیدت مندوں کے لئے ایک اہم مقام ہے۔ سکھ مذہب کے بانی گورو نانک دیو جی کی شادی یہاں 1485ء میں مول چند چونا کی بیٹی سلکھنی دیوی جی سے ہوئی تھی۔ گورو کی شادی سے متعلق بہت سے گورودوارے قریب اور دور سے عقیدت مندوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ ہر سال گورو نانک دیو جی کی شادی کی سالگرہ پر تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ گورودوارہ کا نام کندھ صاحب ہے جہاں ہر سال گورو نانک دیو جی کی شادی کی سالگرہ منائی جاتی ہے۔ بٹالہ کو کبھی ایشیا کا آئرن برڈ کہا جاتا تھا کیونکہ اس نے سی آئی کی سب سے زیادہ مقدار پیدا کی تھی۔ بٹالہ اب بھی C.I کاسٹنگ اور مکینیکل مشینری اور زرعی مشینری اور آلہ جات کی تیاری میں شمالی ہندوستان کے سرکردہ شہروں میں سے ایک ہے۔یہ ایک زرعی بازار اور صنعتی مرکز بھی ہے۔ کاٹن جننگ، بُنائی، شوگر ریفائننگ اور رائس ملنگ یہاں پر لگنے والی کچھ دوسری صنعتیں ہیں۔
بٹالہ 16ویں صدی میں لاہور، جالندھر اور دیگر بڑے شہروں کی طرح پنجاب کے علاقے کا ایک بہت مشہور شہر تھا اور یہ امرتسر سے 109 سال پرانا ہے۔ پورا شہر ایک قلعے کے اندر بنا ہوا تھا۔ اس کے داخلی اور خارجی راستے کے طور پر 12 دروازے تھے۔ یہ دروازے اب بھی اپنے پرانے ناموں سے جانے جاتے ہیں، جیسے شیراں والا گیٹ، کھجوری گیٹ، بھنڈاری گیٹ، اوہری گیٹ، ٹھٹھیاری گیٹ، ہاتھی گیٹ، پہاڑی گیٹ، موری گیٹ، کپوری گیٹ، اچلی گیٹ وغیرہ ان میں سے کچھ اب بھی زندہ ہیں حالانکہ ان کی حالت توجہ کی محتاج ہے۔
بٹالہ میں دیگر تاریخی مقامات گورودوارے ہیں جہاں گورو نانک دیو جی اپنی زندگی کے دوران ٹھہرے تھے۔ سکھوں کے لئے بہت سے دوسرے گورودوارے بھی ہیں جو بہت اہمیت رکھتے ہیں اور اسی لئے دنیا بھر سے ہزاروں سکھوں کو راغب کرتے ہیں ۔
تقسیم ملک کی لکیر کے اعلان کے بعد تمام مسلمان باشندے بٹالہ چھوڑ کر پاکستان چلے گئے اور بہت سے ہندو اور سکھ یہاں انکی جگہ آباد ہو گئے ۔ بٹالہ میں اب ہندو اکثریت ہے جو شہر کی کل آبادی کا 56 فیصد سے زیادہ ہے اور سکھ اقلیت کی آبادی 38 فیصد ہے۔
2011 ءکی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق بٹالہ شہری مجموعہ کی آبادی 1,58,404 تھی۔ شرح خواندگی 85.28فیصد تھی۔
بٹالہ شہر کی بنیاد راجہ رامدیو بھٹی نےجو بھٹی راجپوت تھااورکپورتھلہ کارہنے والاتھا 1465ءمیں رکھی۔(بعض تاریخ دان اس کے مؤسس کا نام راجہ ابھے پرتاپ سنگھ بتاتے ہیں جو بھٹی راجپوت تھا اور وہ بھی کپورتھلہ کا رہنے والا تھا۔ناقل)۔یہ زمانہ سلطان بہلول لودھی کی سلطنت کا زمانہ تھا۔بٹالہ شہر کی بنیاد راجہ رامدیو بھٹی نے حضرت شاہ عبدالجلیل چوہڑ بندگی کے حکم پر رکھی جن کا وہ خود مرید تھا اور ان کی ہی تبلیغ کے اثر سے وہ خود مسلمان ہو گیا تھا۔ بٹالہ شہر کی بنیادایک ٹبّہ پر جو کسی قدیم سابقہ آبادی کا ویرانہ تھا رکھی گئی۔اس زمانہ میں تاتار خان سلطان بہلول لودھی کی طرف سے پنجاب کا گورنر تھا۔لودھی خاندان کے وقت چونکہ ککے زئی قوم کو مثل دیگر افغانوں کے اہمیت حاصل تھی اس لئے ابتدائی آبادی میں چند خاندان ککے زئی قوم کے بھی اس شہر میں آباد ہوئےجن کی تعداد تقسیم ملک سے قبل بٹالہ کی کل آبادی کا 10 فیصد تھی (تقریباً 3000 سے زائد)۔افغان حکومت کے بعد مغلوں کی حکومت کے زمانہ میں بھی یہاں کے ککے زئی معزز عہدوں پر سرفراز ہوتے رہے۔
(بحوالہ تاریخ ککے زئی ترکانی صفحہ 181مصنفہ ہدایت اللہ سوہدروی)
مغل بادشاہ اکبر نے بعد میں یہ شہر اپنے رضاعی بھائی شمشیر خان کو جاگیر میں دے دیا۔مغلیہ دور میں ہی جب پنجاب میں طوائف الملوکی کا زمانہ آیااور سکھوں کی مثلوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر لیں ۔اس وقت بٹالہ رام گڑھیہ مسل کے قبضہ میں تھا اور سردار جسّا سنگھ رام گڑھیہ نےاپنے بھائی مالی سنگھ کو اس کا حاکم بنا دیا۔بعد میں سردار جے سنگھ جو کنہیّا مسل کا سردار تھااور لاہور کا رہنے والا تھا،اس نےدوسری سکھ مسلوں کے ساتھ مل کر جسّا سنگھ رام گڑھیہ کو شکست دےدی اور 1776ء میں بٹالہ پر اپنا قبضہ جما لیا۔اسکا ایک بیٹا تھاگوربخش سنگھ جورامگڑھیوں کے ساتھ جنگ میں عین شباب کے عالم میں مارا گیااور اپنے پیچھے ایک بیوہ سداکور اور ایک بیٹی مہتاب کور چھوڑ گیا۔جے سنگھ نے اپنی گیارہ سالہ پوتی مہتاب کور مہاراجہ رنجیت سنگھ سے بیاہ دی۔جے سنگھ کے مرنے کے بعد اسکی بہو سداکور بٹالہ کی حاکم بنی۔اس نے اعلیٰ حضرت شیخ گامے خان ککےزئی کو اپنا وزیر مقرر کیا۔اعلیٰ حضرت شیخ گامے خان ککےزئی نے حکومت کا انتظام عمدہ رنگ میں سنبھالا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فتوحات میں رانی سدا کور کا بہت تعاون رہا۔رانی نےکئی محاظ پر رنجیت سنگھ کی فوجی مدد کی۔وہ اس وقت اعلیٰ حضرت شیخ گامے خان ککےزئی کو سپاہسالار بنا کر بھیجا کرتی تھی۔
رانی کی فوج میں ککےزئی فوجیوں کا رسالہ اور کچھ فوج بھی ہوا کرتی تھی۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دھیرے دھیرے فتوحات حاصل کرتے ہوئےسارے پنجاب پر قبضہ کر لیااور پنجاب پر حکومت کرنے لگا۔اسکی حکومت میں بھی بٹالہ رانی سدا کور کی جاگیر رہا۔لیکن رانی سداکور مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اس بات پر خفا ہو گئی کہ مہاراجہ اپنا ولی عہد مہتاب کور کے دونوں بیٹوںمیں سے کسی ایک کو بنائے۔مگر مہاراجہ نے اپنے بڑے بیٹے کھڑگ سنگھ کو جو اسکی دوسری بیوی سے تھا اپنا ولی عہد بنا دیا۔اس ناراضگی میں اس نے انگریزوں سے خفیہ طور پر رابطہ قائم کر لیا۔مہاراجہ رنجیت سنگھ کو جب اس کا علم ہوا تو اس نے رانی سدا کور کو لاہور بلا کر نظر بند کر دیا اور اسکی جاگیر اپنے دو چھوٹے بیٹوںشیر سنگھ اور تارا سنگھ کے نام کر دی جو رانی سدا کور کے نواسے اور مہتاب کور کے بیٹے تھے۔
انگریزوں کے دور میں بٹالہ کو ضلع گورداسپور کی تحصیل بنا دیا گیا۔اسی دور میں بٹالہ میں ریل جاری ہوئی اور ڈاکخانہ اور کچہری کا انتظام ہوا۔انگریزی حکومت کے ساتھ ساتھ یہاں عیسائی مشن بھی قائم ہوا۔مشن کی طرف سے یہاں اسکول اور کالج بنائے گئے۔انگریزی حکومت کے آنے سے یہاں طوائف الملوکی کا دور بھی ختم ہوا۔

حضرت مسیح موعودؑ کا بٹالہ سے تعلق

بٹالہ وہ مقام ہے جہاںحضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و امام مہدی ٔ معہود آج سےایک سو دس سال قبل نہ جانے کتنی مرتبہ تشریف لاتے رہے۔زمانۂ طالب علمی میں حضورؑ کے ایک استاد مولوی گل علی شاہ صاحب ہوتے تھےجو مذہباً شیعہ تھے اور بٹالہ کے رہنے والے تھے۔ان سے حضورؑ نے نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروّجہ حاصل کئے۔مولوی گل علی شاہ صاحب نے کچھ عرصہ تو حضورؑ کو قادیان میں تعلیم دی اور قادیان میں مختصر قیام کے بعدواپس بٹالہ چلے آئے۔اس وجہ سے حضورؑ کو بھی کچھ عرصہ کے لئے بغرض تعلیم بٹالہ میں فروکش ہونا پڑا۔بٹالہ میں حضور ؑکے خاندان کی دکانیں اور ایک بہت بڑی حویلی تھی ،حضورؑ نے اسی بڑی حویلی میں قیام فرمایا۔ان دنوں بٹالہ میں آپ کے ہم مکتبوں میں مشہور اہل حدیث مولوی محمد حسین بٹالوی (جوبعد میں اوّل المکذبین ہوئے)اور لالہ بھیم سین(آپؑ کے گہرے ہندو دوست جنہوں نے آخر دم تک آپؑ سے محبت اور عقیدت رکھی)شامل تھے۔دعویٰ سے قبل آپؑ بٹالہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے گھر بھی تشریف لے جایاکرتے تھے۔
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 56-58 مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)
دعویٰ سے قبل آپؑ اپنے والد صاحب کی منشاء پر مقدمات اراضی کی پیروی کے سلسلہ میں بٹالہ بھی تشریف لاتے رہے۔
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ71مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)
حضورؑ نےاپنے متعدد سفروں کے دوران بٹالہ میں قیام فرمایا۔خصوصاً امرتسر،لاہور،سیالکوٹ، دہلی،لدھیانہ وغیرہ سفروں کے لئے بٹالہ کے ریلوےاسٹیشن سے بذریعہ ریل سفر کرتے۔غرض قادیان کے نزدیک اور بڑا شہر ہونے نیز ریلوے کی سہولت ہونے کی وجہ سے حضورؑاکثر بٹالہ تشریف لاتے۔اور اس طرح بٹالہ کی سرزمین کو بھی موعود زمانہ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہوتا رہا۔

بٹالہ میں جماعت احمدیہ کا قیام

رجسٹر بیعت اولیٰ میں درج اسماء کے مطابق بٹالہ کے احباب میں سب سےپہلے 28؍جون 1889ء میں حضرت منشی عبد العزیز معروف نبی بخش ولد میاں محمد بخش ساکن ہاتھی دروازہ بٹالہ کی بیعت ثابت ہے۔آپؓ کا نام رجسٹر بیعت میں 102 نمبر پر درج ہے۔اسی طرح دوسرے نمبر پر رجسٹر بیعت کے مطابق حضرت حکیم محمد اشرف صاحبؓ ولد شیخ محمد علی صاحب خطیب بٹالہ نے 13؍دسمبر 1891ء میں بیعت کی۔آپؓ کا نام رجسٹر بیعت میں171 نمبر پر درج ہے۔تیسرے نمبر پر رجسٹر بیعت کے مطابق حضرت نعمت علی صاحبؓولد محمد علی ہاشمی عباسی خطیب بٹالہ نے 27؍دسمبر1891ء میں بیعت کی آپ کا نام رجسٹر بیعت میں 177نمبر پر درج ہے۔
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ348/356مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)
دعویٰ سے بہت قبل بھی بٹالہ کے بعض احبابحضرت مسیح موعود ؑؑ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔لیکن سب سے پہلےبیعت کی سعادت حاصل کرنے والے یہ تین اصحاب کرامؓ ہی ہیں۔ اوّلین احمدیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصحاب کبار میں سے تھے تحریر کرتے ہیں:
’’اس جماعت (بٹالہ )کے کارنامے ایک خاص اہمیت اور فضیلت رکھتے ہیں۔اور اس وجہ سے بھی ان کی ایمانی قوّت کا مظاہرہ ہوتا ہے،سلسلہ کے تلخ ترین دشمن مولوی محمد حسین صاحب کی شدید مخالفت میں بھی ثابت قدم رہے۔اس جماعت کے آدم میاںمحمد اکبر ٹھیکیدار چوب تھے،(یہاں عقیدت اور اخلاص کے اعتبار سے آدم ہونے کا ذکر ہےنہ کہ بیعت کے اعتبار سے۔ناقل)جو براہین احمدیہ کے زمانہ سے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ارادت رکھتے تھے۔اور جن کو یہ شرف اور سعادت حاصل تھی کہ حضرت اقدس اکثر ان کی قیام گاہ پر قیام فرما ہوتے تھے۔وہ ذیل گھر کے پاس اپنی دکان کرتے تھے۔اور احباب وہاں ہی آکر اترتے تھے۔وہ گویا ایک قسم کا مہمان خانہ تھا۔جس محبت اور اخلاص سے وہ کام کرتے تھے وہ قابل رشک ہے۔
ایسا ہی حکیم محمد اشرف صاحب ؓ۔قاضی نعمت علی صاحبؓ اور دوسرے بزرگ تھے۔ان میں ایک اور بزرگ تھے جو بظاہر مزدور تھےاور دنیا داروں کی نظر میں غریب تھے،لیکن دل کا غنی اور اخلاص کی نعمت سے مالامال۔ان کا نام میاں اللہ رکھا تھا(رضی اللہ عنہ)۔اس شخص کی خدمات بہت شاندار ہیں۔حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عملی خدمت کے لئے جو سعادت اس کو ملی وہ قابل رشک ہے۔قادیان تو اس وقت کچھ تھا نہیں۔ہر قسم کی ضروریات بٹالہ سے یا پھر امرتسر سے مہیا ہوتی تھیں۔اور یہ سب کام میاں اللہ رکھا کیا کرتے تھے۔باہر سے بذریعہ ریل جو پیٹیاں وغیرہ آتی تھیںان کو سٹیشن سے وصول کرکے قادیان تک پہنچانے کا انتظام وہی کرتے تھے۔جزاھم اللہ احسن الجزاء۔ نہایت خوش خلق،ہنس مکھ اورخدمت گزار روح رکھتے تھے۔اور نہایت دیندار عملی احمدی تھے۔ان کے چہرہ پر نور برستا تھا۔باوجود ایک معمولی معاش کے مہمان نواز اور وسیع الحوصلہ تھے۔یہ لوگ تو اولون السابقون میں تھے۔مگر پھر بٹالہ کی جماعت کے دوسرے دور کے سابقون الاوّلون میں شیخ عبد الرشید صاحب کا مقام بہت بلند ہے۔اس لئے کہ جن امتحانات میں سے وہ گزرے ہیں، اور جن تکالیف کو انہوں نے برداشت کیا ہے وہ بٹالہ کی جماعت میں کسی دوسرے کو پیش نہیں آئی۔ وہ ایک معزز تاجر کے بیٹے ہیں۔ جو بڑا مالدار اور مولوی محمد حسین بٹالوی کے خاص دوستوں میں سے تھا۔ شیخ عبد الرشید صاحب نے جب احمدیت کو قبول کیا تو ان کو ہر قسم کی تکالیف دی گئیں۔اور تمام راہیں آمدنی کی ان پر بند کر دی گئیں۔کہنا یہ چاہیے کہ گویا گھر سے نکال دیا گیا۔مگر جو نور ایمان عبدالرشید کے دل میں شعلہ زن تھا ،آفات اسے بجھا نہ سکیں۔بلکہ وہ اور تیز ہوتا گیا۔ ان کی اس راہ سعادت میں پیش آئی ہوئی تکلیف کی داستان دلگداز ہے۔‘‘
پھر اسی تسلسل میں آپؓ خاکسار کے دادا جان حضرت ڈاکٹرمحمد طفیل خان صاحبؓ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ بڑے بڑے فضل کرے ہمارے ڈاکٹر صاحبؓ مرحوم پرکہ ان کے تذکرہ میں ان بھولی بسری ہستیوں کے ذکر کی مجھے توفیق ملی۔اور میں اپنے دل میں ایک مسرت کی لہر محسوس کرتا ہوںکہ یاران قدیم کا تذکرہ دعائوں کے ساتھ 3بجے شب کے کر رہا ہوں۔خود حضرت ڈاکٹر محمد طفیل صاحبؓ کے خاندان میںشیخ نور احمد صاحب اور میاں فضل حق خان صاحب اور ایک اور بزرگ جن کا نام میں بھولتا ہوں(غالباً محمد علی یا علی محمد تھا اور ایک پریس بھی رکھتے تھے) وہ بھی حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ عرصہ سے اظہار عقیدت رکھتے تھے۔میاں فضل حق خان صاحب تو بٹالہ کے مخلصین میں ممتاز احمدی ہیں۔ اور ان کا سارا خاندان اس دولت ایمان سے سرفراز ہے۔‘‘
(بحوالہ اخبار الفضل مورخہ 17؍اکتوبر 1950ءصفحہ5)
ان مذکورہ بالا احمدی احباب کے علاوہ بعض اور احمدی تھے جو 1908ء تک یعنی حضرت مسیح موعود ؑ کی زندگی میں ہی حلقہ بگوش احمدیت ہو چکے تھے۔ان کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں :
مکرم میاں نبی بخش صاحب پاندہ۔مکرم محمد بخش صاحب۔مکرم ڈاکٹر دین محمد صاحب۔مکرم مرزا جان محمد صاحب۔مکرم شیخ غلام اللہ صاحب۔مکرم شیخ غلام مصطفیٰ صاحب۔مکرم شیخ حافظ عبد الرحمٰن صاحب۔مکرم خواجہ عبد السبحان صاحب۔مکرم میاں باغ حسین صاحب۔مکرم ڈاکٹر محمد شریف صاحب سول سرجن۔مکرم مرزا فضل بیگ صاحب وکیل۔مکرم شیخ فضل الٰہی صاحب۔مکرم میاں محمد یوسف صاحب پاندہ۔مکرم محمد افضل صاحب۔مکرم شیخ عزیز الدین صاحب۔مکرم اللہ یار صاحب۔ مکرم مولوی نواب الدین صاحب۔مکرم فضل الدین صاحب خانساماں۔مکرم حسین بخش صاحب خانساماں۔مکرم شیخ عطا محمد صاحب پٹواری۔مکرم شیخ غلام مرتضیٰ صاحب۔مکرم شیخ برکت علی صاحب۔
مکرم میر محمد اشرف علی شاہ صاحب ؓجن کا ذکر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے اپنی تحریر میں کیاہے ان کے متعلق ان کے بھتیجے مکرم سید حافظ عبدالرحمٰن صاحب بٹالوی لکھتے ہیں کہ آپ کو بذریعہ رؤیا1976ء میں حضورؑ کے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں علم دیا گیا تھا۔اور اپنے والد میر نعمت علی شاہ صاحبؓ کے بارہ میں حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ آپ کو حضورؑ کی خاص دعا اور توجہ کے ذریعہ احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی۔چنانچہ حضور ؑ نے ان کوبٹالہ کے لئے اپنا نشان ظاہر فرمایا۔
(بحوالہ روزنامہ الفضل مورخہ4؍اکتوبر1950ءصفحہ9)
جب قادیان میں پہلی مرتبہ 1891ء میں جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی گئی ،اس وقت پہلے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے75 خوش نصیب احباب میں سے 3تین کا تعلق بٹالہ سے تھا۔چنانچہ اس جلسہ میں بٹالہ جماعت کی نمائندگی حضرت نعمت علی صاحب ؓ، بابو علی محمد صاحب رئیس بٹالہ اور شیخ محمد عمر صاحب نے کی۔
حضورؑ نے جب 1897ء میں انجام آتھم کتاب لکھی تو اس کتاب میں آپ نے 313 ایسے احباب کی فہرست شائع کی جو آپؑ سے عقیدت اور اخلاص رکھتے تھے۔یہ فہرست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرتی ہے۔اس فہرست میں 76 نمبر پر حضرت منشی چوہدری نبی بخش صاحبؓمع اہل بیت اور 77 نمبر پر میاں محمد اکبر صاحب کا نام درج ہے۔اور یہ دونوں خوش نصیب بزرگ بٹالہ سے تعلق رکھتے تھے۔
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ580مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)
جب حضورؑ نے منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے بشرح یک صد روپئےچندہ کی تحریک فرمائی ،اس وقت بٹالہ کی جماعت نے بھی اس تحریک میں اپنا حصہ ڈالا۔چنانچہ بٹالہ کے چاربزرگان (شیخ فضل حق صاحب بٹالہ ،حاجی مفتی گلزار محمد صاحب بٹالہ،شیخ فضل احمد صاحب بٹالہ اور ماسٹرمحمد طفیل خان صاحبؓ بٹالوی )نے یک صد روپئے چندہ ادا کیا۔اور چاروں بزرگان کے نام منارۃ المسیح پر نصب تختیوںمیں کندہ ہیں۔
(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 123مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)

بٹالہ کے صحابہ کرامؓ کا مختصر ذکر

جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ بٹالہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے صحابی ہوئے ہیں۔ان صحابہ کرام کے مختصر حالات یہاں برکت کے حصول کی خاطر شامل کرنے جا رہا ہوں۔یہ حالات درج ذیل ہیں:

حضرت میاں محمد اکبر صاحبؓ ٹھیکہ دار لکڑی

حضرت میاں محمد اکبر صاحب ولد گلاب دین صاحب قوم راجپوت اصل میں بٹالہ کے قریب ایک گاؤں بلہووال ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے لیکن اپنے کاروبار کی وجہ سے بٹالہ میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ جب پہلی کتاب لکھی گئی تو آپ نے بھی اس کی اشاعت کی اعانت میں حصہ لیا۔ آپ کا نام معاونین کی فہرست میں اس طرح شامل ہے۔
(2)میاں اکبر ساکن بلہووال ضلع گورداسپور….2 بطور اعانت
بٹالہ میں احمدیت قبول کرنے والے سب سے پہلے خوش نصیب آپ تھے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓنے آپ کو بٹالہ جماعت کا آدم قرار دیا ہے۔(اس بارہ میں پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ عقیدت اور اخلاص کے لحاظ سے آدم مراد ہے۔رجسٹر بیعت کے مطابق پہلی بیعت منشی عبدالعزیز صاحب معروف نبی بخش صاحب کی ہے۔ناقل)
(الفضل 17؍اکتوبر1950ء صفحہ 5)
حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی متعدد کتب میں مختلف حوالوں سے آپ کا نام محفوظ ہے۔ ایک کتاب میں حضور ؑنے اپنے تین سو تیرہ رفقاء کے اسماء درج فرمائے ہیں۔ جس میں آپ کا نام 77 نمبر پر درج ہے۔
آپ کو کئی مرتبہ بٹالہ میں حضرت اقدسؑ کی میزبانی اور خدمت کا شرف حاصل ہوا ۔حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے اپنی جماعت میں دعوت الیٰ اللہ کی جو روح پیدا کر دی تھی اس سے آپ نے بھی وافر حصہ پایا تھا،حتی الوسع لوگوں کو امام مہدی کی آمد کا بتاتے رہتے۔ اسی طرح سلسلہ کے لئے قربانیوں میں بھی آپ ایک جوش رکھتے تھے اور مالی معاونت کا یہ سلسلہ آغاز سے شروع کر رکھا تھا۔ غرض کہ نہایت ہی مخلص اور جاںنثار وجود تھے۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ تحریر کرتے ہیں:
مکرم میاں اکبر سلسلہ کے سابقون الاولون میں بہت قدیم تھے۔ براہین احمدیہ کے آغاز سے حضرت اقدس سے عقیدت رکھتے تھے۔ وہ بٹالہ میں لکڑی کی تجارت کرتے تھے۔ ان ابتدائی ایام میں ان کو یہ شرف حاصل تھا کہ جب حضرت اقدسؑ بٹالہ جاتے تو عموماً ذیل گھر میں جس کے ساتھ ہی ان کا ٹال تھا قیام فرماتے۔ کتاب کی اشاعت کے وقت 2 آنے چندہ دیا تھا اور یہ ایسا ہی تھا جیسے ایک وقت کے ایک مٹھی جو بہت پہاڑ کے برابر سونا دینے سے افضل ہے۔ اور حضرت اقدس نے اسے نہ صرف قبول فرمایا بلکہ براہین میں اس کی اشاعت کی ۔ غرض نہایت مخلص اور ہنس مکھ ،مہمان نواز اور ملنسار تھے ۔اس تحریر کے وقت میرے تصور کی آنکھ کے سامنے کھڑے ہیں مجھ سے ان کو للہ محبت تھی۔
آپ کو درد گردہ کی تکلیف تھی ۔آخر 23؍جولائی 1900 ءبروز جمعرات نماز مغرب کے بعد قادیان میں ہی وفات پائی۔ جمعہ کی صبح کو حضرت اقدسؑ نے جنازہ پڑھا اور آپ قادیان میں ہی دفن ہوئے۔ وفات والے دن کوئی شخص نظم سنانے کے لئے حضرت اقدس ؑکے دربار میں پیش ہوا ۔حضور ؑنے فرمایا میں آج نظم نہیں سن سکتا کہ آج میرا ایک دوست فوت ہوگیا ہے۔رفقاء احمد کی کئی روایات میں آپ کا ذکر ملتا ہے۔
حضرت میاں محمد اکبر صاحبؓ نے دو شادیاں کی تھیں۔ ایک حضرت امام بی بی صاحبہ اور دوسری کا نام معلوم نہیں ہو سکا ،آپ کی دونوں بیویاں بھی سلسلہ احمدیہ کے ساتھ وابستہ ہوگئی تھیں اور 1900 ءسے پہلے ہی بیعت کر لی تھی ۔حضرت امام بی بی صاحبہ نے 29 ؍مارچ 1957 ء کو 95 سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پائی اور بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ رفقاء میں دفن ہوئیں۔ حضرت امام بی بی صاحبہ کے بطن سے حضرت میاں محمد اکبر صاحب کی درج ذیل اولاد تھی ۔حضرت میاں محمد ابراہیم صاحب، حضرت محمد عبداللہ صاحب ، حضرت محمد اسماعیل صاحب( وفات 2؍ نومبر 1988 ء)محترمہ اللہ رکھی صاحبہ سرگودھا۔
دوسری بیوی سےدو بچے مکرم محمد اسحاق صاحب اور حضرت محمد یعقوب صاحب تھے۔ آپ کے بچوں کو بوجہ قادیان میں رہنے کے حضرت مسیح موعود ؑکی زیارت کا شرف حاصل تھا۔
حضرت میاں محمد اکبر صاحب کے دو بھائیوں کو بھی حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا رفیق ہونے کی سعادت حاصل ہے۔ جن میں سے ایک حضرت میاں محمد بخش صاحب( وفات مارچ 1932ء) اور دوسرے بھائی حضرت میاں اللہ یار صاحب( وفات 26 ؍نومبر1944 بعمر 110 سال ۔مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) تھے۔

حضرت مہر نبی بخش عرف عبدالعزیز صاحب نمبر دار

حضرت چوہدری مہر نبی بخش صاحب نمبردارعرف عبد العزیز ولد میاں محمد بخش صاحب آف بٹالہ حضرت اقدس ؑکے دعویٰ مہدویت سے پہلے کے ملنے والوں میں سےتھے اور خلوص و وفا کا تعلق رکھتے تھے۔ آپ کا پیدائشی نام نبی بخش تھا لیکن حضرت اقدسؑ نے بدل کر عبدالعزیز رکھ دیا تھا۔
حضرت اقدسؑ کے ساتھ رشتہ مؤدت و محبت ہونے کی وجہ سے آغاز ہی میں بیعت کر کے حضرت اقدس ؑکی پاکیزہ جماعت میں شامل ہو گئے ۔ آپ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں اس طرح ہے۔
28 ؍جون 1889ءمنشی عبد العزیز معروف نبی بخش ولد میاں محمد بخش ساکن بٹالہ ہاتھی دروازہ پیشہ زمینداری۔(رجسٹر بیعت کے مطابق بٹالہ کے احباب میں سب سے پہلے آپ کی بیعت درج ہے۔ناقل)
آپ جماعت احمدیہ کے دوسرے جلسہ سالانہ1892ءمیں شامل تھے، شاملین جلسہ کے اسماء حضرت اقدسؑ کی کتاب کے آخر میں درج ہیں جہاں آپ کا نام 168 نمبرپر ’’مہر نبی بخش صاحب نمبر دار ممبر کمیٹی و میونسپل کمشنر بٹالہ ضلع گورداسپورہ ‘‘ درج ہے۔اسی موقعہ پر چندہ دہندگان کی ایک فہرست بھی ساتھ درج ہے۔ اس فہرست میں بھی آپ کا نام مع چندہ درج ہے۔’’ فہرست آمدنی چندہ برائے تیاری مہمان خانہ چاہ وغیرہ ‘‘میں بھی آپ کا نام ’’نبی بخش نمبردار بٹالہ‘‘ مع چندہ درج ہے۔ پھر آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ حضور ؑنے آپ کا نام اپنے 313 رفقاءمیں شامل فرمایا ہے۔ آپ کا نام اس فہرست میں 76 نمبر پر ’’منشی چوہدری نبی بخش صاحب مع اہل بیت۔ بٹالہ‘‘ درج ہے۔ اس کتاب میں حضور نے اپنی جماعت کے چند مخلصین کے اسماء و اخلاص کا ذکر فرمایا ہے۔اور آپ کا ذکر’’۔۔۔منشی چودھری نبی بخش صاحب رئیس بٹالہ جو بطورہجرت اسی جگہ قادیان میں آگئے ہیں۔‘‘( صفحہ 159 )کے الفاظ سے فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا نام حضرت اقدسؑ کی کتب میں درج مختلف فہرستوں میں موجود ہے۔
آپ نے مختلف حوالوں سے خدمت کا موقع پایا۔1899ء میں حضرت اقدس مسیح موعود ؑایک مقدمہ کے سلسلے میں دھاریوال تشریف لے گئے۔ اس موقع پر حضرت چوہدری نبی بخش صاحب نے بعض دیگر احباب کی معیت میںدھاریوال کی مضافاتی بستی لیل (LEHL)میں قبل از وقت حضرت اقدسؑ کی فرودگاہ کا انتظام کیا ۔
(الحکم 31؍جنوری 1899ء صفحہ5)
حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے عقیقہ کا اہتمام آپ کے سپرد تھا ،حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی بیان کرتے ہیں:
’’مقرر تھا کہ اتوار کے دن 25 جون کو حضرت مبارک احمد صاحب کا عقیقہ ہو ،اس کے لئے حضرتؑ کی طرف سے بڑی تاکید تھی۔ اس کام کے مہتمم ہمارے عزیزو معزز دوست منشی نبی بخش صاحب تھے۔ ۔۔اللہ تعالیٰ کا تصرف اور اس کی حکمت و قدرت دیکھو، اتوار کو صبح صادق سے پہلے بارش شروع ہو گئی۔۔۔ ادھر ہمارے دوست نبی بخش صاحب بڑےمضطرب اور نادم تھے کہ حضور پاک میں کیا عرض کروں۔ منشی صاحب حاضر ہوئے اور معذرت کا دامن پھیلا یا۔ خیر کریم انسان اور رحیم ہادی۔۔۔۔ مگر ہمارے ذکی الحواس دوست منشی صاحب کو صبر کہاں؟ یہ دل ہی دل میں کڑھیں اور پشیمان ہوں اور پھر دوڑے جائیں حضرت کی خدمت میں معذرت کے لئے۔۔۔‘‘
اسی طرح ایک جلسہ سالانہ کے موقع پر اندر سے لحاف منگوا کر مہمانوں کو دینے کا ذکر بھی روایت میں آتا ہے۔(رفقاء احمد جلد چہارم صفحہ 113 )آپ کو حضرت اقدسؑ کے باغ کے ٹھیکہ دار کی حیثیت سے کام کرنے کا بھی موقع ملا۔
( الحکم 10 ؍اکتوبر 1901ءصفحہ 8)
آپ نے حضور کی زندگی میں ایک دفعہ لغزش کھائی اور جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی ۔عقائد کی بنا پر نہیں ،لیکن کچھ عرصہ بعد ہی سنبھل گئے اور حضور کی خدمت میں اپنا توبہ نامہ بھجوایا۔ چنانچہ آپ کا عریضہ اور حضرت اقدسؑ کا جواب ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
آپ کا عریضہ
’’بحضور عالی جناب حضرت اقدس مسیح موعود دام برکاتہ‘
جناب عالی!فدوی شیطان کے دھوکے میں آکر۔۔۔ اور دلی بصیرت کو کھو کر ذلالت کے گڑھے میں گرا اور سال سے زیادہ عرصہ تک اسی میں رہا۔ اب خداوند تعالیٰ نے آپ ہی مہربانی فرما کر حق بینی کی آنکھیں عطا فرمائیں جن سے معلوم ہوا کہ صرف حضور کےہی سلسلہ میں نجات ہے اور باقی سب جگہ ہلاکت ۔پس آپ۔۔۔ پچھلی خطا معاف فرما کر پھر سلسلہ احمدیہ میں داخل فرمائیں تاکہ نجات ہو ۔
مؤرخہ 9 ؍اکتوبر 1902ء
فدوی عبدالعزیز نمبر دار بٹالہ
حضرت اقدس کا جواب
محبی اخویم مہر نبی بخش صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ۔۔۔۔
آپ کا خط پہنچا التائب من الذنب ۔۔۔۔ اس لئے ہم آپ کی لغزش آپ کو معاف کرتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق پھر آپ کو داخل بیعت کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو استقلال اور ثابت قدمی بخشے اور اب خاتمہ اسی توبہ پر کرے کہ وہ غفور و رحیم ہے۔ آمین۔
بےشک اجازت ہے جب چاہیںآویں۔ اور بہتر ہے کہ جلسہ دسمبر میںآویں اور انشاء اللہ تعالیٰ جیسا مناسب ہوگا آپ کا خط یا کوئی حصہ اس کا الحکم میں چھپایا جائے گا اور آپ کے پاس ایک نسخہ کشتی اور ایک نسخہ تحفۃ ارسال ہے کہ شاید ابھی تک نہیں پہنچا ہوگا ،اور اگر پہنچ گیا ہے تو کسی اور کو جہاں چاہیں دے دیں۔ رسالہ ابھی نہیں دیکھا فرصت کے وقت ان شاء اللہ تعالیٰ دیکھوں گا ۔شاید تین ماہ کا عرصہ ہوگیا ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ قادیان کی اس گلی میں جس میں ہم اکثر سیر کو جاتے ہیں، آپ مصافحہ کے لئے میری طرف آرہے ہیں، سو وہ بات پوری ہوگئی
خاکسار مرزا غلام احمد قادیان
(الحکم 17 ؍اکتوبر 1902 ء)
حضرت میاں شیر محمد صاحب آف خان فتہ ضلع گورداسپور بعد ہ محلہ دارالرحمت قادیان بیان کرتے ہیں:
’’ایک شخص میاں نبی بخش جو بٹالہ کا رہنے والا تھا وہ (علیحدہ )ہوگیا تو حضور کو الہام ہوا کہ نبی بخش نے میرے پاس آکر توبہ کر لی ہے ۔حضور نے ہفتے کے دن یہ الہام سنایا اوراتوار کو بھاگووالہ میں مناظرہ تھا وہاں نبی بخش نے تقریر کی اور تائب ہو گیا اور اس پر حضرت صاحب نے فرمایا کہ اور جگہ ہی کون سی تھی۔‘‘
(رجسٹر روایات رفقاء نمبر 7 صفحہ80)
خلافت ثانیہ کے موقع پر آپ آغاز میں شامل نہ ہوئے لیکن مخالفت کا پہلو بھی اختیار نہ کیا ۔چند سال بعد آپ نے خلافت کی بیعت کا خط لکھ دیا جس میں لکھا:
’’بعالی خدمت حضرت خلیفۃ المسیح
بعد سلام مسنون نہایت ادب سے گزارش ہے کہ آخری ملاقات کے بعد جو سٹیشن بٹالہ پر اس عاجز کو نصیب ہوئی آج تک یہی سوچتا رہا کہ کس پہلو کو اختیار کرنا چاہئے۔۔۔
پھر میں نے مسئلہ خلافت پر نظر ڈالی تو حضور کی بزرگی اور عظمت ۔۔۔میرے دل کو کشتی نوح بنا کر دارالامان قادیان میں لے گئی یعنی میں نے اپنے تئیں آپ کے کمتر سے کمترخادموں میں تصور کیا۔
عنقریب شرف بارگاہ عالی پاکر وہ باتیں عرض کروں گا جو تاریک و تار غاروں کی طرح میری سدرہ تھیں اور جن کو عبور کرنے کا خیال وہم و گمان میں بھی نہ آتا تھا۔ اب آخر حضور کے قیمتی وقت کا پاس ادب رکھ کر اس سے زیادہ نہیں چاہتا کہ یہ خط شائع ہو کر دوسروں کے لئے جو میری طرح غلط راہ اختیار کرکے ابھی تک کھڑے ہیں عبرت کا باعث ہو۔و السلام ۔۔۔
خاکسار عبدالعزیز نبی بخش نمبردار بٹالہ‘‘
( الفضل 17 ؍جنوری 1921 ء صفحہ 2)
آپ نے2؍جولائی 1938ء کو بعمر تقریباً106 سال وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 1916 )ہونےکے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کا نام حضرت برکت بی بی صاحبہ تھا ۔آپ کی اہلیہ کی چند روایات بھی ایک کتاب میں درج ہیں۔
(نوٹ:-بٹالہ میں ہی ایک اور شخصیت بنام’’ نبی بخش صاحب ذیلدار‘‘ ملتی ہے جن کو بھی حضرت اقدسؑ کے ساتھ عقیدت تھی۔ جب صاحبزادہ بشیر اول بیمار تھے ان دنوں حضرت اقدس علاج کے لئے بٹالہ آئے تو انہیں کے گھر فروکش ہوئے اور تقریبا ًایک ماہ قیام فرمایا۔ اس کا ذکر حضور اقدسؑ نے اپنے مکتوب محررہ 11 ؍مئی 1888 ء بنام حضرت منشی رستم علی صاحب( وفات 11 ؍جنوری 1909ء)میں اس طرح فرمایا ہے:
’’بشیر احمد سخت بیمار ہو گیا تھا اس لئے یہ عاجز ڈاکٹر کے علاج کے لئے بٹالہ میں آگیا ہے، شاید ماہ رمضان بٹالہ میں بسر ہو بالفعل نبی بخش ذیلدار کے مکان پر جو شہر کے دروازے پر ہے،فروکش ہوں۔‘‘
یہی بات حضور نے اپنے مکتوب محررہ 28؍مئی 1888 ءبنام حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب بھیروی خلیفۃ المسیح الاوّل میں بھی تحریر فرمائی ہے۔
’’ یہ عاجزبمقام بٹالہ نبی بخش ذیلدار کے مکان پر اُترا ہوا ہے۔‘‘
انہیں نبی بخش صاحب کے بارے میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ حضورؑ کو بٹالہ کےعیسائی مشن کی کارروائیوں اور اعتراضات کی خبریں دیتے تھے اور حضرت اقدسؑ ان اعتراضات کا ازالہ فرماتے۔ واللہ اعلم یہ وہی نبی بخش صاحب ہیں یا کوئی اور۔)

حضرت حکیم محمد اشرف صاحب

حضرت حکیم محمد اشرف صاحب نے اپنی ایک رؤیا کی بنا پر اپنے خاندان میں سب سے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود ؑکی بیعت کی تھی ۔ (الفضل 4 ؍اکتوبر 1950 ء)حضرت مفتی محمد صادق صاحب بٹالہ کے ایک دورے کی روداد میں لکھتے ہیں:
’’حکیم محمد اشرف صاحب نے کیا عجیب بات سنائی کہ انہوں نے مدت ہوئی امرتسر میں ایک خواب دیکھا کہ چند سوار آئے ہیں اور مجھے ایک مکان پر لے گئے ہیں ۔جہاں ایک بزرگ کے ساتھ کھانا کھایا اور ان سواروں نے بتلایا کہ یہ امام مہدی ہے اور چار سال کے بعد ظہور ہوگا۔ اس خواب کے چار سال بعد براہین احمدیہ چھپنی شروع ہوئی اور جب میں نے مرزا صاحب کو دیکھا تو وہی صورت تھی جو کہ میں پہلے خواب میں دیکھ چکا تھا۔‘‘
( بدر 6؍جولائی 1910صفحہ 4)
آپ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں اس طرح محفوظ ہے:
دسمبر 1891 ء۔حکیم محمد اشرف ولد شیخ محمد علی مرحوم ذات ہاشمی خطیب بٹالہ پیشہ طبابت
( تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 356مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)
آپ کی بیعت کے فورا ًبعد آپ کے بھائی حضرت قاضی نعمت علی شاہ صاحب نے بھی بیعت کرلی ۔ قاضی عبد الرحمٰن صاحب سابق سیکرٹری مجلس کا رپرداز ربوہ(وفات16 ؍جون 1977 ء۔ربوہ)اپنے خسر حضرت حافظ عبدالرحمٰن بٹالوی صاحب کی وفات پر لکھے گئے ایک مضمون میں فرماتے ہیں:
’’محترم حافظ صاحب کے والد صاحب کا اسم گرامی میر نعمت علی شاہ صاحب تھا۔ وہ قاضی صاحب کے خطاب سے بھی مخاطب ہوتے تھے اور خطیب بھی کہلاتے تھے۔ اسی وجہ سے بٹالہ میں ان کا محلہ ’’محلہ خطیباں‘‘کے نام سے معروف تھا۔ میر نعمت علی شاہ صاحب کے برادر خورد حکیم محمد اشرف صاحب نے حضرت مسیح موعود ؑکی بیعت پہلے کی تھی اور پھر کچھ مخالفت کے بعد میر نعمت علی شاہ صاحب بھی حضور ؑکے خدام میں حضورؑ کی زندگی میں ہی شامل ہوگئے۔ یہ بڑے دلیر غیور اور جوشیلے تھے حکیم محمد اشرف صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی اور میرصاحب کی اولاد صرف یہی حافظ عبدالرحمٰن صاحب تھے ۔اس لئے باپ اور چچا دونوں کو ان سے بڑی محبت تھی اور دونوں نے ان کو بڑے ناز و نعم سے پرورش کیا اور قادیان میں تعلیم دلوائی۔‘‘
( الفضل 5؍ اگست 1959 ءصفحہ 4)
حضرت حکیم محمد اشرف صاحب جماعت احمدیہ کے دوسرے جلسہ سالانہ 1892 ءمیں شامل تھے ۔آپ کا نام شاملین جلسہ میں درج ہے ۔ اور اس موقع پر آپ کے چندہ کا اندراج بھی موجود ہے۔
1893 ءمیں حضور نے عیسائیوں کے مباحثہ سے پہلے مباحثہ کے شرائط معین کرنے کے لئے ایک وفد احباب کا ڈاکٹر مارٹن کلارک کی طرف بھیجا اس میں حضرت حکیم محمد اشرف صاحب بھی شامل تھے۔

حضرت قاضی نعمت علی صاحب خطیب ہاشمی

حضرت منشی نعمت علی صاحب ولد مکرم محمد علی صاحب ابتدائی احمدیوں میں سے ہیں، آغاز احمدیت میں ہی قبول احمدیت کی توفیق پائی اور اخلاص و وفا میں بہت ترقی کی۔ آپ کی بیعت کا اندراج رجسٹر بیعت اولیٰ میں اس طرح محفوظ ہے:
27 ؍دسمبر 1891 نعمت علی ولد محمد علی ہاشمی عباسی خطیب بٹالہ ضلع گورداسپور
(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 356مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد صاحب)
یہ ایک تاریخی دن تھا کیونکہ اسی دن جماعت احمدیہ کا پہلا تاریخ ساز جلسہ سالانہ قادیان میں منعقد ہوا اور آپ بھی ان 75 احباب کا حصہ تھے، جنہوں نے اس جلسہ میں شمولیت کی ۔آپ کا نام حضرت اقدسؑ نے شاملین جلسہ میں’’ داروغہ نعمت علی صاحب ہاشمی عباسی بٹالوی‘‘ درج فرمایا ہے۔ جون 1897 ءمیں قادیان میں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی۔ اسماء حاضرین جلسہ حضور کی کتاب کے آخر میں محفوظ ہیں۔’’ قاضی نعمت علی صاحب خطیب بٹالہ‘‘ کا نام مع چندہ 183 نمبر پر موجود ہے۔ فروری 1898 ءمیں حضور نے مخالفین احمدیت کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے اپنی پُرامن جماعت کے 316 افراد کے نام درج فرمائے جس میں 275 نمبر پر’’ خطیب نعمت علی صاحب اپیل نویس بٹالہ‘‘ نام موجود ہے۔
آپ نہایت ہی مخلص اور فدائی وجود تھے ۔حضرت اقدسؑ کے سفر بٹالہ کے موقع پر اپنے آپ کو خدمت کے لئے پیش پیش رکھتے۔ 7 ؍نومبر 1902 ءکو حضور بٹالہ میں رونق افروز تھے کہ حضرت منشی نعمت علی صاحب نے کھانے کے لئے عرض کیا۔
حضور نے فرمایا ’’تکلف کی کیا ضرورت ہے ،ہم کھانا کھا چکے ہیں۔ جب تم لوگوں نےبیعت کر لی تو گویا ہمارے بدن کے جزو ہوگئے پھر الگ کیا رہ گیا، یہ باتیں تو اجنبی کے لئے ہوتی ہیں۔
( ڈائری حضرت مسیح موعودؑ 7؍ نومبر1902ء)
اسی طرح حضرت اقدس کے سفر سیالکوٹ 1904ءسے واپسی کے موقع پر حضور اقدسؑ کے بٹالہ میں قیام کے متعلق ایڈیٹر صاحب اخبار بدر لکھتے ہیں:
’’سیالکوٹ سے واپس ہوتے ہوئے حضرت اقدس ؑنے مع ہمراہیان سفر کے رات کو بٹالہ میں قیام فرمایا تھا ۔بٹالہ کی احمدی جماعت نے اس موقع پرحسن خدمات کا فخر اول مرتبہ حاصل کیا۔ زیر اہتمام قاضی نعمت علی صاحب احمدی اور چند دیگر احباب ریلوے ٹرین سے اترتے ہی چاء اور عمدہ کھانا تیار ملا۔چارپائی اور مکان کا انتظام جو کہ اسٹیشن کے متصل سرائے میں کیا گیا تھا ،بہت عمدہ تھا ۔جس سے کسی قسم کی تکلیف کسی صاحب کو نہیں ہوئی۔‘‘
( اخبار بدر 24 ؍نومبر و یکم دسمبر 1904 ءصفحہ 3)
آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت فضل النساء بیگم صاحبہ بھی رفقاء خواتین میں سے تھیںاور نظام وصیت کا حصہ( وصیت نمبر 48 58)تھیں۔ انہوں نے 24 ؍ستمبر 1943ءکو بعمر 98 سال وفات پائی اور بوجہ موصیہ ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔ آپ کی اولاد میں سے صرف ایک بیٹے حضرت حافظ سید عبدالرحمٰن صاحب تھے۔

حضرت حافظ سید عبدالرحمٰن صاحب بٹالوی

حضرت حافظ عبد الرحمٰن صاحب بٹالہ کے مخلص بزرگ حضرت میر نعمت علی شاہ صاحب( جن کا ذکر اوپر گزرا ہے) کی اکلوتی اولاد تھے ۔ آپ اندازاً 1887 ءمیں پیدا ہوئے ،طفولیت میں ہی اپنے والد ماجد حضرت میر نعمت علی صاحب کی معیت میں 25 ؍اپریل 1899 ء کو حضرت مسیح موعود ؑکے دست مبارک پر بیعت کی سعادت سے مشرف ہوئے ۔آپ کے چچا حضرت حکیم محمد اشرف صاحب کی کوئی اولاد نہ تھی اور آپ اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھے، اس لئے باپ اور چچا دونوں کو آپ سے بڑی محبت تھی اور دونوں نے بڑے ناز و نعم سے پرورش کیا اور قادیان میں تعلیم دلوائی۔ آپ پرائمری اسکول میں مدرس تھے۔ آپ ملازمت کے بعد قادیان میں اور تقسیم ملک کے بعد لاہور میں رہے۔ آپ نے اپنے گھر واقع نسبت روڈ لاہور میں مؤرخہ 5 ؍جون 1959ءکو وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر10023- 8/1 حصہ کی وصیت) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ آپ کی وفات پر آپ کے داماد مکرم قاضی عبد الرحمٰن صاحب سابق سیکرٹری مجلس کارپرداز ربوہ نے مضمون لکھا:
’’اس خاندان سے میرا کوئی پرانا تعلق نہیں ہے بلکہ محترم حافظ صاحب سے میرے دوستانہ مراسم کی ابتدا ءغالباً 15ء (مراد1915ء۔ناقل) میں ہوئی جبکہ وہ سارچو‘ر ضلع گورداسپور میں احمدیہ پرائمری سکول میں مدرس تھے۔ میرا گاؤں چونکہ قریب ہی ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر تھا اس لئے میں اکثر وہاں احمدی بھائیوں سے ملنے کے لئے آتا جاتا رہتا تھا اور میری وجہ سے پھر محترم حافظ صاحب کی آمدورفت بھی میرے گاؤں میں ہوتی رہی۔ حافظ صاحب مرحوم اس وقت عالم شباب میں تھے مگر رشد و ہدایت کے آثار ان کے بشرے سے نمایاں تھے۔ اپنے مدرسہ کی بہبودی اور رونق ہر وقت مدنظر تھی اور (دعوت الی اللہ) احمدیت کے لئے خداداد قابلیت اور جوش تھا۔ میرے گاؤں میں بہت زیادہ اکثریت غیر از جماعت کی تھی اور سوائے تین چار غریب گھرانوں کے گاؤں میں دنیا وی لحاظ سے کوئی بھی صاحب اثر احمدی نہ تھا ۔ گاؤں میں ہماری مخالفت ہوتی تھی ،جو حافظ صاحب کی آمد و رفت سے بعض اوقات شدت اختیار کر جاتی تھی۔ کیونکہ وہ (دعوت) احمدیت میں بالکل نڈر تھے۔ مگر باوجود اس اختلاف کے لوگ حافظ صاحب کا احترام کرتے تھے اور ان کی نیکی اور خوش اخلاقی کے معترف تھے اور اسی اثرکے ماتحت پٹواری صاحب نے جو شیعہ خیالات کے تھے، اپنے بچے بھی تعلیم کے لئے احمدیہ سکول سار چو‘ر میں داخل کرا دئے تھے۔ اس کے علاوہ حافظ صاحب کی آمدورفت اکثر دوسرے ملحقہ دیہات میں بھی رہتی تھی اور تعلیم کے لئے ان دیہات سے بچے کھینچ لاتے تھے۔ غرض وہ اسکول کی زینت تھے اور سار چو‘ر اور ملحقہ دیہات میں تھے اور صداقت کے اظہار سے کسی سے نہیں دبتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ہمارے گاؤں میں آئے، گرمیوں کا موسم تھا ۔گاؤں کے چوہدری، نمبردار، ذیلدار،پنچ ،کھڑپنچ اور مولوی صاحب سب ایک تکیہ میں درختوں کے سائے کے نیچے دوپہر کو جمع تھے۔ ایک شخص نے کہا سنا ہے مرزا صاحب کہتے ہیں میں عیسیٰ ہوں۔ حافظ صاحب مسکرائے اور کہا چوہدری صاحب آپ سے کسی نے بخل کیا ہے اور پوری بات نہیں بتائی۔ یہ کہہ کر حضور کا ایک شعر پڑھا اور پھر اس کی ایسی تشریح و توضیح کی کہ سارے مجمع پر چھا گئے، ان کے چلے جانے کے بعد لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں۔ مخالفت کی آگ بھڑکی اور گاؤں کے چوہدری صاحبان نے ہمارا پانی بند کر دیا۔ اگلے روز میںسارچو‘ر گیا اور حافظ صاحب کو بتایا کہ ہمارا تو پانی بند کر دیا گیا ۔ فرمانے لگے کوئی چوہدری بیعت کرے گا ۔چنانچہ تھوڑے ہی دنوں میں چوہدری فیروز الدین صاحب نے بیعت کر لی، جن کے لڑکے صفدر علی صاحب سنا ہے کہ لائلپور میں وکالت کرتے ہیں۔
محترم حافظ صاحب کے والد ماجد تو غالبا ًہماری ملاقاتوں سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔ ان کے چچا حکیم صاحب زندہ تھے۔ حافظ صاحب کے سار چو‘ر کے قیام میں وہ بھی فوت ہوگئے۔ گھر میں کوئی مرد نہ رہا ۔مجبورا ًحافظ صاحب کو سار چو‘ر چھوڑ کر بٹالہ جانا پڑا، اور وہاں ایم بی ہائی سکول کی ایک برانچ میں ٹیچر کی جگہ مل گئی ۔۔۔۔‘‘
(الفضل 5؍ اگست 1959 صفحہ 4,5)

حضرت شیخ فضل حق صاحب بٹالوی

حضرت حکیم شیخ فضل حق صاحب ولد مکرم شیخ نور احمد خان صاحب( وفات 22 ؍ستمبر 1917 ء) قوم ککےزئی آف بٹالہ نہایت ہی مخلص اور درویش صفت وجود تھے، آپ کے والد آغاز کے دور سے حضور سے عقیدت رکھتے تھے۔ آپ اور آپ کے والد دونوں جلسہ سالانہ 1892 ء میں شریک ہوئے، دونوں باپ بیٹے کا نام شاملین جلسہ کے اسماء میںبالترتیب147- 146 نمبر پر موجود ہیں۔ آپ کے والد نے بیعت نہیں کی ،آپ کی بیعت کے متعلق بھی دو روایتیں ہیں۔ ایک تو یہی اندازہ ہے کہ آپ نے 1892ءمیںبیعت کر لی تھی۔ لیکن حضرت شیخ فضل احمد بٹالوی صاحب کے مطابق آپ عقیدت تو رکھتے تھے لیکن بیعت ان کی دعوت الی اللہ سے 1909 ءمیں کی۔
آپ سلسلہ احمدیہ کے لئے غیرت رکھتے تھے، آپ کی ایک بہن کی نسبت بٹالہ کے ایک معزز غیر از جماعت خاندان میں ہو چکی تھی۔ والد ماجد کی وفات کے بعد آپ نے ان لوگوں سے کہہ دیا کہ اب میں اپنی بہن کا ولی ہوں، میں اس کا رشتہ احمدیوں میں ہی کروں گا۔ چنانچہ آپ کی یہ بہن حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے کے ساتھ بیاہی گئی ۔اسی طرح اپنی بڑی بیٹی کا رشتہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ایماء سے حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحب مربی افریقہ( وفات 28 ؍اگست 1955 ء)کے ساتھ کر دیا۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ جوانی میں ممبران ینگ مین ککے زئی ایسوسی ایشن نے متفقہ رائے سے آپ کو اپنی ایسوسی ایشن کا صدر منتخب کیا ۔ کچھ عرصہ بعد ککے زئی برادری نے محض احمدیت کی وجہ سے انہیں صدارت سے الگ کر دیا ۔آپ نے اطلاع بھجوائی کے میں پریذیڈنسی کی پروا نہیں کرتا بلکہ ممبری بھی چھوڑتا ہوں۔
بٹالہ میں آپ کی ذات مرجع خواص و عام تھی، خاندانی عزت کے علاوہ ذاتی وجاہت، حسن اخلاق، مہمان نوازی اورحذاقت طب کی وجہ سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔ نہایت ہی پرہیزگار اور متقی بزرگ تھے، آپ کےداماد حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحب مجاہد افریقہ 16سال مسلسل باہر رہے، ان کی عدم موجودگی میں آپ کی بیٹی آپ کے پاس ہی رہیں ۔1920ء میں حضرت مصلح موعودؓ سیالکوٹ کے سفر پر جاتے ہوئے بٹالہ آپ کے گھر تشریف لائے اور تمام قافلہ سمیت کھانا تناول فرمایا۔
( الحکم 7 ؍اپریل1920ء صفحہ 2)
آپ نے 3 ؍جولائی 1955 ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ اولاد میں ایک بیٹا افتخار الحق صاحب بیرسٹر اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔

حضرت بابو علی محمد صاحب

حضرت بابوعلی محمد صاحب ان 75 خوش نصیبوں میں سے ہیں جن کو پہلے تاریخی جلسہ سالانہ 1891 ءمیں شامل ہونے کی توفیق ملی،آپ کا نام شاملین جلسہ میں’’بابو علی محمد صاحب رئیس بٹالہ‘‘ درج ہے۔اسی طرح جلسہ سالانہ 1892ء میں بھی آپ قادیان میں حاضر تھے۔ حضورؑ نے اپنی کتاب میں گورنمنٹ کے نام یہ اطلاع دی ہے کہ مخالفین کی طرف سے جھوٹی اور بے اصل روایات کو بنیاد بنا کر ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر دلآزار حملے کئے جاتے ہیں۔ اس اطلاع کے ساتھ دو تجاویز بھی گورنمنٹ کو پیش کی ہیں جس کے بعد تقریباً 700 افراد کے اسماء درج کئے ہیں جس میں’’ بابو علی محمد صاحب مالک مطبع شعلہ نور‘‘ کا نام بٹالہ کے تحت اسماء میں موجود ہے ۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بٹالہ کے بعض ابتدائی احمدیوں کے ذکر میں لکھتے ہیں:
’’ ایک اور بزرگ جن کا نام میں بھولتا ہوں (غالباً محمد علی یا علی محمدتھا اور ایک پریس بھی رکھتے تھے) وہ بھی حضرت اقدس کے ساتھ عرصہ سے اظہار عقیدت رکھتے تھے۔‘‘
(الفضل17؍ اکتوبر 1950 ءصفحہ 5)
(نوٹ :جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے کہ حضرت بابو علی محمد صاحب ایک پریس رکھتے تھے اور حضورؑ کی کتاب میں اس پریس کا نام شعلہ نور بیان ہوا ہے۔ اسی طرح حضرت اقدسؑ نے اپنی جماعت کے احباب کی ایک فہرست میں 255 نمبر پر بٹالہ کے حوالے سے ایک نام’’ مولوی غلام مصطفیٰ صاحب پروپرائیٹر شعلہ نور پریس بٹالہ‘‘ بھی درج فرمایا ہے اور دوسری جگہ پر حضرت مولوی غلام مصطفیٰ صاحب کومطبع کا مہتمم درج فرمایا ہے۔ دونوں بزرگوں کا نام مطبع شعلہ نور کے حوالے سے ملتا ہے، یعنی حضرت بابو علی محمد صاحب مالک مطبع اور حضرت مولوی غلام مصطفیٰ صاحب مہتمم مطبع۔ )‘‘
(بحوالہ روزنامہ الفضل 9؍جنوری2016ءصفحہ 3تا5)

حضرت حافظ عبد الرحمٰن صاحب

حضرت حافظ عبد الرحمٰن صاحب بھی بٹالہ کے ابتدائی احمدیوں میںسے تھے اور حضرت اقدس کے ساتھ نہایت اخلاص و وفا رکھتے تھے۔ حضور کی کتاب میں درج ایک فہرست میں آپ کا نام اس طرح شامل ہے۔
241۔ حافظ عبد الرحمٰن صاحب وکیل مدرسہ انوار الرحمٰن ملتان ساکن بٹالہ۔
آپ نے ستمبر 1901ء میں وفات پائی۔ جس کی خبر دیتے ہوئے ایڈیٹر اخبار الحکم لکھتے ہیں :
’’بٹالہ ضلع گورداسپور سے ایک عزیز اور مخلص دوست کی رحلت کی سوگوار خبر پہنچی جس کو ہم نہایت درد اور رنج کے ساتھ شائع کرتے ہیں ۔
حافظ عبد الرحمٰن صاحب سفیر انجمن حمایت الاسلام گوجرانوالہ نے ایک عرصہ کی بیماری کے بعد آخر ہفتہ زیر اشاعت میں اس دار فانی سے کوچ کیا۔ مرحوم حضرت اقدس کا ایک ثابت قدم اور مخلص مرید تھا اور بہت عرصہ سے اس کو حضرت کے ساتھ ارادت مندی کا فخر حاصل تھا۔ مرحوم کی وفات کے ساتھ میاں محمد اکبر مرحوم بٹالوی کا واقعہ پھر تازہ ہو گیا کیونکہ میاں محمد اکبر مرحوم کے اخلاص سے اس کا اخلاص کسی صورت سے کم نہ تھا۔ منشی نعمت علی صاحب احمدی نے ان کا جنازہ پڑھا۔ حضرت اقدس نے حافظ صاحب مرحوم کا جنازہ دار الامان میں بھی اپنی جماعت کے ساتھ بروز جمعہ پڑھا اور دیر تک مغفرت کی دعا کرتے رہے۔‘‘
(الحکم 17؍ستمبر 1901ء صفحہ 14 ، 15)

حضرت میاں اللہ رکھا صاحب بٹالوی

بٹالہ ضلع گورداسپور نے جن عظیم روحانی ستاروں کو جنم دیا ہے ان میں ایک نام حضرت میاں اللہ رکھا صاحب بٹالوی کا بھی ہے۔ آپ کے تفصیلی حالات کا علم نہیں ۔ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ نے 7؍مارچ 1898ء کو ایک اشتہار بعنوان ’’کیا محمد حسین بٹالوی ایڈیٹر اشاعۃ السنہ کو عدالت میں کرسی ملی؟‘‘ شائع فرمایا جس میں سو سے زائد احباب کے نام بطور گواہ تحریر فرمائے ہیں جس میں آپ کا نام بھی شامل ہے : میاں اللہ رکھا شالباف بٹالہ۔
حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بٹالہ میں احمدیت کے متعلق فرماتے ہیں :
’’بٹالہ ۔۔۔جماعت کے کارنامے ایک خاص اہمیت اور فضیلت رکھتے ہیں اور اس وجہ سے بھی ان کی ایمانی قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔۔۔ان میں ایک اور بزرگ تھے جو بظاہر ایک مزدور تھے اور دنیا داروں کی نظروں میں غریب تھے لیکن دل کا غنی اور اخلاص و ارادت کی نعمت سے مالامال ۔ ان کا نام میاں اللہ رکھا تھا، اس شخص کی خدمات بہت شاندار ہیں ، حضرت اقدس کی عملی خدمت کے لئے جو سعادت اس کو ملی وہ قابل رشک ہے، قادیان تو اس وقت کچھ تھا نہیں، ہر قسم کی ضروریات بٹالہ سے یا پھر امرتسر سے مہیا ہوتی تھیں اور یہ سب کام میاں اللہ رکھا کیا کرتے تھے، باہر سے بذریعہ ریل جو پیٹیاں وغیرہ آتی تھیں ان کو سٹیشن سے وصول کر کے قادیان پہنچانے کا انتظام وہی کرتے تھے ، جزاھم اللہ احسن الجزاء۔نہایت خوش خلق ، ہنس مکھ اور خدمت گزار روح رکھتے تھے اور نہایت دیندار عملی احمدی تھے، ان کے چہرہ پر نور برستا تھا باوجود ایک معمولی معاش کے مہمان نواز اور وسیع الحوصلہ تھے۔ یہ لوگ تو اولون السابقون میں تھے۔‘‘
(الحکم 17؍اکتوبر 1950ء صفحہ 5)
حضرت میر مہدی حسین صاحب یکے از 313 (وفات 31؍اگست 1941ء) بیان فرماتے ہیں:
’’حضرت اقدس ؑ نے مجھے ایک بلٹی لانے کے لئے بٹالہ بھیجا جو ڈاکٹر محبوب عالم صاحب مرحوم نے کیوڑہ کی گاگر حضورؑ کے لئے جے پور سے بھیجی تھی، بٹالہ کے بکنگ کلرک نے دینے سے انکار کیا کہ اس کا محصول ادا نہیں ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ محصول اداشدہ ہے۔ وہ کہنے لگا کہ حساب کی رو سے محصول کم دیا گیا ہے۔ ایک روپیہ اور چاہئے۔۔۔ وہاں سے مایوس ہو کر میں ایک صاحب میاں اللہ رکھا احمدی کے پاس گیا جو قالین کے کارخانہ میں کام کیا کرتے تھے اور اکثر حضورؑ کی خدمت میں حصہ لیا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بے چوں و چرا روپیہ دے دیا ۔ میں بلٹی چھوڑا کر حضور کے پاس لایا اور روپیہ جو قرض لے کر دیا تھا، حضورؑ سے طلب کیا۔حضورؑ نے فرمایا کہ محصول ڈاکٹر صاحب نے دے دیا ہے، میں نے عرض کی کہ بٹالہ کا کلرک کہتا تھا کہ حساب کے رو سے محصول کم دیا گیا ہے ، ایک روپیہ اور چاہئے ۔ اس پر حضور ؑنے فرمایا کہ ہم کم دینا ہی کب چاہتے ہیں جی۔ یہ الفاظ سن کر میرے اندر بجلی کی طرح ایک رو پیدا ہو گئی۔ ۔۔حضرت اقدس نے مجھے ایک روپیہ لا کر دے دیا اور میں نے میاں اللہ رکھا مرحوم بٹالہ والا کو پہنچا دیا۔
میں نے میاں اللہ رکھا مرحوم بٹالہ والا کا ذکر خصوصیت سے اس لئے کیا ہے کہ اس کی یادگار بھی قائم اور تازہ ہو جائے۔ خدا تعالیٰ اس کی مغفرت کرے، بہت سی خدمات بڑے شوق سے انجام دیا کرتے تھے۔ بٹالہ کی بستی میں ایسا خدمت گزار میں نے اور کوئی نہیں پایا۔ اللھم ارحمہ و اغفر لہ۔‘‘
(الحکم 21،28؍دسمبر 1936ء صفحہ 7 کالم 2،3)

حضرت میاں اللہ یار صاحب ٹھیکہ دار

حضرت میاں اللہ یار صاحب نے 1889ء میں قبول احمدیت کی توفیق پائی۔ آپ حضرت میاں محمد اکبر صاحب کے چھوٹے بھائی تھے اور قادیان میں لکڑیوں کا کاروبار کرتے تھے۔ نہایت مخلص اور فدائی رفیق تھے۔ آپ کی بیان کردہ روایات اخبار الحکم 28؍جنوری 1936ء صفحہ 3،4 اور رجسٹر روایات رفقاء نمبر 5 اور نمبر 10 میں موجود ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضورؑ دوسری شادی کر کے جب دہلی سے واپس تشریف لائے تو بٹالہ میں ہم نےحضرت اقدسؑ کی دعوت کی تھی ، حضور ہمارے ہاں ہی ٹھہرے تھے وہ فضل الدین کی حویلی تھی جس میںحضورؑ کو ٹھہرایا گیا۔ اس کے بعد ہی ہم نے بٹالہ میں اپنے مکان تعمیر کرائے تھے۔ آپ تقریباً 1894ء میں ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے ، پہلے تو لکڑیوں کا کاروبار جاری رکھا لیکن کسب معاش کے ذرائع محدود ہونے کے باعث دیگر کام مثلاً مچھلیاں بیچنا، حلوا بیچنا وغیرہ بھی کئے۔ قادیان میں آپ کی رہائش حلقہ بیت فضل میں تھی ۔ آپ ابتدائی موصیان میں تھے’’وصیت نمبر 440‘‘ آپ نے 26؍نومبر 1944ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان قطعہ 5 میں دفن ہوئے۔ آپ کی شادی مکرم مولوی وزیر الدین صاحب یکے از 313 ’’وفات نومبر 1905ء‘‘ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت برکت بی بی صاحبہ کے ساتھ ہوئی۔ وہ بھی ایک پارسا عورت تھیں ، عمر بھر قرآن کریم پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ۔ آپ سے قرآن پڑھنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ لوائے احمدیت کے لئے روئی بیلنے اور سوت کاتنے کا شرف حاصل کیا۔ 3/1 حصہ کی وصیت کی تھی ، تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی آپ کا نام شامل ہے۔ آپ نے 85 سال کی عمر میں 5؍اکتوبر 1965ء کو وفات پائی، بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ نمبر 11 میں دفن ہوئیں۔ آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

حضرت میاں محمد بخش صاحب

حضرت میاں محمد بخش صاحب حضرت میاں محمد اکبر صاحب کے بھائی تھے اور ان سے چھوٹے اور حضرت میاں اللہ یار صاحب سے بڑے تھے۔ مسلکاً اہل حدیث تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے معتقد اور مداح تھے۔باوجود اَن پڑھ ہونے کے بہت ہی ذہین تھے، آپ نے قرآن پاک ناظرہ بھی نہیں پڑھا ہوا تھا مگر پہلے پارہ کا پہلا ربع اور تیسویں پارہ کا آخری ربع زبانی یاد تھا، وہ بتاتے تھے کہ پہلے پارہ کا پہلا ربع ایک حافظ سے حفظ کیا تھا اور آخری پارے کا آخری ربع مقتدی ہونے کی حیثیت میں مختلف اماموں کی قرأت سن کر ہی حفظ کر لیا تھا۔
اگست 1897ء میں مقدمہ مارٹن کلارک کے سلسلہ میں جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت اقدس کے خلاف اور مارٹن کلارک کے حق میں گواہی دی تو آپ بھی اس موقع پر کورٹ میں حاضر ہوئے اور حضرت اقدس کو پہلی مرتبہ بغور دیکھا اور طبیعت پر بہت اثر ہوا ۔ آپ مولوی صاحب سے متنفر ہو گئے آپ کے دل میں ایسا جوش پیدا ہوا کہ مولوی صاحب آپ کی چادر پر بیٹھنے لگے تو آپ نے چادر کھینچ لی کہ ایسی بزرگ ہستی کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے جھوٹا گواہ بن کر سزا دلوانے کے لئے آئے ہیں ۔ اسی مقدمہ سے بریت کے موقع پر بہت سے لوگوں نے بیعت کی تو آپ بھی مبائعین میں شامل ہو گئے ۔
( میری یادیں حصہ اول صفحہ 8 تا 11 از رانا محمد اقبال صاحب۔ لاہور آرٹ پریس، 15 انار کلی لاہور)
مقدمہ سے بریت کی خوشی میں آپ اپنے بھائی حضرت میاں اللہ یار صاحب کے ساتھ کچھ پتاشے لے کرحضور اقدسؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
(الفضل 6؍دسمبر 1942ء صفحہ 3)
آپ 6/1 حصہ کے موصی تھے۔ (وصیت نمبر 1042) 15؍مارچ 1932ء کو تقریباً 80 سال کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے ۔آپ کی وفات پر حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے بمبئی سے آپ کے متعلق ایک مضمون لکھ کر بھیجا جو الفضل 24؍ اپریل 1932ء صفحہ 11 پر شائع ہوا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ بھی رفقاء احمد میں شامل تھیں ۔ آپ کی اولاد میں دو بیٹے تھے ۔ چھوٹے بیٹے محمد علی صاحب تو بچپن میں ہی (1902ء میں ) فوت ہو گئے لیکن دوسرے بیٹے مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے سلسلہ احمدیہ کے عالی گوہر ثابت ہوئے۔

حضرت مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے

حضرت مولوی محمد حسین صاحب المعروف سبز پگڑی والے 1893ء میں پیدا ہوئے۔ آپ حضرت میاں محمد بخش صاحب(جن کا ذکر اوپر گزرا ہے) کے بیٹے تھے۔آپ کے والدین 1900ء کے جلد بعد ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے اس لحاظ سے آپ کو حضرت اقدسؑ کی صحبت سے مستفیض ہونے کا بہت موقع ملا۔1923ء میں آپ نے زندگی وقف کی اور ساری زندگی اس عہد کو نبھایا۔آپ کو ہند و پاکستان میں مختلف علاقوں میں خدمات کی توفیق ملی،شدھی کی تحریک کے زمانہ میں خدمات دینی انجام دیں۔نہایت مدلل مناظرات ومباحثات کئے،آپ کی دعوت الی اللہ کے نتیجے میں بہت سی سعید روحوں کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے عہد خلافت میں حضرت صاحب کے ارشاد پر بہت سے اہم تاریخی مواقع میں شامل ہوئے(خاص طور پر جلسہ سالانہ یوکے 1989ء صد سالہ احمدیہ جوبلی کے موقعہ پر شریک ہوئے۔ناقل)۔1994ء میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔

حضرت میاں نبی بخش صاحب پاندہ

ابتدائی احمد یان بٹالہ میں حضرت میاں نبی بخش پاندہ صاحب بھی شامل ہیں،آپ کا نام اسماء حاضرین جلسہ جو بلی ملکہ وکٹوریہ جون1997ء کی فہرست میں 126 نمبر’’میاں نبی بخش صاحب پاندہ بٹالہ‘‘ مع چندہ موجود ہے۔
آپ کی اہلیہ کا نام محترمہ جیواں بی بی صاحبہ تھا جنہوں نے 7؍جولائی 1940ء کو 70سال کی عمر میں وفات پائی اور بوجہ موصیہ (وصیت نمبر 5570)ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔(فہرست وفات یافتہ موصیان 1905ءتا2007ء)
آپ کے پڑ پوتے مکرم میاں مظفر احمد صاحب احمدیہ ابوڈ آف پیس ٹورانٹو کینیڈا نے خاکسار کو بتایا کہ حضرت میاں نبی بخش پاندہ صاحب حضرت اقدس کی زندگی میں ہی اندازاً05-1904ء میں وفات پاگئےتھے۔ آپ کے دو بیٹے تھے مکرم میاں سعد محمد بٹالوی صاحب (وفات30؍اکتوبر 1972ء مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ) اور مکرم میاں احمد دین صاحب۔ پاندہ پنجابی زبان میں اس شخص کو کہتے تھے جو حساب کتاب میں ماہر ہوتا تھا۔
حضرت شیخ عبد الرشید صاحب بٹالوی
حضرت شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی ایک متمول خاندان کے چشم وچراغ تھے۔آپ اندازاً 1880ء میں پیدا ہوئے۔آغاز جوانی میں ہی احمدیت سے وابستہ ہوئے اور شدید خاندانی مخالفت کے باوجود نہایت استقلال واستقامت کے ساتھ عہد بیعت کو نبھایا۔آپ کی بیعت کا موجب عبد اللہ اور چراغ الدین نامی دو شخص تھے جو امرتسر سے بٹالہ آئے اور قادیان جانے کا شوق ظاہر کر کے آپ کو بھی ہم سفر بنانے میں کامیاب ہوگئے۔حضرت اقدسؑ کے نورانی چہرے اور پُر جذب کلام نے آپ پر گہرا نقش قائم کردیا اور آپ باربار قادیان جانے لگے اور پھر جلدہی بیعت کرلی ۔1900ءمیں حضرت اقدس کی زیارت کی اور 1901ءمیں بیعت کی توفیق پائی۔آپ جماعت احمدیہ بٹالہ کے روح رواں تھے آپ کا گھر احمدیت کا مرکز تھا۔آپ سالہا سال تک احمدیہ جماعت بٹالہ کے پریذیڈنٹ رہے۔حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں:
’’پھر بٹالہ کی جماعت کے دوسرے دور کے سابقون الاولون میں شیخ عبدالرشید صاحب کا مقام بہت بلند ہے اس لئے کہ جن امتحانات میں سے وہ گزرے ہیں اور جن تکالیف کو انہوںنے برداشت کیا ہے وہ بٹالہ کی جما عت میں کسی دوسرے کو پیش نہیں آئیں۔وہ ایک معزز تاجر کے بیٹے ہیں جو بڑا مالدار اور مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے خاص دوستوں میں سے تھا،شیخ عبدالرشید صاحب نے جب احمدیت کو قبول کیا تو ان کو ہر قسم کی تکالیف دی گئیں اورتمام راہیں آمدنی کی ان پر بند کردی گئیں ،کہنا یہ چاہئے کہ گویا گھر سے نکال دیا گیا ۔جو نور ایمان عبدالرشید کے دل میں شعلہ زن تھا آفات اُسے بجھا نہ سکیں بلکہ وہ اور تیز ہوتا گیا،ان کی اس راہ سعادت میں پیش آئی ہوئی تکالیف کی داستان دل گداز ہے۔‘‘
(الفضل 17؍ اکتوبر 1950ء صفحہ5 کالم 2)
آپ کی بیان کردہ روایات رجسٹر روایات رفقاء نمبر 12میں درج ہیں۔تقسیم ملک کے بعد آپ لاہورمیں اپنے بیٹے کے پاس مقیم تھے جہاں شدید بیمار ہوگئے،حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی صحت یابی کے لئے دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
’’مکرمی شیخ عبدالرشید صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعودؑکے (رفیق) ہونے کے علاوہ سالہا سال تک جماعت کے پریذیڈنٹ رہے ہیں،اس وقت فالج کی مرض میں مبتلا ہو کر تشویشناک طور پر بیمار ہیں..‘‘ (الفضل 19؍ اپریل 1950ءصفحہ 2)
لیکن مرض کی شدت کی وجہ سے 27؍مئی 1951ء کو وفات پاگئے،اخبار الفضل نے لکھا :
’’نہایت افسوس سے لکھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پرانے (رفیق) حضرت شیخ عبدالرشید صاحب سابق امیر جماعت بٹالہ والد ماجد ڈاکٹر محمدیعقوب خاں صاحب (میوہسپتال) 27؍مئی کی صبح کو لاہور میں وفات پاگئے۔آپ کی نعش کو بغرض تدفین ربوہ لے جایا گیا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے باوجود ناسازی طبع نماز جنازہ پڑھائی۔آپ عرصہ سے بعارضہ فالج بیمار تھے…‘‘ (الفضل 29؍مئی 1951ء صفحہ 2)
آپ کی وفات پر مولانا جلال الدین شمس صاب کا مضمون الفضل 4؍ستمبر 1951ء میں شائع ہوا۔آپ کی اولاد میں ایک بیٹے محترم شیخ عبدالقیوم صاحب(وفات13؍ اکتوبر 1943ء) اور مکرم ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب انچارج ایکسر ے سیکشن میوہسپتال لاہور(وفات 27؍ اگست 1975ء)کا علم ہوا ہے۔

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی

حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالویؓ

حضرت شیخ فضل احمد صاحب ولد شیخ علی بخش صاحب قوم ککے زئی غالباً1883ء میں بٹالہ میں پیدا ہوئے،ابھی آپ چھ سال کے تھے کہ والد محترم کی وفات ہوگئی۔1904ء میں آپ آبزرورپریس لاہور میں ملازم تھے کہ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل صاحب نے آپ کو ریو یو آف ریلجنز کا کوئی پرچہ پڑھنے کے لئے دیاجس کا اثر آپ کے دل ودماغ پر ایسا پڑا کہ آپ نے حضرت مسیح موعود ؑ کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ ریویو میرے نام پر جاری کردیں،حضور ؑنے گذشتہ سارے پرچے1904ء تک کے مجھے بھجوا دیے جن کے مطالعہ سے میرے دل نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے بیعت کر لینی چاہئے۔چنانچہ آپ نے تحریری بیعت کر لی لیکن دستی بیعت کا شرف آپ نے 1907ء میں حاصل کیا۔آپ نے بشوق صحبت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی خدمت میں بہت وقت گزارا اور حضور کے متعلق بیش قیمت اور انمول روایات جماعتی لٹریچر میں اضافہ کیں۔آپ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں راولپنڈی ،بنوں ،کوئٹہ وغیرہ مختلف جگہوں پر تعینات رہے اور جہاں بھی رہے احمدیت کا عمدہ نمونہ اور کھلا پیغام بن کر رہے،خلافت ثانیہ کے موقع پر علیحدگی اختیار کرنے والوں کا بھی آپ نے خوب مقابلہ کیا ۔ ستمبر 1935ء میں آپ قادیان آگئے اور مختلف جگہوںپر خدمت کی توفیق پائی۔قادیان سے ہجرت کے وقت بہت سی قیمتی مالی امانتیں لے کر بحفاظت آپ لاہور پہنچے۔کچھ عرصہ آپ چنیوٹ میں بھی رہے اور وہاں بھی امیر جماعت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔آپ نے 30؍اگست 1968ء کو 84سال کی عمر میں لاہور میں وفات پائی اور بوجہ موصی (وصیت نمبر 597) ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔آپ کے ایک فرزند مکرم لئیق احمد طاہر صاحب برطانیہ میں ایک عرصہ سے بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

حضرت شیخ نیاز محمدصاحب ریٹائر انسپکٹر پولیس

حضرت شیخ نیاز محمد صاحب ولد میاں محمد بخش صاحب اصل میں گوجرانوالہ کے رہنے والے تھے،1886ء میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد صاحب پولیس میں ملازم تھے اور بٹالہ میں متعین تھے ،اس لحاظ سے آپ کاتعلق بٹالہ سے رہا۔آپ کے والدمیاں محمد بخش صاحب انسپکٹر پولیس بٹالہ وہی ہیں جنہوں نے قتل لیکھرام کاسراغ لگانے کے سلسلے میں حضرت اقدس کے گھر کی تلاشی لی تھی،حضرت اقدس نے اسی موقع پر ان کو فرمایا تھا’’ آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولادمیرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہوجائے گی‘‘۔چنانچہ اُن کی وفات مارچ1902ء کے بعد حضرت شیخ نیاز محمد صاحب بٹالہ سے اپنی زمین واقع ضلع گوجرانوالہ میں منتقل ہوگئے جہاں حضرت حکیم محمد دین صاحب (وفات 10؍نومبر 1934ء) جیسے مخلص اور فدائی سلسلہ کے اثر سے 1907ء میں بیعت کرلی۔
آپ نے حضرت اماں جانؓ کے لئے ایک کپڑا بطور تحفہ حضرت اقدس کی خدمت میں پیش کیا،حضور نے اندر جاکر ہنستے ہوئے کپڑا حضرت اماں جان کودیا اور فرمایا یہ اسی کے بیٹے نے دیا ہے جس نے قتل لیکھرام کی تلاشی کے وقت تمہارے ٹرنک توڑے تھے۔حضرت شیخ نیاز محمد صاحب بھی پولیس میں انسپکٹر تھے،ملازمت کے سلسلہ میں ایک لمبا عرصہ سندھ میں متعین رہے اور ملازمت کے ساتھ جماعتی طور پر بھی بہت خدمات سرانجام دیں۔24؍جولائی 1953ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔آپ کی اہلیہ محترمہ عالم بی بی صاحبہ راہوالی ضلع گوجرانوالہ کی رہنے والی تھیں،یکم مئی 1970ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئیں۔

حضرت بابو محمد افضل خان صاحب بٹالوی

حضرت بابو محمد افضل خان صاحب بٹالوی ولد مکرم شیخ میر محمد صاحب قوم ککے زئی بٹالہ ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے ۔آپ 1880ء میںپیدا ہوئے۔آپ وزیر ستان(صوبہ خبیر پختون خواہ) میں ملازم تھے کہ 1906ء میں قبول احمدیت کا عریضہ لکھ دیا،آپکی بیعت کا خط اخبار الحکم میں یوں چھپا ہے۔
’’بعد از سلام سنت…واضح رائے عالی بادکہ یہ خاکسار چند ایام سے حضور کی قدم بوسی کا از حد مشتاق ہے اور حضور کے مامورمن اللہ ہونے پر یقین واثق ہے۔ بلکہ دیگر الفاظ میں خادم ہونے کا مدعی ہے مگر اپنے گناہوں کے باعث بقول
زانکہ نسبت بسگِ کوئے تو شد بے ادبی
یہ بھی کہنا گستاخی خیال کرتا ہوں گو بشرط زندگی ان شاءاللہ الرحمٰن خاکسار عنقریب خدمت بابرکت میں حاضر ہونے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تاہم چونکہ زندگی کا کچھ اعتبار نہیں ،خاکسار کی دلی خواہش ہے کہ بذریعہ عریضہ ہذا اپنے عقائد کا اظہار کرکے اللہ جل شانہ ‘کے روبرو آنجناب گواہ ٹھہرئوں تاکہ آخرت میں منکروں سے علیحدہ رکھا جائوں..
آخر میں گزارش ہے کہ بموجب احکام حضور اس وقت تک کہ قبر میں جائوں حتی الامکان دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا…..اور بیعت میں داخل کرنے کا شرف اس احقر کو بھی بخشیں،گرقبول افتد زہے عزوشرف، زیادہ آداب،اگر حضور پسند فرماویں تو میری عین آرزو ہے کہ میرا یہ عریضہ لفظ بہ لفظ درج اخبار الحکم وبدر ہونے کا حکم دیا جاوے تا کہ شاید کسی دوسرے کے واسطے موجب ہدایت ہو کیونکہ آخرت سخت ہے۔
عارض محمد افضل ساکن بٹالہ ولدشیخ میر محمد قوم ککے زئی حال کلرک خزانہ وانوں جنوبی وزیرستان‘‘
(الحکم 24؍ مارچ 1906ءصفحہ 3کالم 2,1)
آپ کے بیٹے محترم ملک فضل الرحمٰن صاحب بیان کرتے ہیں:
’’ والد محترم بٹالہ ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے… آپ نے اپنی ساری ملازمت کا عرصہ وزیرستان میں گزارا ،کلرک بھرتی ہوئے اور ریذیڈنٹ کے دفتر میں سپرنٹنڈنٹ ہوکر ریٹائر ہوئے ۔ دوران ملازمت ایک احمدی تحصیلدار کی (دعوت الی اللہ )سے آپ پر صداقت آشکار ہوئی ۔آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں جب کلرک تھا تو سیکنڈ کلرک کی اسامی خالی ہوئی ،میں نے حضرت اقدس ؑکی خدمت میں دعا کے لیے لکھا ،حضور کا جواب آیا کہ دعا کی گئی مگر وہ جگہ کسی اور کو مل گئی ۔اس کے فورا ًبعد انگریز افسر ہیڈ کلرک سے ناراض ہو گیا اور اسے فارغ کر کے بجائے کسی سیکنڈ کلر ک کوہیڈ کلرک بنانے کے مجھے ہیڈ کلرک بنادیا ۔ملازمت کے دوران آپ( دعوت الی اللہ) کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے ۔تقسیم ملک کے بعد لاہور میں محلہ گڑھی شاہو میں سکونت اختیار کی اور 1960 میں وفات پائی اور لاہور میں مدفون ہیں۔ آپ مولانا عبدالمجید سالک مرحوم کے حقیقی چچا تھے۔‘‘
آپ کی اولاد میں دو بیٹے محترم ملک فضل الرحمٰن صاحب ،محترم عطاءالرحمٰن صاحب اور ایک بیٹی اقبال بیگم صاحبہ تھیں۔

حضرت حاجی مفتی گلزار محمد صاحب

حضرت مفتی گلزار محمد صاحب ولدمکرم مفتی محمد بخش صاحب محلہ مفتیاں بٹالہ ضلع گورداسپورکے رہنے والے تھے۔1902ء میں آپ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے ۔بعد ازاں آپ ہجرت کرکے قادیان آگئےاور محلہ دارالرحمت میں سکونت اختیار کی۔ آپ بفضل اللہ تعالیٰ ابتدائی موصیان میں سے تھے۔ آپ کا وصیت نمبر 31 تھا اسی طرح آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہیں۔ آپ کا نام پانچ ہزار مجاہدین میں 982 نمبر پر مرحومین مشرقی پنجاب کے تحت درج ہے۔
آپ نے 16 ؍ستمبر 1941 ءکو بعمر 76 سال وفات پائی، اخبار الفضل نے خبر وفات دیتے ہوئے لکھا:
’’حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو بہشتی مقبرہ کے قطعہ رفقاء میں دفن کیا گیا ،بلندی درجات کے لیے دعا کی جائے ۔‘‘
(الفضل 18ستمبر 1941 صفحہ1)

حضرت مفتی چراغ دین صاحب

حضرت مفتی جمال الدین صاحب والد مکرم مفتی شہاب الدین صاحب بھی بٹالہ کے رہنے والے تھے اور پولیس میں ملازم تھے ،اپنی ملازمت کے سلسلہ میں کپورتھلہ میں وقت گزارا ۔آپ نے 1902ء میں بیعت کی توفیق پائی۔ آپ کی بیان کردہ روایات اخبار الحکم میں شائع ہوئی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
1) ’’میں نے بھی عرض کیا کہ حضرت جی! میری نوکری پولیس میں ہے ۔فرمایا :ہمارا آدمی ضرور پولیس میں ہونا چاہیے۔‘‘
2) ’’ہم نے چونکہ جانا تھا ،لنگر کے انتظام کے مطابق کھانا کھا لیا مگر چونکہ حضرت اقدسؑ کو کپورتھلہ کی جماعت سے خاص اُنس تھا اس لئے حضور نے اس جماعت کے لئے اس دن پلاؤ تیار کروایا تھا، جب وہ تیار ہوا تو حضورؑ نے کسی سے فرمایا کہ جماعت کپورتھلہ کو کھلا دو ۔اس شخص نے عرض کیا کہ حضورؑ وہ تو چلے گئے ہیں ۔فرمایا کہ یکہ پر کھانا بٹالہ لے جاؤ جب وہ سٹیشن پر پہنچیں تو کھانا پیش کردو۔ چنانچہ حضور کا آدمی یکہ پر کھانا لے کر ہمارے پاس سے گزر گیا مگر ہمیں علم نہ ہوا ،جب ہم سٹیشن پر پہنچے تو حضور کی طرف سے کھانا پہلے سے موجود تھا ۔حضور کے آدمی نے کہا کھانا کھا لیں ہم حیران ہوئے کہ یہ کھانا کہاں سے آیا ۔ اس پر اُس نے سارا واقعہ سنایا۔‘‘
3) ’’ایک دفعہ ہم قادیان گئے ،میں اور محمد خان صاحب مرحوم کا لڑکا عبدالمجید خان حضور کو دبانے لگے۔ ہم نے پورے زور سے دبایا اور آپس میں باتیں کیں کہ حضور میں بہت طاقت ہے ۔ہم نے بڑے زور سے دبایا ہے مگر حضور خاموش رہے اور فرمایا کچھ نہیں ۔ صبح حضور نے مجلس میں فرمایا کہ ہمارے دوست بڑے زور سے دباتے ہیں ،مجھے بڑی تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر میں خاموش رہتا ہوں تاکہ وہ خوشی پوری کرلیں۔‘‘
4) ’’ہم اُس زمانہ میں لنگر کے ٹکڑے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ اگر کسی کو پیٹ میں درد ہوتی تھی تو وہ کوٹ کر پلا دیتے تھے اور اوپر سے گرم پانی پلا دیتے تھے مریض کو آرام آ جاتا تھا۔‘‘
(الحکم 14 تا 21 ؍جنوری 1943ءصفحہ3)
آپ نے 25 ؍مئی 1943 ءکو بعمر 89 سال وفات پائی اور بوجہ موصی( وصیت نمبر 794 4) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے ۔آپ کی والدہ نے 1910ءمیں وفات پائی۔
(بدر 19 تا 26 مئی 1910 ءصفحہ-15)

حضرت شیخ فضل الٰہی صاحب بٹالوی

حضرت قاضی محمد یوسف صاحب آف قاضی خیل ہوتی ضلع مردان حضرت شیخ فضل الٰہی صاحب کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
شیخ صاحب شہر بٹالہ ضلع گورداسپور کے باشندے تھے اور شیخ ابوسعید مولوی محمد حسین بٹالوی نمائندہ اہلحدیث کے قریبی رشتہ دار تھے۔ دفتر پولیٹیکل ایجنٹ خیبر میں 1906ءکے قریب کلرک تھے اور لالہ چھجومل ہیڈ کلرک تھے۔ ان کے پنشن یاب ہونے پر آپ ہیڈ کلرک مقرر ہوئے ۔یہ غالباً وطن سے ہی احمدی ہو کر آئے تھے مگر۔۔۔ اختلاف سلسلہ واقع ہونے پر شیخ صاحب نے خلافت ثانیہ کی بیعت کرلی اور کچھ عرصہ مبایعین کی جماعت کے صدر بھی رہے۔ 1919ءکے بعد پنشن یاب ہو کر بٹالہ چلے گئے۔
شیخ فضل الٰہی صاحب اس کے بعد پھر کبھی نہ ملے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جلد فوت ہوگئے۔ آدمی متین اور نیک فطرت تھے کاروبار میںہوشیار تھے خدا تعالیٰ مغفرت فرمائے۔

حضرت میاں غلام محمد صاحب

حضرت میاں غلام محمد صاحب خادممسجدبٹالہ کی مختصر روایات رجسٹر روایات رفقاءنمبر 12صفحہ 24 ،48 درج ہے آپ نے 13 ؍جنوری 1945 ءکو وفات پائی ۔
(الفضل 15 جنوری 1945 صفحہ1)

حضرت بابو عبدالواحد خان صاحب ٹھیکیدار بھٹہ

حضرت بابو عبدالواحد خان صاحب ٹھیکیدار بھٹہ ولد حاجی غلام محمد صاحب قوم ککے زئی بٹالہ سے تعلق رکھتے تھے ۔آپ نے 1900میں بیعت کی توفیق پائی۔ آپ دارالفضل قادیان میں ہجرت کر کے آئے تھے۔ آپ نے 20 ؍جولائی 1945 ءکو 61 سال کی عمر میں وفات پائی اور بوجہ موصی( وصیت نمبر46 37) ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے ۔آپ کی اہلیہ محترمہ غلام زینب صاحبہ نے 2 فروری 1933 ءکو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئیں۔

حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب

حضرت ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب ولد شیخ غلام قادر صاحب سکنہ بٹالہ حال امرتسر کوٹ ککے زئیاں کی بیان کردہ روایت ہے جس پر روایت کا نمبر 11 صفحہ 45 درج ہے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ امۃ الرشید صاحبہ نے 31 ؍اگست 1930ء کو وفات پائی اوربوجہ موصیہ (وصیت نمبر2978)ہونےکے بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔

حضرت کپتان محمد دین صاحب

حضرت کپتان محمد دین صاحب ولد مکرم امام الدین صاحب خان بٹالہ نے 1898ء میں تحریری بیعت کی اور 1900ءمیں حضرت اقدس کی زیارت سے مشرف ہوئے۔

حضرت بابو روشن دین صاحب سیالکوٹی

حضرت بابو روشن دین صاحب ولد مکرم کرم الٰہی صاحب اصل میں سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور محکمہ ریلوے میں ملازم تھے اور بطور سٹیشن ماسڑ مختلف جگہوں پر ملازمت کی۔آپ نے 1897ء سے قبل احمدیت قبول کی۔آپ نہایت ہی مخلص ،جاں نثار اور احمدیت کے عاشق تھے اور جہاں رہے احمدیت کا نمائندہ بن کر نہایت عمدہ نمونہ پیش کیا اور اپنے ملنے والوں کو احمدیت کے قریب کیا۔آپ کا نام حضرت اقدس کی رقم فرمودہ 313 رفقاء کی فہرست میں’’بابو روشن دین ۔ڈنڈوت‘‘ موجود ہے کیونکہ اُن دنوں آپ وہیں ملازمت پر تھے۔بعد ازاں آپ اٹک وغیرہ دیگر جگہوں پر بھی متعین رہے۔آپ کے مختصر حالات زندگی اخبار الفضل 12؍ فروری 1966ء صفحہ5پر شائع شدہ ہیں۔اپنی ملازمت کے سلسلے میں ہی کچھ عرصہ آپ بٹالہ میں بھی متعین رہے اور یہاں بھی سلسلہ کی خدمت کی بھر پور توفیق پائی۔حضرت مصلح موعودؓ کے سفر لاہور 1920ء کے موقع پر ایڈیٹر اخبار الحکم بٹالہ ریلوے سٹیشن کا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بابوروشن دین صاحب سٹیشن ماسٹر بٹالہ جو کہ نہایت ہی نیک اور مخلص بزرگ ہیں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں بابو روشن دین صاحب سے قبل بٹالے سٹیشن پر اکثر احمدیوں کو تکلیف رہتی تھی لیکن خداتعالیٰ نے ان تمام تکلیفوں کو بابوصاحب کےوجود سے دور کردیا۔حضرت صاحب کی آمد کی بابو صاحب کو بہت ہی خوشی تھی اور دعوت وغیرہ میں ان ہی کا زیادہ تر حصہ تھا ۔ان کو سلسلہ کی (دعوت الیٰ اللہ )کا بہت بڑا جوش ہے۔ اُسی جوش کی وجہ سے اور اُن کے نیک نمونے کی وجہ سے خدا نے اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر صاحب کو بھی سلسلہ احمدیہ کی طرف رہنمائی کی… غرض گاڑی بٹالہ کے سٹیشن پر آئی اور سٹیشن والوں کی طرف سے گاڑی کے نیچے پٹاخے رکھے گئے اور ان پٹاخوں کے ذریعہ سلامی گزاری گئی۔بٹالہ کے لوگوں نے نہایت ہی اچھی مہمانی کی اورتمام احباب کو بمع حضرت خلیفۃ المسیح گاڑی میں سوار کر اکر خدا حافظ کہا۔‘‘
(الحکم 28،21؍فروری 1920ء صفحہ 8)
اس کے چند ہفتہ بعد حضور سفر سیالکوٹ پر تشریف لے گئے اس موقع پر بھی حضرت بابو روشن دین صاحب نے بٹالہ سٹیشن پرپھر خدمت کا موقع پایا،ایڈیڑ صاحب الحکم لکھتے ہیں:
’’بابو روشن دین صاحب سٹیشن ماسٹر بٹالہ جس محنت سے حضرت صاحب اور جماعت کی خدمت کرتے ہیں وہ بہت ہی قابل شکریہ ہے….بابو صاحب کے اخلاق حمیدہ ایسے ہیں کہ سب لوگ ان کے مداح پائے جاتے ہیں اور کسی شخص کو ان سے کسی قسم کی تکلیف نہیں…بابو صاحب نے ایک گارڈن پارٹی دی۔‘‘
(الحکم 7؍اپریل 1920ءصفحہ 2)
آپ بفضلہ تعالیٰ 8/1 حصہ کے موصی تھے۔(وصیت نمبر 2886)23؍ جنوری 1929ء کو بعمر 58 سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے۔۔۔

حضرت منشی عبدالکریم صاحب بٹالوی

حضرت منشی عبدالکریم صاحب والد مکرم یوسف علی صاحب موضع عثمان پور تحصیل سنگرور ریاست جیند (حال صوبہ ہریانہ، بھارت)کے رہنے والے تھے ۔لیکن حصول تعلیم کے لئے بٹالہ آگئے بعد ہ‘ ملازمت کے سلسلے میں بھی آپ بٹالہ میں کافی عرصہ رہے۔ اسی لئے آپ کے نام کے ساتھ بٹالوی مشہور ہوا۔ آپ نے 1897 ءمیں تحریری بیعت کی اور 1902 ءمیں قادیان جاکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ دوران ملاقات آپ نے عرض کی حضور خاکسار کارخانہ بیلنا ریاست ناہن شاخ لدھیانہ میں منشی ہے۔ حضور دعا فرماویں کہ میں کارخانہ کا انچارج ایجنٹ بن جاؤں سو میرا تبادلہ بٹالہ ہو جائے تاکہ میں آتے جاتے مہمانوں کی خدمت کیا کروں، حضور ؑنے فرمایا بہت اچھا ہم دعا کریں گے۔۔۔ یہ جو دعا کرائی تھی وہ پوری ہوئی اور جو تبادلہ بٹالہ کے متعلق تھی وہ 1915 ء میں پوری ہوئی اور سات سال تک بٹالہ میں رہ کر آتے جاتے مہمانوں کی خدمت جو خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی، کرتا رہا۔( رجسٹر روایات رفقاء نمبر 5 صفحہ 155-156) آپ جب بٹالہ میں مقیم ہوئے تو آپنے گھر کو قادیان آنے جانے والے مہمانوں کے لیے وقف کر دیا ۔اخبار’’ فاروق ‘‘نے ’’بٹالہ میں احمدیہ قیام گاہ‘‘ کے تحت اعلان کیا:
یہ قیام گاہ برادرم مکرم منشی عبدالکریم صاحب احمدی ایجنٹ ناہن فونڈری بٹالہ کے مکان کے ایک حصہ میں قائم ہوئی۔ جس میں رات دن قادیان آنے والے اور قادیان سے جانے والے احمدی بزرگ ٹھہر کر ہر طرح کا آرام پاتے ہیں۔ منشی صاحب موصوف نے اس خدمت کو محض خدا کے واسطے اپنے ذمہ لیاہے۔۔۔۔ اس لئے ایک حصہ اپنے مکان کا محل ایسے مہمانوں کے واسطے مخصوص کر کے چارپائیوں بستروں اور پانی وغیرہ کا انتظام اس میں کر دیا اور اس خدمت کا ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے شوق تھا جس کا انہوں نے حضورؑ سے اظہار کرکے اپنے بٹالہ میں تبادلہ کے لیے دعا بھی کرائی تھی۔۔۔۔۔
(اخبار فاروق قادیان 27 اپریل 1916ءصفحہ-15)
بعدہ‘ آپ ہجرت کرکے قادیان محلہ مسجد فضل میں رہائش پذیر ہو گئے۔ آپ نے ہجرت پاکستان کے بعد29-30 ؍دسمبر 1967ء کی درمیانی رات کو وفات پائی۔ آپ خدا کے فضل سے موصی(وصیت نمبر 738)تھے ، جنازہ ربوہ گیا جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نمازجنازہ پڑھائی اور آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ رفقاءمیں دفن کیا گیا۔ آپ کی بیوی کا نام حضرت عظیماں بیگم صاحبہ تھا، جنہیں بھی رفقاء احمد میں شامل ہونے کا شرف حاصل تھا۔ انہوں نے 10 ؍ستمبر 1924ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں۔
ان کے علاوہ جلسہ سالانہ 1892ء کے شاملین کی فہرست میں اور فہرست میں مندرج جلسہ احباب میں بٹالہ کےکئی احباب کے نام مرقوم ہیں جن کے حالات کا علم نہیں ہو سکا۔ حضرت سید حافظ عبد الرحمٰن صاحب احمدی بٹالوی بٹالہ میں 1908ء تک جماعت احمدیہ میں شامل ہونے والوں کے متعلق لکھتے ہیں:
یہ دوست جو اپنےاپنے خاندان کے سر کردہ تھے، 1908 تک حلقہ بگوش احمدیت ہو چکے تھے، ان کے اسماء ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
محمد اکبر ٹھیکیدار، محمد بخش صاحب، ڈاکٹر دین محمد صاحب، مرزا جان محمد صاحب، شیخ غلام اللہ صاحب، شیخ غلام مصطفیٰ صاحب، شیخ حافظ عبد الرحمٰن صاحب، خواجہ عبدالسبحان صاحب، شیخ اللہ رکھا صاحب، شیخ عبدالرشید صاحب، میاں باغ حسین صاحب، ڈاکٹر محمد شریف صاحب سول سرجن، مرزا فضل بیگ صاحب وکیل، شیخ فضل الہٰی صاحب، میاں محمد یوسف صاحب پاندا، محمد افضل صاحب، شیخ عزیز الدین صاحب، اللہ یار صاحب، مولوی نواب الدین صاحب خانساماں اور حسین بھٹی صاحب خانساماں، شیخ عطا محمد صاحب پٹواری، شیخ غلام مرتضیٰ صاحب، شیخ برکت علی صاحب نیچہ بند۔
(الفضل 4 اکتوبر 1950 ءصفحہ 2)
یہ تھا بٹالہ میں جماعت احمدیہ کے قیام اور مخلصین جماعت کا مختصر تذکرہ جو خاکسار اپنے علم کے مطابق کر سکا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کے وہ ان تمام مرحومین کے درجات بلند کرے ،اور ان کی مغفرت کرے اور انکی نسلوں کو ان کے نمونہ پر چلتے ہوئےدین اسلام کی بہترین خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
(بحوالہ الفضل 11؍جنوری 2016ءصفحہ 3)

أُذْکُرُوْ ا أَمْوَاتَکُمْ بِالْخَیْرِ

اپنے بزرگوں کی خدمات کو زندہ رکھنے کے لئے ان کی خدمات کا تذکرہ کرتے رہنا چاہئے۔اس سےاپنی اور آنے والی نسلوں کی روح بیدار ہوتی ہے۔

میرے دادا حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ

میرے دادا جان محترم حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالوی رضی اللہ عنہ 1880ء میں بمقام بٹالہ پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم بٹالہ میں ہی حاصل کی۔ آپ کے والدمنشی محمد علی خان صاحب انسپیکٹر پولیس تھے۔ان کا منشاء تھا کہ آپ بھی محکمہ پولیس میں ملازمت اختیار کریں۔تاکہ وہ اپنے خاندانی حقوق کا محکمانہ فائدہ اٹھائیں۔ نیز آپ کی مزید بہتری کے لئے کوشاں ہوں۔لیکن حضرت دادا جانؓپولیس کی ملازمت سے طبعاً متنفر تھے۔چنانچہ آپ نے اپنے رجحان کےمطابق A L O Eہائی اسکول بٹالہ میں ملازمت اختیار کی۔آپ کی عادت تھی کہ وقت کو ہرگز ضائع نہ کرتے تھے۔چنانچہ ان دنوں میں جو وقت ملتااس سے فائدہ اٹھا کر آپ نے پرائیویٹ طور پر منشی فاضل اور بی۔اے کا امتحان پاس کیا۔اس کے علاوہ آپ طِب کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔اور شکاگو یونیورسٹی امریکہ سےڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

قبول احمدیت

آپ کے دیرینہ تعلقات حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیّر ؓ سے تھے۔حضرت مولانا صاحبؓ آپ کو اکثر تبلیغ کیا کرتے تھے۔اُنھیں کی تلقین پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ شروع کیا۔شرح صدر ہونے پر آپ نے حق قبول کیا اور 1900ء میں تحریری بیعت کر لی اور پھرکچھ عرصہ بعد حضرت اقدس علیہ السلام سے دستی بیعت کا شرف قادیان آکرحاصل کیا۔

بیعت کے بعد اپنے خاندان میں تبلیغ

خود بیعت کرنے کے بعد آپ نے اپنے خاندان میں والہانہ طور پر تبلیغ شروع کر دی۔آپ ایک رئیس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کے موروثی املاک و جائیداد بٹالہ میں تھے۔خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ ایک وسیع بلڈنگ کے بھی مالک تھے۔اس لئے احمدی مہمانوں کو آپ کے مکان میں ٹھہرنے کی بہت سہولت تھی۔اُن دنوں بٹالہ سے قادیان کو ریلوے نہیں تھی۔اس لئے بہت سے احمدیوں کو بٹالہ میں ٹھہرنا پڑتا تھا۔اکثر اکابر سلسلہ عالیہ احمدیہ باِلخصوص حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا گزر ان دنوں جب کبھی بٹالہ سے ہوتا تو حضور ؓ ازراہ کرم دادا جانؓمرحوم کے ہاں قدم رنجہ فرماتے۔اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حضورؓ رات بھی یہیں اقامت پذیر ہوتے۔

سلسلہ کے لئے آپ کی غیرت و حمیت

جن دنوں تحریک خلافت ترکی زوروں پر تھی۔ایک رات پرانی منڈی بٹالہ متصل قلعہ والا پرائمری اسکول میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا لیکچر تھا۔اگر چہ موضوع تقریر محض سیاسی تھا۔لیکن حسب عادت شاہ صاحب نےسلسلہ عالیہ احمدیہ کی شان میںنازیبا الفاظ کہے۔ہزاروں کا مجمع تھااور احمدیوں کے خلاف جلسہ میں اشتعال انگیزی بلاوجہ کی جا رہی تھی۔چند احمدی بھی یہاں تقریر سن رہے تھے،جن میں حضرت دادا جان ؓبھی تھے۔آپ نے جب دیکھا کہ شاہ صاحب خواہ مخواہ بہتان طرازی سے کام لے رہے ہیںتو ہزاروں کے بھرے مخالف مجمع میںآپ نے نہایت ہی جرأت سے شاہ صاحب کو للکار کر کہاکہ اپنی زبان بندکرو۔ایک آدھ منٹ کے لئے مجمع میں سناٹا چھا گیا۔اس پر بعض مفسدوں نے روشنی کے گیسوں پر کپڑا ڈال کر اندھیرا کر دیا،تاکہ تاریکی کے پردے میں ان چند احمدیوں کو زدوکوب کیا جائے جو کہ وہاں کھڑے تھے۔اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔جہاں تک میرا علم ہے،احمدیوں کو اس موقعہ پر کوئی شدیدچوٹ نہ آئی تھی۔۔بعض مخالف دادا جانؓ کی اس جرأت پر حیران تھے۔

بٹالہ میں صداقت احمدیت کا ایک نشان

آپؓ بٹالہ کی ملازمت کے زمانہ میںسکول میںکھلے بندوں تبلیغ کرتے تھے۔گو سکول کا ہیڈ ماسٹر بی ایم سرکار نامی ایک سخت طبیعت کٹّرعیسائی تھا۔اور آپؓ کی تبلیغی سرگرمی سے واقف بھی تھا۔تاہم آپ ؓ کے ذاتی اوصاف کی وجہ سے آپ کی بہت عزت کرتا تھا۔ہندو مسلمان طلباء کی کلاس میں آپ کوئی نہ کوئی تبلیغی بات کرتے رہتے۔اسی اسکول میں ایک عربی ٹیچر غلام غوث نامی ساکن پکا تھڑا،ٹھٹھیاری دروازہ بٹالہ آپؓ سےاکثر مباحثہ میں لگا رہتا۔ایک دن اس نے کھلے الفاظ میںحضرت دادا جانؓ کو کہا کہ آپ باطل پر ہیں،آپ ہلاک ہوں گے۔اور اگر میں باطل پر ہونگا تو میںہلاک ہوں گا۔آپؓ نے فرمایا ایسا ہی ہوگا۔اس گستاخی کی پاداش میں مولوی غلام غوث مذکور کو گرفت ہوئی۔اچانک وہ بیمار ہوا۔اس کے دل پر دہشت احمدیت طاری تھی۔اُس نے خود محسوس کیا کہ میں نے اپنے کئے کی سزا پائی با لآخر اس کو ہذیان(مرض کی بیہوشی میں بیہودہ گوئی کی بیماری)ہوا۔جو بھی اس کی عیادت کو آتاوہ اُسے کہتا’’آئیے ماسٹر محمد طفیل صاحب میری خطا معاف کریں۔میں نے غلطی کی‘‘۔اسی حالت میںجلد ہی ملک الموت نے اسے دبوچ لیا۔اس طرح وہ اپنی موت سے احمدیت کی صداقت کا نشان بنا۔

دیار حبیب میں قیام کا اشتیاق

بٹالہ میں آپ کی موروثی املاک وجائیدادتھی۔ملازمت کے علاوہ رشتہ دار بھی بٹالہ میں تھے۔لیکن ایک عیسائی اسکول کی ملازمت سے آپ کی طبیعت متنفر ہونے لگی۔نیز اشتیاق قرب دیار حبیب نے آپ کو بےچین کر دیا چنانچہ عیسائی اسکول کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر آپ قادیان آگئےاور مستقل ہجرت اختیار کر لی۔قادیان میں آپ کا گھر محلہ دارالفضل میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓکی کوٹھی کے ساتھ تھا۔

ہجرت کے بعد نیک آرزؤں کا عملاً ایفاء

قادیان میں آکر آپ مدرسہ احمدیہ میں مدرس ہو گئے۔جن نیک ارادوں سے آپ نے ہجرت کی تھی عملاًان کو آپ نےزندگی بھر پورا بھی کرکے دکھایا۔آپ کی صحت اچھی تھی۔اور آپ نہایت ہی جانفشانی سے قادیان میں ہمیشہ خدمت خلق اور خدمت دین میں لگے رہے۔یہاں تک کہ دن رات آپ نے سخت محنت سے کام لیا۔آپ کو ہمیشہ ہی کسی نہ کسی کام میں منہمک پایا گیااور ٹیک لگاتے نہ دیکھا گیا۔آپ گھر میں فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا اصل کام تو آگے جانا ہے۔ہمیں جو بھی کام کرنا چاہئے اسی مقصد کے لئے کرنا چاہئے۔آپ کی زندگی کا منتہا خدمت خلق اور خدمتِ دین تھا۔آپ وقت کی قدر خوب ہی پہچانتے اورایک لمحہ بھی ہرگز نہ ضائع ہونے دیتے تھے۔آپ میں دکھاوا نہ تھا۔آپ بے ریاء اورنہایت ہی اخلاص سے سلسلہ کے سارے کام سر انجام دیتے تھے۔بلا فیس اور بغیر کسی قسم کے معاوضہ کےآپ مریضوں کو دیکھنے تشریف لے جاتےاور انہیں نسخہ لکھ دیتے ۔اگر ممکن ہوتا تو ادویہ سے بھی امداد کرتے۔بحیثیت جنرل پریزیڈنٹ لوکل کمیٹی قادیان دن رات لوگوں کی خدمت کو اپنافرض اوّلین سمجھا۔کئی بار آپ نےبحیثیت قاضی بھی کام کیا۔زائد از پندرہ سال آپ نے مسجد نور (قادیان)میں امامت کے فرائض ادا کئے۔جلسہ سالانہ کے ایام میں اندرون شہر کا قریباً سارا انتظام بطور ناظم ہمیشہ آپ کے سپرد کیا گیا۔بعض دیگر اہم کام بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے آپ کو سونپے جاتے،جنہیں آپ محنت سے بجا لاتے۔مجلس مشاورت کے موقعہ پر کھانے کا کام آپ کے زیر انتظام ہوتا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے آخری نکاح کے موقعہ پر دعوت ولیمہ کا سارا انتظام آپ ہی کے سپرد تھا۔بلکہ دعوت ولیمہ کے لئے جو کارڈ چھپوائے گئےان میں آپ ہی داعی تھے اور آپ کے نام سے ہی وہ کارڈ جاری ہوئے۔حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ کی الیکشن پیٹیشنELECTION PETITIONکا سارا کام آپ کے سپرد تھا۔ان دنوں اس سلسلہ میں آپ لاہور میں تشریف لائےاور آپ کو غیر معمولی محنت سے دو چار ہونا پڑا۔جس کی وجہ سے آپ کی صحت ہمیشہ کے لئے خراب ہو گئی۔غرضیکہ جس اخلاص سے آپ نےہجرت اختیار کی تھی اُسے اللہ تعالیٰ نے قبول کر لیاتھا۔جس کی ظاہری علامت آپ کو دن بدن اور زیادہ کاموں کی توفیق ملنا تھا۔آپ ان کاموں سے کبھی نہ اکتائےاور نہ تھکے ،دنیا کو دارالعمل سمجھا،جائے آرام نہ بنایا۔

ذکر الٰہی پر مداومت

عُسراور یُسر میں آپؓ نے اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو بڑھایا۔مسنونہ ادعیۃالاحادیث و اذکار و ادعیۃالمسیح الموعودؑ کے ورد آپ ہمیشہ پابند رہے۔جاگتے وقت سوتے وقت،اُٹھتے بیٹھتے،کام کرتے،بازار جاتے اور کھانا کھاتے وقت آپؓ ان دعاؤں کو بالتزام پڑھا کرتے تھے۔آپؓ نے کبھی کھانا نہیں کھایاکہ اُس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کیا ہو۔مرض الموت میں بھی جو کھانا کھایا،اُس پر شکر الٰہی کیا۔اس طریق کو آپ نے تا دم ہوش نبھایا۔ جس قدر ممکن ہوتا رات کا حصہ آپؓعبادت میں گزارتے تھے۔
حضرت دادا جان ؓموصی تھے(وصیت نمبر2186)۔تحریک جدید کے دونوں دفتروں میں آپ کا نام تھا۔حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓاور حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے آپ کے ساتھ بہت گہرے تعلقات تھے۔حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ توآپ ؓکے مریض ہونے کی وجہ سے آپ کا بہت ہی احترام کرتےاور اکثر آپ کے ہاں تشریف لاتے رہتے تھے۔آپؓ السلام علیکم کہنے میں پیش قدمی فرمایا کرتے۔آپ کے ہاں جو بھی آتا،طالب علم ہو یا مریض اس کے احترام کے لئے کھڑے ہو جاتے۔
(بحوالہ اخبار الفضل لاہور مورخہ 26؍ستمبر 1950ءصفحہ 6)
آپؓ بڑے محنتی اور دلچسپی سے کام کرنے والے انسان تھے۔مدرسہ احمدیہ میں تدریس کے دوران آپ کو کچھ عرصہ بعد سیکنڈ ماسٹر بنا دیا گیا۔آپؓ بہترین مدرس ،اعلیٰ طبیب اور بہترین منتظم بارعب اور با اثر عابد انسان تھے۔ایسی اطاعت کے نمونے دنیا میں بہت کم ملتے ہیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یکم جولائی 1900ء میںجب مینارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے یکصد روپیہ چندہ کا اشتہار دیا تو آپ نے بھی اس پر لبیک کہا۔اس زمانہ میں ایک صد روپیہ ایک بہت بڑی رقم تھی۔چنانچہ آپ نے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس چندہ کی ادائیگی کی۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے زمانہ میں جب اس مینار کی تکمیل ہوئی تو یکصد روپیہ چندہ دینے والے احباب کے اسماء حسب منشاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام مینار پر کندہ کئے گئے۔اس فہرست میں162نمبر پر دادا جان کا نام’’ماسٹرمحمد طفیل صاحب قادیان‘‘کندہ ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے بر موقعہ جلسہ سالانہ مورخہ 2؍دسمبر 1925ء اپنے خطاب میں افراد جماعت کو اپنی مصروفیات سے روشناس فرمایا اور اس خطاب کے دوران حضورؓ نے محترم دادا جان مرحوم کا بھی ذکر فرمایا۔حضورؓ فرماتے ہیں:
’’اب میں جو کام کرتا ہوںان کی تفصیل یہ ہے کہ میں صبح ناشتہ کے بعد مدرسہ خواتین میں پڑھاتا ہوں۔یہ ایک نیا مدرسہ قائم کیا گیا ہےجس میں چند تعلیم یافتہ عورتوں کو داخل کیا گیا ہے۔ان میں میری تینوں بیویاں اور لڑکی بھی شامل ہیں۔ان کے علاوہ اور بھی ہیں۔چونکہ ہمیں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئےمعلم عورتیں نہیں ملتیںاس لئے چِکیں ڈال کر عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں۔آج کل میں ان عورتوں کو عربی پڑھاتا ہوں۔ مولوی شیر علی صاحبؓ انگریزی پڑھاتے ہیں اور ماسٹر محمد طفیل خان صاحب جغرافیہ۔سوا گھنٹہ تک میں انہیں پڑھاتا ہوں۔اصل وقت تو پینتالیس منٹ مقرر ہے مگر سارے استاد اپنا کچھ نہ کچھ وقت بڑھا لیتے ہیں۔کیونکہ مقررہ وقت کم ہےاور تعلیم زیادہ ہے۔‘‘
(خطاب جلسہ سالانہ قادیان مورخہ 27؍دسمبر 1925ء،منہاج الطالبین صفحہ 3)
دادا جان ؓ مرحوم کے بارے میں محترم نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر اخبار الفضل نے ایک مضمون قلمبند کیا ہے جو یہاں درج کیا جا رہا ہے۔آپ لکھتے ہیں:
’’آپؓ کا مکان حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کی کوٹھی سے ملحقہ باغ کے بالکل قریب تھا۔بلکہ اس باغ میں اور آپؓ کے مکان کے درمیان ایک چھوٹی سی گلی تھی۔(محلہ دارالفضل قادیان کے مشرقی حصہ کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ناقل)مکان کے پچھلی طرف ایک کچی سڑک تھی جو نواں پنڈ سے(قادیان)کے مرکزی حصہ کی طرف جاتی تھی۔اور اس سے آگے تعلیم الاسلام ہائی سکول کا وہ میدان تھا جہاں فٹ بال،کرکٹ،ہاکی اور بعض اوقات کبڈی کے میچ بھی ہوا کرتے تھے۔اور سکول کے اوقات کے دوران حضرت ماسٹر مامون خان صاحب وہاں ڈرل بھی کرایا کرتے تھے۔چونکہ میرا مکان کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اور ویسے بھی ان کے ایک صاحبزادے مجھ سے ہم عمری کے باعث اکٹھے کھیلتے تھے۔اس لئے میں انہیں اکثر گھر سے نکلتے اور گھر واپس آتے دیکھتا تھا۔
آپ ؓاحمدیہ اسکول(مدرسہ احمدیہ)میں پڑھاتے تھےاور آپؓ کے پڑھانے کے متعلق جو سب سے زیادہ معروف بات تھی وہ یہ تھی کہ آپؓ کی آواز کی آہستگی کی وجہ سے بعض اوقات پچھلے بینچوں پر بیٹھے طلباء کو بات سمجھ نہیں آتی تھی۔اگر چہ ماسٹر صاحبؓ نہ سوٹی مارتے تھے اورنہ تھپڑلیکن کان اس طرح اینٹھتے تھے کہ طالب علم کو یہ واقعہ کبھی بھول نہیں سکتاتھا۔چنانچہ پچھلے بینچوں پر بیٹھنے والے طالب علم جنہیں آواز سنتی نہیں تھی اور وہ صحیح طور پر سوالات کے جوابات نہیں دے سکتے تھے، ان کے ساتھ یہ معاملہ اکثر ہوتا تھا۔ جہاں تک تعلیم و تدریس کا تعلق ہے آپؓ اپنے مضمون میں ماہر بھی تھے اور کہا جا سکتا ہے کہ ان دنوں کے معیار کے مطابق ماہر تعلیم بھی تھے۔یعنی نہ صرف یہ کہ اپنا مضمون جانتے تھے بلکہ اپنا مضمون پڑھانا بھی جانتے تھے۔
طالب علم اس لحاظ سے آپؓ سے اکثر خوش رہتے تھےکہ آپؓ کے مضمون میں طلباء بہت کم فیل ہوتے تھے۔استاد اگر اس طرح پڑھائے کہ اسکول ہی میں بچوں کو پڑھایا ہوا سبق یاد ہو جائے تو ایسے استاد کی بڑی قدر کی جاتی ہے۔وہ اس تمام وقت کو جو طالب علم نے گھر پر گزارنا ہوتا ہےقریباً فارغ رہنے دیتا ہےتاکہ وہ کھیلے کودے اور اپنی جسمانی صحت کو بہتر بنا سکے۔حضرت ماسٹر صاحب ؓاسی طرح پڑھاتے تھےکہ گھر جاکر زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔
آپ گھر میں کلینک بھی کرتے تھے۔ میںخود کئی دفعہ ان کے ہاں دوائی لینے گیا۔ایک چھوٹے سے میز پر متعدد شیشیاں رکھی ہوتی تھیںاور ان میں سے دوائیں اُنڈیل کر مریض کے لئے دعا کرتے ہوئے دیا کرتے تھے۔بعض اوقات کئی کئی شیشیوں میں سے تھوڑی تھوڑی اُنڈیل کر ایک دوا تیار کرتے۔لیکن دوائی دینے کی خصوصیت یہ تھی کہ آپؓ نہایت خلوص دل سےمریض کے لئے دعا کرنے کے بعدشیشی اس شخص کے ہاتھ میں پکڑاتے تھے جو مریض کے لئے دوائی لینے جاتا تھا۔
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ طبیب کا کام صرف دوا دینا نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ وہ دعا بھی کرے کیونکہ دوا تو انسانی اٹکل ہے ٹھیک بیٹھے نہ بیٹھے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔لیکن اگر اس کے ساتھ دعا بھی ہو تو تدبیر کو تقدیر کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔اوراللہ تعالیٰ اپنا فضل کر دیتا ہے۔ چنانچہ حضرت ماسٹر صاحبؓ کا یہی طریق تھا کہ وہ اس طرح دوا دیا کرتےتھے۔
دوا دے کر وہ اتنا خوش ہوتےتھے کہ میں نے ایسے حالات بھی دیکھے کہ ان کے اپنے گھر میں کوئی شخص مریض ہے ،بلکہ ایک دفعہ ایک وفات بھی ہوئی تو جو لوگ دوالینے کے لئے اسی روز آتے رہے انہیں خوشی کے ساتھ دوادی گئی۔امکان تو یہ بھی تھا کہ اس دن دوا نہ بھی دی جاتی، اگر گھر میں جنازہ پڑا ہوا ور کوئی شخص دوالینے آجائے تو عام حالا ت میں اسے دوا کا ملنا مشکل ہو جاتا۔(یہاں آپ کی ایک بیٹی مریم بیگم صاحبہ کی وفات کا ذکر ہے جو 1932 ءمیں ہوئی۔ناقل)
میری ہوش سے بہت پہلے آپ قادیان آچکے تھے۔ اور ایک بات جو ہم نے دیکھی اور جس پر شروع شروع میں بڑا تعجب ہوتا تھا، وہ یہ تھی کہ آپ کی گردن ہمیشہ اس طرح جھکی رہتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ اپنے پاؤں سے آگے ایک ڈیڑھ فٹ تک دکھائی دیتا ہوگا۔آپ نے کبھی نظر اٹھا کر آگے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ہم سوچتےتھے کہ آپ چلتے کس طرح ہوں گے۔ کہیں آپ کو ٹھوکر ہی نہ لگ جائے لیکن نہ صرف یہ کہ آپ کو ٹھوکر نہیں لگتی تھی آپ خدا کے فضل سے بہت تیز تیز چلنے کے عادی تھے۔پورا پورا لباس شلوار قمیص کے اوپر کوٹ کے بغیر ہم نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ جب یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی کہ آخر آپ کی گردن اس طرح جھکی جھکی کیوں رہتی ہے، کیونکہ یہ بھی خیال آسکتا تھااورآیا بھی کہ شائد آپ کی گردن میں کوئی نقص ہوگا کہ آپ اسے سیدھی نہیں کر سکتے۔اورآگے کی طرف دیکھنے سے معذور ہوںلیکن بات یہ نہیں تھی۔
کہتے ہیںکہ آپ نوجوانی میں نہایت خوبصورت تھے ۔خوبصورت چہرہ اور متناسب جسم اور جب باہر سے غالباً بٹالہ سے قادیان تشریف لائے تو حضرت امام جماعت اوّل(خلیفۃ المسیح اوّل) سے آپ نے عرض کی کہ میں جدھر جاتا ہوں خواتین میری طرف دیکھتی ہیں۔ مجھے اس سے بڑی الجھن پیدا ہوتی ہے۔ تو حضرت امام جماعت(خلیفۃ المسیح اوّل) نے فرمایا کہ آپ نظریں نیچی رکھا کریں۔ویسے تو سب کو ہی نظریں نیچی رکھنے کا ارشاد ہے لیکن عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ جب ضرورت پڑی نظر نیچی کر لی ورنہ بالکل سیدھے دیکھ کر چلا جائے۔لیکن جب آپ نے حضرت امام جماعت الاوّل (خلیفۃ المسیح اوّل)کی یہ بات سنی کہ آپ نظریں نیچی رکھا کریں تاکہ آپ کسی خاتون کو دیکھ نہ سکیں ۔آپ انہیں دیکھنے سے روک تو نہیں سکتے ،تو آپ نے گردن ایسی جھکالی کہ اس وقت سے لے کر آپ کی گردن جھکی ہوئی دیکھی ۔حالانکہ میں نے آپ کے گھر میں اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے بھی دیکھا اور گھر سے شہر تک شہر سے مراد قادیان کا مرکزی حصہ جہاں احمدیہ سکول تھا، وہاں جاتے اور وہاں سے واپس آتے دیکھا۔آپ بیت النور(مسجد نور) جو دراصل احمدیہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے سکول کی بیت(مسجد) سمجھی جاتی تھی یاد ارالعلوم کی جو اُن کا محلہ تھا وہاں امامت کے فرائض بھی ادا کرتے تھے۔چنانچہ میں خود وہاں جاکر نمازیں پڑھتا رہا اور میں نے اکثر دیکھا کہ آپ خاصےتیز تیز قدموں سے چل کر بیت النور میں عین وقت پر پہنچ جاتےتاکہ نمازیوں کا وقت ضائع نہ ہو۔بہت کم ایسا ہوا اگرچہ ہوا ضرور کہ کبھی آپ کو گھر سے بلانا پڑا۔ورنہ از خود وہ سارا میدان طے کر کے جو تعلیم الاسلام سکول کے آگے تھا آپ بیت النور پہنچ جایا کرتے تھے۔
پہلے تو آپ کے چھوٹے بیٹے کے ساتھ ہم عمری کی وجہ سے کھیلتے رہنے کے نتیجہ میں آپ کے گھر میں آنے جانے کا موقع ملا اور پھر کئی دفعہ دوائی لینے کے لئے یا والد صاحب کی طرف سے کوئی پیغام لے کر گیا۔
جب میں سیرالیون گیا تووہاں آپ کی ایک پوتی ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ اپنے خاوند ڈاکٹر طاہر محمود صاحب کے ساتھ خدمت دین میں مصروف تھیں۔مجھے وہاں بھی آپ کے ہاں ایک دو دفعہ جانے کا موقعہ ملا حالانکہ آپ جس علاقے میں رہتی تھیں وہ ڈائمنڈایریا تھا اور وہاں جانا کوئی آسان بات نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر کوثرتسنیم صاحبہ ہی کے مکان میں میںنے محترم مجیب الرحمٰن صاحب ایڈووکیٹ کی وہ ٹیپ سنی جو آپ کے کوئٹہ کے مقدمہ کے دوران ریکارڈ کی گئی تھی۔جس میں ایک بیت الاحمدیہ(مسجد) ہی کا معاملہ زیر بحث تھا۔اس ریکارڈ نے ہم سب کو بہت متاثر کیا۔ڈاکٹر کوثرتسنیم صاحبہ بعض اوقات فری ٹاؤن مشن ہاؤس میں بھی تشریف لاتی تھیں اگرچہ کم کم۔لیکن چونکہ میں نےانہیں بتایا تھا کہ حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب کے ساتھ بچپن ہی سےتعلق خاطر رہا ہے، آپ کو میرے ساتھ انس پیدا ہو گیا۔چنانچہ آپ کے چھوٹے بھائی (چچا)نے جو کسی زمانے میں میرے ساتھ کھیلا کرتے تھے اس دوران مجھے بعض خطوط لکھ کر اپنی دوستی یاد دلائی ۔اس دوستی کے یاد دلانے کی وجہ سے بھی محترمہ ڈاکٹر کوثر صاحبہ سے زیادہ قرب محسوس ہونے لگا۔
اگرچہ حضرت ماسٹر محمد طفیل صاحب کے متعلق میں زیادہ کچھ تو نہیں جانتا لیکن بعض اوقات ایک دو باتیں ہی اتنی وزنی ہوتی ہیںکہ ان کے مقابلے میں اگر لمبی تفصیل بھی پیش کی جائے تو وہ اتنی وزنی معلوم نہیں ہوتی۔میں سمجھتا ہوں کہ حضرت ماسٹر صاحب کا امام جماعت الاوّل (خلیفۃ المسیح اوّلؓ)کے ارشاد پر نظریں نیچی کر دینا اور عمر کے آخر ی حصے تک کبھی کسی حالت میں بھی گردن کو سیدھانہ کرنا ایک اتنی بڑی بات ہے کہ ایسی اطاعت کے نمونے دنیامیں بہت کم ملتے ہیں۔اگر ان کے متعلق یہی با ت کسی مضمون میں پیش کی جائے تو میں سمجھتا ہوں وہ مضمون کافی وزنی سمجھا جا سکتاہے۔لیکن اس کے ساتھ جب یہ بات بھی ہوکہ وہ اپنے گھر پر ایک کلینک رکھتے تھے، جہاں سے مریضوں کے لئے مفت دوائیاں مہیا کی جاتی تھیں اور دوائیاں بھی ہر حال میں دی جاتی تھیں، چاہے ان کے اپنے گھر میں کوئی بیمار ہو ،وفات بھی ہوگئی ہو۔انہوں نے کبھی اس بات کا خیال نہیں رکھا تھا کہ میرے اپنے گھرکے حالات کیا ہیں۔میں اس وقت دوائی دوں یا نہ دوں۔وہ ہمیشہ خوش دلی کے ساتھ یہ خدمت سر انجام دیا کرتے تھے۔یہ وہ روح ہے جو دراصل ہمارے طبیبوں اور ہمارے ڈاکٹروں میں موجود ہونی چاہئے اور اس میں اس بات کا اضافہ کہ آپ دوائی دیتے وقت مریض کے لئے باقاعدہ دعا کیا کرتے تھے۔یہ بھی حضرت بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک ارشاد کی اطاعت کا بہترین نمونہ ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلندفرمائے۔‘‘
(بحوالہ اخبار الفضل 17؍نومبر 1994ءصفحہ4)

بیان مکرم چوہدری آفتاب احمد صاحب مقیم لندن

آپؓ کے ایک پرانے طالب علم مکرم چوہدری آفتاب احمد صاحب جن کا اصل وطن موضع دیوانی وال تھا۔ جو قادیان اور بٹالہ کے درمیان واقع ہے۔موصوف تقسیم ملک سے قبل قادیان میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے۔ایک لمبا عرصہ آپ مسجد فضل میں ڈسپیچ آفس میں ڈاک کی ترسیل کا کام کرتے رہےہیں ۔ آپ کے ساتھ خاکسار کو بھی خدمت کی توفیق ملی۔ آپ کی عمر ماشاء اللہ 100 سال ہے۔ فی الوقت صاحب فراش ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔
مکرم چوہدری آفتاب احمد صاحب حضرت دادا جان ؓمرحوم ومغفورکے بارے میں اپنی ایک تحریر میں جو موصوف نے خاکسار کو دی لکھتے ہیں:
’’حکیم ڈاکٹر ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ بٹالوی میرے استاد تھے۔میں ان سے انگلش پڑھا کرتا تھا۔ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ حکمت بھی کرتے تھے۔جب میں بیمار ہوتا تو ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحبؓ سے دوائی لیتا تھا۔ان کی عادت تھی کہ دواکے ساتھ دعا بھی کرتے تھے۔
میں چوہدری آفتاب احمد اپنے بچپن یعنی اوائل عمر کی یادداشت کے مطابق ماسٹر محمد طفیل صاحبؓ کے کچھ حالات بتانا چاہتا ہوں۔آپؓ مدرسہ احمدیہ میں انگلش کے ٹیچر ہواکرتےتھے۔میں1936ء میں احمدی ہوا۔اس وقت تقریباً میں تیرہ سال کا تھا۔اپنے خاندان میں سب سے پہلے مجھے قادیان جا کر تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔پہلے دو سال ہم نے انگلش ماسٹر عبد الرحمٰن صاحب(مہر سنگھ صاحب)سے پڑھی۔ اس کے بعد پھر ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ ہمارے انگلش کے ٹیچر مقرر ہوئے۔قریباً تین سال تک ان سے تعلیم حاصل کی ۔قدان کا درمیانہ تھا۔رنگ کافی سفید تھا۔اکثر پگڑی پہنا کرتے تھے۔خوش پوش اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔جس عمر میں مَیں تھا ،ایک ٹیچر سے کیا گہراتعلق ہو سکتا ہے۔وہ مجھے جانتے تھے اور میں انہیں جانتا تھا۔جلسہ سالانہ کے ایام میں ہماری ڈیوٹی سکول والے مہمانوں کی دیکھ بھال کرنے پر ہوتی تھی۔یعنی لنگر سے روٹیاں لاکر ان کےکمروں میں کھانا کھلانا ہمارا اوّلین فرض تھا ۔بیمار مہمانوں کے لئے پرہیزی کھانے کا انتظام ہواکرتا تھا۔ان کے لئے چاول لانا اور پھر دودھ اور چینی وغیرہ لاکر دیا کرتے تھے ۔پرہیزی پر بڑاکنڑول ہواکرتا تھا۔
ماسٹر صاحبؓ ہمیشہ اس ڈیوٹی پر مقرر ہوتے تھے۔کیونکہ کچھ علاج معالجہ بھی کیا کرتے تھے۔اس لئے ان کو بعض دفعہ ڈاکٹر صاحب بھی کہا کرتے تھے۔اسی وجہ سے ان کو اس ڈیوٹی پر ہمیشہ لگایا جاتا تھا۔انہیں معلوم ہوتا تھا کہ اتنے مہمان پرہیزی والے ہیں۔پھر بھی یہ مسکراکر ہماری دل جوئی کے لئے جتنے آدمیوں کا پرہیزی کھانا مانگتے تھے وہ دے دیا کرتے تھے۔اس لئے ہم بھی خوش و خرم رہتے تھے۔
دوسرے طالب علموں کا تو مجھے پتا نہیں لیکن میرا خیال ضرور رکھا کرتے تھے۔عام طور پر ڈاکٹری گھر پر کیا کرتے تھے۔اور پیسے بھی نہیں لیتے تھے۔صرف نسخہ لکھ کر دے دیتے تھے ۔میں جب بھی بیمار ہوتا تھا تو ان کے گھر چلا جاتا تھا۔وہ بھی پیار سے پیش آتے تھے۔اور علاج کرتے تھے۔
ایک دفعہ ہم تتلے والی نہر پر نہانے کے لئے گئے ہوئے تھے۔ہم کبھی پانی میں نہر میں جائیں اور سردی لگ جائےتو اپنے آپ کو ریت میں دبالیتے تھے۔اسی طرح بار بار کرتے تھے۔جب میں گھر آیا تو جسم اور منہ پھول گیا تھا۔میں حکیم صاحبؓ کےپاس گیا۔انہوں نے مجھے ایک شربت بتایا کہ جاؤ فلاں حکیم سےیہ شربت ملےگا۔میں گیااور شربت لاکر استعمال کیا۔دو دن بعد ہی مجھے آرام آگیا۔بعد میں سکول چھوڑ دیا اور آرمی میں چلا گیا۔گھر آتے ہی بیمارہوگیا۔پھر حکیم صاحب ؓکے علاج سےہی ٹھیک ہوا۔
ہمیں پڑھائی نہ کرنے کی وجہ سے ناراض ہوتے تھے لیکن مارتے نہیں تھے۔بلکہ چڑ چڑے ہوجاتے تھے۔جس سے ہمیں پتا چل جاتا کہ آپؓ غصہ میںہیں۔اور ہم ڈرجاتے تھے۔ یہ طریق تھاان کا شاگردوں کو سزا دینے کا۔
اکثر ہمارا حال پوچھا کرتے تھے۔اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو اس کے گھر جاکر اس کا حال اور دوائی کے متعلق بھی پوچھا کرتے تھےکہ دوائی لی ہے یا نہیں۔اگر کسی نے نہ لی ہوتی تو دوائی بھی دے کر جاتے۔جماعتی ڈیوٹیاں باقاعدگی سےدیتے اور ہر کام بڑی ذمہ داری سے کیا کرتے تھے۔جماعتی خدمات میںہمہ تن مصروف رہتے تھے۔خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کرتے۔آپؓ انتہائی ملنسار ،خلیق مہمان نواز تھے۔جلسہ سالانہ کی ضیافت میں ایک لمبے عرصہ تک کام کرتے رہے ۔جامعہ احمدیہ قادیان میں خدمات انجام دیتے رہے۔آپؓ کے اثر و رسوخ اور اچھےاخلاق کی وجہ سے لوگ بہت زیادہ آپ سے متاثر تھے۔ اولوالعزمی ،صبر اور ہمت اور احساس ذمہ داری کے اوصاف آپؓ کے کردار میں نمایاں تھے۔سلسلہ احمدیہ کی طرف سے جو بھی حکم صادر ہوتا اس کی بجا آوری میں کبھی تاخیر نہ کرتے۔آپؓ خدمت سلسلہ کے جذبہ سے سرشاراورخلافت سے وابستگی کی زندہ تصویر تھے۔اور آپؓ کی تمام تر دلچسپی خلافت اور جماعتی خدمات سے وابستہ تھی۔‘‘
(از تحریر مکرم چوہدری آفتاب احمد صاحب لندن یوکے)

تقسیم ملک اور قادیان سے ہجرت

انگریز ہندوستان چھوڑ کر چلے گئے مگر جاتےجاتے1947ء کو ملک کا بٹوارا بھی کر گئے۔ہندوستان کی تاریخ میں بدقسمتی سے وہ وقت بھی آیا جب انسانیت کی تمام قدریں ختم ہو گئیں۔اور ایسا فساد زمین پر برپا ہوا کہ آج 75 سال بعد بھی اس کے زخم نہیں بھر پائے۔ان پُر آشوب اور درد انگیز حالات کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جن کو ان حالات سے گزرنا پڑا۔بے بسی کے عالم میں اپنے گھر جائیدادوں اور ساز و سامان کو چھوڑ کربھوک اور افلاس کی حالت میں ان گنت مصائب و آلام کا شکار ہو کرسرکاری کیمپوں میں ایک لمبا عرصہ ریفیوجی بن کر گزارنا پڑا۔ماں باپ، بیوی بچے،بھائی بہن ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔قافلوں کے قافلے لُٹ گئےاور ہر گھر ہر خاندان بری طرح متاثر ہوا۔
اس بٹوارے کے نتیجہ میں صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال کے دو دو حصے ہو گئے۔ایک حصہ ہندوستان میں رہ گیا اور دوسرا حصہ پاکستان میں چلا گیا۔ہندوستان کے حصہ والے پنجاب کو مشرقی پنجاب کہا جاتا ہےاور پاکستان کے حصہ میں جو پنجاب ہے اسے مغربی پنجاب کہا جاتا ہے۔تقسیم کے وقت ضلع گورداسپور ہندوستان میںرہ گیااور مشرقی پنجاب کے مسلمان ہجرت کرکے پاکستان جانے لگے۔یہ 1947ء کے وسط کی بات ہے۔قادیان سے حضرت مصلح موعودؓ نے مورخہ 31/اگست 1947ء کو لاہور ہجرت فرمائی اور اس ہجرت کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ’’داغ ہجرت‘‘پورا ہوا۔حضورؓ کی ہجرت کے بعد دھیرے دھیرے جماعتی انتظام کے تحت قادیان کی تمام احمدی آبادی قادیان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئی۔اور قادیان میں رہ گئے 313 درویشان قادیان۔۔۔آج بھی وہ اور ان کی اولادیں قادیان کو آباد رکھے ہوئے ہیں۔اور قادیان کی واپسی کے متعلق خدائی بشارتوںکے پورا ہونے کے انتظار میں ہیں۔
تقسیم ملک کے وقت جب ہمارے خاندان نے قادیان سے ہجرت کی تو محترم دادا جانؓقادیان ہی میں یہ کہتے ہوئے رُک گئے کہ میں قادیان کوچھوڑ کر کہیں نہیں جائونگا۔ہاں! آپ سب ہجرت کر جائیں۔میں اکیلا قادیان میں رکوںگا۔ہماری دادی جان نے محترم دادا جانؓ کی ضد کے آگے سر تسلیم خُم کیا اور اپنے بیٹےبیٹیوں کو لیکر پاکستان ہجرت کر آئیں۔ہجرت کے بعد محترمہ دادی جان کو آپؓ کی فکر ستانے لگی۔دراصل دادی جان کو زیادہ یہ فکر لاحق تھی کہ آپؓ کی عمر 65 سال سے زائد ہو چکی تھی اور ایسی عمر میں انسان کے لئے اہل و عیال ایک بہت بڑا سہارا ہوتے ہیں۔ایک تو وطن پرایا ہو گیا دوسرے چاروں طرف فسادات اور کشت وخون کی آندھیاں رواں ہیں۔ایسے میں دادی جان کی تشویش بجا تھی۔دادی جان نے اپنی تشویش کا ذکر اپنے بچوں سے کیا۔اور کہا کہ اگر آپ کے والد یہاں نہیں آتے تو مجھے بھی قادیان بھیج دو۔دادی جان کی فکر کو دیکھتے ہوئے ہمارے سب سے چھوٹے چچا محترم صالح احمد خان صاحب دادا جانؓ کو قادیان سے پاکستان لانے کے لئے کمر بستہ ہو گئے اور اپنے ساتھ اپنے ایک دوست مکرم ساجد احمدکو لیکر قادیان پہنچےاور اپنے والد محترم سےوالدہ محترمہ کی تشویش کا ذکر کیا ۔دادا جانؓ پھر بھی پہلے پہل توقادیان چھوڑنے کو بالکل تیار نہ ہوئے۔بڑے اصرار کرنے کے بعد آپؓ نے اپنی ضد چھوڑی اور ہجرت کرنے کو تیار ہوئے۔محترم صالح احمد خان صاحب نے آپؓکو اپنے کندھے پر لے لیا کیونکہ آپ زیادہ چل نہیں سکتے تھے اور اپنے دوست کے ہمراہ قادیان سے چل پڑے۔یہ سفر کچھ راستہ پیدل اور کچھ بذریعہ لاری طے کیا۔آخر آپؓکو لیکرلاہور پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
آپ ؓکے کچھ رشتہ دار اور بہنوئی مکرم شیخ فضل حق صاحب بھی پہلے سے لاہور آچکے تھے۔قیام لاہور کے دوران آپ باقاعدہ مجلس مشاورت میں شریک ہوتے رہے۔کچھ عرصہ آپؓ نے لاہور میں قیام کیا،بعد ہ‘اپنےبیٹے مکرم صالح احمد خان صاحب اور ملک اختر احمد خان صاحب کے ساتھ لائلپور(فیصل آباد) میں قیام پذیر ہوئے۔فیصل آباد میں ہی ایک طویل عرصہ بیمار رہنے کے بعد آپؓ کی وفات بعارضہ ٹائیفائڈ مورخہ 20؍اگست1950ء بعمر70 سال ہوئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون
آپ کی وفات پر ایک مضمون حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے ؓ نے اخبار الفضل میں ’’دو مخلصین کی وفات‘‘ سے معنون سپرد قلم فرمایا جو درج ذیل ہے:
’’جیسا کہ الفضل کی مختصر سی خبر سے دوستوں کو اطلاع ہو چکی ہے۔چند دن ہوئے ماسٹر مولیٰ بخش صاحب سنوری لودھراں ضلع ملتان کے قریب اور ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ لائلپور میں وفات پاگئے ہیں۔یہ دونوں بزرگ بہت نیک اور مخلص احباب میں سے تھے جو عرصہ ہوا اپنے وطنوں سےہجرت کرکے قادیان میں آباد ہو چکے تھے۔پھر گزشتہ انقلاب کے نتیجہ میں قادیان سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔اور دونوں کو سلسلہ کے محکمہ تعلیم میں کافی خدمت کا موقعہ میسر آیا اور حسن اتفاق سے دونوں بالآخر مدرسہ احمدیہ سے جو سلسلہ کی ایک مخصوص دینی درسگاہ ہے ،وہ اپنی ملازمت کا عرصہ پورا کرکے ریٹار ہوئے۔مگر اس ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کی خدمت کا سلسلہ جاری رہا۔چنانچہ ماسٹر مولیٰ بخش صاحب مرحوم حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ (حضرت مصلح موعودؓ) کے چھوٹے بچوں اور ہمارے خاندان کے دوسرے بچوں کو دونوں حضرات پرائیویٹ ٹیوٹر کی حیثیت میں پڑھاتے رہے۔اور پھر ماسٹر محمد طفیل خان صاحب مرحوم کو جلسہ سالانہ کے ایام میں سلسلہ کے مہمانوں کی خدمت کا نمایاں موقعہ ملتا رہا۔دونوںاصحاب موصی تھے۔نماز اور دیگر اعمال صالحہ کے بجا لانے میں خوب چوکس اور مستعد تھے۔اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور ان کی اولاد اور دیگر عزیزوں کا حافظ و ناصر ہو آمین۔‘‘
( روزنامہ اخبار الفضل ربوہ مورخہ8؍ستمبر 1950صفحہ 2)
آپؓ موصی تھے،آپؓ کی تدفین قبرستان موصیان ربوہ میں امانتاً ہوئی۔آپ کی وصیت تھی کہ آپ کو حالات سازگار ہونے پر بہشتی مقبرہ قادیان میں سپرد خاک کیا جائے۔اللہ تعالیٰ جلد حالات سازگار کرے۔اور آپؓ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میںاعلیٰ مقام عطا فرمائے اور آپؓ جیسے بلند حوصلہ ،تقویٰ شعار،فرض شناس اور اطاعت اور فرمانبرداری کے مجسم نمونے جماعت احمدیہ میں اور آپؓ کی نسل میں پیدا کرتا رہے۔آمین

آپ کے فرزند ملک ناصرالدین صاحب کے تأثرات

آپ کے فرزند مکرم ملک ناصر الدین صاحب تحریر کرتے ہیں کہ :
’’کچھ دن پہلےجب میں نے الفضل میں یاد رفتگان کے سلسلہ میں جناب مولانا سلطان محمود انور صاحب کے مضمون میں اپنے والد صاحب کا ذکر پڑھا تو میرے دل میں بھی اپنے والد صاحب کی یاد چٹکیاں لینے لگی اور میں نے سوچا کہ میرا یہ فرض بنتا ہے کہ ہدیۂ عقیدت کے طور پر ان کی یادداشت جمع کروں کہ والد صاحب کو رفیق حضرت بانیٔ سلسلہ عالیہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
والد صاحب اوائل عمر سے ہی عبادت گزار، دعاگو اور ہمدرد شخص تھے۔ مجھے آپ کی قبولیت احمدیت کا سن اور تاریخ تو یاد نہیں لیکن بہرحال جب آپ نے ملازمت شروع کی تو آپ احمدیت قبول کر چکے تھے ۔آپ نے اپنی ملازمت کا آغازA.L.O.E ہائی سکول سے کیا جو کہ عیسائی اسکول تھا اور اس کا پرنسپل ایک انگریز تھا۔ حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ نے بھیA.L.O.E اسکول میں ملازمت اختیار کی۔ ملازمت کے دوران جب انہوں نے حضرت ابا جی کی انتظامی صلاحیتوں کو جانچا کہ کس طرح نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ ان کا تربیت کا طریقہ بھی احسن ہے تو انہوں نے ان کو تیار کرلیا کہ وہ بٹالہ سے قادیان آجائیں۔ جس پر انہوں نے عمل کیا اور اپنی بقیہ تمام زندگی وہیںگزار دی۔ اتفاق ایسا ہوا کہ قادیان میں حضرت والد صاحب کے مکان کے ساتھ ہی حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ نے بھی اپنا مکان بنوایا ۔ آپ کے مکان کی دوسری طرف حضرت میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی تھی ۔کبھی آپ اور کبھی آپ کے اہل خانہ بھی آپ کے گھر میں رونق افروز ہوتے تھے۔
حضرت والد صاحب بٹالہ کے مقبول ککے زئی خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔بٹالہ سے قادیان تک ابھی ریل گاڑی نہیں چلی تھی اس لیے خاندان حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کے افراد کو آپ کے مکان پر رہائش کا موقع ملتا رہا ۔مرزا مظفر احمد صاحب اور مرزا ظفر احمد صاحب میٹرک کے امتحان کے درمیان وہاں ہی ٹھہرے تھے۔
سلسلہ کے اکثر جید علماء آپ کے شاگردوں میں سے ہیں اور انہیں یہ فخر حاصل ہے کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث بھی ان میں شامل تھے۔
والد صاحب ایک اعلیٰ درجہ کے معالج تھے۔ علم طب پر آپ کو بہت مہارت حاصل تھی۔ آپ دوا کے ساتھ ساتھ مریض کے لئے دعائیں جاری رکھتے۔ آپ کو بچوں کے امراض کا ماہر جانا جاتا تھا اور بچے آپ کے علاج سےبفضل خدا بہت جلد شفایاب ہو جاتے تھے۔ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحبؓ نیر ایک مرتبہ ایک دن بیمار ہوگئے۔ ان کا بخار بہت تیز تھا۔ والد صاحب نے کچھ دوا دی اور ساتھ پاؤں پر کدو کا مساج کرنے کو کہا اور خود بھی ان کے پاؤں کا مساج کیا ۔اللہ کے فضل سے مولانا کا بخار چند منٹ میں ہی کم ہوگیا۔
رات ہو یا دن آپ فورا ًمریض کو دیکھنے کے لئے جاتے تھے اور دوائی تجویز کرتے تھے آپ ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ دوائیاں مریض کی دسترس سے باہر اور مہنگی نہ ہوں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فضل عمر کی آخری شادی کے موقع پر ولیمہ کے کارڈ کے نیچے آپ کا نام بھی درج تھا۔ ولیمہ کے دوران میں بھی والد صاحب کے ہمراہ تھا ۔مجھے یاد ہے کہ حضورؓ نے والد صاحب کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فضل عمر نے والد صاحب کی درخواست پر میرے نکاح کا اعلان صبح دس بجے فرمایا تھا اور نہایت لطیف خطبہ دیا تھا ۔حالانکہ عموماً اعلان نکاح نماز وغیرہ کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ حضرت والدصاحب کی درخواست شاید اس وجہ سے بھی قبول فرمائی گئی کہ میرے خسر جناب ملک غلام احمد صاحب کے ساتھ بہت سارے معززین غیر جماعت نکاح کے واسطے آئے ہوئے تھے۔ میرے ولیمہ کے موقع پر والد صاحب کے عرض کرنے پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی فضل عمر رضی اللہ عنہ نے بیماری کی وجہ سے فرمایا کہ حضرت مرزا بشیر احمدؓ اور مرزا شریف احمدؓ آجائیں گے۔ مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فضل عمر نے احسان فرمایا کہ اس موقع پر چند اصحاب کے ساتھ بنفس نفیس تشریف لے آئے۔
جناب والد صاحب بڑے دعاگو بزرگ تھے۔ رات کو سونے سے پہلے بھی وہ دعا میں مشغول ہوتے۔بیت النور (مسجد نور) میں نماز سے بہت پہلے چلے جاتے تھے۔ آپ بیت النور (مسجد نور)میں سالہا سال تک امامت کراتے رہے۔ آپ کی والدہ محترمہ اللہ رکھی صاحبہ 1938 میں آپ کے پاس قادیان میں تشریف لے آئیں۔ جہاں انہوں نے بیعت کے ساتھ وصیت بھی کردی۔ وصیت کرنے کے چند ماہ بعد ہی وہ فوت ہو گئیںاور یوں آپ کو حضرت بانی ٔسلسلہ احمدیہ کے قدموں میں چار دیواری کے باہر پہلی لائن میں مدفون ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
حضرت والد صاحب ان کی بیگم غلام فاطمہ دو بیٹے اعجاز الحق صاحب، اختر احمد صاحب اور آپ کے داماد ڈاکٹر عبدالقادر صاحب سابق ایم ایس سول ہسپتال فیصل آباد حضرت والد صاحب کے ساتھ بہشتی مقبرہ (ربوہ)میں دفن ہیں۔ چھوٹے بھائی صالح احمد عام قبرستان ربوہ میں مدفون ہیں ۔‘‘
(از تحریر ملک ناصر الدین صاحب مرحوم )

محترمہ حمیدہ وہاب صاحبہ آف کیلیفورنیا کے تأثرات

امریکہ کیلیفورنیا سے حمیدہ وہاب صاحبہ جو آپ کے برادر نسبتی محترم ظفرالحق صاحب بٹالوی کی دختر ہیں تحریر کرتی ہیں کہ :
بٹالہ کے محلہ ہاتھی دروازہ جہاں اکثر ککےزئی مسلمان آباد تھےوہاںکی ایک حویلی میں ہمارے دادا نوراحمدصاحب اور دادی اللہ رکھی صاحبہ کے ہاں میرے والد محترم ظفرالحق صاحب پیدا ہوئےجو حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کے برادر نسبتی تھے۔ آپ دو بھائی محترم ظفر الحق صاحب اورمحترم فضل حق صاحب اور چار بہنیں محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ زوجہ حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ،محترمہ غلام زینب صاحبہ زوجہ عبد الوحید صاحب ،محترمہ اقبال بیگم صاحبہ زوجہ غلام محمد صاحب بٹالوی،محترمہ نواب بیگم صاحبہ زوجہ حضرت ملک غلام فرید صاحبؓتھیں۔ ظفر الحق خان 14-15 برس کے تھے تو باؤجی یعنی ماسٹر محمد طفیل خان صاحب کی تبلیغ سے آپ نے احمدیت قبول کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ہاتھ پر بیعت کرکے واپس بٹالہ آگئے، لیکن ہمارے دادا نور احمد صاحب نے بیعت نہیں کی۔ 1919 ءمیں دادا جان نور احمد صاحب وفات پا گئے تو آپ کے دونوں بیٹوں فضل حق اور ظفرالحق نے باپ کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔ آپ کے سارے خاندان نے بہت برا منایا اورایک دوسرے کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کیا ۔جب یہ خبرحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ دادا جان(نور احمد صاحب) جماعت کی کبھی مخالفت نہ کرتے تھے۔ جنازہ پڑھ لینا چاہئے تھا۔ (بحوالہ مبشرین احمد صفحہ 55)
ظفر الحق خان صاحب بٹالہ ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد فیصل آباد میں ایگریکلچر یونیورسٹی کالج سے ایف ایس سی کرنے چلے گئے۔ کالج میں آپ کا ایک گہرا دوست بن گیا ،جس کا نام غلام قادر تھا ۔زمیندار گھرانے سے اس کا تعلق تھا ، وہ احمدی نہ تھا لیکن احمدیت کے بہت قریب تھا۔ وہ جماعت کے خلاف کبھی کوئی بات نہ کرتا ۔دونوں نے ایف ایس سی کرنے کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے بحری جہاز کے ذریعےبرطانیہ کا سفر کیا ۔برطانیہ پہنچنے کے بعد آپ نے ویلز یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز کیا۔ پھرآئی سی ایس پاس کیا ۔آپ اور آپ کے دوست نے 1924 ءمیں مسجد فضل لندن کی بنیادکھود نے کے وقار عمل میں بھی حصہ لیا اور 5 پاؤنڈ چندہ بھی ادا کیا ۔ان دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سے بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
قادیان کے 1928 ءکے جلسہ سالانہ کے تیسرے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے افتخار بیگم بی اے کا نکاح ظفر الحق صاحب کے ساتھ پڑھایا۔ حضور اقدس نے افتخار بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پہلی اتنی پڑھی لکھی خاتون ہو جس کا میں خود نکاح پڑھ رہا ہوں اور فرمایا یہ امتیاز تمہیں ہمیشہ حاصل رہے گا۔
ظفر الحق خان صاحب برطانیہ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد1926ء کے آخر میں بذریعہ بحری جہاز ہندوستان واپس آئے ۔ آپ 1927 ءمیں مجسٹریٹ کی پوسٹ پر لاہور تعینات ہوئے، پھر آپ دہلی سے تیس میل دورگوڑگاؤں شہر میں ریونیو آفیسر تعینات ہوئے۔ ان دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا دہلی میں آنا ہوا۔ احباب جماعت آپ سے ملاقات کرتے تو ظفر الحق خان صاحب نے بھی ملاقات کی اور بتایا کہ میں گوڑ گاؤں میں ریونیو آفیسر ہوں۔ میری ٹرانسفر ایک جگہ سے دوسری جگہ بہت جلد ہو جاتی ہے۔ میرے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا بڑا مشکل ہے۔ میں کوئی کام نہیں کر سکتا ہوں۔ آپ پنجاب کے وزیر اعلیٰ سے کہہ کر کوئی مستقل قیام والی ملازمت کے لئے سفارش کر دیں۔سر ظفراللہ خان صاحب نے آپ کو لاہور میں سیکریٹری کارپوریشن لگوا دیا ۔یہ گورنمنٹ ملازمت تھی اور چار سال کاTENUREتھا ۔
آپ 1940 ء سے 1946 ءتک اس پر کام کرتے رہے۔ 1945ء میں آپ کو شیخوپورہ میں بطور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹADM تعینات کیا گیا۔ 1945 ءمیں ہی میانوالی، 1946ءمیں ملتان اور 1947 ءمیں فیروزپورمیں بطورADM رہے۔ ظفر الحق خان صاحب کو جون 1947 ء میں دوبارہ آرڈر ملاکہ آپ جھنگ جاکر بحیثیت ڈپٹی کمشنر کام کریں۔ جماعت کی مخالفت کی وجہ سے سال میں دو تین بارآپ کا تبادلہ ہوجاتا۔ مخالفین روزانہ اخبار میں بیان بازی کرتے کہ ایک قادیانی کو ڈپٹی کمشنر لگایا ہوا ہے۔ ان کو فوری طور پر برطرف کیا جائے۔ نوائے وقت اخبار میں ایک مضمون چھپا کہ پنجاب کے 16 اضلاع ہیں، ان میں دو اضلاع میں قادیانی ڈپٹی کمشنر لگائے ہوئے ہیں۔
گوجرانوالہ شہر میں جلسہ کے بعد جلوس نکالا گیا کہ قادیانیوں کو سرکاری عہدوں سے ہٹایا جائے۔ مخالفین بہت زیادہ شور ڈالنے لگے۔جس کی وجہ سے ڈپٹی کمشنر ظفر الحق خان صاحب کو REVERT کرکےADMبنا کر ضلع اٹک میں بھیج دیا گیا۔ریٹائرمنٹ تک آپ 1951 ءسے 1955 ء تک ساہیوال اور اٹک میں رہے۔ 12 ؍جنوری 1956 ءکو آپ دل کے عارضہ سے وفات پاگئے۔
حمیدہ وہاب صاحبہ خاکسار کے دادا جان کے متعلق فرماتی ہیں کہ آپ کے دادا جان حضرت حکیم ماسٹر محمد طفیل خان صاحب کا سارا خاندان غیر احمدی تھا۔ جب آپ نے احمدیت قبول کی تو آپ کو گھر سے نکال دیا گیا۔آپ نہایت شریف النفس اور خاموش طبیعت کے انسان تھے۔بٹالہ میں آپ کے پاس بہت بڑی جائیداد تھی۔ قادیان میں آپ کا بہت بڑا گھر تھا۔ گھر کے ساتھ آٹھ کنال زمین تھی، جس میں امرودوں کا باغ تھا ۔آپ کا گھر ایک بہت بڑی حویلی تھی جس میں آپ کے دادا جان کا دواخانہ بھی تھا جو غالباً’’طبیہ ‘‘یا اس کے ساتھ کسی اور لفظ کے ساتھ موسوم تھا۔مین گیٹ کے ایک طرف دواخانہ اور دوسری طرف آپ کے دادا جی کا کمرہ تھا ۔ باؤجی اکیلے کمرے میں سویا کرتے تھے۔ آپ ایک کمرہ میں حکمت کا کام کرتے ۔ ادویات خود تیار کرتے، مختلف قسم کے سیرپ تیار کرتے۔ خشک ادویات کو پیس کر فلٹر کرتے تھے۔ سیرپ کو بھی فلٹر کرکے بوتلوں میں بھر لیتے تھے۔ حمیدہ وہاب صاحبہ بتاتی ہیں کہ آپ کے دادا جان نے اپنی مدد کے لئے ایک ملازم بھی رکھا ہوا تھا جو کہ ادویات تیار کرنےمیں آپ کی مدد کرتا اورفارغ وقت میں آپ اسے اپنے بیٹے صالح احمد کے پاس (جنہوں نے اپنے گھر سے ملحق راستہ کی جانب گندم پیسنے کی چکی اور سرسوں کا تیل نکالنے کا کولہوں لگایا ہوا تھا) بھیج دیتے ۔وہاں پرگودام میں گندم اور سرسوں کا بہت بڑا اسٹاک تھا ۔ملازم رات گئے تک وہاں کام کرتا رہتا ۔
آپ لکھتی ہیں کہ میری عمر بارہ سال کی تھی جب میں آپ کے دادا کے گھر رہتی تھی۔ دو سال تک میں قادیان میں آپ کے دادا کےگھر رہی ۔نیز بتاتی ہیں کہ ہم دو تین لڑکیاں نواں پنڈ (احمد آباد)اورکوٹھی نواب محمد علی خان صاحب (دارالسلام)کی طرف جایا کرتی تھیں اور راستے میں جامن کے بڑے بڑے درخت ہوتے تھے۔ ہم نے جامن کھانےاور توڑ کر گھر بھی لے آنے۔ اس طرح قادیان میں ہمارا وہ زمانہ گزرا۔

حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ کی اولاد
اللہ تعالیٰ نے آپ کو درج ذیل اولاد عطا فرمائی۔آپ کی اولاد کے بارہ میںتفصیلی ذکر آئندہ صفحات پر درج کیا جا ئے گا۔
(1) محترم ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب
(2) محترم ملک اختر احمد خان صاحب
(3) محترم ملک ناصرالدین خان صاحب
(4) محترم صالح احمد خان صاحب
(5) محترمہ طاہرہ قادر صاحبہ
(6) محترمہ ہاجرہ خانم صاحبہ
(7) محترمہ مریم بیگم صاحبہ(بچپن میں وفات پا گئیں)

محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ

خاکسار کی دادی جان محترمہ غلام فاطمہ بی بی صاحبہ کا تعلق بٹالہ ضلع گورداسپور سے تھا۔آپ کی ولادت 1892ء کی ہے۔ آپ نے 1909ء میں خلافت اولیٰ کے زمانہ میں بیعت کی۔آپ کے والد محترم شیخ نور احمد صاحب ککے زئی قوم سے تھےاورآپ کی والدہ محترمہ اللہ رکھی صاحبہ کا تعلق بھی بٹالہ سے تھا۔آپ کے دو بھائی محترم شیخ فضل حق صاحب اور محترم شیخ ظفر الحق صاحب تھے۔آپ چار بہنیں تھیں۔ آپ کے علاوہ محترمہ غلام زینب صاحبہ زوجہ مکرم عبد الوحید صاحب، محترمہ اقبال بیگم صاحبہ زوجہ مکرم غلام محمد صاحب،محترمہ نواب بیگم صاحبہ زوجہ محترم حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ۔آپ کے سب بھائی بہنوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے عہد مبارک میں بیعت کی اور احمدیت کی نعمت حاصل کی۔آپ کے دادا صوبہ خان صاحب حکومت کے ایک بڑے عہدے پر فائز تھے، اس زمانہ میں جبکہ خال خال کوئی ہندوستانی حکومت کے جلیل القدر عہدے پر فائز ہوتا تھا۔آپ کے دادا بٹالہ کے بڑے رئیس تھے اور انکی اولاد کے پاس بٹالہ میں بہت بڑی جائیداد تھی۔اور یہ جائیداد کوئی حکومت کی طرف سے عطا کردہ نہ تھی بلکہ اپنی خود کی پیدا کردہ تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کا خاندان بھی اپنے علاقہ قادیان کا رئیس خاندان تھا۔اس لئے ان کے آپس میں گہرے مراسم تھے۔
ان کا سارا خاندان میرے داداحضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحبؓ بٹالوی کی تبلیغ کے زیر اثر احمدی ہوا تھا۔1892 ء میں دوسرے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود ؑ کی طرف سے شیخ نور احمد صاحب کو بھی دعوت نامہ مو صول ہوا تھا۔چنانچہ مرحوم اپنے بیٹے فضل حق صاحب کو ساتھ لے کر اس جلسہ میں شامل ہوئے تھے۔ان دونوں کا نام آئینہ کمالات اسلام کی فہرست میں موجود ہے۔شیخ نور احمد صاحب نے اگرچہ بیعت نہیں کی تھی مگر کبھی بھی احمدیت کی مخالفت نہیں کی۔
قادیان میں آپ کے پاس آپ کی ایک بہت بڑی حویلی تھی۔ آپ کے گھر مہمان کثرت سے آتے رہتے۔ ان کی خوب خاطر و مدارات کرتیں۔ گھر میں جو بھی چیز میسر ہوتی مہمانوں کو پیش کیا کرتیں اور آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ مہمانوں کے وقت بے وقت آنے سے کبھی آپ کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ آپ باہمت اور باوفا خاتون تھیں۔ گھر میں کبھی آپ کو فارغ بیٹھے نہیں دیکھا گیا۔ قادیان سے ہجرت کے بعد آپ کچھ عرصہ لاہور میں مہاجرین کے کیمپ میں اپنے خاندان کے ساتھ رہیں۔ اور پھر جھنگ بازار فیصل آباد میں اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہوئیں۔ جھنگ بازار فیصل آباد کا بہت مصروف بازار ہے۔ دادی جان اکثر اپنی پسند کے مطابق بازار سے کام لے آتیں اور گھر میں بیٹھ کر کیا کرتی تھیں۔ آپ انتہائی صفائی پسند خاتون تھیں۔ اور گھر کی تمام اشیاء کو نہایت صفائی اور قرینے کے ساتھ رکھا کرتی تھیں۔
آپ کے بھائی شیخ ظفر الحق صاحب لاہور میں ڈپٹی کمشنر بھی رہے۔آپکی بہن اقبال بیگم اور نواب بیگم کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی زوجہ ثانی حضرت امۃ الحئی بیگم صاحبہ حقیقی بہنوں جیسا سلوک کیا کرتی تھیں۔آپ تقسیم ملک کے بعد پاکستان چلی گئیں اور فیصل آباد میں ایک طویل علالت کے بعد آپ کی وفات ہوئی اور تدفین ربوہ میں ہوئی۔مرحومہ انتہائی نیک خاتون تھیں ۔صوم و صلوٰۃ کی پابند ، غریب پرور ،ہمسایوں اور رشتہ داروں کا خاص خیال رکھنے والی۔مہربان خاتون تھیں۔ آپ کی وفات تقسیم ملک کےبعد مورخہ 13دسمبر 1960ء میں بعمر68سال فیصل آباد میں ہوئی۔آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔ آپ موصیہ تھیں۔ آپ کا وصیت نمبر4824ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ علیّین میں مقام عطا فرمائے اور ہمیں آپ کی نیکیوں کا وارث بنائے آمین۔

حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالوی ؓکے ہم زُلف
حضرت ملک غلام فرید صاحب رضی اللہ عنہ
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کے والد ماجدحضرت ملک نور الدین صاحبؓ کنجاہ ضلع گجرات کے رہنے والے تھے۔حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ 1896ء میں کنجاہ ضلع گجرات میںپیدا ہوئے۔ آپ کا نام غلام فرید مشہور صوفی بزرگ حضرت بابا فرید گنج شکر کے ساتھ عقیدت کی بنا پر رکھا۔حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ اور حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ آپس میں ہم زلف تھے ۔آپ گجرات سے ہجرت کر کے قادیان آباد ہوئے۔1903ء میں جب ملک غلام فرید صاحب کے والد ماجد حضرت ملک نور الدین صاحبؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کی تو آپ کے اقارب نے آپ کو گھر سےنکال دیا اور میل جول بند کرکے بائیکاٹ کر دیا۔حضرت ملک غلام فرید صاحبؓنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت 1908ء میں کی تھی۔

ابتدائی تعلیم اور مختصر حالات
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن کنجاہ ضلع گجرات میںپائی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لئے مشن سکول گجرات میںد اخل ہوئے۔لیکن جلد اس مدرسہ کو خیر آباد کہہ کرتعلیم کی خاطر قادیان چلےگئے۔حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ 1909ء میں قادیان آگئے اور 1917ء تک قادیان میں رہے۔1917ء میں آپؓ لاہور آگئے اس وقت آپ سیکنڈ ایئر میںپڑھتے تھے۔لاہور میں آپ نے تعلیم مکمل کی۔ آپؓ نے لاہور سے ایم اے انگلش کی ڈگری مکمل کی۔
آپؓ کی تمام ترتوجہ دین کی طرف تھی اور آپؓ نے پورے طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرکے دکھایا۔1924ءمیں ویمبلے کانفرنس بابت مذاہب عالم منعقد ہونے والی تھی،جس کا دعوت نامہ قبول کرکےحضرت مصلح موعودؓ ایک وفد کے ساتھ وہاں تشریف لےگئے۔حضورؓ کا مضمون وہاں حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے پڑھا۔مضمون اور پڑھنے والے دونوں کی تعریف ہوئی۔(ویمبلے کانفرنس میں حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کے تین رشتہ دار بھی شامل تھے۔حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ، حضرت حکیم فضل الرحمٰن صاحبؓ مجاہد افریقہ،سردار مصباح الدین صاحب مبلغ برطانیہ ۔ناقل)
حضرت مرزا عبد الحق صاحب آپؓ کے دیرینہ ساتھیوں میں سے تھے ۔مرزا صاحب امیر ضلع سرگودھا اور امیر صوبائی پنجاب 50سال تک رہے۔آپ محترم ملک غلام فرید صاحب کے بارےمیں فرماتے ہیں کہ:
’’ملک صاحب کی خدمات بہت زیادہ ہیں،لیکن سب سے بڑھ کر جو آپ نے کام کیا وہ قرآن کریم کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے۔اس کے لئے آپ نے دن رات محنت و مشقت کی جب بھی میں آپ کے پاس جاتا آپ کو اس کام میں ہمہ تن مصروف پاتا ۔میںجہاں بھی گیا لوگوں کو اس سے فائدہ اٹھاتے دیکھا۔یہ ترجمہ رہتی دنیا تک آپ کےنام کو زندہ رکھےگا۔اللہ تعالیٰ نےکتنی بڑی سعادت بخشی۔اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ سے زیادہ قرب عطا فرمائےا ور آپ کی اولاد کو آپ کےنقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔آمین‘‘
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کے والدحضرت ملک نور الدین صاحبؓ ،آپؓ کے ہوش سنبھالنے سےپہلے احمدی ہو چکے تھے۔آپؓ کے والد ماجد اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے۔آپ دونوں بھائی ابھی بچےہی تھے کہ والدہ ماجدہ انتقال کر گئی تھیں۔اس وقت حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ صرف چھ ماہ کے تھے۔آپ کےوالد ماجد نےدوسری شادی محترمہ بیگم بی بی صاحبہ سے کر لی۔ان کے بطن سے 1909ء میں ملک عبد الرحمٰن صاحب پیدا ہوئے۔شادی کے بعدآپ کی دوسری والدہ صاحبہ نے بھی بیعت کر لی۔
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓکی زوجہ نواب بیگم صاحبہ بٹالہ کے ایک نہایت معزز اور رئیس خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔آپ محترم شیخ فضل حق صاحب بٹالوی کی ہمشیرہ تھیں۔آپؓ کا نکاح 28؍فروری 1920ءکو ایک ہزار روپے حق مہر پر پڑھا گیا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کے عہد میں آپؓ کی اہلیہ کاساراخاندان احمدی ہوا۔اہلیہ صاحبہ کے والدماجد کے حضرت مسیح موعودؑ کےساتھ بڑے گہرے تعلقات تھے اوراپنے تعلقات کی بناء پر ان کےوالد اور بڑے بھائی شیخ فضل حق صاحب مرحوم کا نام ان تین سو ستائیس اصحاب میں درج ہےجن کا ذکر حضرت مسیح موعودؑنے اپنی کتاب ’’آئینہ کمالات اسلام ‘‘میں فرمایا ہے۔آپؓ کی بیگم اور ان کی ہمشیرہ اقبال بیگم جب بٹالہ سے قادیان آتیں تو حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ  کےمکان میں ٹھہراکرتیں۔حکیم فضل حق صاحب کو قبول احمدیت کے بعداپنی ہمشیرگان کے متعلق فکر ہوا۔اگر ان کے احمدیوں میں رشتے نہ ہوتے تو غیر احمدیوں میں ہو جاتے۔اس سے پہلے1909ء  میں حضرت دادا جانؓ(ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ) نےحضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کے والد محترم کو بھی خط لکھا تھاکہ اپنے قابل شادی لڑکے لڑکیوں کے اسماء تحریر کرکے بھجوائیں۔ایک دفعہ قادیان میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب کی معیت میں ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ بٹالوی نے حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کودیکھا اور کچھ حالات دریافت کئے ۔اس کے بعد اظہار ہوا کہ ابھی عمر کم ہے۔پھر نیر صاحب نے ایک خط اس خاندان کو 1919ء میں رشتہ کی تحریک کے متعلق لاہور لکھا۔جبکہ محترم ملک غلام فرید صاحب نے بی اے کا امتحان دے دیا تھا۔حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ نے تحریر کیا کہ میرے بھائی ملک نواب دین صاحب کی طر ف رجوع کیا جائے۔آپ کی مومنانہ جرأت نے اس بے جاجذبۂ تفاخر کے آگے جھکنا گوارا نہ کیا۔مگر اس کے ساتھ ہی نظام سلسلہ کی پابندی اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کو کسی صورت میں آپ نظر انداز نہ ہونے دیتے ۔بلکہ اس مومنانہ شعار کو آپ نے آخردم تک حرز جان بناکر رکھا۔
آپؓ کی زندگی درویشانہ طورپرسادہ تھی۔لباس میں بھی سادگی تھی تکلف اورنمائش کا نام نہیںتھا۔ بود و باش میںبھی سادگی تھی۔گویا حدیث شریف الفقر فخری کا شعار اور دستور آپ نے اپنی زندگی میں اپنائے رکھا۔
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ رات کو جلد سو جاتے اور صبح کو جلد بیدار ہوتے ۔نماز سے فارغ ہوکر سیر کو نکل جاتے،کرکٹ کےماہر کھلاڑی تھے۔آپؓ کا اپنی اولاد کے ساتھ انتہائی مشفقانہ تعلق اور سلوک تھا۔اپنےقلیل درویشانہ وسائل کے باوجود بھی آپؓ نے اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لئےپوری کوشش کی۔آپؓ ان سے نہایت محبت کا سلوک کرتے ۔اگر کسی سے کوئی کوتاہی یا لغزش ہوتی تو بڑے تحمل سے کام لےکر احسن طریق سے اصلاح کی کوشش کرتےتھے۔آپؓ کےزندگی وقف کرنےاور خدمت دین بجا لانے کے بارہ میں آپ کے داد انے بہت پہلےآپ کے والد کو خبر دے دی تھی۔آپ کے والد صاحب نےبھی اپنی رویاء کی بناء پریہ جان لیا تھا کہ آپؓ ایک دن دین اسلام کی غیر معمولی خدمت انجام دیں گے۔اس ضمن میںآپ کے برادر ملک عبد الرحیم صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ہمارے دادا محترم ملک الٰہی بخش صاحب نیک صوفی مزاج اور بہت دیانت دار تھے۔ہمارے والد نورالدین صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے۔اپنے وطن کنجا ہ ضلع گجرات میں75سال کی عمر پاکر وفات پائی۔ آپ منکسر المزاج، حلیم وخاموش طبع تھے۔۔۔آپ کے سسُرشیخ نور احمد صاحب نے باقاعدہ بیعت نہیں کی تھی لیکن کبھی بھی احمدیت کی مخالفت نہیں کی ۔ شیخ فضل حق صاحب نے حضرت دادا جانؓ کی تبلیغ کے زیر اثر خلافت اولیٰ میں بیعت کی تھی اور پھر شیخ فضل حق صاحب کے ذریعہ ان کے بھائی شیخ ظفر الحق صاحب مرحوم (جو بعدمیں ڈپٹی کمشنربن گئے) اور چاروں ہمشیرگان نے بھی احمدیت قبول کر لی تھی۔۔۔
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓحصول تعلیم کے لئے 1909ء میں قادیان آئے ۔ یہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ سے آپ کے استفادہ کا ذکر کرنا مناسب ہے۔
آپؓ کو ایک بڑی سعادت یہ حاصل ہوئی کہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی صحبت میں ایک بہت طویل وقت گزارا اور آپؓ کی صحبت سےفیضیاب ہوئے۔ آپؓ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی مجلسوں میںحضورؓکی خلافت کے ایام میں اس کثرت سے بیٹھا اور اس توجہ سے اورمحبت سے نوٹ لئے کہ اس وقت کے قادیان کے سب بزرگ میری اس کیفیت سے واقف تھے۔یہاں تک کہ تاریخ احمدیت کی تالیف کے وقت جب حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے عہد خلافت کے بار ے میں لکھنے کا موقعہ آیا تو محترم مولوی دوست محمد صاحب شاہد مرحوم نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓایم اے سے عرض کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے متعلق کچھ حالات بتائیں۔اس پر حضرت صاحبزادہ صاحبؓنے فرمایا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے حالات کو جماعت میں سب سے بڑھ کر غلام فرید جانتے ہیں۔آپ ان کے پاس جائیں۔
آپؓ کو بچپن سے ہی قرآن پڑھنے اورتفسیر کے درسوں کا شوق تھا اور اس شوق کو آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح اوّل ؓ کے درسوں کو نوٹ کرکے پورا کیا۔ان درسوں میں کسی دوسرے بڑے کو شامل ہونے کی اجازت نہ تھی۔(بحوالہ مبشرین احمد صفحہ28-29 مصنفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)
آپ اعلیٰ درجہ کے ذہین اور فہیم تھے۔مدرسہ احمدیہ کے نصاب پر عبور کرتے تو وہ ایک ممتاز بلند پایہ اور مستند عالم دین شمار ہوتے۔مگر آسمان پر ان کے لئے یہ سعادت مقرر تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ اور آپ کے پہلے دو خلفاء رضوان اللہ علیہم کی زبان مبارک سے بیان شدہ معارف قرآن کرّۂ ارض کی مغربی دنیا کے لئے انگریزی زبان میں ڈھالیں۔اور ابھی وہ تعلیم عربیہ کی مبادیات ہی کی منزل میں تھے کہ انہوں نے مدرسہ احمدیہ کی راہ منزل چھوڑ دی اور تعلیم انگلشیہ کی منزل اختیار کرکے ہائی اسکول میں داخل ہو گئے۔اغلباً وہ ساتویں جماعت میں داخل ہوئےاور اس منزل پر چلتے ہوئے فرسٹ ڈویژن میں انٹر کا امتحان پاس کیا ۔بعدہ‘یونیورسٹی کی منازل طے کرتے کرتےگورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کا امتحان دے کر یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی۔

آپؓ کی خدمات
آپؓ کے بارہ میں مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے اپنی کتاب’’ مبشرین احمد‘‘میں لکھتے ہیں:
’’حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ بلاشبہ ان اصحاب احمدمیں شامل ہیںجو احمدیت کے ماتھے کا جھومر تھے ۔ شمع احمدیت کے پروانے تھے۔ وہ مسیح پاک کی صداقت کا نشان تھے ۔ان کے وجود و ںمیں مسیح پاک ؑ کی مسیحائی کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔ یہ تبدیلی جو ان کے دلوں میں پیدا ہوئی یہ اس مسیح کا اعجاز تھا جو دلوں کی سرزمین میں محبت الٰہی کے بیج بونے آیا تھا۔
اس صدی میں مسیح پاک علیہ السلام کے ہاتھ سے جو دل صاف ہوئے یا جن دلوں کو خدا تعالیٰ نے مسیح پاکؑ کے انصاراور اعوان کے طور پر چنا انہی دلوں میں سے ایک دل حضرت ملک غلام فرید صاحب کے سینے میں دھڑک رہا تھا۔
حضرت ملک غلام فرید صاحب کی دینی خدمات اور آپ کے زندگی وقف کرنے کے سلسلے میں آپ کے دادا بہت پہلے نشاندہی کر چکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد محترم کو رؤیا کے ذریعہ پہلے ہی بتا دیا تھا۔ اس ضمن میں حضرت ملک صاحب کے برادر مکرم ملک عبدالرحیم صاحب تحریر کرتے ہیں:
’’ہمارے دادا جان ملک الٰہی بخش صاحب صوفی مزاج اور بہت دیندار شخص تھے۔ جس کی گواہی کنجاہ کے بھی بہت لوگ دیتے ہیں۔ ایک روز دادا جان نے والد صاحب ملک نواب الدین صاحب، ملک غلام فرید صاحب اور ملک بشیر علی صاحب کو بلوا کر والد صاحب سے کہا:
’’نوردینا!غلام فرید تیرا لڑکا بہت بڑا دیندار ہوگا۔‘‘
اس کے کچھ عرصہ بعد دادا جان نے بیعت کر لی۔‘‘
حضرت ملک غلام فرید صاحب بیان کرتے ہیں ’’کہ ایک دفعہ والد صاحب نے خواب دیکھا کہ وہ مجھے چھری سے ذبح کرنے لگے ہیں۔ اتنے میں وہ بیدار ہوگئے۔‘‘
چنانچہ حضرت ملک صاحب نے1916ء میں اپنی زندگی خدمت اسلام و احمدیت کے لئے وقف کی۔ بی اے کرنے کے بعد اس نیت سے گورنمنٹ کالج میں کسی اور مضمون میں داخلہ لیا کہ اس کے بعد واپس قادیان پہنچ کر خدمات بجا لائیں گے ۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ آپ ایم اے انگلش کریں۔ حضرت ملک صاحب کو حضور ر ضی اللہ عنہ کی اس منشاء کا علم نہ ہو سکا تھا۔ اس سلسلہ میں کچھ غلط فہمی پیدا ہوئی۔ تاہم حضور کی شفقت اور مہربانی اور جماعت کے بزرگوں حضرت قاضی امیر حسین شاہ صاحبؓ،حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ، حضرت سید سرور شاہ صاحب ؓ کی سفارش پر حضور نے معاف فرما دیا ۔حضرت ملک صاحب نے ایم اے انگریزی کیا۔ وقف کا عہد اس سے پہلے کیا ہوا تھا۔ اسے حضرت امام جماعت کی خواہش کے تابع عمر بھر نبھا یا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو بعد ازاں مختلف جہات سے سلسلہ کی خدمات بجا لانے کی توفیق اور سعادت حاصل ہوئی۔ تبلیغ کے میدان میں آپ کو پہلے جرمنی اور پھر انگلستان میں خدمات بجا لانے کا شرف حاصل ہوا۔ اور وہاں سے واپس آکر تحریرو تصنیف کے ذریعہ خدمات کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ پہلے سن رائز کی ادارت کی۔ پھرریویو آف ریلیجنز( انگریزی) کی ادارت آپ کے سپردرہی۔ اور سب سے بڑھ کر انگریزی میں ترجمہ قرآن کریم جیسی عظیم سعادت آپ کے حصے میں آئی۔‘‘
(مبشرین احمد جلد اوّل صفحہ72- 73مصنفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)
حضرت ملک غلام فرید صاحب کی خدمات سلسلہ کا مختصر ذکر درج ذیل ہے:
1. جرمنی اور پھر انگلستان میں بطور مبشر اسلام خدمت کی توفیق پائی۔
2. حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی انگلستان میں آمد پر خصوصی طور پر خدمات سر انجام دیں۔
3. مسجد فضل لندن کےسنگ بنیاد رکھے جانے کے وقت وہاں موجود تھے اور خدمت کی توفیق پائی۔
4. مسجدفضل لندن کی تعمیر اور مسجد کے افتتاح کے وقت خدمت کی توفیق پائی۔
5. مسجد فضل لندن کے پہلے مؤذن ہونے کا شرف حاصل کیا۔
6. قلمی خدمات میںاخبارسن رائز اور رسالہ ریویوآف ریلیجزکے ایڈیٹر رہے۔
7. ترجمہ تفسیر القرآن(انگریزی) کی توفیق پائی۔
8. نصرت گرلز کالج اور تعلیم الاسلام کالج میں انگریزی تعلیم دینے کی خدمات سر انجام دیں۔
اس کے علاوہ بھی آپ کی متفرق دینی خدمات رہیں جو درج ذیل ہیں:
1. آپ کا دورہ بنگال۔ برہمن بڑیہ پراونشنل احمدیہ کانفرنس 13؍نومبر1928ءمیں شرکت۔
2. رنگپور میں ایک جلسہ عام میںآپ کی تقریر۔
3. جلپائی گوڑی میںمؤرخہ 16 ؍نومبر 1928کو جلسہ عام میں آپ کی تقریر۔

مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا جانا
مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش اس بارہ میںلکھتے ہیں:
’’ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 1924 ءمیں لندن میں قیام کے دوران مسجد فضل کا سنگ بنیاد رکھنا طے کیا۔ 19 ؍اکتوبر کا دن دنیا ئےاحمدیت اور لندن کی تاریخ میں خصوصاً یادگار رہے گا ۔ کیونکہ اس دن حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے دنیا کے مادی مرکز لندن میں مسجد کا سنگ بنیادرکھا۔
موسم کے بارے میں پیشگوئی تھی کہ یہ دن بہت عمدہ ہوگا اور سورج نکلے گا ۔مگر صبح سےہی بارش ہوگئی اور ہوتی رہی۔ ذکر ہونے پر حضورؓ نے اطمینان دل کے ساتھ فرمایا کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ تقریب کامیاب ہوگی۔ ظاہری حالات کی وجہ سے خیال تھا کہ خاموشی کے ساتھ چند آدمیوں کے ساتھ یہ تقریب ادا ہوگی۔ ایک یہ کہ قریبا ًچار دن پہلے یہ تاریخ مقرر ہوئی ۔پھر ان دنوں میں پارلیمنٹ کے نئے انتخابات کی بلا نازل تھی۔ لوگ اس میں مصروف تھے ۔ تھوڑے سے وقت میں لوگوں کو باخبر کرنا آسان بات نہ تھی ۔ دعوت نامے بھیجے گئے ۔گو نمائش مقصود نہ تھی ۔تاہم یہ خیال ضرور تھا کہ اس موقع پر غیر مذہب کے لوگ آئیں تاکہ انہیں پیغام حق پہنچایا جا سکے۔
دو بجے سے ہی مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ مہمانوں میں مختلف حکومتوں کے نمائندے اور سفیر اور لندن کے بعض اکابر اور دور کے علاقوں کے بعض نو مسلم جمع تھے۔ جماعت احمدیہ کے سائبان کے نیچے انگریز ۔جاپانی۔ جرمن ۔سروین ۔یوگوسلاف۔اتھونین۔ مصری ۔اٹالین۔ امریکن۔ ہنگرین۔ انڈین اور افریقن سب جمع تھے ۔ گویا مشرق و مغرب کو حضرت اولوالعزم نے ایک مقام پر کھڑا کر دیا ۔متعدد سفیروں نے اور انگلستان کی تینوں پارٹیوں نے اظہار ہمدردی کےپیغام بھیجے۔ وزیراعظم سر ریمز ے میکڈا نلڈ لنڈن سے باہر تھے۔ شرکت نہ کرنے پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ حاضری دو سو سے اوپر تھی ۔حالات انتخاب وغیرہ کی وجہ سے یہ مجمع معمولی نہ تھا ۔انگلستان کے طاقتور پریس کے بہت سے نمائندگان بھی تھے۔ جو حکومت پر اثر رکھتے ہیںاور جن کے اخبارات کی اشاعت لاکھوں تک ہوتی ہے۔ ایک درجن کے قریب فوٹوگرافر اورسنیما والے بھی موجود تھے۔
مکان کے داخلہ کے دروازے سے خیمہ کی سیڑھیوں تک بانات کا فرش تھا ۔تین بجے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر نے اعلان کیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح آتے ہیں۔ حاضرین سرو قدکھڑے ہوگئے۔ خیمہ میں حضور نے تمام مردوں سے محبت آمیز تبسم کے ساتھ مصافحہ کیا اور کچھ دیر اُن کے ساتھ باتیں کیں۔ محترم مولوی عبدالرحیم صاحب درد امام مسجد لندن نےایک مختصر تقریر میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا۔ پھر اعلان پر مجمع سنگ بنیاد کے مقام پر جمع ہوگیا۔
حضور محراب میں کھڑے ہو گئے اور محترم حافظ روشن علی صاحب نے قرآن مجید کی تلاوت کی ۔ پھر حضور نے اپنا انگریزی ایڈریس پڑھا ۔جس کا حاضرین پر خاص اثر تھا۔ خود حضور پر ایک قسم کی ربودگی طاری تھی ۔پھر آپ نے سنگ بنیاد رکھا۔ ٹھیک اس وقت مرکز سلسلہ سے آپ کے نائب حضرت مولوی شیر علی صاحب امیر جماعت ہائے ہند کا تار جماعت کی طرف سے مبارکباد کا وصول ہوا۔
حضرت ؓنے جس وقت ہاتھ میں کرنی لی اور اس تقریب کو شروع کیا۔ مجمع کی عجیب حالت تھی۔ حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے مکہ میں بیت اللہ کی بنیاد رکھی۔ جو وادیٔ غیر ذی زرع میں تھا۔ جس میں خدا کا نام لیوا کوئی نہ تھا۔ یہ علاقہ اپنی مادی ترقی میں مگن ہونے کی وجہ سے روحانی طور پر غیرذی زرع ہے۔ حضور ؓنے ایک کیفیت ذوق اور اخلاص و تقویٰ کے ساتھ اس مسجد کی بنیاد رکھی۔پھر اس مسجد کی معموری اور کامیابی اور خدا کے پرستاروں کا پاک مرکز ہونے کے لئے آپ نے لمبی دعا کی ۔پھر اسی مقام پر آپ نے نماز عصر پڑھائی۔پھر اعلان کیا کہ اس مسجد کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا ۔مبارکباد کا نعرہ ہر طرف سے بلند ہوا۔
ایک مشہور کمپنی کی طرف سےریفریشمنٹ کا انتظام کیا گیا۔ مہمان بہت ہی محبت آمیز تبسم سے ایک دوسرے سے ملتے تھے اور بہت دیر تک حضورؓ سے باتیں کرتے رہے ۔بعض نے کہا کہ ہم بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ اس تقریب میں مدعو ہوئے ۔لوگوں نے حضورؓ کے درد ۔اخلاص اور حقیقت میں رنگین تقریر سے بہت فائدہ اور لطف اٹھایا۔‘‘
مکرم ملک صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ شاہی کارروائی ہے۔ مختلف حکومتوں کے وزراء بھی شامل ہوئے۔ ایک اخبار نے تصویر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ افسوس ہمارا نمائندہ شامل نہ ہو سکا ۔ایک حکومت کے نمائندے نے اس وقت مبلغ مانگے۔ ایک نمائندہ نے اس تحریر کے نمونے اپنے لئے اور اپنے ایک دوست کے لئے مانگے۔ یوگوسلاویہ کے نمائندہ پر حیرت ہی طاری ہوگئی اور کہنے لگا کہ میں بہت ہی بد قسمت ہوں کے یہ عمر آگئی اور مذہب کے متعلق کچھ نہیں سنا ۔ آج پہلے دن یہ باتیں سنی ہیں۔ ایک پادری نے کہا کہ میں بہت ہی خوش قسمت ہو ں کہ آج اسلام کے متعلق یہ بیان سن لیا۔ اس طرح حالات تھے گویا خدا تعالیٰ نے دلوں کو کھول دیا۔
اخبارات نے تصاویر اور تقریر اور کتبہ اور سنگ بنیاد کا حال بڑے زور سے شائع کیا۔ پھر ترجمہ ہو کر ہر ملک و زبان میں ان کو شہرت ملی۔‘‘
(مبشرین احمدجلد اوّل صفحہ130-134 مصنفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)

مسجد فضل لندن سے پہلی اذان
مسجد فضل لندن کے افتتاح کے وقت کا منظر بیان کرتے ہوئے مکرم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش لکھتے ہیں:
’’ابھی ایک طرف سر عباس بیگ کی تقریر ہو رہی تھی کہ یکایک مسجد کے ایک مینارہ پر سے اللہ اکبر کی آواز آئی۔ اس موقعہ پر اس اذان کا فخر ملک غلام فرید صاحب کے حصے میں آیا۔ جو لندن کی سب سے پہلی مسجد کے منارہ سے سب سے پہلی مرتبہ فضا میں گونجتی ہوئی سننے والوں کے دلوں کے اندر گھستی چلی گئی حیّ علی الصلوٰۃ کی ندا پر خدائے واحد کے پرستار پروانو کی طرح مسجد کی طرف دوڑے۔ ان نمازیوں کے سروں پر ترکی ٹوپیاں، عمامے، طربوش اور انگریزی ٹوپیاں اسلام کو متحد کرنے والی قوت کا پتہ دے رہی تھیں ۔کئی انگریزوں نے بھی فوّارہ پر وضو کیا۔۔۔ اور پھر بوٹ اتار کر۔۔۔۔ مسجد کے اندر عبادت کے لئے داخل ہوئے۔ مشرق نے لاانتہادفعہ مغرب کی عظمت کے لئے اپنی ٹوپی اتاری ہوگی۔مگر آج وہ پہلا دن تھا جب مغرب نے مشرق کی اقتداء میں خدائے واحد کی تعظیم کے لئے نہ صرف اپنی ٹوپیاں بلکہ بوٹ بھی اتار دئے۔
سو کے قریب نمازی ہوں گے جنہوں نے مسجد میں پہلی بار نماز پڑھی اور وہ عصر کی نماز تھی۔ جو مولوی عبدالرحیم صاحبؓدرد ایم۔ اے کی اقتدا ءمیں پڑھی گئی اور جس کی پہلی اقامت کہنے کا فخر شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی ایڈیٹر الحکم کو حاصل ہوا۔ شیخ عبدالقادر صاحب اور سر عباس علی بیگ بھی شریک نماز ہوئے۔۔۔۔( نماز کے بعد) مسلمان باہر آئے اور اپنے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ مل کر خیموں میں۔۔۔۔ مہمان نوازی اور۔۔۔۔ مبارکبادی میں حصہ لینے لگے۔‘‘
(مبشرین احمد جلد اوّل صفحہ151مصنفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)
مسجد فضل لندن کی اس پہلی اذان کا چرچہ مختلف اخبارات میں ہوا۔جسکی تفصیل یہاں دی جانی مضمون کے طویل ہونے کے باعث مناسب معلوم نہیں ہوتی۔

مجالس مشاورت میں شرکت
حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم ۔اے کو بائیس مجالس مشاورت میں مختلف حیثیتوں سے بطور نمائندہ شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔1929ءتا1945ءتقسیم ملک سے قبل قادیان میںمنعقد ہونے والی17 سترہ مجالس شوریٰ میں آپ نے شمولیت کی۔اور پھر تقسیم ملک کے بعد 1955ء، 1958ء،1959ء، 1960ءاور1961ء کی مجلس شوریٰ جو ربوہ میں منعقد ہوئیں ان میں بھی آپ نے شمولیت کی توفیق پائی۔

آپ کی وفات
آپ 7؍جنوری 1977ء بروز جمعۃ المبارک 79 سال کی عمر میںاس جہان فانی سے رحلت فرماکر اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے۔بوقت وفات آپ 8ٹیمپل روڈ لاہور پاکستان میں مقیم تھے۔خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے آپ کی وفات پر تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اخلاص،دینی غیرت،نظام جماعت کی اطاعت اور آخر دم تک قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر کے سلسلہ میں ان کی اہم دینی خدمات کا ذکر فرمایا۔حضور نے خود آپ کی نماز جنازہ بہشتی مقبرہ کے میدان میںکثیر تعداد کے ساتھ پڑھائی اورآپ کا جسد خاکی 7؍جنوری 1977ء کو قطعۂ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔اس سے قبل 8 ٹیمپل روڈ لاہور میں بھی آپ کی نماز جنازہ کثیر احباب نے پڑھی۔

تأثرات محترم سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان تحریر کرتے ہیں:

’’ملک صاحب جس فضیلت اور مرتبت کے حامل تھے ،ایک تو ان کلمات سے ظاہر ہےجو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے انکی وفات کی خبر سن کر ان کی قدر و منزلت کے متعلق خطبہ جمعہ میں فرمائے۔دوسرے تاریخ احمدیت میں ہمیشہ ثبت رہنے والے صدر انجمن کے اس اظہار سےجو اس نے ملک صاحب کی خدمات دین کی توفیق پانے کے متعلق اپنے خاص اجلاس میں ریکارڈ کرکے اخبار میں شائع کیا۔تیسرے انگریزی ترجمہ و تفسیر کے کام میں حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ اور حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ رضوان اللہ علیھم کے ساتھ بطور رفیق چن لئے جانے سے ایسا نصیب پا گئے کہ ترجمہ و تفسیر کے کام کی سر انجام دہی کے سلسلہ میں بطور ایڈیٹر کے ان کا نام ثبت ہو جانے سے وہ حیات جاوید پا گئے۔مذکورہ تین فضیلتوں کے حامل ہونے کے بعد ضرورت تو کیا درحقیقت یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ان کی مدحت اور منقبت کے سلسلہ میں کچھ اور بیان ہو۔یہاں یہ امر بھی قدرتی تقاضا ہی کی ذیل کا ہے کہ وہ شخص جو ان کے عہد طفلی سے لیکر دم وفات تک پورے 66 برس ان کا ہم ذوق ہم شغل اور ہم منزل رفیق راہ رہا۔حق رفاقت کے تقاضا سے وہ بھی ان کے ذکر خیر سے کچھ ثواب سے حصہ پا لے۔‘‘
(بحوالہ مبشرین احمد جلد اوّل صفحہ330مصنفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے)
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کے فرزند ارجمندمکرم ملک محمود احمد صاحب مرحوم (ریٹائرڈ میجر) نے اپنے والد محترم کے بارہ میںدرج ذیل تأثر بیان کئے:
’’آپ کی فطرت میں الفت و محبت ودیعت تھی۔راست بازی اور راست گوئی آپ کا طرۂ امتیاز تھا۔شب و روز خدمت قرآن نے آپ کے کلام میںایسی تأثیر پیدا کر دی تھی کہ جس نے بھی آپ سے گفتگو کی وہ احمدیت کے متعلق اثر لے کر گیا۔جن کا مذہب تعصب تھا جب بھی ان سے مذاکرہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میںتو ان کا بغض و تعصب بہت حد تک یابکلی دور ہو گیا۔آپ نے اپنے اعلیٰ اخلاق اور علمی ذوق سے ایک منور حلقہ پیدا کر رکھا تھا۔اور آپ کے احباب آپ کی مجلس میں اور آپ کی شیریں باتوں سےمستفیض ہوئے اور ایک خاص روحانی سکون محسوس کرتے تھے۔
اپنی اولادکی تربیت پر آپ کی حکیمانہ توجہات مرکوز رہیں۔وانذر عشیرتک الاقربین اور قوا انفسکم واھلیکم ناراکے واضح قرآنی احکام آپ کے پیش نظر تھے۔آپ ایک ایسے باپ تھے جن میں شفقت بھی تھی اور صولت بھی۔ان عظیم اوصاف نے ہم بہن بھائیوں پردائمی اثر ڈالا۔آپ کی زندگی کا حسن و جمال سارا قرآن کریم سے اخذ کردہ تھا۔آپ خیرکم خیرکم لاھلہ کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔اب میں یہی کہ سکتا ہوں۔
تمہیں مردہ کہوں کیونکر کہ تم زندوں میں زندہ ہو
تمہاری نیکیاں زندہ تمہاری خوبیاں باقی

آپؓ کی اولاد
اللہ تعالیٰ نے آپ کو چھ بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں جن کے اسماءحسب ذیل ہیں:
(1)۔مکرم ملک مبارک احمد صاحب مرحوم لاہور
(2)۔مکرم ملک منصور احمد صاحب مرحوم ایڈیشنل سیٹلمینٹ کمشنر ریٹائرڈ لاہور
(3)۔مکرم میجر ریٹائرڈ ملک محمود احمد صاحب مرحوم
(4)۔مکرم ملک مبشر احمد صاحب مرحوم منیجنگ ڈائریکٹرسیمینٹ فیکٹری لاہور
(5)۔مکرم کرنل ریٹائرڈ ملک منصور احمد صاحب مرحوم لاہور
(6)۔مکرم پروفیسر ڈاکٹر ملک کرشن صاحب امریکہ
(7)۔مکرمہ زاہدہ بیگم صاحبہ مرحومہ
(8)۔مکرمہ منصورہ بیگم صاحبہ والد ہ مکرم عامر ملک صاحب جرمنی
(9)۔مکرمہ راشدہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ مکرم جری اللہ خان صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ مقیم لاہور

باب دوم

حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب؄ کی اولادسے متعلق

محترم ڈاکٹر اعجازالحق خان صاحب

میرے والد محترم ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب 25؍ مئی 1909 ء کو بٹالہ میں پیدا ہوئے اور 1928ء میں کالج سے گریجوائیٹ ہوئے۔اسی سال ٹیچرز Diplomaکے امتحان میں شامل ہوئے جس میں اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہونے والوں کے لئے کرنل ٹامسن صاحب کی طرف سے ایک کپ بطور انعام تھا جو آپ نے حاصل کیا ۔اس کے علاوہ آپ کو 1934ء کا ’’واٹر فلیکس ‘‘ انعام بھی دیا گیا۔ڈاکٹر اعجازالحق خان صاحب ممدوح جیسا کہ ان کی بے شمار ڈگریوں سے ظاہر ہو رہا ہے ،ایک شہرہ آفاق عدیم المثال انگریزی اور فرانسیسی زبان کے مستند ٹیچرتھے۔1938ء میں LSD کالج آگرہ کی پرنسپل شپ کے لئےآپ کی خدمات حاصل کی گئیں۔آپ ہندوستان اور ولایت کی متعدد مشہور سوسائٹیوں کے Fellowاور Short Hand associationکے پریذیڈنٹ منتخب ہوئے۔انٹرنیشنل مقابلہ Short Handمیں فی منٹ 250 الفاظ لکھ کر دنیا کا ریکارڈ مات کیا اور اول درجے کا طلائی تمغہ حاصل کیا۔آپ چند کتابوںکے مصنف بھی تھے۔آپ کی کتب درج ذیل ہیں:
1. اُردو مختصر نویسی
2. قوت خیال
3. گلدستہ
4. راضیہ حیات
آپ کی تصنیف ’’اُردو مختصر نویسی‘‘ بہت مقبول ہوئی۔ یہ کالجوں میں بھی پڑھائی جاتی تھی۔ آپکی شہرت کی وجہ سے آپ کی کتب بھی مقبول تھیں۔آپ کی علمی تحقیق کے پیش نظر Oriental Universityنے آپ کو ڈاکٹریٹ(ڈی ۔او۔ایل)کی ڈگری عطا کی۔نوجوانان ہند کے فائدے کے لئے آپ نے کئی مشہور مقامات پر short handکے مختلف پہلوؤں پر متعدد لیکچر دیئے۔ اس کے علاوہ راولپنڈی میں Forward short handکے نام سے مشہور کالج کھولا جس میں دور دراز کے علاقوں سے لوگوں نے والد صاحب کی شہرت کی وجہ سے داخلہ لیا۔
مختصر نویسی کے بین الاقوامی مقابلے کےامتحان میں ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب دنیا بھر میں اول رہے۔اس شاندار کامیابی کے متعلق ہندوستان کے اخباروں نے تفصیل سے مضمون شائع کئے۔ ڈاکٹراعجازالحق خان صاحب ایم۔اے، بی۔ایس۔سی، ای۔ڈی۔او۔ ایل اورینٹل یونیورسٹی، ایف۔ای۔ایس۔ سی۔ٹی۔ایس۔ڈی انگلینڈ، ایم۔آئی۔ایس۔ڈی۔ایم پیرس کے انٹرنیشنل شارٹ ہینڈ کے بین الاقوامی مقابلہ کے امتحان میں تمام دنیا میں اوّل رہے۔آپ کو سیلون ڈپلائن یونیورسٹی نے اس اعزاز فائقہ کے صلہ میں ایک طلائی تمغے سے نوازا۔لطف کی بات یہ ہے کہ زود نویسی کا مقابلہ ہوا جس میں آپ نے 250 الفاظ فی منٹ کے حساب سے لکھے۔ہندوستان میں اس وقت تک جس شخص کی رفتار کو امتیاز حاصل تھا وہ ایک مدراسی نوجوان مسٹر این وینکٹ رامن ایم۔اے ہے جنہوں نے 1925ء میں 200 الفاظ فی منٹ کی رفتار دکھائی تھی جس کا ریکارڈ ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب نے توڑا اور اب پورےہندوستان میں فنِ زود نویسی کا سہرہ آپ کے سر پر ہے۔ ایک انگریزمسمیٰ مسٹرآرنولڈ بریڈ لے سکنہ انگلستان نے 1920ء میں 309 الفاظ فی منٹ رفتاردکھائی تھی ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب اس کوشش میں مصروف رہے کے مسٹر بریڈ لے کے ریکارڈ پر بھی سبقت حاصل کر لیں۔
آپ نے جب شارٹ ہینڈ کا مقابلہ جیتا اور اس میں ریکارڈ قائم کیا تو اس وقت اخبار الفضل میں اس کا اعلان ’’ایک احمدی نوجوان کی شاندار کامیابی ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے:
’’شارٹ ہینڈ کے متعلق حال ہی میں سیلون ڈپلوین سوسائٹی راس گیٹ (انگلینڈ) نے مقابلے کرائے اُن میںدنیا کے مختلف ممالک سے بائیس(22) مختلف زبانوں کے شارٹ ہینڈ جاننے والوں نے اپنےآپ کو پیش کیاتھا۔اس سوسائٹی کی طرف سے بارہ انعام مقرر تھے جن میںسب سے بڑے دو انعام ہندوستان اور مصر کے حصہ میںآئے۔ایک انعام کرنیل واٹسن صاحب کی طرف سےایک کپ کی صورت میں تھا۔یہ انعام قاہرہ سٹی پولیس کےایک افسر مسٹر الفرڈ ٹمسن نے حاصل کیا ۔چونکہ یہ انعام کئی مختلف زبانوں میں شارٹ ہینڈکی تحریر اوراس کے قواعد کے مرتب کرنے اور سب سے زیادہ زبانوں میںصحیح مصالحہ بہم پہنچانے والے شخص کےلئے تجویز کیا گیا تھا۔اس لئے لازماً وہ کسی ایسے شخص کوہی مل سکتا تھا جو ایسے مقام سے تعلق رکھنے والا ہوجہاںمختلف ممالک کی زبانوں سے واقفیت حاصل کرنے کا موقعہ ہو۔جیسا کہ قاہرہ ہے۔مگر دوسرا انعام سب سے زیادہ رفتار دکھانے والے کے لئے مقرر تھا۔وہ ایک سونے کاتمغہ تھا۔اوریہ اس شخص کو دیا جانا تجویز ہوا تھا جو شارٹ ہینڈ میں سب سے زیادہ رفتار دکھائے اور وہ ایسی رفتار ہو جو اب تک کسی نے ساری دنیا میں نہ دکھائی ہو۔گویا وہ پہلا ریکارڈ بھی بیٹ کرےاور موجودہ شارٹ ہینڈ لکھنے والوں میں بھی سب سے زیادہ تیز رفتار ثابت ہو۔یہ انعام عزیز مکرم مسٹر اعجاز الحق خان صاحب احمدی پسر مسٹر محمد طفیل خان صاحب احمدی مدرس مدرسہ احمدیہ نے حاصل کیا۔عزیز موصوف نے لاہور میں ایک امتحان کے موقعہ پر چھ نہایت معزز اور ذمہ دار افسران کی موجودگی میں دو سو پچاس الفاظ فی منٹ کی رفتار سےایک پرچہ شارٹ ہینڈ میںلکھا۔یہ سب سے بڑا انعام سپیڈ کا اس کےحصہ میں آیا۔اس سے اور چھوٹے انعامات بھی شارٹ ہینڈ میں اچھی سپیڈ دکھانے کے مقرر تھے۔جو انگلستان ،فرانس،نیوفونڈ لینڈ ،مغربی افریقہ اور ملایا کے اصحاب کو دئے گئے۔عزیز موصوف نے 1923ء میں رپورٹنگ سٹائل کا ڈپلوما حاصل کیا۔1928ء میں ٹیچرز ڈپلومالیا۔اور اب1933ء میں انہوں نے یہ گولڈ میڈل حاصل کیا۔ہم اس کامیابی پر ان کو اور ان کے خاندان کو تہ دل سے مبارکباد کہتے ہیں۔اور احمدی نوجوانوں سےتوقعات رکھتے ہیں کہ وہ زندگی کے ہرشعبہ میں امتیازی شان حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘(بحوالہ اخبار الفضل قادیان دار الامان مؤرخہ 30؍ مارچ 1933ء )
ڈاکٹر اعجازالحق خان صاحب جوانی میں قادیان سے دہلی اور آگرہ چلے گئے اور وہیں ملازمت اختیار کر لی۔اور ساتھ اپنی تعلیم مکمل کرتے رہے۔چار پانچ سال تک دہلی آگرہ رہے پھر کشمیر سری نگر میں رہائش پذیر ہوئےاور میونسپلٹی میں بطور انجینئر ملازمت اختیار کر لی۔چھ سال کشمیر سری نگرمیںرہنے کے بعدآزادکشمیر ضلع پونچھ تحصیل باغ میں رہائش اختیار کر لی جہاں محکمہ PWD میں بطور SDO ملازمت اختیار کی اور ترقی پاکر پھر انجینئر بن گئے۔ آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میرپور، باغ، راولہ کوٹ اور مظفر آباد میں رہے۔باغ آزاد کشمیر میں آپ کے ذریعہ جماعت قائم ہوئی۔ باغ میں جماعت کو مخالفین اسلام کے لئے خطرہ سمجھتے تھے جیسا کہ دیگر علاقوں میں بھی جماعت کے لئے عمومی تاثر یہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ باغ میں جماعت کی شدید مخالفت ہوتی تھی۔آپ جماعت احمدیہ باغ کے لمبا عرصہ تک صدر جماعت رہے۔ آپ پانچ سال آزاد کشمیرکے امیر جماعت بھی رہے۔ وہاں مسجد اور مشن ہائوس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر میں ہی باجماعت نمازیں ہوتی تھیں اور گھر کو ہی وہاں مرکز بنایا۔جمعہ کی نماز کے لئے احباب جماعت دور دراز سے آیا کرتے تھے۔باغ کے احمدی احباب میں سے مکرم ڈاکٹر امام الدین صاحب جو کہ وٹرنری ڈاکٹر تھے،انہوں نے مسجد کے لئے 10 مرلہ زمین جماعت کو دینے کا وعدہ کیا۔حالات ٹھیک ہونے پر مسجد تعمیر کی جانی تھی مگر شدید مخالفت کی وجہ سے مسجد تعمیر نہ ہو سکی۔آپ 1969ء سے 1973ء تک آزاد کشمیر کے امیر جماعت بھی رہے۔آپ جماعتی پروگراموں میں شمولیت کے لئے اکثر راولا کوٹ(آزاد کشمیر)میر پور اور مظفر آباد قیام کرتے تھے۔مظفرآباد میں آپ مکرم راجہ عطاءاللہ صاحب صدر جماعت مظفرآباد کے پاس ٹھہرتے تھے۔ احباب جماعت کے علاوہ وہاں زیر تبلیغ دوستوں سے بھی ملاقات ہوتی تھی۔ آپ مجلس انصار اللہ کے نائب ناظم اور ریجنل امیر کے طور پر بھی خدمات بجا لاتے رہے۔مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ماہ نومبر میں ہوا کرتا تھا اور اس موقعہ پر مجلس شوریٰ بھی منعقد ہوتی تھی۔آپ 1969ء سے 1973 ءتک شوریٰ میں آزاد کشمیر سےمجلس انصاراللہ کی نمائندگی بھی کرتے رہے۔ آپ باغ آزاد کشمیر سے نومبر میں ربوہ آجاتے اور دسمبر کے آخر میں جلسہ سالانہ کے بعد واپس جاتے تھے۔اس دوران اجتماع ختم ہونے پر چند دنوں کے لئے اپنے بھائیوں کے پاس ملنے فیصل آباد چلے جاتے۔راولا کوٹ آزاد کشمیر اور مظفر آباد میں مخالفت کا بہت سامنا رہتا تھا جسکی وجہ سے آپ کے بڑے بیٹے ضیغم سلیم صاحب کا کاروبار بہت متاثر ہوا۔
ملازمت کے پانچ سال بعد جب ان کی ترقی کا وقت آیا تو احمدیت کی وجہ سے ترقی روک دی گئی اور کسی اور کو ان کا افسر بنا دیا گیا جس کو قبول نہ کرتے ہوئے آپ نوکری سے مستعفی ہو گئے۔اس کے بعد آپ نے ضلع باغ آزادکشمیر میں حکمت کا کاروبار شروع کر دیا۔
آپ کا دوسرے مسلمانوں سے گہرا ذاتی تعلق اور اثر و رسوخ تھا ۔اپنے کاروبار کے ساتھ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور دور دراز کے علاقوں میں جاکر تبلیغ بھی کرتے ۔آزاد کشمیر میں جب پہلی باربنیادی جمہوری نظام کے تحت الیکشن ہوئے تو آپ اپنے حلقے سے الیکشن لڑکر اکثریت سے کامیاب ہوئے۔اس کے بعد چیئر مین اور پھر ڈسٹرکٹ کاؤنسل کے الیکشن میں بھی آپ اکثریت سے کامیاب ہوتے رہے۔آپ کو کشمیر کی سیاست اور انتظامیہ میں کا فی اونچا مقام ملا۔آپ ایک انتہائی نیک طبع اور مہمان نوازانسان تھے۔یتیموں ،غریبوں اور بے سہاروں کی مددکرتے۔خلیفۂ وقت کی تحریکات پر ہمیشہ لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کرتے اور سلسلہ کے عہدیداران کی اطاعت اور فرمانبرداری آپ کا طرّۂ امتیاز تھا۔جماعتی سلسلہ کی خدمت میںکبھی پیچھے نہیں رہے۔ہر وقت مطالعہ میں مصروف رہتے کتب سلسلہ و الفضل کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ،مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔

مکرم پروفیسر مبارک احمد صاحب کا بیان
پروفیسر مبارک احمد صاحب آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مرحوم کے متعلق جب خاکسار غور کرتا ہے تو میری زندگی میں ان کی شخصیت 1966ء کے آس پاس نمودار ہوئی۔جس کا ایک خاص پس منظر ہے۔میری فیملی کی خوش نصیبی ہے کہ خاکسار کی اکلوتی پھوپھی جان بچپن میں ہی قادیان دار الامان میں حضرت چھوٹی آپا جان کے گھر مقیم ہو گئیں تھیں۔بعد ہجرت ربوہ میں بھی حضرت چھوٹی آپا جان کے ساتھ ساتھ آپ کو قصر خلافت میں رہائش کا اعزاز مل گیا۔میری پھوپھو جان کے ہاں اولاد کوئی نہ تھی۔جب میں چار سال کا ہوا تو میری پھوپھو جان نے مجھے گود لے لیا اس طرح ناچیز کو بھی 1952ء میں اپنی زندگی کاعروج یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے قدموں میں رہائش کا پروانہ مل گیا اس رہائش گاہ میں بندہ ناچیز،میری پھوپھی جان اور میرے پھوپھا مکرم سید عبد السلام شاہ صاحب کل تین افراد خانہ قیام پذیر رہے۔
میرااحساس ہے کہ حضرت مصلح موعود ؓکی وفات کے بعد محترم ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب کو ربوہ سے پیار زیادہ ہو گیا تھا۔اس عقیدت کا ایک اظہاریوں بھی ہونے لگا کہ آپ جلسہ سالانہ ربوہ ختم ہونے کے بعد بھی کم وبیش ایک ماہ دارالضیافت میں قیام پذیر ہوکر ربوہ کی مزید برکتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔بنیادی مقصد خلیفہ کے پیچھے نمازیں ادا کرنا ہوتا تھا۔خاکسار اور پھوپھا جان مکرم سید عبد السلام شاہ صاحب بھی قصر خلافت میں رہائش پذیر ہونے کے باعث بیت المبارک میں نمازیں ادا کرتے تھے۔
جلسہ سالانہ کے بعد لمبے قیام کے باعث محترم ڈاکٹر صاحب کی پھوپھا جان کے ساتھ شناسائی ہو گئی۔ بعد میں یہ دوستی فیملی قرابت داری کی شکل اختیار کر گئی اور خاکسار بھی اس تعلق کا گواہ اور حصہ دار بنتا چلا گیا۔یہ گہرا تعلق یقیناًخلافت اور جلسہ سالانہ کی جملہ اور خاص برکتوں کا ایک رنگ تھا۔ حضرت صاحب کےپیچھےنمازیں پڑھنے کا محترم ڈاکٹر صاحب کو والہانہ عشق تھا۔میں نے تو محترم ڈاکٹرصاحب کو بزرگانہ اورجھکی ہوئی کمر والی بوڑھوں والی چال میں دیکھا ہے۔اس ظاہری پیرانہ سالی کے باوجود تمام نمازیں بیت المبارک میں مکمل اہتمام کے ساتھ ادا کرتے ۔ان دنوں سکیورٹی ایشو تو کوئی نہ تھا۔لہٰذا بیوت میں آنے جانے پر کوئی پابندی نہ ہوا کرتی تھی۔نماز میں کافی پہلے آکر نوافل میں مصروف ہو جاتے اورنماز کے بعد بھی دیر تک ذکر الٰہی میں مشغول رہتے اور واپسی آخر میں جانے والے نمازیوںکے ساتھ کرتے۔جلسہ سالانہ کے تینوں ایام میں جماعت کی طرف سے با جماعت نماز تہجد کا اہتمام ہوتا تھا۔محترم ڈاکٹر صاحب اپنے سارے قیام ربوہ کے دوران باقاعدہ نماز تہجد ادا کرتے اور کوشش ہوتی تھی کہ بیت المبارک میں جا کر یہ فریضہ ادا کیا جائے۔ صوم و صلوٰۃ کی پابندی کے علاوہ آپ میں اور بھی کئی خوبیاں قابل تقلید حد تک پائی جاتی تھیں۔مکمل عاجزانہ رنگ میں ہر وقت نظر نیچی رکھنا آپ کی شخصیت کی نمایاں خوبی تھی۔ہمارے گھر کی تمام مستورات گواہ ہیں کہ جب محترم ڈاکٹر صاحب کی فیملی کے ساتھ ایک رشتہ داری بھی ہو گئی ،تو اس وقت بھی ایک گھرانہ ہونے کے باوجود لڑکیوں کی طرز والی شرم و حیاء اورنیچی نظر رکھنے والی عادت کو تبدیل نہ کیا۔ہر ایک کے ساتھ مکمل توجہ ،ہمدردی سے ملنا نیز تواضع اور مہمان نوازی کا مکمل خیال رکھنے والے ایسے لوگ ہماری دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔
ہماری فیملی کے ساتھ ایک عجیب حادثہ یہ ہے کہ میری پھوپھی جان مرحومہ کو ایک بار بچپن اور پھر جوانی میں دوبارہ سانپ نے کاٹا ہے۔جس کے باعث آپ کی زندگی میں ایک وقت ایسا آگیاکہ آپ ربوہ کی شدیدگرمی برداشت نہیں کر سکتی تھیں، دوسری طرف میرے پھوپھا مرحوم بھی کشمیری تھےان کو بھی گرم موسم تنگ کرتاتھا چنانچہ آپ دونوں 1966ء سے 1980ء تک موسم گرما کا کم از کم ایک ماہ مری ہل پر بسر کرتے تھے ۔جہاں زیادہ قیام حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ذاتی جائیداد خیبر لاج میں ہوتا تھا۔بذریعہ چناب ایکسپریس ہم لوگ راولپنڈی جاتے ،ایک دو دن راولپنڈی میں محترم ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب مرحوم کے گھر میں قیام ہوتا ۔اس طرح مری سے واپسی پر بھی ایک دو دن یہاں رہائش کا موقعہ بن جاتا۔ہمارے قیام کے دوران محترم ڈاکٹر صاحب اور ان کی فیملی ہماری خدمت اور تواضع کامثالی نمونہ پیش کرتے۔عیالداری اور محدود وسائل ہرگز روک نہ بنتے۔مرحوم کا اپنا حسن سلوک اور ان کے بچوں کایہ اعلیٰ تربیت کانمونہ ہمیشہ یاد رہے گا۔اور ہم ان کے لئے دعا گو رہیں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت کا سلوک فرماتےہوئے جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے اور ان کی نسل کے تمام افراد میں مرحوم کی جملہ خوبیاں پیدا کرتا چلا جائے۔آمین‘‘
آپ نوجوانوں کو ہمیشہ نصیحت کرتے تھے کہ انہیں جس خاص شعبہ ،علم یا ہنر میں خاص اشتیاق ہو اس میں دنیا بھر میں نام پانے اور شہرت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔آپ کی وفات 25؍ مئی 1976ء میں راولپنڈی میں حرکت قلب بند ہو جانے سے ہوئی ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
موصی ہو نے کی وجہ سےبہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی(وصیت نمبر16877)۔آپ کی نماز جنازہ پہلے راولپنڈی میں آپ کے مکان پر ہوئی اس کےربوہ میںتدفین سے قبل آپ کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے اور آپ کی نسلوں کو اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلائے۔آمین

آپ کی اولاد
آپ نے 8 بیٹےاور 2 بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔جن کے نام درج ذیل ہیں:
(1) مکرم ضیغم سلیم صاحب مرحوم باغ آزاد کشمیر پاکستان
(2) مکرم رفعت محمودصاحب مرحوم راولپنڈی پاکستان
(3) خاکسارظفر احمد خان علاقہ فارنہم (اسلام آباد) برطانیہ
(4) مکرم اطہر محمودخان صاحب لندن برطانیہ
(5) مکرم شوکت محمودخان صاحب لندن برطانیہ
(6) مکرم وقار عظیم خان صاحب ٹورانٹو (کینیڈا)
(7) مکرم ذکی احمدخان صاحب لندن برطانیہ
(8) مکرم ندیم اخترخان صاحب راولپنڈی پاکستان
(9) مکرمہ ناصرہ مشہودصاحبہ حال مقیم کینیڈا
(10) مکرمہ قرۃ العین صاحبہ حال مقیم لاہورپاکستان
(11) مکرمہ تصویر طہارت صاحبہ مرحومہ(بچپن میں وفات ہو گئی)
(12) مکرمہ ذکیہ خانم صاحبہ مرحومہ(بچپن میں وفات ہو گئی )

محترم ملک اختر احمد خان صاحب

خاکسار کے چچا محترم ملک اختر احمدخان صاحب بٹالہ میں 1910ء میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم قادیان اور بٹالہ میں حاصل کی اور قادیان کے مقدس ماحول میں ان کا تمام بچپن گزرا اور جوانی میں قدم رکھا۔ تقسیم ملک کے وقت اپنے خاندان کے ساتھ ہی قادیان سے ہجرت کی اور لاہور میں قیام پذیر ہوئے۔آپ کے خاندان کو شروع میں لاہور کے ریفیوجی کیمپ میں کچھ عرصہ ٹھہرنا پڑا۔ 1948ء میں آپ نے لاہورمیں میونسپل آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس دوران محکمہ آباد کاری نے مہاجرین کی آباد کاری کا کام بھی جاری رکھا۔جس کے نتیجہ میں کچھ عرصہ بعد1948ء میں آپ کے خاندان کو فیصل آباد میںپراپرٹی کے طور پر زمینیں اور برف کی فیکٹری الاٹ ہوئی اور1948ء میں ہی آپ اپنے دوسرے بھائیوں اور والدین کے ساتھ فیصل آباد آگئے۔ آپ فیصل آباد میں ایگری کلچرل یونیورسٹی میں بطور انجینئر فائز ہوئے۔اپنی محنت ،ذہانت اور اچھی کارکردگی کی بناء پر بہت جلد ترقی پاکر سپریٹنڈنٹ انجینئر ہوگئے۔ملازمت کے دوران آپ ایگریکلچر برانچ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی ڈیوٹی انجام دیتے رہے۔آپ نے ملازمت کے عرصہ میں اپنی رہائش فیصل آباد میں ہی رکھی۔آپ کی ریٹائرمنٹ 1966ء میں ہوئی اور ریٹائرمنٹ کےبعد بھی آپ نے اپنی رہائش فیصل آباد میں ہی رکھی۔ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے اپنی رہائش پیپلزکالونی میں واقع اپنی کوٹھی میں ہی رکھی۔
آپ کی زوجہ شمشادبیگم صاحبہ نہایت نیک خاتون تھیں۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور تلاوت باقاعدگی سے کرتی تھیں۔آپ نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کے ساتھ اپنے بچوں کی تعلیمی بنیاد بہت اچھی رکھی۔ آج آپ کے تینوں بچےاعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ ایک بیٹی ڈاکٹر کوثر تسنیم زوجہ ڈاکٹر ملک طاہرمحمودصاحب ہیں۔ ان دونوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے نصرت جہاں سکیم کے تحت ان کا وقف قبول کرتے ہوئے مغربی افریقہ بھجوایا۔جہاں 1972ء کے بعد دس سال وہاں رہے۔
ملک اختر احمد خان صاحب کی دوسری بیٹی بشریٰ صبیحہ ملک صاحبہ امریکہ واشنگٹن میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔آپ کی پہلی زوجہ شمشادبیگم جوانی کی عمر میں وفات پاگئیں ۔ بچوں کے اصرار کے بعد آپ نے دوسری شادی کی۔ محترم چچا جان نے دوسری شادی محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ کے ساتھ 1965ء میں کی۔ آپکی یہ اہلیہ محکمہ ایجوکیشن میں ڈسٹرکٹ انسپیکٹر تھیں۔ پھر آپ ٹرانسفر ہوکر بطورپرنسپل گورنمنٹ سکول میںتعینات ہوئیں۔آپ کی زیادہ سروس فیصل آباد اور سرگودھا رہی۔آپ بڑی نیک جفاکش اورمحنتی خاتون تھیں۔

آپ کی اہلیہ اوّل محترمہ شمشاد بیگم صاحبہ
محترمہ شمشاد بیگم صاحبہ کا تعلق بٹالہ ضلع گورداسپور سے تھا۔آپ کے والد محترم ملک دین محمد بٹالہ میں پولیس انسپیکٹر تھے۔آپ کی پیدائش بٹالہ کی تھی۔بٹالہ کے بعد آپ کے والد قادیان میں آباد ہو گئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت بٹالہ اور پھر قادیان میں ہوئی۔آپ کی شادی ملک اختر احمد خان صاحب سے قادیان میں ہی ہوئی۔تقسیم ملک کے بعد پاکستان فیصل آباد میں ایک لمبا عرصہ کینسر کی مرض میں مبتلا رہنے کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔وفات کے وقت آپ کے بچے بہت چھوٹی عمر کے تھےکہ آپ کی والدہ اقبال بیگم صاحبہ جن کو ہم بی جی کے نام سے پکارتے تھے،انھوں نے اپنے نواسہ اور نواسیوں کی پرورش اپنے ذمہ لے لی اور بچوں کی مکمل نگہداشت ماں سے بڑھ کر کی۔اور اپنی ساری زندگی اسی فریضہپر وقف کر دی۔
محترمہ شمشاد بیگم صاحبہ انتہائی نیک خاتون تھیں اور صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ جماعتی پروگراموں اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی، انتہائی ملنسار،عزیز و اقارب کا خیال رکھنے والی خاتون تھیں۔ہم جب بھی ان کے گھر جلسہ سالانہ ربوہ سے واپسی پر فیصل آباد ملاقات کے لئے جاتے ،آپ اصرار کے ساتھ ہمیں رات کے قیام کے لئے روک لیا کرتی تھیں۔مہمان نوازی میں آپ اپنی مثال خود تھیں۔خلافت سے بڑا گہرا تعلق تھا۔آپ کی وفات 1959ء میں ہوئی۔آپ کی وفات پر افراد خاندان کو عظیم صدمہ ہوا۔

آپ کے بیٹےکیپٹن طاہر محمود خان صاحب
آپ حضرت حکیم محمد طفیل خان صاحب ؓکےپوتے اور ملک اختر احمد خان صاحب کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔آپ1959ء میں ایم ،سی کرنے کے بعد میونسپل کالج میں 8سال بطورلیکچرار خدمات بجالاتے رہے۔پھر1967ء میںآپ نے ائیر فورس جوائین کر لی۔آپ کی مختلف جگہوں پر پوسٹنگ ہوتی رہی۔آپ نے پہلے سرگودھا PAFکالج اور پھر کوہ مری لارنس کالج گھوڑا گلی میں تین سال ملازمت کی۔آپ کی قابلیت اور اچھی کارکردگی کی بنیاد پر آپ کو کالج میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔کالج کے طلبا آپ کے لیکچروں سے بہت مستفید ہوتے تھے۔آپ بہت محنتی اور جفاکش انسان ہیں۔مری سے آپ ٹرانسفر کرکے1988ء میںآپ کو تین سال لیبیا طرابلس میں آن ڈیپوٹیشن بھیج دیا گیا۔ان تین سالوں میں آپ نے اپنی ٹیچنگ کی لائن میں کافی ترقی حاصل کی۔آج آپ کے شاگرد بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔PAFکے درجنوں پائلٹ آپ کے شاگرد رہے ہیں ۔ان کی قابلیت سے سینکڑوں لوگ مستفیض ہوئےہیں۔لیبیا میں آپ بحیثیت ونگ کمانڈر کام کرتے رہے۔شروع میں آپ کو ایئر فورس کے ایریا میں رہائش دی گئی۔آپ کی ٹرانسپورٹ کھانا وغیرہ وہاں پر تھا۔کچھ عرصہ کے بعد آپ کو عمر مختار روڑ،سمندر کے سامنے 6،5 منزلہ بلڈنگ میں غالباً پانچویں فلور میں رہائش ملی۔لیبیا میں آپ کے کام کے ٹائم کو بڑھادیاگیا۔لیبین گورنمنٹ نےان کو ٹائم پر فارغ نہ کیا۔کیونکہ لیبیا کی گورنمنٹ آپ کے کام سے بہت مطمئن تھی۔ آپ کی قابلیت کی وجہ سے آپ کو مزید کام کے لئے رکنا پڑا۔لیبیا میں ایئر فورس افسراُن کے ملازمین کی بڑی دیکھ بھال کرتے تھے ،فرنِشڈ گھر ،ٹرانسپورٹ،سیکیورٹی سب سہولتیں حاصلتھیں۔اورباہر سے عام لوگوں کاوہاں عمل دخل نہ تھا۔
چھ سال لیبیا میں رہنے کے بعد آپ ملک واپس آئے۔کیپٹن طاہر محمود خان صاحب ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد راولپنڈی چک لالہ ائیرفورس کی رہائش میں قیام پذیر ہوئے۔آپ نے اپنی لائن(ایئر فورس ایجوکیشن) میں بہت ترقی کی ۔آپ کی قابلیت سے آپ کے شاگردوں نے بہت بڑی تعداد میں پائلٹ بن کر ائیر فورس میں جاب حاصل کی ہیں۔ پاکستان ایئرفورس میں آپ کا بہت بڑا نام ہے۔طاہر محمود خان صاحب کا نام ان کی قابلیت کی بنا پر ایجوکیشن پی اے ایف کالج کے پرنسپل کے لئےسابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو دیا گیا۔اس دور میں صدر صاحب کو قابل افراد کی تلاش تھی۔کیپٹن طاہر محمود خان صاحب ابھی رٹیائر منٹ کی لائف گزار رہے تھے کہ ان کو دوبارہ بحیثیت پرنسپل پی اے ایف کالج تعینات کردیا گیا۔آپ تین یا چار سال تک مزید ملک اور قوم کی خدمت کرتے رہے۔
آپ کی اہلیہ محترمہ فاخرہ طاہرصاحبہ انتہائی نیک خاتون ہیں دین دار ہیں۔شریف الطبع اور ملنسار ہیں۔ آپ آج کل بیرون ملک طاہر صاحب کے ساتھ امریکہ میں رہائش پذیر ہیں۔آپ ایک لمبا عرصہ سے بیمار چلی آرہی ہیں۔ڈاکٹروں کے زیر علاج ہیں۔اور اپنی بیٹی کے ہاں قیام پذیر ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت وتندرستی والی لمبی عمر عطا کرے۔آمین

آپ کی بیٹی ڈاکٹر کوثر تسنیم ملک صاحبہ
ڈاکٹر کوثر تسنیم ملک حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب ؓبٹالوی کی پوتی اور ملک اختراحمد خان صاحب کی بیٹی تھیں۔ آپ فروری 1942 ءکو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم فیصل آباد میں پائی۔ ڈسٹرکٹ فیصل آباد سے ایف ایس سی میڈیکل میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔ 1959ء میں لاہورکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کیا ۔
وہاںآپ کے خاوندڈاکٹر طاہر محمود ملک صاحب بھی آپ کے ساتھ آپ کے کلاس فیلو تھے۔ آپ دونوں نے ایک ساتھ میڈیکل کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے ایم بی بی ایس کے بعد مختلف ہسپتالوں میں ملازمت کی۔ملازمت کے دوران آپ طاہر محمود ملک صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں 1963ء میں منسلک ہوئیں۔ شادی کے بعد آپ طاہر محمود ملک کے ساتھ ملازمت کرتی رہیں۔1969ء میں حضور اقدس خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے نصرت جہاں سکیم کا آغاز فرمایا ۔ جماعت کو مغربی افریقہ میں ڈاکٹر اور ٹیچر کی ضرورت تھی۔ دونوں میاں بیوی نے مشورہ کیا۔ کیوں نہ ہم افریقہ کے لئے دونوںخود کو وقف کردیں۔ دونوں نے اپنے اپنے والدین سے مشورہ کیا۔ والدین نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔ حالانکہ والدین ضعیف العمر تھے۔ والدین نے کہا آپ کے وقف کرنے میں برکت ہے۔ عمر وںمیں بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈالے گا۔ والدین کی اجازت کے بعد آپ دونوں ربوہ حضوراقدس خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضور اقدس سے ملاقات کے بعدحضور نے مغربی افریقہ سیرالیون جگہ تجویز فرمائی۔ ملاقات کے بعد دعاؤں پیار اورتحفےتحائف کے ساتھ رخصت کیا۔
چند دن کے بعد آپ لاہور سے مغربی افریقہ سیرالیون کے لئے روانہ ہوئے۔ سیرالیون میں آپ نے اپنے پیشہ کے علاوہ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ علاج و معالجہ کے ساتھ عوام کی خدمت کرتے۔ علاج کے لئے لوگ دور دراز کے علاقوں میں لے جاتے۔ جتنی بھی کسی کی مدد ہو سکتی کرتے۔ حضور اقدس کی ہدایت کے مطابق دس سال وہاں قیام پذیر رہےاور پھرپروگرام کے تحت واپس آئے۔
ڈاکٹر کوثرتسنیم ملک کے سسر ڈاکٹر عبدالحق خان صاحب گجرات سول ہسپتال میں میڈیکل سپریٹنڈنٹ تھے۔ خاکسار کی ان سے پہلی ملاقات ان کے ہسپتال میں اکتوبر 974 1ءمیں بحیثیت نمائندہ کُرم میڈیکل اینڈ کیمکل کمپنی کے ہوئی۔ دوسری ملاقات ڈاکٹر صاحب سے اپریل 1975ءکو گجرات میں ان کے پرائیویٹ کلینک میں شام کے وقت ہوئی جہاں ڈاکٹر عبد الحق صاحب کو کمپنی کی دوائی کا تعارف کروایا۔ خاکسار کا ڈاکٹر کوثر صاحبہ کے ساتھ عزیزداری کے متعلق بھی بتایا کہ آپ کی بہو ڈاکٹر کوثرتسنیم میرے چچا کی بیٹی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بڑی خوشی کا اظہار کیا۔ کاروباری تعاون بھی کیا۔کلینک بند ہونے تک خاکسار کو اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ کام ختم کرنے کے بعد اپنے ساتھ دولت خانہ لے گئے۔ رات کھانے کے بعد وہاں ہی قیام کیا۔اپنی مستورات کو بھی بتایا کہ ظفر صاحب کوثر کے کزن ہیں۔سب مجھ سے مل کر بہت خوش تھے ۔آپ بہت ملنسار نیک انسان تھے۔ بار بار اصرار کرتے رہے کہ کچھ روز اور ہمارے پاس قیام کرو۔ میرا جانا ضروری تھا۔اگلے روز ناشتہ کے بعد میرے اصرار پرمجھے لاری اڈہ پر واپسی کے لئے چھوڑ آئے۔
ڈاکٹر کوثرتسنیم ملک صاحبہ کے دادا حضرت ماسٹر محمدطفیل خان صاحبؓ اور والد محترم ملک اختر احمدخان صاحب کا ذکر پہلےگزرچکا ہے۔ڈاکٹر کوثرتسنیم ملک صاحبہ کے نانا ملک دین محمدصاحب کا تعلق تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور سے تھا۔ آپ ککےزئی خاندان سے تھے۔ اور بٹالہ پولیس میں انسپکٹر تھے۔ ڈاکٹر کوثرتسنیم کی والدہ محترمہ شمشاد بیگم بٹالہ میں پیدا ہوئیں۔ ملک دین محمد خان صاحب ایک نیک طبیعت انسان تھے اور عبادت گزار بھی تھے۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد آپ کی دلی خواہش تھی کہ میں قادیان میںآباد ہو جاؤں۔بٹالہ سے آپ اپنی جائیداد فروخت کرنے کےبعد قادیان میں آکر آباد ہوگئے۔قادیان کی پیاری بستی کا ماحول آپ کو بہت پسند آیااور یہیںملک دین محمد خان صاحب نے شمشاد بیگم کو ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کے بیٹے ملک اختر احمد خان صاحب سے بیاہ دیا ۔
تقسیم ملک کے بعد آپ لاہور آباد ہوئے۔ڈاکٹرکوثرتسنیم صاحبہ کی پیدائش لاہور میں ہوئی۔
آپ نے افریقہ میں وقف مکمل کرنے کے بعد حضور اقدس کی ہدایات کے مطابق سیرالیون سے واپس پاکستان میں اپنا ہسپتال بنانے کا پروگرام بنایا۔آپ نے راولپنڈی صدر کے علاقہ میں کوثر نرسنگ ہوم کے نام سے فروری 1981ءمیں اس کی بنیاد رکھی۔یہ ہسپتال 120 بستروں پر مشتمل تھا۔اور فل ٹائم ہسپتال تھا۔ہسپتال میں قابل ترین ڈاکٹر جنرل محمود الحسن ،ڈاکٹر سیف الرحمٰن ،ڈاکٹر مقصود الحسن،ڈاکٹر طاہر محمود سرجن اور ڈاکٹر طارق جیسے قابل ڈاکٹر ڈیوٹی انجام دے رہے تھے ۔ایم آر آئی، سی ٹی سکین، ایکسرے، فل لیبارٹری جس میں پیتھلوجسٹ ڈاکٹر، میکر وبایولو جسٹ ڈاکٹر بھی موجود تھے۔ہر قسم کے ٹیسٹ ہسپتال کے اندرکئے جاتے ۔ڈاکٹروں کی ٹیم میں اکثریت احمدی ڈاکٹروں کی تھی۔پیرا میڈیکل سٹاف میں بھی احمدی اور غیر از جماعت کے افراد کام کرتے تھے۔ہسپتال کے کمپونڈ میں ایک کینٹین چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تاکہ مریض اور پبلک کو کھانا ،چائے،دودھ اور دوسری اشیاء دستیاب ہوتی رہیں۔ہسپتال کے اندر ہر قسم کی سہولتیں موجود تھیں۔شہر اور اطراف میںہسپتال کا بہت بڑا نام اور شہرت تھی۔دور دراز کےعلاقوں سے لوگ علاج کے لئے آتے تھے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو معلوم ہوتا گیاکہ یہ احمدیوں کا ہسپتال ہے۔مخالفت بھی بڑھتی گئی۔لوگوں کےخط بھی آتےاوردھمکیاں بھی دی جاتیں۔بعض دفعہ تو جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں آتیں۔ہر وقت ڈر اور خوف رہتا۔ان حالات میں ہسپتال چلانا بڑا مشکل ہوگیا۔19سال ہسپتال چلانے کے بعد اگست 1998ء کو ہسپتال بند کردیاگیا۔جماعتی مخالفت کی وجہ سےپورے ہسپتال کو فروخت کرکے ڈاکٹر کوثر اور آپ کے خاوندبیرون ملک اپنے بچوں کے پاس چلے گئے۔آپ کاایک بیٹا امریکہ کے شہر شگاگومیں ہے۔بیٹی ڈاکٹر فریحہ مشی گن میں ۔بڑا بیٹا شاہد نعمان آسڑیلیا میں قیام پذیر ہے ۔ڈاکٹر کوثر کی دوسری بیٹی فاطمہ اور چھوٹی بہنیں امریکہ شیٹل میں آباد ہیں۔آپ اور آپ کے خاوند باری باری سب بچوں کے پاس قیام کرتے۔ تین چار ماہ کے لئے پاکستان واپس آتے اور پھر واپس چلے جاتے۔ 2019ءمیں دونوںمیاں بیوی پاکستان آئے پھراچانک حالات خراب ہونے کی وجہ سےواپسی کا سفر نہ کر سکے۔ شروع میں یورپ، امریکہ ،کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ ممالک کے حالات بھی بہت خراب تھے۔ کرونا وائرس بہت زیادہ پھیل چکا تھا۔ایسے میں ملک سے نکلنااور سفر کرنا بڑا مشکل تھا۔ ڈاکٹر طاہر ملک صاحب اور ڈاکٹر کوثر اسی انتظار میں تھے کہ حالات بہتر ہوجائیں تو اپنے بچوں کے پاس بیرون ملک چلے جائیںگے۔مگر حالات بہتر نہ ہوئے۔ اسی دوران پاکستان میں بھی کرونا وائرس پھیل چکا تھا۔ فلائٹ بھی بند ہو چکی تھی۔ دونوں راولپنڈی میں اپنی کوٹھی جو کہ صدر کے علاقے میں ہے قیام پذیر رہے۔ دونوں میاں بیوی گھر سے باہر نہ نکلتےتھے۔ بازار سے سودا سلف اور دوسرے کام نوکروں کے ذریعے ہوتے تھے۔ بازار سے جو بھی سبزی اور فروٹ گھر لاتے اسے سینیٹائز کرکے اندر لایا جاتا تھا۔غرض بہت ہی احتیاط برتی جا رہی تھی۔ اتنی احتیاط کے باوجود دونوں کروناوائرس کی لپیٹ میں آگئے۔ پہلے ڈاکٹر طاہر صاحب کو کرونا ہوا اس کے چند دن کے بعد ڈاکٹر کوثر تسنیم ملک بھی کرونا وائرس میں مبتلا ہوئیں۔ ڈاکٹر طاہر ملک تو دو ہفتہ کے اندر صحت یاب ہوگئے۔ مگر ڈاکٹر کوثر انتہائی کوشش کے باوجود صحتیاب نہ ہو سکیں۔ آکسیجن کے ساتھ آئی سی یو میں بھی رہیں۔ آخرماہ رمضان میں 20 ؍اپریل 2021ء کو اسی بیماری سے لڑتے ہوئےآپ وفات پا گئیں۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
آپ کی نمایاں صفت یہ تھی سب سے حسن سلوک سے پیش آتیں۔ آپ انتہائی ملنسار تھیں۔ آپ ٹیلی فون کے ذریعہ خاندان کےہر شخص سے رابطہ رکھتیں۔ اگر کسی عزیز رشتہ دار کا فون نہیں آتا تو خود فون کرکے حال احوال معلوم کرتیں۔ خاکسار اور ڈاکٹر کوثرمرحومہ کی پھوپھی ہاجرہ لاہور میں رہتی تھیں۔ پھوپھی کی وفات کے بعد ان کی چھ بیٹیاں لاہور میں رہتی ہیںاور سب شادی شدہ اور بچوں والی ہیں۔ ڈاکٹرکوثرمرحومہ چھ بیٹیوں کے ساتھ فون سےہمیشہ رابطہ رکھتیں اور خیریت معلوم کرتیںاور ان کا بڑا خیال رکھتی تھیں۔ آپ بہت ہنس مکھ اور مہمان نواز تھیں۔ آپ نہایت رحم دل خوش اخلاق اور معاملہ فہم خاتون تھیں۔ غرباء کی ہمیشہ مدد کرتی تھیں۔ آپ چندوں وغیرہ نیزجماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتیں۔ آپ نمازوں کی پابند اور تہجدگزار خاتون تھیں۔ آپ کی وفات حضرت ماسٹر طفیل خان صاحبؓ کے خاندان کے لئے بڑا سانحہ ہے۔ پسماندگان میں اپنے شوہر ڈاکٹر طاہر محمود ملک دو بیٹے (شاہد جو آسٹریلیا میں قیام پذیر ہے اور عمر سلیمان ملک جو امریکہ میں ہے) دو بیٹیاں (فریحہ قادر اور فاطمہ جو امریکہ میں آباد ہیں)چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر کرنے اور ان کی خوبیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ۔آمین

آپ کی چھوٹی بیٹی بشریٰ صبیحہ ملک
حضرت ماسٹر محمد طفیل خان بٹالویؓ کی پوتی اور ملک اختراحمد خان صاحب کی چھوٹی بیٹی بشریٰ صبیحہ ملک صاحبہ لاہور پاکستان میں جون 1947ء میں پیدا ہوئیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت لاہوراور فیصل آباد میں ہوئی۔آپ نے فیصل آباد سے گریجویشن کی اور یہاں ہی محکمۂ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔اور ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔آپ مارچ 1975ء میں مکرم بشیر الدین ملک صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔آپ کے خاوند بشیرالدین ملک صاحب ایک تعلیم یافتہ شخص تھےاور ایک لمبا عرصہ ہوائی جہازوں کی کمپنی بوئنگBOEINGمیں ملازمت کرتے رہے۔وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام شروع کیا۔اور ساتھ ساتھ اپنا ذاتی کاروبار بھی کرتے رہے۔آپ انتہائی جفاکش اور محنتی انسان ہیں۔ دونوں میاں بیوی جماعتی پروگراموں میں اکثر حصہ لیتےہیں۔ مکرم بشیرالدین ملک صاحب امریکہ میں جماعتی دفتر رشتہ وناطہ میںطوعی خدمت بھی انجام دیتے رہے۔مکرمہ بشریٰ صبیحہ ملک صاحبہ اپنے خاوند کے ساتھ چالیس سال سے امریکہ کے شہر Seattleمیںآباد ہیں۔
بشریٰ صبیحہ ملک صاحبہ کے سسُر محترم ملک معراج الدین صاحب کا تعلق کشمیر سے تھا۔تقسیم بر صغیر کے بعد آپ لاہور میں آباد ہوئے۔آپ پیشہ کے اعتبار سے انجینٔر تھے۔آپ عراق میں عرصہ 30 تیس سال تک ملازمت کرتے رہے۔عرصہ 30 سال تک آپ اپنے اہل وعیال کے ساتھ عراق میں ہی مقیم رہے اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد واپس لاہور آکر قیام کیا۔لاہور میں ہی آپ کی وفات ہوئی۔آپ انتہائی نیک اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔جماعتی تحریکات اور تقریبات میں ہمیشہ شامل ہوتے تھے۔خلافت کے شیدائیوں میں سے تھے۔آپ کثیر الاولاد تھے آپ نے تین بیٹے اور سات بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔

محترم ملک ناصرالدین خان صاحب

محترم ملک ناصر الدین خان صاحب حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کے تیسر ے بیٹے تھے۔ آپ 1913ءمیں بٹالہ میں پیدا ہوئے۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم بٹالہ میں حاصل کی۔جب آپ کے والدصاحب قادیان آکر بس گئے، ان کے ساتھ آپ بھی قادیان آ گئے۔تقسیم ملک کے بعد آپ پاکستان میں آ گئے اور لاہور شہر میں مقیم ہوئے۔یہاں آپ نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔اور بی اے کرنے کے بعدآپ بطور انسپکٹر ریلوے میں ملازم ہوئے اور 60 سال کی عمر میں وہاں سےریٹائر ہوئے ۔ آپ اپنے افسران کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔کبھی ڈیوٹی سے غیر حاضر نہ ہوتے اور نہ ہی بلا وجہ رخصت لیتے۔آپ نےاپنے کام اور دیانتداری کی بناء پر بہت جلد ترقی پائی۔آپ کا ہیڈ کواٹر لاہور میں تھا لیکن اپنی ملازمت کے پیش نظر دوسرے شہروں میں بھی جا یا کرتے تھے۔آپ 1957ء میں ریلوے کی ملازمت کے دوران ڈیوٹی پر لاہور سے فیصل آباد،سرگودھااور فیصل آباد آیا جایا کرتے تھے۔اس دوران جب بھی آپ کا راولپنڈی آنا ہوتا تو آن ڈیوٹی ہوتے ہوئے بھی ہم سب سے ملنے ہمارے گھر ضرور آتے تھے۔اس وقت لاہور سے ٹرین صبح سویرے 6-5 بجے راولپنڈی پہنچا کرتی تھی۔آپ صرف چند گھنٹوں کے لئے ملنے آتے تھے اور بڑے اصرار کے بعد ناشتہ وغیرہ کیا کرتے تھے۔ایک بارجب آپ آئے تو میرے والدین سے میرے بارے میں کہا کہ میں ظفر کو اپنے ساتھ لاہور لے جانا چاہتا ہوں۔امی جان کہنے لگیں کہ اب اسکول کھلنے والے ہیں اور چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں۔چچا جان کہنے لگےکہ میں اسے لاہور میں اسکول میں داخل کروا دوں گا۔چنانچہ وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔لاہور میں ان کے پاس میرا قیام تقریباً 7-6 ماہ رہا۔اس وقت میری عمر تقریباً 12 سال تھی۔چچا جان کو ہم پیار سے ابی جان بھی کہا کرتے تھے۔چچا جان کے گھر میں ان کا بہت پیار مجھے ملا۔ان کے بچے بھی بہت محبت کرتے تھے بہت خیال رکھتے تھے۔ہم سب بچے تقریباً ایک عمر کے ہی تھے اور شرارتوں میں بھی ہم برابر کے شریک تھے۔چچا جان اور انکے بچوں کے ساتھ بعد میں بھی بہت پیار بھرا تعلق رہا۔میری شادی کی تقریب میں بھی وہ سب شامل ہوئے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد دس سال تک آپ پیکو کمپنی میں بطور پرچیز آفیسر رہے اوریہاں کافی محنت اور دیانتداری سے کام کیا۔آپ کے افسران آپ کے کام سے بڑے خوش اور مطمئن رہتے۔آپ جماعتی کاموں میں بھی حصہ لیتے رہتے ۔آپ حلقہ محمد نگر لاہور کے سیکرٹری مال بھی رہے ۔ جماعت کے چندہ جات کی و صولی کے لئے دیررات کو بھی کام کرتےرہتے،جسکی وجہ سے رات دیر دیر تک گھر آیا کرتےتھے۔
1942ء میں محترمہ ضیاء القمر صاحبہ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے بعد آپ نے اپنے بیوی بچوں کو بھی لاہور میں رکھا۔ایک وقت ایسا آیا کہ چچا جان ملک ناصر الدین صاحب بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔ اس کے باوجود آپ اپنے کام خود کرتے تھے ۔کبھی کسی کو بلاوجہ تکلیف نہ دیتے ۔آپ کا گھر پرانی طرز کا ہی بنا ہوا تھا۔آپ گھر میں بنا کسی کی مدد کے گھوم پھر لیتے تھے اور اپنے بیٹے اور بہو کا بہت خیال رکھتے ۔پوتیوں کو بہت پیار کرتے ۔بیٹے کے سسرال والوں کا بھی بہت خیال رکھتے۔ان پربہت مہر بان رہتے اوربہت اعتماد کرتے تھے ۔آپ بہت مہمان نواز تھے ۔جو بھی گھر آتا کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتے ۔ خود اپنی جیب سے پیسے نکال کردیتے جو کھانا ہے منگوالو۔ آپ کی بہو صالحہ کی چھوٹی بہن فاخرہ اپنی تعلیم کے سلسلہ میںاپنی بہن کے پاس رہتی تھی۔فارغ اوقات میں فاخرہ آپ کابہت خیال رکھتی تھی۔ بہن فاخرہ پر آپ بہت اعتماد کرتے تھے۔ نظر کی وجہ سے خود لکھ پڑ ھ نہیں سکتےتھے ۔الفضل اور دوسر ے اخباروں کے لئے خط وکتابت کا کام اپنی بہو اور ان کی بہن سے کرواتے تھے۔ان دونوں نے آپ کی بہت خدمت کی ہے اور آپ کی بہت دعائیں بھی لی ہیں۔ آپ اپنے عزیزو اقارب کا بہت خیال رکھا کرتے اور اپنے تمام اخراجات اپنی پنشن کے پیسوں سے کرتے ۔اور یہ پسند نہ کرتے تھے کہ ان کی اولاد ان پر خرچ کرے بلکہ کو شش کرتے کہ اولاد کو بھی کچھ نہ کچھ دیتے رہیں ۔
آپکی بیگم کاانتقال بہت پہلے ہو چکا تھا ۔ بیگم کی وفات کے بعد آپ کا سب سے زیادہ تعلق اور پیارسب سے چھوٹے بیٹے عامر رضوان سے تھا ۔دونوں ایک دوسر ے کے دوست اور غمخوار بن کر رہے۔ آپ آخر وقت تک عامر رضوان کے ساتھ رہے۔عامر رضوان جب تک گھر نہ آجاتے آپ انتظار میں فکرمند رہتے۔اپنی بہو سے بار بار پوچھتےکہ عامر ابھی تک کیوں نہیں آئے۔فون کرکے معلوم کرنے کو کہتے۔اور عامر جب گھر آتے پہلے اپنے بزرگ والد کو سلام کرتے۔اور ان کے پاس بیٹھ کر آپ کے استفسار پر باہر کے حالات سے آپ کو روشناس کرتے۔آپ اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے تھے کہ باہر جاتے وقت بڑے فکر سے دعائوں کی ضرورت ہوتی ہے۔لہٰذا ایسے وقت میں دعائیں کرنی چاہئیں۔عامر کو اکثر گھر سے باہر نکلنے سے قبل قرآن کی تلاوت کی تلقین کرتے تھے۔
آپکی مشترکہ جائیداد کے کیس عدالتوں میں چل رہے تھے ۔ان کودیکھنا اور انکی نگرانی آپ کےبھتیجے رفعت محمود خان کر رہے تھے ۔رفعت محمود خان راولپنڈی میں تھے اس لئے خط وکتابت کے ذریعے رابطہ رکھتے تھے اور مشورے دیتے ۔کبھی کسی ضروری کام کے لئے ان کو راولپنڈی سےاپنے پاس بلوا لیتے ۔ جماعت کے ساتھ آپ کا گہرا تعلق تھا ۔خلافت کے شیدائی تھے ۔نمازوں کے پابند اور تلاوت قرآن باقاعدگی سے کرتے ۔ آپ تہجد گزار اور دعا گو انسان تھے ۔ مالی قر بانی میںہمیشہ آگے آگے رہتے ، آپ بہت سی خوبیوں اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے ۔ آپ منکسر المزاج ،ہنس مکھ،خوش مزاج اور بے لوث خدمت بجا لانے والے تھے ۔اپنے بچوں ،عزیز و اقا رب کے ساتھ بہت پیار ،محبت اور شفقت کا سلوک تھا۔ آپ اپنی دونوں پوتیوںفاطمہ رضوان اور عائشہ رضوان سے بہت پیار کرتے۔ ہر وقت ان کو گود میں اٹھا کر دعائیں کرتے ۔ آج ان کی دعاؤں سے دونوں بچیاں ڈاکٹر بن گئی ہیں ۔ دونوں بیرون ملک اپنے گھروں میں آباد ہیں ۔آپ نے سوگوار خاندان میںتین بیٹے اور دو بیٹیاں یاد گار چھوڑے ہیں ۔ آپ نے جون 1997 ء میں وفات پائی۔
اللہ تعالیٰ مر حوم سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور انہیں اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے لواحقین کوبھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے ۔آمین

آپ کی اہلیہ محترمہ ضیاء القمر صاحبہ
آپ کی اہلیہ ضیاء القمر صاحبہ کی پیدائش 1924ء میں بمقام لاہور ہوئی ۔آپ کا بچپن قصور لاہور میں گزرا۔ابتدائی تعلیم و تربیت بھی یہیں ہوئی۔آپ کے والد صاحب محترم ملک غلام محمد صاحب جماعت احمدیہ قصور سے تعلق رکھتے تھے اور مالی لحاظ سے بہت امیر کبیر تھے۔آپ نے نہایت اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی اور بی اے کی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے مکمل کی۔آپ کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں۔آپ کےبھائی محترم ملک عبد الرحمٰن خان صاحب،محترم ملک عبد اللہ خان صاحب، ملک عبد الرحیم خان صاحب،محترم ملک عبد العزیز خان صاحب تھے ۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔آپ نے اپنے بچوں کی پرورش بہت ذمہ داری سے کی۔آپ بہت عقلمند اور باہمت خاتون تھیں۔بچوں کی اعلیٰ تعلیم کے علاوہ ان کی دینی تعلیم پر بھی پوری توجہ دیا کرتیں۔بچوں کو نماز با جماعت ادا کرواتیں۔قرآن کریم پڑھنے کی طرف بچوں کا خاص خیال رکھتی تھیں۔بچوں کوجماعتی پروگراموں میں شمولیت کے لئے باقاعدہ بھیجا کرتی تھیں۔
آپ کے والد محترم ملک غلام محمد صاحب نہایت نیک انسان تھے۔ان کا ہول سیل غلّہ کا کاروبار تھا۔قصور اورلاہور میں آپ کی آٹے کی مِلّیں تھیں۔قصور میں آپ کی زرعی زمینیں بھی ہوا کرتی تھیںجن کو بعد میں ان کے بچے چلاتے رہے۔آپ کے والد محترم ملک غلام محمد صاحب اپنے کاروبار کے ساتھ ساتھ جماعتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ربوہ کے جلسہ سالانہ میںباقاعدگی سے شامل ہوتے اور جماعتی تحریکات میںشامل ہوتے۔تبلیغ کا بہت شوق تھا۔مِل کے اندر اپنے ملازمین کو بھی اکثر تبلیغ کیا کرتے تھے۔
آپ خود بھی بہت نیک اور صوم و صلوٰۃ کی پابند،ملنسار،عزیزو اقارب کا خیال رکھنے والی نیز غریب پرور خاتون تھیں۔آپ کی وفات اور تدفین جولائی1973ء کو لاہور میں ہوئی۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے اور جملہ لواحقین کو آپ کی نیکیاں قائم رکھنے والا بنائے۔آمین۔

آپ کے بڑے بیٹے ملک وسیم احمد خان صاحب
آپ کے بڑے بیٹے ملک وسیم احمد خان صاحب مارچ1944ءمیں لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔آپ نے انگریزی میڈیم اسکول اور کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد اپنا کاروبار شروع کیا۔آپ کاروباری طبیعت کے مالک تھے۔آغاز میں آپ نے ایک ہوٹل مع ریسٹورینٹ کھولا۔اسکے چار سال بعد اس کام کو ختم کرکے بلڈنگ میٹیریل کے لئے استعمال ہونے والے اسٹیل کا کاروبار لاہور میں ہی شروع کیا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس کاروبار میں بہت برکت عطا کی۔اب تک آپ کا یہ کاروبار لاہور میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔آپ کی اولاد اب اس کاروبار کو سنبھالے ہوئے ہے۔
آپ کی زوجہ محترمہ غیر از جماعت تھیں۔ایک لمبا عرصہ بیمار رہنے کے بعد وفات پا گئیں۔ آپکیاولاد میں دو بیٹے طاہر ملک صاحب اور طیب ملک صاحب ہیں۔آپ کی ایک بیٹی صائمہ ملک صاحبہ ہیں۔ سب بچے شادی شدہ صاحب اولاد ہیں ۔مگر اپنی والدہ کے زیر اثر رہنے کی وجہ سےاحمدیت سے دور ہیں۔مکرم ملک وسیم احمد خان صاحب لاہور میں ہی اپنی اولاد کے ساتھ مقیم رہے۔اب آپ وفات پاچکے ہیں اور آپ کا ایک بیٹا طیب ملک بھی آپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گیا تھا جسکی وفات کا غم آپ کو تا دم آخر رہا۔ اللہ تعالیٰ آپ سے مغفرت کا سلوک کرے۔آمین

آپ کی بیٹی محترمہ صبیحہ ناصر صاحبہ
آپ کی بیٹی محترمہ صبیحہ ناصر صاحبہ1947ء میں لاہور میں پیدا ہوئیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت لاہور میں ہوئی۔آپ ابھی لاہور گورنمنٹ وومن کالج میں زیر تعلیم تھیں کہ محترم میجر ناصرمحمود صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔آپ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔آپ کے شوہر میجر ناصر محمود صاحب کے والد محترم صوفی ابراہیم صاحب تقسیم ملک سے قبل قادیان میں مدرسہ احمدیہ میں خاکسار کے دادا حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کے ساتھ ہی استاد تھے۔یہ دونوں بزرگ آپس میں دوست تھےگو عمر کا کافی فرق تھا۔ اس رشتہ سے انکی دوستی رشتہ داری میں تبدیل ہو گئی۔حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کی اہلیہ یعنی خاکسار کی دادی جان نے محترم صوفی ابراہیم صاحب کی اہلیہ کو اپنی بیٹی بنایا ہوا تھا۔محترم میجر ناصر محمود صاحب آرمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد لندن برطانیہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہجرت کر گئے۔آپ کے تین بیٹے مکرم ذبیح محمود صاحب ساکن مانچیسٹربرطانیہ،مکرم وجیہہ احمد صاحب ساکن مانچیسٹربرطانیہ اورمکرم تقی محمود صاحب ساکن ٹورانٹو کینیڈاہیں۔آپ کی ایک ہی بیٹی صفیہ عالیہ محمود صاحبہ کیلگیری کینیڈا میں مقیم ہیں۔
محترمہ صبیحہ ناصر صاحبہ انتہائی نیک خاتون ہیں،خلافت احمدیہ سے گہرا تعلق ہے۔آپ اپنے عزیز و اقارب سے بہت محبت رکھنے والی اور انکی ہمدرد خاتون ہیں۔آپ صوم و صلوٰۃ کی پابند اور جماعتی تحریکات میں پیش پیش رہنے والی خاتون ہیں۔حال ہی میں جب آپ کے شوہر کی وفات ہوئی تو آپ نے یہ صدمہ بہت حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔اب آپ مانچیسٹر میں اپنے بیٹوں کے پاس ہیں۔اپنی بیماری اور ناسازیٔ صحت کے باوجود ہر سال جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہوتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی والی عمر عطا فرمائے۔ آمین۔
آپ کے خاوندمیجر ناصر محمود صاحب کا اس جگہ ذکر کر دینا مناسب سمجھتا ہوں۔آپ فروری 1930ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد محترم صوفی ابراہیم صاحب جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے مدرسہ احمدیہ قادیان میں استاد تھے۔آپ نے ابتدائی تعلیم قادیان اور پھر لاہور اور جہلم سے حاصل کی جہاں آپ مقیم تھے۔جہلم سے آپ چنیوٹ آگئے اور چنیوٹ میں محلہ گڑھا میں اپنا رہائشی مکان لیکر یہاں ہی مستقل رہائش اختیار کی۔آپ کا گھر سابق مبلغ انگلستان محترم سردار مصباح الدین صاحب کے گھر کے سامنے تھا۔ محترم سردار مصباح الدین صاحب اور آپ کے والد صوفی ابراہیم صاحب کے پرانے تعلقات تھے۔ایک لمباعرصہ چنیوٹ میں گزارنے کے بعد مخالفت کی وجہ سے یہاں سے ہجرت کرکے ربوہ منتقل ہو گئے۔ربوہ قیام کے دوران ہی آپ کے والد صوفی ابراہیم صاحب کی وفات ہوئی اور بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔
آپ نے گریجویٹ کرنے کے بعد آرمی میں ملازمت اختیار کی اور ترقی پا کر میجر کے عہدے تک پہنچے۔آپ مختلف علاقوں میں تعینات رہےاور 1979ء میں ریٹائر منٹ کے بعد آپ نے WORD FORMکمپنی (جو امریکہ کی ایک مشہور کمپنی ہے اور اسکی ایک شاخ لاہور میں بھی ہے)میں کام کیا ۔آپ بحیثیت لیکچرار تین سال تک اس کمپنی میں خدمت انجام دیتے رہے۔اور پھر کاروبار کے فروغ کے لئے آپ امریکہ بھی گئے،اور امریکہ کا آپ کا دورہ بہت کامیاب رہا۔پاکستان میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے ملاز مت چھوڑ کر آپ برطانیہ ہجرت کر آئے۔وفات سے قبل آپ کی صحت خراب چلی آرہی تھی،جو کہ باوجود علاج معالجہ کے بحال نہیں ہو پا رہی تھی۔بالاخر آپ نے اگست 2017ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔آپ انتہائی نیک،صوم و صلوٰۃ کے پابند ،مہمان نواز،اور عزیز و اقارب کا خیال رکھنے والےانسان تھے۔آپ جماعتی کاموں اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے۔
آپ کی بیٹی محترمہ فوزیہ مسعود صاحبہ
آپ کی بیٹی محترمہ فوزیہ مسعود صاحبہ لاہور میں 23؍ستمبر1949 ء میں پیدا ہوئیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت لاہور میں ہوئی۔آپ نے اپنی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے پولیٹیکل سائنس میں ایم ۔اے کی ڈگری حاصل کی۔آپ 1974ء میں مکرم ظفر مسعود صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔آپ کے شوہر CAہیںجو مختلف محکموں اور کمپنیوں میں اکاؤنٹس کا کام کرتے رہے۔اور ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے یہی کام ذاتی طور پر کیا۔لاہور میں اب بھی یہ اپنا اکاؤنٹینسی کا کام ماڈل ٹائون لاہورمیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ظفر مسعود صاحب کا تعلق لاہوری جماعت سے ہے لیکن جماعت احمدیہ کے افراد سے گہرا میل جول ہے۔کبھی جماعت کی مخالفت نہیں کرتے ۔انکے بچے بھی افراد جماعت سے میل جول رکھتے ہیں۔بچوں کی والدہ چونکہ احمدی خاندان سے ہیں اور بچے باپ کی نسبت ماں کے زیر اثر ذیادہ ہوتے ہیں۔بچوں کے دوست احباب زیادہ تر احمدی ہی تھے۔ اکثر اوقات نمازیں بھی احمدی احباب کے ساتھ پڑھ لیتے ہیں۔
محترمہ فوزیہ مسعود صاحبہ بڑی نیک اور پارسا خاتون ہیں اور صوم و صلوٰۃ کی پابند،جماعتی اور مالی تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی،غریبوں کا خیال رکھنے والی،رشتہ داروں اور عزیز و اقارب سے ہمدردانہ سلوک کرنے والی خاتون ہیں۔ان کے خاوند کا تعلق پہلے لاہوری جماعت سے تھا۔یہ موصوفہ کی محنت اور دعائیں تھیںکہ اب وہ سلسلہ احمدیہ سے وابستہ ہیں۔الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ انہیں صحت و سلامتی والی درازیٔ عمر عطا فرمائے آمین۔
انکی اولاد میں چار بیٹے مکرم فخر مسعود صاحب فیصل مسعود شکاگو امریکہ،مکرم عدیل مسعود صاحب ساکن دوبئی اور مکرم خرم مسعود صاحب ساکن پاکستان ہیں۔(ان کے بیٹوں نے بیعت تو نہیں کی لیکن جماعت کے پروگراموں میں شامل ہوتے رہتے ہیں)۔
آپ کے بیٹے ملک فہیم احمد صاحب
آپ کے بیٹے ملک فہیم احمد صاحب1952ءمیںلاہور میں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت لاہور میں حاصل کی۔آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا بیحد شوق تھا۔آپ نے اپنی تعلیم پر اپنی توجہ کو مرکوز رکھا۔پہلے آپ نے گریجویشن کی پھر M.Comکی ڈگری حاصل کی۔اسکے بعد پیکو کمپنی میں آپ نے ملازمت اختیار کر لی جہاںپہلے آپ کے والد صاحب بھی ملازمت کیا کرتے تھے۔آپ کو پیکو کمپنی میں بطور اکاؤنٹنٹ آفیسر لیا گیا۔آپ 18 سال تک اسی کمپنی میں کام کرتے رہے۔آپ نے پیکو کمپنی سے کام چھوڑنے کے بعد اپنا کاروبار شروع کیاجس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت دی۔
آپ جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی سے شامل ہوتے،جماعتی ڈیوٹیوں کے پابند ،جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔آپ کی اولاد میں ایک بیٹاعمر فہیم اور ایک بیٹی ارونا فہیم امریکہ میں مقیم ہیں۔مکرم ملک فہیم احمد صاحب اس وقت لاہور حلقہ منصورہ میں ہی مقیم ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کی صحت اور عمر میں برکت دے۔ آمین۔

آپ کے بیٹے ڈاکٹر میجر عامر رضوان صاحب
ڈاکٹر میجر عامر رضوان صاحب ملک ناصرالدین صاحب کے تیسرے بیٹے اور حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کے پوتے تھے۔آپ مارچ 1961ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت لاہور میں ہوئی اور آپ کی مستقل سکونت بھی لاہور میں ہی رہی ۔آپ نے1986ء میں لاہور سے BDSکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پہلےبہاول نگر ہاسپٹل اور پھرچونیاںہاسپٹل میں خدمات انجام دیں۔ جولائی1989ء میں فوج میں کمیشن بطور کیپٹن لیا۔فوج میں جانے کے بعد آپ کی پہلی پوسٹنگ CMH گوجرانوالہ میں ہوئی جہاں آپ نے دو سال تک خدمت انجام دی۔ آرمی ٹریننگ کے سلسلہ میں ایک سال کاکول اکیڈمی میں بھی رہے۔ سروس کے دوران آپ CMH بہاولپور، CMH گوجرانوالہ اور پھر اسکے بعد پی اے ایف ہاسپیٹل لاہور اور CMHپشاورمیں کام کرتے رہے۔پشاور میں آپ کو سروس کے دوران اچانک پیٹ میں تکلیف کی وجہ سے ہسپتال داخل کیا گیامگر آپریشن کے باوجود آپ جانبر نہ ہوئےاور37سال کی عمرمیں 1998ءمیں وفات پا گئے۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آپ نے دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں۔بڑی بیٹی مکرمہ فاطمہ رضوان صاحبہ اہلیہ مکرم نعمان احمد ناصر صاحب مقیم لندن برطانیہ ہیں جو ڈینٹل ڈاکٹر ہیں۔دوسری بیٹی مکرمہ عائشہ رضوان صاحبہ اہلیہ مکرم ریحان اقبال صاحب مقیم ٹورانٹو کینیڈا ہیںجو فارمیسسٹ ہیں۔
آپ نومبر 1990 ءمیں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے۔اہل خانہ نے بتایا کہ آپ بہت عمدہ شخصیت کے مالک تھے،سادہ اور صلح پسند انسان تھے،کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتے تھےاور دوستوں کے دوست تھے۔فارغ وقت میں دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلے جاتے اور شام کے وقت اپنے بچوں کے ساتھ گھومنے جاتے اور کھانا بھی باہر ہوٹل سے کھاتے۔اپنے والد کا بہت خیال رکھتے تھے۔ دونوںباپ بیٹا بھی تھے اور آپس میں دوست بھی،دونوں کا آپس میں بہت ہی پیارتھا، دونوں ایک دوسرے کے دوست اور غم خوار بن کر رہے۔
آپ کے بیوی بچے لاہور میں ہی مقیم رہے،ہفتہ کے آخری ایام میں بچوں کے پاس آجاتے۔ جماعتی کاموں میں بھرپور حصہ لیتے۔ چنانچہ سروس کے دوران گوجرانوالہ میں بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ رہےاور جہاں بھی رہے خدمت سلسلہ کرتے رہے۔
آپ کی بیگم صالحہ فارمیسی میں پی۔ایچ۔ڈی ہیں۔آپ لاہور کالج فار وومن میں پروفیسرہیںاور ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں کام کرتی رہیں۔آپ نہایت محنتی، جفاکش اور باہمت خاتون ہیں۔ شوہر کی وفات کے بعد بڑی ہمت سے تنہا بچیوں کو پالا اور بہترین رنگ میں ان کی تربیت اور پرورش کی۔
ڈاکٹر عامر رضوان کے سسُر مکرم محمد صادق صاحب وقف زندگی تھےجو ایک لمبا عرصہ سندھ میں جماعتی خدمت پر مامور رہے۔1978ء میں سندھ سے ربوہ ٹرانسفر ہو گئے جہاں وکالت تبشیر میں خدمت انجام دی۔ سندھ سے ٹرانسفر کے بعد 24سال تک وکالت تبشیر تحریک جدید میں بطور اکاؤنٹنٹ خدمت انجام دیتے رہے۔آپ انتہائی نیک اور دعا گو انسان تھےاور الحمدللہ کثیر الاولاد تھے۔ آپ اکتوبر2009ء میں80سال کی عمر میں وفات پاگئے۔آپ نے بیوہ کے علاوہ پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاںیاد گار چھوڑے ہیں۔آپ کے ایک بیٹے محمدمحمود طاہرمربی سلسلہ اور ایک بیٹا محمدخالدوحید ربوہ میں مقیم ہیں۔جبکہ دو بیٹے محمد ساجد قمر اور کمانڈر ناصراحمد برطانیہ میں مقیم ہیں اور جماعتی خدمت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور خدمت سلسلہ میں مصروف رہتےہیں۔مرحوم کے ایک بیٹے محمد راشد شمس صاحب امریکہ کے شہر بوسٹن میں 32 سال سے قیام پذیر ہیںاور بطور سیکرٹری ضیافت خدمت بجا لاتے رہے۔اللہ تعالیٰ مکرم محمدصادق صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔ اور اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو نیک اور خادم دین بناتا چلا جائے اور وہ لمبی عمر پانے والے ہوں۔آمین۔

محترم خان صالح احمد خان صاحب

آپ حضرت ماسڑ محمد طفیل خان صاحبؓ بٹالوی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔آپ 1920ء کو بٹالہ میں پیدا ہوئے۔آپ نے ابتدائی تعلیم بٹالہ اور قادیان میں حاصل کی۔ تعلیم کے بعد آپ نے قادیان میں کاروبار کاآغاز کیا۔آپ نے اپنے والد صاحب کے گھر کے قریب سڑک پرسرسوں کا تیل نکالنے کی مشین لگائی ہوئی تھی جسےکو لہو‘بھی کہا جاتا ہے۔ دوسری مشین گندم کاآٹا پیسنےکی لگائی اور ساتھ میں گندم اور سرسوں کا اسٹاک رکھنے کے لئے کمرے کو گودام بنایا ۔جس میں بوریوں کااسٹاک ہر وقت موجود رہتا تھا۔دادا جان کے تعلقات کی وجہ سے آپ کا کاروبار بھی اچھا چلتارہا۔چچا جان بھی دن رات محنت مشقت کرتے۔ آپ کے والد صاحب( بائوجی )کے پاس ملازم ہوتا تھا۔ملازم کو آپ کی مدد کے لئے گودام میںبھی بھجوا دیتے۔ آپ رات گئے تک اپنے کاروبار میں مصروف رہتے۔آپ تقسیم برصغیر کے بعد قادیان سےوالدین اور بھائیوں کے ساتھ ہجرت کرکے پاکستان لاہور میں بحیثیت مہاجرین قیام پذیرہوئے۔
لاہور مہاجر کمیپ میں رہنے کے بعد آپ کو اور بھائیوں کو والدین کے ساتھ مستقل رہائش کے لئےفیصل آباد میں پراپرٹی الاٹ کی گئی۔آپ کو فیصل آباد ،جھنگ بازار میں برف کا کارخانہ اور کارخانہ کے اوپر رہائش کے لئے جگہملی جہاں دادی جان، دادا جان، چچا صالح، پھوپھو طاہرہ یہ سب افرادقیام پذیر ہوئے ۔دوسرے چچا اختر احمد خان صاحب کو دوسری جگہ رہائش ملی۔فیصل آباد جھنگ بازار میں آپ نے کاروبار کا آغاز کیا۔برف کا کارخانہ جو ملا تھا وہ ایک لمبےعرصہ سے بند پڑا تھا۔ہر چیز اسکی زنگ آلودہ ہو چکی تھی۔ آپ نے بڑی محنت سے اس کو صاف کیا۔پرانے زنگ آلودہ چیزوں کو تبدیل کرکے سب نئ چیزیں خرید کر ڈالنی پڑیں۔
آپ چونکہ شروع سے کاروباری طبیعت کے انسان تھے۔ قادیان میں بھی ایک لمبا عرصہ فیکٹریوں کے کاروبار سے منسلک رہے۔کاروبار میں اچھا تجربہ رکھتے تھے۔بڑی محنت کے بعد کارخانہ کو چلایا۔گرمیوں میں چوبیس گھنٹے کارخانہ چلتا رہتا۔کارخانہ میں کام کرنے والوں کی اکثریت احباب جماعت کی تھی۔بازار کی وجہ سےبرف رات گئے تک فروخت ہوتی رہتی۔صالح احمد خان صاحب کاروباری ذہن کے انسان تھے۔انہوں نے اس کے علاوہ دھوبی گھاٹ میں ایک کلینک اور ساتھ میڈیکل سٹور کھولا۔جو کہ اچھا کامیاب رہا۔کچھ عرصہ کے بعد بھوانہ بازار میں خان میڈیکل سٹور کے نام سے سٹور کھولا۔خاکسار بھی دھوبی گھاٹ والے کلینک اور اسٹور پر کام کرتا رہا۔سٹور میں ملازم اور خود بھی نگرانی کرتے تھے۔
انسان اگر محنت اور ایمانداری سے کام کرے تو اللہ تعالیٰ بھی کام میں برکت ڈالتا ہے۔ تما م کاروبار اللہ تعالیٰ کےفضل سے اچھا چلتا رہا۔محترم داداجان کو تقسیم ملک سے قبل قادیان اور بٹالہ کی جائداد کے عوض میںبحیثیت مہاجرین claimکرنے پر فیصل آباد میں کئی مربے زمین الاٹ ہوئی۔زمین میںچاول، گندم ،کپاس خوب ہوا کرتی تھی۔ اس ساری زمین کی دیکھ بھال بھی چچا جان کیا کرتے تھے۔
دھیرے دھیرے وقت گزرتا گیااور پاکستان میں مخالفت کے بادل اُمڈ آئے۔ اس مخالفت کا چچا جان کے کاروبار پر بھی بہت اثرپڑا۔مخالفین احمدیوں سے کاروبار نہ کرنے اور ان کا سوشل بائیکاٹ کرنے لگے۔یہ 1953-1954ء کا وقت تھا۔جماعت کے خلاف بہت فسادات اور ہنگامہ برپا کیا گیا۔ مکانات لوٹے اور جلائے گئے۔دکانوں اور کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا۔احمدیوں کو ملازمتوں سے نکالا گیا۔ چچا جان کو بھی دھمکیاں دی گئیں کہ مسلمان ہو جائو ورنہ جان سے مار دئے جائوگے۔ان نا مساعد حالات کی وجہ سے چچا جان کو اپنا کاروبار بند کرنا پڑا۔دکانیں بھی فروخت کر دیں۔اور جو زمینیں تھیں ان پر غیر احمدیوں نے قبضہ کر لیا۔زمینیں واپس حاصل کرنے کے لئے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں کئی سال مقدمات چلتے رہے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔مقدمات کے دوران غیر احمدیوں نے اُلٹا یہ کہنا شروع کیا کہ ان مرزائیوں نے ہماری زمینوں پر قبضے کئے ہوئے تھے۔حالات کی وجہ سے چچا جان نے جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ آپ کی وفات 27؍ جنوری 1982ء کو فیصل آباد میں ہوئی۔آپکی نماز جنازہ فیصل آباد میں ہوئی اورآپ کا جسد خاکی ربوہ لایا گیا۔نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں عزیز و اقارب کے علاوہ غیر از جماعت لوگ بھی شریک ہوئے۔ربوہ میںقبرستان عام میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔
آپ کی وفات پر روزنامہ الفضل 31 جنوری 1982ء میں خاکسار کے چھوٹے بھائی ملک ناصڑ الدین خان صاحب نے درج ذیل اعلان شائع کیا۔

دعائے مغفرت
’’خاکسار کے چچا خان صالح احمد خان آف راسٹن آئیس فیکٹری فیصل آباد ابن محترم حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالوی 27جنوری 1982ء بروز بدھ بوقت اڑھائی بجے دوپہر بعمر 62 سال وفات پا گئے۔ فیصل آباد میں نماز جنازہ محترم شیخ محمد احمد مظہر امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع فیصل آباد نے پڑھائی۔ بعد ازاں 28 جنوری کو جنازہ فیصل آباد سے ربوہ لایا گیا۔ وہاں مسجد المہدی گولبازار ربوہ میں مکرم قریشی فضل الحق صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ بعد قبرستان عام میں تدفین عمل میں آئی۔ قبر تیار ہونے پر مکرم مولوی نور الدین صاحب نے منبر سے دُعا کرائی۔
مرحوم کے پسماندگان میں انکی بیوہ کے علاوہ چار فرزند، ابرار احمد، طارق احمد خان ایڈوکیٹ، شہزاد احمد خان اور جبار احمد خان صاحب ایک بیٹی رومانہ عامر شامل ہیں۔ احباب جماعت کی خدمت میں درخواست ہے کہ مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات نیز پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرماہونے کے لئے دعا فرمائیں۔
بحوالہ روزنامہ الفضل اخبار 31 جنوری 1982ء
ملک ناصر الدین خان
12/13محمد نگر لاہور

آپ کی اہلیہ محترمہ ندیم صالح صاحبہ
محترمہ ندیم صالح صاحبہ اگست 1930ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم وتربیت لاہور میں حاصل کی۔آپ کے والدمحترم عبید اللہ خان صاحب ایک مخلص احمدی تھےاور لاہور میں انکی اپنی ہوذری کی دو تین فیکٹریاں تھیں اور اچھا کاروبار تھا۔ان کا تعلق بھی ککے زئی خاندان سے تھا۔محترمہ ندیم صالح صاحبہ نے بی اے کرنے کے بعد بی ایڈ تک تعلیم مکمل کی،اور محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی۔ ابتدا میں آپ لاہور میں ہی ملازمت کرتی رہیں۔1955ء میں آپ کی شادی ہوئی اور شادی کے بعدآپکی ملازمت بھی فیصل آبادمنتقل ہو گئی اور آپ ایک لمبا عرصہ تک بطور ٹیچر گورنمنٹ ہائی اسکول میں ملازمت کرتی رہیں۔آپ انگریزی اور ریاضی کے مضامین پڑھایا کرتی تھیں۔آپ طلباء کو بہت محنت اور توجہ دیا کرتی تھیں جسکے نتیجہ میں آپ کے مضامین میں بچے اعلیٰ نمبر حاصل کرتے تھے۔آپ نےانتہائی محنت اور جانفشانی سے بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ ملازمت کو بھی جاری رکھا۔آپ ایک طویل علالت کے بعد مئی1970ء کو فیصل آباد میں انتقال کر گئیں۔آپ نیک تہجد گزار،صدقہ و خیرات کرنے والی،عزیز و اقارب سے حسن سلوک کرنے والی صوم و صلوٰۃ کی پابند خاتون تھیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے۔ آمین۔
آپ کی اولاد
محترم خان صالح احمد خان صاحب کےچار بیٹے اور اور ایک بیٹی ہے۔آپ کے بڑے بیٹے مکرم ابرار احمد خان صاحب بینک مینیجرتھے۔مرحوم اب وفات پا چکے ہیں۔آپ کے دوسرے بیٹے مکرم ایڈوکیٹ شہزاد احمد خان صاحب وکیل تھے۔آپ کی بھی وفات ہو چکی ہے۔تیسرے بیٹے مکرم ایڈووکیٹ طارق احمد خان صاحب بھی وکالت کے پیشہ سے متعلق تھے۔چوتھے بیٹے مکرم جبار احمد خان صاحب کاروباری آدمی ہیں۔آپ کی بیٹی رحمانہ عامر صاحبہ زوجہ کرنل عامر خان صاحب ہیں۔
محترم خان صالح احمد خان صاحب کے سب بچوں کی شادیاں غیر احمدی خاندانوں میں ہوئیں۔اس وجہ سے ان شادیوں کے نتیجہ میں ہونے والی اولاد سب مائوں کے زیر اثر احمدیت قبول کرنے سے محروم رہی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان سب کو جلد سچائی کی روشنی سے منور کر دے ۔آمین

محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ

حضرت حکیم محمد طفیل خان صاحبؓ کی بڑی بیٹی اور میری بڑی پھوپھی جان کا نام ہاجرہ بیگم تھا۔آپ اگست 1930ء میں بٹالہ میں پیدا ہوئیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم بٹالہ میں ہی ہوئی بعد ازاں جب محترم دادا جانؓ نے قادیان میں سکونت اختیار کر لی تو آپ کی بقیہ تعلیم قادیان میں مکمل ہوئی۔آپ نے میٹرک(10th)تک تعلیم قادیان میں حاصل کی۔تقسیم ملک کے وقت آپ والدین اور بھائیوں کے ساتھ پاکستان آگئیںاور لاہور میں قیام کیا۔آپ نے مزید کچھ عرصہ لاہور میں تعلیم حاصل کی۔آپ بہت نیک خاتون تھیں۔صوم وصلوٰۃ کی پابندنہایت عبادت گزار اور صابر وشاکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کا ہمیشہ خیال رکھنے والی تھیں۔افراد خاندان سے نہایت محبت کا تعلق تھا۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوپانچ بیٹیوں سے نوازا۔ان بچیوں کی آپ نے بہترین رنگ میں پرورش کی اور تعلیم و تربیت کا بہت خیال رکھا۔انہیں اعلیٰ تعلیم دلائی آپ اپنی بیٹیوں سے بہت پیار کرتی تھیںاور بچیوں کے لئے بہت دعائیں کیا کرتی تھیں۔اور اکثر کہا کرتی تھیں کہ بیٹیوں کی بہترین پرورش جنت کی بشارت ہے۔ شادی کے بعد آپ لاہور قلعہ گوجر سنگھ میں قیام پذیر تھیں۔ آپ کے بھائی ملک ناصر الدین بھی لاہور میں گڑھی شاہو محلہ محمد نگر میں قیام پذیر تھے۔ حال احوال پوچھنے کے لئے بہن کے گھر آجاتے۔ اسی طرح دوسرے بھائی صالح احمد خان بھی فیصل آباد سے لاہور آتے تو آپ کے ہاں ہی قیام کرتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں آپ بچیوں کو لے کر اکثر اپنے بھائی کے پاس فیصل آباد چلی جاتیں۔ وہاں سے ربوہ بھی جاتیں۔ ربوہ میں بہشتی مقبرہ میں دُعا کرتیں۔ ربوہ میں دارالضیافت میں قیام ہوتا۔ خلیفہ وقت کے پیچھے پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتیں۔ اپنے والدین اور بزرگوں کی قبروں پر دُعا کیلئے جاتیں۔ آپ انتہائی نیک اور خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند سے بلندکرتا چلا جائے اور آپ کی اولاد کو آپ کی نیکیوں کا وارث بنائے۔ آمین

آپ کے خاوند ملک عبدالرحمٰن صاحب کا ذکر
آپ کی شادی لاہور میں ہی محترم ملک عبد الرحمٰن صاحب کے ساتھ ہو گئی۔آپ کے خاوند ملٹری اکائونٹ میں بطور اکائونٹینٹ کام کرتے تھے۔آپ سروس کے دوران مختلف شہروں میں رہے۔بعض اوقات آپ لمبے لمبے دوروں پر چلے جایا کرتے تھے۔لیکن آپ کی فیملی لاہور قلعہ گوجر سنگھ میں ہی مقیم رہی۔آپ بڑے محنتی اور جفاکش انسان تھے۔سروس کے دوران کبھی غیر حاضر نہ ہوتے تھے۔بڑی ایمانداری سے ڈیوٹی انجام دیتے۔مختلف خیال لوگوں سے آپ کا میل جول رہا۔آپ بچپن سے ہردل عزیز رہے۔جو شخص آپ سے ملتا آپ کی تعریف کرتا۔بہت ہی ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھنے والے اور بہت غریب پرور تھے۔مہمان نوازی کا وصف خدا تعالیٰ نے خاص طور پر ودیعت کیا ہوا تھا۔
آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔با جماعت نمازوں کی ادائیگی اور قرآن مجید کی تلاوت آپ کا روزانہ کا معمول تھا۔جماعتی کاموں میں بھی آپ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔اور پھر جماعتی تحریکات میں بھی حصہ لیا کرتے تھے۔ آپ اپنے خاندان اور عزیز و اقارب سے بہت محبت رکھتے اور ہمیشہ ان سے تعلق بنا کر رکھتے تھے۔

اولاد کا ذکر
آپ کی سب سے بڑی بیٹی زاہدہ راشد صاحبہ زوجہ راشد حمید صاحب ہیں۔ان کے دو بیٹے محمد سلمان اور محمد آکان ہیں۔دوسری بیٹی شاہدہ مرتضیٰ صاحبہ زوجہ غلام مرتضیٰ صاحب ہیں۔ان کے بھی دو بیٹے محمد وقاص اور محمد اُویس ہیں۔تیسری بیٹی بشریٰ شاہد صاحبہ زوجہ شاہد امین صاحب ہیں۔ان کا ایک بیٹا شرجیل اور بیٹی مہوِش ہیں۔چوتھی بیٹی عمرانہ علیم صاحبہ زوجہ علیم الحق صاحب ہیں۔ان کے بھی ایک بیٹا انعام اور بیٹی ہُما ہیں۔آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی شاہانہ اسلم صاحبہ ہیں۔ان کے دوبیٹے عبد الرحمٰن اور عبد اللہ ہیں۔اللہ کے فضل سے آپ کی سب بچیاں شادی شدہ ہیں۔سب بچیاں لاہور میں اپنےاپنے گھروں میں آباد ہیںاور ان کے بچے زیر تعلیم ہیں۔غالباً دوسری بیٹی کے دونوں بچے میڈیکل میں زیر تعلیم ہیں۔اللہ تعالیٰ ان بچیوں کو اپنے والدین کے نقش قدم پر چلائے۔آمین

محترمہ طاہرہ قادر صاحبہ
میری پھوپھی محترمہ طاہرہ قادرصاحبہ جولائی 1923ءمیں بٹالہ میں پیدا ہوئیں۔ آپ حضرت ماسڑ حکیم محمد طفیل خان صاحب ؓکی بیٹی تھیں۔ آپ اپنے بھائی اور بہنوں سے چھوٹی تھیں اور چھوٹے ہونے کے ناطے آپ کو ماں باپ بہن بھائیوں کا لاڈ اور پیار بہت ملا۔بچپن سے آپ کو پڑھنے کا شوق تھا۔آپ نے ابتدائی تعلیم بٹالہ اور قادیان میںحاصل کی۔قادیان میں میٹرک کرنے کے بعد آپ نے 1940ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے ۔بی ایڈ کیا۔بی ایڈ کرنے کے بعد آپ لاہور سے قادیان واپس آگئیںاور1943ء میں آپ نے قادیان نصرت گرلز ہائی سکول میں ملازمت اختیار کرلی۔اُس وقت نصرت گرلزا سکول کی ہیڈ مسڑیس امتہ الرحمٰن صاحبہ زوجہ میاں عبد المنان صاحب تھیں ۔طاہرہ صاحبہ کے ٹیچنگ شروع کرنے سے قبل بی ایڈ ٹیچر کی اسکول میں کمی تھی۔آپ کے آنے کے بعد اسکول کا معیار بہت بلند ہوا۔ آپ کے آنے کے بعداسکول کی تقریباً 30سے 40 طالبات اچھے نمبر لیکر کامیاب ہوئیں۔یہ مدرسہ نتیجہ میں صوبہ بھرمیں اوّل رہا۔بہت جلد آپ کوآپ کی اچھی کارکردگی پراسکول کی سیکنڈ ہیڈ مسڑیس بنایا گیا۔
آپ پارٹیشن کے بعد ہجرت کرکے والدین اور بھائیوں کے ساتھ لاہور آگئیں۔وہاں پرپہلے آپ اپنے والدین کے ساتھ مہاجرین کے کمیپ میں رہیںاور پھر جبمستقل رہائش کے لئے آپ کے والدین اور بھائیوں کو فیصل آباد میں پراپرٹی الاٹ کی گئی تو آپ بھی ان کے ساتھ فیصل آباد میں جاآباد ہوئیں۔فیصل آباد میں آپ نے محکمہ تعلیم میں ٹیچنگ کی ملازمت اختیار کرلی۔فیصل آباد میں آپ نے مختلف ہائی اسکولوںمیں کام کیا۔پھر ضلع سرگودھا ،جھنگ،گوجرہ ،میاں چنوںمیں بھی آپ ملازمت کرتی رہیں۔ پروموشن ملنےکے بعد آپ بطورپروفیسر اور پھرانٹر کالج فیصل آباد میں بطور پرنسپل کام کرتی رہیں۔ آپ فیصل آباد بھوانہ بازار میں ایک لمبا عرصہ پرنسپل رہیں۔ملازمت کا زیادہ وقت آپ نے فیصل آباد میں ہی گزارا۔فیصل آباد سے آپ نے ریٹائر منٹ کی۔
آپ مارچ 1958ء میں فیصل آباد میںمحترم ڈاکٹر عبدا لقادر صاحب شہیدکے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔شادی کے بعد بھی آپ نے ملازمت کی۔محترم ڈاکٹر عبدا لقادر صاحب ملازمت کے دوران مختلف ہسپتالوں میںسرگودھا ،ملتان، فیصل آباد،لاہور میں رہے۔
آپ بڑی محنتی، جفا کش اور نیک خاتون تھیں ۔آپ نے اپنی ملازمت کے دوران اپنے بچوں کی تعلیم کا بھی بہت خیال رکھا۔اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی ۔آپ کے چاروں بچے ڈاکٹرہیں اور اچھے قابل ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں۔ آپ نے بچوں کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم نماز، قرآن شریف پڑھایا۔بچوںکاجماعت سے تعلق پیدا کیا ۔باقاعدہ بچوں کوجماعتی پروگراموںاور اطفال وخدام کے اجتماعات میں بھجواتی تھیں۔ مرحومہ کا خلافت سے گہرا تعلق تھا۔خلیفۂ وقت کو دعا کے لئے اکثر لکھا کرتیں تھیں۔ جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتں۔آپ کا عزیزواقارب سے بڑے پیار کا تعلق تھا۔ خاکسار کا جب کبھی ربوہ یا فیصل آباد جانا ہوتا تو پھوپھو کے گھر ملنے ضرور جاتا ۔پھوپھو بہت خوش ہوتیں۔ بڑے پیار سے ملتیں۔فرداً فرداً سب کا حال پوچھتیں۔بچوں کو پڑھائی میں مصروف رکھتیں۔لیکن کسی کے آنے پر سب کو بلاکر ملواتیں کہ تمہارے بڑے ماموں کے بیٹے آئے ہیں۔خاکسار کی واپسی پر اپنی کار سےلاری اڈہ تک ساتھ آتیں اور بس میںبٹھا کرواپس جاتیں۔
1984ء میں آپ کے شوہر محترم ڈاکٹر عبدالقادرصاحب کی شہادت کے بعد حالات کافی خراب ہوگئے۔مخالفین کی جانب سےآپ کو دھمکی آمیز خط آنے لگے۔ ٹیلی فون پر دھمکیاں دی جانے لگیںکہ ہمارے خلاف قتل کا کیس ختم کرو ورنہ ہم تمہیںبھی قتل کر دیں گے۔تمہارے بچوں کو اُٹھا کر لے جائیں گے۔ اس طرح حالات خراب ہوتے گئے۔پاکستان میں اُن کی جانیں محفوظ نہ تھیں اور پھوپھو جان( طاہرہ قادر صاحبہ) مجبوراً 1991ء میں پاکستان سے ہجرت کرکے امریکہ بڑی بیٹی ڈاکٹر نائلہ قادر کے پاس چلی گئیں اور اپنے تین بچوں کو بھی ہمراہ لے گئیں اور امریکہ میںہمیشہ کے لئے آباد ہوگئیں۔
محترمہ طاہرہ قادرصاحبہ کو احمدی مستورات اور غیر ازجماعت کی مستورات میں ایک خاص خصوصیت حاصل تھی۔ آپ بلاامتیاز ہر فردکی مدد کرتیں۔آپ کے اندر خدمت خلق کا جذبہ بہت تھا۔ یعنی غریب پرور بہت زیادہ تھیں۔غریب کی مدد کرنے کے لئے کبھی بھی ہاتھ پیچھے نہیں کیا۔ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد آپ نے بڑے صبر سے اپنی اولاد کی تربیت کی۔باپ کی کمی کا کبھی احساس نہیں ہونے دیا۔آپ ایک طویل علالت کے بعد مؤرخہ 7؍مئی 2007ء کو امریکہ کی سٹیٹ مشی گن کے علاقہ ڈی ٹرائڈ میں وفات پاگئیں۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی نماز جنازہ وتدفین ڈی ٹرائڈ میں عمل میں آئی۔اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے قرب میں جگہ دے ۔آمین ہر آن اُن کے درجات بلند فرمائے۔اور آپ کی اولادوں کو اُن کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کی توفیق دے۔آمین۔

آپ کی اولاد
اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔جن کے نام اس طرح سے ہیں۔مکرمہ ڈاکٹرنائلہ قادر صاحبہ،مکرمہ ڈاکٹر شہلا قادر صاحبہ۔مکرمہ ڈاکٹر فائزہ قادر صاحبہ ،مکرم ڈاکٹر رضوان قادر صاحب ۔

ڈاکٹرعبد القادر صاحب شہید کے حالات زندگی

ڈاکٹر عبدالقادر صاحب شہید حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحبؓ چینی کے بیٹے تھے ۔ آپ کو 16 جون 1984 ءکو ماہ رمضان میں گھر پر شہید کر دیا گیا ۔ ڈاکٹر عبدالقادر صاحب شہید ہسپتال سے واپس گھر پہنچے ہی تھے کہ گھنٹی بجی اور چوکیدار نے آکر بتایا کہ ایک مر یض آیا ہے اور کہتاہے کہ طبیعت بہت خراب ہے ڈاکٹر صاحب کو ملنا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب اس مر یض کو دیکھنے کے لیے دروازہ کھول کربرآمدہ میں گئے ہی تھے کہ اس شخص نےفورا ًچھر ی نکال کر آپ کے پیٹ پر وار کئے اور پھر پھاٹک کھول کر بھاگ گیا۔ چوکیدار نے شور مچایا اور قاتل کے پیچھے بھا گا ۔ ڈاکٹر صاحب زمین پر گر گئےاور خون بہہ جانے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے ۔ڈاکٹر صاحب کے بیٹے ڈاکٹر رضوان قا در شور سن کر باہر آئے اور والد کو زمین پر بے ہوش پایا۔ رضوان انہیں اٹھا کر کا ر میں سول ہسپتال لے گئے ۔ ہسپتال میں سر جری ہوئی لیکن حالت نہ سنبھلی اور ڈاکٹر عبد القادر صاحب انتقال کر گئے ۔ چوکیدار قاتل کو پکڑنے کے لئے پیچھےبھا گا اور شور مچانے پر کچھ فاصلہ پر کھڑے گارڈ نے قاتل کے خون آلود کپڑے دیکھ کر اسے پکڑ لیا ۔پولیس آ گئی اور قاتل کو گرفتار کر لیا ۔ مقدمہ چلا عدالت میں روزانہ مولویوں کا ہجوم ہوتا ، قاتل کے حق میں نعرے لگاتے ۔ بیان بازی کرتے اور ججوں کو دھمکی آمیز خط لکھتے ، حکومت کے خلاف بیان دیتے ۔ اس قاتل کو قتل کی سزا صرف سات سال ہوئی ۔وہ بھی نہ ہونے کے برابر اور سال چھ ماہ بعد رہا کر دیاگیا ۔قاتل گوجرانوالہ سے کچھ عرصہ پہلے فیکٹر ی میں کام کرنے آیاتھا۔ مولویوں نے اس سے تعلق قائم کیا اور مولویوں کے کہنے پر ہی اس نے ڈاکٹر عبدلقادر صاحب کو شہید کیا ۔ڈاکٹرصاحب کو ماہ رمضان میں روزہ کی حالت میں شہید کیا گیا ۔ شہادت سے کچھ عر صہ قبل رات کو فون پر دھمکیاں دی جاتیں کہ اسلام قبول کر لو ورنہ تمہیں قتل کر دیں گے ۔
ڈاکٹر صاحب نے امیر صاحب جماعت احمدیہ فیصل آباد جناب شیخ محمد احمد مظہر صاحب کے پاس جاکر سارا واقعہ سنایا اور ساتھ ہی اپنی وصیت کی سب ادائیگی کر دی اور کلیر نس کی رسید لے لی ۔شہادت سے قبل آخری دنوں میں ڈاکٹر صاحب قریباً روزانہ ہی امیر صاحب سے ملنے جاتے تھے ۔ایسامحسوس ہوتا ہے جیسےاللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت کی خبر دی ہوئی تھی ۔
ڈاکٹر عبدالقادر صاحب ملازمت کے دوران فیصل آباد ، سرگودھا اور لاہور بطور میڈیکل سپریٹنڈنٹ، ڈسڑ ک ہیلتھ آفیسر کا م کر تے رہے اور چند سال ڈی،ایچ ،او ، لاہوربھی رہے ۔آپ بڑے قابل سرجن تھے اور بڑی سادہ طبیعت کے مالک تھے ،بے لوث خدمت کرتے تھے ۔ دوسروں کی مدد کرتے رہتے تھے۔ بڑ ے ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے ۔اپنے بچوں سے کہتے تھے کہ اگر کوئی مجھے ملنے آتا ہے یا فون آتا ہے تو مجھے فوراً اٹھا دیا کرو ۔آپ بڑے حلیم طبع اور نرم مزاج انسان تھے ۔ خلافت کے شیدائی ، نمازوں کے پا بند، بچوں کو بھی نماز کے لئے اپنے ساتھ کھڑا کرتے تھے ۔آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا ۔جماعتی کتب کا مطالعہ کرتے رہتےاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات بچوں کو سناتے رہتےتھے۔ آپ انصاراللہ کے تمام پروگراموں میں شامل ہوتےتھے ۔ انصاراللہ کا چندہ بھی با قاعدگی سے ادا کرتے اور خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتےتھے ۔ آپ بڑی سے بڑی تکلیف یا پر یشانی یا دکھ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے ۔
آپ بڑے دلیر اور نڈر انسان تھے ۔ شہید مرحوم کی شہادت پر ان کے ہا سپٹل اور دفتر کا اسٹاف کثیر تعداد میں تعزیت کیلئے گھر آیا ۔وہ سب شہید کو یاد کرکے آبدیدہ ہو جاتے اور اچھے الفاظ میں یا دکرتے تھے۔شہید مرحوم کی اہلیہ( طاہرہ قادرصاحبہ)سے بھی اظہار افسوس کرتے۔طاہرہ قادر صاحبہ انہیں بتا تیں کہ ڈاکٹرصاحب اپنے والدین ،عزیزو اقار ب بزرگوں کے نہایت فرما نبردار تھے۔ اپنی بہنوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ عزت احترام اور پیار کرتے ۔آپ کے والد ماجد حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحب چینی ؓ گجرات پنجاب کے رہنے والے تھے ۔آپ تیس سال تک چین میں رہے آپ کی زوجہ چینی تھیں اور بہت نیک خا تو ن تھیں ۔
ڈاکٹر عبدالقادر صاحب کی شہادت پر غیر از جماعت دوست احباب بھی اظہار افسوس کے لئے آئے۔ ڈاکٹرصاحب مرحو م کی بڑی تعریف کی کہ ڈاکٹر صاحب بہت ملنسار تھے بڑے ہمدرد اور دوستوں کے دوست ،بلا امتیاز ہر ایک کی خدمت کرنے والے تھے۔امیر صاحب اور احباب جماعت کثرت سے افسوس کے لئے آئے اور سب نے انتہائی دکھ کا اظہار کیا ۔

خوں شہیدان امت کا اے کم نظر،رائیگاں کب گیا تھا کہ اب جائیگا
ہر شہادت تیرے دیکھتے دیکھتے، پھول پھل لائیگی،پھول پھل جائیگی

اللہ تعالیٰ کی قدیم سے سنت ہے کہ وہ شہید کو ایک خاص مقام عطا کرتا ہے۔اور اس کے پسماندگان کو بھی اپنے بے شمار فضلوں اور نعمتوں سے نوازتا ہے۔قرون اولیٰ میں بھی جو لوگ اپنے دین کی خاطر شہید ہوئےانکی اولادوں ہی نہیں بلکہ نسلوں کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار فضلوں اور نعمتوں سے نوازا۔
ڈاکٹر عبدالقادر شہید نے اپنے بچوں کی تر بیت کے ساتھ دینی و دنیا وی تعلیم بھی دلوائی اوراولاد نے بھی ان کا خوب نام روشن کیا ۔ان کی محنت اور دعاؤں سے آج ان کے چاروں بچےڈاکٹرہیں ۔ڈاکٹر عبد القادر شہید کے تین بھائی اور پانچ بہنیں تھیں ۔ ڈاکٹر صاحب کےدوسرے بھائی عبداللہ مصطفیٰ تنزانیہ میں چیف جسٹس تھے ۔ایک بہن حلیمہ اختر زو جہ ڈاکٹر ہمایوں اختر اوردوسری بہن سلیمہ مجتبیٰ سینٔر میڈیکل آفیسر اوکاڑہ تھیں ۔ تیسر ی بہن نسیمہ مجتبیٰ اسسٹنٹ پرو فیسر سرگودھا میں رہیں ۔ پھر مجیدہ مجتبیٰ ہیڈ مسڑیس ہائی اسکول سرگودھا میں رہیں ۔ناصر ہ مجتبیٰ ہیڈ مسڑیس سرگودھا میںرہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو صبر جمیل عطا کرے اور اللہ تعالی ٰشہید کے درجات بلند فرمائے اور شہید کے تمام لواحقین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ ان کے دکھوں اور تکلیفوں کو دور فرمائے۔اللہ تعالیٰ ان کے لئے تسکین کے سامان پیدا فرمائے ۔دعا ہے اللہ تعا لیٰ ان کے بچوں کا خود حافظ و ناصر ہو اور بچوں کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور ان کی نسلوں کے ایمانوں کو بھی مضبوط رکھے ۔اللہ کرے کہ سب دین پر قائم رہنے والے ہو ں ۔آمین

آپ کی بیٹی ڈاکٹر نائلہ قادر صاحبہ
آپ کی بیٹی ڈاکٹر نائلہ قادر صاحبہ کی پیدائش 14 ؍جنوری 1960ء میں بمقام فیصل آباد ہوئی۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم و تربیت فیصل آباد میں حاصل کی۔پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے آپ نےMBBSکی ڈگری حاصل کی۔4 ؍اکتوبر 1983ء میں آپ کی شادی محترم ڈاکٹر صلاح الدین سلیم احمد صاحب سے ہوئی۔محترم ڈاکٹر صلاح الدین سلیم احمدصاحب کے والد صاحب محترم محمد رمضان صاحب مرحوم کا تعلق لاہور سے تھا۔آپکے والد نہایت نیک، متقی، اور تہجد گزار انسان تھے۔آپ تین بھائی اور ایک بہن تھے۔(ڈاکٹربشیرالدین صاحب،ڈاکٹرصلاح الدین سلیم احمد صاحب،نصیر الدین خالدصاحب انجینئراوربہن کینیڈا میں ہیں )اب یہ سب امریکہ کی اسٹیٹ مشی گن میں آباد ہیں۔
ڈاکٹر نائلہ قادر صاحبہ کے پانچ بچے ہیں۔بیٹیوں میںبڑی بیٹی رفعت صاحبہ،ثروت صاحبہ،ندرت صاحبہ،نور صاحبہ ہیں۔سب سے چھوٹا بیٹا عزیزم شاہد ہے۔آپ کی دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔باقی بچے امریکہ میں زیر تعلیم ہیں۔ڈاکٹر نائلہ قادر صاحبہ اپنےخاوند اور بچوں کے ساتھ امریکہ کی سٹیٹ مشی گنکےشہر ڈی ٹرائیڈ میں مقیم ہیںاورمقامی لجنہ کے تنظیمی کاموں کے علاوہ جماعتی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہیں

آپ کی بیٹی ڈاکٹرشہلاقادر صاحبہ
آپ کی بیٹی ڈاکٹرشہلا قادر صاحبہ26 ؍جنوری 1963ءمیں فیصل آباد میں پیداہوئیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت فیصل آباد میں ہی ہوئی۔آپ نے پنجاب میڈیکل کالج سے 1984ء میں MBBS کی ڈگری حاصل کی۔آپ کی شادی محترم ظفر اللہ خان صاحب سے 1986ء میں ہوئی۔شادی کے بعد آپ اپنے خاوند کے ساتھ ممباسہ ،کینیا(افریقہ) چلی گئیںاور پھر کچھ عرصہ بعد امریکہ کی سٹیٹ مشی گن میں مستقل قیام کر لیا۔آپ کے خاوند کا تمام کاروبار کینیا میں ہی ہے ۔لہٰذا وہ امریکہ آتے جاتے رہتے ہیں۔آپ کے خاوند کا کینیا میںاپنا ذاتی بینک ہے،جسکی کینیا میں ہی 100 سے زائد شاخیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کا بہت فضل ہے۔آپ کے خاوند کینیا میں ہونے والےجماعتی کاموں اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔یہاں برکت کی خاطر یہ لکھنا مناسب ہوگا کہ ممباسہ کینیا میں حضرت مسیح موعود ؑکے زمانہ میں ہی احمدیت کا پیغام پہنچ گیا تھا۔حضرت مسیح موعودؑ کے چار صحابہ جن کا نام انجام آتھم کی فہرست میں موجود ہے وہ اس زمانہ میں ممباسہ میں مقیم تھے۔
(1) حضرت منشی محمد افضل صاحب لاہوری رضی اللہ عنہ(67 نمبر پر نام درج )
(2) حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب گوڑیانی رضی اللہ عنہ(68نمبر پر نام درج )
(3) حضرت شیخ نور احمد صاحب جالندھری رضی اللہ عنہ(242نمبر پر نام درج )
(4) حضرت میاں محمد اسحاق صاحب اورسیربھیروی رضی اللہ عنہ(220 نمبر پر نام درج)
ڈاکٹرشہلا قادر صاحبہ کی تین بیٹیاں ہیں جن میں سب سے بڑی غزالہ صاحبہ ،دوسری بیٹی سائرہ صاحبہ،تیسری بیٹی عائشہ صاحبہ ہیںجو امریکہ میں ہی زیر تعلیم ہیں۔
آپ کےبیٹےڈاکٹررضوان قادر صاحب
ڈاکٹر رضوان قادر صاحب آپ کے اکلوتے بیٹے ہیں۔آپ کی پیدائش فیصل آباد میں 25؍ستمبر1962ء میں ہوئی۔آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت فیصل آباد میں ہی حاصل کی۔آپ نے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی سے MBBSکی ڈگری حاصل کی۔1987ء میں آپ مکرمہ ڈاکٹر فریحہ قادر صاحبہ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔اپنے والد صاحب کی شہادت کے بعد آپ اپنی والدہ اور بہنوں کے ہمراہ مشی گن (امریکہ) میں ہجرت کر آئےاور وہاں ڈی ٹرائیڈ شہر میں آباد ہیں۔
آپ کے دو بیٹے عزیزم رضا قادر اورعزیزم رافع قادر ہیں اور ایک بیٹی عزیزہ ماریہ قادر صاحبہ ہیں۔آپ کے سب بچے امریکہ میں زیر تعلیم ہیں۔دونوں بیٹے اپنے باپ اور دادا کے نقش قدم پر ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔آمین

آپ کی بیٹی ڈاکٹرفائزہ رحمٰن صاحبہ
آپ کی بیٹی ڈاکٹرفائزہ رحمٰن صاحبہ فیصل آباد میں 14 ؍اپریل 1965ء میں پیدا ہوئیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت فیصل آباد میں ہوئی۔آپ نے پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد سے 1988ءمیں MBBSکی ڈگری حاصل کی۔آپ کی شادی 1989ء میں محترم ڈاکٹر لُطف الرحمٰن صاحب سے ہوئی۔ محترم ڈاکٹر لُطف الرحمٰن صاحب کا تعلق ربوہ سے ہے۔دونوں میاں بیوی اور بچے اس وقت امریکہ کے شہر TENNESSEEمیں آباد ہیں اور ڈاکٹری کے ساتھ ساتھ جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش ہیں۔ ڈاکٹر فائزہ رحمٰن PHYSICIANہیں اور آپ نے جہریات GERIATRICمیں تخصص کیا ہوا ہے۔ آپ اپنے ادارہ کی میڈیکل ڈائریکٹر بھی ہیں۔مکرمہ ڈاکٹر فائزہ صاحب لجنہ اماء اللہ کی فعال رکن ہیںاور اپنی مجلس میں گزشتہ 11 سال سے صدر لجنہ اماء اللہ ہیں۔آپ کےخاوند بھی ڈاکٹر ہیں اور ماہر ٹرانسپلانٹ سرجن ہیں۔انہوں نے گردوں کی ٹرانسپلانٹ میں تخصص کیا ہوا ہے۔آپ کے شوہر گزشتہ 16 سال سے اپنی جماعت کے صدر ہیں۔احمدیہ مسلم میڈیکل ایسو سی ایشن امریکہ کے بھی 10 سال سے صدر ہیں۔انکی جماعتی خدمات میں سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتاب ’’گورنمنٹ انگریزی اور جہاد‘‘ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے جو انگریزی خواں ممالک میں شائع ہو چکا ہے۔
مکرمہ فائزہ رحمٰن صاحبہ کے سسر مکرم چوہدری عطاء الرحمٰن صاحب ہیں جو ریٹارمنٹ کے بعد وقف کرنے کے بعد ربوہ میں مقیم رہےاور جماعت کی خدمت کی توفیق پاتے رہے ۔موصوف سول انجینئر ہیں۔حضور نے انہیں جامعہ احمدیہ ربوہ کی عمارت کی تعمیر کا کام سونپا تھا۔موصوف نے کتب حضرت مسیح موعودؑ کی ایک الیکٹرانک INDEXفہرست بھی تیار کی ہے جو امریکہ اور برطانیہ کے احمدیوں میں تقسیم کی گئی۔حال ہی میں انہوں نے قرآن کریم کا لفظی ترجمہ کیا ہےجسے مجلس انصاراللہ برطانیہ نے شائع کرنا شروع کیا ہے۔
مکرمہ فائزہ رحمٰن صاحبہ کےبچوں میں ایک بیٹا عزیزم سعد رحمٰن ہے جو اپنےنانا ،والدہ اور والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کر چکا ہےاوریہ بھی PHYSICIANہےاور بوسٹن کے ایک ہسپتال میں سروس کر رہا ہے۔بیٹیوں میںعزیزہ صبا رحمٰن اورعزیزہ جبین رحمٰن ابھی زیر تعلیم ہیںاور دونوں میڈیکل لائن میں ہیں۔

آپ کے سسُر حضرت قاری غلام مجتبیٰ صاحبؓ چینی
سر زمین گجرات بوجہ قیمتی گوہر پیدا کرنے کے تا ر یخ احمدیت میں ایک ممتاز مقام ر کھتی ہے ۔ اس کے پیدا کردہ قابل رشک وجودوں میں سے ضلع گجرات کے ایک گاؤں اسلا م گڑ ھ سے تعلق رکھنے والے تین بھائیوں کو بھی خدا تعالیٰ نےقبول احمدیت کی تو فیق بخشی اور حضرت اقدس مسیح موعودؑ کےرفقاء کی جماعت میں شامل ہونے کا شرف بخشا اور ان بھائیوں نے اپنے تقویٰ و طہارت ، بلند اخلاق اور دینی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جانے والا ذکر چھوڑا ۔یہ تین بھائی تھے ۔
1؛۔ حضرت قاری غلام حٰمیم صاحب ( وفات 6ستمبر 1941ء قادیان )
2؛۔ حضرت قاری غلام یٰسین صاحب ( وفات 22جولائی 1940ء قادیان )
3؛۔حضرت قاری غلا م مجتبیٰ صاحب ( وفات 24 اکتوبر1962ءربوہ )
مضمون ہذا میں سب سے چھوٹے بھائی حضرت قاری غلا م مجتبیٰ صاحبؓ کے حالات پیش ہیں ۔
حضرت قاری غلا م مجتبیٰ صاحب کی والدہ ما جدہ بھی ولی اللہ عورت تھیں ۔درودشریف کا بہت ورد کیا کرتی تھیں ۔بچوں کو بھی درود پڑ ھنے کی تا کید کیا کرتی تھیں ۔ حضرت قاری غلا م مجتبیٰ صاحبؓ نے ابتدائی تعلیم حاصل کر نے کے بعد ہانگ کانگ میں ملازمت اختیار کی ۔آپ ہانگ کانگ میںسپر یٹنڈنٹ جیل رہے۔یہیں ساری زندگی ملازمت کرتے رہے ۔یہاں سے ریٹا ئر ہو کر آپ نے قادیان میں سکونت اختیار کی ۔آپ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ہی میری والدہ درود تاج پڑھنے کی تا کید کرتیں اور دورد تا ج کی چلہ کشی بھی کی۔مجھے بھی متعد دمرتبہ زیارت خواب میں مختلف پیرایوں میں ہوئی ۔
( رجسڑ روایات رفقاء نمبر 7صفحہ 117 )
احمدیت سے تعارف
آپ ہانگ کانگ میں تھے جب آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود ؑکے دعاوی کا علم ہوا ،سلسلہ احمدیہ سے تعارف کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں ۔
’’میں نے سنا تو بچپن میں ہی تھا ایک شخص نے مہدویت کا دعوی کیاہے مگر جب میں ملازم ہوکر ہانگ کانگ گیا تو وہاں مجھے 1899ء میں حضرت مسیح موعودکی کتاب ازالہ اوہام ملی ۔ میں نے اسے پڑ ھا اور میرے ساتھ ایک اور شخص بھی شریک تھا ہم دونوں پڑ ھتے اور غور کرتے اور یہ کہتے تھے کہ اس شخص نے بہت بڑ ادعویٰ کیاہے ۔پھر 1901ء میں مجھے درثمین کا ایڈیشن ملا، اس میں اردو اور فار سی نظمیںملی جلی تھیں۔اس میں حضرت مسیح موعودؑنے ایک دعا مانگی ہے ۔جب ہم نے اس دعاکے ان الفاظ کو پڑھا ۔آتش فشاں بر در و دیوار من۔۔۔۔ دشمنم باش و تباہ کن کار منتو ۔میں کہتا تھا کہ اگر یہ سچاہے تو زہے قسمت اور اگر یہ جھوٹا ہے تو اس نے جھوٹ میں بھی کمال کر دیا ۔ایک دن کا ذکر ہے کہ میرے ایک دوست نے جو کہ کھانے میں میرے ساتھ شریک تھے جھینگا مچھلی پکائی ، فقہ کی روح سے میں جھینگے کو حرام سمجھتاتھا اس لئے میںنے اپنے ساتھی سے ناراض ہو کر اپنے حصہ کے کھانے کی قیمت وصول کر لی اور اسے کہا کہ تم نے ہمارے کھانے کے برتن ناپاک کر دئے ہیں ،جھگڑ ا بڑ ھتے بڑھتے جامع مسجدہانگ کانگ کےامام کے پاس گیا۔ وہ پٹھان مولوی تھا ۔اس نے مولوی عبد الحئی صاحب دہلوی کی ایک کتاب فتاویٰ مجھے دکھائی اور کہا کہ اس میں دیکھ لو ، اس میں مختلف اقوال تھے کسی نےاسے حلا ل لکھا تھا اور کسی نے حرام ۔کوئی مکروہ تنزیہی کہتا تھا اور کوئی مکروہ تحریمی ،۔تب میں نے اس مولوی سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہمیں تو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اسے حرام یا حلال بتائے ۔ اس پر اس مولوی نے ایک قصیدہ نکالا جس میں نعمت اللہ ولی کی پیش گوئی تھی۔ اس کو پڑھ کر ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ عنقریب امام مہدی کا ظہور ہونے والا ہے ۔ ایک دو سال کے بعد ۔ اس وقت سے میں اور میرا ساتھی دونوں عقلی بحثیں کیاکرتے تھے اور چونکہ ہم ازالہ اوہام پڑ ھ چکے تھے، اس لئے میں تو حضرت مرزا صاحب کا طرفدار ہو جایا کرتا تھا ۔اسی دوران میں میرے ایک بھائی کی چٹھی مجھے ملی کہ حضرت امام مہدی اور مسیح موعودؑ پیدا ہو گئے ہیں اور ہم نے ان کی بیعت کر لی ہے ۔ اس کے جواب میں میں نےاپنے بھائی کو لکھا کہ آپ نے پہلے ایک پیر کی بیعت کی ہو ئی تھی ،اس کو چھوڑ کر انھیں کس طرح مان لیا ؟تو میرے بھائی نے جواب میں لکھاکہ پہلے کچھ نہیں جانتے ان کے پاس کچھ نہیں ، یہی ایک شخص ہے ۔
1906ء میں میں رخصت لے کر لاہور آیا اس وقت میرے دونوں بھائی قاری غلام یٰسین اور قاری غلام حٰمیم صا حب احمدی ہو چکے تھے۔ ظاہراًتو مجھے دعوت الی اللہ نہ کی مگر اشارۃً و کنایۃًدعوت الی اللہ کرتے رہتے ۔کبھی کسی شخص کو سا منے بٹھا لیتے اور قرآن شریف پڑ ھنے لگ جاتے اور اسی طرح سے دعوت الی اللہ کرتے ۔ میں نے ان کے پاس دو روز قیام کیا مگر میں اپنی نماز الگ پڑ ھتا رہا ۔ دو روز کے بعد میں اور قاری غلا م یٰسین صاحب اپنے گاؤں اسلام گڑھ ضلع گجرات کو گئے ۔راستے میںمیں اپنے بھائی سے سوال کرتا تھا اور وہ مجھے جواب دے دیتے تھے۔ مجھے اس وقت حق کی پیاس تھی اس لئے اگر چہ ان کا جواب بعض وجوہ سے مجھے غلط معلوم ہوتا تھا لیکن ایک وجہ سے صحیح بھی معلوم ہوتا تھا، تو میں اس کو مان لیتا ۔ گاؤں پہنچ کر میں نے اپنا مکان بنوانا شروع کیا ۔بھائی نے مجھے کتاب انجام آتھم دی ۔میں اسے پڑ ھتا رہا۔ جب میں اس مقام پر پہنچا جہاں پر حضرت صاحب نے دیگر علماء کو مباہلہ کا چیلنج دیا ہے تو میرے دل میں بڑ ی رقت پیدا ہوئی۔ میں نے اپنے بھائی سے کہا چلو قادیان چل کرحضرت مرزا صاحب کو دیکھیں۔ہم دونوں بھائی وہاں سے چل کر لاہور پہنچے ،لاہور سے دوسرے بھائی صاحب کو ساتھ لے کر ہم سب قادیان آئے ۔ اس وقت مسجد مبارک ایک چھوٹی سی کوٹھری کی شکل میں ہوتی تھی۔ ہم مسجد مبارک میں بیٹھ گئے اور حضور کا انتظار کرنے لگے جو کہ نما زکے لئے تشریف لا نے والے تھے ۔
الغرض حضرت مسیح موعودؑ جس وقت تشریف لا کر حجرے میں داخل ہوئے، چونکہ سب لوگ کھڑے ہو گئے تھے میں اس وقت دیکھ نہ سکا۔ لیکن جب سب لوگ بیٹھ گئے تو میں نے اس کمرے میں جس میں سے حضرت مسیح موعودؑ تشریف لائے۔حضور کو دیکھا۔پھر لو گ حجرے کے اندر چلے گئے اور عر ض کی کہ حضور بیعت کرنی ہے۔حضور نے میرے بھائی قاری غلام حٰمیم کو پہچان لیا اور اس وقت میری بھی بیعت لی ، بیعت کے بعد مجھے فرمایا کہ چین کے حالات سناؤ ۔میں نے حالات سنائے جو مجھے یاد نہیں رہے کہ کیا سنائے تھے ۔
بیعت کے وقت حضرت مسیح موعودؑاور میں تھا۔ مگر وہ نور اپنی اس حالت میں دکھائی دیا،جس حالت میں میں نے کشف یا خواب میں دیکھا تھا ۔ تین دن تک ہمارا قیام رہا اس کے بعد میں نے اجازت چاہی ۔ حضور مسجد میں تشریف لے آئے تقر یباً پندرہ منٹ تشریف فرما رہے ہونگے اس عرصہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ بھی آ کر ایک کونے میں بیٹھ گئے تھے ۔
حضرت خلیفہ اوّلؓ نے حضرت مسیح موعودؑ سے اجازت چاہی۔ اگر اجازت ہو تو میں بھی ان سے چین کے متعلق چند با تیں دریافت کروں ۔جب حضرت مسیح موعودؑ تشریف لے گئے ،حضرت خلیفہ اوّل نے مجھ سے پوچھا کہ چینی زبان میں خدا کو کیا کہتے ہیں ؟آسمان کو کیا کہتے ہیں اور پانی کو کیا کہتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ہم اجازت لے کر چلے آئے۔ مکان پہنچ کر معاً میں نے ایک خط لکھا جو میری قلبی کیفیت کا اظہار کر تا تھا کہ حضور مجھے معلوم نہیں میں یہاں کیوں آ گیاہوں ۔حضور کو دیکھنے کی تڑپ ہمیشہ دل میں موجزن رہتی ہے۔
( الحکم 28/21 دسمبر 1934ء صفحہ 10۔9)
’’بشارات رحمانیہ جلد اول صفحہ 175 مرتبہ عبد الرحمٰن مبشر صاحب‘‘ میں بھی آپ کی قبول احمدیت کاذکر ہے ۔

مخالفت کا سا منا
بیعت کے بعد جب آپ واپس ہانگ کانگ گئے تو دعوت الی اللہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھنا شروع کیااور حضرت مسیح موعودؑ کے پیغام کو کثرت سے پھیلا یا۔ جس کے نتیجے میں آپ کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑ ا۔ لیکن آپ بڑ ی ہمت کے ساتھ مقابلہ پر کھڑے رہےاور لو گو ں کو حضرت مسیح موعودؑ کے الہام انی مھین من اراد اھا نتک کا پیغام سنا کر مخالفت سے باز رہنے کی تا کید کرتے رہے ۔جب مقابل سے کوئی مثبت جواب نہیں ملا تو لوگوں نے حضور ؑکے اس الہام کو پورا ہوتے دیکھ لیا ۔حضرت قاری صاحب ؓ فرماتے ہیں ۔
’’جب میں 1906ء میں واپس ہانگ کانگ چلاگیاتو میں نے وہاں جا کر انگریزی اخباروں میں یہ با ت شائع کر دی اور تمام پبلک کو بھی اس سے مطلع کر دیا ۔ خدا کی قدرت میرے خلاف فتویٰ دیا گیا تھا کہ اس کے ساتھ کھانا پینا حرام ہے ۔ اس وقت میں نے کہا کہ سن لو اور کان کھول کر سن لو کہ حضرت مرزا صاحب کا یہ الہام ہے۔ انی مھین من اراداھا نتک اور میں تم کوبا ربار سنا چکا ہوں کہ جو مرزا صاحب کی ہتک کرے گا خدا اس کی ہتک کرے گا ۔ ‘‘
چونکہ یہ واقعہ صرف ہانگ کانگ میں ہوا تھا اسلئے اس زمانہ یعنی 1906ء میں صرف ہانگ کانگ کے ہی سمندروں میں زلزلہ آیا اورہزاروںآدمی مر گئے اور جہاز جو ہانگ کانگ کے سمندروں میں تھے ان میں سے کوئی بھی نہ بچا ۔ حضور کے یہ الہامات سن چکاتھا کہ کوئی مصنوعی خدا تمہیں نہیں بچا سکے گا ۔ یو رپین لوگ کہتے تھے کہ ہمارے سٹاف میں صرف یہی سچا آدمی ہے ۔
( الحکم 28/21 دسمبر 1934ء صفحہ 10 )
ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت قاری صاحبؓ فرماتے ہیں :
’’ ایک سپاہی میرے پا س نماز کا تر جمہ سیکھنے آیاکرتاتھا جسے میں سلسلہ کی باتیں بھی سنایا کرتا تھا۔ اس پر اس کے محکمہ کے سارجنٹ میجر نے جو ضلع جہلم کا باشندہ تھا اسے بہت سے سپاہیوں کے روبرو بہت سخت سست کہا اور یہاں تک زور دیا کہ اگر تم پھر اس سے ملو گے اور احمدیوں کی کتب دیکھو گے تو تم کو بارہ پتھر سے باہر کرا دونگا ۔ساتھ ہی اس سارجنٹ نے حضرت مسیح موعودؑ کی شان میں بھی ناشائستہ الفاظ کہے۔ اس پر سپا ہی مذکورنے میرے پاس آنا چھوڑ دیامگر خدا تعالیٰ نے اس سارجنٹ کو چند ہی دن کے بعد دیوانہ کر دیا۔ اس وجہ سے کچھ عرصہ تو بند مکان میں رکھا گیا ۔کسی قدر حالات درست ہونے پرجب اسے باہر نکالا گیا اور اس پر فا لج گرا تو میں اس کے پاس گیا ۔میں نے تو اس کی نازک حالت دیکھ کروہ واقعہ اسے یاد نہ دلایا۔ لیکن وہ خود ہی اسے بیان کرکے کہنے لگا کہ اس وجہ سے میری یہ حالت ہوئی ہے۔آپ میرے لئے دعا کرو کہ خدا تعالیٰ معاف کر دے ، آخر اسے اسی حالت میں تین آدمی ساتھ بھیج کر گھر پہنچایا گیا جہا ں جا کر مرا ۔اس کے بعد جو سارجنٹ میجر ہو ا اسکو میں نےیہ نشان بتلا کر کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ آپ کے محکمہ کے لوگوں کے سامنے ایک لیکچر دوں۔ اس نے خوشی سے اجازت دے دی اور میں نے دل کھول کر دعوت الی اللہ کی ۔‘‘
(بحوالہ الفضل یکم مئی 1917ء صفحہ 1 )
اخبا رالفضل نے آپ کی اس دعوت الی اللہ کی مساعی کو سراہتے ہوئے لکھا کہ ہم اپنے مکرم بھائی کو اس دینی خدمت کے کرنے پر مبارک باد کہتے ہو ئے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس کا م کے لئے پیش از پیش توفیق دے، آج کل ایک معزز سیٹھ صاحب کو دعوت الی اللہ کر رہے ہیں۔ احبا ب دعاکریں کہ خدا تعالیٰ انہیں حق کی سمجھ دے ۔
(بحوالہ الفضل یکم مئی 1917ء صفحہ 1 )
حصول دین کی رغبت
آپؓ نے فطرتا ًنیک طبیعت پائی تھی اور پھر حضرت مسیح موعود ؑکی پا کیزہ صحبت میں آکر آپؓ کی یہ پاکیزہ فطرت اور بھی چمک اٹھی تھی۔ ہانگ کانگ جیسے دور دراز علاقے میں رہ کر بھی مرکز احمدیت سے رابطہ تھا ۔تا الٰہی انوار کی تازہ ہوائیں آپ کے وجود کو بھی سر سبز رکھ سکیں ۔جب بھی رخصت پر پنجاب آتے تو اپنے آبائی گاؤں کے علاوہ قادیان بھی لمبا عرصہ قیام کرتے ۔ 1913ء میں دینی فوائد کے حصول کے لئے قا دیان میں آ کر دربار خلافت سے مستفید ہوتے رہے۔ اسی عرصہ میں چوہدر ی فتح محمد سیال صاحب بطور مبشر انگلستان روانہ ہوئے ، حضرت قاری صاحبؓ بھی ان کی معیت میں ہانگ کانگ روانہ ہوئے۔ اخبار بدر نے روانگی کی خبر دیتے ہوئے لکھا :
’’اخویم چوہدری فتح محمد خان صاحب ایم اے گزشتہ ہفتہ کے دن لندن روانہ ہوگئے ہیں۔ بابو غلام مجتبیٰ صاحب بھی چوہدری صاحب کے ساتھ ہی ہانگ کانگ چائنا کو اپنی ملازمت پر واپس ہو گئے ہیں۔ سلسلہ احمدیہ کے بڑے مخلص ممبر ہیں ۔وہاں سے رخصت لے کر یہاں دینی فوائد کے حصول کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے ۔ہر دو صاحبان کی تیاری روانگی پر حضرت خلیفۃ المسیحؓ نے خطبہ جمعہ میں محبت بھرے جوش سے دعافرمائی اور جملہ احباب کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ۔‘‘
(بدر 3جولائی 1913ء صفحہ 2 کالم 1 )
آپ کے مع اہل بیت بخیریت ہانگ کانگ پہنچنے کی خبر 11/4 ستمبر 1913ء صفحہ 4 کالم 2 پر درج ہے ۔ خلافت اولیٰ میں جب صدرانجمن احمدیہ قادیان کی شاخ ہانگ کانگ میں بنی تو حضرت قاری صاحبؓ اس کے سیکر ٹر ی مقرر ہوئے ۔ دنیا کے دیگر علاقوں میں جماعت کی بڑ ھتی ہوئی روز افزوں ترقی کو دیکھ کر آپ نے ہانگ کا نگ میں بھی دعوت الی اللہ کے کام کو تیز کرنے کا سوچا۔ اس کے تقا ضوں کے مطابق آپ نے ایک کام یہ کیا کہ اپنے بچوں کو چینی زبان سکھانی شروع کی تا کہ وہ چین میں دعوت الی اللہ کرسکیں۔نیز مر کز سلسلہ سے ایک مربی ّبھجوانے کی درخواست بھی کی ۔چنانچہ اخبار الفضل آپ کی ان کاوشوں کے متعلق لکھتاہے ۔
’’اخویم غلام مجتبیٰ خان صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ ہانگ کانگ نے پچھلے دنوں درخواست کی تھی کہ ایک مربی ان کی انجمن کے خرچ پر ان کے ہاں بھیجا جاوے ۔ حضرت اقدس نےہانگ کانگ میں مشنری کاتقرر جنگ کے بعد کئے جانے کا فیصلہ فرمایا ہے ۔سیکرٹر ی صاحب انجمن ہانگ کا نگ نےاپنے بچوں کو چینی زبا ن محض اس لئے سکھانی شروع کی ہے کہ وہ چین میں دعوت الی اللہ کرسکیں ۔‘‘ (بحوالہ الفضل 6؍نومبر 1917 ء صفحہ 2 کالم 3)
اپنے بچوں کو جہاں دعوت الی اللہ کی اغراض سے چینی زبان سکھا رہے تھے۔ وہاں ان کی تعلیم و تربیت کی طرف بھی آپ کی خوب توجہ تھی۔ اس مقصد کے لئے ان کو قا دیان لاتے، تا مرکز میں خلیفۃ المسیح سے روحانی فیض حاصل کر سکیں۔1922ء میں آپ چند ما ہ کے لئے قادیان تشریف لائے۔وقت روانگی کے متعلق اخبار لکھتاہے ۔
’’9 ؍جولائی 1922ء: بعد نماز مغر ب میاں غلام مجتبیٰ صاحب نے معہ اپنے دوبیٹوں کے ہانگ کانگ روانہ ہونے پر حضرت خلیفۃ المسیح سے عرض کیا کہ کچھ نصائح فرمائیں۔ اس پر حضور ؓنے فرمایا آپ کے بیٹوں کو نصیحت کرنے سے قبل آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اولاد کی دینی و دنیوی تربیت کا خاص خیال رکھیں۔ آپ کے بچوں کو یہی کہہ دینا کافی ہے کہ وہ آپ کی اطاعت کریں اور آپ کا کہا مانیں ۔‘‘ (بحوالہ الفضل7؍ اگست 1922 صفحہ 6)
تائید خلافت ثانیہ
حضرت مسیح موعود ؑکی وفات کے بعد جب قدرت ثانیہ یعنی خلافت کا آغا ز ہو اتو آپ بھی اس الٰہی نظام کے ساتھ چمٹ گئے اور دربار خلافت کی طرف سے اٹھنے والی ہر آواز پر لبیک کہا ۔ 1914 ء میں آپ ہانگ کانگ میں ہی تھے کہ آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ کی خبر وفات پہنچی اور ساتھ ہی خلافت سے منہ موڑنے والے بعض احباب کے حالات سے آگاہی ہوئی ۔آپ نے بغیر کسی تردد کے بیعت خلافت ثانیہ کی اور اس سلسلہ میں اپنی ایک رؤیا بھی مرکز بھجوائی، جس کے ساتھ ہی غیر مبا ئعین کو بھی دعوت بیعت دی ۔آپ کی یہ رؤیا اخبار الفضل میںبعنوان ’’چین سے ایک شہادت‘‘کے تحت چھپی ہے ۔
’’ آج واقعہ 11 ؍فروری ہے اس وقت صبح کے پونے چار بجے ہیں کہ میں اٹھ کر اس خواب کو لکھ رہا ہوں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ نے جیسے کہ پہلے ہر سال میں ایک دفعہ آسمان پر جایا کرتے تھے آسمان پر جاناہے۔ تھوڑ ی دیر تک ہم انتظار کر رہے تھے کہ حضرت صاحب ایک تار ہے اس کو پکڑ کر آسمان پر چلے گئے ہیں اور تا ر کا دوسرا سرا زمین پر ہے اوپر تک تار ہمیں نظر آتی ہے اور حضرت صاحب کا وجود نظر نہیں آتا یعنی آسمان کے کنگرے پر ہیں ۔ پہلے تو وہ تا ر زمین پر ڈھیلی تھی پھر کسی نے ہاتھ لگا دیا اور اوپر کھنچی گئی ۔ ہمارے سروں سے اوپر اونچائی میں ایک دیوار کے ساتھ اس کا نیچے کا سرا بند ھاہواہے۔میں نیچے ہوں اور حضرت امّ المؤمنینؓ اور قر یباً دس بارہ مرد اور عورتیں اور ہیں۔میں سخت روتا ہوں، حضرت صاحب کے فراق میں اور دعا ئیں کرتا ہوں کہ اللہ خیریت سے لائے اور ہم سب آسمان کی طرف دیکھتے ہیں۔ تھوڑ ی دیر کے بعد کسی نے کہاکہ شخص ظاہر ہو ا ۔سب سے پہلے میں نیچے کھڑا ہو گیاحضرت صاحب ایک لفٹ میں نیچے اترے ( یعنی قدرت ثانی)میں نے اترتے ہی پہلے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا۔حضرت صاحب نے ہا تھ اٹھا یا اور بڑھایا میں نے چوما ،آنکھوں سے لگایا ، اور اپنے بدن پر ملا ، حضرت صاحب جلد ی سے اندر تشریف لے گئے اور بیٹھ گئے اور میں پاؤں دبانے لگا ۔ حضرت ام المؤمنینؓ نے چھوٹے بچوں کو سامنے کیا اور باتیں کرنے لگے، میر ی آ نکھ کھل گئی ۔
میری طرف سے ان صاحبان کی خدمت میں اپنے اخبار’’ الفضل‘‘ کے ذریعہ اگر کوئی وجہ ما نع نہ ہو تو مندرجہ ذیل سوال بجواب طلب پیش فرماویں ۔سوال یہ ہےحضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے یہ کلمہ کہ خلیفہ خدا بناتا ہےکسی انسان کا کام نہیں ، میں نے درس میں کم سے کم پچاس دفعہ سنا ہے ، کیا آپ کا یہ فرمانا غلط تھا یا صحیح َ؟ اگر صحیح تھا تو منکرین خلافت کو چاہئے کہ فورا ًخلیفہ ثانی کی بیعت سے مشرف ہوں۔ کیونکہ جب خلیفہ بنانا خدا کا کام ہے اور خلیفہ مقررہو چکا تو کسی کا بالکل کوئی حق نہیں کہ خدا کے ساتھ جھگڑا کرے۔ اگر کرے گا تو ہلاک ہو گا۔ اگر خلیفہ اوّلؓ کا یہ فرمانا غلط تھا تو اپنے اخباروں یا اشتہاروں کے ذریعے سے عام اطلاع دے دیں تا کہ ہر ایک منصف اس پر غور کرے۔
والسلام خاکسا ر غلام مجتبیٰ از ہانگ کانگ (چین )‘‘
(بحوالہ الفضل 16 ؍مئی 1914ء صفحہ 8 کالم 2،1)
آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے تا دم مرگ خلافت سے چمٹے رہے اور اس تعلق وفا میں جان دی ۔
مالی قربانیاں
یہ دور مالی قربانیوں کا دور ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اس امر کی طرف جماعت کو بہت تلقین فرمائی اور چند ابتدائی چندوں کی بنیاد ڈالی ۔ آپ کے بعد آپ کے خلفاء وقت کی ضرورت اور جماعتی ترقی کے تقاضوں کے مطابق مختلف مالی تحریکات پیش فرماتے رہے ۔ حضرت قاری صاحب نے ان تحر یکات میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا ۔سالانہ رپورٹ صدرا نجمن قادیان اکتوبر 1910 ء تا 1911ء صفحہ 84 کے مطابق اس وقت ہانگ کانگ میں صرف 6 کس احمدی تھے۔ آپ ہانگ کانگ کے سیکرٹر ی مقرر ہوئے ۔نہا یت محنت سے آپ اس خدمت کو بجا لاتے رہے ۔1912ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے تعمیر مدرسہ کے لئے ایک لاکھ روپے کی تحریک فرمائی۔ حضرت قاری صاحب نے اس مد میں 51 ڈالر چندہ کا وعدہ فرمایا ۔
(بحوالہ ریویوآف ریلیجنز جولائی 1912ء صفحہ 276 )
رپورٹ صدر انجمن احمدیہ قادیان ستمبر 1912ء مد یتامیٰ و زکوٰۃ ، ان احباب کا جنہوں نے ان ہر دو مدات میں چندہ بھیجنے کی طرف توجہ فرمائی ہے شکریہ ادا کیا جاتاہے۔ ذیل میں صرف پانچ روپے یا اس سے زیادہ رقوم کا اندراج ہے۔بابو غلا م مجتبیٰ صاحب ہانگ کانگ ( پانچ روپے) جزاہم اللہ احسن الجزاء۔
(بحوالہ ریو یو آف ریلیجیز اکتوبر 1912ء صفحہ 404)
محلہ دار السعت قادیان میں تعمیر مسجدکے لئےچندہ میں آپ نے بھی حصہ ڈالا ۔
(بحوالہ الفضل 7؍ ستمبر 1935ء صفحہ 10)
آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 10/1 حصہ کے موصی تھے ۔ 1961ء کی مجلس مشاورت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نےحصہ وصیت میں تین سال کے لئے اضافہ کرنے کی تحریک فرمائی۔ آ پ نے حضور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 9/1 حصہ کا اضافہ کیا۔
(بحوالہ الفضل 27 ؍نومبر 1936ء صفحہ 9 نمبر 41)
خلافت جوبلی فنڈ میں آپ نے 100 روپے چندہ دیا ۔
(بحوالہ الفضل 26 ؍جون1938ء صفحہ 7)
مارچ 1944ء میں حضور نے دین حق کے لئے جب اپنی جائیدادیں وقف کر نے کی تحریک فرمائی تو حسب سابق جماعت کی ایک کثیر تعدادنے اس میں حصہ لیا ۔الفضل 23 ؍مارچ 1945 ء صفحہ 5 کالم 1 میں 2056 نمبر پر آپ کی دو ماہ کی آمد کے وعدے کا ذکر ہے ۔ اسی طرح آپ کو تحر یک جدید کے پانچ ہزاری مجا ہدین میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے ۔آپ نے 19 سال تک قاعدے کے مطابق چندہ دیا۔آپ کا نام پانچ ہزاری مجاہدین میں متفرق احباب لاہور کے تحت درج ہے ۔

قادیان میں رہائش
ہانگ کا نگ میں ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے زندگی کے بقیہ ایام قادیان میں گزارنے کا فیصلہ کیا اور قادیان کے محلہ دارالرحمت میں رہائش اختیار کی ۔ آپ کے دیگر دو بھائی پہلے ہی سے ایک لمبے عرصہ سے قادیان میں رہ رہے تھے ۔ریٹائر منٹ حاصل کرنے کے بعد بھی آپ قادیان میں فارغ نہیں رہے بلکہ اپناوقت دینی خدمت میں لگا دیا ۔آپ محلہ دارالرحمت قادیان کے صدر رہے۔ 1937ء میںآپ لو کل انجمن احمدیہ کے جنرل پریز یڈنٹ بھی رہے ۔اس کے علاوہ نظارت امور عامہ میں بھی خدمات بجالاتے رہے ۔آپ نے اپنی صدارت محلہ کے دوران ایک عمدہ اور مثالی نمونہ پیش کیا اور تربیتی امور میں اپنی ذات میں کوئی کمی نہیں آنے دی ۔
ایڈیٹر الحکم حضرت محمود احمد عر فانی صاحب دسمبر 1934ء کی ایک صبح کے نظارہ کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
’’حضرت اقدس نے جو مطالبات پیش کئے ہیں، محلہ دارالرحمت نے اس میں خاص نمبر لیا ہے۔ میں اس محلہ کے معزز ساکنین اور کارکنوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ آج 11؍دسمبر کی صبح کو میں نےایک عجیب اور نہایت دلچسپ نظارہ دیکھا کہ ایک جماعت محلہ دارالرحمت سے آ رہی تھی جس کے آگے آگے قاری غلام مجتبیٰ صاحب پنشنر جو اس محلہ کے پر یذ یڈنٹ ہیں، کا ندھے پر کدال رکھے آرہے تھے اور اپنے شاندار اور وجیہ لباس میں کدال رکھے ہوئے مجھے بہت ہی بھلے معلوم ہوتے تھے۔ میں ان کو اور ان کی پارٹی کو دیکھ کر ٹھہر گیا۔جب وہ میرے پاس پہنچے تو میں نے پو چھا کہ یہ رضا کار کدھر جا رہے ہیں، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لنگر خانہ میں جلسہ کی ضروریات کے لئے ایک پختہ چھپر اور کسی قدر پختہ عمارت بنانے کی ضرورت سے جا رہے ہیں ۔ان کی اس ہمت اور خدمت کے جوش کو دیکھ کر میرا دل خوشی اور مسرت سے بھر گیا ۔میں خود تھوڑی دیر بعد لنگر خانہ میں گیا تا کہ ان کو کام کرتا دیکھوں ۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ محلہ دارالرحمت نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھاتھا کہ جلسہ کا پنڈال محلہ دارالرحمت اپنے ہاتھ سے بنائے گا۔ مگر بعد میں معلوم ہو ا کہ پنڈال کا ٹھیکہ دیا جا چکا ہے اس لئے یہ کام ان کے سپرد کیا گیا ۔
قاری غلا م مجتبیٰ صاحبؓ جماعت کے معزز فرد ہیں۔ سرکا ری پنشنر اور محلہ کے پریذیڈنٹ ہیں۔ اپنا نام مزدوروں کی فہرست میں دیا اور لنگر خانہ میں مزدور کی جگہ کام کر رہے تھے۔ان کے ساتھ معماروں ، نجاروں اور مزدوروں کی ایک جماعت تھی اور وہ سب اخلاص سے کام کر رہے تھے ۔میں نے ان کو کام کرتے دیکھ کر کہا
’’زندہ باد محلہ دارالرحمت زندہ باد‘‘
(بحوالہ الحکم 14 دسمبر 1934ء صفحہ 11 کالم 2 )
وفات و تدفین
تقسیم ملک کے بعد آپ پاکستان آگئے اور زیادہ تر اپنے بیٹے ڈاکٹر عبد القادر صاحب کے ساتھ فیصل آباد ، نارووال،شیخوپورہ اور لاہور میں رہے ۔ آپ نے 92 سال کی عمر میں 24 ؍اکتوبر 1962 ء کو لاہور میں وفات پائی ۔آپ کو موصی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ بعد ازاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے۔ آپ کی وفات پر آپ کے بھتیجے قاری محمد امین صاحب محاسب صدر انجمن احمدیہ ربوہ نےیہ اعلان شائع کروایا۔
’’خاکسار کے چچا قاری غلام مجتبیٰ صاحبؓ المعروف چینی صاحب مؤرخہ 24-10-1962 صبح 7 بجے لاہور میں دل کی تکلیف سے وفات پا گئے۔ ان کا جنازہ تین بجے دوپہر ربوہ میں ان کے بیٹے ڈاکٹرعبدالقادر صاحب ، داماد ڈاکٹر ہمایوں اختر صاحب لے کر آئے۔ بعد نماز عصر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے باوجود علالت کے نماز جنازہ خود پڑھائی اور کافی دور تک کندھا دیا۔
مرحوم حضرت مسیح موعودؑ کےصحابی تھے ۔بوقت وفات عمر 92 سال تھی ،1906ء میں دستی بیعت کے ذریعہ احمدیت قبول فرمائی تھی،مقبرہ بہشتی میں قطعہصحابہ میں دفن کئے گئے ۔
(بحوالہ الفضل 27 ؍اکتوبر 1962ء صفحہ 8 کالم 4)
بہشتی مقبرہ کے قطعہ نمبر 7کی پانچویں لائن میں پہلی قبر آپ کی ہے ۔آپ کا وصیت نمبر 770 ہے۔ آپ کی اہلیہ محتر مہ حسناء بیگم صاحبہ نے 22؍دسمبر 1942ء کو بعمر 50 سال وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئیں ۔
(بحوالہ الفضل یکم جنوری 1947ء صفحہ 5)
آپ کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں ، بڑے بیٹے عبداللہ مصطفیٰ صاحب نیروبی کینیا میں کام کرتے رہے اب آپ فیصل آباد میں مقیم ہیں۔چھوٹے بیٹے مکرم ڈاکٹر عبدالقادر صاحب شہید تھے۔آپ کی بیٹیوں میں محترمہ حلیمہ صاحبہ زوجہ ڈاکٹر ہمایوں اختر صاحب،محترمہ سلیمہ مجتبیٰ صاحبہ،محترمہ نسیمہ مجتبیٰ صاحبہ،محترمہ ناصرہ مجتبیٰ صاحبہ اور محترمہ مجیدہ مجتبیٰ صاحبہ ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے ۔ آمین۔

باب سوم

محترم ڈاکٹر اعجازالحق خان صاحب کے اہل وعیال کا ذکر
میری والدہ محترمہ نصرت کریم اعجاز صاحبہ

آپ کا تعلق آزاد کشمیر ضلع باغ کے موضع مالدارہ سے تھا۔ آپ قیام پاکستان سے پہلے ہی اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے بھائیوں محترم نور محمد صاحب پونچھی درویش اور محترم شیر محمد صاحب پونچھی درویش کےہمراہ باغ آزاد کشمیر سے قادیان آگئیں۔ کیونکہ آپ کے دونوں بھائی قادیان میں کام کیا کرتے تھے اور قادیان میں ان کی کوئی مستقل رہائش یا گھر بار نہیں تھا لہٰذا دونوں بھائیوں نے اپنی واقفیت کی بنا ءپر اپنی چھوٹی بہن یعنی ہماری والدہ صاحبہ کو ہمارے دادا جان محترم حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ بٹالوی کے گھر میں ٹھہرا دیا ۔والدہ صاحبہ کو اس گھر میں دادا جان دادی جان کا بہت پیار ملا ۔ آپ خاکسار کی دونوںپھوپھیوں کے ساتھ بہنوں کی مانند رہا کرتی تھیں۔آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت قادیان میںہی ہوئی۔ دینی تعلیم اور قران کریم آپ نے ہماری دادی جان سے سیکھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد گھریلو کام کاج بھی بڑے شوق سے آپ نے اسی گھر میں سیکھے۔ آپ بڑی محنتی اور باہمت اور سلیقہ شعار خاتون تھیں۔ آپ بہت سی خوبیوں کی مالک تھیں۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سے انتہائی درجہ کی محبت اپنے دل میں رکھتی تھیں۔ خطبات سن کر اشکبار ہو جایا کرتیں۔ صدقہ خیرات کرتیں اور جو کچھ پاس ہوتا غریبوں میں بانٹ دیتی تھیں۔ مہمان نوازی کا وصف آپ میں نمایاں تھا۔ مہمانوں کا بہت خیال رکھتی تھیں۔اپنے بھائیوں کا بہت احساس اور خیال رکھتیں۔ ان کی ضروریات کا بھی خیال رکھتیں۔

والد صاحب سے آپ کا نکاح اور ایک نئی زندگی کا آغاز
آپ کی شادی حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالوی نے اپنے بڑے بیٹے مکرم اعجازالحق خان صاحب کے اصرار پر ان کے ساتھ تقسیم ملک سے قبل کر دی تھی۔
جب خاکسار کے والد محترم اعجاز الحق خان صاحب اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے دہلی جانے لگے تووالدہ صاحبہ کو بھی ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ لیکن والدہ صاحبہ ساتھ چلنے کے لئے رضا مند نہ تھیں۔ جسکی وجہ یہ تھی کہ قادیان سے والدہ صاحبہ کو بہت لگاؤ تھا ۔ لہٰذاوالد صاحب کو یہ کہا کہ میں قادیان نہیں چھوڑ سکتی آپ اکیلے چلے جائیںاور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس قادیان آ جائیں۔مگروالد صاحب نہ مانے۔ آپ کہا کرتیں کہ میرا قادیان سے باہر جانے کا بالکل ارادہ نہ تھا۔ میں باہر جانے کا سنتی تو اشکبار ہو جاتی۔ آپ فرمایا کرتیں کہ آج مجھے وہ دن یاد آتا ہے جب میں قادیان چھوڑ رہی تھی اور قادیان چھوڑنے کا غم مجھے آج تک ہے۔ شادی کے بعد حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓ کا گھر میرے سسرال کا گھر تھا۔ لڑکیوں کے لئے اپنے سسرال کے گھر میں پہلا قدم بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مگرشادی کے فوراً بعدہی میں اپنے سسرال سے دور چلی گئی اس کا مجھے آج تک دکھ ہے ۔اور کہتی تھیں کہ جس کی مجھے آج تک کسک محسوس ہوتی ہے۔ والدہ محترمہ فرماتی تھیں کہ دہلی ،آگرہ اور سری نگر قیام کے دوران قادیان جانے کے لئے جب بھی اصرار کرتی تو تمہارے والد کہتے تھے کہ ہاں ضرور چلیں گے۔ اس طرح وقت گزرتا گیامگر میں قادیان نہ جا سکی۔ ہم تین بھائی ضیغم سلیم خان دہلی میں۔ رفعت محمودخان آگرہ میں۔ اور خاکسار ظفر احمد خان سری نگر محلہ بٹ مالو میں پیدا ہوئے ۔
کشمیر سری نگر محلہ بٹ مالو میں ہم تقریباً اڑھائی سال سے زائد عرصہ قیام پذیر رہے ہیں۔ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ میں نے تینوں بچوں کے دودھ کے لئے وہاں گائےبھی خریدی۔ سرینگر میں خاکسار کے دادا جان حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحبؓبھی تشریف لائے اورتقریبا ًایک ماہ ہمارے پاس قیام کیا ۔ دادا جان نےخاکسار کے والد صاحب کو کہا کہ دادی جان بہت یاد کرتی ہیں۔بہت فکر مند بھی رہتی ہیں،ان سے ملاقات کرکےواپس آ جائیں۔ مگر والد صاحب رضامند نہ ہوئے۔انہوں نے اپنا عذر پیش کیا کہ یہاں ملازمت ہے،بیوی بچے اور گھر ہے۔میں ان کو چھوڑ کر قادیان نہیں جا سکتا۔والد صاحب نے داداجان کو کہا کہ آپ ابھی ہمارے پاس یہاں ٹھہریں اس مسئلہ پر بعد میں بات کریں گے۔مگر دادا جان نہ مانے اور اس کے بعد دادا جان سری نگر سے واپس قادیان چلے آئے۔

سرینگر سےآبائی گائوں مالدارہ تحصیل باغ کو ہجرت
والدہ صاحبہ کو اپنے وطن موضع مالدارہ سے بہت محبت تھی۔ والد صاحب سے مشورہ کے بعد سرینگر سے اپنے آبائی گائوں تحصیل باغ آزاد کشمیر ہجرت کرنے کا پروگرام بنایا۔سرینگر بٹ مالومیں باغ آزاد کشمیر ،بنی منہاساں اور مالدارہ کے کچھ لوگ محنت مزدوری کیاکرتے تھے، انہوں نے اسی محلہ بٹ مالو میں رہائش رکھی ہوئی تھی۔وہ ہمارے گھر میں بھی کام کاج کر دیتے تھے۔والدہ کے پاس ایک گائے تھی۔گائے کے لئے چارہ اور صفائی کا کام بھی کر دیتے تھے۔اور والدہ ان کو پیسوں کے علاوہ کھانا چائے دودھ وغیرہ بھی دے دیا کرتی تھیں۔وہ لوگ آپ سے اکثر پوچھا کرتے کہ آپ کہاں کی ہیں۔آپ کی زبان ہمارے علاقہ سے ملتی جلتی ہے۔ایک روز والدہ نے ان میں سے ایک کو بتا دیا کہ میں بھی مالدارہ کی رہنے والی ہوں مگر کسی کو بتانا نہیں۔مگر منع کرنے کے باوجود اس نے کئی دوسرے لوگوں کو بتا دیا۔اس طرح ہموطن ہونے کا معلوم ہونے پر ان لوگوں سے قربت اور زیادہ ہو گئی۔ان کی گھر میں آمدورفت بھی بڑھ گئی۔والدہ نے ان میں سے چند لوگوں کو بتایا کہ مالدارہ میں ہمارا گھر اور زمین ہے اور ہم وہاں جانا چاہتے ہیں۔ہماری مدد کریں۔ اس پران میں سے تین افراد نے حامی بھری اور آخر میں دو افراد ہلکا سامان ساتھ لیکر چلنے اور مدد کرنےکے لئے تیار ہوئے۔گھر کا سامان امانت کے طور پر کسی کے ہاں چھوڑا۔سرینگر سے سفر کچھ گاڑی میں اور کچھ پیدل کیا۔بارہ مُولا،چگوٹھی اور پھرچناری پہنچے۔چناری میں تقریباً دو اڑھائی روز قیام کیا۔ چناری کے بعد چکار سے آگے پیدل چلنا تھااور والد صاحب کے پاس پیسے کچھ زیادہ تھے۔انھوں نے 400روپے چناری کے پوسٹ آفس میں جمع کروا دئے۔پوسٹ آفس والوں نے فوری اس کی رسید دے دی اور کہا کہ بُک آپ کو کل مل جائے گی۔مگر بُک نہ ملی ۔ہمیں وہاں سے آگے مالدارہ کے لئے جانا تھالہٰذا ہم آگے کے سفر کے لئے نکل پڑے۔چناری سے چکار اور پھر سدھن گلی کو کراس کرتے ہوئےبنی منہاساں اور پھروالدہ صاحبہ کےآبائی گاؤں مالدارہ پہنچ گئے۔والد صاحب کا پھر دوبارہ چناری کے پوسٹ آفس جانا نہ ہوا۔پاکستان میں آباد ہونے کے بعدوالد صاحب نے اس رقم کے حصول کے لئےمتعدد مرتبہ چارہ جوئی کی۔پوسٹ ماسٹر جنرلG.P.Oمیں بھی خط و کتابت کرتے رہے مگر وہ رقم ہمیں واپس نہ ملی۔
مالدارہ میں والدہ صاحبہ کی زمین اور پرانا گھر موجود تھا۔یہاںگھر کو مرمت کرنے کے بعدرہائش کے قابل بنایا۔کچھ لوگوں نے زمینوں پر قبضہ کر رکھا تھاجو قبضہ دینے میں ٹال مٹول کر رہے تھے۔کچھ زمینیں توگائوں کے چوکیدار اور نمبردار کے ذریعہ بات چیت سے مل گئیں اور قبضہ حاصل ہو گیا۔مگر بارہ کنال کی ایک زمین پر جو گھر سے کچھ فاصلے پر تھی اور اس پر شالی (چاول) کی کاشت کی جاتی تھی ایک شخص قابض تھا۔گائوںکے نمبردار اور چوکیدار بھی اس زمین کا قبضہ دلانے میں ناکام رہے۔اس زمین کے لئے والدہ اور والد صاحب نے عدالت میں کیس دائر کیاجو کئی سال تک چلتا رہا۔
والدہ صاحبہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی جانور رکھ لئے جن میں بہت سی گائے، بکریاں۔ بھیڑیں شامل تھیں۔ والدصاحبنے گھرمیں حکمت اورعلاج معالجہ کا کام شروع کیا۔ہمارے دادا جان بھی گھر میں حکمت کیا کرتے تھے۔ اس علاقہ میںوالد صاحب کی حکمت کا کام بڑا کامیاب ہوا ۔ بڑی تعداد میں مریض گھر پر آنے شروع ہوئے ۔والد صاحب کے ہاتھ میں شفا بھی تھی اور دعا بھی کرتے تھے۔ اکثر مریض آپ کے علاج سےصحت یاب ہوجاتے ۔مریض اورعوام الناس ان کے علاج کی بڑی تعریف کرتے اور اس طرح دور دراز کے علاقوں میں علاج کے لئے ساتھ لے جاتے اور گھر لے جانے کی فیس بھی ادا کرتے۔بعض مریضوں کے پاس جب پیسے نہ ہوتے تو دوائی کی قیمت کے عوض جانور دے دیتے جس میں گائے،بھینس، بکری یا بھیڑ ہوتی تھی۔وہ اس کو ہی گھر پہنچا دیتے۔ والدہ صاحبہ اپنے آبائی گاؤں مالدارہ میں تقریبا ًدو سال سے زائد رہیں۔ اس عرصہ میں بڑی تعداد میں جانوربھی اکٹھے ہو گئے ان جانوروں کی دیکھ بھال آپ خود کیا کرتیں۔

آبائی گائوں مالدارہ سے ہجرت
آپ بہت ہمت والی خاتون تھیں۔ جب ہند اور پاکستان کی جنگ شروع ہوئی تو ہم سب گاؤں مالدارہ میں ہی مقیم تھے۔ رات کے وقت جہاز گولہ باری کیاکرتے اورپورے گاؤں میں کسی کو بھی روشنی کرنے کی اجازت نہ ہوتی۔ ساری رات اندھیرے میں بیٹھ کر گزاراکرتے۔ دعائیں اور درود شریف پڑھتے رہتے۔ پہاڑوں پر گھروں میں آگ برستی ہم نے دیکھی ہے۔ لوگ اپنے گھر ،مال ،مویشی سب چھوڑ کر بھاگ گئے ۔چند دن کے بعد جب جنگ بندی کا اعلان ہوا تو خاکسار کے والد اور والدہ نے بھی مالدارہ سے ہجرت کا پروگرام بنایا۔ والدہ صاحبہ کے پاس جانور کافی تعداد میں تھے اور وہ ان کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھیں۔ والد صاحب کو آپ نے کہا کہ جہاں بھی جانا ہو جانور چھوڑ کر نہیں جانا، جانوروں کو ساتھ لے کر جانے کا انتظام کریں۔ والدہ صاحبہ کے اصرار پر والد صاحب نے کچھ افراد کو اجرت پر جانوروں کو ساتھ لے جانے کے لئے تیار کیا۔اور اس طرح ہم سب مالدارہ سے باغ آکر قیام پذیر ہوئے۔باغ میں قیام کے بعد جنگ دوبارہ شروع ہوئی ۔ہم نے وہاں کیمپ میں پناہ لی۔اور چند دن قیام کے بعد دھیر کوٹ چلے گئےجو کہ باغ اور کوھالہ کے درمیان ایک چھوٹا سا قصبہ تھا ۔وہاں پر بھی مجاہد فورس کا ایک کیمپ تھا۔ خاکسار کے والد محترم کی وہاںسردار عبدالقیوم خان صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ وہاں مجاہد فورس کے کمانڈر تھے۔ سردارعبد القیوم صاحب کوپہلے سے والد صاحب سے غائبانہ تعارف تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب تعلیم یافتہ آدمی ہیں۔ سردار صاحب نے ہماری حوصلہ افزائی کی اور آپ نے کیمپ میںہمارے ٹھہرنے کا مناسب انتظام کیا۔ چند روز کیمپ میں قیام کرنے کے بعد سردار صاحب نے ہم سب کو جیپ میں بٹھایا اور کوھالہ کے مقام پر جاچھوڑا۔کوھالہ میں ہم دو ہفتے گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر رہے تھے۔ کوھالہ ایک ایسا مقام ہے جہاں سے آزاد کشمیر اور پاکستان کی حد ملتی ہے اور درمیان میں دریا ہے جوکہ جہلم دریا بھی کہلاتا ہے۔کوھالہ کے مقام پر پُل بھی ہے۔ ایک طرف آزاد کشمیر کا علاقہ ہے اور دوسری طرف پاکستان کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔
ہم سب کوھالہ سے بس کے ذریعہ کوہستان مری پہنچے۔ کوہ مری سنی بنک کے ایریا میں چند دن قیام کیا۔ مال روڈ کی طرف جاتے ہوئے ریشم کے کپڑوں کی فیکٹری کے سامنے ایک کوٹھی جس کا نام ’’پرکاش ویو‘‘ تھا۔ اس کے چوکیدار کو ہم نے کہا کہ یہ کوٹھی خا لی ہے کچھ عرصہ کے لئے یہ کوٹھی کرائے پر ہمیں دے دو۔ کوٹھی کی دوسری جانب احمدیہ مشن ہائوس کی عمارت تھی۔ ہمارے والد محترم نےمری میں پاکستان سروے آفس میں ملازمت اختیار کر لی ۔ کچھ عرصہ بعد چوکیدار کو ٹھی خالی کرنے کے لئے مطالبہ کرنے لگا۔ کیوں کہ اس کو معلوم ہو گیا تھاکہ ہم احمدی ہیں۔اس نے عدالت میںہمارے خلاف کیس دائرکر دیا کہ یہ لوگ قادیانی ہیں اور کوٹھی کا تالا توڑ کر داخل ہوئے ہیں ۔ایک سال عدالت میں کیس چلنے کے بعد فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔ اس کے باوجود کوٹھی پرکاش ویو کو بھی ہم نے خالی کر دیا اور وہاں سے نکلنے کے بعد سنی بنک کے ایریا میں چھ ماہ رہائش رکھی۔ والد صاحب سر وے آفس میں ملازمت کرتے رہے۔ سردی کے موسم میں سروے آفس کے کچھ ڈیپارٹمنٹ بند ہوجاتے تو دسمبر سے مارچ تک آفس کرتے۔ہمارے دادا جان حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ نےکچھ عرصہ بعدہمیں اپنے پاس بلالیا۔ میرے دادا جان فیصل آباد جھنگ بازارمیں رہتے تھے ۔میرے دادا جان میرے چچا صالح احمد میری دادی میری پھوپھو وغیرہ یہ سب وہاں پر رہائش پذیر تھے ۔فیصل آباد جھنگ بازارمیں دادا جانؓ کے پاس ہم نےتین ماہ تک قیام کیا۔
داداجان نے ہمارے والد صاحب کو کہا کہ بر ف کے کارخانے کی آپ بھی دیکھ بھال کریںاور اسےکنڑول کریں۔حساب کتاب کا کام بھی کریںاور اس بات کی نگرانی کریں کہ کتنی آمد ہورہی ہے ۔ہم سب کو یہاں ایک چھوٹاساکمرہ دے دیا۔اس کمرہ میں ہم تین ماہ تک رہے۔باقی رہائش ہمارے دادا جان کے پاس تھی۔ہمارےوالد صاحب برف کے کارخانے میں کام کرتے رہے۔برف کے کارخانے کی آمد اتنی زیادہ نہ تھی۔وہاں بھی بڑی تنگی کا وقت کاٹا۔ہماری امی جان بہت سمجھدار خاتون تھیں۔ انہوں نے وہاں داداجان،دادی جان کے ساتھ بہت پیار محبت سے وقت گزارا۔والد صاحب بھی انتہائی سنجیدہ کم گو شخصیت کے مالک تھے۔ تین ماہ فیصل آباد میں رہنے کے بعدوالد صاحب کوجہان آبادکے نواب ملک عزیز احمد خان صاحب نے اپنےگاؤں جہان آباد بلا لیااور کہاکہ آپ بچوں کولےکر فوری طورپر ہمارے پاس آجائیں۔ ہم سب والد صاحب کے ساتھ نواب ملک عزیز احمد خان صاحب کے گاؤں چلے آئے جہاں نواب صاحب نے ہمیں اپنا ایک گھر رہائش کے لئے دے دیااور والد صاحب سے کہاکہ آپ یہاں پر رہیں اور ساتھ دو بھیڑیں دودھ کے لئے بھی دے دیںکہ بچوں کو دودھ پلائیں ۔راقم الحروف کو بخوبی یاد ہے ایک بھیڑ تقریباً دو اڑھائی سیر دودھ دیتی تھی۔نواب صاحب نے ہمارے والد صاحب کو اپنے پاس ملازم رکھ لیااور کہا کہ ہماری زمینیں اور مال مویشیوں سے ہونے والی آمد و خرچ کا آپ حساب کتاب رکھیں۔
ہم تین سال تک نواب ملک عزیز احمد خان صاحب کے پاس رہے ۔ہمارا کھانا پینااورضروریات زندگی وہاں ہوتی رہیں۔نواب صاحب کی زمینوں میں گنّے کی فصل بہت ہوتی تھی اورگُڑ تیار کرنے کے لئےبھٹیاں کافی تعدادمیں لگی ہوئی تھیں۔ایک مرتبہ غالباً1951ء کے موسم برسات میں وہاںسیلاب آگیا۔جہان آباد گاؤں میں سیلاب غالباً صبح کے چار پانچ بجےکے وقت آیا۔ہمارےسارے گھر میں پانی آگیااور کافی سامان خراب ہوا۔بستر گیلے ہوگئے ۔ہر جگہ پانی بھر گیا۔کئی دن کے بعد کمرے خشک ہوئے۔پھر کمروں میںبد بو اور عفونت آنی شروع ہوگئی۔بچھواورسانپ وغیرہ بھی نکلنےلگے۔رات کےاندھیرے میںسانپ، بچھو اور کیڑے مکوڑے زیادہ نکلتےتھے۔سیلاب کے بعد ہم سب باہر صحن میںچار پائی نکال کر سویا کرتے تھے۔کمروں میںیہ ڈرلگا رہتا تھا کہ کوئی سانپ یا بچھو نہ کاٹ جائے۔ کئی ماہ تک ہم باہر ہی سوتے رہے ۔میری امی جان نےوالد صاحب کو کہاکہ بچےگھر کے اندرکمروں میںجاتے ہوئے بہت ڈرتے ہیں۔سانپ اوربچھو بعض اوقات دن میںبھی نظر آتے ہیں ۔ اب یہاں سے کسی اور شہرمیں جانا چاہئے جہاں کسی قسم کا خوف یا خطرہ نہ ہو۔ اس طرح ہم سب جہان آباد سرگودھا سے راولپنڈی میںآگئے ۔
خاکسار کے بڑے بھائی ضیغم سلیم خان صاحب اپنی تعلیم کے پیش نظر اکیلے راولپنڈی میں  ہمارے ایک عزیز محترم شیخ فقیر حسین صاحب کے پاس جن کا تعلق کشمیر سے تھا،رک گئے۔بھائی جان نے ان کےگھر میں ہی قیام کیا۔یہاں وہ تعلیم بھی حاصل کرتے رہے اور ساتھ ساتھ کام بھی تلاش کرتے رہے۔ان کے علاوہ خاکسار کے والدین اور بہن بھائی کوہ مری میں آگئے۔راولپنڈی سے کوہ مری کا فاصلہ چالیس میل ہے۔یہ ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر ہے۔گرمیوں کے موسم میں لوگ دو تین ماہ کے لئے کوہ مری آ جاتے ہیں،خاکسار کے والدین بھی ہمیں لیکر دو ماہ کے لئےگرمی کے موسم میں کوہ مری آگئے۔یہاں سنی بینک کے علاقہ میں رہائش کی اور دو ماہ گزارنے کے بعدہم راولپنڈی چلے گئے اور وہاں اصغر مال روڈ میں رہائش کی۔
غالباً 1953ء میں ہم راولپنڈی میںاصغر مال روڈ آکر آباد ہوئے۔ اصغر مال روڈ میں ایک کوٹھی میں کرایہ پر رہائش کرلی۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک کوٹھی میں کشمیری لیڈر مکرم میرواعظ محمد یوسف شاہ صاحب کی رہائش تھی جیسا کہ قبل ازیں بیان کیا جا چکا ہے کہ میر واعظ محمد یوسف شاہ صاحب اور انکی فیملی سے ہمارے والدین کے سرینگر میں قیام کے زمانے سے تعلقات استوار تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا ہم بھی یہاں آباد ہیں اور میر واعظ صاحب کے ہمسایہ ہیں تو وہ بہت خوش ہوئے۔ اس طرح ان کی ہمسائیگی میں پرانے تعلقات دوبارہ بحال ہو گئے۔ پرانے تعلقات کی بنا پر میرے والد صاحب کو میر واعظ صاحب نے اپنے اثر و رسوخ کی بنا پر آزاد کشمیر میں پی ڈبلیو ڈی کے محکمہ میں سب ڈویژنل آفیسرS.D.O کی پوسٹ پر لگوا دیا۔ اس دور میں میر صاحب کو آزاد کشمیر کا پریذیڈنٹ اورکچھ عرصے کے لئے حکومت کا صدر بنایاگیا تھا ۔والد صاحب پانچ سال کے قریب آزاد کشمیر کے مختلف اضلاع میں ملازمت کرتے رہے۔ آگے جب پروموشن کا وقت آیا تو والد صاحب کی پروموشن بوجہ جماعتی مخالفت ردکر دی گئی ۔ اور آپ کی جگہ آپ سے جونیئر کو پرموٹ کرکےایکسینEXCEN بنا دیا گیا۔ میرے والد صاحب اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور آپ نے غصے میں آکر ملازمت سے استعفیٰ دے دیا ۔
یہاں چونکہ ذکر بھی امی جان کے حالات کا چل رہا تھا۔ والد صاحب کی ملازمت کا بھی ذکر آگیا ہے۔میاں بیوی کاچونکہ چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہےلہٰذا یہاں مختصر ذکر والد صاحب کا بھی کرنا ضروری تھا۔ والدہ محترمہ نے آخری عمر تک جانور رکھے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ وفات کے وقت بھی آپ کےپاس بھینس، بکریاں اور مرغیاں گھر میں موجود تھیںجو کہ ان کی کل متروکہ جائیداد تھی ۔آپ ہمسایوں کا بہت خیال رکھتیں۔ دودھ لسیّ وغیرہ باقاعدگی سے ہمسایوں کو بھجوایا کرتی تھیں۔اپنے بچوں کو دودھ دہی باقاعدگی سے دیتیں اور بچوں کی صحت کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ جب کوئی بچہ بیمار ہوجاتا تو گھر میں علاج معالجہ کے لئے گھر میں دیسی ادویات رکھتیں جو ضرورت پڑنے پر استعمال کیاکرتیں۔ آپ نے بچوں کو بڑی محنت اور شفقت سے پالا ۔ہماری اچھی تربیت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ آپ نےبچوں کو دین کی اہمیت، نماز، روزہ، قرآن اور خلافت سے مضبوط تعلق پیدا کرنا سکھایا۔ جماعتی چندہ باقاعدگی سے ادا کرتی تھیں۔غرباء و مساکین کا بہت خیال رکھتی تھیں۔ آپ صدقہ خیرات کرتیں، آپ کے بچے جب بڑے ہوئے اورکمانے لگے تو بچوں سے لے کر چندے اور صدقہ خیرات کرتیں۔ خلافت کے ساتھ بے حد محبت و عقیدت کا تعلق رکھتی تھیں۔

رفعت محمود خان صاحب کا اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ تعلق
خاکسار کے بڑے بھائی رفعت محمود خان صاحب مرحوم واپڈا میں ملازم تھے اور ساتھ اپنا میڈیسن کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ زیادہ وقت ملازمت کے بعد اپنے کاروبار میں دیتے اس لئے گھر میں بہت کم آتے۔ جب بھی وہ گھر آتے تو اپنی امی جان کے کمرے میں جا کر ان کو سلام کرتے اورحال احوال پوچھتے۔ اور ساتھ چھوٹی سی شرارت بھی کر دیتے جس کی وجہ سے امی جان ناراض ہو جاتی تھیں۔اورفوراً وہ امی جان کو راضی بھی کرلیتےتھے۔ بسااوقات اتنا زیادہ تنگ کرتےکہ امی جان پریشان ہو جاتیں اور رونا بھی شروع کر دیتیں۔بھائی جان کی ایسی حرکتوں سے جہاں وہ پریشان ہوتی تھیں تو تھوڑی دیر کے بعد خوش بھی ہو جاتیں۔
رفعت محمود خان صاحب کا اپنی امی جان سے بہت پیار تھا ۔رفعت صاحب کی طبیعت میں غصّہ اور شرارت کے ساتھ مزاح وظرافت بھی موجود تھی۔ والدہ اگر زیادہ ناراض ہوجاتیں تو معافی مانگ لیتے۔ ایک مرتبہ آپ لمبا عرصہ سے بے روزگار رہے اورمقروض بھی ہو گئے۔ کافی عرصہ پریشان رہےاور اس دوران اپنی امی جان کو روزانہ دعا کے لئے کہتے رہے۔امی جان رفعت صاحب کو کہتیں کہ دعا میں تمہارے لئے روز کرتی ہوں۔ انشاءاللہ بہت جلد تمہارا کاروبار چلے گا لیکن اللہ تعالیٰ کے حصے کو بھی مد نظر رکھنا۔آپ رفعت محمودصاحب کا بہت خیال رکھتیں۔ جب کبھی کام سے گھر آتے ہوئے دیر ہو جاتی تو سب کو کہتیں کہ پتا کرو رفعت کیوں نہیں آیا۔ رفعت محمودخان صاحب کے کمرے میں اُن کے بچوں کے لئے دودھ پہنچاتیں۔ اس طرح ایک مادر مہربان کا پورا فرض نبھاتی تھیں۔

خاکسارظفر احمد خان کا اپنی امی جان سے تعلق

خاکسار ظفر احمد خان اپنے بڑے بھائی ضیغم سلیم خان صاحب کے پاس باغ آزاد کشمیر میں تعلیم کے سلسلہ کے لئے قیام پذیر تھا ۔راولپنڈی گھر میں بہت کم آنا ہوتا ۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد آزاد کشمیر میں اپنے بھائی کے ساتھ ادویات کا ہول سیل کا کاروبار شروع کیا جو کم عرصہ میں بڑا کامیاب ہوا ۔کاروبار کے کچھ عرصے کے بعد بھائی صاحب نے میری شادی چنیوٹ میں کردی ۔شادی کے بعد میں نے راولپنڈی گھر آنا جانا شروع کیا۔ جب خاکسار نے اپنے سسرال چنیوٹ جانا ہوتا تو آتے ہوئے اور جاتے ہوئے راولپنڈی گھر میں قیام ہو جاتا۔ اس طرح امی جان کے پاس ٹھہرنے کا موقع مل جاتا ۔میں اپنے دوسرے کاموں کو چھوڑ کر امی جان کی خدمت کے لئے ٹائم نکالتا۔خاکسار جتنا عرصہ بھی امی جان کے پاس گھر میں قیام کرتا تو امی جان کی بھینسوں کی بھی دیکھ بھال کرتا اور جانوروںکے لئے بھوسہ، دانہ، سبز چارہ، سرسوں کی کھل وغیرہ خرید کر لے آتا ۔امی جان بہت خوش ہوتیں اور دعائیں دیتی تھیں۔
خاکسار جب باغ آزاد کشمیر سے راولپنڈی آتا تو امی کہتیں کہ باغ سے میرے لئے انڈے دینے والی مرغیاں لے کر آیا کرو ۔مجھے یاد ہے ایک بار خاکسار امی جان کے لئے غالباً تین یا چار مرغیاں لے کر آیاتو امی جان بہت خوش ہوئیںاور بہت دعائیں دیں۔ ایک بار خاکسار امی جان کے لئےبازار سے خرگوش کی جوڑی لے کر آیا، اس پر بھی امی جان نےبہت خوشی کا اظہار کیااور دعائیں دیں۔ امی جان صبح فجر کی نماز سے قبل اُٹھ جایا کرتیںاور جانوروں کو چارہ دیتیں۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعدبھینسوں کا دودھ نکالتی تھیں۔ پھرچائے تیار کرتیںاور خاکسار کو بھی صبح سویرے چائے کا کپ دیا کرتی تھیں۔ صبح آٹھ نو بجے کے قریب ناشتہ تیار کرتیںجس میں دیسی گھی کے پراٹھے، سبزچائے ،مکھن اور دودھ وغیرہ شامل ہوتا ۔ میرے بچوں کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں اور دودھ، دہی، مکھن بچوں کو علیحدہ دیتیں۔گھر میں بڑی محنت کرتیں ۔دودھ دوہنے کے بعد جانوروں کی دیکھ بھال اور امور خانہ داری کی بجا آوری آپ کا روزانہ کا معمول تھا۔

ایک شکرگزار خاتون
آپ ہمیشہ سادہ لباس زیب تن رکھتیں اور ہر میسر آنے والی غذا پر خدا تعالیٰ کا دل سے شکر ادا کرتی تھیں۔ اکثر صدقہ خیرات کرتیں اور قرآن شریف درود شریف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں باقاعدہ پڑھا کرتیں۔ خاکسارنے جب ہوش سنبھالا خاکسار کی عمر بھی تقریباً14-12 سال کے قریب ہوگی اس وقت میں بہت ساری باتیں اپنی امی سے پوچھتا ۔بچے ماںکے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ہر بات ماں کو بتاتےاورماں سے ہی پوچھتے ہیں۔ اپنی ماں سے مختلف سوالات کرتے ہیں اورماں بھی بہت سی باتیں اپنے بچوں کے ساتھ شیئر کرتی ہے۔ جب بچے کو ذرا سی تکلیف ہو جائے تومائیں فکرمند ہو جاتی ہیں اور اپنے بچوں کے لئے خوب دعائیں کرتی ہیں۔بچوں کی خاطر صدقہ و خیرات کرتی ہیں۔میری امی جان بھی ایسی ہی تھیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔

وقار عظیم خان صاحب کا اپنی امی جان سے تعلق
خاکسار کے بھائی وقار عظیم خان صاحب راولپنڈی عید گاہ کے مرکزی گھر میں قیام پذیر تھے۔ ہماری امی جان بھی عید گاہ والے گھر میں قیام پذیر تھیں۔امی جان کے جانوروں کی دیکھ بھال اورخوراک چارہ وغیرہ لانے میں وقار عظیم صاحب امی جان کےمددگار رہتے۔بعض اوقات ہماری امی جان کے پاس پیسوں کی کمی ہوتی تو وقار عظیم صاحب اپنے پاس سے خرچ کر کے جانوروں کی خوراک لے آتے۔ جب کبھی امی جان کی خدمت میں کمی یا غفلت ہوتی تو وہ ناراض ہو جاتیں۔بھائی وقارعظیم صاحب کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ دودھ، دہی ،لسی وغیرہ باقاعدگی سےانہیں بھی دیتی تھیں۔ ہم سب راولپنڈی والے گھر میں کئی سال اکٹھے رہے ۔شادیوں کے بعد بھی ہم سب کئی سالوں تک اکٹھے ہی رہا کرتےتھے ۔ ہماری امی جان اپنی نواسیوں اور پوتے پوتیوں کے لئے دودھ، دہی، مکھن وغیرہ باقاعدگی سے دیتی تھیں ۔ وقار عظیم خان صاحب نے گھر کے کام کاج اور ساتھ اپنے کاروبار کے کام کے لئے ایک ملازم رکھا جو کہ راولپنڈی والےگھر میں ہی رہتا اوردوسرے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد امی جان کے جانوروں کے کام کاج اور ان کوچارہ وغیرہ بھی ملازم دیتا تھا ۔ اس طرح ان کے کاموں میں مدد بھی ہو جاتی تھی۔ملازم رات گئے تک کام میں مصروف رہتا۔وقار عظیم خان صاحب نے اسے گھر میں ایک کمرہ دے رکھا تھا ۔اس طرح وقار عظیم صاحب کو امی جان کی خدمت کرنے کا بہت موقع ملا۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔ اور ہم دعاؤں کے ذریعہ ا نہیںاور ان کی یادوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے والے ہوں۔

ڈاکٹر ندیم اختر خان صاحب کا اپنی والدہ محترمہ کے متعلق اظہار خیال
والدہ صاحبہ کو آخری وقت تک ساتھ دینے کی وجہ سے مجھ سے بہت پیارتھا۔ اگر مجھے کسی تکلیف میں دیکھتیں تو بہت پریشان ہو جاتیں۔ میری شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ان کی وفات ہوگئی تھی ۔مجھے زندگی کا سب سے بڑا صدمہ میری والدہ محترمہ کی وفات کاہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ میری والدہ صاحبہ کی دعا کے طفیل کامیابیاں عطا فرمائے اور آج تک مجھے کسی کام میں ناکامی نہیں ہوئی اور ہر کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش اسلوبی سے ہوتا رہا ہے۔ والدہ محترمہ کی دعاؤں سے مجھے کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔آپ کی دعا نے ہرنا ممکن کام کو ممکن بنایا ۔
والدہ صاحبہ روزصبح مجھے خالص دیسی گھی کی روٹی پکا کر دیتی تھیں۔اس زمانے میں گیس نہیں تھی اور لکڑی کے چولہے پرروٹی پکایا کرتی تھیں۔ مجھے والدہ محترمہ کی زندگی میں کسی قسم کا غم و فکر نہ تھا۔ بڑے بھائیوں کو بھی ڈانٹ کر کہتیں کہ یہ سب سے چھوٹا ہے اس کا خیال رکھا کرو۔میرے تمام کام اور مسائل حل کرواتیں۔ بڑھاپے اور کمزوری کے باوجود گائے ،بھینس ،بکریاں پالنے کا بہت شوق تھا ۔سردی کا موسم ہو یا گرمی کا صبح سویرے فجر کی نماز سے پہلے اٹھا کرتی تھیں۔ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد جانوروں کوچارہ دیتیں اور ان کا دودھ نکالتی تھیں۔ ان کی زندگی میں گھر میں کبھی دودھ مکھن گھی اور لسی کی کمی نہ ہوتی۔ جب بیماری کے دوران ان پر فالج کا حملہ ہوا تو میرے لئے اشاروں سے دعائیں مانگتی تھیں۔ ان کی وفات سے ناچیز دعاؤں کے خزانے سے محروم ہو گیا۔ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں جتنا شکر ادا کروں کم ہے۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ والدہ صاحبہ کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ۔

والدہ صاحبہ کی طویل بیماری کے بعد وفات
آپ نےاپنی عمر کا آخری عرصہ تین سال بیماری کی حالت میں گزارا اور فریش رہیں۔ اس طویل علالت کے بعد آپ کی وفات مؤرخہ 8 ؍نومبر 1996 ءکو راولپنڈی میں ہوئی۔اس وقت آپ کی عمر 75 سال کی تھی ۔آپ موصیہ تھیںلہٰذا آپ کا جسد خاکی ربوہ لے جایا گیا۔ آپ کی نماز جنازہ محترم مبارک مصلح الدین صاحب مرحوم وکیل التعلیم نے ربوہ میںکثیرمجمع کی موجودگی میں پڑھائی ۔آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی ۔آپ نے 8 بیٹے اور2 بیٹیاں اپنی یادگار چھوڑی ہیں جن کا ذکر آئندہ صفحات میں کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائے اور آپ کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
اس جگہ آپ کے بڑے بھائی مکرم شیر محمد صاحب اور نور محمد صاحب کا ذکر خیر بھی کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔کیونکہ یہ دونوں درویشان قادیان میں سے تھے۔

آپ کے بڑے بھائی مکرم شیر محمدصاحب پونچھی درویش قادیان
آپ کے والد صاحب کا نام مکرم فضل الدین صاحب تھا۔آپ ریاست جموں وکشمیر علاقہ پونچھ کے رہنے والے تھے(حال ضلع باغ آزادکشمیر)۔آپ نہایت سادہ لوح انسان تھے۔تقسیم ملک سے قبل ہی اپنے بھائی نور محمد پونچھی صاحب اور ایک بہن( یعنی ہماری والدہ صاحبہ نصرت کریم اعجاز)کے ہمراہ ذرائع معاش کی تلاش میں اپنے وطن سے قادیان چلے آئے۔قادیان آئے ہوئے کچھ عرصہ ہی ہوا تھا کہ ملک تقسیم ہو گیا اور قادیان بھارت میں شامل قرار دیا گیا۔تمام لوگ اس وقت قادیان سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے مگر قادیان میں مقدس مقامات کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لئے تین صد سے زائد لوگ وہاں رہے جن کو درویشان قادیان کہا جاتا ہے۔آپ بھی ان خوش نصیب درویشوں میں سے ایک تھے۔ آپ کی وفات پر آپ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے مکرم چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی درویش اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:
’’یہ ہیں ایک نیم گلابی پھول ہمارے بھائی میاں شیر محمد صاحب پونچھی ۔اصل وطن پونچھ تھا۔تقسیم ملک سے قبل ہی سے قادیان میں مقیم تھے۔تقسیم ملک کے بعد خدمت مرکز کی سعادت حاصل کرنے کے لئے قادیان میں ٹھہر گئے۔نہایت سادہ لوح خاموش طبیعت اور بے ضرر انسان تھے۔چھوٹا قد،دوہرا بد ن ، رنگ سرخ و سفید چونکہ پہاڑی آدمی تھے۔اس لئےپہاڑی طرز کا لباس پہنتے تھے ۔ان پڑھ تھے صرف دستخط کر سکتے تھے۔دفاتر میں ڈاک کی تقسیم کا کام کرتے تھے۔ڈاک کی تقسیم کے سلسلہ میں ایک خاص زبان استعمال کرتے تھے ۔اور وہ زبان بقول راقم ’’ ملکوتی زبان ‘‘ تھی۔انہوں نے مختلف دفاتر کے لئے مختلف نشانیاں بنا رکھی تھیں۔جنہیں حروف کہنا مشکل ہے۔جس وقت ڈاک ان کے حوالے کی جاتی تو محرر ڈاک کو پھیپھڑوں کا زور لگا کر ایک بیان دینا پڑتا تھا جسے آس پاس کے تمام دفاتر سنتے تھے۔کیونکہ مرحوم بہرے تھے۔اب محرر ڈاک زور زور سے بتا رہا ہے کہ یہ چٹھی نظارت علیاء کی ہے یہ چٹھی بیت المال کی ہےوغیرہ ۔اور مرحوم خاص اپنی ملکوتی زبان میں پنسل کے ساتھ ہر چٹھی پر نشان لگاتے جا رہے ہیں۔سب نشان لگا کر وہ ڈاک تقسیم کرنے روانہ ہو جاتے ۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ ڈاک کی تقسیم میں غلطی نہ کرتے تھے۔بلکہ اپنے لگائے ہوئے نشانوں کے مطابق صحیح تقسیم کرتے تھے۔ان کے نشانات حروف اور لکیروں کے بین بین کوئی چیز ہوتی تھی۔
مرحوم چونکہ پہاڑی علاقے کے تھے اس لئے بکریاں پالنے کا خاص شوق تھا۔اپنی ساری درویشی میں تین بکریاں ہمیشہ رکھیں ۔اور دفتری اوقات کے بعد ان کو چرانے لے جاتے۔گو اس میں مرحوم کو کوئی نفع کبھی نہیں ہوا۔لیکن ایک شغل یا عادت کےطور پر بکریاں ضرور رکھتے تھے۔
مرحوم کو یہ شرف بھی حاصل ہوا کہ وہ دو بھائی بطور درویش یہاں رہتے تھے۔مرحو م کے دوسرے بھائی میاں نور محمد صاحب پونچھی ہیں۔جو اس وقت ہمارے احمدیہ ہسپتال میں مدد گار کارکن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔انہیں اپنے بھائی کی وفات پر بہت صدمہ ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ صبر بخشے اور حافظ و ناصر رہے۔
مرحوم کے گلے میں سرطان ایک لمبے عرصہ سے تھا ۔اور پہلے تو بے ضرر تھا ۔لیکن گزشتہ سال سے بہت بڑھ گیا تھا۔اور گلے کی رگیں پھولنے لگی تھیں۔چنانچہ اس کے آپریشن کے لئے مرحوم پاکستان گئے اور میو ہسپتال میں داخلہ لے کر آپریشن کروایا۔لیکن افسوس کہ سرطان کافی پھیل گیا تھا اور آپریشن کامیاب نہ ہو سکا۔اور ہمارا یہ بھائی20؍جون1962ء کومیوہسپتال لاہور میں فوت ہوگیا ۔نعش ربوہ لے جاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کی گئی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔‘‘
(’’ وہ پھول جو مرجھاگئے‘‘ مصنفہ چوہدری فیض احمد گجراتی درویش قادیان صفحہ100،101)

آپ کےدوسرےبھائی مکرم نور محمد صاحب پونچھی درویش قادیان
آپ کے بارہ میں مکرم چوہدری بدر الدین عامل صاحب درویش لکھتے ہیں :
’’آپ ضلع پونچھ (حال ضلع باغ )کشمیر کے رہنے والے تھے۔درزی کا کام جانتے تھے۔1939ء میں ملٹری میں بھرتی ہوگئے تھے۔1946ء میں جب جنگ بند ہوجانے پر ملٹری میں چھانٹی ہوئی تو یہ بھی ملٹری سے ریلیز ہو کر واپس آگئے تھے ۔کشمیر میں ان کا گاؤں نہایت معمولی سا گاؤں تھا۔وہاں ان کا کام اچھی طرح نہیں چل سکا۔ان کےبڑے بھائی شیر محمد صاحب پونچھی قادیان میں دفتر تحریک جدید میں مدد گار کارکن تھے۔تقسیم ملک کے بعد ان کے بڑے بھائی شیر محمد صاحب نے اپنے آپ کو قادیان میں بطور درویش رہنے والوں میں پیش کر دیا تھا۔نورمحمد صاحب نے بھی اپنے گاؤں کی نسبت قادیان کو پسند کیا اور مؤرخہ 11؍ مئی 1948ء کو قادیان آنے والے قافلہ میں قادیان آکر درویشوں میںشریک ہوگئے۔ 1950ء میں جب دفاتر کی تنظیم نو ہوئی تو انہیں بھی بطور مددگار کارکن دفاتر میں خدمت کا موقعہ ملا ۔دفتر ٹائم کے علاوہ آپ ٹیلرنگ کے کام سے بھی کچھ نہ کچھ کما لیا کرتے تھے۔یہاں پر انہوں نے ایک بہت ہی اچھی سلائی کی مشین خریدی ہوئی تھی۔اپنے وطن میں ان کی شادی بھی ہوئی تھی مگر اس سے نباہ نہیں ہو سکا اور علیحدگی عمل میں آچکی ہوئی تھی۔قادیان آنے کے بعد بھی قریب 25سال کا زمانہ بیت گیا ان کی شادی نہیں ہوپائی۔
1970ء میں سردیوں کا موسم تھا۔مسجد اقصیٰ میں فجر کی نماز مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقاپوری نے پڑھائی اوربعد میں درس دے کر جب اٹھ کر چلنے لگے تو نور محمد صاحب نے کہا مولوی صاحب آج میں نے ایک خواب دیکھا ہے۔مولوی صاحب متوجہ ہوئے تو بتا یا کہ میں نے دیکھا ہے میں اپنا لباس پھاڑ رہا ہوں۔مولوی صاحب نے سن کر کہا کچھ صدقہ کر دینا اور دعا بھی کرنا ہم بھی دعا کریں گے اگر کوئی ابتلاء ہے تو اللہ تعالیٰ ٹال دے۔اور اٹھ کر چل پڑے میں نے نور محمد صاحب سے کہا کہ نور محمد صاحب اس خواب کی تعبیر مجھے آتی ہے۔میں مسجد سے باہر جا کر بتاؤں گا وہ میرے ساتھ چل پڑے اور محترم مولوی محمد حفیظ صاحب اور چند اور دوست بھی ہولئے جہاں آج کل نمائش ہال ہے یہاں ایک باغیچہ ہواکرتاتھا۔ یہاں آکر میں نے نور محمد صاحب کو بتایا کہ آپ صدقہ ضرور کریں خواب کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کی شادی ہو جائے گی۔دوست ہنس دئیے اور اپنے اپنے گھر وںکو چلے گئے اس واقعہ پر ابھی دوماہ ہی گزر ے تھے تو نور محمد صاحب میرے پاس آئے اور ذکر کیا کہ میرے لئے فلاں مقام سے رشتہ آیا ہے۔ میں نے کہا آپ فوراً ہاں کہہ دیں چنانچہ یہ رشتہ طے پاگیا اورچندماہ میں شادی بھی ہوگئی ۔ان کی شادی پر کچھ عرصہ گزرا تھا کہ ایک روز نور محمد صاحب میرے مکان پر آئے اور کہنے لگے کہ میں نے ایک اور خواب دیکھا ہے۔آپ سن کر تعبیر بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ میں روپے بانٹ رہا ہوں اور میری اہلیہ رو رہی ہے۔ میں نے کہا نور محمد صاحب کل فجر کی نماز میں مسجداقصیٰ میں آجانا وہاں د رس کے بعد مکرم مولوی حفیظ صاحب کے سامنے تعبیر کروں گا ۔چنانچہ وہ اگلے روز حسب پروگرام فجر کی نماز پڑھنے مسجد اقصیٰ میں آگئے اور درس کے بعد مولوی صاحب سے عرض کیا کہ میری ایک خواب ہے اس کی تعبیر بتائیں اور خواب بیان کی، مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ بتائیں آپ اب کیا تعبیر کرتےہیں ۔میں نے کہا میرے نزدیک اس کی تعبیر یہ ہے کہ ان کے ہاں اولاد ہو جائے گی اس کے بعد غالباً 6/7ماہ گزرے ہوں گے کہ نور محمد صاحب کے ہاں دو جڑواں (توام )بچے پیدا ہوئے۔
نور محمد صاحب پونچھی کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیاں اور ایک بیٹابھی عطا فرمایا ۔جو بچے توام پیدا ہوئے تھے وہ چند ماہ کے ہوکر فوت ہوگئے تھے۔بعد میں پیدا ہونے والی بیٹیاں اور لڑکا اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندہ ہیں۔بچیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور صاحب اولاد ہیں۔بیوہ (محترمہ طاہرہ بیگم صاحبہ )بھی زندہ قادیان میں موجود ہیں لڑکے کی شادی ہونا باقی ہے(انکی شادی مکرمہ صفیہ بیگم صاحبہ سے اڑیسہ میں ہو چکی ہے)۔نور محمد صاحب کو ضیق النفس کا عارضہ لاحق تھا جس کا حملہ باربار ہوتا رہتا تھا۔علاج کے باوجود صحت کمزور ہوتی چلی گئی اور آخر درویشان کی نرسری میں تین کلیاں ایک نیم شگفتہ پھول اور ایک بیوہ کو چھوڑ کر یہ وجود دارِفانی سے اڑان بھر گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
تاریخ وفات 12؍اکتوبر 1982ء تدفین بہشتی مقبرہ۔ دعاہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنی رضا کی جنت میں داخل فرمائے اور آپ کی اولاد کا مستقبل روشن اور تابناک بنائے۔آمین۔‘‘
( ’’وہ پھول جو مرجھاگئے ‘‘جلد دوم مصنفہ چوہدری بدرالدین عامل صاحب صفحہ309تا311)
آپ کی جو اولاد قادیان اور انڈیا میں موجود ہے ان کے نام درج ذیل ہیں:
1۔مکرمہ ذکیہ مبارکہ صاحبہ زوجہ مکرم بشیر احمد صاحب کشمیر۔ آسنور
2مکرمہ صفیہ مبارکہ صاحبہ زوجہ مکرم عبد الحمید قمر صاحب مرحوم قادیان دارالامان
3۔مکرم محمد اکرام صاحب (کاکو‘)کارکن نظارت نشرو اشاعت قادیان دارالامان
4۔مکرمہ امتہ الشکور نبیلہ صاحبہ زوجہ مکرم عبدالودود خان صاحب سورو ۔اُڑیسہ

محترم ضیغم سلیم خان صاحب
آپ حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالوی ؓکےسب سے بڑے پوتے اورمکرم اعجاز الحق خان صاحب مرحوم کے بڑے صاحبزادے تھے۔آپ ستمبر 1934ء میں دہلی میں پیدا ہوئےاور راولپنڈی میں اپنی ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدضلع باغ آزاد کشمیر میں آباد ہوئے اور اپنی میڈیکل پریکٹس کا آغاز کیا۔آپ نہایت شفیق، ملنساراور اعلیٰ درجہ کے منتظم تھے۔خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں بے پناہ شفا ء رکھی تھی۔دور دراز کے لوگ ان کے پاس علاج کی غرض سے آتے تھے اوراکثر لاعلاج مریض بھی آپ کے ہاتھ سے شفا ئےکاملہ پاتے تھے۔
آپ کے دل میں احمدیت کے عقائد سے دلچسپی اور علم الکلام کےمطالعہ کا بہت شوق تھا۔ آپ ایک بےباک داعی الی اللہ تھے۔آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں سالہا سال تک مختلف جماعتی اور ذیلی تنظیموں کے عہدوں پر آپ خدمت بجا لاتے رہے۔
آپ ایک نامور صحافی بھی تھے۔آپ کے مضامین پاکستان کے تقریباً تمام روزنامہ اخبارات اور رسائل میں چھپتے تھےاور آپ الفضل کے بھی کالم نگار تھے۔
آزاد کشمیر ضلع باغ کے احباب جماعت ڈاکٹر امام الدین صاحب،خواجہ محمد دین ڈار ریسٹورنٹ والے اور خواجہ رفیق احمد صاحب کے علاوہ آرمی کی چھاؤنی سے بھی احباب جماعت نماز کے لئے ضیغم سلیم خان صاحب کی رہائش پر اکھٹے ہوجاتے۔ نماز کے بعد جماعتی پروگرام اورجماعتی تحریکات پر بھی بات ہوتی۔ مرکز سے آئے ہوئے جماعتی عہدیداران آپ کے ہاں ہی قیام کرتے ۔غیراز جماعت کے افراد کو بھی کھانے پر بلایا جاتا ۔اس طرح ملاقات کا سلسلہ جاری رہتا۔ کھانے پر جماعت کا تعارف اور تبلیغ بھی ہوتی۔لوکل انتظامیہ کے ساتھ آپ کا رابطہ ہمیشہ رہتا ۔لوگوں کی اکثریت آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی۔ آپ ایک لمبا عرصہ سکریٹری مال رہے اور1975ءسے1978ء تک بحیثیت امیر جماعت کشمیرخدمت انجام دیتے رہے۔

آپ کا سیاست میں آنا اور جماعتی مخالفت
آپ کو تبلیغ کے ساتھ سیاست کا بھی بہت شوق تھا۔لوگوں کے جھگڑے نپٹا نے کا آپ خاص سلیقہ رکھتے تھے۔دونوں طرف سے دلائل سن کر اپنا فیصلہ دیتے تھے۔اچھی شہرت کی وجہ سے آپ کو باغ بازار کی یونین کا سیکریٹری بنایا گیا۔کچھ عرصہ کے بعد پنچایت کے ممبر بھی مقرر ہوگئے۔احمدیت کی وجہ سے مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔لیکن مخالفین کامیاب نہ ہوئے۔جب آزاد کشمیر میں پہلی بار بنیادی جمہوریت کے الیکشن ہوئے۔تو آپ اپنے حلقہ بنی منہاساں سے الیکشن لڑنے کے لئے تیار ہوئے۔لوگوں کے اسرار پر آپ کھڑے ہوگئےمقابلہ بڑا سخت تھا۔آپ کو بڑی تعداد میں ووٹ ملے صرف چند ووٹوں سے آپ کامیاب نہ ہوسکے۔مد مقابل نے پراپیگنڈابھی کیا کہ یہ قادیانی ہے اس کو ووٹ نہ دیں۔
باغ آزاد کشمیر سےبھائی ضیغم سلیم خان اور اُن کے ساتھی ،چوہدری غلام محمد،محمد حسین دھیڑے ، سردار محمد انور اور چند اور کارکن قافلے کی صورت میں مظفرآباد کی طرف چل پڑےجہاں دو اڑھائی ہزار کارکن جمع تھے۔ان کویہاں گرفتار کر لیا گیااور مظفر آباد جیل میں بند کر دیا گیامگر اگلے روز رِہا بھی کردیا اور واپس باغ بھجوادیا گیا۔
1953ءمیں جب جماعت کی مخالفت شروع ہوئی۔ختم نبوت والوں کے جلسے ہوتے رہتے۔ دھمکیاں بھی ملتی رہتی تھیں۔ چند احباب جماعت کے اثرو رسوخ کی وجہ سے زیادہ نقصان نہ پہنچ سکا اور آپ ثابت قدم رہے۔آپ احباب سے رابطہ رکھتےاور علاقہ کے احمدیوں کے حالات سے باخبر رہتے۔
جماعت کے مخالفین کو آپ کی ہردل عزیزی،کامیابی اور جماعتی وابستگی پسند نہ آئی اور آپکی مخالفت بھی شروع ہو گئی۔آپ کا باغ شہر میںسوشل بائیکاٹ کیا گیا۔1974ء کی مخالفت میں آپ کے دوا خانہ کو آگ لگا دی گئی ،جس سے آپ کا لاکھوں روپئےکا نقصان ہوا۔اس کے بعدآپ کو زبانی و تحریری دھمکیوں کے علاوہ جان سے مارنے کی کوشش بھی کی گئی۔
مقامی مولویوں نے گورنمنٹ کالج باغ کے پرنسپل کو استعمال کر کے طلباء کو ان کے خلاف جلوس نکالنے پر اُکسایا۔مشتعل طلباء سے ان کی جائیداد کی توڑ پھوڑ کروائی اور ان کو کافی مالی نقصان پہنچایا۔اس کے علاوہ آپ پر جھوٹے و جعلی چوری کے مقدمات دائر کئے اور آپ کے بچوں کو قادیانی کہہ کر سکول سے نکال دیا گیا۔آپ نے ان سب حالات کا نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کیا اور ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہے۔آپ کوخلافت کے ساتھ بے انتہا ءلگاؤ تھا۔باقاعدگی کے ساتھ بذریعہ خطوط خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے رابطہ رکھتے،اپنے کاموں کے لئے مشورہ لیتےاور دعا کی درخواست کرتے رہتے تھے۔
2002ء میں 73 سال کی عمر میں آپ پر فالج کا شدید حملہ ہواجس نے آپ کی بولنے کی قوت کو متاثر کیااور چلنا پھرنابھی دشوار ہو گیا۔لیکن پھر بھی وہیل چیئر پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ ان حالات میں بھی جمعہ کے دن صبح ہی ٹی وی پر MTAلگا کر بیٹھ جاتےاور حضور کے خطبے کا انتظار کرتے۔گھر میں موجود خواتین اور بچوں کو بھی ساتھ بٹھا کر خطبہ جمعہ سنتے۔فالج کی تکلیف کی وجہ سے آپ کافی کمزور ہو گئے تھے۔2006 ءمیں بغرض علاج اپنے بیٹوں کے پاس لندن آگئےاور یہیں مقیم رہے۔ لندن میں ہی آپ 4دسمبر 2013ء کو فجر کے وقت حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون
آپ کی نماز جنازہ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مسجد فضل لندن میں ادا کی۔ آپ کی نماز جنازہ میں رفقاء و بزرگان سلسلہ کے علاوہ دیگر ممالک سے بھی سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔ آپ کی تدفین ایسٹ لندن کے احمدیہ قبرستا ن میں عمل میں آئی۔اللہ تعالیٰ آپ پر بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائےاور ہمیں آپ کے پاکیزہ اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اپنی رضا سے نوازے۔آمین
آپ کے جنازہ سے قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کے پورے خاندان کو بلا کر تعزیت فرمائی۔ آپ نے پسماندگان میں چار بیٹے ڈاکٹر عبدالسمیع خان صاحب ویلتھم فارسٹ لندن، نجم السلیم خان صاحب ویلتھم فارسٹ لندن، میجر سہیل سلیم خان صاحب مظفر آباد پاکستان، سعید سلیم خان صاحب بارکنگ لندن اور تین بیٹیاں فہمیدہ سلیم صاحبہ اہلیہ مکرمظہیر احمد صاحب مقیم باغ آزاد کشمیر،منصورہ سلیم صاحبہ اہلیہمکرم ممتاز احمد صاحب مقیم لندن برطانیہ اورمکرمہ مہوش سلیم صاحبہ اہلیہ مکرم مطہر رفیق صاحب مقیم راولپنڈی پاکستان یادگار چھوڑی ہیں۔آپ کے پوتے اور پوتیوں میں اکثر بچے وقف نو کی بابرکت تحریک میں شامل ہیں۔

آپ کی رفیق حیات محترمہ سعیدہ سلیم صاحبہ
مکرمہ سعیدہ سلیم صاحبہ ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کی سب سے بڑی بہو تھیں۔آپ کی پیدائش 1940ء میں ضلع باغ کے موضع سیور کالومیں ہوئی۔آپ کے والد صاحب کا نام محترم خواجہ نورالدین شہید تھا۔آپ ہندو پاک کی جنگ جو 48-1947ء کے دوران ہوئی اس میں بمقام ہڈا باڑی سر پر گولی لگنے کی وجہ سےشہید ہوئےاور آپ کو دیگر شہداء کے ساتھ اسی مقام پر دفن کر دیا گیا۔
مکرمہ سعیدہ سلیم صاحبہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت ضلع باغ میںہوئی۔آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔آپ جولائی 1959ءکو رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔آپ کا خاندان احمدی نہ تھا۔ شادی کے بعد آپ نے خودتحقیق کرنے کے بعدربوہ جاکر احمدیت قبول کی۔آپ نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت بہت اچھے ڈھنگ سے کی اور بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔آپ کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں جو احمدیت کے قریب ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو ہدایت دے۔آمین
آپ بہت نیک خاتون تھیںاور صوم و صلوٰۃ کی پابند ،مہمان نواز،ہمسایوں کا خیال رکھنے والی اور دوسروں کی مدد کرنے والی نہایت ملنسار خاتون تھیں۔خاندان میں سب سے بڑی بہو ہونے کی وجہ سے آپ کو خاص عزت و مقام حاصل تھا۔آپ شوگر کی مرض سے ایک لمبا عرصہ تک مقابلہ کرتی رہیں۔جسکی وجہ سے آپ کو گردوں کی تکلیف بھی ہو گئی تھی۔آپ کو ڈائلیسس کے لئے لے جایا جاتا تھا۔بالآخر 2مئی 2002ءمیںبمقام راولپنڈی آپ کی وفات ہوئی ۔آپ کی وصیت تھی کہ وفات کے بعد آپ کو آپ کے والد کے پہلو میں دفن کیا جائے۔انکی وصیت کے مطابق ہڈا باڑی ضلع باغ کے مقام پرآپ کی تدفین عمل میں آئی۔کثیر تعداد میں عزیز و اقارب ، احباب جماعت اور غیر از جماعت افراد نے بھی آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی ۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرےاور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔

محترم رفعت محمود خان صاحب
آپ ڈاکٹر اعجازالحق خان صاحب کے دوسرےبیٹے تھے۔آپ اگست 1937ءکوہندوستان کےشہر آگرہ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم سری نگر کشمیر اور راولپنڈی شہر سے حاصل کی۔تعلیم کے ساتھ ہی آپ کاروبار سےبھی منسلک ہوگئے اور آپ نےمختلف قسم کےکاروبار کئے۔ آپ بہت محنت کش انسان تھے ۔پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجینئر تھے لیکن کاروبار کا بہت شوق رکھتے تھے۔کاروبار کا آغاز ایک جنرل سٹور سے کیا ، پھر دودھ کا کاروبار شروع کیا اور ساتھ واپڈا میں ملازمت بھی اختیار کرلی ۔ملازمت کی وجہ سے آپ کومختلف شہروں میں رہنا پڑتا تھا۔اس دوران کاروبار کی دیکھ بھال ملازموں کے سپرد رہتی۔آپ اسلام آباد، کوٹلی،چکوال اورجہلم کے گرِڈا سٹیشن کے انچارج رہے۔آپ کے ماتحت دو تین افراد کا عملہ اور ہوتا۔ آپ نہایت اثر و رسوخ رکھتے تھے۔اس کے باوجود بھی احمدیت کی وجہ سے آپ کی مخالفت شروع ہو گئی اور آپ کے ماتحت جو سب کے سب غیر احمدی تھے وہ بھی آپ کے مخالف ہو گئے۔نہ صرف آپ پر گرِڈا سٹیشن پر حملہ کیا گیا بلکہ آپ کے خلاف رپورٹ کر کے آپ کو چھ ماہ کے لئے معطل بھی کروایا گیا۔ بہر حال آپ کو دوبارہ بحال کیا گیا مگر مخالفت کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔
پھر آپ کا تبادلہ چار سال کے لئےکوٹلی آزاد کشمیر میں ہوا ۔جہاں مذہبی مخالفت بہت زیادہ تھی۔ جماعت کے خلاف اکثر جلسے،جلوس، اخبارات میں بیان بازی چلتی رہتی تھی۔ کوٹلی میں ہماری کافی بڑی جماعت اور مسجد ہے۔دیہاتوں اور شہروں کے علاوہ چھ سات سو کے قریب احمدی احباب ہیں۔جن میں کافی بااثر ڈاکٹر،وکیل اور کاروباری لوگ تھے۔ جماعت کے اثرورسوخ کی وجہ سے غیر از جماعت اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہو پاتے۔اس کے باوجود مولوی ہمیشہ مخالفت میں سرگرم رہتے۔کوٹلی آزاد کشمیر میں جناب رفعت محمود صاحب کے خلاف غبن کاکیس بنا کرآپ کوایک بار پھر ملازمت سے نکال دیا گیا۔ کئی سال کیس چلنے کے بعد آپ باعزت بری ہوئے اورایک بار پھرآپ کی سرو س بحال ہوئی۔
مکرم رفعت محمود خان صاحب نے اپنی ملازمت کے دوران ادویات کا ہول سیل کا کاروبار شروع کیا ۔ آپ راولپنڈی اور گردونواح کے شہروں اورمیرپور آزاد کشمیر تک ادویات کی سپلائی کرتے تھے۔ بعض شہروں سے کیمسٹ شاپ سے آڈرلے کر بعد میں ادویات پارسل بھجواتے ۔ادویات کاکام آپ تا ریٹائرمنٹ کرتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ نے ملازمت کے دوران مختلف کام کئے۔1967ء میں آپ نے روالپنڈی میں سید پور روڈ پر دودھ کی ہول سیل دُکانDAIRY کھولی۔دودھ کے علاوہ وہاںدہی بھی تیار کیا جاتا تھا۔روزانہ تین سو 300 لیٹر دودھ خریدا جاتا۔ٹھنڈا دودھ بیچا بھی جاتا۔دہی کے علاوہ جو دودھ بچ جاتا شام کے وقت کڑاہی میں گرم کر کے بیچا جاتا ۔اس کام کے لئے آپ نے ایک ملازم رکھا ہوا تھا۔ملازم صبح سے لیکر رات گئے تک کام کرتا تھا۔ آپ صبح اپنے آفس یعنی گرِڈ اسٹیشن (بجلی گھر)چلے جاتے۔پھر شام کے وقت چند گھنٹے کے لئے آپ دُکان پر آتے تاکہ دُکان کا حساب کتاب چیک کر سکیں۔ آپ نے دودھ کی دُکان کو تقریباً دوسال سے زائد چلایا۔جب اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو فروخت کردیا۔
پھر رفعت محمود خان صاحب نے پراپرٹی کا کام شروع کیا۔پلاٹ یا گھر خریدتے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد منافع کے ساتھ فروخت کردیتے۔مگربعض اوقات پلاٹ فروخت ہونے میںوقت لگ جاتااوررقم رُک جاتی۔ یہ کاروبار بھی اچھا رہا اور فائدہ مند تھا۔یہ بھی چار پانچ سال تک کرتے رہے۔ملازمت کے دوران آپ نے دوستوں کے مشورہ کے بعد 2001ء میں ملازمت سےرٹیائر ہونے کے بعد رفعت اینڈ سنز کے نام سے ایک فیکٹری کھولی جو دوحصوںپر مشتمل تھی۔فیکٹری کے ایک حصہ میں ڈیکوریشن کے لئے آئی سونی چکوال سٹون ٹائل تیار کی جاتی۔دوسرے حصہ میں فرنیچر تیار کیا جاتا۔یہ دونوں فیکٹریاں عید گاہ روڈ پر گھر سے ملحقہ زمین میں لگائی گئیں۔ڈیکوریشن کی ٹائل عام ٹائلوں سے مہنگی ہوتی ہے۔ مسجدوں میں بھی استعمال ہوتی ہے۔اسکی مارکیٹ میں کافی مانگ تھی۔ شروع میں لوکل مارکیٹ میں دُکانداروں کو دی گئیں۔ڈیمانڈ بڑھنے پر دوسرے شہروں میں بھی فروخت کی گئیں۔فیکٹری کی آفس میں استعمال ہونے والی ریوالونگ چیٔر کو بھی بہت پسند کیا گیا۔شروع میں جب کرسی نمونے کے طور پر دی گئ توبکثرت آرڈر آنے شروع ہوگئے اورکرسیاں تیار کر کے سپلائی شروع کر دی گئی۔رفعت محمود خان صاحب نے فیکٹریوں کے کاروبار کے لئے اپنے ایک دوست مسٹر عبدالقدوس خان صاحب جو کہ نیشنل بنک میں ملازم تھے ان کو اپنے کاروبار میں شریک کیا اورکاروبار میں پارٹنر بنایا۔کاروبار چلتا رہا۔ دُکاندار مال کو فروخت کر کے پیسوں کی ادائیگی بروقت نہ کرتے،ایک بڑی رقم دُکانداروں کے پاس تھی۔اس دوران اچانک رفعت محمود خان صاحب کی دل کا دورہ پڑنے سے وفات ہوگئی۔فیکٹریوں کا کاروبار رفعت صاحب کے بچوں نے سنبھالنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔کیونکہ بچے سارے زیر تعلیم تھے۔مارکیٹ میں بڑی رقم دُکانداروں کے پاس تھی۔ دُکانداروں کو معلوم ہوگیا کہ رفعت محمود صاحب وفات پاگئے ہیں۔وہ رقم ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتے رہے۔دُکانداروں کو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ احمدی ہیں۔ کچھ دُکانداروں نے پراپیگنڈا شروع کردیا کہ یہ قادیانی ہیں۔چنانچہ چند ایک لوگوں سے وصول ہونے والی بقایا رقم بھی نہ مل سکی۔
مکرم رفعت محمود صاحب کی وفات کے بعد کاروبار کو کچھ عرصہ مسٹر عبدالقدوس صاحب نے بھی چلایا ۔قدوس صاحب بھی بنک میں ملازم تھے۔وہ بھی زیادہ وقت کاروبار کے لئے نہ دے سکے ۔آخر کار فیکٹری کو بند کرنا پڑا ۔دُکانداروں کے علاوہ عبدالقدوس صاحب کے پاس جو پیسہ تھا اُس پیسے کا حساب دینے سے بھی انھوں نےانکار کردیادوسری طرف مارکیٹ سے بھی رقم کی وصولی نہ ہوسکی۔فیکٹری کو پانچ سال چلانے کے بعد ان وجوہات کی بنا پر فروخت کرنا پڑا۔جس سے رفعت محمود صاحب کے بچوں کو لاکھوں روپئے کا نقصان ہوا۔
رفعت صاحب کاروباری طرز کے انسان تھے۔انتہائی محنتی اور جفا کش انسان تھے کبھی فارغ نہ بیٹھتے ۔اپنی ملازمت کے دوران مختلف قسم کے کاروبار میں مصروف رہتے۔چھٹی والےدن بعض ایسے دور دراز علاقوں میں چلے جاتے اور رات گئے واپس لوٹتے تھے۔دن رات سفر میںرہتے۔اپنے دوستوں کو ملنے ملانے والے ،عزیزوں رشتہ داروں سے مشورے کرکے کاروبار میںآگے بڑھنے والے۔پھر دوسروں کو کاروباری مشورے دینے والے تھے کہ ’’تم زمین لے لو ،فیکٹری لگائو،یافارم بنائو،فلاں جگہ بہت اچھی ہے دُکان بنائو ۔‘‘کئی عزیز دوست اُن کے مشوروں سے مستفیض ہوئے۔
آپ نے احمدیت کی وجہ سے کافی تکلیفیں اٹھائیں۔آپ کی زمین پر قبضہ کی غرض سےعدالت میں کیس دائر کیا گیا۔1972ء میں آپ پر قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا جس میں محض اللہ کے فضل سے آپ کسی بڑے نقصان سے محفوظ رہے۔آپ بڑے نڈر اور پرجوش انسان تھےآپ نے کبھی ہمت نہیں ہاری،اپنے کاموں اور کاروبار میں لگے رہے۔ سروس کے دوران ہی آپ نے ادویات کا کاروبار شروع کر دیا تھاجوکہ رٹائرمنٹ کے بعد تک جاری رہا۔
آپ کی شادی خانہ آبادی 1975ء میں محترمہ عابدہ رفعت صاحبہ سے ہوئی۔آپ کے سُسرمحترم ملک عزیز محمدصاحب ایڈووکیٹ تھے ،جن کا تعلق ککےزئی خاندان سے تھا۔آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند، بلند حوصلہ، متقی، نیک اور مخلص انسان تھے۔ تبلیغی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتےاور باقاعدگی سے چندوں کی ادائیگی و صدقہ خیرات کرنے والے تھے۔جماعتی ڈیوٹیاں بھی بڑے شوق سے دیتے۔آپ تین سال تک قائد مجلس خدام الاحمدیہ راولپنڈی بھی رہے۔آپ عزیزواقارب کا خیال رکھنے والے۔ خوشی،غمی و تکلیف میں فوراً پہنچ کر مدد کرنے والے انسان تھے۔حرکت قلب بندہونے کی وجہ سے لاہور میں آپ کی وفات 2004ء میں ہوئی۔اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی اولاد کا حافظ و ناصر ہو۔آمین

آپ کی اہلیہ عابدہ رفعت صاحبہ کے تاثرات
آپ کی اہلیہ محترمہ عابدہ رفعت صاحبہ آپ کے بارہ میں بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’رفعت محمود خان صاحب نے اپنے کسی بچے کی خوشی نہیں دیکھی۔اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا۔ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے جانے کے بعد اللہ نے سارے کام آسان کر دئے۔ان کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ بچوں کے رشتوں کے معاملے میں سب کام آسان ہوئے۔رفعت محمود خان صاحب غریب اور ضرورتمندوں کی بہت مدد کرتے تھے۔راولپنڈی کی بات ہے کہ ہمارے محلے میں ایک غریب عورت رہتی تھی،وہ بیمار ہو گئی۔آپ روزانہ اسکی بیمار پرسی کے لئے جاتے اور اس سے دوائی اور باقی ضروریات کا پوچھتے۔اور جس چیز کی ضرورت ہوتی وہ اسے لا کر دیتے۔اور اس کے کام کرتے۔وہ عورت بھی ان کو بہت دعائیں دیتی تھی۔اللہ تعالیٰ ان کی اس نیکی کو قبول فرمائے۔
انکی وفات اچانک لاہور میں ہوئی۔ان کا ایک فلیٹ تھا،وہاں پر اکیلے رہتے تھے۔کوئی بیماری بھی نہیں تھی۔جب لاہور گئے ہیں اس وقت آپ بالکل ٹھیک تھے۔وفات سے ایک روز قبل فون کیاکہ میں انشاء اللہ تعالیٰ کل راولپنڈی آجائوںگا۔جس روز رات کو فون کیا اسی روز ہم سب احمدیہ مسجد ایوان توحید راولپنڈی میں برطانیہ کا جلسہ سالانہ دیکھنے گئے ہوئے تھے۔رفعت محمود خان صاحب گھر میں فون کرتے رہے لیکن گھر میں کوئی نہ تھا۔اپنے چھوٹے بھائی وقار عظیم کو فون کرکے پتا کیا کہ گھر والے کہاں گئے ہوئے ہیں؟ گھر میںفون کوئی نہیں اٹھا رہا ۔بھائی وقار نے بتایا کہ سب برطانیہ کا جلسہ سالانہ سننے گئے ہوئے ہیں۔اس دن جلسہ سالانہ برطانیہ سال 2004ء کا آخری دن تھا۔حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب سننے کے لئے سب افراد مسجد میں جمع تھے۔مسجد سے واپس آنے کے بعد لاہور فون کیا۔کوئی جواب نہ تھا،شاید سو گئے تھے۔اگلے روز ہم انتظار کرتے رہے کوئی جواب نہیں ملا۔مکمل خاموشی تھی۔ہم سب بہت پریشان تھے۔لاہور میں موجود عزیز و اقارب کو بھی فون کیا۔کچھ افراد وہاں گئے۔اندر سے دروازہ بند تھا۔اند ر سے کوئی جواب نہ تھا۔دروازہ توڑا تو آپ کا بے جان جسم موجود تھا۔انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘
آپ نے اہلیہ کے علاوہ تین بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے ہیں۔آپ کا سب سے بڑا بیٹا اثمار اعجازوینکوور کینیڈا میں فیملی کے ساتھ مقیم ہے۔اثمار آئی ٹی کی فیلڈ سے منسلک ہے اور ایک سوفٹ ویئر ہائوس میں بطور ٹیم لیڈر ملازمت کر رہا ہے۔آپ کا دوسرا بیٹا شرجیل احمدخان پاکستان میںرہائش پذیر ہے۔شرجیل ایم ۔بی۔ اے فنانس کرنے کے بعد نیشنل بینک میں بطور وائس پریزیڈنٹ ملازمت کر رہا ہے۔تیسرے نمبر پر آپ کی بیٹی جویریہ خرم اسکول میں بطور ٹیچر ملازمت کر رہی ہے اور سیالکوٹ میں مقیم ہے۔آپ کا سب سے چھوٹا بیٹا انتصار رفعت خان امریکہ نیو جرسی میںاپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہے اور ایک مقامی بینک میں بطور اینالسٹ ملازمت کر رہا ہے۔ آپ کی ساری اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور آئندہ نسلوں کو ان کے حسن عمل، ان جیسے شاندار کارنامےاور خدمت سلسلہ کی کما حقہُ توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

مکرم اطہر محمود خان صاحب
آپ ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کےبیٹے اور حضرت حکیم محمد طفیل خان صاحبؓ کے پوتے ہیں۔ آپ1948ء میں کشمیر سری نگر میں پیدا ہوئے۔اطہر محمود خان صاحب نےراولپنڈی سے ہی تعلیم حاصل کی اوریہیں سے اپنا کاروبار شروع کیا۔
شروع میں عیدگاہ محلے کی آبادی بہت کم تھی۔اُس ایریا میں چند ایک گھر غیر احمدیوں کے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور لوگ وہاں آباد ہو نے لگے۔ ہمارے قریب کے علاقہ میں کوئی اور احمدی نہ تھا۔جب غیراز جماعت کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم احمدی ہیں تو لوگوں نے ہماری مخالفت شروع کردی اور ہمیں مرزائی کہنا شروع کردیا ۔جب ہمارے گھر کے قریب غیراز جماعت کے لوگوں نے مسجد کی تعمیر کی تو مخالفت میں مزیدشدت آگئی۔مخالفت کے باوجود علاقہ کی تعمیر وترقی کے لئے اطہر محمود خان صاحب کوشش کرتے رہے۔آپ کا روباری اور سماجی کارکن بھی تھے۔ سیاست میں بھی آپ کا دخل تھا۔آپ علاقہ کی تعمیر وترقی کے لئے اخبارات میں آرٹیکل بھی لکھتے رہتے تھے۔خصوصاًبجلی،پانی اور سیوریج کے ناقص انتظام کے خلاف آپ نے عوام کی طرف سے آواز اُٹھائی۔اطہر محمود خان صاحب پیپلز پارٹی کے صدر کی حیثیت سے بھی اپنے جلسوں میں تعمیر وترقی، فلاح وبہود کے لئے سرکار سےمطالبہ کرتے رہتے تھے۔ اس طرح محلے میں لوگوں کے کئی قسم کے مسائل کو حل کرواتے۔علاج معالجہ کے سلسلہ میں لوگوں کی مدد کرتے ،غریب غرباء کو بغیر اخراجات کے ہیومیو پیتھک دوائی دے دیتے ۔

پیپلز آرگنائزیشن کے نام سے فیکٹری کاکھولنا
آپ نے 1970ء میں پیپلز آرگنائزیشن کے نام سے ایک فیکٹری کی بنیاد رکھی۔اس میں واٹر پروف پائوڈر کا فورمولہ تیار کیا۔جس کو ’’پیڈلو ‘‘کے نام سے رجسڑڈ کروایا۔’’پیڈلو ‘‘کے کاروبار میں ہمارے چھوٹے بھائی وقار عظیم بھی شریک تھے۔ شروعات میں ’’پیڈلو‘‘ کی سپلائی لوکل مارکیٹ میں رہی۔ اچھے رزلٹ کے بعداسکی سپلائی لاہور ،فیصل آباد، سرگودھا تک ہوتی تھی۔ ڈیمانڈ بڑھ گئی تو سرحد اور سندھ کراچی تک وسعت اختیار کر گئی۔’’پیڈلو‘‘ کے ساتھ اطہر محمود خان صاحب نےکاروبار کا دوسرا حصہ جس میں میڈیسن اینٹی سیپٹک اور ڈِس اِنفیکٹ آئٹم تیار کر کے لوکل مارکیٹ میں میڈیکل سٹور کی دُکانوں پر سپلائی کئے۔یہ آئٹم معیاری تھے۔اچھا رزلٹ آنے پر مختلف برانڈ سے تیا ر کی گئیں آئٹم مارکیٹ میں پسند کی گئیں۔ اور پھردوسرے شہروں میں بھی سپلائی کی گئی۔
آپ اپنے کاروبار کے ساتھ چونکہ سماجی کارکن بھی تھے لہٰذا آپ کا حلقۂ احباب کا فی وسیع تھا جس میں احباب جماعت اور غیراز جماعت سب شامل تھے۔جن میں اکثر بااثر افرادیا سیاستدان تھے۔ آپ کا زیادہ تعلق پیپلز پارٹی کے ممبران اسمبلی اور مرکزی وزیر کرنل حبیب،مرکزی وزیرخورشید حسن میر،صوبائی ممبر اسمبلی جاوید حکیم قریشی ،پرنسپل جیلانی کامران،پروفیسر خالد گورنمنٹ کالج ،ان سب سے آپ کا گہرا تعلق تھا۔محلہ عید گاہ پیپلز پارٹی کےجلسہ کا پروگرام بنتا تو ممبران اسمبلی پارٹی کے کارکن کو دعوت دی جاتی۔ نظام جماعت کے تحت صدر صاحب اور سلسلہ کے مربی کو بھی دعوت دی جاتی۔ممبران سے جماعت کا تعارف ہوتا،اس طرح تبلیغ کا بھی موقع ملتا رہتا۔

1974ء کے بعدکے حالات
اطہر محمود خان صاحب کی دوست احباب جماعت اور غیراز جماعت سے بھی تھے۔اُن کے ساتھ اکثر جماعت کے متعلق گفتگو کرتے ۔غیراز جماعت کے احباب مولوی حضرات جماعت کے خلاف پراپگینڈا کرتے رہتے۔لوگوں کو آپ کے خلاف کرنے کی کوشش کرتے۔اطہر محمود خان صاحب بڑی دلیری سے اُن کی باتوں کا جواب دیتے تھے۔آپ کی سیاسی ہمدردیاں بھی پیپلزپارٹی سے تھیں۔آپ پیپلز پارٹی کے رکن ہونے کی حیثیت سے علاقہ کی تعمیر وترقی کے لئے کوشش کرتے رہتے۔جن میں ٹیلی فون لائن،گیس،سڑکیں وغیرہ بھی شامل ہوتیں۔1974ء میں پاکستان کے حالات جماعت احمدیہ کے لئےبہت خراب ہوگئے۔ احمدیوں کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ غیراز جماعت کی مساجد سے لائوڈاسپیکر سے اعلان کرتے کہ قادیانیوں سے بائیکاٹ کیا جائے۔ان سے ہر قسم کا لین دین اور تجارت حرام ہے۔ جماعت کی مخالفت روز بروز بڑھتی ہی گئی۔احمدیوں کے کاروبار کو نقصان پہنچایا گیا۔احمدیوں کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔عدالت میں زمینوں کے کیس دائر کردئے گئے۔ان حالات کی وجہ سےاطہر محمود خان صاحب دسمبر 1980ء کو اپنا کاروبار چھوڑ کر برطانیہ میں مستقل قیام پذیر ہوگئے۔

لندن میں لیدر کی جیکٹ کا کاروبار
لیدر کی جیکٹ کے کاروبار کے لئے مارکیٹ کا جائزہ لینے کے بعد آپ نے لندن میں لیدر کی جیکٹ کا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ابتداء میں آپ نے سیل وہول سیل جیکٹ خرید کر سپلائی کی ۔ فیکٹریوں سے سپیشل کوالٹی کی جیکٹ تیار کروائی جو کہ مارکیٹ میں بہت پسند کی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ اطہر محمود خان صاحب نے لیدر کی جیکٹ خود تیار کرنے کا پروگرام بنایا۔آپ نے لیدر کی جیکٹ تیار کرنے کی فیکٹری لگائی۔اٹلی سے اچھی کوالٹی کے لیدر سے جیکٹ تیار کرکے ہول سیل میں جیکٹ تیار کرکےیورپ کے دوسرے ممالک فرانس،ہالینڈ، بلجیم،سپین،جرمنی وغیرہ میں سپلائی کرتے رہے۔کچھ عرصہ کاروبار اچھا چلتا رہا لیدر کی جیکٹ کا ریٹ دوسری جیکٹوں سے زیادہ ہوتا تھا۔ کاروباری لوگوں نے جینس ٹائپ کپڑے جو لیدر کی طرح تھوڑی موٹائی میں ہوتاہے ،اس کی جیکٹ تیار کرنی شروع کی۔ کپڑے کی جیکٹ لیدر سے بھی سستی پڑتی تھی ۔اس کی وجہ سے لیدر کی مارکیٹ آہستہ آہستہ ختم ہوگئی۔اطہرمحمود خان صاحب کے کاروبار میں نقصان ہورہا تھا۔تیارشدہ اسٹاک سیل ہونا بندہوگیا ۔لیدر شیٹ کابھی آپ کے پاس بہت بڑا اسٹاک تھا۔چنانچہ کاروبار کو بند کرنا پڑا۔اِس وقت آپ کی رہائش لندن کے شمالی علاقہ ایڈمنٹن گرین میں ہے ۔ اسکے بعد آپ نے کچھ عرصہ قبل دوبارہ کاروبار کرنے کا پروگرام بنایا۔آپ نے امریکہ سے ’’لیموزین ‘‘ گاڑیاںمنگوا کر اُسے بطور رینٹ یعنی ٹیکسی کے طور پر چلانا شروع کیا۔اللہ کے فضل سے ایک لمبا عرصہ آپ یہ کام کرتے رہے۔

آپ کی زوجہ عاصمہ اطہر صاحبہ
آپ کی زوجہ محترمہ عاصمہ اطہر صاحبہ کا تعلق غیراز جماعت سے ہے۔ آپ کی تین بیٹیاں اور دوبیٹے ہیں۔آپ انتہائی نیک اور اچھے خیالات رکھنے والی خاتون ہیں۔ آپ جب پاکستان میں رہائش پذیر تھیں تب آپ اکثر ربوہ جاتیں اور وہاں دارالضیافت میں قیام کیا کرتی تھیں۔جلسہ سالانہ جب ہوتاتھا تو آپ بھی ان جلسوں میں شامل ہوتیں۔ ربوہ کا ماحول اور وہاں کا نظام دیکھ کر آپ بہت متاثر ہوئیں۔ربوہ سے جماعت کی کتابیں لٹریچرحاصل کرتیں اور ان کتابوں کا مطالعہ بھی کرتیں۔ جماعت کے بارہ میں آپ کافی معلومات رکھتی ہیں ۔

آپ کی اولاد
آپ کے دو بیٹے عاقل خان اور حماد خان زیر تعلیم ہیں۔ تین بیٹیاں ہیں جن میں سے بڑی بیٹی صبرینہ خان جو مکرم طارق رازق صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہے اور صاحب اولاد ہے ۔ دوسر بیٹی عمارہ خان ہے جو مکرم آصف خان صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہے۔فارا خان ہے جو مکرم ذوالفقار مومن صاحب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہے اور صاحب اولاد ہے۔اطہر محمود خان صاحب کے بیٹے اور بیٹیاں احمدیت سے دور ہیں۔مگرجماعت کے پروگراموں میں بھی جاتے رہتے ہیں اس لئے جماعت کے متعلق انہیں کافی معلومات ہے۔ آپ کے داماد مکرم ذوالفقار ابراہیم صاحب برطانیہ میں پیدا ہوئے ۔ یونیورسٹی آف لندن سے ایم۔ اےاسلامیات کی ڈگری حاصل کی۔شعبہ یونیورسٹی سے عقیدہ اور دعوت میںایم۔ اے کی ڈگری میرٹ پر حاصل کی ۔سعودی عربیہ میں مدینہ یونیورسٹی سے شعبہ حدیث میں بی۔ اے کی ڈگری اور انجمن امتیازی اسلامی کارکردگی انگریزی میں لیکچر دینے کے لئے ٹریننگ حاصل کی ۔اور اسکی سند مدینہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔مکرم ذوالفقار ابرہیم صاحب انتہائی نیک اور ملنسار آدمی ہیں۔سعودی عربیہ میں اسلامی ریسرچ سیکشن میں کام کرتے ہیں۔ جماعت کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ جب بھی لندن آتےہیں جماعت کی کتابیں پڑھنے کے لئے ساتھ لے جاتے ہیںاور انہیں اپنے ریسرچ سینٹر میں بھی رکھتے ہیں۔ جماعت کے متعلق کافی معلومات رکھتے ہیں۔ اطہر محمود خان صاحب کے گھر ایک دعوت کے موقعہ پر خاکسار کی ملاقات مکرم ذوالفقار صاحب سے ہوئی۔انہوں نے بتایا کہ مجھ سے اکثر آپ کی جماعت احمدیہ کے متعلق لوگ سوال کرتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ میں اُن کے ساتھ بڑی بحث کرتا ہوں کہ آپ کس طرح کہتے ہیں کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ میں آپ لوگوں کی کتابیں اُن کو دکھاتا ہوں کہ احمدی مسلمان ہیں۔اور میرے ٹیبل پر آپ کی کتابیں موجود رہتی ہیں۔

مکرم شوکت محمود خان صاحب
آپ ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کے پانچویں بیٹے ہیں۔آپ 1950ء کوباغ آزاد کشمیرمیں پیدا ہوئے۔آپ کا بچپن آزاد کشمیر،کوہ مری اور راولپنڈی میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم راولپنڈی میں حاصل کی اور وہیں سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔شروعات میں آپ نےیونانی ادویات،سرکہ، گرائپ واٹر،فنائل وغیرہ کی پیکنگ اور سپلائی کا کام شروع کیا۔اس کے ساتھ آپ کاٹرانسپورٹ کا سائیڈ بزنس بھی رہا۔آپ کچھ اشیاء کو ری پیک کرکےچھوٹے شہروں میں سپلائی کرتے،آپ کا کاروبار ترقی کرتے کرتے پاکستان کے دوسرے بڑے شہروں لاہور،ملتان،فیصل آباد،سرگودھااور کراچی تک پھیل گیا تھا۔
ہمارے سارے خاندان کو احمدیت کی شدید مخالفت کا سامنا رہا۔جب بھی مخالفین کو موقعہ ملا،انہوں نےکاروبار کو نقصان پہنچایا۔1974ء کے بعد حالات بہت خراب ہو گئے،آپ کا کاروبار ختم ہو گیا۔ان حالات کی وجہ سے مکرم شوکت محمود خان صاحب نے کاروبار ختم کرکے کویت جانے کا پروگرام بنایا اور جنوری 1977ء میں کویت ہجرت کر گئےجہاں ایک امریکن کمپنی میں ملازمت اختیار کرلی۔
1981ء میں آپ کی شادی محترمہ ذکیہ پروین صاحبہ سے ہوئی جو کہ ابو ظہبی کے شیخ زاہدملٹری ہاسپٹل میں سٹاف نرس تھیں ۔مکرمہ ذکیہ پروین صاحبہ کا تعلق راولپنڈی پاکستان سے تھا۔آپ کے والد محترم جلال الدین قریشی صاحب مرحوم ڈسکہ کے رہنے والے تھے۔ان کےبچپن کا کچھ عرصہ قادیان میں گزراجہاں آپ نے دینی تعلیم حاصل کی۔آپ پاکستان افواج میں بحیثیت حوالدار تھے۔
مکرم شوکت محمود خان صاحب 1990 ءمیں کویت کے حالات خراب ہونے کے باعث چند ماہ پاکستان آگئے۔آپ کی اہلیہ صاحبہ بھی اپنی نرسنگ کی ملازمت سے استعفیٰ دے کر آپ کے ساتھ ہی پاکستان چلی آئیں۔آپ پاکستان آ نے کے بعد مستقل طور پر دسمبر1990ءمیں اپنی پوری فیملی کے ساتھ لندن برطانیہ ہجرت کر آئے۔
شوکت محمود خان کا جذبہ خدمت خلق
شوکت محمود خان صاحب جب برطانیہ میں آئے تو لندن کے ایریا کرائیڈن کے علاقہ میں آباد ہوئے ۔آپ کے اندر خدمت خلق کا بہت جذبہ تھا۔شروع سے ہی افراد جماعت کی بہت خدمت کرتے۔ جماعت کے افراد پاکستان انڈیا یا دوسرے ممالک سے برطانیہ آتے اور یہاں ا سائیلم کرتے تو شوکت محمود صاحب ہمیشہ اُن کو گائیڈ کرتے،وکیلوں کے پاس لے جاتے، اپنے گھر میں قیام وطعام کا انتظام کرتے۔ کئی غیراز جماعت لوگ بھی اُن کے پاس آتے۔اُن کی بھی مدد کرتے۔
آپ کو تبلیغ کا بہت شوق ہے کئی غیراز جماعت افراد اُن کے زیر تبلیغ رہے۔زیر تبلیغ افراد کو امام صاحب یا مربی سلسلہ کے پاس لے جاتے اور وہاں سوال جواب کرواتے ۔ اُن کے فارغ ہونے تک ساتھ ہی رہتے۔ غریب اور بیوہ عورتوں کی بہت مدد کرتے ہیں۔اپنی گاڑی میں اُن کو مارکیٹ لے جاتے۔ جماعتی پروگراموں میں لے جاتے۔ لجنہ کے تمام پروگراموں میں لے جاتے ۔ آپ کو وقار عمل کابہت شوق ہے ۔گھر سے فوراً وقار عمل پر چلے جاتے ۔جلسہ سالانہ پر ضیا فت میں 24گھنٹے والی ڈیوٹی دیتے۔شوکت محمودصاحب ہمیشہ موقع کی تلاش میں رہتےکہ کسی طرح میں جماعتی خدمت میں مصروف رہوں۔اپنے بھائیوں اور عزیزواقارب کا بہت خیال رکھتے ہیں۔کبھی کسی رشتہ دار یا عزیز کی بیماری کی اطلاع ملے تو سارے کام چھوڑ کر تیمار داری کے لئے چلے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ اسی طرح اُن میں خدمت خلق کا جذبہ قائم رکھے۔آمین
آپ نمازوں کے پابند ، نیک، صالح اور عزیزواقارب سے گہرا تعلق رکھنے والے انتہائی ملنسار انسان ہیں۔ آپ عرصہ دراز سے جلسہ سالانہ کے شعبہ ضیافت میں خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔آپ صاحب اولاد ہیں۔آپ کے دو بیٹے عزیزم اوزیر خان اور عمیر خان ہیںجو لندن میں ہی تعمیراتی کاموں کا ٹینڈر لیتے ہیں۔آپ کی دو بیٹیاں ہیں عزیزہ صبا شوکت زوجہ محبوب علی صاحب مقیم لندن اورعزیزہ طاہرہ عنبر خان زوجہ مکرم عدنان زاہد رشید صاحب مقیم لندن ہیں۔بڑے داماد محبوب علی صاحب کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔اور احمدیت کے بالکل قریب ہیں۔آپ کا چھوٹا داماد عدنان زاہد رشید وقف زندگی ہے اور شعبہ ایم ٹی اے میں خدمت بجا لا رہا ہے،عدنان کے والد صاحب بھی وقف زندگی ہیں اور ایک عرصہ سے خدمت سلسلہ بجا لا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ بھائی شوکت محمود کی عمر میں برکت دے اور مقبول خدمات کی توفیق عطا فرمائے۔اور ان کی اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رکھے۔آمین۔

مکرم وقار عظیم صاحب
وقار عظیم صاحب ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کےچھٹے بیٹے ہیںاورحضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ کے پوتے ہیں۔ آپ دسمبر 1952ء کو کوہ مری میں پیدا ہوئے۔آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد راولپنڈی میں اپنے بھائی اطہر محمود خان صاحب کے ساتھ کاروبار کا آغازکیا۔ شروع میں آپ فنائل اور وارنش تیار کرکے لوکل مارکیٹ میں سپلائی کیا کرتے تھے ۔ اس کے بعدآپ نے اپنے بھائی کے ساتھ واٹرپروف پاؤڈر کا فارمولا تیار کیا،جس کوپیڈلوکے نام سے رجسٹرڈ کروایا ۔اس بات کا ذکر مکرم اطہر محمود خان صاحب کے حالات میں گزر چکا ہے۔ فیکٹری میں دن رات کام ہوا کرتا تھا، جو کہ کئی مرحلوںسے گزر کر ہوتا۔ مثلاً ڈبوں کی تیاری،لیبلنگ،سیلنگ وغیرہ کی جاتی تھی۔شروع میں پیڈلو کی سپلائی پنجاب تک رہی۔اس کے اچھے رزلٹ کی وجہ سے ڈیمانڈ بڑھی اور پھر سرحد، سندھ کراچی تک کاروبار وسعت اختیار کرگیا۔کاروبار کی وسعت کے ساتھ ساتھ احمدیت کی وجہ سے مخالفت بھی بڑھتی گئی۔
1983 ءمیں آپ کے خلاف ایکسیڈنٹ کا کیس بنا کرآپ کو جیل بھجوایا گیا۔ابتداء میں آپ کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی ،جس کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ اپیل کی سماعت کے نتیجہ میںایک سال کیس چلنے کے بعد آپ کو باعزت بری کر دیا گیا۔مقدمہ تو ختم ہو گیا مگرپھر بھی دھمکی آمیز خطوط آتےرہے کیونکہ مخالف کیس بھی ہار گئے تھے اور ان کو پیسہ بھی نہیں ملا تھا۔اس لئے وہ دھمکیوں کے ساتھ ساتھ پیسہ بھی مانگتے رہے۔اس کے باوجودآپ مسجد میں ڈیوٹی دیتے اوررات کے وقت غیر از جماعت افراد کے گھروں میں مخالفت کے جواب میں جماعت کی جانب سے تیار کئے ہوئے پمفلٹ ڈالا کرتے۔ یہ کام بہت دلیری اور ہمت کا کام تھا ،خاص طور پر اس وقت جبکہ مخالفت کی آندھیاں زور و شور سے پاکستان میں چل رہی تھیں۔آپ اب بھی گہری دلچسپی سے جماعتی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔آپ نمازوں کے پابند، باقاعدگی سے چندہ ادا کرنے والے، نہایت مہمان نواز،دوستوں اور عزیزواقارب کا خیال رکھنے والےہیں۔آپ اس وقت راولپنڈی والے ہمارے آبائی گھر میں قیام پذیر ہیں۔آپ کا گھرہمارے خاندان کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے،کیونکہ ہم سب بھائیوں اور بہنوںکابچپن او رجوانی اسی گھر میں گذری اور ہمارےوالدین کی وفات بھی اسی گھرمیں ہوئی۔اب جو بھی ملک یا بیرون ملک سے آتا ہے اسی گھر میں ٹھہرتاہے اورمیرے یہ عزیزبھائی کسی کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں رہنے دیتے۔اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے۔اور صحت و سلامتی والی زندگی عطا فرمائے۔آمین ۔
1986ء میں آپ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔آپ کی زوجہ مکرمہ امۃ الکریم صاحبہ محترم قاضی رشید الدین صاحب وقف زندگی کی بیٹی ہیں جو لمباعرصہ تحریک جدید کےدفتر سے منسلک رہے۔اللہ تعالیٰ نے وقار عظیم صاحب کو دو بیٹے اور دوبیٹیوں سے نوازا ہے۔آپ کے بیٹوں میں عزیزم صہیب عظیم ہیں جو BBAمیں آنر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یہ دبئی چلے گئے جہاں ڈھائی سال تک ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرنے کے بعد پاکستان آ گئے اور پھرٹورانٹو کینیڈا ہجرت کر گئے ہیں۔ آپ کے دوسرے بیٹے عزیزم وقاص عظیم نےپنجاب یونیورسٹی سے آئی ٹی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ اور پاکستان میں ہی ایک ادارہ میں ملازمت کرتے رہے۔یہ جماعتی اور تنظیمی کاموں میں پیش پیش رہا کرتے تھے۔اپنے حلقہ ایوان توحید کے زعیم مجلس خدام الاحمدیہ بھی رہ چکے ہیں۔یہ بھی اب ٹورانٹو کینیڈامیں ہجرت کر گئے ہیں۔مکرم وقار عظیم صاحب کی بیٹیوں میں بڑی بیٹی عزیزہ ثناء عظیم صاحبہ ہیںجو اپنیHR کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مکرم سلمان ذکریا صاحب ساکن امریکہ سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔نومبر 2010ء میں انکی شادی ہوئی اور شادی کے بعد یہ امریکہ کے شہر واشنگٹن DCمیں اپنے خاوند کے ساتھ ہیں۔دوسری بیٹی عزیزہ شمائلہ عظیم ہیںجو میڈیا میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے اور اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مکرم لقمان صاحب ساکن حیدرآباد پاکستان سےاکتوبر 2019ء میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔وقار عظیم صاحب نے بڑی محنت سےاپنے بچوں کی پرورش کی اورانہیں اعلیٰ تعلیم دلوائی۔الحمد للہ سب بچےنیک،صوم وصلوٰۃ کے پابند،سلسلہ کی خدمت کرنے والے اور خلافت سے گہرا تعلق رکھنے والے ہیں۔

مکرم ذکی احمد خان صاحب
مکرم ذکی احمد خان صاحب ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کے ساتویں بیٹےہیں اور حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ کے پوتے ہیں۔آپ1954ءمیں راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔راولپنڈی میں ہی آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔میٹرک کرنے کے بعد آپ ضلع باغ آزاد کشمیر میں اپنے بڑے بھائی ضیغم سلیم صاحب کے پاس چلے گئے ۔جہاں آپ نے گورنمنٹ ڈگری کالج میں داخلہ لیا اور دو سال تک وہاں زیر تعلیم رہے۔کالج سے آپ نے FScتک تعلیم حاصل کی۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے اپنے بڑے بھائی کے ساتھ میڈیکل کے کاروبار میں تعاون کرنا شروع کیا۔آپ تقریباً 4چار سال تک آزاد کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد آپ نے راولپنڈی میں مستقل رہائش رکھی ۔ اپنی آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ راولپنڈی میںآپ نے امپورٹ ایکسپورٹ کے ایک آفس میں ملازمت اختیار کر لی۔
آپ 1971ء سے لیکر 1973ء تک ملازمت کرتے رہے۔ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی۔1973ء میں ملکی حالات بوجہ مخالفت بہت ناساز ہو گئے۔بہت سے مسائل اس مخالفت کی وجہ سے پیدا ہوئے۔چنانچہ ایسے نازک حالات میں آپ نے پاکستان سے ہجرت کا پروگرام بنایا اور آپ دسمبر 1973ء میں جرمنی ہجرت کر گئے۔جرمن زبان نہ آنے کی وجہ سے شروع شروع میں آپکو بہت سی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔آپ نے بڑے صبر اور ہمت اور دعاؤں کے ساتھ یہ وقت گزارا اور پیش آمدہ حالات کا بڑی ہمت سے سامنا کیا۔آپ نے جرمن زبان سیکھنے کی غرض سے کالج میں داخلہ لے لیا۔ساتھ ہی آپ مختلف جگہوں میں ملازمت کے لئے بھی کوشش کرتے رہے۔آپ نے جماعت کے ساتھ وہاں بھی اپنا تعلق بنائے رکھا۔جماعتی پروگراموں اور مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔آپ 1983ء تک جرمنی میں قیام پذیر رہےاور بعدہ‘ لندن میں ہجرت کر آئے۔1984ء میں لندن میں آپ نے یونائٹیڈ بینک میںملازمت اختیار کی۔اس بینک میں آپ ڈسپیچ سیکشن کے انچارج رہے۔آپ نے بینک میں بہت محنت سے کام کیا ۔جس بناء پر آپ کو ترقی بھی ملتی رہی۔آپ اسی بینک سے 2000ءمیں ریٹائر ہوئے۔آپ 5 سال تک لندن میں سیکرٹری مال مجلس انصار اللہ حلقہ ٹوٹنگ رہے۔اس کے بعد آپ 3 سال تک زعیم انصار اللہ حلقہ ٹوٹنگ خدمت بجالاتے رہے۔
آپ کی شادی 1984ء میں محترمہ ثمینہ خان صاحبہ بنت محترم عبد اللطیف بھٹی صاحب ساکن لندن برطانیہ سے ہوئی۔ محترم عبد اللطیف بھٹی صاحب انتہائی نیک ۔انتہائی ملنسار،ہنس مکھ اور مرنجان مرنج طبیعت کے مالک تھےاور اپنا زیادہ وقت مسجد فضل میں گزارتے تھے۔یہ انگلستان آنے سے قبل کینیا ایسٹ افریقہ میں اپنے کاروبار کی غرض سے مقیم تھے اور آپ کی تمام اولاد افریقہ میں پیدا ہوئی۔انکی چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے جو سب لندن میں آباد ہیں۔کینیا کے حالات خراب ہو جانے کے باعث آپ انگلستان ہجرت کر آئے۔آپ ایک طویل علالت کے بعد اگست 1987ءمیں وفات پا گئے۔
مکرم ذکی احمد صاحب بھی صاحب اولاد ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹا اور تین بیٹیوں سے نوازا۔آپکی بڑی بیٹی عزیزہ نادیہ ذکی زوجہ مکرم کامران حمید نے لاء LLBمیں ڈگری حاصل کی اور اپنی پریکٹس کر رہی ہیں۔بیٹی کے بعدایک بیٹا عزیزم عرفان احمدہے جو کمپیوٹر سافٹ ویئر کی ڈگری لینے کے بعدکسی کمپنی میں ملازمت کر رہا ہے۔دوسری بیٹی عدیلہ خان نےبھی لاء کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدفی الحال عارضی طور پر کسی جگہ ملازمت کرتی ہیں۔سب سے چھوٹی بیٹی عزیزہ مدیحہ خان ابھی لندن میں ہی زیر تعلیم ہیں۔اللہ تعالیٰ میرےبھائی ذکی احمد اور ان کی تمام اولاد کی نیک تمنائیں اور مرادیں پوری کرے اور انکو فعال عمر عطا کرے۔آمین

مکرم ڈاکٹر ندیم اختر صاحب
ڈاکٹر ندیم اخترصاحب ڈاکٹر اعجازالحق خان صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹےاور حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالوی ؓکے پوتے ہیں۔ آپ جنوری 1963ء کو راولپنڈی میںپیدا ہوئے۔آپ کا بچپن اور ابتدائی تعلیم و تربیت راولپنڈی میں ہی ہوئی۔ آپ نے راولپنڈی سے ہومیو پیتھی میں ڈپلومہ حاصل کیااور میونسپل کارپوریشن میں بطور سپریٹینڈنٹ ملازمت اختیار کرلی۔ ملازمت کے ساتھ شام کے وقت آپ اپنے ہومیو کلینک واقع عیدگاہ روڈ میں پریکٹس بھی کیا کرتے ہیں۔ آپ کے ہاتھ میں اللہ نے بہت شفا رکھی ہے۔عرصہ 20 سال سے آپ کی پریکٹس جاری ہے۔آپ کی فیس کم ہونے کی وجہ سے دور دراز سے لوگ آپ سے علاج کروانے آتے ہیں۔آپ پریکٹس کے ساتھ تبلیغ بھی کرتے رہتے،کلینک کی انتظار گاہ میں مریضوں کے پڑھنے کے لئے جماعتی لٹریچر رکھتےاور خود بھی باقاعدگی سے کلینک میں نماز اور تلاوت کا اہتمام کرتےہیں۔اکثررمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بھی کرتے ہیں۔
آپ ہر وقت جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔مکرم ندیم اختر صاحب کو بھی غیر احمدیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔بچپن میں جب وہ چھٹی جماعت(6th class)میں تھے تب ایک غیر احمدی طالب علم کی شکایت پر ایک غیر احمدی استاد نے انہیں تعصب کا نشانہ بنایا ۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں سزا دیا کرتا تھا۔آخر ایک سال مسلسل یہ برداشت کرنے کے بعد انکو اپنا اسکول تبدیل کرنا پڑا۔2007ء میں جب جلسہ سالانہ قادیان میں شرکت کے لئے اپنے دفتر میں چھٹی کی درخواست دی تو باوجود اسکے کہ انکو رخصت کا حق حاصل تھا انکے افسر نے تعصب میں رخصت منظور نہیں ہونے دی۔ 2013ء میں انکی تنخواہ اور ترقی دونوں روک دی گئیں،اور کئی سال انتظار کے بعد جب متعصب افسران بالا دوسری جگہ چلے گئے تب کہیں جاکرترقی ملی۔مخالفت میں اندھے ہوکر دفتر کے غیر مسلم عملہ نے آپ کا ایک لمبے عرصہ تک مقاطعہ رکھا،آپ سے دفتر میں بالکل بات نہیں کی جاتی تھی۔آپ نے نہایت ثابت قدمی سےیہ مخالفت برداشت کی۔لوکل جماعت کو بھی اسکی اطلاع دیتے رہے اور حضور کو بھی باقاعدہ خط لکھتے رہے۔
آپ اکتوبر1996ء میں ڈاکٹر صوفیہ صاحبہ بنت محترم شیخ محمد عبداللہ صاحب ساکن لاہورسے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ جو کہ گزشتہ 16 سال سےزرعی یونیورسٹی اسلام آباد میں ملازمت کررہی ہیں۔ آپ بہت نیک، صوم وصلوٰۃ اور پردے کی پابند خاتون ہیں۔ ڈیوٹی کے دوران بھی پردے کاخاص خیال رکھتی ہیں۔جماعتی تحریکات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ڈاکٹر صوفیہ ندیم صاحبہ امراض نسواں کے ماہرین میں سے ہیں۔آپ کی والدہ صاحبہ احمدی تھیں،اسی وجہ سے آپ اور آپ کے تمام بہن بھائی مخلص احمدی ہیں۔آپ کے بہن بھائی ربوہ میں مقیم ہیں۔آپ کی والدہ فوت ہو چکی ہیں اور والد احمدیت کے بالکل قریب ہیں۔ اپنے خاندانی حالات کی وجہ سے بیعت نہیں کر سکے۔اللہ تعالیٰ جلد ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دے۔
ڈاکٹر ندیم اختر صاحب راولپنڈی میں عیدگاہ روڈ پر واقع والد صاحب کی جائیداد کا کیس جو عدالت میں جاری ہے اس کی سماعت وغیرہ کے لئے جایا کرتے ہیں۔ ہمارے والد صاحب 1953ء میں یہاں آباد ہوئے تھے اور مکان کے ساتھ 7-8کنال زمین بھی الاٹ کی گئی تھی۔ 1966-67 میں ایک غیر احمدی شخص عاصم بشیر نامی کے والد نے ہمارے والد محترم کے خلاف جھوٹا مقدمہ دائر کیا ہوا تھا۔ یہ مقدمہ جعلی کاغذات پیش کرکے کیا گیا تھا۔ اُس شخص کا قریبی بھی اعلیٰ عہدے پر فائز تھا جو کیس کی سماعت کر رہا تھا۔ 23 مئی 2023ء کو عاصم بشیر غندوں اور پولیس کے ساتھ ہمارے گھر میں گھسا اور بھائی ڈاکٹر ندیم اختر کو تمام اثاثہ سمیت گھر سے بے دخل کر دیا اور سامان باہر پھنکوا دیا۔ اور محلہ والوں کو بلاکر یہ کہا کہ آج میں نے مرزائیوں سے آپ کا محلہ پاک کر دیا ہے۔ بھائی ڈاکٹر ندیم اختر نے اس صورت حال کا صبر اور استقلال کے ساتھ سامنا کیا۔ اور اسقدر ظلم کو احمدیت کی خاطر برداشت کرتے ہوئے دوسرے محلہ میں منتقل ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے صبر کی بہتر جزا دے ۔ آمین۔ پاکستان میں احمدیوں کے ساتھ ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ نہ احمدیوں کی جان محفوظ ہے، نہ مال محفوظ ہے، نہ کوئی قانونی تحفظ ہے۔
ڈاکٹر ندیم اختر صاحب راولپنڈی حلقہ شمس آباد کے سیکرٹری وقف جدیداور نائب ناظم صحت جسمانی مجلس انصارللہ ہیں۔آپ ممبر مجلس عاملہ راولپنڈی بھی خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔آپ جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔قادیان کے جلسہ سالانہ میں جب بھی موقعہ ملتا شامل ہوتے رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹے عزیزم سروش ندیم اور صبغت اللہ ندیم سے نوازا ہے جو کہ ہنوز زیر تعلیم ہیں۔ بڑا بیٹا سروش ندیم حفظ قرآن بھی کر رہا تھا مگر صحت کی خرابی کی وجہ سے مکمل نہ کر سکا۔اللہ تعالیٰ انہیں نیک اور خادم دین اور ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔آمین

مکرمہ ناصرہ مشہودصاحبہ
مکرمہ ناصرہ بیگم صاحبہ ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کی بڑی بیٹی اور حضرت ماسٹرمحمد طفیل خان صاحبؓ بٹالوی کی پوتی ہیں۔ آپ فروری 1949ء کو آزاد کشمیر کے شہر چناری میں پیدا ہوئیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم و تربیت راولپنڈی پاکستان میں حاصل کی۔ آپ نے ایف اے تک تعلیم حاصل کی ۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد ووکیشنل کالج میں داخلہ لیا۔وہاں سے آپ نے دو سال ووکیشنل کالج سے فیزیکل کی ٹریننگ مکمل کرکے گورنمنٹ اسکول میں بطور ٹیچر سرو س شروع کر دی۔آپ گورنمنٹ گرلز سکول باغ اور پھر ہجیرہ آزاد کشمیرمیں ایک لمباعرصہ ملازمت کرتی رہیں اور بچیوں کو فزیکل ٹریننگ دیتی رہیں۔ آپ انتہائی محنتی اور ذمہ دار خاتون ہیں۔ آپ پنجوقتہ نماز کی پابند، عزیز و اقارب کا خیال کرنے والی اور کم گوخاتون ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ انتہائی صبر و شکر کرنے والی نیک خاتون ہیں۔
آپ جنوری 1971ء میں مکرم مشہود احمد خان صاحب دہلوی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں ۔شادی کے بعد آپ ایک لمبا عرصہ راولپنڈی میں قیام پذیر رہیں۔آپ کو اللہ تعالیٰ نےچار بیٹیوں سے نوازا۔آپ کے خاوند کی وفات کے بعد آپ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ راولپنڈی میں رہائش رکھی۔آپ نےاپنے بل بوتے پر اپنی بچیوں کی بہترین پرورش کی اور اعلیٰ تعلیم دلوائی۔آپ کی بڑی بیٹی سعدیہ طاہر زوجہ مکرم طاہر خان صاحب ہیں جو اس وقت کینیڈا کے شہر اوٹاوا میں مقیم ہیںاور صاحب اولاد ہیں۔انکے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔آپ کی دوسری بیٹی صائمہ مظہر زوجہ مکرم مظہر الاسلام صاحب ہیں جو برمنگھم برطانیہ میں مقیم ہیںاور صاحب اولاد ہیں۔ آپ کی تین بیٹیاں اور دو بیٹےہیں۔آپ کی تیسری بیٹی عاتکہ صاحبہ زوجہ مکرم ملک عبد الماجد عمیر صاحب ہیںجو اس وقت لاہور میں مقیم ہیںاور صاحب اولاد ہیں۔ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔آپ کی چوتھی بیٹی درثمین خان زوجہ عاصم خان صاحب ہیں جو اس وقت فرینکفرٹ جرمنی میں مقیم ہیںاورصاحب اولاد ہیںان کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب بچوں کو نیک صالح اور خادم دین بنائے۔آمین
آپ کے خاوند محترم مشہود احمد خان دہلوی مرحوم
آپ حضرت ماسٹر محمد حسن آسان صاحبؓ دہلوی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے اور محترم مسعود احمدخان صاحب دہلوی ایڈیٹر الفضل کے چھوٹے بھائی تھے۔آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی ۔آپ نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی شاہ نواز کمپنی کی برانچ ماڈرن موٹرزمیں ملازمت شروع کی اور ساتھ اپنا کاروبار پیڈلو واٹرپروفنگ پاؤڈربنانےکاکام شروع کیا آپ اسکی سپلائی سندھ،کراچی، حیدرآبادمیں کیا کرتے تھے۔آپ اپنا کاروبار کسی اور کے سپرد کرکے یا فروخت کرکے راولپنڈی میں شفٹ ہوگئے۔ راولپنڈی میں آپ نےنیاکاروبار کرنے کا پروگرام بنایا۔آپ نے راولپنڈی صدر کے علاقہ میں ایک آفس بنایا۔آفس میں خود بھی بیٹھتے اور ملازم بھی رکھے۔وہاں امپورٹ ایکسپورٹ کا کام شروع کیاجس میں بھائی ذکی احمد بھی کام کیا کرتے تھے۔آپ ماربل کا سامان، ڈیکوریشن کے آئٹم اور برتن وغیرہ بیرونی ملک دوبئی ، ابوظہبی ،قطراور بحرین بھجوانےکا کام کیا کرتے تھے جو بفضلہ تعالیٰ بہت اچھا چلتا رہا۔مگر پھر بیرون ممالک ایکسپورٹ کئے ہوئے سامان کی رقم بر وقت نہ مل پانےکی وجہ سے کاروبار پراچھااثر نہ پڑا۔مقامی تاجروں کی رقم بر وقت ادا نہیں ہو سکی ،جس کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا۔یہ کام ختم کرکے اسی آفس میں ہی آپ نے امیگریشن کنسلٹینٹ کا کام شروع کیا۔ آپ مین پاور بیرونی ممالک میں بھجوایا کرتے تھے۔ بیرونی ممالک دوبئی ،قطر ،کویت، ابو ظہبی میں کمپنییوں سےرابطہ کرکےمختلف قسم کی مین پاور مثلاً کارپینٹر، الیکٹریشن،لیبر ،ٹیکنیشین،ڈرائیور وغیرہ کو باہر بھجوایاکرتے۔آپ کافی محنت اور مشقت سےکام کیاکرتے تھے۔خود بھی باہر دوبئی کویت وغیرہ کام کے سلسلہ میںجاتےتھے۔آپ جب بیمار ہوئے تو اس بیماری کی وجہ سے آپ کاکام بہت متاثر ہوا۔آپ کی وفات حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے 45 سال کی عمر میںمؤرخہ 8 ؍اکتوبر 1984ء کوراولپنڈی میں ہوئی۔آپ کی تدفین ربوہ میں عام قبرستان میں ہوئی۔
آپ جماعتی کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔آپ صوم و صلوٰۃ کے پابند ،چندے باقاعدگی سے ادا کرنے والے۔ جماعتی تحریکات و تقریبات میں باقاعدگی سے شامل ہوا کرتے تھے۔آپ نہایت ملنسار، ہنس مکھ اور مزاحیہ طبیعت کے انسان تھے۔دل کے حلیم ۔نہایت سخی ،اورہر ایک سےخندہ پیشانی سےملنے والےاور کسی بھی محفل کو اپنی مزاحیہ طبیعت سے لالہ زار بنانے کا فن رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کےدرجات بلند فرمائےاور اعلیٰ علیّین میں مقام عطا فرمائے آمین۔
آپ کے تین بھائی مکرم ودود احمد صاحب،سعود احمد صاحب دہلوی اور محبوب احمد صاحب اور ایک بہن مکرمہصالحہ خاتون صاحبہاہلیہ مکرمشیخ مختار احمد صاحب ساکن راولپنڈی ہیں۔آپ کی دوسری بہن محترمہ بشریٰ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ لطیف صاحب ساکن راولپنڈی ہیں۔مکرم ودود احمد صاحب اور مکرم محبوب احمد صاحب بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے سمدھی بھی ہیں۔آپ کی دو بیٹیاں آپ کے مذکورہ دونوں بھائیوں کے گھر بیاہی ہوئی ہیں۔آپ کے بھائی محترم سعود احمد خان صاحب دہلوی کی بہت خدمات رہی ہیں۔انکی وفات 21 ؍جنوری 2019ء کو ربوہ میں ہوئی۔آپ کی وفات پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ یکم فروری 2019ء میں آپ کا ذکر کرتے ہوئی فرمایا:
’’اب میں ہمارے جماعت کے ایک دیرینہ خادم سلسلہ و بزرگ پروفیسر سعود احمد خان صاحب دہلوی کا ذکر کرونگاجن کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔آپ 21 جنوری کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔آپ کے والد حضرت محمد حسن آسان دہلویؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے۔پروفیسر سعود خان صاحب نے اپریل 1945ء میں وقف کیا تھا۔آپ علیگڑھ سے فارسی میں بی اے آنر تھے۔آپ کے ساتھ آپ کے بھائیوں کے وقف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے1955ء میں ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ ماسٹر محمد حسن آسان صاحب نے ایک ایسا نمونہ دکھایا ہےجو قابل تعریف ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو 1950ء میںغانا مغربی افریقہ میںخدمات دینیہ کے لئے بھجوایا۔1950ء میں مغربی اور مشرقی افریقہ اور ہالینڈ کے لئےآٹھ مبلغین احمدیت کی روانگی کے متعلق تحریک احمدیت میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ 1968ء میں پاکستان واپس آنے کے بعدحضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ نے مکرم پروفیسر سعود احمد خان صاحب دہلوی کو تعلیم الاسلام کالج میں تدریس کی ذمہ داری سونپی۔حضرت خلیفۃ المسیح رابع رحمہ‘اللہ تعالیٰ نے آپ کو جامعہ احمدیہ میں ایک سال کے لئے بطور انگریزی استاد مقرر فرمایا۔آپ کی بیٹی راشدہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ میرے والد صاحب نہایت حلیم الطبع غایت درجہ کے منکسر المزاج اور متبحر عالم تھے،نہایت عبادت گزار،تہجد گزار بزرگ تھے۔نہایت اکرام الضیف کرنے والے متواضع انسان تھے۔‘‘
حضور انور نے فرمایا:
’’حقیقت میں ان کے بارے میں جو لکھا گیا ہے ان کی خوبیاں اس سے بہت زیادہ تھیں۔ خلافت سے انتہائی محبت اور اطاعت کا تعلق تھا اور غیر معمولی معیار تھا۔اللہ تعالیٰ انکی اولاد اور نسل کو بھی خلافت اور جماعت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔اور ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔نماز کے بعد میں انکی نماز جنازہ غائب بھی پڑھاؤںگا۔‘‘

آپ کے داماد مکرم طاہر خان صاحب
آپ ناصرہ مشہود صاحبہ کے سب سے بڑے داماد ہیں ۔آپ کے تین بھائی اور ایک بہن لاہور میں آباد ہیں۔آپ رشتہ میں مکرم مشہود احمد خان صاحب دہلوی مرحوم کے بھتیجے اورمکرم محبوب احمد خان صاحب کےبیٹے ہیں۔ان کا خاندان بھی تقسیم ملک کے بعد دہلی سے ہجرت کرکے لاہور اور کراچی میں آباد ہوا۔ مکرم طاہر خان صاحب لاہور سے شادی کے وقت راولپنڈی میں آکر آباد ہو گئے۔انکی شادی عزیزہ سعدیہ خان سے 1992ء میں ہوئی۔شادی کے بعد آپ ملازمت کے سلسلہ میں اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان سے ابو ظہبی چلے گئے۔وہاں آپ کو ایک بینک میں اچھی ملازمت مل گئی۔تقریباً20 سال آپ نے ملازمت کی۔عزیزہ سعدیہ خان نےجو کہ ماہر بیوٹیشین ہیں ، اپنے گھر میں بھی اور گھر کے نیچے پارلر میں بھی اپنا کام کیا کرتی تھیں۔ ابوظہبی میں چونکہ مخالفت کا ہر وقت خطرہ بنا رہتا تھا اس لئےایک لمباعرصہ وہاںرہنے کے بعد یہ اب کینیڈا کے شہر اوٹاوا میں رہائش پذیر ہیں۔
ناصرہ مشہود صاحبہ کے داماد مکرم طاہر خان صاحب کے والد مکرم محبوب خان صاحب مؤرخہ 13؍مارچ 2021ء کو لاہور میںوفات پاگئے ۔آپ کی عمر 88سال تھی۔ آپ موصی تھے آپ کو ربوہ میں بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ مرحوم نہایت ہمدرد، شفیق ،عبادت گزار اور دعاگو بزرگ تھےاخلاق ووفا اور نظام کی اطاعت کا ایک مثالی نمونہ تھے۔رات کو پچھلے پہر اُٹھ کر جماعت کے لئے بالخصوص اور بالعموم خاندان کے لئے فرداً فرداً دعائیں کیاکرتے تھے۔یہ اُن کا روزانہ کا معمول تھا۔ تمام خاندان نےان کی جدائی کے صدمہ کو یکساں طور پر محسوس کیا۔آپ کے دادا حضرت محمد حسن آسان صاحبؓ کی عمر اس وقت دس سال کی تھی جب حضرت مسیح موعودؑ نے خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایا اس وقت مسجد اقصیٰ قادیان میں وہ بھی موجود تھے۔آپ کی اولادمیں بیٹا ناصر خان لاہور میں،محمدطاہر خان کنیڈا میں،محمد عامر خان نیوزی لینڈ میں اور بیٹی امتہ السبوح زوجہ ڈاکٹر عمران (فضل عمر ہسپتال )ربوہ میںمقیم ہیں۔طاہر خان صاحب پیشہ کے لحاظ سے سول انجینئر تھے۔کراچی میں جماعتی تعمیرات میں خدمت کی توفیق ملتی رہی۔پشاور روڈ ،راولپنڈی اور ماڈل ٹائون لاہور میں بھی 35سال سے بطور سیکرٹری مال کی خدمت کی توفیق ملی۔اللہ تعالیٰ ان کو اوران کی اولاد کو اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو آئندہ نسلوں میں جاری رکھنے کی توفیق دے ۔آمین

آپ کے داماد مکرم مظہر الاسلام صاحب
مکرم مظہر الاسلام صاحب کے والد محترم چوہدری ظفراللہ خان صاحب کا تعلق چہور مغلیاں ضلع شیخوپورہ سے ہے۔ محترم چوہدری ظفراللہ خان صاحب کےدادا حضرت چوہدری اللہ بخش صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھےاور حضور اقدسؑ سے آپ کو بہت عقیدت اور محبت تھی۔اپنی اولاد اور نسل میں بھی اس عقیدت کو سرایت کرنے کے لئے بہت دعائیں کرتے اور ساری عمر کوشاں رہے۔انہیں تبلیغ کا بھی انتہائی شوق تھا۔
مکرم مظہر الاسلام صاحب کے چار بھائی اور چار بہنیں ہیںجو کہ پاکستان اور انگلستان میں مقیم ہیں۔آپ کا ایک بھائی آسٹریلیا میں رہائش پذیر ہے۔آپکی ایک بہن لندن میں اور ایک برمنگھم میں مقیم ہیں۔آپ اپنے بزرگوں کی مانند ہی سلسلہ کے مخلص اور خلافت کے شیدائی ہیں۔اس وقت اپنی فیملی کے ساتھ برمنگھم میں مقیم ہیں ۔ آپ کی اولادمیں دو بیٹے اور تین بیٹیاں زیر تعلیم ہیں۔آپ کی زوجہ صائمہ مظہر بچوں کے ساتھ برمنگھم میں رہائش پذیر ہیں۔آپ اپنے بزرگوں کے مانند ہی سلسلہ کے مخلص اور خلافت کے شیدائی ہیں۔جماعتی خدمات کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔آپ کے بچوں میںمستنصرمظہر،فاران مظہر،عائشہ مظہر،عافیہ مظہر ،عالیہ مظہراور امۃ الدانیہ ہیں۔عزیزم مستنصر مظہر جامعہ احمدیہ یوکے میں زیر تعلیم ہے۔

آپ کے داماد مکرم ملک عبد الماجد عمیر صاحب
مکرم ملک عبد الماجد عمیر صاحب کے والد کا نام ملک عبد القادر صاحب ہے۔آپ کا تعلق تقسیم ملک سے قبل قادیان کے شمالی گائوں ’’کھارا‘‘ سے تھا۔آپ چار بھائی اور دو بہنیں ہیں۔آپ کا خاندان تقسیم ملک کے بعد ہجرت کرکے لاہور میں آباد ہوا۔آپ کے دو بھائی ملک عبد السمیع سہیل صاحب اور ملک عبد الخبیر صاحب اب لندن برطانیہ میں مقیم ہیں۔اور چھوٹا بھائی ملک عبدالرئوف عنان کینیڈا کے شہر کیلگیری میں رہائش پذیر ہے۔آپ کی شادی عزیزہ عاتکہ سے دسمبر 2002ء میں ہوئی۔
ملک عبد الماجد عمیر صاحب لاہور چھائونیمیں رہائش پذیر ہیں۔آپ امیگریشن کنسلٹینٹ ہیں۔آپ کا آفس بھی لاہور میں ہی ہے۔ آفس میں بڑی تعداد میں ملازمین کام کرتے ہیں۔ آپ خود بھی بیرون ملک کینیڈا،امریکہ اور برطانیہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ آپ نے اپنی رہائش سے 25 کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک فارم ہائوس جو 15ایکڑ زمین پر محیط ہے، بنارکھا ہے۔ جس میں آپ نے مختلف قسم کے پھلوں کے درخت مثلاً امرود، مالٹا،کِنّوںوغیرہ بڑی تعداد میں لگا رکھے ہیں۔ زمین کے کچھ حصہ میں سبزیاں بھی کاشت کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پالتو جانور مثلاً بھینس،گائے ،بکریاں،اونٹ اور مرغیاں،مختلف قسموں کے پرندے، مرغابیاں، طوطے، شتر مرغ وغیرہ بھی پال رکھے ہیں۔بچوں کی تفریح کے لئے بندر بھی پالا ہوا ہے۔ فارم ہائوس میں پانی کا ایک تالاب ہے جس میں مچھلیاں بھی پالی جاتی ہیں۔ فارم ہائوس میں بھی ملازمین کی ایک بڑی تعداد دن رات کام کرتی ہے ۔ہرہفتہ کے آخر میںیہاں عزیزواقارب اور دوست احباب کے لئے تفریح کا پروگرام بنایا جاتا ہے۔ باربی کیو اور کھانے ،چائے وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جماعتی پروگرام ،حلقہ کے اجلاس اور نمازیں باجماعت ادا کی جاتی ہیں۔لجنہ ، انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے پروگرام بھی ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کے پاس لاہور کے علاوہ دوسرے شہر ربوہ اور راولپنڈی سے بھی دوست احباب قیام کرتے ہیں۔
بیرون ملک کینیڈا ،امریکہ،برطانیہ،اور جرمنی سے احباب جماعت جب پاکستان میں آتے ہیں تو آپ کے ہاں قیام کرتے ہیں اور فارم ہائوس کے پروگرام میںبھی شامل ہوتے ہیں۔جس کی وجہ سے کافی رونق ہوجاتی ہے احباب کا ایک دوسرے سے تعارف اور جماعتی وعلمی معلومات ہوتی ہیں ۔بعض اوقات غیراز جماعت کو بھی دعوت دی جاتی ہے۔اس طرح تبلیغ کا بھی موقع ملتا ہے۔
ملک عبد الماجد عمیر صاحب انتہائی مہمان نواز، ملنسار ،نیک طبیعت اور ہمدرد انسان ہیں۔ آپ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے میں کسی قسم کی کمی نہیں ہونے دیتے۔آپ علاقہ میں اثر ورسوخ رکھنے والے اور دوستوں کے ساتھ دوستی نبھانے والے انسان ہیں۔ آپ غرباء اور بے روزگاروں کی ہر ممکن مدد کرنے والے ہیں۔آپ کے گھر کے دروازے عزیزواقارب اوردوست احباب کے لئے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ آپ سب کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے خوش آمدید کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کی بے انتہا نعمتوں سے نوازا ہوا ہے اور آپ بھی خدا کی راہ میں دونوں ہاتھوں سے خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اسی طرح انسانیت کی خدمت کرنے کی توفیق دیتا رہے ۔آمین
اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بچوں سے نوازا۔بیٹا ابراہیم ملک اور بیٹی شانزے ملک۔دونوں بچے زیر تعلیم ہیں۔
ٓٓ
آپ کےچھوٹے داماد مکرم عاصم خان صاحب
مکرم عاصم خان صاحب ناصرہ مشہود صاحبہ کے سب سے چھوٹے داماد ہیں۔آپ حضرت ماسٹر محمد حسن آسان صاحبؓ کے پوتے اور ودود احمد خان صاحب کے بیٹے ہیں۔آپ کے والد صاحب نے کیمسٹری میں ماسٹر کیا اور 1987ء تک P.C.S.I.Cمیں ملازمت کرتے رہے۔مکرم عاصم خان صاحب کراچی سے 1994ء میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہاں ہی ملازمت کرتے رہے۔اور اگست 2002ء کو درّثمین صاحبہ کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔آپ 2004ء میں جرمنی منتقل ہو گئے۔اور وہاں الیکٹرونک انجینئرنگ کے شعبہ میں ملا زمت کرتے رہے۔آپ نے 2006ء سے لیکر2011ء تک GAMOREمیں انجینئرنگ کے شعبہ میں بطور اپریشن اور ریموٹ کنٹرول سپیشلسٹ کام کیا۔پھر آپ نےA.V.Lمیں بطور سنیٹر سروس انجینئرنگ ایک لمبا عرصہ کام کیا۔جرمنی میں آباد ہونے کے بعد انوائرنمنٹ ڈیپارٹمینٹ میں کام کرتے رہے۔اور 2013ء میں آپ نے ریٹائرمنٹ لی۔آپ کو مختلف جماعتی خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی۔زعیم حلقہ،ناظم اطفال،سیکرٹری مال ،سیکرٹری تعلیم اپنے حلقہ آفن باغ میں خدمات سرانجام دیں۔اب آپ جرمنی کے شہر کوبلن میں اپنے والدین کے ساتھ آباد ہیں۔آپ کی دو بیٹیاں عطیۃالاوّل اور عائشہ صدیقہ زیر تعلیم ہیں ۔ایک بیٹا اعظم خان ہے۔دعا ہے کہ اللہ ان کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور خدمات سلسلہ کی توفیق دیتا چلا جائے۔آمین

مکرمہ قرۃ العین صاحبہ
ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی اور خاکسار کی چھوٹی بہن قرۃ العین صاحبہ ہیں جو حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ کی پوتی ہیں۔آپ 1965ء میںراولپنڈی میں پیدا ہوئیں ۔ آپکی ابتدائی تعلیم وتربیت راولپنڈی میں ہوئی۔بچپن کا زمانہ بھی یہیں گزرا۔ آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی اور تعلیم کے ساتھ ساتھ ووکیشنل سکول سے سلائی کڑھائی بھی سیکھی ۔آپ گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ جماعتی کاموں میںبھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتی تھیں۔ آپ 1990 ءمیں اپنے بھائی اطہر محمود ، شوکت محمود اور ذکی احمد کے پاس لندن برطانیہ آئیں اور ایک سال تک لندنمیںقیام کیا ۔بھائیوں نے آپ کا یہاں بہت خیال رکھا اور چھوٹی بہن ہو نے کےناطے بہت پیار دیا ۔ لندن قیام کے دوران آپ نے کچھ عرصہ ملازمت بھی کی۔ آپ کا ارادہ لندن میں مستقل قیام کرنے کا تھا جس کے لئے ویزے کی درخواست بھی دی۔ مگر ویزہ ریفیوز ہو گیا۔بامر مجبوری لندن سے واپس پاکستان آنا پڑا۔
لندن سے واپس آنے کے بعد آپ سخت ڈپر یشن کی شکار ہو گئیں جو کہ علاج کے باوجود آہستہ آہستہ بڑ ھتا چلا گیا۔مختلف ڈاکٹروں اور اسپیشلسٹ سے علاج کروایا گیا۔ طرح طرح کی ادویات استعمال کی گئیں۔ان سے وقتی فائدہ توہوا مگر کوئی علاج مؤثر ثا بت نہ ہوا ۔ ایک قابل احمدی ماہر نفسیات ڈاکٹر محمود الحسن صاحبکی بھی خدمات لی گئیں ۔چھ ماہ تک علاج بھی ہوا مگر کوئی آفاقہ نہ ہوا ۔ ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ ان کو لاہور کے دماغی امراض کے ہسپتال میں داخل کر دیا جائے ۔چنانچہ ایساکیا گیا اور ایک سال تک آپ وہاں داخل رہیں ۔وہاں خوراک علاج اور رہائش کابہتر انتظام تھا ،جس کی ماہوار ادائیگی کی جاتی رہی ۔ چنانچہ وہاں کے علاج سے حا لت بہتر ہو گئی اور ان کو ڈسچا رج کر دیا گیا ۔چند ماہ ٹھیک رہنے کے بعد دوبارہ اسی حالت پر آ گئیں جو پہلے تھی۔اب یہ صورت حال ہے کہ جب تک دوا لیتی رہتی ہیں حالت ٹھیک رہتی ہےاور دوائی چھوڑتے ہی حالت بگڑ جاتی ہے۔اب بھی علاج لاہور میں جاری ہے۔اللہ تعالیٰ میری اس بہن پر رحم فرمائے اور اسے جلد شفائے کاملہ عطا کرے ۔آمین ۔
آپ ایک لمبے عرصہ سے اپنےبھائی وقار عظیم صاحب کے زیر کفالت ہیں ۔جو آپ کی مستقل دیکھ بھال کر رہے ہیں اور ہر طرح سےخیا ل رکھنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ ہمارے اس بھائی نے واقعی اپنی بہن کی کفالت ماں باپ بن کر کی ہے۔اللہ تعالی وقا ر عظیم صاحب کی اس قر بانی کو قبول فرمائے اور اس کی بہترین جزا عطا فر مائے ۔ آمین
لاہور میں انکی بھانجی عاتکہ ماجد اور ان کے خاوند انکی دیکھ بھال کر رہےہیں۔اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جزائے خیر دے۔

باب چہارم
کچھ اپنےاوراپنےاہل و عیال کےبارہ میں

میری رفیقِ حیات نجم النساء صاحبہ مرحومہ

نجم النساء صاحبہ مرحومہ کا تعلق چنیوٹ سے تھا۔آپ کی پیدائش دسمبر1950ء میں ربوہ میں ہوئی۔آپ چنیوٹ جماعت کے صدر محترم سردار عبدالقادرصاحب مرحوم کی بیٹی اور سابق مبلغ انگلستان محترم سردار مصباح الدین صاحب کی پوتی تھیں۔ آپ نے ابتدائی تعلیم چنیوٹ میں حاصل کی ۔آپ نےچنیوٹ سےہی مڈل کے وظیفے کا امتحان دیا اورضلع جھنگ میں اوّل پوزیشن حاصل کی۔آپ نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔خاکسار کا ان سے نکاح اگست 1972ء میں مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ محترم دین محمد شاہد صاحب نے بعوض 500 روپیہ حق مہرکوہ مری میں پڑھایا۔ تقریب نکاح سَنی بنک کے مقام پر عمل میںآئی۔جبکہ رخصتی اسکے پانچ ماہ بعددسمبر 1972ء کے آخر میںربوہ سے ہوئی ۔تقریب رخصتانہ میں افراد خاندان میں حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ اورمرزارفیع احمد صاحب نے شرکت فرمائی۔ حضرت مرزا طاہر احمدصاحبؒ نے اس موقعہ پر دعا کروائی اورنیک تمنائوں کے ساتھ دلہن کو رخصت کیاگیا۔
شادی کے بعد ہم نے راولپنڈی عیدگاہ روڈ پر واقع اپنے مکان میں رہائش رکھی۔ہماری تین بیٹیاں عزیزہ اسماء ظفر،تہذیبیہ ظفراور وجیہہ ظفرراولپنڈی میں پیدا ہوئیں۔خاکسار کا میڈیکل کا کاروبار باغ آزاد کشمیر میں تھااس وجہ سےخاکسار کا قیام بھی وہاں ہی تھا،راولپنڈی چونکہ نزدیک تھا لہٰذا وہاں آنا جانا رہتا تھا۔ ہماری بچیاں اپنی والدہ کے ساتھ راولپنڈی میں ہی رہتی تھیں۔آزادکشمیر میں آپ بچیوں کو ساتھ لیکر جب بھی دل چاہتا میرے پاس آ جاتی تھیں۔ گرمیوں کے موسم میںجب بچیوں کی چھٹیاں ہوتی تھیںتب آپ لمبے عرصہ کے لئے آ جایا کرتی تھیں۔
آپ اپنے ساس سسُر کا بہت خیال رکھنے والی تھیں،اُن کے ساتھ بیٹی جیسا تعلق تھا۔اپنے والدین کا بھی آپ بہت خیال رکھتیں ۔ والدین کے متعلق اکثر کہا کرتی تھیںکہ ان کی اطاعت سےخدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ آپ اپنے بہن بھائیوں ،عزیزواقارب کے ساتھ تعلق استوار رکھتی تھیں۔آپ اپنے حسن سلوک کے ذریعہ خاندانی رشتہ داری کے بندھنوں کو مضبوط رکھنے کے فن میں ماہر تھیں۔شادی کے بعد آپ نے خط و کتابت کے ذریعہ تمام عزیز و اقارب سےرابطہ رکھا۔لیبیا اور لندن قیام کے دوران بھی خط و کتابت کے علاوہ فون کے ذریعہ عزیز و اقارب سے تعلق میں رہتی تھیں۔اپنے بہن بھائیوں کے علاوہ اپنے سسرال والوں سے بھی رابطہ رکھا کرتی تھیں۔جب ہمارے والد محترم لاہور یا فیصل آباد اپنے بہن بھائیوں سے ملنے جاتے تو اپنی بہو نجم النساء کے وہ خط بھی ساتھ لے جاتے جو وقتاً فوقتاً انکو مرحومہ لکھتی تھیں۔والد صاحب انکے خط بہت خوش ہو کر اپنے بہن بھائیوں کو دکھایا کرتے کی میری بہو بذریعہ خط مجھ سے رابطہ رکھتی ہے اور میرا حال چال پوچھتی رہتی ہے۔جتنی عزت اور پیار مرحومہ کو اپنے سسرال میں حاصل ہوا اتنا کسی اور بہو کے حصہ میں نہیں آیا۔آپ کا ہر خط ہاتھ سے لکھا ہوا نہایت خوشخط ہوتا۔ان خطوط کا مضمون ہمیشہ روحانی،افسانہ نگاری،عمومی دلچسپ امورپر مشتمل ہوتا ،جنکا مقصد اپنے معمولات سے آگاہ کرنا اور مخاطب کے حالات کو معلوم کرنانیزہر خوشی کے موقعہ پر مبارکباد دینا اور مخاطب کے غم پر افسوس کرتے ہوئے اس کا غمگسار بنناتھا۔خط و کتابت کا یہ سلسلہ کبھی بند نہ ہوتا۔
مرحومہ خاکسار کےوالد صاحب کی بہت عزت اور قدر کرتی تھیں۔اور انکی نیک عادات اور خصائل نیز عبادت گزاری کا تذکرہ اکثر اپنے خاندان میں کیا کرتی تھیں۔علاوہ ازیںجماعتی تقریبات اور لجنہ کے پروگراموںمیں ہمیشہ شامل ہوا کرتی تھیں۔آپ پردہ کی بہت پابند تھیں۔آپ نہایت نفاست پسند خاتون تھیں ،صفائی اور اپنے لباس کا خاص خیال رکھتیں۔ آپ کی شخصیت کا ہر پہلو دلکش تھا۔ آپ کے ساتھ ہرملنے والادوبارہ ملنے کی خواہش رکھتاتھا اور آپ لجنہ میں کافی مقبول تھیں۔سب کے ساتھ نہایت خلوص اور محبت سے ملتیں اور بے حد مہمان نواز تھیں۔ گھر کے گردونواح ہمسایوں غریبوں کا بہت خیال رکھتیں۔ گھر میں جو بھی کھانا پکتا ہمسایوں کو ضرور بھجواتی تھیں۔اپنی ہمت و طاقت سے بڑھ کر سب کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آتیں۔
آپ نے اپنی اولاد کی بچپن اور جوانی میں تعلیم و تربیت نہایت احسن رنگ میں کی۔کسی امر میں اگر کسی میں کمی نظر آئی تو اسے ضرور متوجہ کرتیں۔ آپ کی ساری اولاد صوم و صلوٰۃ کی پابندہے۔ آپ نے اپنے بچوں کو زمانہ کے مہلک اثرات سے محفوظ رکھا۔ تربیت کے معاملہ میں کبھی بیٹا یا بیٹی کا لحاظ نہ کرتیں۔آپ نے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم پر بھی خاص توجہ دی۔ سب بچوں کو خود بڑی توجہ سے ناظرہ قرآن کریم پڑھایا۔اپنی اولاد کونمازاور روزے کا پابند بنایا۔ بچوں کو اچھے بُرے کا فرق اور سوسائٹی میں کن لوگوں سے ملنا ہےاور کیسے رہنا ہےسکھایا۔آپ نے اس رنگ میں بچوں کی تربیت کی کہ آج ہمارےسب بچے سلسلہ سے سچی محبت کرنے والے وجود ہیں۔ آپ گھر میں لجنہ کا اجلاس کرواتیں، تلاوت، نظم اور تقریر کے لئے بچوں کو تیاری کروایا کرتیں۔ ہماری سب سے چھوٹی بیٹی ماریہ ثاقب کی آوازبہت سُریلی ہےاور وہ ایم ٹی اے کےپروگراموں میں نظمیں پڑھتی ہے۔مرحومہ خود بھی بڑی باذوق تھیں اور تلاوت،نظم اور تقریر کا بڑا شوق رکھتی تھیں۔ ہمیشہ لجنہ کے مقابلہ جات میں خود بھی فرسٹ یا سیکنڈ پوزیشنحاصل کرتی تھیں۔ آپ کی آوازبھی بہت سُریلی تھی اور اس آواز میں ایک جادو تھا۔ آپ ہر وقت ہنستی مسکراتی رہتیں ،چہرے پر کبھی غصہ نہیں آتا تھا۔آپ ایک مثالی ماں تھیں ۔ بچوں کو ہمیشہ پیا ر دیا، کبھی سختی نہیں کی۔ بچوں سے کبھی خد مت نہیں کروائی بلکہ خود ساری عمر اِن کی خدمت کی۔
بعض انتہائی سخت اورمشکل حالات میں بھی صبر اور شکر کا دامن نہیں چھوڑا۔اچھے اور برے ہروقت کو صبر اور شکرسے گزارتیں۔آپ کے تعلقات ہر فرد سے بہت اچھے تھے کبھی کسی سے کوئی ناراضگی نہیں ہوئی۔ بچوں کو ہمیشہ یہی نصیحت کرتیں کہ جماعت اور خلافت سے مضبوط تعلق قائم رکھنے میں ہی برکت ہےاور اسی سے دنیاوآخرت سنبھل جائے گی۔ بچوں کی ہر قسم کی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتیں۔ اذان کی آواز سنتے ہی نماز کے لئے مسجد بھجواتیں۔آپ کہا کرتی تھیں کہ وقف زندگی کی برکت سے تنگدستی کشائش میں بدل جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ہی واقفِ زندگی کی حفاظت اور کفالت فرماتا ہے۔مرحومہ کے نواسے، نواسیاں، پوتے اور پوتی سب وقف نو کی مبارک تحریک میں شامل ہیں۔
آپ کی خواہش تھی کہ ہمارے سب بچے رات دن خدمت دین کریں۔اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ خواہش اس طرح پوری کی کہ ہماری بڑی بیٹی اَسما ایک لمبے عرصے سےلجنہ کی ڈاک ٹیم میں خدمت کر رہی ہے۔ دوسری بیٹی تہذیبیہ اپنے حلقہ رین پارک کی صدر لجنہ ہونے کہ ساتھ ساتھ لجنہ کی سیکیورٹی ٹیم میںبھی شامل ہے۔ تیسری بیٹی وجیہہ جنرل سیکریٹری حلقہ مسجد ویسٹ ہِل ہے اور چوتھی بیٹی ماریہ ثاقب سیکریٹری تبلیغ کے فرائض انجام دے رہی ہے۔جبکہ بیٹاعمران ظفرنائب قائدمجلس خدام الاحمدیہ حلقہ انر پارک 2001ء سے2002ءتک رہاہے۔2001ءسے2003ء تک سیکریٹری عمومی حلقہ رہا۔ اس کے بعد ریجنل سیکریٹری عمومی مقامی اور ایڈیشنل مہتمم عمومی یوکے رہااور 2006ء تا 2021ءبطور مہتمم عمومی یوکے خدمت کی توفیق ملی۔اور سال 22-2021ءمیں بطور نائب صدر خدام الاحمدیہ یوکے خدمت کی توفیق ملی۔ اور اب انصارللہ میں جانے کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسے سیکیورٹی اڈوائزر مقرر فرمایا ہے۔اور انصارللہ یوکے کی مجلس میں بطور قائد تربیت نو مبائعین کے خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ابھی حال ہی میں سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عمران ظفر کو یوکے میں موجود جماعت کی مسجدوں، مشن ہائوسز اور دیگر جماعتی پراپرٹیزکی حفاظت کے لئےHEAD OF SECURITY مقرر فرمایا ہے۔الحمد للہ۔
آپ کو اپنے بیٹے عمران سے خاص پیار تھا۔ اکیلا ہونے کی وجہ سے خاص خیال رکھتیں۔ اسکے سکول کے زمانے سے ہی اسکےدوستوں پر خاص نظر رکھتیں کہ کس قسم کے دوست ہیں۔ہمیشہ بیٹے کو سمجھایا کرتی تھیں کہ اچھے نیک شریف دوستوں کے ساتھ کھیلاکرو۔ان کی ہمیشہ خواہش رہی بچوں کا زیادہ تعلق جماعت سے رہے نیز یہ کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔بچےجب بھی اجتماعات سے انعام حاصل کر کےگھر لاتے تو بہت خوش ہوتیں۔انگلستان آنے کے بعد جب بیٹے کو جماعتی خدمات کی توفیق ملنی شروع ہوئی تو آپ بہت خوش ہوئیں۔ان کی بیماری کے دوران ہی ان کے بیٹے عمران ظفر کو عمومی کاعہدہ دیا گیا ۔اس وقت ان کی خوشی قابلِ دید تھی۔ اپنی دعاؤں کی قبولیت اور اپنے خوابوں کی خوبصورت تعبیر سے آپ بہت خوش تھیں۔ ان کی دوسری خواہش بھی اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی اور ان کی وفات کے بعدعمران نے کالج میں خوب محنت سے پڑھائی کی اور اچھے نتائج سے کالج پاس کر کے چار سال یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ڈگری حاصل کی۔
مرحومہ نے اپنے بچوں کے ساتھ حج اور عمرہ کی بھی سعادت پائی۔بچوں کو حج کےاحکامات اور مناقب کے متعلق انہوں نے ہی بتایا۔ آپ گھر میں کبھی فارغ نہ بیٹھتی تھیں ۔سلائی کاکام باقاعدگی سے کرتیں اور سلائی میں کافی مہارت رکھتی تھیں ۔کوئی بھی ڈیزائن دیکھتیں تو اسےفوراً بنا لیتیں۔ اپنے اور بچیوں کے کپڑے بھی خود تیار کرتیں۔ ملنے ملانے والوں کو بھی کپڑے سی دیتی تھیں۔ آپ رات کو سونے سے قبل میگزین اور اخبارات کا مطالعہ باقاعدگی سے کرتی تھیں۔
آپ کے خاندان میں احمدیت آپ کے دادا محترم سردار مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلستان کے ذریعہ آئی ۔آپ 1899ء میں پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق سیالکوٹ سے تھا۔آپ کے والد مکرم مہتاب الدین صاحب کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے مصباح الدین صاحب اور سراج دین صاحب کو ہی امام مہدی کو پہچاننے کی سعادت نصیب ہوئی۔دونوں بھائیوں نے خلیفۃ المسیح الاوّل ؓکے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور قادیان میں تعلیم الاسلام اسکول سے تعلیم حاصل کی۔آپ خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی تحریک پر زندگی وقف کرکے لندن انگلستان گئے تھے۔لندن جانے سے قبل آپ سیالکوٹ سےقادیان اپنی فیملی کے ساتھ آباد ہو چکے تھے۔آپ کا خاندان تقسیم بر صغیر کے بعدقادیان سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پرچنیوٹ میںآکر آباد ہوا۔ مر حومہ نجم النساء ظفر کے والد محترم سردار عبد القادر صاحب کے بارہ میں پہلے بھی ذکر آ چکا ہے۔آپ کے تایا سردار عبدالسبحان صاحب سامی مرحوم آف کراچی تھے۔آپ کے بڑے چچا محترم بشیر الدین صاحب سامی آف لندن تھے جواخبار الفضل کے لندن آفس میں کافی عرصہ خدمت انجام دیتے رہے ہیں۔آپ کےدوسرے چچا محترم ناصر الدین صاحب سامی مرحوم آف چنیوٹ تھے، جو کچھ عرصہ چنیوٹ کے امیربھی رہے،لیکن مخالفت کے پیش نظر چنیوٹ کا گھر فروخت کرکے ربوہ میں منتقل ہوگئے۔آپ کے تیسرے چچامحترم ظفر اقبال صاحب مرحوم فرینکفرٹ جرمنی تھے۔ چنیوٹ میںاحمدیت کی وجہ سے آپ کے خاندان کوبہت تکلیفیں اٹھانی پڑیں۔ 1974ءکے فسادات میں آپ کے گھروالوں کودھمکیاں ملتی رہیں،بائیکاٹ کیا گیا، کاروبار کو ختم کیا گیا۔ سخت ترین حالات کے باوجودآپ کا خاندان وہاں ثابت قدم رہا۔
مر حومہ نجم النساء ظفر کی تین بہنیں اور تین بھائی ہیں۔ ایک بہن پاکستان میں ہیں۔انکے علاوہ سب بیرون پاکستان آباد ہیں۔ بھائیوں میں مکرم عبد الشکورسہیل شاہ صاحب مرحوم فرینکفرٹ جرمنی، مکرم عبد الصبور سلیمان شاہ صاحب فرینکفرٹ جرمنی اور مکرم عبد القدوس عامر شاہ صاحب لندن برطانیہ ہیں۔بہنوں میں مکرمہ وقار النساء صاحبہ مرحومہ اہلیہ مکرم مرزا ظہور احمد صاحب مرحوم کراچی اورمکرمہ قمر النساء صاحبہ اہلیہ مکرم قاضی مبشر احمد صاحب جھنگ ہیں۔

داغِ مفارقت
مر حومہ نجم النساء ظفر کو 2002ء میںسردرد کے ساتھ اچانک برین ہیمرج کی تکلیف ہوئی، ہسپتال لے جانے پر چند گھنٹے بے ہوشی کی حالت میں رہنے کے بعدآپ مؤرخہ12؍ اگست 2002ءکو اس جہان فانی سے رحلت فرما گئیں ۔اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
آپ کی وفات پر احباب جماعت کے علاوہ ملنے والی مستورات کثیر تعداد میں تھیں۔ ہرعورت اشکبار تھی۔ نماز جنازہ میں کثرت سے لوگ شامل ہوئے۔ عزیزواقارب کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ تعزیت کے لئے آئے۔ لجنہ میں مقبول ہونے کی وجہ سے وفات کے کئی سال گزرنے کے بعد بچوں کو لجنہ کی ممبرات جب ملتیںتو کہتیں کہ آپ کی امی کو ہم نہیں بھول سکتے،نجمی تو ہروقت دل میں رہتی ہے۔

مرحومہ کی سوشل اور جماعتی خدمات
آپ لجنہ کے پروگراموں میں تلاوت اور نظموں و تقریری مقابلوں میں اکثر حصہ لیا کرتی تھیں۔آپ اپنے حلقہ کے جماعتی پروگراموں میں غیر از جماعت بچیوں کو بھی ساتھ لے جاتیں۔اپنے گھر میں ہونے والے لجنہ کے پروگراموں میں انہیں شامل کرتی تھیں۔غیر از جماعت عورتیں اور بچیاں ہمارے پروگراموں میں شامل ہو کر بہت خوش ہوا کرتی تھیں۔اس طرح تبلیغ کا موقعہ بھی ملتا ۔آپ نے اسکول کے زمانہ سے ہمیشہ اچھی اور پڑھی لکھی عورتوں سے میل جول رکھا۔آپ کا مستورات سے تعلق کا دائرہ کافی وسیع تھا۔1973ء میں آزاد کشمیر کے الیکشن ہونے والے تھےجن میں ہم سب نے اپنے ووٹ کا استعمال کرنا تھا۔آزاد کشمیر کی سیاسی پارٹی ’’آزاد مسلم کانفرنس‘‘ کے صدر سردار محمد ابراہیم خان تھے۔انکی پارٹی کے امیدوار سردار مقبول احمد خان جو کہ مہاجرین آزاد جموں و کشمیر کی سیٹ کے لئے الیکشن کمپیننگ کر رہے تھے۔اس موقعہ پر عورتوں نے بھی ووٹ کا استعمال کرنا تھا۔نجم النساء مرحومہ نے بہت کام کیا اور عورتوں کے تمام ووٹ ہمارے امیدوار کو ڈلوائے گئے۔
لیبیا میں قیام کے دنوں کی بات ہےکہ وہاں پاکستانی عورتوں کی تنظیم ’’اپّوا‘‘(All Pakistan Women’s Association)جسکی بنیاد بیگم لیاقت علی خان محترمہ رعنا لیاقت علی مرحومہ نے رکھی تھی،قائم ہے۔اس تنظیم کی صدر لیبیا میں سفیر پاکستان کی بیگم ہوتی تھیں۔اس تنظیم کی شاخیں دیگر ممالک میں بھی قائم ہیں۔اس تنظیم میں احمدی اور غیر احمدی سب ممبرات ہوتی تھیں۔اس تنظیم کا ہر ماہ یکم تاریخ کو اجلاس ہوتاجس میں تلاوت قرآن کریم،نظم اور تقریری مقابلے ہوتے تھے۔اس موقعہ پر نجم النساء مرحومہ بھی اپنے اردو لکھنے اور پڑھنے کے خاص ملکہ کی بدولت حصہ لیا کرتی تھیں۔آپ مضامین نگاری کے علاوہ شاعری بھی کیا کرتی تھیں اور موقعہ اور محل کی مناسبت سے فی البدیہہ تقریر کا بھی ملکہ رکھتی تھیں۔مرحومہ اپنی ذات میں ایک عاجز انسان تھیں۔خدا تعالیٰ نے اسے بڑے کام کے لئے چنا تھا۔وہ ہمیشہ ہماری یادوں میں زندہ رہیں گی۔
عورت قابل عزت واحترام ہے مگر ماں کا ر‘وپ دھار کر عورت اپنی عظمت کی معراج کو پہنچ جاتی ہے۔خدا تعالیٰ جب عورت کو ماں بننے کی بشارت دیتا ہے تو اس کے قدموں تلے جنت بھی رکھ دی جاتی ہے۔ گویا اولاد کی جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ جس گھر میں ماں کا وجود نہ ہو وہ گھر قبرستان لگتا ہے۔آخر میں خاکسار کا دل خوشی اور مسرّت سےسرشار ہےکہ بیگم کی زندگی کی جو خواہش تھی وہ بچےپوری کرنے کی توفیق پا رہے ہیں اور خاکسار بھی گذشتہ 7 سال سے سلسلہ کی خدمت میں مشغول ہے۔اللہ تعالیٰ آئندہ بھی سلسلہ کی خدمت کی توفیق دیتا رہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند سے بلند تر کرتا چلا جائےاور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔آخر میں یہی کہوں گا کہ اس دور میں اس سے بہتر بیوی، اس سے زیادہ پیار کرنے والی ماں اور اس سے بڑھ کر چاہنے والی بہن نہیں ہوسکتی۔ وہ ہرایک کی ہمدرد تھی جس نے زیادتی کی اس کی زیادتی کو بھی فوراً بھُلا دیا اوردوبارہ ایسے ہی ملتیںجیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائےاور ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ پیار محبت اور اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائےآمین۔
بچوں کی اپنی والدۂ مہربان کے متعلق یادیں
میرے سب بچوں نےمیری اس کتاب کے لئے اپنی ماں کی یادوں کو قلمبند کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
’’ہماری پیاری امی جان کی یادیں اسقدر ہیں کہ جن سے صفحات کے صفحات بھرے جا سکتے ہیں۔ ہم سب انکی یادوں کی ایک کتاب اپنے دلوں میں بسائے بیٹھے ہیں۔جب ہم اپنی امی جان کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارا ذہن انکی فرشتہ صفت طبیعت کی طرف جاتا ہے۔وہ ہمیشہ ہنس مکھ رہا کرتی تھیں اور اپنا ہنستا ہوا چہرہ لیکر سب سے ملا کرتی تھیں۔وہ ہمیشہ سب کے ساتھ نہایت پیار اور عزت کا سلوک کرتی تھیں۔اور اس سلوک میں کوئی اپنے پرائے کا فرق نہیں کرتی تھیں۔ہماری پیاری امی نے اپنی زندگی دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش میں گزاردی اور اپنی خواہشات دوسروں کی خوشیوں کی خاطر اپنے دل میں ہی ساتھ لے گئیں۔ہماری پیاری امی اعلیٰ اوصاف کی ملکہ تھیں۔آپ انتہائی مہمان نواز تھیں۔آپ کے پاس جسقدر بھی مہمان آجاتے آپ ماتھے پر شکن تک نہ لاتیں اورکبھی نہ گھبراتی تھیں۔اُن کی پوری خاطر داری اور تواضع کرتیں اور اُن کے ساتھ بیٹھ کر اُن سے بے تکلف ہو جایا کرتی تھیں۔آپ واقعی ایک مثالی ماں تھیں۔اپنی بہنوں اور بھائیوں کے لئے ایک مثالی بہن تھیں۔اپنے والدین کا دایاں بازو تھیں۔ہر وقت اُن سے رابطہ رکھتیں۔ہماری نانی اماں جب کراچی میں سخت بیمارہوئیںاس وقت ہم سب لیبیا میں تھے۔ آپ ہم کو ابو جان کے پاس چھوڑ کر کراچی نانی اماں کی تیمارداری کے لئے چلی گئیں۔آپ اپنےماں باپ کا بیحد احساس رکھنے والی تھیں۔ہماری امی جان اور ان کی خوبصورت مسکراہٹ کی کمی ہمیں ہر وقت محسوس ہوتی ہے۔آپ نہایت مہربان ،عبادت گزار اور دعاگو خاتون تھیں اور اپنے بچوں کو بہت پیار کرنے والی ہستی تھیں۔
آپ اپنے رشتہ داروں کی ہر ممکن امداد کیا کرتی تھیںاور ان سے نیک سلوک کیا کرتی تھیں۔ہر احمدی اور غیر احمدی حلقۂ احباب کی عزت و تکریم کیا کرتی تھیں۔پیار اور قربانی وایثار کا دامن ہمیشہ پھیلائے رکھتی تھیں۔آپ بہت ذہین اور فہیم تھیں۔بہت جلد دوسروں کو پہچان جاتی تھیں۔مشکل سے مشکل وقت میں بھی آپ ثابت قدم رہیں۔آپ بہت تقویٰ شعار اور خدا سے بہت پیار کرنے والی کسی کا برا نہ چاہنے والی بہت صابر و شاکر خاتون تھیں۔جس سے ایک بار تعلق ہوجاتا اسے ہمیشہ نبھانے والی تھیں۔آپ اپنے نواسے اور نواسیوں سے بہت پیار کرتی تھیں۔انکی باتیں اور شرارتیں دیکھتیں تو انہیںہمارا بچپن یاد آجاتا،وہ کہا کرتیں کہ اسماء اور تہذیبیہ بچپن میںایسی ایسی شرارتیں کیا کرتی تھیں۔ہماری پیاری امی جان نے بہت کامیاب زندگی گزاری۔گھر میں ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔آپ بڑی بڑی باتوں کوجو اُن پر ناگوار گزرتی تھیں دل میں دبائے رکھتیں۔اور دوسرے کو کبھی محسوس نہ ہونے دیتی تھیں کہ اُن کو کیا تکلیف پہنچی ہے۔
ہماری امی جان نے ہمیں پیدا کیا اور ہمیں زندگی گزارنے کے گر سکھائے۔انکی باتیں اور انکی یادیں ہی اب ہماری زندگی کا سرمایہ ہیں۔وہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں۔وہ ہمیشہ اپنی بیٹیوں کے لئے یہ دعا کیا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ میری بیٹیوں کا نصیب اچھا کرے اور انہیںبخت آور کرے۔ہم سب اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری امی جان کے درجات بلند سے بلند کرتا چلا جائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو خادمات دین بنائے اور ہماری تمام تر نیک تمنائیں اور مرادیں پوری کرے ۔ہماری امی جان کی وہ تمام نیک تمنائیں اور مرادیں جو انکی زندگی میں پوری نہ ہو سکیں وہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد پوری فرمائے اور ہم بھائی بہنوں کوایک دوسرے کے لئے قرۃ العین بنائے۔اللہ تعالیٰ آپ کی ساری اولاد کو انکی نیکیوں کا وارث بنائے۔ ہماری نسلوں کو خلافت سے محبت اوراس کا احترام اپنے ایمان کا ایک جزو لا ینفک بنانے کی توفیق دے اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔‘‘

بیٹی تہذیبیہ خالد اپنی امی جان کے بارے میں لکھتی ہیں:
’’ہماری امی جان ہر مشکل وقت کو بڑے صبر وشکر سے گزارتیں اور ہمیں بھی ہمیشہ یہ نصیحت کرتیں کہ آزمائشیں خداتعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں لیکن ان کو صبروشکر سے گزارنا چاہئے۔ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ اسی طرح بیماری میں بھی کبھی میں نے اپنی امی کو پریشان نہیں دیکھا۔ہمیشہ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ رہتی تھی۔امی جان کو جب اچانک السر کی تکلیف ہوئی اور تکلیف بہت زیادہ ہوگئی اور اُن کو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا ۔دس دن تک امی جان ہسپتال میں داخل رہیں۔کمزوری اتنی زیادہ ہوگئی خون دینا پڑا۔خداتعالیٰ نے اس وقت مجھے موقع دیا کہ میں اپنی امی جان کی خدمت کر سکوں ۔میں رات اور دن امی کے پاس رہتی تھی ۔کچھ دن اُن کی طبیعت کا فی خراب رہی واش روم بھی جانا مشکل تھا۔میری وجہ سے اُن کو کافی مدد ملی ۔لیکن انہیں میری فکر رہتی کہ میں نے اپنی بیٹی کو پریشان کیا ہوا ہے۔ بیٹی سارا دن خدمت کرتی ہے۔لیکن میںاپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھے اپنی امی جان کی خدمت کرنےکا موقع دس دن تکملا۔اور امی جان کی بےشمار دعائیں نصیب ہوئیں۔اللہ تعالیٰ ہماری امی جان کی وہ سب دعائیں قبول فرمائے۔آمین۔
ہم سب بہنیں اور بھائی امی جان کے بیحد قریب تھے۔ہم اپنی ہر بات امی جان کو ضرور بتاتے تھے۔میرا خیال ہے زیادہ تر بچے ایسے ہی ہوتے ہیںجو مائوں کےزیادہ قریب ہوتے ہیں۔جب میں 13-14سال کی عمر میں پہنچی اور باتوں کو سمجھنے کے قابل ہوئی تو میں نے اپنی امی جان کو بہت زیادہ بے قرار اور بے چین دیکھا۔جب ہم بہنیں شادی کی عمروں میں پہنچ رہی تھیںاُس وقت لیبیا میںاحمدی گھرانے چند ایک ہی تھے۔لیبیا میں حالات خراب ہونے کی وجہ سے احباب جماعت وہاں سے دوسرے ملکوں یورپ،کینیڈا اور برطانیہ میں آباد ہوگئے۔ایسے میںہماری امی جان کو ہماری بہت فکر رہتی کہ میری بچیوں کے رشتے کیسے ہوں گے۔امی جان حضور اقدس کو خط لکھتیں ۔ہمارے نانا ابو سردار عبد القادر صاحب کو بھی خط لکھتی رہتیں اور دعا کے لئے کہتیں۔حضور اقدس کو بھی خطوط لکھا کرتیں۔بڑوں اور بزرگوں کو بھی دعائوں کے لئے لکھتیں کہ دعا کریں کہ میرے پانچوں بچوں کے رشتےاچھے احمدی گھرانوں میں ہو جائیں۔ہمیں بھی ہمیشہ بڑے پیارسے اور محبت سے سمجھاتی تھیں کہ اپنی اچھی قسمت کے لئے خود بھی دعا کیا کرو۔اور ہمیں آگاہ بھی کیا کرتیں اورکہتیں کہ ہمیشہ یہ بات یاد رکھنا کہہم نے رشتےاچھے احمدی گھرانوں میںہی کرنے ہیں۔ہماری امی کو یہ بھی فکر رہتی کہ میرے بچے جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔لیکن لیبیا میں مخالفت کی وجہ سے جماعتی پروگرام زیادہ نہیں کرسکتے تھے۔بعض اوقات ہم اپنے آپ کو احمدی کہتے ڈرتے تھے۔رات کو سونے سے پہلے امی جان کئی واقعات اور جماعت کی باتیں بتاتیں اور کہتیں کہ میں اس لئے بتاتی ہوںکہ تمہیں جماعت احمدیہ کے بارے میں پورا علم ہونا چاہئے۔اسلامی پردہ کے بارے میں بھی ہمیشہ بڑے پیار سے ہمیں سمجھا یا اورہماری بہتر رنگ میں تربیت کی۔اس لئے ہم چاروں بہنوں کو پردہ کرنے میں کبھی بھی مشکل اور جھجک در پیش نہیں آئی۔خداتعالیٰ نے ہماری امی جان کی سب دعائیں سنیں اور الحمد للہ ہم سب کے رشتے مخلص احمدی گھرانوں میں ہوئے۔جب میں شادی ہو کر لندن آئی تو امی جان نے ہمیشہ یہ نصیحت کی کہجب بھی فارغ وقت ملے تو دین کی خدمت کو ترجیح دینا۔
خداتعالیٰ نے مجھے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا ۔چھوٹے چھوٹے بچے ہونے کے باوجود نہیں یاد کہ کوئی بھی اجلاس یا جماعتی پروگرام چھوڑ اہو۔مسجد میں بھی بچوں کو لیکر اجلاسوں میں جاتی۔امی اجلاس میں مجھے دیکھ کر کہتیں کہ اسی طرح خود اور بچوں کو خلافت سے وابستہ رکھنا۔جب امی جان کو لندن میں گھرملا تو یہ گھر مسجد سے کافی دورتھا لیکن وہ گھر عارضی تھا ۔ امی جان مجھے کہتیں کہ دعا کیا کروکہ ہمیں مستقل گھر مسجد کے قریب ملے تاکہ جماعت کی خدمت بھی کریں۔خداتعالیٰ نے دعائیں سنیںپھر ایسا ہوا کہ امی جان کو گھر مسجد فضل لندن کے قریب ملا۔اس وقت ہم نے دیکھا کہ امی جان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔آپ بار بار اپنے پیارے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے سب کو بتاتیں کہ ہمیں گھر مل گیاہے ۔اور اب ان شاء اللہ ساری نمازیں خلیفۂ وقت کے پیچھے ادا کریں گے۔
خدا تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔نئے گھر میں آنے کے بعد برطانیہ کا 2002ء کا جلسہ سالانہ شروع ہوا۔امی جان نے بھی جلسہ سالانہ میں شمولیت کی ۔آپ بہت خوش اور مطمئن تھیں کہ خداتعالیٰ نے انہیں جلسہ پر ڈیوٹی دینے کا بھی موقع دیا ہے۔ڈیوٹی دیتے ہوئے تھوڑی دیر کے لئے میرے پاس آئیں خیریت معلوم کی ۔میرے تین بچے چھوٹے چھوٹے تھے، اس لئے میرے لئے بڑا مشکل تھا کہ جلسہ پر بچوں کو لیکر میں ایک جگہ آرام سے بیٹھ جاتی ۔امی میرے پاس آئیں اور کہا کہ میں صبح سے ڈیوٹی پر ہوں تمہاری کو ئی مدد نہیں کر سکی۔جلسہ سالانہ ختم ہونے کے اگلے روز امی جان میرے گھر آئیں کیونکہ میرے شوہر کے خالو کی وفات ہوگئی تھی اور وہ افسوس کرنے آئی تھیں۔ اس کے بعد گھر اور کچن کے کاموں میں میری مدد کرنے لگیں ۔جب کہ ان کی اپنی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔اور اُن کے سر میں بھی درد تھا۔میں نے بہت روکا آپ کام نہ کریں۔تو جواب دیا کہ میں تھوڑی تمہاری مدد کردوںبیٹی،کیونکہ افسوس کرنے تمہارے گھر مہمان بھی آرہےہیں ۔مہمانوں سے فارغ ہونے کے بعد ساڑھے گیارہ بجے پھر امی کا فون آیا کہ میں تمہارا حال پوچھوں۔بس میرا ہر وقت بہت خیال رکھتی تھیں۔ اپنی بیماری میں بھی مجھے فون کرکے حال پوچھتی رہتیں۔
شادی کی رسم بہت سادگی سے ہوئی
میری شادی بہت سادگی سے ہوئی تھی ۔مالٹا میں صرف چند افراد خانہ تھے جو شامل تھے ۔ میکے اورسسرال دونوں طرف سے کوئی سونے کا زیور نہیں تھا صرف سونے کی انگوٹھیاں تھیں۔حالات کی خرابی کی وجہ سے ہم سونے کا زیور مالٹا نہیں لا سکتے تھے۔میرے شوہر بھی صرف چند کپڑے کے جوڑے پاکستان سے لائے تھے اور چند کپڑوں کے جوڑے مجھے امی جان نے دئے تھے۔امی جان اور ابو جان نے اپنی دعائوںکے ساتھ مجھے رخصت کیا۔ اورسب واپس لیبیا آگئے۔ امی جان واپس جاکر اکثر فون پر میرا حال پوچھا کرتیں تھیں۔
ہماری نانی اماں بھی اکثر کہتی تھیں کہ تمہاری ماں بہت ہمت والی ہے۔نہ کبھی کسی بات کا شکوہ کیا، ہمیشہ صبروشکر کرنے والی تھی ۔نانی اماںہمیں امی جان کی وفات کے بعد انکی بہت باتیں بتاتی تھیں ۔نانی اماں نے بتایا کہ تمہاری ماں نے کبھی کوئی پر یشانی والی بات ہمیں نہیں بتائی ۔بس اس کو یہ فکر ہوتی تھی کہ میری وجہ سے والدین پریشان نہ ہوں۔ہر طرح سے ہمیں خوش رکھا اور ہماری ہر طرح سے خدمت کی۔ ہمارے دادا اُن کے لئے ہمیں یہ الفاظ کہتے کہ وہ ایک مثالی اور اعلیٰ اوصاف کی حامل خاتون تھیں۔ہم اپنی پیاری امی جان کی محبت اور قربانیوں کو بھول نہیں سکتےجو انہوں نے ہمارے لئے کی ہیں۔ہماری ماں نے ہمیشہ ہمیں ایک اچھی سہیلی بن کر اور ایک حلیم و بردبار ماں بن کر ہماری تربیت اور پرورش کی ۔خداتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری پیاری امی جان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ۔ اور خداتعالیٰ سے دعا ہے ہم بہنوں اور بھائی کو آپس میں پیار ومحبت اور اتفا ق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔‘‘

بلانے والا ہے سب سے پیارا
اسی پہ اے دل تو جاں فِدا کر

مصافِ حیات
میری آپ بیتی

اب خاکسار ظفر احمد خان اپنی زندگی کے حالات اور زندگی کے پیچ وخم قلم کی نذر کرنے جا رہا ہے۔ جو کچھ اس جہان فانی میں حاصل کیا اور جو کچھ کھویا وہ ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔

طفلی دیکھی شباب دیکھا ہم نے
ہستی کو حباب آب دیکھا ہم نے

میرے بچپن کی یادیں

میری پیدائش5؍ مارچ1946ءکو کشمیر سرینگر محلہ بٹ مالو میں ہوئی۔یہ وہ وقت تھا جب تقسیم ملک ہونے کی وجہ سے فسادات کا آغاز ہو چکا تھا۔تقسیم ملک کے بعد والدین کے ساتھ ہجرت کرکےہم موضع مالدارہ ضلع و شہرباغ آزاد کشمیر میںرہنے لگے۔میری ابتدائی تعلیم وہاں پر ہی ہوئی۔باغ آزاد کشمیر میںخاکسار کوبعد میں پرائمری اسکول میں داخل کرایا گیا۔ اپنے پرائمری اسکول کے ایک ماسٹر خلیل احمد صاحب کا اب تک یاد ہے کہ ان کی کلاس میں بچے بہت شرارتیں کیا کرتے تھے۔اور ان شرارتوں پر قابو پانے کا طریقہ ماسٹر صاحب کا اپنا ایجاد کیا ہوا تھا۔وہ ڈنڈا لہراتے ہوئے کلاس کے شریف طلباء پر بھی حملہ آور ہو جاتے تھے۔اور ہر ایک کو شک کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ماسٹر صاحب بہت دکھی قسم کے انسان ہیں۔مگر کبھی انہوں نے اپنے دکھوں کی تفصیل بیان نہیں کی۔ہنسی کے کٹّر مخالف تھے۔وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے اکثر اسکول میں سوبھی جایا کرتے تھے۔باوجود اس کے کہ کلاس میں بچے شور مچاتے رہتے تھے مگر کیا مجال کہ ماسٹر صاحب کی نیند ٹوٹتی ہو۔
بچے تو مرغی کے بھی سنبھالنا ایک انتہائی مشکل کام ہے مگر یہاں تو انسان کے بچے تھے۔وہ کہاں جلدی قابو آتے ہیں۔انکی شرارتوں سے تو شیطان بھی پناہ مانگے۔کیا ہوا کہ ایک روز ہم چند طالب علموں نے ماسٹر صاحب کی کرسی کو گرانے کا پلان بنایا۔آدھی چھٹی کے وقت جبکہ ماسٹر صاحب کلاس سے باہر نکل گئے ہم نے اپنے پلان کو عملی جامہ پہنایا اور ماسٹر صاحب کی کرسی کے نیچے پایوں میں گول گول پتھر رکھ دئے۔آدھی چھٹی کے بعد ماسٹر صاحب آرام سے آکر کرسی پر بیٹھ گئے۔تقریباً ایک گھنٹے بعد ان کو نیند آ گئی او رپہلا جھونکا لگا جسکے ساتھ ہی ان کو ایک جھٹکا لگا مگر وہ گرنے سے بچ گئے۔تھوڑی دیر کےبعد جب انہیں نیند کا دوسرا جھونکا آیا اور معاً ایک تیز جھٹکا لگنے کے ساتھ ہی ماسٹرصاحب کرسی سے نیچے گر پڑے اور پیشانی پر معمولی سی چوٹ بھی آئی۔ہم نے تمام طلباء کو ہنسنے سے منع کیا ہوا تھا اس لئے اس سانحہ پر کوئی بھی نہ ہنسا۔اس دن کے بعد ماسٹر صاحب نے کلاس میں سونا چھوڑ دیا۔
ماسٹر خلیل احمد صاحب دیگر معاملات میں بھی منفرد خصوصیات کے مالک تھے۔اگر کسی کو ہنستا دیکھتے تو اسے رونے پر مجبور کر دیتےتھے۔یہ میرا پرائمری اسکول کے زمانے کا ایک قصہ تھا۔اس زمانہ میں بڑے با اصول لوگ ہوا کرتے تھے۔اب نہ وہ اُستاد رہے اور نہ ہی ویسے طالب علم۔آج بھی کبھی کبھی ماسٹر خلیل احمد صاحب کی یاد آتی ہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے۔
باغ آزاد کشمیر سے ہجرت کرکے ہم نے کوہ مری ضلع راولپنڈی میں قیام کیا۔میرے دادا حضرت ماسٹر محمد طفیل خان صاحب بٹالوی ؓنےجو اس وقت فیصل آباد میں مقیم تھے ہمیں یہاں سے اپنے پاس بلا لیا۔ہم وہاں چند ماہ رہے۔خاکسار کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی۔ان دِنوں سکولوں میںچھٹیاں تھیں۔ ہم سب بھائی بہن گھر میں رہتے ،خوب کھیلتے اورشرارتیںکرتے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں اپنے دادا جان کے کمرہ میں گیااور ان کی دوائیاں ٹیبل پر پڑی تھیں۔ میںان کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔اچانک ایک بوتل ٹیبل سے نیچے گر پڑی اور ٹوٹ گئی ۔دادا جان اس وقت وہاں موجود نہ تھے۔میں اس ٹوٹی ہوئی شیشی کو اٹھانے لگا۔میری یہ کوشش تھی کہ دادا جان کے آنے سے قبل میں اس ٹوٹی ہوئی بوتل کو کہیں ٹھکانے لگا دوں اور دادا جان کو اس کا پتا نہ چلے،مگراچانک دادا جان کمرے میں داخل ہوئے۔مجھے اس حالت میں دیکھ کر از روئے تربیت مجھے ایک زوردار طمانچہ رسید کیااور نتیجتاً میرا چہرہ سرخ ہوگیا۔اس واقعہ کی یاد تا عمر نہ بھولنے والی ہے۔میں بھاگ کرروتا ہوا اپنے کمرے میں اپنی امی کے پاس آگیا۔امی نے مجھے سمجھایااور چُپ کرایا۔ ہم سب تقریباً چار ماہ تک دادا جان کےگھر رہےاور پھرجہان آباد ضلع سرگودھا میں نواب ملک عزیز محمد صاحب کے پاس آکر رہنے لگے۔یہاں 2 سال قیام کے بعد ہم راولپنڈی شہر میں آکر آباد ہوئے۔

تکمیل تعلیم اور تلاشِ معاش
خاکسار کے بڑے بھائی محترم ضیغم سلیم صاحب نےجب پڑھ لکھ کر باغ آزاد کشمیر میں اپنا میڈیکل اسٹور اور کلینک کھولا تو انھوں نے مجھے اپنے پاس بلا لیا۔خاکسار نے وہاں گورنمنٹ ہائی اسکول میں داخلہ لے لیا۔تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ میں اپنے بھائی کے میڈیکل اسٹور میں بھی وقت دیا کرتا تھا۔میں نے میٹرک یہاں سے ہی مکمل کی۔
اسی زمانہ کا واقعہ ہےکہ میں ایک مرتبہ صبح کے وقت ایک حلوائی سے دودھ لینے گیا۔حلوائی نے تعصب میں دودھ دینے سے انکار کر دیا۔اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ مرزائی کہہ کر ایک زوردار دھکّہ دیاجس سے میں زمین پر گرنے کے قریب ہو گیا تھا۔میں نے اپنا دودھ کا برتن غصہ میں اسکی دُکان پر ہی پھینکا اور گھر واپس آگیا۔گھر پر اپنے بھائی جان کو جب یہ بات بتائی تو بھائی جان نے اس حلوائی پر ہتک عزت کا کیس عدالت میں کر دیا۔یہ کیس مسلسل تین سال تک چلتا رہا آخر کیس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا۔اس حلوائی نے اس دوران ہم سے آکر معافی بھی مانگی۔
خاکسارمیٹرک تعلیم مکمل کرنے کے بعد باغ آزاد کشمیر سے راولپنڈی واپس آگیا۔یہاں راولپنڈی میں ایف۔اے کا امتحان پرائیویٹ دیااوراکتوبر1969ء میں میڈیکل فیکلٹی کے امتحان کے لئے کوہ مری کمپنی باغ کے ہاسپٹل ساملی سینیٹوریم میں داخلہ لیا۔یہ ہسپتال راولپنڈی اور کوہ مری کے درمیان جنگل میں ایک پہاڑی کے دامن میں واقع تھا۔یہاں ٹی بی کے مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔یہاں 200مریضوں کے لئے بیڈ تھے۔وہاں کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ نے صرف چھ طلباءکوداخلہ کی اجازت دی جن میں سے ایک میں بھی تھا۔یہاںہم سب طلباء ایک ہی کمرے میں رہتے تھےاور ایک ساتھ کھانا بناتے تھے۔میرے علاوہ ہم میں سے چار طلباءفرقہ اہل سنت والجماعت میں سے تھے۔اورمذہبی لحاظ سے چاروں ہی بہت کٹّرتھے۔ان میں سے ایک نے مولویانہ طرز پر لمبی داڑھی بھی رکھی ہوئی تھی۔ایک طالب علم مسمیٰ عاشق حسین شیعہ مسلک سے تھا۔اہل سنت والجماعت چار طالب علم یہ جان گئے تھے کہ میں احمدی ہوں اور عاشق حسین شیعہ ہے۔ان چاروں نے مل کر پہلے ہم دونوں کا بائیکاٹ کیااورپھر کچھ عرصہ بعد ہمارے ساتھ کھانا پینا بھی ترک کر دیا۔اس مخالفت کی وجہ سے عاشق حسین اور میری اچھی دوستی ہوگئی۔ہم دونوں ایک ساتھ وہاں رہا کرتے۔چھٹیوں میںکبھی کبھی عاشق حسین میرے ساتھ راولپنڈی میں ہمارے گھر پر بھی آ جایا کرتا۔اور میں بھی کبھی محرم کا جلوس دیکھنے اس کے ساتھ چلا جایا کرتا تھا۔اسکی اور میری دوستی اور تعلق لیبیا قیام کے عرصہ تک رہا۔بعد میں وہ بھی سعودی عرب چلا گیا ۔
ساملی سینیٹوریم ہاسپیٹل میں سردی کے موسم میں سخت سردی اور برف پڑتی اور دسمبر سے لیکر مارچ کے مہینہ تک ہمیں چھٹیاں ہو جاتیں۔ہم سب اس دوران اپنے اپنے گھر چلے جاتے تھے۔میں مارچ 1971ء کو ساملی سینیٹوریم سےاپنی تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوا۔تو میں نےکُرم کیمکل کمپنی میںجوراولپنڈی سے تقریباً دس میل دور کہوٹہ روڈ پر واقع ہے ، ملازمت شروع کر دی۔میں نے وہاںبحیثیت میڈیکل نمائندہ ڈیڑھ سال تک کام کیا۔اس کام میںتقریباً ایک ماہ گھر سے باہر رہنا پڑتا تھااور پاکستان کے مختلف شہروںمیں ڈاکٹروں اور کیمسٹوں کوکمپنی کی ادویات سے متعارف کروانے کا کام تھا۔میرا جوایریا راولپنڈی سے لیکر سرگودھا تک تھاجس کے درمیان جہلم،گجرات،گوجرانوالہ،منڈی بہائو الدین ۔میر پور اور مظفر آباد آزاد کشمیرجیسے شہر آتے تھے۔چونکہ لمبا وقت گھر سے باہر رہنا پڑتا تھا اور سفر کرنے پڑتے تھے لہٰذااس ملازمت کو چھوڑ کرمیں نے اپنا کاروبار شروع کیا۔میرا ادویات کا ہول سیل کا کاروبار تھا۔راولپنڈی میںعیدگاہ روڈ پر اپنے گھر سے ملحق ایک کمرے میں جو باہر سڑک کی جانب کھلتا تھا دُکان اور اسٹور بنایا۔میرا یہ کام بفضلہ تعالیٰ اچھا چلنے لگا۔راولا کوٹ ،ہجیرہ،عباسپور ،کہوٹہ ،دھیر کوٹ اور باغ آزاد کشمیر تک آرڈر سپلائی کا کام کرتا تھا۔
ان دنوں ربوہ کے سالانہ جلسہ کا بے تابی سے انتظار ہوتا۔جلسہ سالانہ کے لئے اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے تین چار دن کا وقت نکال لیتے تھے۔ ماہ دسمبر کے شروع ہوتے ہی جلسہ سالانہ کی تیاریاں شروع ہو جایا کرتی تھیں ۔جلسہ سالانہ کی رہائش کے لئے دو تین ماہ قبل خط لکھنا پڑتا تھا۔راولپنڈی سے ربوہ جلسہ سالانہ کے لئے 24دسمبرکی ریلوے میں بکنگ کرواتے ۔چناب ایکسپرس جو پشاور سے آتی اورکراچی جاتی تھی اس ٹرین میںراولپنڈی جماعت نے دو یا تین بوگیاں ربوہ کے لئے بک کروائی ہوتی تھیں ۔چناب ایکسپرس کا راولپنڈی سے گزرنے کاوقت رات گیارہ بجےکا ہوتا۔دویاتین بوگیاں اکٹھی جماعت کو دے دی جاتی تھیں ،جن میں سے ایک لجنہ کے لئے ہوا کرتی تھی۔سفر کے دوران سارے احمدی احباب اکٹھے نماز باجماعت ادا کرتے۔تہجد بھی ٹرین میں پڑھی جاتی۔پھر صبح فجر کی نماز بھی باجماعت ہر بوگی میں ادا کی جاتی۔کھانا،چائے اور ناشتہ کا انتظام جماعتی طور پر ہی ہوتا۔درود شریف اور دعاؤں کے ساتھ سفر جاری رہتااوراگلے روز صبح 8یا 9 بجے جب ٹرین ربوہ کے قریب پہنچتی تو خوب جوش و خروش سے نعرۂ تکبیر فضا میںبلند کیا جاتاتھا۔اھلاً وسھلاً ومرحبا کے نعروں کے ساتھ ہمارا استقبال کیا جاتااورقادیان دارالامان زندہ باد کے نعرے بھی اس وقت فضا میں گونج رہے ہوتے۔ اسلام زندہ باد۔ احمدیت زندہ باد اور اسی طرح دیگر نعرے بھی لگائے جاتے۔ہماری رہائش اکثرتعلیم الاسلام کالج میں ہوتی جہاں دو بڑے کمرے ہماری فیملی کو ملا کرتے تھے۔میرے سسرال والے بھی ہمارے ساتھ ہی قیام کیا کرتے۔جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جو رونق ہوتی اس کا بیان کر پانا میرے قلم کے بس کی بات نہیں۔بازار بارونق ،مسجدیں بارونق۔گلیاں کوچے بارونق۔نماز تہجد میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم کی تلاوت ،مسجد مبارک میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کی رقت آمیز اور دلسوز نمازیںاب بھی مجھے یاد ہیں۔پھر مسجد اقصیٰ کے سامنے میدان میں جلسہ سالانہ کے اجلاس اورحضور پُر نور کے جلالی خطابات جو ایک کمزور دل انسان کو بھی مخالفت کی آندھیوں اور پہاڑوںسے ٹکرانے کا حوصلہ دینے والے ہوتے۔علاوہ ازیں صحابہ کرامؓ میں سے حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی تقریر اور اسی طرح محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری،محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت، مولانا عبدالمالک صاحب اور قاضی نذیر احمد صاحب لائلپوری جیسے بلند پایہ کے علماء کی علم و معرفت سے بھری ہوئی تقاریرجنہیں سن کر ایک روحانیت کا احساس ہوتا تھا۔اس موقعہ پر لنگر کا بہت عمدہ انتظام ہوا کرتا تھا۔صبح کے وقت کی دال اور روٹی اور رات کے وقت کا آلو گوشت۔اگر چہ بالکل عام کھانا تھا مگر جو مزہ اور لطف اس میں ہوتا تھا وہ بیان سے باہر ہے۔غرض جلسہ سالانہ کے ایام کے بعد اپنے ایمان میں تازگی لئے ہوئے ہم واپس اپنے گھروں کو لوٹ آتے۔

خاکسار کی پاکستان سےہجرت
1974ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے احمدیوں کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیاتو جماعت کی مخالفت میںمزیداضافہ ہوگیا۔ہر طرف جماعت کی مخالفت بڑھتی گئی اورضیاء الحق کے آنے کے بعد حالات پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے۔احمدیوں کو ملازمتوں سے نکالاجانے لگا۔ان حالات کے پیشِ نظر میرے خاندان نے فیصلہ کیا کہ ہم بیرون ملک ہجرت کر جائیں۔ خاکسار کی زوجہ کا خاندان چونکہ چنیوٹ میں آباد تھا۔جماعت کی مخالفت تو سارے پاکستان میں ہورہی تھی ،لیکن چنیوٹ میں سب سے زیادہ مخالفت تھی۔جب بھی خاکسار زوجہ کےساتھ سسرال والوں کو ملنے چنیوٹ جاتا تو اس شدید مخالفت میں ایک ہفتہ بھی چنیوٹ میں قیام کر نامشکل ہو جاتا۔ بازار سےگزرتے وقت آوازےکسے جاتے۔ اس مخالفت میں پیش پیشسب سے زیادہ جماعت کی مخالفت کرنے والامولوی منظور چنیوٹی تھا۔ وہ مسجد میں بیٹھ کر لاؤڈاسپیکر پر جماعت کے خلاف بد زبانی کرتا رہتاتھا۔ اگر مسجد میںیہ خود موجود نہ ہوتا تو اس کی ریکارڈنگ چلادی جاتی۔مسجد سے جماعت کی مخالفت میں چلنے والی ریکارڈنگ کے لئے نہ دن کا خیال رکھا جاتا اور نہ رات کا خیال رکھا جاتا۔احمدی تو انکے لئے مشق ستم ہوتے ہی تھے دیگر محلہ کے غیر احمدی افراد کوبھیvoice pollutionکا شکار خواہ مخواہ بنایا جاتا۔ ان کی اس حرکت پر افسوس کے علاوہ ایک شعر بھی صادر آتا ہے:

شیخ جی خود کو کرامات بنائے رکھیں
عالم ہو‘ میں بھی اک بزم سجائے رکھیں
رات بھر وعظ کا مسجد میں بجا کر کیسیٹ
خود تو سو جائیں محلے کو جگائے رکھیں

میرے خسر محترم سردارعبد القادر صاحب کا ٹرانسپورٹ انشورنس کمپنی کا آفس تھا۔آفس میں کچھ اور لوگ بھی جو احمدی اورغیر احمدی تھے کا م کرتے تھے۔ مولوی منظور چنیوٹی اور اس کے شاگردوں نے چند لوگوں کے اُکسانے پرملازمین کوآفس سے باہر نکال کر سارے ریکارڈ کو آگ لگا دی۔میرے خسر محترم کو کسی خیر خواہ سے چونکہ پہلے ان کے بد ارادہ کی اطلاع مل چکی تھی اس لئے وہ دفتر سے گھر چلے گئے تھے۔اگر وہ وہاں ہوتے تو شاید ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی جاتی۔آفس کا تمام ریکارڈ جلنے کی وجہ سے سردار عبد القادر صاحب کا لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ہماری زندگیاں اب نہ پاکستان میں محفوظ تھیں اور نہ ہی ہمارامال و دولت محفوظ تھا۔ہمارے آباؤ و اجداد نے اس ملک کےلئے قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے آباؤ و اجداد نے پاکستان کو بچانے کے لئے اور پاکستان کے حاصل کرنے کے لئے رات دن کام کیا ۔ اپنی جانوں کا نذرانہ تک پیش کیا ۔لیکن افسوس کہ ہماری قوم ہی ہماری دشمن ہو گئی اور بھلا دیا گیا وہ مقصد اور وہ اصول جو پاکستان بنائے جانے کے وقت ملحوظ رکھا گیا تھا۔اور بھلا دی گئی قائد اعظم کی ہر وہ بات جو اس عظیم پاکستان کے عظیم راہنما نے کہی تھی اور وہ یہ کہ سر زمین پاک میں ہر طبقہ اور ہر قوم کے امن و امان اور سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔
غرض میں کوشش کرکے لیبیا ہجرت کر جانے میں کامیاب ہو گیا۔یہ 1979 ء کا سال تھا اور ستمبر کی 15 تاریخ تھی۔میں لیبیاکے شہر طرابلس پہنچاتولیبیاکےوقت کے مطابق دن کے 12 بجےتھے۔ ایئرپورٹ پر تمام ضروری قانونی کارروائیوں کے بعد میں وہاں لابی میں بیٹھ گیا۔آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد میری بیگم کے چچا پروفیسر ظفر اقبال مرحوم مجھے لینےپہنچ گئے۔وہ مجھے اپنے گھر لے گئے۔ان کا گھر ایئرپورٹ سے ایک گھنٹہ کی ڈرائیو پر تھا۔تین روزتک میں نے ظفر اقبال صاحب مرحوم کے گھر میں قیام کیا۔چونکہ میں پاکستان سے جاب کا ویزا لے کر آیا تھا۔میری تقرری ہاسپٹل کی فارمیسی میں تھی میں نے ہاسپیٹل میںحاضری دی اور قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد کام شروع کر دیا۔اس وقت میں اکیلا لیبیا میں تھااور بیوی بچے میرے پاکستان میں تھے۔میںچھ ماہ تک پروفیسر ظفر اقبال صاحب مرحوم کے گھر رہا۔کیونکہ فوری طور پر مجھے رہائش نہ مل سکی تھی۔میں نے اہلیہ اوربچوں کو بُلانے کے لئے قانونی کارروائی بھی شروع کر دی۔بہر حال میں نےآٹھ ماہ کے اندراہلیہ اور بچوں کے ویزے پاکستان بھجوا دئےاوردس ماہ کے اندر اہلیہ اوربچے ویزا لگواکر لیبیا پہنچ گئے۔حضور اقدس کی دعائوں کے طفیل ہر قسم کی آسانیاں پیدا ہوتی گئیں۔

حضور کی دعاؤں کےطفیل لیبیا میں قیام کی آسانیاں
میرے ایک بھائی شوکت محمود صاحب کویت ہجرت کر گئےتھے۔ایک بھائی اطہر محمود صاحب لندن جا بسےتھے اور ایک بھائی ذکی احمد صاحب فرینکفرٹ جرمنی میں جا مقیم ہوئے تھے۔یہاں طرابلس میں مجھے الفاتح آئی ہاسپیٹل واقع زاویہ دھمانی میں300 لیبین دینار تنخواہ پر ملازمت مل گئی ۔میں جب لیبیا میں گیا اس وقت طرابلس میں باقاعدہ جماعت قائم تھی اور جماعت کی مخالفت بھی تھی۔پاکستان سے مولوی طرابلس آکر پاکستانی سفارت خانہ میں احمدیوں کے خلاف شکایتیںکیا کرتےتھےکہ یہ پاکستان میں تو غیر مسلم اقلیت ہیں اور یہاں لیبیا میں تبلیغ کرتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں جوکہ پاکستانی قانون کے خلاف ہے۔ ان کو روکا جائے اور لیبیا کی گورنمنٹ کو ان کی گرفتاری کے لئے لکھا جائے۔اس کے علاوہ پاکستانی کمیونٹی اسکول میں جماعت کے خلاف تقاریریںکی جاتیں۔خاکسار کے خلاف لیبیا(1988ء )میں غیر از جماعت افرادنے پولیس میں رپورٹ دی کہ ظفر احمد خان قادیانی جماعت سے تعلق رکھتا ہے ۔جاسوس ہے اور گورنمنٹ کے خلاف کام کرتا ہے۔اس وقت خاکسار ہاسپیٹل میں ڈیوٹی پر تھا۔ہاسپیٹل سے دن کے تین بجے کام ختم کرنا ہوتا تھا۔خاکسار فارمیسی بند کرنے کے بعد کار پارک میں جہاں میری گاڑی کھڑی تھی پہنچا ۔ گاڑی کھولنے کے بعدگاڑی میں بیٹھنے لگا تو مجھ کوتین پولیس اہلکاروں نےگاڑی میں بیٹھنے سے روک دیا۔اوراپنی پولیس کی گاڑی میں بٹھا کر پولیس سٹیشن لے جاکر بند کر دیا۔پولیس سٹیشن کی حوالات میں کمرہ قبر کے سائز کاتھا۔اسمیں صرف انسان لیٹ سکتا تھا۔میں سات روز اس میں بند رہا ۔جب باتھ روم جانا ہوتا تو باہر نکالتے تھے۔وہ بھی دن میں دو یا تین بار۔ کھانا وہاں کمرے میں آتا جو کہ زیادہ ابلے ہوئے آلو‘ ہوتےدوسری چیزیں بھی پانی کی طرح ہوتیںاور کھانا کھانے کو کچھ دل نہ کرتا۔پولیس کاروائی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ۔مجھ سے مختلف قسم کے سوالات کرتے رہےکہ ’’تمہارا تعلق کن کن لوگوں سے ہے۔پاکستانی سفارت خانہ میں تمہارا آنا جانا کیوںہے۔ وہاں کیوں جاتے ہو۔تمہارےمذہب کا وہاں کون ہے وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘ ان سب باتوں کا جواب میںنے دیااور کہا کہ پاکستانی سفارت خانہ ہمارے ملک کا سفارت خانہ ہے ۔وہاں کئی قسم کے ہمارے کا م ہوتے ہیں۔ہمارے پاسپورٹ کے کام ہوتےہیں۔ ہمارے شناختی کارڈ ،رجسٹریشن وغیر کا کام ہمیں کرنے کے لئے وہاںجانا پڑتا ہے۔میں اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہا ہوںاورقانونی طور پر اس ملک میں رہائش پذیر ہوں۔
ان دنوں پاکستان سے میرے ساس سسُر میرے پاس لیبیا آئے ہوئے تھے۔میری قید کے ایام میں میرے گھر والے بہت زیادہ پریشان رہے۔مجھے تلاش کرنے کی خاطر سفارت خانہ کے علاوہ ہر اس فرد سے معلوم کیا جو مجھ سے آشنا تھا۔جب مجھے تفتیش کے لئے لے جا رہے تھے اس وقت میرے بچے اسکول میں میرے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔میرے نہ آنے پر بے چارے کسی واقف کار کے ساتھ گھر پہنچے۔غرض قید کے ایام میں سب سے زیادہ تکلیف گھر والوں کی پریشانی کا سوچ کر ہوتی تھی۔راتوں کو اسی سوچ کی وجہ سے نیند بھی نہ آیا کرتی۔قید خانہ میں بہت دعائیں کیں۔حضرت یوسف علیہ السلام کی قید وبند و صعوبت کا نظارہ آنکھوں میں گزر جا تا تھا۔اپنی ساری تفتیش مکمل کرنے کے بعد میرے خلاف جب ان کو کوئی ثبوت نہیں ملے تو انہوں نے چھ روزکے بعد مجھے رہا کر دیا۔خاکسار کورہا کرنے کے بعد اگلے روز میرے ہاسپیٹل میں آئےاور میرے ڈائریکٹر کو بتایا مسٹر ظفر خان کو ہم تفتیش کے لئے لے گئے تھے۔
لیبیا میں مجھے منسٹری آف ہیلتھ کی جانب سے طرابلس کے حدبہ شرقیہ کے مقام پررہائش دی گئی تھی۔ یہ علاقہ کافی وسیع تھا۔اس علاقہ میں مختلف ملکوں اور قوموں کے لوگ رہا کرتے تھے۔لیبین کے علاوہ پاکستانی،انڈین،عربی،مراکشی،ٹیونیشیائی،مصری،الجیرین اور اسی طرح دیگر مختلف لوگ رہا کرتے تھے۔ یہ تمام علاقہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بلدیہ کی نظر کرم کے انتظار میں ہے۔کچے اور نا ہموار راستے،ریگستانی ماحول،کانٹے دار جھاڑیاں۔برساتوں میں راستوں پر ایک سے ڈیڑھ فٹ تک پانی کھڑا ہوجاتا۔جب میں صبح بچوں کو برسات کے موسم میں اسکول لیکر روانا ہوتا تو میری گاڑی پانی میں کشتی کی مانند رواں رہتی ۔ اور اکثر ایسا ہوتا کہ گاڑی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی پانی کے بیچوں بیچ بند ہوکر لنگر انداز ہو جاتی ۔ایسی صورت میں بچوں کو کسی اور کی مدد سے اسکول پہنچایا جاتااور پھر بعد میں گاڑی کو دوسروں کی مدد سے نکالا جاتا۔غرض بہت ہی مشکل کا سامنا ہوتا تھا۔اور لیبیا کے قیام کے دوران جب بھی برسات کے آثار دکھائی دیتے تو اس مصیبت کے لئے اپنی کمریں کس لیا کرتے تھے۔ہم تقریباً 20 سال تک اس علاقہ اور اسی گھر میں قیام پذیر رہے۔اہلیہ اور بچے اس علاقہ سے مانوس ہو گئے تھے اوریہاں کے لوگوں سے بھی تعلق بن گیا تھا۔ اکثر جب میں کہتا کہ اس گھر کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جاتے ہیں کیونکہ برساتوں میں یہاں پریشانی ہوتی ہے۔ مگر گھر والے بالکل راضی نہ ہوتے تھے۔ہمارے ہمسایوں میں سب عربی تھے۔دو ہمسائے فلسطینی تھے۔ان سب سے ہمارے قریبی تعلقات تھے۔فلسطینیوں کو تو ہمارے احمدی ہونے کا بھی علم تھا۔ ہمارے بچے ان ہمسایوں کے بچوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔میرے بچوں نے وہاں عربی زبان بھی بولنا سیکھ لی تھی۔میرا بیٹا عمران ظفر تو بالکل عربیوں کی مانند عربی بولنے لگا تھا۔عمران کو قرآن کریم ناظرہ ہمارے فلسطینی ہمسائے نے پڑھایا۔کیونکہ اسکی والدہ کی یہ خواہش تھی کہ اسکا عربی تلفظ بہترین ہو جائے۔
بچوں کو لیبیا میں پاکستانی کمیونٹی اسکول و کالج میںداخل کیا گیا۔یہ اسکول فِشلوم کے مقام پر واقع تھا۔اسکول میں اکثر اساتذہ پاکستانی ہوتے تھے۔ایک اُستاد عربی تھا اور چند اساتذہ عیسائی تھے۔اس اسکول کا پرنسپل پاکستانی مسلمان تھا۔وہ خود تو متعصب نہیں تھا مگر تین پاکستانی اساتذہ متعصب تھے۔وہاں میرے بچوں کے علاوہ اور بھی احمدی بچے پڑھا کرتے تھے۔جب کلاس میں بچوں سے سورتیں سنی جاتیں تو احمدی بچوں کی باری آنے پراُنہیںسورتیں سنانے سےیہ کہہ کرمنع کر دیا جاتا کہ قادیانی قرآن نہیں پڑھ سکتے۔ علاوہ ازیںاحمدی بچوں کو اسکول کےبعض دینی پروگراموں میں بھی حصہ نہ لینے دیا جاتا۔

ملک لیبیا کا مختصر تعارف

لیبیا کی کل آبادی 6ملین ہے۔میںجب ستمبر 1979ء میںلیبیا آیا تو پاکستان اور لیبیا کے سفارتی تعلقات بہت ہی اچھے اور دوستانہ تھے۔ مقامی لوگ بھی ہماری بہت عزت و احترام کرتے تھے۔ لیبیا میں انقلابات 1969ء میںکرنل معمر قذافی لیکر آیا۔ جبکہاس کی عمر اس وقت صرف 27سال تھی اوریہ فوج میں لیفٹینینٹ تھا۔اُن دِنوں فوج میں دو تین انقلابی تحریکات زیر زمین چل رہی تھیں۔ کچھ جرنیل بھی روسی نواز تھے۔جن کا فوج میںکافی اثر ورسوخ تھا۔لیکن معمر قذافی نے اچانک ملک پر قبضہ کرلیا ۔اس وقت سنوسی جس کاپورا نام شاہ ادریس سنوسی تھا ،حکمران تھا۔1951ء میں جب لیبیا کی آزادی کی بات چلی تو یو۔ این۔ او نے لیبیا کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہا۔ایک حصہ اٹلی کے تسلط میں دو سرا فرانس کے اور تیسرا برطانیہ کے حصے میں رہا۔یہ طے کیا گیا کہ کچھ دیر انکی تربیب اور ٹریننگ کرنے کے بعد پھر پوری آزادی دی جائےگی۔اس منصوبہ بندی میںپیش پیش اٹلی تھا۔حضرت چوہدری سرمحمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے کوشش کرکے جنوبی امریکہ اور دیگر ممالک کے نمائندگان سے رابطے کرکے اس اسکیم کے خلاف ووٹ ڈلوائے۔اس طرح انہیں 1951ء میںہی آزادی مل گئی۔
سنوسی فیملی مذہبی طور پر لیبیا میں بڑے احترام سے دیکھی جاتی تھی اور انکی کچھ خدمات بھی تھیں ۔ اس لئےا نہیں ملک کا سربراہ بنادیاگیا تھا۔1969ء میںشاہ سنوسی مصرکے سرکاری دورے پرتھے ۔ایسے وقت میںمعمر قذافی نے حکومت پرفوج کی مدد سے اپناقبضہ کر لیا۔مصر کا سربراہ جمال عبد الناصر معمر قذافی سے بہت متاثر تھا۔اور اس کی بات ماننے والا تھا۔معمر قذافی نےحکومت پر قبضہ کرنے کے بعد اصلاحات شروع کر دیں ۔ہر ایک علاقہ میں مجلس شوریٰ انقلابی کونسل بنائی۔اوراب اس کے سامنے بڑے بڑے آفیسر بیوروکریٹس اداروںکےچیف پیش ہوئے ۔یہ انقلابی نام سے معمرقذافی کے منظور نظر لوگ تھے۔ میڈیا میں کونسل کے سامنےبڑےبڑے لوگ آتے اور اپنے اوپر لگے ہوئے الزامات کا جواب دیتے ۔جو مجرم تھےان کو ٹماٹر مارے جاتے پھر انہیں سزا دی جاتی۔اُن دنوں ایسے لوگ جن کے بارہ میں حکومت کو خطرہ لاحق تھا کہ یہ ہمارے خلاف بغاوت کر سکتے ہیں ،ایسے لوگوں کو پکڑا جا رہا تھا۔اسی وجہ سے بہت سےلوگ ملک چھوڑ کرباہر جا رہے تھے۔معمر قذافی کی حکومت نے ملک میں اصلاحات شروع کیں اور فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔تعلیم کی سہولت، صحرائی جگہوں پر تعمیرا تی کام شروع کئےگئے۔بجلی،پانی مہیا کیا،  سڑکوں کا جال ملک میں پھیلا دیا گیا۔زراعت پر بجٹ کا 60فیصدی خرچ کیا جاتا۔لوگوں کو دو دو مربعہ زمین الاٹ کرکے ایک ایک ٹریکٹر اور ایک ایک ہل اور ایک ٹیوب ویل جس کا پانی 300اور 400میٹر تک میٹھا آنا شروع ہوتا ہے،گورنمنٹ لگواکر دیتی تھی۔لیبین زمینداروں کو بہت سہولتیں دی جاتیں۔ لیبیا کیونکہ وسیع عریض ملک ہے ۔فصل کے موسم میںگورنمنٹ اپنی زمینوں پر 30،40کے لگ بھگ ٹریکٹروں سے روزانہ مختلف علاقوں میں ہل چلواتی اور پھر ہیلی کاپٹرکے ذریعے گندم کا بیج ڈالا جاتا ۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر ہر کام کیا جاتا۔میں جب 1979ء میں لیبیا گیا تومعمر قذافی کیحکومت اپنےعروج پر تھی۔1985ءکے بعد حالات خراب ہونے شروع ہوئے۔ عام لوگوں کے کاروبار ختم کرکے بڑے بڑے سٹور کھول دئیےگئے۔ پرائیویٹ بزنس کو بند کر دیاگیااور بڑے بڑے ا سٹوروں پر چیزیں ملنی شروع ہوئیں۔ہر قسم کی اشیاءخریدنے کے لئے لائن میں کھڑا ہونا پڑتا تھا ۔بعض اوقات گھنٹوں لائن میں کھڑے رہتے ۔جب باری آتی تو اشیاء آئوٹ آف اسٹاک ہو جاتی۔ پھرکرنل معمر قذافی کی گورنمنٹ نے اعلان کیا۔ہر شخص کے پاس فیملی بک (راشن کارڈ)ہونی چاہئے ۔اورفیملی بک کے اوپر جتنے گھر کے افراد ہیں ان کےنام درج ہونے چاہئیں۔اس دور میں عام لوگوں کو بہت زیادہ تکلیف کا سامنا تھا۔میں نے خود وہ تکلیف برداشت کی ہے۔گورنمنٹ نے جسقدر بھی اقدامات ان ایام میں کئے وہ لوگوں کی پریشانی کا باعث ہی ہوئے۔جسکا نتیجہ بالآخر یہ نکلا کہ ملک میں قذافی حکومت کے خلاف بغاوت اُٹھنے لگی۔اور باغیوں نے امریکہ کی مدد سے 2011ء میں اسکی حکومت کا تختہ پلٹ دیااور کرنل معمر قذافی کو اکتوبر 2011ء میں موت کی سزا دی گئی۔
لیبیا نارتھ افریقہ میں ہے Mediterranean Seaاس کے ساتھ لگتا ہے۔لیبیا کے ساتھ مصر ، سوڈان، الجزائر،ٹیونیشیا اور چاڈ ممالک کی سرحد لگتی ہے۔اس کا کل رقبہ 540،759،1 سکوائر کلومیٹر ہے۔اسکی آبادی67لاکھ افراد پر مشتمل ہے۔لیبیا افریقہ کا چوتھا بڑا ملک ہے۔لیبیا کے پاس دس بڑے آئیل کے ریزرو(کوئیں)ہیں۔جو کسی اور افریقی ملک کے پاس نہیں ہیں۔لیبیا کے تیل کی کوالٹی بھی عرب ممالک سے بہت عمدہ ہے۔ لیبیا کا سب سے بڑا شہر طرابلس ہے اور طرابلس اس کاپہلےدارالخلافہ تھا۔معمر قذافی نے بعد میں سیرت شہر کو اپنا دارالخلافہ بنایا۔سیرت ایک بڑا شہر ہے۔اس میں کرنل قذافی نے ایک بہت بڑا زمین دوز محل اپنی رہائش کے لئے بنایا۔اس کے ساتھ ہی اپنی حفاظت کے لئے بہت انتظامات کئے ہوئے تھے۔ہنگامی حالات میں بچ کر نکلنے کے لئے اس نے ایک ٹنل بنائی تھی۔جب اسے کہیں جانا ہوتا تو بلٹ پروف تین گاڑیاں ایک جیسی ہوتیں تاکہ معلوم نہ ہو سکے کہ کس گاڑی میں وہ بیٹھا ہے۔جہاز کے سفر کے وقت بھی دو ایک جیسے جہاز ایک ساتھ پرواز کرتے تھے۔غرض کرنل قذافی ایک محتاط حکمران تھا۔جسے معلوم تھا کہ اس کی جان پر ہر وقت خطرہ منڈلا رہا ہے۔یہی وجہ تھی کہ اپنی حفاظت کے بہتر سے بہتر انتظام اس نے کر رکھے تھے۔مگر اسے کیا معلوم تھا کہ موت تو بڑے بڑے بادشاہوں کو نہیں بخشتی۔ اسے بالآخر اپنے کئے کا انجام بھگتنا ہی پڑا۔
طرابلس جہاں میرا قیام تھا وہاں تقریباً ایک ملین کے قریب لوگ رہتے تھے ۔مقامی لوگوں کی نسبت بیرونی ممالک کے لوگ یہاں زیادہ بسے ہوئے تھے۔ لیبیاکا دوسرا بڑا شہربن غازی ہے۔جو کہ مشرقی لیبیا کی طرف واقع ہےاور طرابلس سے تقریباً 1000ایک ہزار کلو میٹر کی دوری پرواقع ہے۔لیبیا کی سرکاری زبان عربی ہے۔لیکن وہاں مختلف زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔یہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹاملک ہے لیکن رقبہ کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے۔اس کا زیادہ علاقہ ریگستان کی شکل میںہے۔ لیبین لوگ بہت مہمان نواز ،شریف الطبع اور ملنسار ہیں۔لیبیا کے لوگ فطرتاً نرم خوہیں۔یہ زبانی لڑائی جھگڑا توکرتے ہیںمگر ہاتھا پائی سے احتراز کرتے ہیں ۔لیبین قوم بڑی سادہ بڑی صابر و شاکر ہے اور مشکلیں برداشت کرنے والی ہے۔جو خدا نےانہیں دے دیااسی پر خوش رہتے ہیں ۔ملک میں جرائم کی شرح بھی کم ہے۔ 75فیصدی آبادی سنی مسلمانوں کی ہے۔باقی آبادی عیسائیوں اور دیگر مذاہب کی ہے۔لیبیا میں ہر قسم کے لوگ آباد ہیں عربی ،مصری ،سوڈانی ،ٹیونیشین،یورپین ،پاکستانی ،اٹالین، جرمن، فرانسیسی، ترکی،الجیرین،چینی اورجاپانی ہر ملک کے لوگ آباد ہیں۔یہاں کےمسلمان فطری طور پر مذہب پسند ہیں۔ملک کا زیادہ حصہ صحرائی ریگستان ہونے کی وجہ سےیہاں اکثر آندھیاں چلتی رہتی ہیں۔طرابلس اور صحرا ءکا پانی نمکین ہے ،لیبیا میں زمین بہت زرخیز ہے لیکن وہاں پانی کی دستیابی مشکل ہے۔ 300سے400فٹ گہری کھدائی کرکے میٹھا پانی نکالاجاتا ہے۔اس سے زراعت کرکےسبزی اور فروٹ وغیرہ لگایا جاتا ہے۔وہاں کے پھلوں میںخربوزہ،تربوز،مالٹااور انگور قابل ذکر ہیں جو جنت کے پھلوں کی سی مٹھاس اپنے اندر رکھتے ہیں۔ زیتونکیفصل یہاںبہت ہوتی ہے۔ دو ر دور تک زیتون کے درخت اور باغات وہاں موجود ہیں۔
لیبیا میں اور اس کے ماحول میں موسم بہت خوشگوار رہتا ہے۔ طرابلس میں نہ زیادہ گرمی پڑتی ہے نہ زیادہ سردی۔ زیادہ گرم کپڑوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔پاکستان کی نسبت موسم بہت خوشگوار رہتا ہے۔گرمی کے موسم مین پنکھے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔مئی ،جون کے مہینوں میں درجہ حرارت 30 یا زیادہ سے زیادہ 35 تک جاتا ہے۔لیکن رات بوجہ ریگستانی علاقہ ہونے کےٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ افریقہ میں صرف لیبیا ایسا ملک ہے جس کو بارہ سوکلو میٹر تک سمندر لگتا ہے۔اور سمندری ہوائیں چلتی رہتی ہیں۔یہاں کے لوگوں کی غذا خبزہ،پاستہ اور کُسکُسی ہےجو سوجی کی طرح ہوتی ہے اس کو سٹیم کرکے کھایاجاتا ہے۔شادی بیاہ میں زیادہکُسکُسی کو تیار کیا جاتا ہے۔اس کو پکانے کے لئے بھی ایک خاص قسم کابرتن ہوتا ہے۔کھانے میں زیتوں کا تیل زیادہ استعمال کیاجاتا ہے ۔زیتون کا اچار ناشتہ اور ہر کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ دیہاتوں میں لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ کثرت سےپالتے ہیں۔

لیبیا میں جماعت احمدیہ کی مساعی

1979ء کے زمانہ میں جب میں لیبیا آیا تو اس وقت لیبیامیں کل احمدی فیملیوں کی تعداد 175 کے قریب تھی۔ طرابلس شہر میںہی 42احمدی گھر آباد تھے،جو پاکستان سے آکر آباد ہوئے تھے۔انڈیا کی دواحمدی فیملیاں تھیں اور بنگلہ دیش کی ایک فیملی تھی۔ نمازوں کی ادائیگی کے لئے مختلف علاقوں میں رہنے والے احمدیوں کے گھروں کو سینٹر بنایا ہوا تھا۔ایک سینٹر حدبہ شرقیہ میں میرے گھر پر ہوتا تھا اور ایک تاجورہ کے علاقہ میں مکرم حمید احمد صاحب جو کہ فرِج اور ائیر کنڈیشن کے مکینک تھے، ان کے گھر پرتھا۔تیسرا سینٹر زاویہ روڈ پر مکرم محمدیوسف مجوکہ صاحب الیکٹرک انجینئرکے گھر میں ہوتا تھا۔اور وہاں ہماری نمازیں اور دیگر جماعتی پروگرام منعقد ہوا کرتے تھے۔نماز جمعہ کے لئے دو سینٹر ہوا کرتے تھے جن میں سے ایک مکرم محمد یوسف مجوکہ صاحب کاگھر تھا۔اور دوسرا مکرم کریم احمد طاہرصاحب مائنز انجینئرکی کوٹھی واقع سِبیا میں ہوتا تھا۔ یہ کوٹھی طرابلس سے 30 کلو میٹر دور سیمنٹ فیکٹری کے علاقہ میں تھی۔مخالفت کے پیش نظرایک جمعہ مجوکہ صاحب کے گھر میں ہوتا اورپھر اگلا جمعہ مکرم کریم احمد طاہرصاحب کی کو ٹھی پر ہوا کرتاتھا۔مکرم کریم احمد طاہرصاحب محترم مولانا ابو العطاء صاحب جا لندھری (خالد احمدیت)کے داما دتھے۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد عصر کی نماز بھی جمع کرکے ادا کی جاتی۔کھانے کا بھی وہاں ہی انتظام ہوتا تھا۔اور پھر شام تک لجنہ یا ناصرات کے پروگرام بھی ساتھ ہی ہو جایا کرتے تھے۔لیبیا میں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن چھٹی ہوا کرتی تھی۔مہینہ میں ایکمرتبہ تمام جماعت کی پکنک کا پروگرام ہوا کرتا تھا۔جس کے لئے تمام افراد جماعت طرابلس شہر سے 40یا50 کلو میٹرباہر یا تو سمندر کے کنارے یا کسی بھی خوبصورت مقام پر چلے جاتے تھے۔اس پکنک کے لئے اکثر جمعہ کا دن ہی رکھا جاتا تھا۔پھر وہاں ہی جمعہ ادا کیا جاتا، کھانا بھی وہاں ہی تیار ہوا کرتا،پھرجماعتی اور تنظیمی پروگراموں کے علاوہ کھیلوں کے پروگرام بھی وہیں کیا کرتے تھے۔اس دوران غیر احمدی زیر تبلیغ دوستوں کو بھی دعوت دی جاتی اور وہ بھی اس میں شامل ہوتے۔پکنک سے ہماری واپسی مغرب کے وقت ہوا کرتیتھی۔
اس جگہ ایک سچا واقعہ بیان کرنے کے قابل ہے۔میں اس وقت لیبیا ہی میں تھا۔طرابلس میں ایک احمدی خاتون اہلیہ مکرم دائود احمد صاحب تھیںجوکرنل معمرقذافی کے بچوں کی گورنس ہوا کرتی تھیں۔دائود احمد صاحب خود طرابلس کے مرکزی ہا سپیٹل میں کلیریکل سٹاف میں تھے۔اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں مذکورہ خاتون کرنل قذافی کے محل میں روزانہ جایا کرتی تھیں۔وہ احمدی خاتون ربوہ کی رہنے والی تھیں۔کرنل قذافی ان کی خدمات کی وجہ سےان کا احترام بھی کرتا تھا۔موصوفہ نے اپنے بچوں کو ربوہ پاکستان سے لانے کے لئے رخصت طلب کی۔کرنل قذافی نے انہیں کہا کہ میں خود اسلامی سربراہی کانفرنس میں پاکستان جا رہا ہوں۔آپ یہاں ہی رہیں ۔میں خود بچوں کو ربوہ جاکر لے آئونگا۔چنانچہ کرنل قذافی 1974ء میں جب پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس میں آیا تو کانفرنس کے بعد اس نے ربوہ جاکر بچوں کو لانے کا اظہار کیا۔مگر پاکستانی حکومت نے اسے یہ کہہ کر روک دیا کہ آپ نہ جائیں ہم خود بچوں کو آپ کے پاس لے آئیں گے۔چنانچہ حکومت کے اہلکار بذریعہ ہیلی کاپٹرربوہ آئے اور دونوں بچوں کو لیکر کرنل قذافی کے سپرد کر دیا۔کرنل قذافی ان بچوں کو اپنے ہوائی جہاز میں بٹھا کر لیبیا لے آیا اور ان کی ماں کے حوالے کر دیا۔یہ دونوں بچے لیبیا میں ہی پڑھے اور اس وقت یہ راولپنڈی میں ڈاکٹر ہیں۔یہ واقعہ اس وقت لیبیا میں رہنے والے تمام احمدی اچھی طرح جانتے تھے۔
لیبیا میں احمدی احباب سب اچھے پڑھے لکھے تھے۔کوئی ڈاکٹر تھا ،کوئی انجینئر،کوئی پروفیسر کوئی بینکوں میں اعلیٰ عہدیدار تھے۔غرض یہ کہ کافی اچھی اور فعال جماعت تھی جو تبلیغ میں بھی حصہ لیا کرتی تھی۔تبلیغ کے نتیجہ میں چند مقامی لوگ احمدی بھی ہوئے تھے۔مگر حکومت نے انہیں گرفتار کر لیا اور ان کے ساتھ مکرم ڈاکٹرچوہدری نور محمد صاحب پیتھالوجسٹ جن کا تعلق ملتان سے تھا ان کے دو بیٹوں کو بھی گرفتار کیا۔ یہ واقعہ غالباً8-10 سال قبل کا ہے۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی اپنے خطبہ میں ان کے لئے دعا کی تحریک کی تھی۔
میرے لیبیا قیام کے دوران وہاں جماعت کے سرکردہ لوگ درج ذیل ہوا کرتے تھے:
(1)مکرم کریم احمد طاہرصاحب مائنز انجینئر(پہلےصدر جماعت طرابلس)
(2)مکرم ملک مبارک ارشاد صاحب مرحوم انجینئر ایئر فورس
(3)مکرم محمد یوسف مجوکہ صاحب الیکٹرک انجینئر (دوسرے صدر جماعت طرابلس)
(4)مکرم محمد امین الدین صاحب
(5)مکرم مقصود احمد خان صاحب آفیسر فارن ایکسچینج سٹیٹ بینک آف لیبیا
(6)مکرم ڈاکٹر نور محمد صاحب
(7)مکرم ملک محمد حامد صاحب الیکٹرک انجینئیر
(8)مکرم مبارک احمد صاحب ائیرفورس
(9)مکرم پروفیسر ظفر اقبال صاحب
(10)مکرم حفیظ بھٹی صاحب
(11)مکرم محمدبشیرصاحب
(12)مکر م پروفیسر کریم ناصر صاحب
(13)مکرم ملک حفیظ صاحب
(14)مکرم محمد طارق صاحب
(15)مکرم دائود احمد خان صاحب

لیبیا میں جماعت کی مخالفت
مخالفت کا کچھ ذکر پہلے بھی گزر چکا ہے۔مخالفت اور شرارت کے پیش نظر پاکستانی مسلمانوںنے ہماری جماعت کی لسٹ بڑی محنت کے ساتھ تیار کرکے گورنمنٹ کو مہیا کی تھی۔اور انکے وفد نےگورنمنٹ سے یہ مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو یہاں سے نکالا جائے۔ان لوگوں نے بہت کوشش کی مگرگورنمنٹ نے اسے نامنظور کر دیا۔پاکستانی کمیونٹی کے اسکول میں جب بھی کمیونٹی کا کوئی پروگرام ہوتاتو کمیٹی کے الیکشن ہوا کرتے تھے۔اور سال میں ایک مرتبہ کمیٹی بنائی جاتی تھی۔اگر کوئی احمدی اس کمیٹی کا ممبر منتخب ہو جاتا تو اسکی بہت مخالفت ہوتی تھی۔اس طرح پاکستانی سفارتخانہ میں بھی اکثر ایسے پروگرام ہوتے جنکے لئے کمیٹی بنائی جاتی اور ممبران کا انتخاب ہوتا۔ایک مرتبہ ایک احمدی دوست مکرم ڈاکٹرمحمد رفیق صاحب ایک پروگرام کے دوران تلاوت کرنے لگے۔تلاوت تو انہوں نے کر دی مگر تلاوت ختم ہوتے ہی غیر احمدیوں نے ہنگامہ برپا کر دیا کہ یہ قادیانی ہے اس سے تلاوت کیوں کروائی گئی ہے۔میں بھی اس وقت وہاں موجود تھا اور دوسرے احمدی احباب بھی وہاں تھے۔چونکہ یہ پروگرام پاکستانی سفارت خانہ کی بلڈنگ میں ہو رہا تھا۔ سفارتخانہ کے عملہ نے کسی طرح اس ہنگامہ کو ختم کیا۔غرض وہاں مخالفت تو تھی مگر مقامی باشندوں کی طرف سے نہیں تھی بلکہ ہمارے ہی پاکستانی مسلمان بھائی اس کے محرّک بنے ہوئے تھے۔

محترم ڈاکٹر پروفیسر عبد السلام صاحب کی لیبیا میں آمد

ڈاکٹر عبدالسلام صاحب

نوبل انعام یافتہ محترم ڈاکٹر پروفیسر عبد السلام صاحب احمدی سائینسدان فروری 1980ء میں کرنل معمرقذافی کی دعوت پر لیبیا تشریف لائے۔آپ سرکاری مہمان تھے۔آپ کو طرابلس کی الفاتحہ یونیورسٹی میں فیزکس کا لیکچر دینے کی دعوت دی گئی تھی۔آپ نے وہاں مختلف موضوع پرلیکچر دئے۔ ڈاکٹر عبد السلام صاحب کوگورنمنٹ کی جانب سے طرابلس کے سب سے عالی شان پانچ ستارہ ہوٹل واقع زاویہ دھمانی میں ٹھہرایا گیا ۔آپ نے5 روز یہاںقیام کیا۔لیبیا کی حکومت نے تعلیم کے شعبہ میں بہت کام سر انجام دئے۔ڈاکٹر عبد السلام صاحب کو بھی اس سلسلہ میں ہی دعوت دی گئی تھی کہ آپ ہماری سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میںراہنمائی کریں ۔کرنل قذافی سے ملاقات میں آپ کی سائنسی تحقیقی موضوعات پرتبادلۂ خیال ہوا۔آپ نےلیبیا کےشعبہ تعلیم کی ترقی کے لئے مفید اور علمی مشورے دیئے۔جب آپ اپنے سرکاری کام سے فارغ ہو گئے تو محترم کریم طاہرصاحب صدر جماعت طرابلس کی دعوت پر احباب جماعت سے ملاقات کے لئے مکرم ملک مبارک ارشاد صاحب کے مکان واقع شارع شدّ پر تشریف لائے۔ محترم ڈاکٹر عبد السلام نے احباب جماعت احمدیہ سے ہوٹل میں فرداً فرداً بھی ملاقات کی۔پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب نے فرمایا :
’’مجھے لیبیا کےپر سکون ماحول میں احمدی احباب کو پھولتے پھلتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ پاکستان میں احمدیوں نے فرقہ واریت کی وجہ سے بہت سی تکالیف برداشت کی ہیں۔لیکن آپ یہاں اپنے عقائد کے مطابق زندگیاں گزار رہے ہیں ۔اور اپنی خواہش کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کر رہے ہیں۔‘‘
آخر میں انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو حفظ و امان میں رکھے۔اور احباب جماعت کا شکریہ ادا کیا۔احباب جماعت نے بھی پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت سے ہمیں بھی کچھ حصہ دیا۔یہاں اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے چائے کا انتظام کیا گیا تھا۔ آپ کی نیک نامی اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کناروں تک پہنچائی۔ڈاکٹر عبد السلام صاحب جیسی عظیم الشان شخصیت سے کون آشنانہیں ہے ۔ڈاکٹر عبد السلام صاحب کے علم و شہرت اور خدمات کو کون نہیں جانتا۔ 1980ء میں جماعت احمدیہ کےجن احباب کی ڈاکٹر عبد السلام صاحب سے ملاقات ہوئی ان میں خاکسار کے علاوہ مکرم کریم احمد طاہر صاحب ،مکرم محمدیوسف مجوکہ صاحب،مکرم ملک مبارک ارشاد صاحب ائیرفورس، مکرم پروفیسر ظفر اقبال صاحب،مکرم حفیظ بھٹی صاحب،مکرم امین الدین صاحب،مکرم ڈاکٹر نور محمد صاحب ، مکرم محمدبشیرصاحب،مکرم پروفیسرکریم ناصر صاحب،مکرم ملک حفیظ صاحب اورمکرم محمد طارق صاحب شامل تھے۔

حجِ بیت اللہ کی سعادت
جولائی 1990 ء کو مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مع اہل خانہ حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب ہماراحج کے لئے ویزہ لگا تو لیبیا کے غیر از جماعت افراد نے سفارت خانہ میں جاکر ہر ممکن کوشش کی کہ کسی طرح ہمارا ویزہ غیر مسلم بتا کر ردّ کروایا جائے۔مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اگلے روز بوقت صبح سعودی ایئر لائن کے ذریعہ طرابلس سے براستہ مراکش کے شہر کاسا بلانکا ہوتے ہوئےہم جدّہ کے حج ٹرمنل پر اُترے۔تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد جدّہ سے بس کے ذریعہ چار گھنٹے میں اسی روز شام کے وقت مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ہمارے گروپ میں چار احمدی فیملیاں تھیں اور ایک غیر احمدی فیملی تھی جو جماعت کے بارہ میں سب جانتی تھی اور ہماری اچھی جاننے والی تھی۔ہم سب یہاں مسجد نبوی کے بالکل سامنے ایک ہوٹل میں ٹھہر گئے۔اسی روز نماز مغرب اور نماز عشاء ہم نے مسجد نبوی میں ادا کی۔ مدینہ قیام کے دورا ن نماز تہجد اور بقیہ تمام نمازیں باجماعت مسجد نبوی میں ادا کرنے کا موقعہ ملتا رہا۔ لوگوں کا اژدہام ہونے کی وجہ سےہمیں آگے جگہ نہ مل پاتی تھی۔اور اس وقت مجھے خوب یاد ہے کہ مسجد نبوی کا ایک بڑا حصہ زیر تعمیر تھا۔یہاں ہم نے ایک ہفتہ قیام کیا۔روزانہ فجر کی نماز کے بعد ہم روضۂ رسول ﷺ پر دعا کی غرض سے جایا کرتے۔روضۂ رسول کے سامنے حفاظتی جنگلہ لگایا گیا ہے۔جس کے قریب جانا ممنوع ہے۔وہاں لوگوں کو ہم نے بہت زیادہ گریہ وزاری کرتے دیکھا۔اس مقام پر آنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا تھا گویا دل موم کی طرح پگھل رہا ہو اور دعائوں میں رقت خود بخود پیدا ہو رہی تھی۔
یہاں ہم جنت البقیع بھی دیکھنے گئے جہاں ایک گائیڈ کے ذریعہ ہمیں صحابہ کرامؓ کی قبور کے نشانمعلوم ہو سکے۔ہم نے یہاں دعا بھی کی۔مدینہ قیام کے دوران ہی ہمیں میدان جنگ بدر اور میدان اُحد،مسجد قبلتین،مسجد قبااور اربعہ مساجد اور دیگر تاریخی مقامات کی زیارت کرنے اور مساجد میں نوافل اور نمازیں ادا کرنے کا موقعہ ملا۔مدینہ منورہ میں ایک ہفتہ قیام کرنے کے بعد ہم حج کے لئے یہاں سے بذریعہ بس نکلے اورمدینہ میں اپنی قیامگاہ میں ہی احرام باندھا۔احرام باندھنے کےبعد پھر ہمارا سفر جاری رہا۔مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی مسافت ساڑھے چار گھنٹہ کی ہے۔شام کے وقت ہم مکہ معظمہ پہنچ گئے اور یہاں ایک رات ہوٹل میں قیام کیا۔اسی رات ہم نےگیارہ بجےپہلی مرتبہ خانہ کعبہ کی زیارت کی توفیق پائی۔ اس وقت بھی دل کی کیفیت ناقابل بیان تھی۔دل خدا کی حمدوثنا میں لگا ہوا تھا اور زبان پر تکبیرات کا ورد تھا۔اللہ کے شکر اور اپنے نصیب کی خوش قسمتی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہم نے خانہ کعبہ کا طواف شروع کیا۔آخری طواف اور حجر اسود کے بوسہ اور مقام ابراہیم پر نفلوں کی ادائیگی اور آب زمزم نوش کرنے کے بعد ہم اس سے فارغ ہوئےاور رات 2 بجے کے قریب ہوٹل واپس آکر آرام کیا۔
اگلے روز صبح فجر کی نماز مسجد حرام میںادا کی۔علی الصبح ہی ہم نے یہاں سے منیٰ کا قصد کیا۔اگلے روز عرفات کے لئے بسوں کا انتظام کیا گیا تھا۔عرفات پہنچ کر ہم ایک درخت کے نیچے حج کے خطبہ کے انتظار میں دیگر حاجیوںسمیت بیٹھ گئے۔پہلے نماز با جماعت ادا کی گئی اور پھرخطبہ سے فارغ ہونے کے بعد دعا ہوئی۔باقی سارا دن بھی ہم نے میدان عرفات میں ہی گزارا۔یہاں لوگوں کا بے حد اژدہام تھا۔ مغرب کے فوراً بعد ہم بھی دیگر حجاج کی مانند مزدلفہ کے لئے چل پڑے۔ راستے پر اسقدر رش تھا کہ گاڑیاں بھی بہت ہی دھیمی رفتار کے ساتھ رواں دواں تھیں۔ہم نے کچھ راستہ پیدل اور کچھ بس میں طے کیااور راستہ میں ہی ہم نے رمی جمار کے لئے سات سات کنکریاں چن لیں۔صبح آٹھ یا نو بجے کا وقت ہوگا کہ ہم مزدلفہ پہنچ گئےاور یہاں ہم نے کچھ وقت کیمپ میں آکر آرام کیا۔تھوڑا آرام کرنے کے بعد ہم منیٰ کے مقام پر رمی جمارکے لئے(کنکریاںمارنے کے لئے)چلے گئے۔اس سے فارغ ہوکر ہم نے بکرے کی قربانی کی اور بال اتروائے۔یہاں سے ہم خراماں خراماں خانہ کعبہ کی طرف چل پڑے۔اس راستہ میں ٹنل سے گزر کر جانا ہوتا ہے۔شام کے وقت ہم مسجد حرام میں داخل ہوئےاور طواف شروع کیا۔بعد طواف خانہ کعبہ، بوسۂ حجر اسوددیا۔مقام براہیم پر نوافل ادا کئے اور آب زمزم نوش کیا۔ان سب ارکان کی ادائیگی کے بعد ہم نے صفا و مروہ کے سات چکر لگائے۔اس موقعہ پر بہت ہی رش تھا۔ہم رات 2 بجے کے بعد فارغ ہوکر اپنی قیامگاہ پر واپس آئے اور آرام کیا۔اس طرح دو روز تک وہاں قیام کیا اور ارکان حج ادا کئے۔اور طواف وداع بھی کیا۔
اگلے روز نماز فجر ادا کی گئی۔اور ایک ٹیکسی کے ذریعہ ہم غار حرا اور غار ثور کی زیارت کے لئے گئے۔اور اس کے بعد ہم اسی روز جدّہ چلے گئے۔جدّہسے اگلے روز ہماری پاکستان کے لئے فلائٹ تھی۔اس کے ذریعہ ہم راولپنڈی پہنچ گئے۔پاکستان میں ڈیڑھ دو ماہ قیام کے بعد ہم اپنے اس یادگاری سفر کے انمٹ نقوش دل میں لئے واپس لیبیا پہنچ گئے۔

لیبیا سےلندن ہجرت کا پس منظر
احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے لیبیا میں حالات کافی عرصہ سے خراب چلے آرہے تھے۔ہمارے پاکستانی مسلمان بھائیوں نے مخالفت کا کوئی بھی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا۔پھر مقامی لوگ بھی غیر ملکیوں کے خلاف حکومت کو قدم اٹھانے پر مجبور کرتے تھے۔انکی خواہش تھی کہ غیر ملکیوں کو لیبیا سے نکال کر انکی جگہ لیبین لوگوں کو دی جائے۔کچھ گورنمنٹ کی بھی یہ پالیسی بن گئی تھی کہ غیر ملکیوں کی تعداد کم کی جائے۔مؤرخہ یکم ستمبر کو لیبیا میں ہر سال یوم انقلاب منایا جاتا ہے۔اور اسی دن کرنل قذافی نے عنان سلطنت سنبھالی تھی۔ 1993ء کو اسی دن کرنل معمر قذافی نے اپنی تقریر میں واضح کر دیا کہ اب غیر ملکیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ انکی جگہ لیبین لوگ کام کریں۔
اسکے چند ماہ گزرنے کے بعد ہی اس پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔سب سے پہلے محکمہ تعلیم نے اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹی سے سینکڑوں غیر ملکی اساتذہ کو نکالا، جن میں مصری، ٹیونیشین، مراکشی، شامی فلسطینی اور پاکستانی شامل تھے۔انکی جگہ مقامی افراد کو دی گئی۔اسکے آٹھ یا دس ماہ بعد اپریل 1994ء میں محکمہ صحت ،محکمہ بجلی،محکمہ زراعت۔محکمہ تعمیرات۔اور بینک وغیرہ سے لوگوں کو نکالا جن میں زیادہ تر لوگ انڈین، پاکستانی ،افریقن ، بنگالی اور عربی تھے۔دسمبر1996ء کو مجھے میرے ہاسپیٹل کے ڈائریکٹر نے اپنے دفتر میں بلا کر کہا کہ حکومت کی طرف سے سرکلر آیا ہے کہ غیر ملکیوں کو جلد فارغ کیا جائے۔اس لئے آئندہ نئے سال کے لئے آپ کا ویزہ نہیں لگ سکے گا اور نہ آپ کا کانٹریکٹ ری نیو ہوگا۔آپ کو اپنے ملک واپس جانا ہوگا۔وہ لمحہ میرے لئے ناقابل بیان ہے۔اس وقت قلبی کیفیت کیا تھی بتانا مشکل ہے۔بسے بسائے آباد گھر کے ساتھ اچانک پھر ہجرت کا خیال روح کو مضمحل کئے جا رہا تھا۔جنوری 1997 ءکو مجھے بھی اپنی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔اس حال میں گھر والے بھی بہت پریشان تھے۔میں نے اپنے گھر والوں سے مشورہ کیا کہ یہاں مخالفت بڑھتی جارہی ہے۔ملازمت بھی ختم ہو چکی ہے۔کچھ عرصہ بعد ویزہ بھی ختم ہو جائے گا۔ہم یہاں مزید نہیں رہ سکتے یہ غیر قانونی ہوگا۔بچوں نے حضور خلیفۃ المسیح الرابعؒکی خدمت میں دعا کے لئےخط بھی لکھے۔تقریباً چار ماہ بعد ہماری راہنمائی خلیفۂ وقت نے فرمائی۔حضور ؒ نے بذریعہ خط ہمیں فرمایا کہ آپ بچوں کو لیکر لندن آجائیں۔
حضورؒ سے راہنمائی ملنے کے بعدمیں نے برطانیہ ویزہ کے لئے کارروائی شروع کر دی ۔میری بیٹی تہذیبیہ کی شادی لیبیا قیام کے دوران ہوچکی تھی۔وہ اُس وقت اپنے شوہرکے ساتھ لندن میں آباد تھی۔ برطانیہ کا ویزہ ملنے میں کچھ دیر ہو گئی۔ویزہ ملتے ہی خاموشی کے ساتھ ہم نےمورخہ 11؍اکتوبر 2000ء کو برطانیہ کی طرف ہجرت اختیار کی۔اس ہجرت کے نتیجہ میں ہمیں اپنا بہت کچھ اثاثہ یونہی چھوڑ کر آنا پڑا۔گھر والوں کو لندن چھوڑنے کے دو ہفتہ بعد میں دوبارہ ضروری کاموں کے پیش نظر لیبیا چلا گیا۔وہاں میں نےپانچ ماہ تک ایک عزیز کے پاس رہائش کی۔اپنے سارے ضروری کام مکمل کرنے کے بعد پھر برطانیہ کا ویزہ لے کر اپنے گھر والوں کے پاس مارچ 2001ء کو واپس لندن آگیا۔ہم محض حضور انورؒ کی دعائوں کے طفیل بخیرو عافیت لندن منتقل ہوئے اور جلد ہی ایک ماہ کے اندر ہمیں گورنمنٹ کی جانب سے عارضی طور پررہائش کی اجازت مل گئی ایک سال کے اندر ہی قانونی طور پر ہم کو یہاں رہنے کی اجازت حاصل ہو گئی۔اللہ کے فضل سے ہمارے سب کام بنتے چلے گئے۔الحمد للہ ثم الحمد للہ

ملک برطانیہ کا مختصر تعارف
برطانیہ ایک جزیرہ نما ملک ہے اور اس کے چاروں طرف سمندر ہے۔ برطانیہ کے ساتھ سکاٹ لینڈ، آئیرلینڈ،ویلز اور شمالی آئیرلینڈ شامل کرکے یہ ملک UNITED KINGDOM کہلاتا ہے۔ برطانیہ کی آبادی 66.65ملین ہے۔برطانیہ کا کل رقبہ209331مربع کلو میڑ اور 80823مربع میل ہے۔ یہاں پر جنگلات ہیں اونچی نیچی جگہ میںشہر آباد ہیں ۔یہاں کی مٹی زرخیز ہے۔اس ملک کےشمالی علاقہ جات اور دوسرے علاقوں میں بارشیں بہت ہوتی ہیں ۔ا س ملک کا دارالحکومت برطانیہ کے سب سے بڑے شہر لندن LONDONمیں ہے۔برطانیہ کا نظام حکومت پارلیمانی ہے ۔برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظمریشی سُنک(ہندوستانی نژاد) ہیں۔بادشاہ چارلس سوم برطانیہکے بادشاہ اور سربراہ مملکت ہیں۔اس کے علاوہ یہ 15دیگر آزاد ممالک کے بھی سربراہ مملکت ہیں۔برطانیہ کی سرکاری زبان انگریزی ہے۔ کرنسی پونڈ سٹر لِنگ ہے جو کہ دنیا کی مضبوط کرنسیوں میں سے ایک ہے ۔برطانیہ میں 60فیصد عیسائیت اور 40فیصد دوسرے مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔جن میں مسلمان ،ہندو،سِکھ،بدھ مت ،پارسی،یہودی آباد ہیں۔یہاں پر مذہبی آزادی ہے۔ حکومت کسی کے مذہب میں دخل اندازی نہیں کرتی۔ہرمذہب کو اپنے مذہب کے تحت عبادت کرنے کا حق ہے۔ برطانیہ کی معیشت پیداوار کے لحاظ سے یعنی جی ،ڈی،پی کےلحاظ سے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے۔اور قوت خرید کی برابری کےلحاظ سے دسویں بڑی معیشت ہے۔جو کہ انسانی ترقی کی درجہ بندی کے لحاظ سےدنیا میں 13ویں نمبر پر ہے۔
برطانیہ میں دنیا کے ہر ملک کے لوگ آباد ہیں اکثریت پڑھے لکھے لوگوں کی ہے۔یہاں پر 60فیصد عورتیں کام کرتی ہیں اور 40فیصد مرد کام کرتے ہیں۔ تجارت پیشہ لوگ دنیا کے ہر ملک سے آکر یہاں آباد ہیں۔ دنیا کے ہر ملک کی چیز یہاں دستیاب ہوجاتی ہے۔برطانیہ میں میٹرک تک تعلیم فری اور عام ہے ۔بچہ پیدا ہونے کے چار سال کے بعد سکول میں داخل کروانا ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کو کتابیں کاپیاں و پینسل فری دی جاتی ہیں۔بچوںکو میڈیکل اور ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔جس مرد یاعورت کے پاس کام نہیں وہ دفتر روزگار میں اپنا نام وپتہ درج کرواتے ہیں۔ روزگار نہ ملنے تک اُسےروزمرہ خرچ کے لئے حکومت وظیفہ دیتی ہے۔بوڑھوں اور بچوں کے لئے بھی وظیفہ گورنمنٹ دیتی ہے۔ برطانیہ میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت ہر جگہ میسر ہے۔انڈر گراؤنڈ ٹرینیں،ڈسڑکٹ ٹرین،سنگل اور ڈبل بس اور ٹیکسی، فاسٹ ٹرین آرام دہ وسائل نقل و حرکت میں سے ہیں جو کہ ہر جگہ چلتی ہیں۔سینٹر لندن میں سے ایک دریا تھیمز گزرتا ہے جس کے دونوں طرف خوبصورت عمارات اور خوبصورت سڑکیں بنائی گئی ہیں۔دریا میں چھوٹے خوبصورت بحری جہاز ،کشتیاں اور فیری ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹورسٹ کو لے جاتے ہیں۔
مغربی جانب شاہی خاندان کے محلاّت ہیں ۔کثرت سے لوگ ان مقامات کو دیکھنے آتے ہیں۔ سیر وتفریح کے لئے جگہ جگہ پارک ،میوزیم ،ہوٹل ہیں۔برطانیہ میں علاج معالجہ کے لئے ہر ایریا میں بڑے پیمانے پر ہسپتال موجود ہیں۔ جہاں لوکل ڈاکٹر جی پی ، سرجن مہیا ہیں اور ہر قسم کا علاج اور آپریشن ، ایکسرےسیکشن، لیبارٹری ٹیسٹ غرض ہر قسم کی سہولت موجود ہے۔ ایمرجنسی کے لئے ہر وقت ایمبولینس تیار رہتی ہے اور جب ضرورت پڑے فون کرنے پر آجاتی ہے۔ہسپتالوں میں ہر قسم کے ٹیسٹ و علاج مفت ہیں اور ہسپتالوں میں مریض کو مکمل آرام کے بعد ڈسچارج کیا جاتا ہے۔
برطانیہ کا قومی کھیل فٹ بال اور کرکٹ ہےجوکہ چھٹی کے روز ہفتہ اور اتوار کو کھیلا جاتا ہے ۔ برطانیہ میں اکثر باہر کی ٹیموں سے میچ کھیلے جاتے ہیں۔برطانیہ میں لوگ فٹ بال اور کرکٹ کے میچ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔
برطانیہ کے ملک کا ذکر کرنا اس لئے مقصود تھا کہ خاکسارکے دادا حضرت ماسڑمحمد طفیل خان صاحبؓ کے خاندان کے کثیر التعداد افراد ملک برطانیہ میں آباد ہیں ۔خاکسار اور خاکسار کے چار بھائی اور ان کی اولادیں، خاکسار کے چچائوں کی اولادیں سب برطانیہ میں مقیم ہیں ۔ اور پھر سب سے بڑھ کر ہمار ے پیارے حضور خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی برطانیہ میں ہی قیام پذیر ہیں۔1984ء میںہمارے چوتھے خلیفہ حضرت مرزا طاہر احمدصاحب خلیفۃ المسیح الرابع ؒپاکستان سے ہجرت کرکے لندن برطانیہ تشریف لائےتھے۔اس وقت سے اس ملک کو خلیفۃ المسیح کی قدم بوسی کا شرف مل رہا ہے۔اس وقت سے ہی برطانیہ میں جماعت احمدیہ کی غیر معمولی ترقی کا دور بھی شروع ہوا۔ مختلف مساجد اور مشن ہائوسز کی تعمیرہوئی۔مسجد بیت الفتوح کی بنیاد رکھی گئی اور اسکی تعمیر مکمل ہوئی۔برمنگھم کی مسجد تعمیر ہوئی۔بریڈ فورڈ اور مانچیسٹر کی مسجد اور مشن ہائوس تعمیر ہوئے۔ویلز اور سکاٹ لینڈ میں مساجد اور مشن تعمیر ہوئے۔سائوتھ ہال میں مسجد اور مشن بنایا گیا۔اس کے علاوہ بہت سی عمارتوں کو خرید کر مشن ہائوس بنائے گئے۔حضور خلیفۃ المسیح الخامس کے دور میں ان میں سے اکثر مساجد اور مشن ہائوس کا افتتاح عمل میں آیا۔ خلافت رابعہ میںمسلم ٹیلی ویژن احمدیہMTA کی نشریات کا آغاز ہوا۔حضوراقدس ؒکے آنے کے بعد بڑی تعداد میں احباب جماعت بھی برطانیہ میں آ کر آباد ہوگئے۔پیارے حضور حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دور میں لند ن سے اسلام آباد TILFORD جماعت کا ہیڈکواٹر منتقل ہوا جہاں اب قصر خلافت ہے۔جامعہ احمدیہ یوکے کا قیام ایک نہایت خوبصورت مقام پر عمل میں آیا۔برطانیہ میں احباب جماعت بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں ۔یہاں ہر سال جولائی کے آخری عشرہ میں یعنی جولائی اگست کی تاریخوں میں جلسہ سالانہ ہوتا ہے۔شمع خلافت کے پروانے جوق در جوق ہزاروں میل کا سفر طے کرکے اپنے پیارے خلیفہ کے آستانہ پر حاضری دیتے ہیں۔اور دن رات جہازوں ٹرینوں اور بسوں کے ذریعہ اور راستہ بھر کی تکلیفوں کو راحت سمجھتے ہوئے اپنے آقا کا دیدار کرنے لئے پہنچ جاتے ہیں ۔دنیا کے بے شمار ملکوں سے جلسہ میں شمولیت کرتے ہیں۔جلسے کی برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔حضور اقدس کے خطاب سنتےہیں۔ انفرادی اور فیملی ملاقاتیں کرتے ہیں۔ باہر سے آئے مہمانو ں کی پندرہ دن تک مہمان نوازی ہوتی ہے۔ جلسہ کی برکت سے ملک کی معیشت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آمد و رفت میں اضافہ ہوتا ہے۔جلسہ پر آئے ہوئے مہمان برطانیہ کے تاریخی مقامات کو دیکھنے اور سیروتفریح کے لئے دوسرے شہروں میں بھی جاتے ہیں۔جلسہ کے پروگرام کی تمام کارروائی حضور اقدس کاخطاب MTAکے ذریعے ساری دنیا میں دیکھا جاتا ہے۔غرض اس ملک سے خلافت کا نور اب ساری دنیا میں پھیل رہا ہے اور ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کا مرکز اب برطانیہ کے ملک میں ہے۔ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ ہم نے قدیم نوِشتوں میں لکھی ہوئی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ لیا۔ یقیناً ہم اس بات کے گواہ ہیں کہ ہم نے مغرب سے سورج طلوع ہوتے دیکھ لیا ہے۔الحمد للہ علیٰ ذالک

لندن میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز
آ غاز میں جب ہم لندن آئے تو ہم نے یہاں اپنی بیٹی تہذیبیہ خالد کے گھر پر تین ہفتہ قیام کیا۔یہ گھر نیو ایڈمنٹن میں واقع تھا۔اسکے بعد میری فیملی گورنمنٹ کی جانب سے دئے گئے ایک ہوٹل میں رہنے لگی۔یہ ہوٹل نارتھ لندن میں ہیکنی میں واقع تھا۔اس ہوٹل میں میرے بیوی اور بچے چار ماہ تک رہے۔اسکے بعد گورنمنٹ کی جانب سے ہمیں ایک گھر ملا جواین فیلڈمیں واقع تھا۔میں اس گھر کے ملنے سے دو دن قبل ہی لیبیا سے اپنے ضروری کام ختم کرکے لندن پہنچا تھا۔ایک سال این فیلڈ والے اس گھر میں رہنے کے بعد اور ہمارا Asylumکا کیس فائنل ہونے کے بعد ہم کو مسجد فضل کے پاس بمقام اِنر پارک ہماری خواہش کے مطابق گورنمنٹ نے ایک گھر رہنے کے لئے دے دیا۔اس گھر سے ہمیں مسجد میں نمازوں کے لئے بہت آسانی تھی۔خلیفۂ وقت کے پیچھے نمازوں کا باقاعدگی سے موقعہ ملتا رہا۔اسی گھر میں رہائش کے دوران ہی میری اہلیہ کی وفات بھی ہوئی۔یہاں رہائش کے دس ماہ بعد ہمیں پھر اپنی رہائش تبدیل کرنی پڑی۔ہمیں گورنمنٹ نے روہمپٹن میں ایک گھر الاٹ کیا جس میں اب تک ہمارا قیام تھا۔بعد میں یہ گھر میرے بیٹے عمران ظفر نے گورنمنٹ سے خرید لیا ۔
لندن میں آنے کے چند دن بعد ہی حضور خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے ہماری سب سے پہلی فیملی ملاقات مسجد فضل میں ہوئی۔ملاقات کےدوران حضورؒ نے مجھ سے میرا تعارف دریافت فرمایا۔چنانچہ میں نے حضورؒکو بتایا کہ میں حضرت ماسٹر حکیم محمد طفیل خان صاحب بٹالویؓ کا پوتا ہوں ۔حضور فرمانے لگےکہ ’’آپ ماسٹر صاحب کے کونسے بیٹے کے بیٹے ہیں۔ایک بیٹے کا نام صالح احمد تھا۔دوسرے بیٹے کا ناصر الدین تھا۔ایک کا نام ملک اختر احمدتھا،میں سب بیٹوں کو جانتاہوں۔‘‘میں نےجواب دیا کہ میں ان کےسب سے بڑے بیٹے اعجاز الحق خان کا بیٹا ہوں۔حضورؒ فرمانے لگے کہ’’ آپ کےچچاصالح احمدمیرے کلاس فیلو تھے،ہم سب اکٹھے ہو کربچپن میں کھیلا کرتے تھے۔‘‘اس ملا قات کی یاد اب بھی میرے دل میں باقی ہے۔ حضورؒ کی یاداشت اتنی اچھی تھی کہ ہر فرد کو ذاتی طور پر جانتے تھے۔ایک ایک فرد کے حالات معلوم رکھنا،واقعی یہ بہت بڑی بات تھی اور خداداد قوت تھی۔

وفات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور خلافت خامسہ کی بیعت

لندن ہمیں آئے تقریباً ڈھائی سال کا عرصہ ہی گزرا تھا کہ ایک اندوہناک وقت ہماری زندگی میں آیا جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی جدائی ہمیں برداشت کرنی پڑی۔اس وقت میں اپنی فیملی کے ساتھ جرمنی گیا ہوا تھا ،جہاں اس واقعہ سے دس روز قبل میری خوشدامن صاحبہ کی وفات ہوئی تھی۔ان کی وفات ہمارے لئے ایک بڑا صدمہ تھی۔مگر اس سے بھی بڑھ کر دل کو صدمہ ہوا جب اپنے پیارے آقا کی وفات کی خبر ہم تک پہنچی۔یہ 19اپریل2003ء کی تاریخ تھی اور صبح کا وقت تھاجب پیارے حضور کی وفات کی اطلاع ہمیں ملی۔اسی روز ہم نے جرمنی سے بذریعہ ہوائی جہاز واپسی کی۔یہاں جب ہم ظہر کی نماز کے وقت مسجد فضل پہنچے تو یہاں کا نظارہ ہی کچھ الگ تھا جو بیان سے باہر ہے۔ احباب کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا۔سب لوگ زارو قطار رو رہے تھے۔اور اپنے پیارے آقا کی یاد میں آنسو بہا رہے تھے۔مسجد کے تین اطراف سے راستہ کو بند کر دیا گیا تھا۔سڑکوں پر زمین پر ہی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ذکر الٰہی اور درود شریف سب کی زبانوں پر تھا۔دنیا کے کونے کونے سے احباب حضور کے آخری دیدار اور تدفین میں شامل ہونے کے لئے آئے ہوئے تھے۔اور صبح سے لیکر شام تک لوگ بیٹھے رہے۔نمازیں بھی اسی حال میں وہیں ادا کیں۔حضور کا جسد مبارک محمود ہال میں رکھا گیا تھا۔ ہر فرد باری باری ایک دروازہ سے گزر کر حضور کا چہرۂ مبارک دیکھ کر افسردہ دل اور نمناک آنکھ لئے دوسرے دروازہ سے باہر چلا جاتا۔میں نے بھی اپنی باری آنے پر حضور کے آخری دیدار کی کوشش کی ۔دل میں یہ خیال اُبھر رہا تھا کہ کیا میں اپنے محبوب آقا کو اس حال میں دیکھنے کی طاقت اور حوصلہ رکھ سکوں گا؟میں نے کوشش کی اور اپنے آقا کے آخری دیدار کئے۔ میری حالت بھی اس وقت دیگر احمدی احباب سے مختلف نہ تھی۔بڑی سے بڑی مصیبت برداشت کرنے کی اللہ نے مجھے توفیق دی۔مشکل سے مشکل وقت میں اپنا حوصلہ بنائے رکھا۔ہجرت پر مجبور ہوا مگر ہمت نہ ہاری۔ کبھی میری آنکھ میں آنسو‘ نہ آ سکے۔مگر یہ وہ وقت تھا جب سب بند ٹوٹ گئے۔میں خود کو آنسو‘ بہانے سے نہیں روک پایا۔اُس پیارے امام کی جدائی کا غم جس نے والد مہربان کی مانند قدم قدم پرہماری راہنمائی کی اتنا زیادہ تھا کہ اس کی جدائی برداشت سے باہر تھی۔
باہر لوگ مسلسل رات 11 بجے تک یخ بستہ رات میں اس انتظار میں تھے کی نئے خلیفہ کا چہرہ دیکھیں گے۔اور مسجد فضل میں اس وقت انتخاب خلافت کے لئے خدا تعالیٰ کی تقدیر کار فرما تھی۔اچانک رات 40:11بجے مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن نے مسجد فضل کے لائوڈ اسپیکر پر اعلان کیا کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس اب خلیفۃ المسیح ہیں۔

جوں ہی اوجھل ہوا مہِ تاباں
اِک نیاچاند نور بار ہوا

کچھ دیر بعد حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد فضل سے سب سے پہلا حکم جماعت کو یہ دیا کہ ’’احباب بیٹھ جائیں‘‘
اپنے امام کی ایک آواز پر باہر جمع افراد جماعت نے اطاعت کا نمونہ پیش کیا اور اسی لمحہ جس کو جہاں جگہ ملی وہیں بیٹھ گیا۔اسکے بعد پیارے حضور پھر جماعت سے مخاطب ہوئے اورسورۃ الفاتحہ کے بعد فرمایا:
’’احباب جماعت سے صرف ایک درخواست ہےکہ آجکل دعائوں پر زور دیں۔بہت دعائیں کریں،بہت دعائیں کریں،بہت دعائیں کریں۔اللہ تعالیٰ اپنی تائید ونصرت فرمائےاور احمدیت کا یہ قافلہ اپنی ترقیات کی طرف رواں دواں رہے۔آمین‘‘
اسکے بعد آپ نے احباب جماعت سے بیعت لی اور دعا کروائی۔اس وقت لوگوں کی حالت ایسی تھی کہ گویا انہیں ایک نئی زندگی ملی ہو۔اور ایک روحانی سکون میسر آیا۔اور خلافت پر ان کا یقین اور بھی زیادہ مستحکم ہو گیا۔سب نے دل و جان سے اپنے نئے خلیفہ کی بیعت کی اس جگہ موجود احباب جماعت میں سے الحمد للہ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس نے آپ کی بیعت نہ کی ہو۔
اگلے روز صبح دس بجے کے قریب حضور خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا جنازہ قافلہ کی صورت میں اسلام آباد کے لئے روانہ ہوا۔ایک وین میں حضور ؒ کا جسد اطہر لے جایا جا رہا تھا۔اس کےآگے ایک دو سیکیورٹی کی گاڑیاں تھیں اور پیچھے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور افراد جماعت کی گاڑیاں ایک منظم قافلہ کی شکل میںتھیں۔قافلہ کے ساتھ سا تھ پولیس کے اہلکار بھی تھے اور ہیلی کاپٹر کے ذریعہ بھی سیکیورٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ قافلہ اسلام آباد پہنچا جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی نماز جنازہ ہزاروں احمدیوں کے مجمع میں پڑھائی اور سب نے درد دل اور پر سوز دعائوں اور آنسوئوں اور سسکیوںکے ساتھ اپنے پیارے محبوب آقا کو سپرد خدا کیا۔۔۔
آج بھی مجھے حضور خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ذکر آنے پر آپ کا وہ متبسم اور خندہ نورانی چہرہ یاد آ جا تا ہے اور آپ سے کی گئی وہ پُر لطف ملاقاتیں چشم زدن میں نظروں سے گزر جاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ آپؒ پر اپنا رحم نازل فرمائے اور آپؒ کو اپنے مقربین میں قرب خاص عطا فرمائےاور آپ کی جملہ دعائیں جو اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے پیش نظر کی گئیں ہیں جلد قبول فرمائے۔آمین

لندن میں میری مصروفیات
لندن میں آکر میں نے عارضی طور پر پہلے ایک فارمیسی میں کام کیاجو مسجد فضل کے قریب ہی تھی۔ اس کا نام فضل فارمیسی تھا اور یہ ایک احمدی خاتون ڈاکٹر منصورہ صاحبہ کی ملکیت تھی۔نو یا دس ماہ یہاں کام کرنے کے بعدمختلف جگہوں پر کام کرتا رہا۔ساتھ ساتھ جماعتی کاموں میں بھی حصہ لیتا رہا۔
خاکسار نےستمبر2004ء سے فضل مسجد میںآنریری ڈاک کی ترسیل کا کام شروع کیا۔ خاکسار کی ٹیم میں مکرم چوہدری آفتاب احمد صاحب،مکرم حمید کرامت صاحب ،مکرم سعید سہگل صاحب ، مکرم بشیر احمد صاحب اور کمانڈر ناصر احمد صاحب شامل تھے۔اس طرح مختلف افراد کام پرآتے اور کچھ عرصہ کے بعد چھوڑ کر چلے جاتے۔ہم چھ افراد آفتاب صاحب کے ساتھ مستقل کام کرتے تھے۔چوہدری آفتاب صاحب ہمارے انچارچ تھے۔تقسیم ملک سے قبل خاکسار کے دادا جان حضرت حکیم طفیل خان صاحبؓ سےمکرم آفتاب احمدصاحب اپنے زمانۂ طالب علمی میں انگریزی پڑھا کرتے تھے۔خاکسارکا چوہدری صاحب سے اپنے دادا جانؓ کی وجہ سے بہت محبت کا تعلق تھا۔وہ میری بہت عزت کرتے تھےاور کہا کرتے تھے کہ میں آپ کے دادا جان کی وجہ سےآپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔جب بھی ہم ڈسپیچ آفس میں اکٹھے ہوتے اور ڈاک کی ترسیل کاکام نہ ہوتا تو چوہدری صاحب میرے پاس آکر بیٹھ جاتے اور خاکسار کے دادا جانؓ کی باتیں سنایا کرتے اوردادا جانؓ کی بہت تعریف کرتے تھے کہ آپ کے دادا جانؓ انتہائی نیک انسان تھے۔
میں نے اپنے بچوںکے لئے ہمیشہ خلافت کے زیر سایہ رہ کر اپنی زندگیاں گزارنے کی خواہش کی ہے۔ اللہ کے فضل سے میرے بچے بھی خلافت سے منسلک ہیںاور خدمت دین میں مصروف ہیں۔ خاکسار جلسہ سالانہ برطانیہ میں بھی ڈیوٹیوں پر مامور کیا جاتا ہے۔اور اسی طرح دیگر جماعتی کاموں کی بھی توفیق حاصل ہوتی رہتی ہے۔

جلسہ سالانہ قادیان 2005ءمیں شرکت
مجھے اور میرے بیٹے عمران ظفر کو قادیان میں پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ قادیان 2005ء میں جانے کا موقعہ ملا۔یہ وہ جلسہ ہے جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس بھی لندن سے تشریف لے گئے تھے۔ ہم لندن سے دہلی مؤرخہ 25؍دسمبر کی صبح6 بجے پہنچے۔دہلی دارالتبلیغ میں کچھ دیر قیام کیا۔ اور دہلی سے بذریعہ ٹرین اسی روز امرتسر آئے اور شام کے وقت قادیان دارالامان پہنچ گئے۔قادیان کی مقدس بستی کو پہلی مرتبہ دیکھ کر ایک عجیب کیفیت تھی دل بہت مسرور تھا۔بہشتی مقبرہ دیکھااورحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روضۂ مبارک پر دعا کی۔ہم نےخوب دعائیں کیں۔آنکھیں اشکبار تھیں۔بیت الدعاء جاکر دعائیں کرنے کا کئی بار موقعہ ملا ۔مسجد اقصیٰ ،مسجد مبارک ،سرائے وسیم،سرائے طاہر، دارالضیافت، یوروپین گیسٹ ہاوسز،دارالمسیح جانے کا اور دیکھنے کا موقعہ ملا۔ڈیوٹیوں کا نظام اور یہاں کا ماحول بہت پسند آیا۔یہاں ہم لندن گیسٹ ہائوس واقع دارالانوار میںٹھہرائے گئے۔میرا بیٹا عمران ظفر بھی میرے ہمراہ تھا۔قادیان میں حضور اقدس بنصرہٖ العزیز کی آمد کی وجہ سے بہت زیادہ رونق تھی۔دنیاکے کونے کونے سے احباب جماعت احمدیہ آئے ہوئے تھےاورجلسہ کے موقعہ پر حضور انور کا خطاب سننے ا ور دیکھنے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ہمارے پاکستانی احباب کثرت سے اس موقعہ پر شامل ہوئے تھے۔صبح کے وقت جب حضور انور دارالمسیح سے بہشتی مقبرہ تشریف لے جاتے اُس وقت سڑک کی دونوں جانب لمبی لمبی قطاریں حضور انور کے دیدار کے منتظر احباب کی لگ جاتی تھیں۔سارا قادیان نعروں سے گونج اٹھتا تھا۔اسلام احمدیت،قادیان دارالامان، انسانیت زندہ باد کے نعرے لگتے رہتے۔اس دوران غیر از جماعت لوگ بھی حضور انور سے ملاقات کی غرض سے اور آپ کے خطبات سننے آئے اور جلسہ کی برکات سے مستفیدہوئے۔اس سال جلسہ سالانہ پہلی مرتبہ 11 ایکڑ اراضی جو قادیان سے ننگل باغباناںجانے والی سڑک پر واقع ہے، منعقد ہوا تھا۔اس جگہ کے گرد اب چاردیواری کر دی گئی ہے اور اب قادیان کے سالانہ جلسے اسی مقام پر ہوتے ہیں۔اس جلسہ گاہ کا نام سیدنا حضور انور ایدہ‘ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’بستان احمد‘‘ رکھا ہے۔اس سال زنانہ جلسہ گاہ مسجد ناصر آباد کے مشرقی جانب احمدیہ گرائونڈ میں ہوا۔

جلسہ سالانہ قادیان 2017ء میں شمولیت
اسی طرح بارہ سال بعد پھر مجھے2017ء کے جلسہ سالانہ قادیان میںشمولیت کی سعادت ملی۔اس سال میں جلسہ سالانہ قادیان کے لئے مورخہ 6؍ دسمبر2017ء کو براستہ پاکستان قادیان پہنچا۔اس مرتبہ میں اکیلا ہی قادیان آیا۔میرے ماموںزاد بھائی مکرم محمد اکرام اپنی اہلیہ کے ساتھ مجھے لینے واہگہ بارڈر آئے۔اس مرتبہ میری رہائش بیوت الحمد کالونی کواٹر نمبر 26 میںمیری ماموں زاد بہن عزیزہ صفیہ مبارکہ اہلیہ مکرم عبد الحمید قمر صاحب مرحوم کے گھر پر تھی۔ ان بارہ سالوں میں قادیان میں بہت تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔مسجد اقصیٰ ،مسجد مبارک،دارالمسیح ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب نئے کر دئے گئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے مشرقی جانب دومنزلہ خوبصورت عمارت بنا کرمسجد کی توسیع کی گئی۔تمام دارالمسیح کی رینویشن کر دی گئی۔ایک نئی عمارت مسجد ناصرآباد سے ملحق دو منزلہ تیار کی گئی جسے سرائے وسیم کہا جاتا ہے۔سرائے وسیم کے مشرقی جانب جو پُرانا جلسہ گاہ تھااور اسے احمدیہ گراؤنڈ بھی کہا کرتے تھے۔اس کی بھی اب چار دیواری کر دی گئی ہے۔دارالضیافت کو بھی رینو ویٹ کیا گیا ۔اور اس کا کچن بھی نیا تیار کیا گیا۔
کچھ اور نئی عمارتیں بھی دیکھنے کو ملیں۔mtaکی عمارت جس میں نشرو اشاعت کا دفتر بھی ہے نئی بنائی گئی۔نورالدین لائبریری اور مسجد انوار نئی بنائی گئی۔آسٹریلین گیسٹ ہائوس۔فضل عمر پریس کی عمارت بھی نئی بنائی گئی ہے۔آسٹریلین گیسٹ ہائوس کے عقب میں کارکنان کے لئے 24 کوارٹر اور ماریشس گیسٹ ہائوس نیا بنایا گیاہے۔محلہ احمدیہ سے دارالانوار کی سڑک پر خلافت جوبلی کے موقعہ پر ایک یادگاری گیٹ تیار کیا گیاہے۔بہشتی مقبرہ کے اندر مقام ظہور قدرت ثانیہ کی جگہ پر ایک خوبصورت فوّارہ لگایا گیا ہے اور اس کے ارد گرد جنازہ گاہ کی جگہ کو مزیّن کیا گیاہے۔اور شاہ نشین کے مقام پر 2005 ءمیں جو کمرہ ہوا کرتا تھا اسکی جگہ سنگ مرمر کی خوبصورت بارہ دری بنائی گئی ہے۔خاص طور پر کوٹھی دار السلام میں چار پانچ دو منزلہ عمارتیں کارکنان سلسلہ کے لئے بنائی گئی ہیں۔تعلیم الاسلام اسکول کی پرانی عمارت جو دارالضیافت کے شمال میں ہے اسے رینویٹ کیا گیا ہے اور اس میں انجمن کے دفاتر منتقل کئے گئے ہیں۔تمام تعلیمی ادارے اب یوروپین گیسٹ ہائوس میں یا اس کے عقب میں موجود عمارت میں منتقل ہو چکے ہیں۔دارالمسیح میں نصرت گرلز اسکول کی پرانی اور خستہ عمارت کو منہدم کرکے اسکی جگہ ایک گارڈن ’’گلشن احمد‘‘ کے نام سے بنایا گیا ہے۔یہ سب ترقیات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور خلفاء کی دعاؤں کے طفیل ہیں۔اور قادیان میں بارہ سالوں میں ہونے والی ان ترقیات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی خاص توجہ قادیان پر ہے۔
یہ تو تھے جماعتی کام۔اب قادیان میں گورنمنٹ کی طرف سے ہونے والے کاموں کا بھی ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا۔2005 ءکی نسبت پنجاب سرکار نے قادیان پربہت دھیان دیا ہے ۔راستوں اور گلیوں کو سدھارا گیا۔پانی کی نکاسی کا عمدہ انتظام کیا گیا۔سڑکیں بھی درست کی گئیں۔قادیان میں محلہ احمدیہ سے ملحق ڈھاب کو بند کرکے اسکے اوپر دو رویہ چھوٹی سڑک بنا دی ہے جو محلہ احمدیہ سے نور ہسپتال تک آنے جانے میں آسانی مہیا کرتی ہے۔
قادیان میں جلسہ سالانہ کی حاضری بھی بڑھتی جا رہی ہےاور اس کے بالمقابل جلسہ سالانہ قادیان کے انتظامات بھی بفضلہ تعالیٰ بہتر سے بہترین نظر آتے ہیں۔جلسہ سالانہ اس سال بمقام ’’بستان احمد‘‘میں ہوا جو قادیان کے جنوب میں ہے۔زنانہ جلسہ گاہ بھی اسی کے ایک حصہ میںتھا۔اس جلسہ میں بہت دعائوں کا موقعہ ملا۔بیت الدعاء،مسجد اقصیٰ،مسجد مبارک،بیت الفکر،بیت الریاضت سب شعائراللہ دیکھنا نصیب ہوئے اور ان میں دعائوں کی توفیق ملی۔مزار مبارک حضرت مسیح موعودؑ پر بھی روزانہ دعائوں کے لئے جانے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔الحمدللہ علیٰ ذالک
جلسہ سالانہ کے بعد مکرم محمد اکرام صاحبکے ساتھ ایک دن ہوشیار پور گئے اور یہاں اس کمرے میں جہاں حضرت مسیح موعود ؑ نے چلہّ کشی کی تھی نوافل ادا کرنے اور دعائیں کرنے کا موقعہ ملا۔ یہاں سے ہم شام کے وقت واپس قادیان لوٹ آئے۔اسکے دو یا تین دن کے بعد خاکسار کو فلسطین سے آئے ہوئے احمدی احباب کے ساتھ دارالبیعت لدھیانہ جانے اور وہاں دعائیں کرنے کی بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔دارالبیعت وہ مقام ہے جہاں 23؍مارچ1889ء کو حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد 40 افراد کی بیعت لینے کے ساتھ رکھی۔یہاں دارالبیعت کی پرانی عمارت کو رینوویٹ کرکے نہایت خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔یہاں کے مبلغ صاحب اس وقت مکرم عبد الہادی فاروقی صاحبتھے جنہوں نے ہمیں دارالبیعت کی جماعت احمدیہ کے نزدیک اہمیت اور اسکی تاریخ کے بارے میںاحسن رنگ میں تفصیل بیان کی۔اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے۔آمین۔لدھیانہ سے اسی روز شام کو ہماری واپسی ہوئی۔
جلسہ سالانہ سے قبل 21 ؍دسمبر کو خاکسار مکرم محمد اکرام صاحب اور مکرم عبد المالک صاحب کے ہمراہ بذریعہ ٹرین دہلی گیا جہاں ہم نے دو دن قیام کیا۔دہلی میں درگاہ حضرت خواجہ نظام الدین چشتیؒ ، قطب مینار،لال قلعہ،جامع مسجد،قلعہ تغلق آبادوغیرہ دیکھے ۔یہاں ہمارا قیام دارالتبلیغ میں رہا، یہاں سے ہم آگرہ کے لئے دو دن بعد نکلے اور آگرہ میں تاج محل،آگرہ کا قلعہ،اکبر کا مقبرہ بھی دیکھا۔اورا سی روز ہم فتح پور سیکری میں بلند دروازہ دیکھنے کے لئے بھی گئے۔رات کو ہم نے ایک احمدی دوست جاوید صاحب کے گھر آگرہ میں قیام کیا۔یہ صاحب مکرم عبدالمالک صاحب کے رشتہ دار تھے۔اگلے روز صبح ہم بذریعہ گاڑی آگرہ سے دہلی گئے اور دہلی میں ہماری آگے کی ٹرین تاخیر سے چلی اور ہم نے قادیان کے لئے رات کا ہی سفر کیا۔اگلے دن25 دسمبر کو ہم واپس قادیان پہنچ گئے۔

جلسہ سالانہ قادیان 2018ء میں شمولیت
یہ اللہ تعالیٰ کا بیحد فضل رہا کہ سال 2018ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی بھی مجھے توفیق ملی۔اس سال بھی لند ن سے میں اکیلا براستہ پاکستان ہوتے ہوئے قادیان 15 ؍دسمبر 2018 ءکو پہنچا۔ بیٹے عمران ظفر اور اسکی فیملی بعد میں جلسہ سے ایک دن قبل قادیان آئے۔یہاں ہمارا قیام کوٹھی دارالسلام میں مکرم رضوان احمد صاحب استاد جامعہ احمدیہ کے گھر پر ہوا۔قادیان میں ہر سال ایک نئی تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ڈیوٹیاں اور جلسہ کے انتظامات میں جدت دیکھنے میں آئی۔صفائی اور روشنی کا ایک عمدہ انتظام دیکھنے کو ملا۔ پہلے جلسوں کی ہی طرح مسجد اقصیٰ اور مسجد مبارک میں نماز تہجد اور باقی نمازوں کے وقت ہمارے علماء ایسی ایسی دلسوز آواز میں نماز پڑھاتے کہ دل رقت سے بھر جاتا اور عبادت الٰہی میں وہ لطف حاصل ہوتا جس کا بیان قلم کی طاقت سے پرے ہے۔ اسقدر خلقت کا انبوہ ہوتا کہ مسجد میںجگہ ملنی دشوار ہوتی۔ قادیان میں کشمیر کے احباب نے اپنے ذاتی گھر بنائے ہوئے ہیں۔جلسہ کے ایام میں کشمیری احباب کثرت سے جلسہ میں تشریف لاتے ہیں۔اور اکثر اپنے ہی گھروں میں قیام کرتے ہیں۔جلسہ سالانہ ختم ہونے کے بعد کئی کئی دن تک یہ لوگ قادیان میں قیام کرتےاور یہاں کی برکتیں سمیٹتے ہیں۔جلسہ سالانہ میںخوب دعاؤں کا موقعہ ملتارہا۔جلسہ کے تینوں دن جلسہ گاہ میں جلسہ سننے میں گزرے۔بہت ہی علم و معرفت کی باتیں ہوئیں۔
جلسہ کے بعدہم یکم جنوری2019ء کو امرتسر گولڈن ٹیمپل اور امرتسر کا بازار دیکھنے گئے۔یہاں سے ہم رات کی ٹرین سے دہلی چلے گئے۔عمران ظفراسکی اہلیہ نائلہ عمران اور بچے عزیز حارث عمران،حدیقہ عمران،اور حمدان عمران ساتھ تھے۔رات 2 بجے ہم دہلی پہنچے۔دہلی میں ہم نے دارالتبلیغ میں ہی قیام کیا۔ اگلے روز سے ہم نے دہلی گھومنا شروع کیا۔دہلی کے تاریخی مقامات لال قلعہ،جامع مسجد،ہمایوں کا مقبرہ، قطب مینار،تغلق آباد کا قلعہ،اور خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کا مزاروغیرہ مقامات دیکھے ۔یہاں دو روز قیام کے بعد ہم بذریعہ کار آگرہ اور فتح پورسیکری گئے جہاں بلند دروازہ اور اکبر کا محل دیکھا۔عمران ،نائلہ اور بچوں نے اس سیر سے بہت لطف اٹھایا۔اسی روز ہم واپس دہلی آگئے۔رات دہلی میں قیام کیا۔اور اگلے روز ہم دہلی سے امرتسر آگئے۔امرتسر میں ایک ہوٹل میں رات قیام کیا اور اگلے روز5 ؍جنوری 2019ءکی صبح ہم امرتسر سے براستہ واہگہ بارڈر پاکستان چلے گئے۔لاہور میں ہم نےعزیزہ عاتکہ ماجد اہلیہ مکرم ماجد ملک عمیرصاحب کے گھر دو روز قیام کیا۔دو روز یہاں قیام کرنے کہ بعد سرگودھا ،جھنگ اور پھر ربوہ چلے گئے جہاں تین روز ہمارا قیام رہا۔یہاں مکرم محمد محمود طاہر سابق قائد عمومیمجلس انصار اللہ پاکستان عمران ظفر کے چچا سسُر محلہ دارالعلوم شرقی مسرورمیں رہتے ہیں۔عمران ظفر اور نائلہ بچوں کے ساتھ ان کے پاس چلے گئے۔اور میں نے دارالضیافت میں ہی قیام کیا۔یہاں سے تین روز بعد ہم فیصل آباد چلے گئے جہاں میں نے کچھ روز قیام کیا۔عمران ظفر اپنی فیملی کے ساتھ بوجہ بچوں کے اسکول شروع ہونے کے واپس لندن چلے گئے۔ عمران ظفر ،نائلہ اور بچے پہلی مرتبہ انڈیا میں گھومے تھے ۔اپنے ساتھ اس سفر کی شیریں یادیں لیکر یہاں سے واپس گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں بار بار قادیان آنے اور اس دائمی مرکز سے اپنی محبت اور انس کو ہمیشہ اپنے دلوں میں قائم رکھنے والا بنائے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت سے محبت اور خلیفہ وقت کی دل و جان سے اطاعت کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے۔اور ہماری نسلوں کو بھی اطاعت پر قائم رہنے کی توفیق ملتی رہے۔آمین۔

برطانیہ میں ہونے والے اجتماع
برطانیہ میں ذیلی تنظیمات کے اجتماعات بھی خصوصیت کے حامل ہیں۔برطانیہ کے ہر حصے سے خدام اطفال اور انصار ان میں شامل ہونے آتے ہیں۔ لجنہ اور ناصرات کا اجتماع بھی الگ منعقد ہوتا ہے۔ اجتماع گاہ کو خدام و انصار والنٹئرز خود تیار کرتے ہیں۔اجتماع کے دوران علمی و ورزشی پروگراموں میں مسابقت کی روح کے ساتھ حصہ لیتے ہیں۔اور اصل رونق اجتماع میں تب آتی ہے جب حضور پُر نور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اِن اجتماعات میں رونق افروز ہوکرسب سے خطاب فرماتے ہیں۔ایسی سعادت کہ زیر زمین خدا کے محبوب خلیفہ کے سائے میں بیٹھنا اور اُس کی باتیں سننا، ایسا ماحول کہ گویا فرشتے بھی رشک کرتے ہوں،یہ سوچ سوچ کر دل شکر کے جذبات سے بھر جاتا ہے اور اندر ہی اندر یہ شعر گنگناتا ہے۔

نوروں نہلائے ہوئے قامت گلزار کے پاس
اِک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس

یوں تو ہر سال ذیلی تنظیمات کے اجتماعات ہوتے ہیں ۔یہاں میں 2017ء میں ہونے والے انصاراللہ کے سالانہ اجتماع کا ذکر ضرور کروں گا۔یہ اجتماع مجلس انصار اللہ برطانیہ کا 35واں سالانہ اجتماع تھا جو ماہ ستمبر 2017ء میں ہوا۔سالانہ اجتماع کے پہلے جلاس کا آغاززیر صدارت مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیریوکے ہوا۔صدر مجلس انصاراللہ ڈاکٹر چوہدری اعجاز الرحمٰن صاحب نے عہد انصاراللہ دہرایا اور ساتھ لوائےانصاراللہ لہرائے جانے کی تقریب منعقد ہوئی ۔ اسکے ساتھ ہی برطانیہ کا قومی پرچم بھی لہرایا گیا۔ امیر صاحب نے دعا کروائی ۔امیر صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں انصاراللہ کو بعض تربیتی امور کے متعلق توجہ دلائی۔کہ ہمارے بچے سوشل میڈیا میں پرورش پارہے ہیں ۔اس کے متعلق بتایا جائے کہ ہماری تمام باتوں اور حرکات کا ریکارڈ ہمیشہ کے لئے محفوظ کیا جارہا ہے ۔خصوصی دعاؤں پر بھی زور دیا جائے۔ اور تربیتی امورکی طرف بھی توجہ دلائی جائے۔
خاکسار انصاراللہ کے اجتماع کے تینوں روز شامل ہوا۔امام صاحب مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے چند علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں پوزیشن حاصل کرنے والوں کے علاوہ چیرٹی کے لئے رقم جمع کرنے اور شعبہ ایثارو خدمت خلق میں خد مت بجالانے والی مجالس میں انعامات تقسیم کئے۔ آپ نے سورہ آل عمران کی آیت 15کی تلاوت کی اور اسکے معنے بتاتے ہوئے انسان کی پیدائش کی اصل غرض بیان کی۔
پھراپنے خطبہ جمعہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آج سے مجلس انصاراللہ یو کے کا سالانہ اجتماع شروع ہورہا ہے۔اس موقعہ پر سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خصوصی پیغام کا کچھ حصہ حضور انور کے مبارک الفاظ میں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔
حضور انور نے ارشاد فرمایا کہ ایک اہم اور بنیادی چیز کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہے نماز ۔ نماز ہر مومن پر فرض ہے۔لیکن چالیس سال کی عمر کے ہر دن بڑھنے سے زندگی کے دن کم ہورہے ہیں۔ ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے۔وقت تیز ی سے آرہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہونا ہے۔اور وہاں پر عمل کا حساب کتاب ہونا ہے۔ ایسی حالت میں ایک مومن کو اور ہر شخص کے مرنے کے بعد کی زندگی اور یوم آخرت پر ایمان کی فکر ہونی چاہئے۔ہم اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کرنے والے ہوں۔اور ان کے بندوں کے بھی حقوق ادا کرنے والے ہوں۔ (بحوالہ رسالہ انصار الدین برطانیہ صفحہ 19)
اختتامی اجلاس کی صدارت بھی مکرم رفیق احمد حیات صاحب امیرجماعت برطانیہ نے کی۔ اجتماع کے دوسرے دن میدان میں چند ورزشی مقابلہ جات ہوئے جس میں فٹ بال ،والی بال،رسہ کشی، کلائی پکڑنا،گولہ پھینکنا،وزن اُٹھانا،اور دوڑیں شامل تھیں۔ان مقابلہ جات میں خاکسار ظفر احمد خان اور خاکسار کے بھائی شوکت محمود خان صاحب بھی شامل ہوئے۔خاکسار نے رسہ کشی میں حصہ لیا۔اجلاس کے اختتام پر خالد بٹ صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے حمدیہ کلام کے چند اشعار دلنشیں آواز میں پیش کئے۔ آخر میںمکرم ظہیر صاحب نے چیرٹی واک کی مختصر رپورٹ پیش کی۔خاکسار کے چھوٹے بھائی شوکت محمود صاحب تبلیغ کا بہت شوق رکھتے ہیں۔وہ غیراز جماعت ایک دوست کو اپنے ساتھ اجتماع میں لیکر آئے تھے۔وہ ہمیشہ غیر از جماعت احباب کو اپنے ساتھ جماعتی پروگراموںمیں لیکر آتے ہیں۔
انصاراللہ کا یہ سالانہ اجتماع خاکسار کے لئے ایک تاریخی اجتماع تھا۔اس اجتماع میں خاکسار کے تینوں بھائی اطہر محمود خان صاحب،شوکت محمود صاحب ،ذکی احمد خان صاحب خاکسارکے ساتھ موجود تھے ۔ اسکے علاوہ خاکسار کے بڑے بھائی ڈاکٹر ضیغم سلیم خان صاحب مرحوم کے تینوں بیٹے،ڈاکٹر عبد السمیع خان، نجم السلیم خان اور سعید سلیم بھی انصار کی حیثیت سےشامل ہوئے۔کئی سالوں کے بعد اجتماع کی برکت سے سب ایک ساتھ اجتماع میں شریک ہوئے۔اجتماع کی برکات سے مستفید ہونے کے بعد ہم نے فوٹو گرافی کی۔ یہ جماعت کی برکات ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں ہیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو تبلیغی کاموں اور جماعت کی خدمت کی توفیق دیتارہے۔آمین

ہمارا کینیا کا سفر
خاکسار اور بیٹے عمر ان ظفر اپنی فیملی کے ساتھ ایک عزیز کی بیٹی کی شادی میں شمولیت کے لئے مؤرخہ17؍اگست 2022ءکو انگلستان سے کینیا کے سفر کے لئے ترکی ایئر لائن کے ذریعہ 4 گھنٹے کا سفر طے کرکے لندن سے ترکی کے شہر استنبول پہنچ گئے۔ رات کو استنبول کے ایک ہوٹل میں قیام کیا۔اگلے روز ناشتہ کے بعد ہم سب استنبول شہر کی سیاحت کے لئے نکلے۔شہر میں سیر وسیاحت کے دوران کئی ملکوں کے لوگ دیکھنے کو ملے جن میں اکثر مسلم ممالک کے باشندے تھے اور ایران ،ازبکستان،روس، پاکستان اور تیونس سے سیاحت کے لئے آئے ہوئے تھے۔استنبول میں مساجد بہت خوبصورت ہیں جو مختلف ڈیزائن اور مختلف فن تعمیر کی ہیں۔ان مساجد کو دیکھنے کے لئے لوگ لمبی قطاروں میں کھڑے ہوئے تھے۔لوگ مسجدوں میں جاکر فوٹوگرافی کر رہے تھے۔موسم انتہائی گرم تھا۔میں نے بچوں سے کہا کہ آپ سب اندر گھوم آئو میں باہر بیٹھتا ہوں ۔میرے کہنے پر سب اندر مسجد میں چلے گئے۔ میں باہر بیٹھا تھا اور میرے ساتھ کچھ عمر رسیدہ لوگ اور بھی بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے ان سے سکونت دریافت کی۔انہوں نے جواب میں بتایا کہ وہ روس ،ازبکستان سے آئے ہیں۔میں نے سوال کیا کہ وہاں مسلمانوں کی کتنی تعداد ہے۔کہنے لگے کہ بہت بڑی تعداد ہے۔پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہاں جماعت احمدیہ کے لوگ بھی ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہاں جماعت احمدیہ کے لوگ بھی ہیں اور وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔اسی طرح ایک اور مسجد دیکھتے ہوئے مراکش کے ایک عربی سے ملاقات ہوئی۔میں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میں بیس سال لیبیا کے شہر طرابلس میں رہا ہوں۔اس سے عربی میں بھی گفتگو کی۔اثنائے گفتگو مراکش میں احمدیوں کے متعلق پوچھا۔اس نے بتایا کہ بہت کم احمدی مراکش میں ہیںاور میرے کچھ دوست بھی احمدی ہیں، وہ سب اچھے لوگ ہیں۔پھر مجھے عربی میں اس نے کہا کہ کیا آپ بھی احمدی ہیں؟ میں نے کہا الحمد للہ۔ میں احمدی ہوں۔لندن میں رہتا ہوں۔اس طرح سفر کے دوران احمدیت کاپیغام بھی پہنچانے کا موقعہ ملا۔
وقت کی کمی کے باعث استنبول میں چند مساجد ہی دیکھنے کا موقعہ مل سکا۔ان مساجد کے نام درج ذیل ہیں:
1. بلیو مسجد
2. پلیسن مسجد
3. حاجیہ صوفیہ مسجد
4. جلاتا ٹاور مسجد
ترکی کے لوگ مسجدیںبنانے کے بہت ماہر ہوتے ہیں۔ مختلف ڈیزائن کی مسجدیں بنانے میں اپنے فن کے آپ ماہر ہیں۔اپنی اسی خوبی کی وجہ سےترکی کے باشندے مختلف ممالک میں جاکر مساجد تعمیر کرتے ہیں۔ہماری کینیا کی فلائٹ رات 9 بجے تھی۔اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم سمندر کی سیر کے لئے گئے جہاں کروز کے ذریعہ سیر کرواتے ہیں۔سمندر میں سیر کے دوران تین میل لمبے ایک پل کے نیچے سے گزرے جو ترکی کو یورپ سے ملاتا ہے۔یہاں سے فارغ ہوکرہم ایئرپورٹ روانہ ہوئے اور ایک لمبی مسافت طے کرنے کے بعد وہاں پہنچے۔امیگریشن کی کارروائی سے فارغ ہونے کے بعدجہاز میں جانے کے لئے بیٹھے تھے کہ سامنے سے نائلہ عمران کے عزیز و اقارب ،ان کی پھوپھی اور کزن اپنی بیگمات کے ساتھ یہاں ہم سے ملاقی ہوئےاور ہمارے ہمسفر ہوئے۔وہ بھی لندن سے کینیا جارہے تھے۔
کینیا کے لئےترکی ایئر لائن کا 300 مسافربردار جمبو جہاز تیار تھا ۔ 6گھنٹےکی اُڑان کے بعد کینیا کے وقت کے مطابق مؤرخہ19؍اگست 2022 کی صبح 2 بجے ہم سب کینیا کے شہر نیروبی پہنچ گئے جہاں نائلہ کے پھوپھا مکرم طارق محمود ظفر صاحب امیر ومشنری انچارج دو گاڑیوں کے ساتھ ہمارا انتظار کر رہے تھے۔طارق صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کینیڈا سے آنے والے کچھ اور اقرباء بھی ہمارے پہنچنے کے چند منٹ بعدکینیڈا سے وہاں پہنچ گئے۔چنانچہ ہم سب قافلہ کی صورت میںنیروبی مسجد پہنچ گئے۔مسجد ایک وسیع احاطہ میں تھی جہاں مہمانوں کی رہائش کے لئے الگ الگ کمروں کا انتظام تھا۔میری فیملی کو ایک بڑا کمرہ رہائش کے لئے دے دیاگیا۔ہم سب نے یہاں آرام کیا اور سفر کی تھکان دور کی۔قبل اس کے کہ میں یہاں کی مصروفیات کا ذکر کروں مناسب ہوگا کہ مشرقی افریقہ اور کینیا کا مختصر تعارف بیان کردوں۔

مشرقی افریقہ
بنیادی طور پر مشرقی افریقہ تین بڑے ممالک پر مشتمل ہے جس میں کینیا ،یوگینڈااور تنزانیہ شامل ہیں۔ان تینوں ممالک کے درمیان وکٹوریہ جھیل واقع ہے۔برلن کانفرنس 1884ء کے بعد کینیا اور یوگینڈا برطانیہ کے تسلط میں اور ٹانگا نیکا جرمن کی کالونی بنا۔ جرمنوں کا راج1919ءتک رہا۔پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست کے بعد یہ بھی برطانیہ کی کالونی بن گیا ۔بعد میں ان ممالک کو ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں برطانوی تسلط سے آزادی ملی۔
1895ء میں برطانیہ حکومت کی طرف سے یوگینڈا ریلوے کے عظیم منصوبے کا اعلان کیاگیا۔ بحرہند کے ساحل پر واقع کینیا کے شہر ممباسہ سے لیکر یوگینڈا تک تقریباً ایک ہزار کلو میٹر لمبی ریلوے لائن بچھا کر باقاعدہ یہاں ریلوے کا نظام جاری کیا گیا۔کام کرنے کے لئے نئے ہنر مند مزدور زیادہ تر ہندوستان سے لائےگئے۔تقریباً37000ہندوستانی افراد اس منصوبے کو شروع کرنے کے لئے کینیا لائے گئے تھے۔ اس عظیم منصوبے کی نگرانی ایک تجربہ کار سول انجینئر مسٹر جارج وائٹ ہائوس کے سپرد کی گئی۔ جس نے1896ء کے شروع میں اس کام کا آغاز کیا تھا۔

کینیا کا مختصر تعارف
کینیا مشرقی افریقہ کا اہم ملک ہے۔اس کا کل رقبہ 5,80,000مربع کلو میٹر ہے۔اس کے مشرق میں صومالیہ مغرب میں یوگینڈا اور جنوب میں تزانیہ اور شمال میں ایتھوپیا واقع ہے اورمغرب میں 1500میٹر بلند سطح مربع ہے چونکہ خط استوا ملک کے وسط میں سے گزر تی ہے اس لئے سارا سال موسم خوشگوار رہتا ہے۔
اس وقت کینیا کی آبادی تقریباً پانچ کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔کینیا کا بلند ترین پہاڑ مائونٹ کینیا ہے۔ جس پر سارا سال برف جمی رہتی ہے۔کینیا کا دارالحکومت نیروبی ہے۔

کینیا میں احمدیت کا قیام
کینیا مشرقی افریقہ وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا پیغام آپؑ کی زندگی میں ہی پہنچ گیا تھااور متعدد جماعتیں قائم ہوگئی تھیں۔ چنانچہ حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ، حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ، حضرت میاں محمد عبداللہ صاحبؓ رضی اللہ عنہم یوگینڈا ریلوے میں بھرتی ہو کر کینیا کی بندر گاہ ممباسا پہنچے۔ کچھ ہی عرصہ بعد حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحبؓ گوڑیانی (ملٹری میں) اورحضرت شیخ محمد بخش صاحبؓ ساکن کڑیانوالہ، حضرت شیخ نور احمد صاحبؓ جالندھری، حضرت شیخ حامدعلی صاحبؓ، حضرت حافظ محمد اسحاق صاحبؓ بھیروی اور ان کے بھائی حضرت میاں قطب الدین صاحب ؓ بھی یوگینڈا ریلوےکے ملازم کی حیثیت سے ممباسا وارد ہوئے اور اس طرح کینیا مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی داغ بیل پڑی۔الحمد للہ علیٰ ذالک
حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحبؓ آف رنمل برٹش ملٹری میں کام کرتے تھے۔ آپ حضرت ڈاکٹرمحمداسماعیل صاحبؓ اور دیگر احمدیوں کی تبلیغ کے نتیجے میں احمدی ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُنہوں نے اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کی کہ اس سے متاثر ہو کر آپ کے سگے بھائی حافظ روشن علی صاحبؓ بھی حلقہ بگوش احمدیت ہوگئے اور تاریخ میں حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے والوں میں حضرت پیر برکت علی صاحبؓ بھی تھے۔
الحکم 10 ؍اپریل 1901ء کے صفحہ 14 پر ممباسہ کینیا کے مخلص احمدی احباب کی فہرست شائع ہوئی جس کے مطابق اس وقت جماعت ممباسا 50 احمدیوں پر مشتمل تھی۔

کینیا میں جماعت احمدیہ کی ترقیات
کینیا کی جماعت کو قائم ہوئے بفضلہ تعالیٰ سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔اس دوران اس ملک میںاب تک جماعت احمدیہ کی 77 مساجد موجود ہیں۔کینیا میں 146 جماعتیں قائم ہیں۔جماعت کا ایک ہسپتال اور ایک ڈسپینسری بھی قائم ہے۔کینیا میں احمدیوں کی تعداد (10000)دس ہزار نفوس سے تجاوز کر گئی ہے۔اللہ تعالیٰ یہاں اور بھی ترقیات کے راستے کھولتا رہے۔آمین
(بحوالہ الفضل خطبہ جمعہ دسمبر 2019)

کینیا میں ہماری مصروفیات
کینیا میں پہلی صبح یعنی 19؍اگست کو ہمارے ناشتہ کا انتظام طارق ظفر صاحب کے گھر پر تھا۔بعض مہمان وہاں بھی ٹھہرے ہوئے تھے،پاکستان سے نائلہ عمران کے چچا مکرم محمد محمود طاہر صاحب مربی سلسلہ،مکرم محمد خالد ولید صاحب،طارق محمود ظفر صاحب کے بھائی ظہیر احمد صاحب جو کہ لنڈن میں ایم ٹی اے میں خدمت کرتے ہیں۔ان کے ایک بڑے بھائی جوکہ کیلگری کینیڈا میں ہوتے ہیں وہ بھی شادی کے موقعہ پر آئے ہوئے تھے۔سب کی موجودگی کی وجہ سے بہت رونق تھی۔کھانا ناشتہ سب ایک ساتھ کرتے اور ایک ساتھ وہاں نمازیں ہوتی تھیں۔ایسا محسوس ہوتا تھاگویا ہم پاکستان میں موجود ہیں۔
نیروبی شہر میں زیادہ تر تجارتی پیشہ لوگ آباد ہیں۔انڈین ،پاکستانی،افریقن،عربی،سری لنکن، ملیشین،انڈونیشین وغیرہ سب لوگ آباد ہیں۔ایسٹ افریقہ میں کینیا ترقی یافتہ ملک ہے۔اس کے بڑے شہر نیروبی،ممباسہ،کسومو اور نکو رو ہیں۔شہروں میں لوگ خوشحال ہیں مگر یہاں کے دیہاتوں میں لوگ غریب ہیں جسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں برساتیں کم ہوتی ہیں اور کھیتی باڑی کر نہیں پاتے۔زیادہ تر دیہاتی مویشی پال کر اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔جہاں پانی میسر ہے وہاں پھل اور سبزیوں کی پیداوار ہو جاتی ہے۔ نیروبی میں چائے کی کاشت بہت ہوتی ہے۔ایک بڑے رقبہ پر چائے کیک کاشت کی جاتی ہے۔دوسرے ملکوں میں بھی کینیا کی عمدہ چائے ایکسپورٹ ہوتی ہے۔پاکستان میں بھی کینیا سے ہر سال ایک کھرب روپئے سے زیادہ کی چائے امپورٹ کی جاتی ہے۔چائے کی کھیتی میں کینیا کا دنیا میں ایک مقام ہے۔
19؍اگست کو جمعۃ المبارک تھاجمعہ کی نماز مسجد میں ادا کی گئی۔کینیا کے وقت کے مطابق 4بجے ایم ٹی اے پر حضور انور کا خطبہ جمعہ سب نے مل کر سنا۔نیروبی میں احمدیہ مسجد 1930ء میں بنی۔اس کے ساتھ چار منزلہ عمارت ہے ۔جو مہمانوں کی رہائش اور دفاتر ولائبریری کے لئے ہے۔احاطہ کے اندر پارکنگ کا بھی انتظام ہے اور اس کو پھولوں کے پودوں سے مزین کیا گیا ہے۔غرض ہر قسم کی سہولیات وہاں موجود ہیں۔یہاں ہمارا خوب اچھا وقت گزرا۔
20؍اگست 2022ء کو شام کے وقت مستورات کامہندی کا پروگرام ہوا اور 21؍اگست کو شادی تھی۔ رات 8 بجے بارات کی آمد ہوئی۔بارات کا پُر تپاک استقبال کیا گیا۔تلاوت اور نظم کےساتھ دعائیہ تقریب کا آغاز ہوا۔ربوہ سے آئے ہوئے مکرم محمد محمود طاہر صاحب مربی سلسلہ نے دونوں خاندانوں کا تعارف کرایا اور دونوں خاندانوں کے بزرگان کی خدمات کا ذکر کیا اور آخر میں دعا ہوئی۔فوٹوگرافی اور عشائیہ سے فارغ ہونے کے بعد رات 12 بجے دلہن کو دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔رخصتانہ کے وقت دعا خاکسار نے کرائی۔
23؍اگست کو بعد نماز ظہر دعوت ولیمہ کا پروگرام تھا۔یہ پروگرام بھی بخیر و خوبی منعقد ہوا۔غرض یہ کہ شادی کے تینوں پروگرام جن میں شمولیت کی غرض سے ہم خصوصی طور پر کینیا آئے تھے حسن وخوبی کے ساتھ انجام پذیر ہوئے۔اللہ دونوں خاندانوں کے لئے اس شادی خانہ آبادی کو باعث برکت اور مثمر بثمرات حسنہ بنائے۔آمین۔
شادی کے پروگراموں سے فارغ ہونے کے بعد 24؍ اگست کو ہم سب ماسائے مارا نیشنل سفاری پارک کا لطف اٹھانے کے لئےنکلے۔ہم 16 افراد تھے جنکی بکنگ ایجنٹ کے ذریعہ کروائی گئی۔سفر اخراجات،کھانا،رہائش سب کا پیکیج لیا گیا تھا۔10 بجے دن کے ہم دعا کے ساتھ روانہ ہو گئے۔راستے میں ’’ناروک کوسٹا ٹی گوئی‘‘ نام کا ایک قصبہ ہے جہاں دور دور تک چائے کے باغات دیکھنے کو ملے۔راستے میں رفٹ ویلی کا نظارہ کیا اورپہاڑ،جنگل سبکے مناظر دیکھے۔مختلف اقسام کے جانور بھی دیکھے جن میں آدم قد بندر قابل ذکر ہیں جو سڑک کے دونوں اطراف میں سیاحوں کی فیاضی کے منتظر تھے۔جیسے ہی کوئی سیاح انکی طرف کھانے کی چیز پھینکتا ،وہ سب اکٹھے ہو جاتے۔
راستہ میں ایک قصبہ میں ہم کچھ دیر کے لئے رکے۔گاڑیوں میں پیٹرول ڈلوانے کے بعد ہمارا سفر پھر شروع ہو گیا۔اب جو سفر شروع ہوا یہ مشکل سفر تھا۔40 سال قبل میں نے ایسا سفر کیا تھا۔نہایت خراب پتھریلا اور پہاڑی راستہ تھا جس پر مسلسل اڑھائی گھنٹے تک سفر کیا اور بالآخرساڑھے تین بجے ہم نیروبی سے 6 گھنٹے میںماسائے مارا اپنے کیمپ میں پہنچ گئے۔
یہاں کیمپ میں کھانا کھانے کے بعد ہم سفاری پارک چلے گئے جہاں 4 گھنٹے گھومتے رہے۔ اور پھر رات 9 بجے واپس کیمپ میں آئے اور رات کا کھانا کھا کر جو افریقن طرز کاتھا ہم آرام کرنے چلے گئے۔رات یہاں اسپیشل ٹینٹوں میں سونے کا انتظام تھا۔ہر ٹینٹ میں دو افراد کے سونے کی جگہ تھی ۔ ٹھنڈے اور گرم پانی کا بھی انتظام تھا۔باہر خصوصی طور پر سیاحوں کی حفاظت کے لئے سیکیورٹی تعینات تھی۔ٹینٹ جنگل میں محفوظ مقام پر لگے ہوئے تھے۔مگر ہمیں ہدایت تھی کہ رات کے وقت باہر نہ نکلیں کیونکہ رات کو سفاری پارک نزدیک ہونے کی وجہ سے جنگلی جانور بھی وہاں آ جاتے تھے۔اس لئے رات کے وقت وہاں رہتے ہوئے خوف طاری ہوتا تھا۔مگر سیکیورٹی کے افریقن جوان رات کے ہر لمحہ وہاں مستعد تھے۔ان کی موجودگی سے قدرے راحت تھی۔
اگلے روز صبح 6 بجے اُٹھنے کے بعد ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہوئےاور پھر ماسائے مارا کے سفاری پارک روانہ ہو گئے۔سفاری پارک ایک ہزار پانچ سو سکوائر کلو میٹر پر محیط ہے۔کینیا کے علاوہ تنزانیہ اور یوگینڈا کے علاقے بھی اس میں آتے ہیں۔اور تینوں ملکوں کے مشترکہ تعاون سے یہ سفاری پارک چل رہا ہے۔ سفاری پارک میں انواع واقسام کے جنگلی جانور پائے جاتے ہیں۔مثلاًہاتھی،ببر شیر،باگھ،چیتا، گینڈا،مگرمچھ،زرافہ،زیبرا،بارہ سینگھا،ہرن،لکڑبگھے،گیدڑ اور لومڑیاں وغیرہ۔ ان کے علاوہ مختلف اقسام کے بندر بھی یہاں ہوتے ہیں۔گاڑیوں سے اترنا منع تھا اس لئے ہم نے گاڑیوں میں بیٹھ کر ہی سفاری کا لطف اٹھایا اور ساتھ ساتھ فوٹو گرافی بھی کرتے رہے۔ہمارے ساتھ دیگر مختلف ممالک سے آئے ہوئے سیاحوں کی آٹھ دس گاڑیاں اور بھی تھیں۔دن کے 30:2 بجے ہم نے ایک محفوظ مقام پر گاڑیوں سے باہر نکل کر دوپہر کا کھانا کھایا جو ہمارے لئے پیک ہو کر آ گیا تھا۔ کھانے کے بعد پھر گاڑیوں میں سوار ہوئے اور آگے چل دئے۔اس طرح رات 9 بجے تک ہم سفاری پارک میں گھومتے رہے بعدہ‘ واپس اپنے کیمپ میں آ گئے اور رات کے کھانے سے فارغ ہوکر اپنے اپنے خیموں میں آرام کرنے چلے گئے۔اگلی صبح نیروبی کے لئے واپسی کا پروگرام تھا۔صبح دس بجے دعا کے ساتھ ہم نے سفر شروع کیا۔اور رات 8 بجے بخیریت نیروبی احمدیہ مسجد پہنچ گئے۔الحمد للہ
رات آرام کیا اور اگلے روز مؤرخہ 27؍اگست کو ہم 20افراد پیراڈائز گارڈن پہنچے۔وہاں شتر مرغ دیکھے ،عمران نے اپنے تینوں بچوں کے ساتھ گھوڑے پر سواری کی۔لائف جیکٹ پہن کر وہاں کشتی رانی کا لطف بھی اُٹھایا۔اسی روز ہم ممبا ولیج بھی گئے جہاں پر کثیر تعداد میں بڑے بڑے مگر مچھ موجود ہیں۔ وہاں بھی ہم نے فوٹو گرافی کی۔وہاں ایک آرٹ گیلیری بھی موجود ہے۔یہ آرٹ گیلیری افریقہ کے مختلف ممالک جن میں لیبیا،مراکش،سیرا لون۔نائجیریا،انگولا،مصر شامل ہیں ان کے مشترکہ تعاون سے تعمیر ہوئی ہے۔ یہاں بچوں کی تفریح کے لئے مختلف قسم کے جھولے بھی لگے ہوئے ہیں۔موسم کی خرابی کی وجہ سے ہم زیادہ دیر وہاں نہیں ٹھہرسکے۔
اس کے بعد ہم وہاں سے کیلوریا مارکیٹ پہنچے۔یہاں ہم سب نے دوپہر کا کھانا کھایا۔کھانے کے بعد کچھ خریداری کی اور اس دن شام 5 بجے ہم واپس آئے۔اگلے روز 28؍ اگست کو مکرم ظفراللہ خان صاحب جو خاکسار کی پھوپھی طاہرہ قادر صاحبہ کے داماد ہیں،انہوں نے نیروبی کے ایک عالیشان ہوٹل KAREN BLEXIN GARDENمیں ہمارے کھانے کا انتظام کیا۔ظفراللہ خان صاحب کینیا میں ہی پیدا ہوئے اور یہیں آباد ہیں۔آپ ایک مخلص خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔نیک،خوش اخلاق، ہنس مکھ اور ظریفانہ طبیعت کے مالک ہیں۔آپ کا کینیا میں بینکنگ کا کامیاب کاروبار ہے۔مصروفیت کے باوجود موصوف نے ہمارے لئے اپنا قیمتی وقت نکالا۔اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔آمین۔(موصوف کا تفصیلی ذکر پہلے گزر چکا ہے)

مکرم طارق محمود ظفر صاحب مشنری انچارج
یہاں کچھ کمی رہ جائے گی اگر اپنے میزبان مکرم طارق محمود ظفر صاحب امیر و مشنری انچارج کینیا کا ذکر نہ ہو۔ موصوف میری بہو نائلہ عمران کے پھوپھا ہیں اور انکی بڑی صاحبزادی عزیزہ باسمہ طارق جو ڈاکٹر ہیں انکی شادی میں شمولیت کی غرض سے ہی ہم لوگ کینیا آئے تھے۔ مکرم طارق محمود ظفر صاحب مشنری انچارج کا تعلق گوجرانوالہ سے ہے۔آپ نومبر2005ء سے 2013ء تک غانا میں سلسلہ کی خدمت انجام دیتے رہے۔ بعدہ‘آپ کو کینیا مشن میں متعین کیا گیا۔آپ کے دادا محترم اسماعیل خان صاحب نے اپنی جوانی میں احمدیت قبول کی اور پھر اپنے خاندان میں بھی احمدیت کی تبلیغ کی۔آپ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑامگر اسکے باوجود آپ ثابت قدم رہے اور مسلسل تبلیغ کرتے رہے۔ مکرم طارق محمود ظفر صاحب مشنری انچارج کے والد محترم حاجی عبد الرشید صاحب بھی گوجرانوالہ میں ہی آباد رہے۔آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا۔ آپ بھی احمدیت کی تبلیغ اپنے حلقہ احباب میں کرتے رہتے تھے۔آپ کی تبلیغ سے لوگ بہت متأثر ہوتے تھے۔
طارق محمود ظفر صاحب مربی سلسلہ پانچ بھائی ہیں۔آپ کےبڑے بھائی منیر احمد صاحب سڈنی آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔دوسرے بھائی بشارت احمد صاحب ربوہ پاکستان میں اپنے کاروبار کے ساتھ جماعتی خدمت میں بھی مصروف ہیں۔تیسرے بھائی ظہیر احمد صاحب لندن میں رہ کر ایم ٹی اے میں خدمت بجا لا رہے ہیں۔اور آپ کے چوتھے بھائی عارف محمود صاحب کیلگیری کینیڈا میں مقیم ہیں۔
مکرم طارق محمود ظفر صاحب مشنری انچارج کی صاحبزادی ڈاکٹر باسمہ طارق صاحبہ کی شادی خانہ آبادی ڈاکٹر سعد کرامت صاحب ابن مکرم ناصر کرامت صاحب آف کیلیفورنیا (امریکہ)سے ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ہے کے اس رشتہ کو دونوں خاندانوں کے لئے باعث برکت بنائے۔آمین۔

کینیا سے واپسی کا سفر
اگلے دن یعنی 29؍ اگست کو صبح 4 بجے ہماری واپسی کی فلائٹ تھی۔ہم سب فلائٹ میں سوار ہوئے اور 6 گھنٹےکا سفر کرکے استنبول(ترکی )پہنچ گئے۔اور پھر یہاں دو گھنٹے کا انتظار تھا ۔پھر لندن کے لئے جہاز میں سوار ہوئے اور ساڑھے تین گھنٹے کے بعد اسی روز واپس لندن پہنچ گئے۔ہمارا کینیا کا یہ سفر ایک یادگار سفر رہا۔الحمد للہ علیٰ ذالک

اس عاجزکی زندگی میں
قبولیت دعا کے اعجازی نشانات

اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سرفراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت کوبڑھا دیتا ہے۔ کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہو ںتو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے۔
(منصب خلافت صفحہ 32)
چنانچہ قبولیت دعا کے اعجازی نشانات ہر دور خلافت میں ایک نمایاں شان کے ساتھ ظاہر ہوتے رہےہیں اور سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے زمانۂ خلافت کے بے شمار ایسے واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں جب دنیاوی حالات کے نامساعد ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے بندے کی تضرعات کو سنا اور قبولیت کا شرف عطا کیا۔ اور اس طرح نہ صرف خلافت حقہ کے لئے اپنی تائید و نصرت کا ثبوت مہیا فرما دیابلکہ پیشگوئی حضرت مصلح موعودؓ کے عظیم الشان مضمون پر بھی مہر صداقت ثبت کر دی جس کے ہر لفظ میں خدا خود بولتا ہوا نظر آتا ہے۔ قبولیت دعا کے چند ایک نشان پیش خدمت ہیں۔
(1) ایک ایسا واقعہ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کی خواہش کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کس طرح قبولیت بخشی۔ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت چوہدری اسد اللہ خان صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ لاہور 1928 ءمیں حصول تعلیم کے لئے برطانیہ تشریف لائے۔ یہاں کے ماحول کے فرق کی وجہ سے طبیعت اس قدربوجھل ہوئی کہ واپسی کی سیٹ بک کروالی۔ اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کی سرزنش بھی آپ کے ارادے کو تبدیل نہ کر سکی ۔لیکن روانگی سے چند روز قبل جب حضرت مصلح موعودؓ کا یہ پیغام پہنچا۔ اگر تعلیم حاصل کئے بغیر آ گئے تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔دل کی کایا پلٹ گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین سال کا کورس دو سال میں مکمل کرلیا ۔
محترم چوہدری اسد اللہ خان صاحب لکھتے ہیں کہ کمرہ امتحان سے باہر آ کر جب میں نے دوسرے طلباء کے ساتھ جوابات کا موازنہ کیا تو معلوم ہوا کہ میرا پرچہ اچھا نہیں ہوا ۔چنانچہ میں نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضور اقدس نے جواباً فرمایا کہ میں دعا کر رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں ضرور کامیاب فرمائے گا۔ محترم چوہدری صاحب نے حضور ؓکا یہ جواب نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی اپنے دوستوں کو دکھا دیا۔ چنانچہ جب نتیجہ نکلا تو آپ کے نمبر سب دوستوں میں سے زیادہ تھے۔ سبحان اللہ
(الفضل ربوہ 27؍جولائی 1982ء)
(2)مکرم عبدالمومن صاحب کے والد نے جب احمدیت قبول کی تو آپ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ اپنے علاقے کو خیرباد کہہ کر اور تکلیف اٹھاتے ہوئے قادیان پہنچے۔مکرم عبدالمومن صاحب پہلی بار نومبر 1944 ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے پاس حاضر ہوئے اوریہ عرض کی کہ میںبحریہ میں سیلر(SAILOR) ہوں۔ حضور اقدسؓ کی خدمت میں پرموشن کے لئے دعا کی درخواست کی۔حضور ؓ نے دریافت کیا کہ پرموشن کہاں تک ہو سکتی ہے۔ عرض کیا لیفٹنینٹ کمانڈر تک۔ اُن دنوں بحریہ کی وسعت کے لحاظ سے ترقی بہت کم ملا کرتی تھی۔ لیکن حضور اقدسؓ کی دعاؤں کی قبولیت کا یہ نشان تھا کہ آپ لیفٹیننٹ کمانڈر بن کر ریٹائرڈ ہوئے۔سبحان اللہ
(الفضل ربوہ 27؍جولائی 1982ء)
(3)حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیت دعا کا ایک نشان اس وقت ظاہر ہوا جب قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد 1948 ءکے انتہائی کٹھن حالات میں حضرت نواب عبداللہ خان صاحب جو بطور ناظر اعلیٰ خدمات انجام دے رہے تھے، دل کے شدید حملے کا شکار ہوئے۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ ڈاکٹر زندگی سے ناامید ہوگئے۔ ایسے میں حضرت مصلح موعودؓ بہت رقت اور درد سے اللہ کے حضور دعاؤں میں مصروف تھے۔ حضرت نواب صاحب کا دل ساکت ہوچکا تھا اور زندگی کے آثار تقریباً ختم ہو چکے تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کی دعا قبول کی اور زندگی کی روپھر سے چلنی شروع ہوگئی۔
ڈاکٹر کہتے تھے کہ ایسا درد قلب ہم نے کتابوں میں تو پڑھا ہے لیکن اس کا مریض پہلی بار زندگی میں دیکھا ہے۔ایک لمبا عرصہ تک نواب صاحب کو اس دورہ کے بعدخفیف حرکت کی بھی اجازت نہ تھی۔ کئی ماہ بعد آپ قدم اٹھانے کے قابل ہوئے اور پھر تیرہ سال تک معجزانہ طور پر صحت مند زندگی گزاری۔ الحمد للہ
(الفضل ربوہ 27؍جولائی 1982ء)
یہ سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی قبولیتِ دعا کے اعجازی نشانات آپ کے تعلق باللہ کے عظیم الشان ثبوت ہیں۔چنانچہ بے شمار ایسے واقعات بھی نظر آتے ہیں جب بھی کسی نے حضورؓ کی خدمت میں کسی خاص مقصد کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہوئے لکھا ہوگا یا لکھنے کا قصد ہی کیا تھا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے سائل کی مشکلات دور ہونی شروع ہو گئیں۔

خلیفۂ وقت کا وجود ساری دنیا کے لئے برکات اور فیوض کا منبع ہوتا ہے
جس طرح خلیفہ وقت کا وجود زمین کے کسی حصے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی ساری دنیا کے لئے برکات اور فیوض کا منبع ہوتا ہے۔ اسی طرح خلیفۂ وقت کی دعائیں بھی ساری دنیا کے انسانوں کے لئے یکساں شرف قبولیت پاتی نظر آتی ہیں۔
مصر کے ایک مخلص احمدی محترم عبدالحمید آفندی صاحب1938ء میں چالیس روزکے لئے قادیان آئے اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں دس بارہ سال سے شادی شدہ ہوں۔اس کےباوجود اولاد سے محروم ہوں۔ حضورؓ نے دعا کرنے کا وعدہ کیا ۔جب کچھ روز بعد آفندی صاحب واپس مصر چلے گئے تو ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام بلاد عربیہ کے پہلے مبلغ کے نام پر جلال الدین رکھا گیا۔ پھر دوسرا لڑکا شمس الدین اور ایک لڑکی عائشہ پیدا ہوئی ۔عزیزجلال الدین جو خد ام الاحمدیہ قاہرہ کے سیکریٹری اور ملک کے ایک قابل فخر وجود بھی تھے 22 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اس قومی نقصان پر مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے بھی اپنا تعزیتی پیغام بھجوایا تھا۔ دعا کی برکت سے نہ صرف اولاد عطا ہوئی بلکہ اپنے معاشرے میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی اولاد اللہ تعالیٰ نے عطا کی۔
(الفضل ربوہ 27؍جولائی 1982ء)
قبولیت دعا کا ایک اور واقعہ لکھتے ہیں کہ مکرم محمد رفیع صاحب ریٹائرڈ سپریٹنڈنٹ تھے۔ 1930 میں ان کا بچہ خونی پیچش سے ایسا بیمار ہوا کہ ڈاکٹرعاجز آگئے اور بچہ چند گھڑیوں کا مہمان دکھائی دینے لگا تھا ۔ تب حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں دعا کے لئےتار د یا ۔ بچہ اسی وقت صحت یاب ہونا شروع ہوگیا اور چند روز میں بچہ بالکل تندرست ہوگیا۔ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓ کی پاکیزہ حیات اس قسم کے واقعات سے لبریز نظر آتی ہے۔ جن کے پیچھے مضبوط تعلق باللہ اور خدا تعالیٰ کی خاص نصرت ظاہر ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
(الفضل ربوہ 27؍جولائی 1982ء)

قبولیت دعا کے ذاتی تجربات
خاکسار 1979 ءمیں ملک سے باہرلیبیا آیا تو کچھ عرصہ کے لئے بیگم کے چچا ظفر اقبال کے ہاں قیام کیا۔خاکسار کی فیملی پاکستان میں ویز ے کے انتظار میں تھی کہ لیبیا سے ویزا آئے گا تو ہم جائیں گے۔ لیبیا میں ڈاک کا نظام بہت خراب تھا ۔کئی کئی ماہ کے بعد ہمیں خط ملتے تھے۔ اکثر لوگ پوسٹ آفس کے ذریعےخط نہ بھجواتے تھے۔ خاکسار بھی حضوراقدس کو دعا کے لئےلکھتا تو خط ائرپورٹ جاکرکسی مسافر کو جو لندن جا رہا ہوتا دے دیا کرتا۔ وہاں پہنچ کر وہ لوکل پوسٹ کر دیتا اور تین چار روز میں خط حضور اقدس کو مل جاتا۔ اسی طرح ہر ہفتہ کے بعد خاکسار ایئرپورٹ جا کر کسی مسافر کوخط دے آتا۔ ڈاک کا نظام خراب ہونے کی وجہ سے جواب تو جلدی نہ ملتا مگر مشکلات میں آسانیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتیں تو احساس ہوتا کہ حضور تک میرا خط پہنچ چکا ہے۔ اور حضورنے دعائیں شروع کر دی ہیں۔ دو ماہ کے اندر اندر حضورکی دعاؤں کےطفیل خاکسار کا چار سال کا اکٹھا ویزا لگ گیا اور ہسپتال کے کلرک نے(جہاں میں کام کیا کرتا تھا) پاسپورٹ خاکسار کو دیا اورعربی میں کہتا ہے کہ تم بڑے خوش قسمت ہو چار سال کا ویزا لگا ہے ورنہ امیگریشن والے ایک سال سے زیادہ ویزا نہیں لگاتے۔یہ ہے خلیفۂ وقت کی دعائوں کا اثر۔خاکسار کا ویزالگنے کے بعد بچوں کے ویزے کے لئے درخواست دی۔ ڈائریکٹر کے دستخط کے بعد درخواست امیگریشن کے دفتر بھیج دی گئی۔ اگلے روز چھٹی تھی امیگریشن آفس بند تھا ۔تیسرے روزآفس میںمعلوم کرنے گیا ۔ تو امیگریشن افسر کہنے لگا کہ آپ کے بچوں کے ویزے کے کاغذات پاکستان میں لیبین ایمبیسی میں چلے گئے ہیں۔
امیگریشن افسر نے کہا کہ آپ پاسپورٹ لیکر ایمبیسی جائیں اور ویزا لگوا ئیں۔ اگلے روزٹیلی گرام کے ذریعےبیگم و بچوں کو اطلاع دی۔ خاکسار کی ہدایت کے مطابق پاسپورٹ لے کر بیگم ایمبیسی گئیں تو ناکام واپس آنا پڑا ۔ایمبیسی والوں نے اعتراض کیا کہ بچے کہاں ہیں۔ کل بچوں کو ساتھ لے کر آئیں۔ بیگم دو روز کے بعد بچوں کو ساتھ لے کر اور اپنے والد محترم کو بھی ساتھ لے کرگئیں۔ پاکستان اسلام آباد میں لیبین ایمبیسی میں انہیں انٹرویو کے لئے بلایا بچوں کو بھی دیکھا ۔سب کے کاغذات چیک کئے۔ عمریں بھی پوچھیں۔ اور پھر ویٹنگ روم میں بٹھا دیا گیا ۔ تین گھنٹے کے بعد پاسپورٹ پر ویزا لگا کر پا سپورٹ دے دئے اور کہا کہ دو ہفتے کے اندر لیبیا چلے جائیں۔عموماً ایک ہفتے کے بعد پاسپورٹ ویزا کے ساتھ واپس کرتے ہیں۔ حضور اقدس کی دعاؤں کی برکتیں تھیں کہ اسی روز پاسپورٹ ویزا کے ساتھ واپس مل گئے۔ خاکسار کی لیبیا میں گورنمنٹ جاب تھی ۔وہاں قانون کے مطابق پوری فیملی کے ٹکٹ گورنمنٹ فری دیتی ہے۔ اس کے لئے بھی درخواست دینی پڑتی ہےٹکٹوں کابھی سارا کام چند دن میں مکمل ہو گیا۔ بچوں کو ٹکٹ ملنے پر انہوں نے لیبیا کے سفر کے لئے ایئرلائن میں بکنگ کر وائی۔ بکنگ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تین چار روز کے بعد ہوگئی۔جو کام یا کارروائی سال یا چھ ماہ میں مکمل ہوتی تھی وہ دو اڑھائی ماہ میں مکمل ہو گیااورخاکسار کی فیملی خیریت سے لیبیا پہنچی ۔
لیبیا میںبیگم کے چچا کے ہاں قیام کیا ۔گھر کی چھت پر ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کو اسٹور کے طور پر استعمال کرتے تھے۔اس کمرہ کو خالی کرکے صاف کیا۔اس کمرہ میںدو چار پائی بڑی مشکل سے آتی تھیں۔ اس کمرہ کو رہائش کے قابل بنایا ۔ہم سب وہاں تقریباً ایک ماہ کے قریب رہائش پذیر رہے۔ بچوں کےلیبیا آنے کے بعد خاکسار نے روزانہ ہائوسنگ والوں کے دفتر جانا شروع کیا ۔خاکسار دو بجے اپنے آفس(ہاسپٹل) سے فارغ ہوکر ہاؤسنگ والوں کے دفتر چلا جاتا ۔وہاں پر بڑی لمبی لائنیں لگی ہوتیںجہاں خاکسار بھی لائن میں لگ جاتا ۔ بڑی دیر کے بعد باری آتی تو دفتر کا ٹائم ختم ہو جاتا اور دروازہ بند ہو جاتا ۔ خاکسار کئی دن تک کوشش کرتا رہا لیکن کامیاب نہ ہوا۔ ایک کمرہ میں بچوں کا رہنا بڑا مشکل تھا ۔بچوں کو کہہ دیا کہ دعائیں کریں اور حضور کو بھی خطلکھے ۔ حضوراقدس کو اپنی پریشانیاںلکھیں۔اور بتایا کہ سب سے پہلے آپ کی دعاؤں کے طفیل خاکسار کے بچے خیریت سے لیبیا پہنچ گئے تھے۔قدم قدم پر حضور کی دعا سے ہر مشکل آسان ہوجاتی رہی ہے۔ اپنی یہ مشکلات حضور کو خط میںلکھیں کہ ہم پانچ افراد ایک چھوٹے سے کمرے میں رہائش پذیر ہیں۔ بہرحال حضور کو اپنے سارے حالات لکھ کر دعا کے لئےبھجوائے ۔پہلے کی طرح جا کر پوسٹ کے لئے لیٹر مسافر کو دے دیا کہ وہ کسی ملک سے پوسٹ کر دے۔ اس دوران حضور کو خط ملنے کی دیر تھی کہ مشکلات میں آسانیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔
خط بھجوانے کے ہفتہ دس روز کے بعد خاکسار پھرہاؤسنگ والوں کے دفتر گیا تا کہ گھر کے متعلق کچھ بتائیں کہ اور کتنا ٹائم لگے گا ۔دفتر کا دروازہ کھلا تو سامنے ایک عربی نے کہا۔’’آئو دُکتُور تم کون سےمستشفیٰ میں کام کرتے ہو‘‘۔ عربی میں ڈاکٹر کو دُکتُور اورہاسپٹل کومستشفیٰ کہتے ہیں۔ مجھے وہ پوچھتا ہے کہ تمہاری فیملی کہاں ہے۔ یہاں پر آ گئی ہے؟ میںنے ہاں میں جواب دیا تو عربی آفیسرنے مجھے کہا کہ تم کل دس بجے اپنا پاسپورٹ اور اپنے بیوی بچوں کے پاسپورٹ لیکر میرے پاس آؤ۔خاکسار اگلے روز پاسپورٹ لے کرہائوسنگ کے دفترچلا گیااور باہر انتظار میں بیٹھا رہا۔ تقریبا ًدو گھنٹے کے قریب وہ عربی جو آفس کا بڑا انچارج تھا اس نےخاکسار کو اندربلایا۔ وہ کہنے لگا کہ تم اپنا پاسپورٹ اور بچوں کے پاسپورٹ ساتھ لائے ہو۔خاکسار نے پاسپورٹ دکھائے۔پاسپورٹ دیکھنے کے بعداس نے اپنے آفس میں فارم وغیرہ پُرکروانے کے بعد فائل تیار کرکے مجھ سے دستخط کروا ئے۔ دوسرے عربی کو اس نے کہا کہ دُکتُور کے ساتھ جائو اور چابیاں لے جائو۔جو گھر دُکتُور کو پسند ہو دکھا دواور کھول کر دے دو۔ان دنوں گھر کا ملنا بڑا مشکل کام تھا۔بیشمار لوگ لمبی لائنوں میں لگ کرگھر کے لئے کوشش کر رہے تھے وہ ہمارے گھر ملنے کے کچھ دنوں کے بعدہمارے پاس آئے اور کہا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں۔کوئی کہتا کہ ہم سال سے کوشش کر رہے ہیں اور کسی نے بتایا کہ ہم چھ ماہ سے لائن میں لگے ہیں مگر مکان نہیں ملا۔ یہ حضور کی دعا کا اثر تھا۔الحمدللہ
گھرملنے کے بعد ہم اسی روزگھر میں شفٹ ہوگئے اورشکرانے کے نفل ادا کئے۔ بیگم کہنے لگیںکہ ابھی حضوراقدس کو تاردے دیں کہ آپ کی دعاؤں سے آج ہمیں گھر مل گیا ہے۔ گھر میں آنے کے بعد کئی روز تک نئے لوگ آتے رہے۔ اور دریافت کرتے کہ آپ کو گھر کیسے ملا ہے۔ وہاں دفتر میں کس کو ملے تھے۔ ہم تو ہائوسنگ والوں کے پاس روزانہ جاتے ہیں۔ ہم سے بات ہی نہیں کرتے۔ انڈیا کی ایک عورت کہنے لگی کہ میں ایک سال سے ایک چھوٹے سے کمرے میں بچوں کے ساتھ رہتی ہوں۔ کمرہ بھی براہ راست طور پر کسی سے لیا ہے۔ کہتی تھی کہ آپ لکی LUCKYلوگوں کو اتنا اچھا گھر اور اتنی جلدی ملا ہے۔ ہم سب کو کہتے کہ ہمارے پاس کوئی سفارش نہ تھی۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی دین اور خلیفہ وقت کی دعائیںشامل حال نہ ہوتیں تو گھر اتنی جلدی کیسے مل سکتا تھا۔ جو کچھ بھی ہمیں ملا حضور اقدس کی دعاؤں کے طفیل سے ملا۔خاکسار کی زوجہ نجم النساء کو لیبیا میں معدہ کے السرکی تکلیف ہو گئی۔بیگم اکثر بیمار رہتیں۔ پیٹ میں درد اورسٹول میں خون آتا ۔ اس سے جسم میں کمزوری ہوجاتی۔ بعض اوقات ہاسپیٹل داخل کروانا پڑتا تھا۔ ان دنوں ملکی حالات بھی بڑے خراب تھے ۔بازاروں میں روزمرہ کی چیزیں نایاب ہوگئیں۔ فون کرنا بھی بڑا مشکل تھا ۔ حضور اقدس کو بیگم کی اس بیماری کی اطلاع دی۔ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ وقت کی دعائیں سنیںاور بیگم کی بیماری دور ہونی شروع ہوگئی۔ یہ حضور کی دعا تھی اور اللہ تعالیٰ دعاؤں کو کس طرح کو قبول کرتا ہے عقل حیران رہ جاتی ہے۔
ایک ایمان افروز قبولیت دعا کا واقعہ اور ہے۔ ان دنوں پاکستان سے زوجہ کے والدین وزٹ ویزہ پر لیبیا آئے ہوئے تھے ۔خاکسار نے خودان کا ویزہ لگوا یا تاکہ کچھ عرصہ اور میرے پاس قیام کرسکیں۔ ان کے تین بیٹے جرمنی میں قیام پذیر تھے۔اور وہ بھی بیٹوں کے پاس جانا چاہتے تھے۔ان دنوں جرمنی ایمبیسی والے بھی ویزہ نہیں دیتے تھے۔ کئی لوگوں کے ذریعے اطلاع ملتی کہ جرمن ایمبیسی نے ویزہ دینا بند کر دیا ہے۔ ویزا پالیسی لوکل لوگوں کے لئے تھی۔ لیکن انہوں نے فارنرز کے لئے ویزہ دینا بند کر دیا ۔ساس اور سسر نے فیصلہ کیا کہ ابھی کچھ عرصہ ایک یا ڈیڑھ ماہ انتظار کرتے ہیں اور ساتھ حضوراقدس کو بھی دعا کے لئے لکھ دیتے ہیں۔ عرصہ ڈیڑھ ماہ میں ہم سب خود بھی دعائیں کرتے رہے۔ حضور اقدس کو بھی تقریباً پانچ خط خود پوسٹ کئے۔ ان دعائیہ خطوط کے دو ماہ کے بعد غالباً ایک یا دو جواب بھی مل گئے کہ ویزہ کی کارروائی کے لئے کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور مدد فرمائے گا۔ ڈیڑھ ماہ کے بعد ایمبیسی جاکر ویزا کے لئے درخواست دی۔ امیگریشن افسر نے کاغذات دیکھنے کے بعد پوچھا کہ جرمنی کیوں جانا چاہتے ہیں۔ جواب دیا کہ بچے وہاں پر ہیں ان کو ملنے جانا ہے۔ساس اور سسر محترم دونوںکو ایک کمرے میںبٹھا دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد پاسپورٹ ویزا لگا کر واپس کر دیا گیا۔اور ویزا بھی تین ماہ کا دیا ۔یہ ہیں قبولیت دعا کے زندگی بھر نہ بھولنے والے واقعات۔
اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو خلافت جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا ہے۔ خاکسار کے ایک دوست مسٹر ریاض احمد کورین ایئرلائنز میں ملازم تھے۔ ربوہ کےنزدیک لالیاں کے رہنے والے تھے۔ احمدی نہیں تھے لیکن احمدیت کے بہت قریب تھے۔ بیگم احمدی تھیں اور بیگم کے قریبی رشتہ دار بھی احمدی تھے۔ ہم نے جرمن ویزہ کا ذکر ان سے کیا۔وہ بے انتہا خوش ہوئے کہ آپ لوگ بہت خوش قسمت ہیں۔ آج کل ویزا لگ جانا معجزہ سے کم نہیں ہے۔ ریاض صاحب پوچھنے لگے کہ یہ بتائیں کیسے ویزا لگا ہے۔ کسی سفارش سے لگایا ہوگا ۔ہم نے کہا یہ ویزا ہمارے حضور اقدس کی دعائوں کے طفیل ملا ہے۔ ریاض صاحب کہنے لگے کہ اس میں کوئی شک نہیں۔ ریاض صاحب نے مزید کہا کہ اس خوشی میں دونوں افراد کی ٹکٹ فرانکفرٹ تک میں اپنی ایئرلائنز کی طرف سے دونگا۔ خلیفہ وقت کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ ہر کام میں آسانی پیدا کردیتا ہے۔ سفر کے لئے ٹکٹ کا انتظام بھی حضور کی دعاؤں کے ثمرہ میں ہوگیا۔
اے مولا کریم تو کس قدرخلیفۂ وقت کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔ ہماری جماعت میں جو نظام خلافت قائم ہے اس کی برکات پر غور کرکے دیکھ لیں۔ کس طرح تمام جماعت ان سے مستفیض ہورہی ہے۔ خلافت کی برکات سے دعائیں قبول ہو رہی ہیں۔
ایک واقعہ اور ہے کہ خاکسار کو ہر دو سال کے بعد بچوں کے ساتھ چھٹی ملتی اور ٹکٹ بھی سرکاری محکمے کی طرف سے ملتا ۔اڑھائی ماہ کی چھٹیوں میں ہم پاکستان چلے جاتے اور کبھی کبھی یورپ جرمنی اور برطانیہ چلے جاتے۔اس زمانہ میںسفر کی مشکلات بہت زیادہ تھیں۔مسافروں کو ایئرپورٹ پر بہت تنگ کیا جاتا ۔ ہر قسم کے سامان کو کھول کر چیک کیا جاتا۔ ایک ایک چیز کو کھول کر دیکھتے۔ الیکٹرانک کی چیزیں ریڈیو، استری وغیرہ کو نکال کر پھینک دیتے۔اور کہتے کہ یہ لے جانا منع ہے۔ ساتھ نہیں لے جا سکتے ہیں ۔پیسے کسی کے پاس زیادہ ہیں تو وہ بھی لے جانے نہیں دیتے تھے۔ زیادہ پیسے ساتھ لے جانے کی اجازت نہیںتھی۔ کسی کا کوئی لحاظ نہیں کرتے تھے۔اگر مسافر کچھ کہتا ہے تو آگے سے بےعزتی کرتے بلکہ مارنا شروع کر دیتے تھے۔مسافروں پر ایئرپورٹ انتظامیہ کی اس طرح کی بدسلوکی کا خوف رہتا۔ ہم تو سفر کرنے کے دو اڑھائی ماہ قبل حضور کو دعا کے لئے خط لکھ دیتے کہ فلاںما ہ کی فلاں تاریخ کو ہم پاکستان دو ماہ کے لئے چھٹی پرجا رہے ہیں ۔ائیرپورٹ پر بڑی مشکلات ہیں ۔سفر کرنا بڑا مشکل ہے ہر وقت ڈر رہتا ہے۔ مسافروں کو بہت پریشان کیا جاتا ہے۔ حضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ایئرپورٹ کی پریشانیوں کو دور فرمائے۔ ساری چیکنگ کروانے کے بعد جہاز میں جانے تک خوف طاری رہتا۔ ایسی مشکلات ہر انسان کے ساتھ تھیں۔ امیگریشن والے مسافروں کو کہہ دیتے کہ فلاں چیز نکال دو یا یہاں سے لے جانا منع ہے۔ تم پیسے کہاں لے کے جا رہے ہو ۔ تمہاری تنخواہ کتنی ہے۔ کوئی مسافر کسی کی شکایت بھی نہیں کرسکتا ۔ایسے حالات تھے کہ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضور اقدس کی دعاؤں کے طفیل مشکلات میں آسانیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ سفر کے وقت ایئرپورٹ پر جب خاکسار کی باری آئی توامیگریشن والے ہمارے ساتھ بڑی عزت سے پیش آئے۔ چیک کروانے کے لئے اٹیچی کیس کاتالہ کھلواتےاور ساتھ ہی کہہ دیتے بند کر دو۔ زیادہ سے زیادہ ایک یا دو اٹیچی کا تالا کھلوا یا۔ یعنی ہمارے لئےہر قسم کی چیکنگ میں آسانیاںپیدا ہو گئیں۔ دوسرے مسافر جو ہمارے ساتھ سفر کر رہے ہوتے وہ حیران ہوتے اور آپس میں باتیں کرتے یہ کون لوگ ہیں ۔ان کو اتنی عزت دی جا رہی ہے۔ ان کا سامان بھی چیک نہیں ہوا نہ ہی کچھ پوچھا۔ یہ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کا اثرتھا۔ حضور اقدس کی دعاؤں کے طفیل ہر قسم کی آسانیاں پیدا ہو ئیں۔ یہ ہیں دعاؤں کی قبولیت کےمعجزات۔
جب خاکسار فیملی کے ساتھ چھٹی گزار کر واپس آتا تو اسی طرح ہمارے ساتھ سلوک کرتے۔ بعض اوقات امیگریشن ڈیوٹی پر وہی لوگ ہوتے جو جاتے ہوئے بھی ڈیوٹی پر تھے۔وہ ہمیں پہچان لیتے ہمارا حال چال پوچھتے اورکہتے آئو دُکتور (ڈاکٹر) واپس آگئے ہو۔پھر باہر گاڑی تک چھوڑنے آتے۔اور وی آئی پی لوگوں کی طرح ہم سے برتائو کرتے۔ ہم ناچیز کیا ہیں۔ ہم شکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافت کے انمول خزانے سے نوازا۔ خلیفۂ وقت کی دعاؤں کی قبولیت کے واقعات زندگی بھر نہ بھولنے والے واقعات ہیں۔ آئندہ بھی حضور کی دعاؤں کی قبولیت کے مزید نظارے ہم دیکھتے رہیں گے۔پس ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔

خلیفۂ وقت کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات
اور قلم سے نکلی ہوئی ہر تحریر بھی پوری ہوتی ہے
جب حضور اقدس2019 ء میں مسجد فضل سے اسلام آباد تشریف لائے تو خاکسارکے بیٹے عمران ظفرکی بطور مہتمم عمومی مجلس خدام الاحمدیہ یوکے ،اسلام آباد میں ڈیوٹی تھی۔ اپنی عمومی کی ٹیم کے ساتھ وہ ڈیوٹی میں شامل تھا۔ مہتمم عمومی کی ڈیوٹی ذمہ داری والی ڈیوٹی ہوتی ہے۔ لندن سے اسلام آباد روزانہ آنا جانا ایک معمول تھا۔بعض دنوں میں دن میں دو بار آنا جانا پڑتا۔ رات گئے تک لندن واپسی ہوتی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ رات کو ڈیوٹی اور کام کی زیادتی کی وجہ سے رات اسلام آباد میں ہی رہنا پڑتا۔ جماعت کی خدمت کے لئے عمران ظفر کی دلی خواہش تھی کہ میں بھی اسلام آباد کے قریب گھر لے لو ں۔کافی عرصہ سے گھر کی تلاش میں تھا اور حضور اقدس کو بھی دعا کے لئے باقاعدگی سے خط لکھ رہا تھا ۔خاکسار کو بھی کہتا کہ آپ دعا کریں کہ اسلام آباد کے نزدیک گھر مل جائے اور ساتھ تلاش میں بھی تھا ۔پراپرٹی والوں سے بھی رابطہ رکھا ہوا تھا ۔اسلام آباد کے گردونواح میں مکان بہت کم ہیں۔ گھر ملنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص گھر فروخت کر رہا ہوتا ہے توبہت لوگ ہوتے ہیں جو خریدنے کی لائن میں ہوتے ہیں۔ خصوصاً احمدی احباب کی کوشش ہوتی ہے کہ انھیں گھر مسجد کے قریب مل جائے ۔پراپرٹی والوں کو زیادہ سے زیادہ پیسوں کی آفر دی جاتی ۔ عمران ظفرنے جو گھر خریدا ہے یہ گھر کئی لوگوں کی نظروں میں تھا اور کچھ لوگوں کی بات بھی چل رہی تھی۔ ہمارا تو دعاؤں پر زور تھا۔ حضور اقدس کو بھی دعاؤں کے لئے لکھ رہے تھے۔ عزیز و اقارب دوست احباب کو دعائوں کا کہتےاورعمران ظفربھی دعائیںکرتا رہتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خلیفۂ وقت کی دعائیں قبول کیں اور انہی دعائوں کے طفیل عمران ظفر گھر لینے میں کامیاب ہوا جس طرح کہ عمران ظفر کی دلی خواہش تھی کہ گھر اسلام آباد مسجد مبارک کے قریب واقع ہو ۔ تا کہ ہم سب پانچ وقت کی نمازیں خلیفۂ وقت کے پیچھے ادا کرسکیں اور جماعتی پروگراموں میں شامل ہو سکیں اورجماعت کی مقبول خدمات کر سکیں۔الحمدللہ دعائوں کے عین مطابق یہ گھر فارنہم FARNHAMمیں واقع ہے۔ یہاں کا ٹرین سٹیشن گھر سے محض پانچ منٹ کے راستہ پر ہے۔ گھر کے ساتھ تقریبا ًاڑھائی تین کنال زمین ہے۔ کچھ زمین گھر کے سامنے اور کچھ گھر کے پیچھے ہے۔ پراپرٹی ٹرانسفر ہونے کی کارروائی کے بعد گھر کی چابی 20 ؍دسمبر 2019 ءکو ملی۔ خاکسار ان دنوں قادیان دارالامان میں تھا۔ بیٹے عمران ظفر کا مجھے قادیان میں فون آیا کہ گھر کی چابی آج مل گئی ہے۔ آج ہی آپ ایک بکرے کا صدقہ دے دیں۔قادیان میں خاکسار اسی وقت بازار گیا۔ بکرا قادیان سے دور باہرایک گاؤں سے منگوایا گیا ۔اسی دن بکرے کا صدقہ دیااور گوشت غرباء میں بانٹ دیا گیا۔
حضور اقدس کی دعاؤں کےطفیل عمران ظفر کی جو دلی خواہش تھی پوری ہوئی کہ میں پیارے حضور کے قریب آباد ہو جاؤ ں۔ 2020 ء کےمارچ اپریل میں گھر کا کام شروع کروا دیا گیا ۔COVID-19 کی وجہ سے حالات بھی ٹھیک نہ تھے۔ کام کرنے والے آتے اورکچھ دن کے بعد بھاگ جاتے کہ کہیں بیمار نہ ہو جائیں۔مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ کام چلتا رہا۔ پورے گھر کی رینویشن اور نئے کچن کی تعمیر کی گئی۔ یہ تین بیڈ روم کاگھر تھا جس کو ہم نے پانچ بیڈروم والاگھر بنایا۔ ایک بیڈروم کو بطور گیسٹ جماعت کے کسی فرد کو ضرورت پڑنے پر دیا جائے گا۔ گھر کے پیچھے گارڈن میں پھلوں کے درخت ہیںجن میں سیب، ناشپاتی، زیتون کے پودے لگائے ہیں۔ اس کے علاوہ پھولوں کے پودے جن میں گلاب، موتیا ،چمبیلی وغیرہ لگائے گئے ہیں ۔گھر کا ضروری کام مکمل کروانے کے بعدہم سب 16؍جولائی بروز جمعۃالمبارک 2020 ء کو نئے گھر میں منتقل ہوئے۔ اس گھر کا کام ایک سال تک ہوتا رہا ۔گھر میں منتقل ہونے سے قبل نفل نماز ادا کی گئی ۔عمران کے سسر ساجد قمر صاحب بھی موجود تھے۔ انھوں نے بھی نفل ادا کئے اور تلاوت کرتے رہے۔ پہلی اذان اس گھر میں میرے پوتے حارث خان نے دی جو وقف نو کی تنظیم میںشامل ہے۔اس گھر میں ہم سب نماز باجماعت ادا کرتے رہے ۔
منتقل ہونے کے چند دن کے بعد عید الاضحی تھی۔خاکسار نے دامادوں اور بیٹیوں کو گھر پر بلایا۔ اس موقعہ پر باربی کیو بھی کیا۔ نئے گھر کی خوشی میں سب کو شامل کیا گیا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس گھر کے حاصل ہونے میں خلافت کی برکتیں اور حضور اقدس کی دعائیں شامل حال رہی ہیں۔ خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسانوں کے لئے بہت بڑا انعام ہے ۔خدا تعالیٰ کی طرف سے خلافت جس قوم کو مل جائے وہ خوش قسمت قوم ہوتی ہے۔ خلافت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے مقاصد کو پائے تکمیل تک پہنچاتا اور ان کے کام کو جاری رکھتا ہے۔خلافت احمدیہ کے ساتھ قبولیت دعا کا مضمون ہمیشہ نمایاں شان سے وابستہ رہا ہے۔ اوردراصل یہ ایسا دوہرا رشتہ ہے کہ ایک طرف خلیفۂ وقت کی دعائیں مومنوں کے حق میں قبول کی جاتی ہیں تو دوسری طرف مومنوں کی دعائیں خلافت سے پختہ تعلق کی بنا پر پایۂ قبولیت کو پہنچتی ہیں۔ اس حقیقت کو حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ‘ اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پہلے بھی یہی دیکھا تھا۔ اور آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر کسی احمدی کو منصب خلافت کا احترام نہیں ہے ۔اس سے سچا پیار نہیں ہے۔ اس سے عشق اور وارفتگی کا تعلق نہیں ہے اور صرف اپنی ضرورت کے وقت وہ دعا کے لئے حاضر ہوتا ہے۔ تو اس کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی۔ یعنی خلیفۂ وقت کی دعائیں اس کے لئے قبول نہیں کی جائیں گی۔اسی کے لئے قبول کی جائیں گی جو اخلاص کے ساتھ دعا کے لئے لکھتا ہے۔ اور اس کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے عہد پر قائم ہے کہ جو نیک کام آپ مجھے فرمائیں گے ان میں میں آپ کی اطاعت کروں گا۔اگر وہ خلافت سے ایسا تعلق رکھتا ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتا ہے اور اطاعت کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لئے بھی دعائیں سنی جائیں گی بلکہ ان کی دعائیں بھی سنی جائیں گی۔ اس کے دل کی کیفیت ہی دعا بن جایا کرے گی۔‘‘
(بحوا لہ الفضل ربوہ مؤرخہ 27 ؍جولائی 1982ء )
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم خلافت کے ساتھ حقیقی تعلق کا ادراک حاصل کرکے اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کر سکیں۔اور خود کوبھی اور اپنی نسلوں کو بھی اس قابل بنائیں کہ ایمان اور اخلاص میں ہمیشہ ہمارا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے۔آمین۔

عمران ظفر خان صاحب
عمران ظفر کی ولادت24 ؍مارچ 1981ء کو لیبیا کے شہر طرابلس میں ہوئی۔ہمارے لئے یہ انتہائی خوشی کا موقعہ تھا کیونکہتین بیٹیوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹے سے نوازاتھا۔دنیا بھر سےسب رشتہ داروں نے اس خوشی کے موقعہ پر ڈھیروں دعائیں اور مبارک باد دی ۔فجزاھم اللہ ا حسن الجزاء۔اس خوشی کے موقعہ پرلیبیا میں ملنےملانے والوں کے لئے مٹھائی کا انتظام کیاگیا۔پھر دو ہفتہ بعددعوتِ عقیقہ کا اہتمام کیا گیا ۔جس میں ڈیڑھ سو لوگوں کے قریب احباب جماعت اور غیر از جماعت، پاکستانی ایمبیسی کے چند افراد اور میرےعم زاد بھائی کیپٹن طاہر محمودصاحب نے شرکت کی جواس وقت لیبیا میں مقیم تھے۔

بچپن اور تعلیم و تربیت
عمران ظفرکوبچپن سے ہی بہنوں نے بہت پیاردیا اور خیال رکھا۔عمران ظفرکو بچپن سے ہی گاڑی چلانے اور اُن سے کھیلنے کا بہت شوق تھااور جب ہوش سنبھالی تو گاڑی کی چابی لے آتا اور گاڑی میں بیٹھ کر سٹیرنگ گھما کرگاڑی چلانے کی کوشش کرتارہتااوریونہی شوق شوق میںچودہ پندرہ سال کی چھوٹی عمر میں گاڑی چلانابھی سیکھ گیا۔جب وہ اسکول جانے لگاتواسکول میں کئی دوست بنا لیتا۔ عمران کی امی اس کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھتیں، ان کو بہت فکر رہتی کہ کہیں خراب دوست نہ بنا لے۔ ہمیشہ سمجھاتیں کے نیک،شریف اور لائق بچے دوست ہونے چاہئیں نہ کہ خراب عادتوں والے بچے۔اس کو پڑھائی کی اہمیت بتاتیں،اچھے اور برے کی تمیز سکھاتیں اورہمیشہ پوچھتیں کہ آج آپ نے کیا پڑھا؟عمران کی امی نے دینی تعلیم پر بھی بہت توجہ دی۔ اسے خود قاعدہ یسرناالقرآن پڑھایااور قرآن شروع کروایابعدازاں ایک عربی فلسطینی اُستاد سے جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہےاس نے قرآن پڑھا۔جب عمران12۔13سال کی عمر کو پہنچاتونماز،روزےکےمتعلق اسلامی تعلیم، آنحضرتﷺ کی پیاری زندگی کے واقعات اسکی والدہ اسےبتاتیں اور مسنون ادعیہ یاد کرنے کی تلقین کرتیں۔
عمران پڑھائی میں شروع سے ہی اچھا اورہونہار طالب علم رہا ۔بہت محنتی اور ذہین بھی ہے۔ میٹرک کاامتحان دینے کے بعد1997ء میں عمران مالٹا سے خود برطانیہ کا ویزا حاصل کر کےپہلی بار لندن اپنے چچا اطہر محمود خان صاحب کے پاس کچھ عرصہ کے لئے چلا گیا۔ دو ماہ لندن میں قیام کیااور اپنی آگے کی پڑھائی کے لئےداخلہ کی غرض سے مختلف کالجوں سے معلومات حاصل کیں اور انٹرویوبھی دئے۔لندن قیام کےدوران بھی وقت ضائع نہ کیا اور کام بھی کرتا رہا۔دو ماہ بعد لندن سے لیبیا واپس آیا تاکہ واپس آکر ہم سے مشورہ کرے اور اپنی آگے کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے کوئی قدم اٹھائے۔لندن کےحالات سے اس نے اپنی والدہ کو آگاہ کیا اور بتایا کہ’’ میں اکیلا وہاں نہیں پڑھ سکتا اگر آپ سب میرے ساتھ چلتے ہیں تو پھر میں وہاںپڑھ سکتا ہوں۔‘‘
عمران نے ہم سب کے مشورے پر لندن کا پروگرام عارضی طور پر ملتوی کرکےاپنے کالج کی تعلیم لیبیا میں مکمل کی۔ کالج مکمل کرنے کے بعد ایک امپورٹ ایکسپورٹ کمپنی کے آفس میں ڈیڑھ سال ملازمت کی جہاں انگریزی میں دفتری کام کرنا ہوتا تھا۔عمران نےانگلش اور عربی میں بول چال کےعلاوہ عربی ٹائپنگ بھی بہت اچھی وہاں سیکھ لی ۔
اس عرصہ میں ہم نے بھی لیبیا چھوڑنے کا پروگرام بنا لیا کیونکہ میری بیٹیوں نے بھی اپنی تعلیم مکمل کرلی تھی۔ اب دوسرے ملک منتقل ہونا ضروری ہو گیا تھا۔اُن دنوں امریکہ نے لیبیا پر پابندیاں لگائی ہوئی تھیں،طرابلس ائیر پورٹ انٹرنیشنل فلائٹس کے لئے بند کر دیا گیاتھا۔دنیا کی ہر فلائٹ کی لینڈنگ اور ٹیکنگ آف منع تھی۔تمام مسافر پہلے بذریعہ بحری جہازطرابلس سے مالٹا آتے اورپھر وہاں سے دوسرے ملکوں میں جاتے۔ ہم نے جب یہاں سے ہجرت کا قصد کیا تو یہ پابندیاں ختم ہو چکی تھیں۔الغرض ہم اس کے کچھ عرصہ بعد لندن چلے گئے۔لندن میںبچوں کویہاں کےکالج میں داخل کروادیا۔ کالج کے بعد عمران نےKingston University سےBusiness managementمیں B.A(Hons) کی 3 سال میں ڈگری حاصل کی۔ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ملازمت بھی کرتا رہا۔

لندن میں کاروبار کا آغاز
عمران ظفر کو طالب علمی کے زمانہ سے ہی بڑے پیمانہ پر کاروبار کرنے کا شوق تھا۔یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے TVلائیسنس کی کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی۔اس کا کام باہر فیلڈ میں ہوتا تھا۔اس نے اس کمپنی میں خوب محنت سے کام کیا جسکی وجہ سے اسٍ کے افسران بہت خوش تھے۔اور ساتھ ہی ذاتی طور پر سائیڈ بزنس کے رنگ میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام بھی شروع کر دیا۔عمران نے چار سال تک ملازمت کی اسکے بعدملازمت ترک کرنے کے بعد اپنے گاڑیوں کے کاروبار پر ہی اپنی مکمل توجہ مرکوز کی۔عمران کا ارادہ تھا کہ گاڑیوں کا ایک شو روم کھولا جائے۔حضور انور کی خدمت میں اکثر اپنے کاروبار کے سلسلہ میں دعا کے لئے خط لکھا کرتا ۔حضور انور کی دعائوں کے طفیل جلد ہی کرایہ پر ایک جگہ مل گئ جو ویسٹ ہِل میں تھی۔شروع میں شراکت پریہ جگہ ملی۔اس جگہ کا مالک بھی وہاں اپنا الگ کام کرتا تھا اور عمران بھی اس جگہ اپنا الگ کاروبار کرتا تھا۔حضور کی ہی دعائوں کے طفیل حالات تیزی سے بدلے اور جگہ کے مالک نے عمران کے سامنے جگہ خریدنے کی پیشکش کی۔شاید مالک اس وقت اپنی اقتصادی مندی کے پیش نظرجگہ فروخت کرنے پر مجبور ہو گیا تھا۔عمران نے میرے مشورہ کے بعد یہ جگہ مکمل طور پر خرید لی۔ اور اس جگہ کی ضروری مرمت کروائی اور اسکی نئی چھت ڈلوائی۔ تعمیری کام مکمل ہونے کے بعد اس جگہ کا لائیسنس حاصل کیا۔MOTسینٹر کا پلانٹ لگایا گیااور ایک آفس روم بھی بنایا۔عمران نے اپنے ایک قریبی دوست مکرم بشارت اللہ چوہدری صاحب کو بھی اپنے کاروبار میں شامل کرلیااور وسیع پیمانے پر گاڑیوں کا کاروبار شروع کیا۔الحمد للہ حضور انور کی دعائوں کے طفیل عمران کا کاروبار خوب اچھا چلنے لگا۔عمران نے تقریباً 10سال قبل اپنا کاروبار شروع کیا تھاجو آج پھل پھول رہا ہے۔اسکے علاوہ عمران نے ایک دوسری جگہ(ٹول ورتھ)پر ایک اور شوروم کھول لیا ہے۔گاڑیوں کی خرید وفروخت کے سلسلہ میں احباب جماعت بھی عمران سے رابطہ رکھتے ہیں۔کاروباری لحاظ سے عمران کا احباب جماعت کے ساتھ بہت رابطہ رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ عمران کے کاروبار میں بہت برکت عطا فرمائے۔آمین

عزیزہ نائلہ کے ہمراہ ازدواجی زندگی کا آغاز
عزیزہ نائلہ قمر جولائی 2007ء میں میرے بیٹے عمران ظفر کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں ۔آپ کے والد محترم محمد ساجد قمر صاحب کراچی پی۔ آئی ۔اے میں ملازم تھے۔عزیزہ نائلہ کی والدہ محترمہ تنویر الاسلام صاحبہہیں۔عزیزہ نائلہ کی پیدائش ستمبر 1983ء کو کراچی میں ہوئی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت بھی کراچی اور ربوہ میں ہوئی۔آپ کے دادا مرحوم محمد صادق صاحب واقف زندگی تھے۔سندھ میں جماعت کی زمینوں پر بحیثیت اکائونٹینٹ خدمت کرتے تھے۔کراچی میں بھی سندھ سے آنا جانا رہتا تھا۔ عزیزہ نائلہ کو ربوہ میں اپنے دادا جان اور دادی جان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔اُن کی دعائوں اور پیار میں پرورش پائی۔اور نصرت جہاں اکیڈمی میں سے تعلیم حاصل کرتی رہیں۔
میڑک کراچی میں کرنے کےبعد آپ مزید تعلیم حاصل کر نے کےلئے 2000ءمیں برطانیہ آئیں۔آپ لندن کے علاقہ کرائیڈن میں اپنے والدین کے پاس رہائش پذیر ہوئیں۔کرائیڈن کالج میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہوئے Aلیول کیا۔وہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ نے گرین وِچ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔آپ گرین وِچ یونیوسٹی سے Sociology with lawمیں B.A (Hons) گریجویٹ ہیں۔یونیوسٹی کی ڈگری کے دوران آپ فضل مسجد لندن میں ایم۔ٹی۔اے کے شیڈیولنگ آفس میں خدمت انجام دیتی رہیں۔خاکسار کو اپنے بیٹے عمران ظفر کے لئے رشتہ کی تلاش تھی۔خاکسار نے ایک روز اپنی بیٹی ماریہ سے ذکر کیاکہ تم بھی ایم۔ ٹی۔ اے آفس جاتی ہو۔اپنے بھائی کے لئے کوئی رشتہ دیکھنا یاکسی سے پوچھنا۔کہنے لگی کچھ لڑکیاں میرے ساتھ کام کرتی ہیں،میں اُن سے پوچھوں گی۔میری بیٹی نے مختلف اوقات میں الگ الگ لڑکیوں سے رابطہ کیا۔
پھر ایک روز عزیزہ نائلہ سے بھی رابطہ ہوا۔رابطہ کے دوران معلوم ہوا کہ ابھی کسی نے رشتہ کے متعلقبات نہیں کی ہے۔کچھ دنوںکے بعد خاکسار نے نائلہ کے والد محترم محمدساجد قمر صاحب سے رابطہ کیا۔ ملاقات اور ایک دوسرے سے شناسائی کے بعدہم حضور اقدس کو بھی دعا کے لئے لکھتے رہے۔ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعائوں کے طفیل الحمد للہ یہ رشتہ طے پاگیا۔رشتہ طے ہونے کے کچھ عرصہ کےبعد معلوم ہواکہ عزیزہ نائلہ کی ایک پھوپھی صالحہ رضوان صاحبہ خاکسار کے خاندان میں ہی میرے چچا ملک ناصر الدین صاحب کے بیٹے عامر رضوان صاحب کی اہلیہہیں،جن کا پہلے ذکر بھی ہو چکا ہے۔ یہ بات جب فریقین کو معلوم ہوئی تو آپس میں قربت اور بڑھ گئی۔
عزیزہ نائلہ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔آپ کے دادا ،آپ کے چچا ،آپ کے ماموں واقف زندگی ہیں۔آپ کی والدہ محترمہ تنویرالاسلام صاحبہ انتہائی نیک اور دعاگو خاتون ہیں۔ عزیزہ نائلہ دیندار، تعلیم یافتہ، دینی اور دنیاوی آداب سے آشنا ہیں ۔ آپ دل کی صاف اور ظریفانہ طبیعت کی ملکہ ہیں۔آپ جماعتی پروگراموںمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی اور گھر میں دینی ماحول بناکر رکھنے والی ہیں تاکہ بچوں کی احسن رنگ میںتربیت ہو سکے۔بچوں کو نماز قرآن سکھانے میں اپنے حصہ کی ذمہ داری کماحقہ‘ ادا کرنے والی ہیں۔بچوں کو جماعتی پروگرموں میں شمولیت کے لئے انہیں تلاوت نظم اور تقریرکی گھر پر تیاری کرواتی ہیں۔پھر مسجد جا کر دوسرے بچوں کے ساتھ کلاس میں شا مل کرواتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے عزیزہ نائلہ اور عمران ظفر کو تین بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا ہے۔بچوں کے نام عزیزم حارث عمران خان، عزیزہ حدیقہ عمران خان، ہمدان عمران خان اور حسیب عمران خان ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سےان کے چاروںبچے وقف نو کی بابرکت تنظیم میں شامل ہیں۔اولاد اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتی ہے۔اس لئے اولاد کی بہترین تربیت کے لئے ضروری ہے کہ والدین خود اپنا اچھا نمونہ پیش کریں۔ والدین کی نیکیوں کے اثرات اولاد پر خود مترتب ہوتے ہیں۔نیک لوگوں کا کہنا ہے اولاد مرد کے نصیب سے ہوتی ہے۔اور دولت عورت کے نصیب سے آتی ہے ۔
آپ نے مسجد فضل لندن میں ایک لمبا عرصہ شیڈیولینگ آفس میں خدمت انجام دی۔آپ نے اپنے بچوں کے اسکول جانے کے بعد2018ء میں معلمہ قرآن کریم کا کورس مکمل کیا۔کورس مکمل کرنے کے بعد اب آپ انٹرنیشنل تعلیم القرآن اکیڈمی میں بطور ٹیچر خدمت انجام دے رہی ہیں۔
آپ اپنے حلقہ کی لجنہ کی سیکریٹری تعلیم ہیں لجنہ کے اجتماعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ بچوں کے سکولوں کے اندر جب سٹال کاپروگرام ہوتا ہے تو آپ بھی وہاں جماعتی سٹال لگاتی ہیں۔آپ عزیزواقارب سے بیحد محبت رکھنے والی ہیں۔ آپ اور آپ کے شوہر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وصیت کے نظام میں بھی شامل ہیں۔آپ دونوں خلافت کی اطاعت کا خود نمونہ ہیںاور خلافت سے والہانہ محبت رکھتے ہیں ۔
عزیزہ نائلہ پانچ بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔بہنیں راضیہ قمرصاحبہ زوجہ مکرم عادل منصور صاحب مقیم لندن،صائمہ قمر صاحبہ زوجہ مکرم سید سعادت احمد صاحب مقیم جرمنی،نائلہ قمر صاحبہ، خولہ قمر صاحبہ زوجہ مکرم مبارز منیب احمد صاحب مقیم لندن ،کا شفہ قمر صاحبہ اور بھائی طلحہ قمر صاحب ہیں۔خاکسار کے پوتے اور پوتی حارث عمران پیدائش(2008ء)،حدیقہ عمران پیدائش (2012ء)، حمدان عمران پیدائش (2013ء) اور حسیب عمران پیدائش (2023ء)۔حارث عمران وقف نو ہے اور کرکٹ اور فٹ بال کا بہت شوقین ہے۔حارث خاصطور سے کرکٹ کا زبردست کھلاڑی ہے اور بہت ذہین ہے۔یہاں انگلستان میں کائونٹی کے لئے اپنی پریکٹس کر رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اسے کامیاب کرے۔ تعلیم میں بہت اچھا ہے اور امتحان میں 85-90فیصد نمبر لیتا ہے ۔ جماعتی پرگراموں تلاوت اور تقریر ی مقابلوں میں بھی اوّل پوزیشن لیتا ہے۔ حدیقہ عمران بھی وقف نو ہے اور خاص کر اپنے دادا کا بہت خیال کرتی ہے۔ اپنی ماں کی اکلوتی بیٹی ہے۔ ماںکے ساتھ جماعتی پروگراموں میں جاتی ہے ۔گھریلو کام کاج کا بہت شوق رکھتی ہے،لکھنے پڑھنے کا بہت شوق ہے اور اپنا ہوم ورک باقاعدگی سے کرتی ہے۔عزیزم حمدان عمران بھی وقف نو میں شامل ہے۔ بچپن میں کچھ خاموش تھا مگر جب ا سکول جانا شروع ہوا تب اس کی شرارتیں دیکھنے میں آئیں۔اپنے بابا کی طرح نئی نئی گاڑیوں کی فرمائش کرتا اور دادا ابو وہ لاکر دیتے۔چند دن کھیلنے کے بعد کہتا کہ دادا ابو اور گاڑی لادیں۔ پھر کیا بچے کی فرمائش پوری کرنی پڑتی ہے۔چاروںبچوں کا مجھ سے بہت پیار کا تعلق ہے۔ میری بھی زندگی ان بچوں کی مسکراہٹوں کے ساتھ گزرتی چلی جارہی ہے ۔دعا ہے اللہ تعالیٰ ان سب بچوں نواسے نواسیوں پوتے پوتیوں کو ہمیشہ خوش رکھے اور ان کی خوشیاں مجھے بھی دیکھنی نصیب فرمائے۔آمین
عزیزہ نائلہ کی امی تنویر الاسلام صاحبہ پیدائشی احمدی ہیں ۔آپ کے والد محمد حنیف قمرصاحب اور آپ کے دادا حاجی پیر محمد گوجرانوالہ کے قریب اونچےمانگٹ گائوں کے رہنے والے تھے۔آپ کے دادا نے دستی بیعت نہیں کی تھی۔بعد میں بیعت کی تھی۔مگر اُن کے بھائی حضرت مولوی فضل دین صاحب ؓنے دستی بیعت کرلی تھی۔آپ کے خاندان میں احمدیت کا ظہور دادا حاجی پیر محمد صاحب کے ذریعہ ہوا۔آپ کے دادا نے 1904ءمیں بیعت کی۔آپ کے دادا نانا آپس میں کزن تھے۔ عزیزہ نائیلہ عمران صاحبہ کے چار ماموں اور چھ خالائیں ہیں۔آپ سب واقف زندگی ہیں اور جماعت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ایک ماموں فخر الاسلام مربی سلسلہ ربوہ پاکستان، دوسرے ماموں ڈاکٹر شمس الاسلام سیرالیون میں واقف زندگی ہیں۔ تیسرے ماموں سیف الاسلام ربوہ میں مقیم ہیں۔چوتھے ماموں نیرالاسلام بطور مربی سلسلہ جرمنی میں خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
تنویر الاسلام صاحبہ ربوہ میں رہائش پذیر ہیں بہن امۃ الباری افشاں،امۃ الرئوف،نجمہ شیرین ، امۃ الشافی،نصرت جبین،شازیہ ثمرین ۔امۃ الشافی برطانیہ میںہومیو پیتھک ڈاکٹرہیں۔شازیہ ثمرین محکمہ تعلیم میں ہیڈ مسڑیس ہیں۔آپ کا خاندان ربوہ میں آباد ہے۔آپ کے باپ دادا بڑے دلیر پُرعزم اور انتھک خادم سلسلہ تھے ۔اللہ تعالیٰ ان کی اولادوں کو بھی اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی اور خدمت کی توفیق دیتا رہے۔آمین۔

عمران ظفر کی خدمات سلسلہ
عمران ظفر زمانۂ طالب علمی سے ہی جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے رہے۔اب بھی ایک لمبا عرصہ سے عمران کو جماعتی خدمات کی توفیق مل رہی ہے۔عمران جماعتی کاموں میں شروع سے دلچسپی لیتےتھے۔ جب ہم لندن آئے تو یہاں پر مسجد میں رات کی ڈیوٹی بھی دیا کرتےتھے۔عمران ظفر کو بحیثیت نائب قائد حلقہ اِنر پارک 2001ءسے2002ءتک خدمت کی توفیق ملی، اس کے علاوہ 2001ء سے2003ءتک سیکریٹری عمومی حلقہ اِنر پارک، اور اس کے بعد ریجنل سیکریٹری عمومی مقامی و ایڈیشنل مہتمم عمومی یوکے کی حیثیت سے خدمت کی توفیق ملی۔ اس کے علاوہ جلسے کے دنوں میں اضافی ڈیوٹیاں بھی دینے کی توفیق ملتی رہتی ہے۔جلسہ سالانہ برطانیہ میں عمران کو بطور ناظم حفاظت خاص خدمات کی توفیق ملتی رہی ہے۔ عمران15 سال بطور مہتمم عمومی مجلس خدام الاحمدیہ یوکےخدمت کی توفیق پا تے رہے ہیں ۔
لندن مرکز میںڈیوٹیوں کے علاوہ جب حضور اقدس ملک سے باہرتشریف لے جاتے ہیں،اس موقعہ پر بعض اوقات عمران سیکیورٹی کی ٹیم میں بھی شامل ہوتے ہیں۔اکتوبر 2014ء میں جب مسجدکے افتتاح کے لئے حضور انور آئر لینڈ تشریف لے گئے، اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ کی عمومی سیکیورٹی ٹیم کے رکن کی حیثیت سے عمران کو بھی ساتھ جانے کا موقعہ ملا۔نومبر2015ء میں جب حضور جاپان تشریف لے گئے، اس وقت بھی عمران کو سیکیورٹی ٹیم میں ساتھ لے جایا گیا۔اپریل 2017ء میں جب حضور اقدس مساجد کے افتتاح کے لئے جرمنی تشریف لے گئے ،اس وقت عمران کو بھی قافلہ کے ساتھ جانے کی توفیق ملی۔اپریل 2018ء میں حضور انور جب سپین تشریف لے گئے، اس وقت بھی عمران سیکیورٹی ٹیم میں ساتھ گئے۔
اس کے علاوہ خدام الاحمدیہ کے زیر انتظام ایک گروپ سائیکلوں پرفرانس گیا۔اس موقعہ پر گروپ میںعمران بھی تھے۔ گروپ کو حضور انور نے دعائوں کے ساتھ الوداع کیا اور سب گروپ ممبران کو حضور نے شرف مصافحہ عطا کیا۔ جب عمران حضور سے مصافحہ کرنے لگےتو حضور انور نے فرمایا’’اچھا آپ بھی جارہے ہیں؟اللہ تعالیٰ خیر کرے اور آپ سب خیریت سے واپس آئیں۔‘‘
حال ہی میں انصاراللہ یوکے کا سائیکل ٹور فرانس گیاتھا۔عزیزم عمران ظفر بھی اس ٹور میں بحیثیت ناصر شامل تھے۔اس ٹور کی مختصر روداد درج ذیل ہے:
سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 10؍جون 2022ء بروز جمعۃ المبارک انصار اللہ کے 15 ممبران پر مشتمل ایک گروپ کو جس میں عمران بھی شامل تھے دعا کے ساتھ رخصت فرمایا۔ یہ گروپ مسجد مبارک اسلام آباد سے تقریباً 210 میل کاسفر Cyclingکے ذریعہ کرنےکے بعد 3 روز میں مسجد مبارک Paris پہنچا۔ جہاں پر امیر صاحب فرانس اور جماعت کے دیگر احباب نےپوری ٹیم کو Receive کیا۔
عمران ظفر اب 2022ء میں انصار ہو چکے ہیں مگر خدام الاحمدیہ کے زمانہ کی خدمات والا جذبہ اب بھی قائم ہے۔سیدنا حضور انور نے عمران کو انصار اللہ میں جانے کے بعد اعزازی طور پر مجلس خدام الاحمدیہ میں بطور سیکیورٹی ایڈوائزر خدمت کی ذمہ داری سپرد کی ہے۔اس وقت عمران مجلس انصار اللہ یوکے میں قائد تربیت نو مبائعین ہیں۔ابھی حال (2023ء) میں سیدنا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے عمران ظفر کو یوکے میں موجود جماعت کی مسجدوں، مشن ہائوسز اور دیگر جماعتی پراپرٹیزکی حفاظت کے لئےHEAD OF SECURITY مقرر فرمایا ہے۔الحمد للہ۔خدا تعالیٰ انہیں آگے بھی دین کی مقبول خدمات کی توفیق دے۔اور انکی اولاد میں بھی خدمت اور اطاعت خلافت کا ایسا ہی جذبہ ودیعت کرے۔آمین

اَ سما منصور صاحبہ
میری سب سے بڑی بیٹی اَسما منصور کی پیدائش مارچ 1974ء میں راولپنڈی پاکستان کی ہے۔اَسما کی ابتدائی تعلیم راولپنڈی میں ہوئی۔پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے اَسما بہت لاڈ پیار سے پلی بڑھی۔جب یہ چار سال کی ہوئی تو ہم نے اس کو راولپنڈی کے ایک اعلیٰ انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروا دیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب انگلش میڈیم اسکول شاذ شاذ ہوا کرتے تھےاور ان میںاپنے بچوں کو تعلیم دلواناوالدین کا حسین خواب ہوتا تھا ۔اسکی والدہ نے ساتھ ساتھ یسرناالقرآن اور ناظرہ قرآن بھی پڑھانا شروع کر دیا۔اسکی تعلیم ابھی ابتدائی دور میں تھی کہ ہم پاکستان سے لیبیا چلے آئے۔اس وقت اَسما نرسری کلاس میں تھی۔لیبیا جاکر اسےپاکستان کمیونٹی اسکول میں پہلی کلاس میں داخل کروایا گیا۔لیبیا قیام کے دوران اس نے وہاںاسی اسکول سے میٹرک پاس کی۔میٹرک کرنے کے بعد اَسما نے ایف اے تک تعلیم پاکستان کمیونٹی کالج سےحاصل کی۔لیبیا میں عربی زبان بھی سیکھی۔
لیبیا میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اَسما نے ایک امپورٹ ایکسپورٹ کے آفس میں مینیجر کی پوسٹ پر کام کیا۔انگریزی اور عربی میں ماہر ہونے کی وجہ سے آفس میں اسی نوعیت کا کام کرنا ہوتا تھا۔اَسما بہت محنتی تھی اور اپنا کام دل لگا کر کرنے والی تھی۔اس خوبی کی وجہ سے اَسما کو آفس اسٹاف میں مقبولیت حاصل تھی۔ اپنے کام میں محنت کی وجہ سے میری اس بیٹی نے لیبیا میں اپنا نام اور مقام بنا لیا۔اَسما نے شادی سے قبل7سال تک یہاں ملازمت کی۔اَسما نے اپنی محنت اور ذہانت سے پورے آفس کاکام سنبھالا۔ بڑی کوشش سے دفتر کو چلاتی رہیں۔دفتر کا انچارچ جب موجود نہ ہوتا تو بڑی ذمہ داری سے کام کرتیں۔ انگریزی کے ساتھ عربی کا کام بھی خود کرتیں۔ آفس کا مالک آپ کے کام کی وجہ سے آپ کی بڑی عزت کرتا۔ آپ نے ملازمت کے دوران اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کا بھی خیال رکھا۔ہمیں ضروریات زندگی کی چیزیں لاکر دیتیں ۔عید کے موقع پر سب کے لئے تحفے تحائف خرید کرلاتیں۔اَسما کی منگنی کے لئے جب ہم پاکستان راولپنڈی گئے وہ اخراجات اور شادی کے تما م اخراجات اَسما نے خود برداشت کئے۔ شادی کے بعد اَسما نے اپنے شوہر کو لیبیا لے جانے کےلئے بھی بڑی محنت اور کوشش کی۔اُن دنوں میں لیبیا میں حالات اچھے نہ رہے تھے۔غیر ملکیوں کولیبیا سے نکال رہے تھے۔نئے آدمی کا ویزا لگوانا بڑا مشکل کام تھا۔حضور انور کی دعائوں کے طفیل اور بڑی کوشش کے بعد اللہ تعالیٰ نے کامیابی عطا فرمائی۔ اس طرح ایک ماہ دوبئی میں قیام کرنے کے بعد براستہ مالٹا اپنے خاوند کے ساتھ لیبیا آ گئی۔لیبیا میں ایک سال قیام کرنے کے بعد دونوںجرمنی فرینکفرٹ چلے گئے۔جہاں اپنے ناناجان سردار عبدالقادر صاحب کے ہاں قیام کیا۔ جرمنی میں بھی چند ماہ قیام کرنے کے بعد منصور صاحب نے اپنے کزن عبدالہادی صاحب کے ہاں قیام کیا۔ علیحدہ گھر بھی لے لیا۔وہاں بھی ان کا رہنے کا ارادہ نہ بن سکا۔پھر وہاں سے لندن آنے کا پروگرام بنایا۔
آپ نے جرمنی ہیمبرگ سے برطانیہ آنے کا پروگرام بنایا۔آپ نے لندن پہنچ کر مستقل سکونت کے لئے عدالت میں کیس دائر کردیا۔مختلف عدالتوں میں کیس تقریباً چار سال تک چلتے رہے اس دوران بہت تکالیف اٹھانی پڑیں ۔کیس لڑنے کےلئے وکیل کرنے پڑے۔ اُن کو پیسہ دیتے رہے بڑی بھاگ دوڑ اور دعائوں کے بعد اور کئی سالوں کے بعد فیصلہ ان کے حق میں ہوا ۔ایسےہی حالات کا مقابلہ کرتی رہیں اور کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد آپ کو رہائش آپ کی خواہش کے مطابق مسجد فضل کے قریب ملی۔اَسما کی اور بچوں کی بڑی خواہش تھی کہ خلیفہ وقت کے پیچھے نمازیں ادا کرسکیں۔آپ نے بڑی تکالیف اور مشکلات سے وقت گزارا۔حضور کی دعائوں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے سب کام آسان کردئے۔ اَسما کو سیروسیاحت کا بہت شوق ہے۔ آپ کئی ملکوں میں امریکہ ،کینیڈا ،جرمن،سپین،مراکش کا سفر کر چکی ہیں۔سعودی عربیہ میں عمرہ کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔کئی ملکوں میں تاریخی مقامات دیکھنے کا اسما کو موقع ملا۔

مکرم منصور احمد ابرار صاحب کے ہمراہ ازدواجی زندگی کا آغاز
یکم اگست1998ء میںاَسما مکرم منصور احمد ابرار کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ آپ کا نکاح اور رخصتی راولپنڈی میں ہوئی۔شادی کے بعد اَسما نے اپنے خاوند کے ساتھ راولپنڈی میںہی قیام کیا۔ایک عرصہ پاکستان میں رہنے کے بعد اَسما اور اسکے خاوند نے لیبیا ہجرت کرنے کا منصوبہ بنایا۔یہ اپنے خاوند کے ساتھ پہلے دوبئی چلی گئیں۔کچھ عرصہ دوبئی میں لیبیا کےاپنے پرانے آفس کی ایک برانچ میں کام کیا۔دوبئی سے یہ پھر لیبیا آگئیں۔لیبیا میں میاں بیوی ڈیڑھ سال تک مقیم رہے۔لیبیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ دونوں کو ایک بیٹے سے نوازا۔اس بیٹے کا نام حضور انور خلیفۃ المسیح الرابع ؒنے معِز احمد مشہودرکھا ۔ ڈیڑھ سال بعد اَسما اپنے خاوند اور بیٹے کے ساتھ فرینکفرٹ جرمنی چلی گئیں۔اور پھر وہاں سے مستقل طور پر لندن آگئیں اورایسٹ لندن میںاَلز فیلڈکے مقام پر اپنی فیملی کے ساتھ مستقل قیام کیا۔
اَسما کے خاوند مکرم منصور احمد ابرار صاحب کے والد محترم چوہدری مقبول احمد کاہلوں صاحب مرحوم کا آبائی گائوں’’چہور مغلیاں‘‘چک نمبر 117ضلع شیخوپورہ ہے۔آپ کے دادا جان محترم حضرت چوہدری محمد دین صاحبؓ اپنے گائوں کے نمبردار تھے۔انہوں نے بیسویں صدی کے اوائل میں احمدیت قبول کی۔اورحضرت مسیح موعود ـؑکے صحابہؓ میں شامل ہوئے۔مکرم منصور احمد ابرار صاحب کےتایا زاد بھائی محترم مبشر احمد کاہلوں صاحب ربوہ میں مفتی سلسلہ کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔آپ کے نانا جان محترم حضرت صوفی غلام محمد صاحب ؓبھی صحابی تھےاور پیدائشی احمدی تھے۔آپ کا تعلق کھاریاں ضلع گجرات سے تھا۔آپ حضرت مسیح موعود ؑ کے جلیل القدر صحابی حضرت میاں محمد دین صاحبؓواصلباقی نویس صحابی درویش کے سب سے بڑے فرزندتھے۔حضرت میاں محمد دین صاحبؓواصلباقی نویس کا نام انجام آتھم میں مندرج313 صحابہؓ کی فہرست میں تیسرے نمبر پردرج ہے۔آپ احمدیت قبول کرنے کے بعدآپ قادیان آکر مقیم ہوئے۔اور تقسیم ملک کے بعد درویشی کی سعادت بھی پائی اور قادیان میں ہی 1951ء میں آپؓ کی وفات اور تدفین ہوئی۔آپ کے نانا صوفی غلام محمد صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے واقف زندگی ہونے کی حیثیت سے جھنگ تحصیل چنیوٹ میں رہنے کی ہدایت فرمائی۔آپ ناظر بیت المال خرچ اور ناظر اعلیٰ ثانی صدر انجمن احمدیہ پاکستان بھی رہے۔
منصور احمد ابرار صاحب کے ماموں چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب بھی واقف زندگی تھےاور بحیثیت وکیل المال ثانی اور بعد ازاں وکیل التعلیم تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان خدمت دین کی توفیق پائی۔ منصور احمد ابرار صاحب کے خالہ زاد بھائی مکرم عبد الرزاق صاحب بھی واقف زندگی ہیں اور انہوں نے بحیثیت امیر جماعت اسپین میں خدمت کی توفیق پائی۔منصور احمد ابرار صاحب عرصہ 13سال سے لندن برطانیہ میں مقیم ہیںاور یہاں ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں۔آپ ایک لمبے عرصہ سے MTAکی ٹرانسمیشن ٹیم میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔آپ جماعتی تقریبات اور تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔آپ انتہائی شریف النفس،کم گو اور دوسروں کے بہت ہمدرد ہیں۔ان کے بھائیوں میں مکرم جاوید احمد صاحب،مکرم انس احمد صاحب،مکرممظفر احمد صاحب اور مکرم نعیم احمد صاحبہیں جو سب کیلگیری کینیڈا میں مقیم ہیں۔آپ کی بہنوں میں مکرمہ روزی صاحبہاہلیہ مکرم نوید احمد صاحب اور مکرمہ سعدیہ صاحبہ اہلیہ مکرمظہیر احمد صاحب ہیں۔
منصور احمد ابرارصاحب میرے سب سے بڑے داماد ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ میرے بیٹے کا کردار نبھاتے رہے ہیں۔عمران اس وقت بہت چھوٹے تھے جب اَسما اور منصور احمد ابرار صاحب کی شادی ہوئی۔آپ نے ہر قدم پر میرا اور گھر والوں کا ساتھ دیا۔جب بھی مشورہ کی ضرورت کسی امر میں ہوئی اپنے مفید مشوروں سے مدد کی۔ جب بھی کوئی کام ایسا ہوتا جو ان کے سپرد کیا جاتا انہوں نے اوّل وقت میں انجام دیا۔ایک طرح سے میرے لئے دست راست کا مقام رکھتے ہیں اور ہمیشہ میں نے ان کو اپنا خیر خواہ اور فرمانبردار پایا ہے۔ان کی لندن میںموجودگی سے ہمیشہ مجھے حوصلہ رہا ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور مقبول خدمات کی توفیق عطا فرمائے۔اور ان کی ازدواجی زندگی خوشگوار بنائے۔آمین

اَسما کی جماعتی خدمات
لندن میں اَسما لجنہ کی ڈاک کی ٹیم میں شامل ہیں اور خدمت کی توفیق پارہی ہیں۔میری یہ بچی اپنی والدہ کی مانند نیک صوم و صلوٰۃ کی پابند،مہمان نواز، کم گو اور دوسروں کا درد رکھنے والی ہے۔اہل خاندان سے رابطہ رکھنے والی،سب کا خیال رکھنے والی ۔اپنے والد کا خاص خیال رکھنے والی اور ہمیشہ فون پر رابطہ رکھنے والی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس کو اور اسکے بچوں کو صحت وسلامتی والی عمر عطا فرمائے۔آمین

اولاد
اَسما منصور کی اولاد درج ذیل ہے۔
(1)عزیزم معِز احمد مشہود(ولادت1999) یہ بچہ وقف نو ہے اوراپنی GCSکی تعلیم مکمل کرنے کے بعداب آگے کی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہے۔
(2)عزیزم فائز احمد(ولادت2004)یہ بچہ بھی وقف نو ہے اور ابھی O LEVELکا طالب علم ہے۔فائز احمد روہیمپٹن یونیورسٹی سے B.Aکا تین سال کا کورس کر رہا ہے۔اس کے علاوہ رضاکارانہ طور پر شعبہ ایم ٹی اے میں کمپیوٹر گرافنگ کی خدمت انجام دے رہا ہے۔
(3)عزیزہ اِرج منصور(ولادت2009)یہ بچی بھی وقف نو ہے اور یہ ابھی9th کلاس کی طالبہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان بچوں کو والدین کی آنکھوںکی ٹھنڈک بنائے اور دین کی بہترین خدمت کی توفیق دے۔آمین

تہذیبیہ خالد صاحبہ
میری بیٹی تہذیبیہ کی ولادت مورخہ25مئی 1976ء کو راولپنڈی میں ہوئی۔تہذیبیہ کی پیدائش والے دن اس کے دادا محترم ڈاکٹر اعجاز الحق خان صاحب کی وفات ہوئی۔اس وقت تہذیبیہ کی ماں اس کے ساتھ ہسپتال میں تھی۔ہم جب لیبیا گئے اس وقت یہ گود میں تھیں۔لیبیا میں اسکی ابتدائی تعلیم پاکستانی کمیونٹی اسکول میں انگلش میڈیم میں ہوئی۔تہذیبیہ نے یہاں سے میٹرک اور پھرF.Sc,pre Medicalمیں مکمل کی۔اسکے بعد اس نے میڈیکل لائن میں داخلہ لینا چاہا جس کے لئے پاکستان میں داخلہ کی بہت کوشش کی گئی۔دو سال کوشش کرنے کے بعد بھی پاکستان میں داخلہ نہ مل سکا۔یہی وجہ تھی کہ میری بچی نے اپنے ارمانوں کو دبا لیا اور میڈیکل کی تعلیم کا ارادہ ترک کرکےMALTA ایئر لائن کے اکائونٹ آفس میں ملازمت اختیار کر لی اور یہاں دو سال تک کام کیا۔

مکرم خالد محمود صاحب کے ہمراہ ازدواجی زندگی کا آغاز
مارچ 1999ء میں آپ کی شادی مکرم خالد محمود صاحب کے ساتھ ہوئی۔ان کا تعلق پاکستان اسلام آباد سے تھا۔مارچ 1999ء میں نکاح اور رخصتانہ کے لئے ہم سب بذریعہ بحری جہاز لیبیا سے مالٹا چلے آئے۔مالٹا ایک جزیرہ ہے جو چاروں طرف سے سمندر میں گھرا ہوا ہے۔یہ برطانیہ کے زیر سایہ ہے۔جہاں دنیا بھر سے ٹورسٹ آتے ہیں۔مالٹا میں ہم نے ہوٹل میں قیام کیا۔مکرم خالد محمود صاحب بھی پاکستان سے جرمنی فرینکفرٹ اپنے بہنوئی کے پاس دو روز قیام کرنے کے بعد مالٹا آگئے۔یہاں نکاح کے بعد ہم نے اپنی نیک تمنائوں اور دعائوں کے ساتھ تہذیبیہ کو اُن کےہمراہ رخصت کیا۔ان دنوں خاکسار کا بیٹا عمران ظفر اپنے چچا کے پاس چھٹیاں گزارنے گیا ہوا تھا۔وہ بھی بہن کی رخصتی کے موقعہ پر شامل ہونے مالٹا آگیا۔
ہم نے مالٹا میں 6 روز قیام کیا اور یہاںشادی کے اگلے روز مکرم خالد محمود صاحب نےدعوت ولیمہ کا مختصر انتظام کیا۔اس کے بعد ہم سب نے واپسی کا پروگرام بنایا۔خاکسار اپنی فیملی کو لیکر واپس لیبیا آگیا اور تہذیبیہ اور اس کا خاوندمالٹا سے لندن چلے گئے اور لندن میں ہی مستقل قیام کر لیا۔لندن میں رینز پارک میں انکی اب رہائش ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کو ثمر آور کیا۔اور انکو تین بیٹیاں اور ایک بیٹے سے نوازا۔

خا لد محمود صاحب کے خاندانی حالات
مکرم خالد محمود صاحب کے خاندان کا مختصر تعارف خود ان کے قلم سے درج ذیل ہیں۔آپ لکھتے ہیں:
’’ہمارے خاندان میں پہلے احمدی میرےپڑداد محترم مراد علی صاحب تھے جنہوں نے حضرت خلیفہ اول ؓکے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔میرے پڑدادا سرگودھا کے رہنے والے تھے اور بہشتی مقبرہ میں مد فون ہیں ۔
نانا محتر م حاجی رب نواز خان نیازی صاحب نے احمدیت قبول کی وہ داؤد خیل کے ر ہنے والے تھے۔ حالات خراب ہو جانے کی صورت میں راتوں رات انہوں نے اپنی جان بچانے کے لئے اپنا گاؤں چھوڑا اور پھر دوبارہ واپس نہیں گئے ،ساتھ میں ہماری نانی جان بھی تھیں ۔ بعد میں بہت سال کے بعد جب نانا جان بھی فوت ہو چکے تھے ،سارے خاندان سےدوبارہ ہماری نانی جان کا رابطہ ہوا اور انہوں نے نانی جان کو ان کے حصہ کی جائیداد دینے کا کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا کہ نانا جان نے منع کیا تھا ۔
سرگودھامیں میرے دادا جا ن کا بہت اچھا ہول سیل کا کاروبار تھا ۔مگر 1974 ءکے فسادات میں ہماری دُکان کو جلا دیا گیا اور کچھ بھی نہ بچا ۔ میرے چچا محترم محمد انورصاحب مرحوم پر قتل کا مقدمہ ایک مولوی احسان اللہ دانش نے روالپنڈی میں 1988 ءمیں چلایا اور بہت پھنسانے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں انہیں اسیران راہ مولیٰ میں شامل ہو نے کا بھی شرف حاصل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعد میں رہائی ہوئی۔ میری پیدائش سرگودھاکی ہے ۔جب کہ 1988ءتک ہم راولپنڈی میں رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بڑی چھوٹی عمر میں صدرجماعت، سیکریٹری مال شرقی ہونے کا شرف دیا۔ اس وقت میر ی عمر18 برس تھی ۔اس کے علاوہ خدام الاحمدیہ راولپنڈی اور پھر ضلع اسلام آباد میں مختلف شعبوں میں کام کرنے کی توفیق ملی ۔
1999ءمیں شادی کے بعد سے یو کے میں ر ہائش ہے ۔یو کےمیں خدام الاحمدیہ اورمجلس انصاراللہ میں مختلف شعبوں میں کام کرنے کی توفیق ملی۔ 2013 ءسے 2015 ءتک زعیم اعلیٰ لندن ریجن اور 2016 ءسے اب تک نائب صدر انصار اللہ یو کےکے طور پر خدمت کی توفیق مل رہی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے مجھے 2014 ءمیں حج بیت اللہ کی بھی توفیق ملی ، اس کے علاوہ تمام فیملی کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ۔
اللہ تعالیٰ نے چار بچے عطا کئے، جن میں3 وقف نو کی تحریک میں شامل ہیں ۔اس وقت میں انڈیپنڈینٹ فنانس ایڈوائزر کے طور پر اپنا کام کر رہا ہوں ۔ میرے والد محترم چوہدری محمد اکرم صاحب سی۔ ڈی ۔اے اسلام آباد میں ملازمت کرتے تھے ۔مگر انہوں نے بہت دشمنی اور جماعت کی مخالفت کا سامنا کیا اور ان کی ترقی بھی اسی وجہ سے رکی رہی ۔کئی لوگ انہیں کا م کے دوران بے عزت کرنے کی کوشش کرتےاور گالیاں بھی نکال دیتے تھے۔مگر انہوں نے کبھی کسی کو جواب نہیں دیا ۔ جب ڈپٹی ڈائریکٹر کےطور پر ریٹائر ہوئے تو پھر بھی ان پر مقدمہ بنانے کی کو شش کی گئی ۔مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔والد صاحب مخالفت کی وجہ سے پاکستان سے لندن ہجرت کر آئے۔اور اب وہ ہمارے ساتھ ہی ہیں۔ہم آٹھ بہن بھائی ہیں ۔ ہم پانچ بہن بھائی لنڈن میں جبکہ ایک جرمنی ایک کینیڈا اورایک پاکستان میں مقیم ہے۔‘‘

تہذیبیہ کی جماعتی خدمات
میری بیٹی تہذیبیہ کا جماعت سے گہرا تعلق ہیں۔یہ اپنے حلقہ رینز پارک کی صدر لجنہ اماء اللہ ہیں۔اور مسجد بیت الفتوح میں لجنہ کی سیکیورٹی ٹیمکی انچارج بھی ہیں۔جلسہ سالانہ اور جمعۃ المبارک کے موقعہ پر بہت ذمہ داری کے ساتھ اپنی ڈیوٹی انجام دیتی ہیں۔میری یہ بچی بھی انتہائی ملنسار،مہمان نواز، محنتی اور خوش خلق ہے۔دونوں خاندانوں کے بزرگوں اور عزیز و اقارب کا خاص خیال رکھنے والی ہے۔اپنے والد اور سسر کا بہت خیال رکھنے والی ہے۔ ایک خاص وصف اسے سب سے جدا کرتا ہے اور وہ یہ کہ بذریعہ فون یہ سب خاندان والوں سے تعلق بنا کر رکھتی ہے۔اور وقتاً فوقتاً سب کی خیر خیریت معلوم کرتی رہتی ہے۔اپنے بھائی اور بہنوں کا بھی خاص خیال رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ اسے اور اس کی اولاد کو ہمیشہ خوش رکھےاور ہر خواہش کو پورا فرمائے۔اسکی اولاد کو قرۃ العین بنائےاور خدمات دینیہ کما حقہ‘ سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اولاد
اللہ تعالیٰ نے میری اس بیٹی کو درج ذیل اولاد سے نوازا:
(1)عزیزہ رمشہ خالد(ولادت2000ء)یہ بچی اپنی یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مکرم ریحان طاہر صاحبکے ساتھ شادی کے بندھن میں بندھ چکی ہے۔
(2)عزیزہ سبیل خالد(ولادت جنوری2001ء)یہ بچی بھی کالج میں اپنی تعلیم کے ساتھ اکائونٹ آفس میں جاب کرتی ہے۔
(3)عزیزم سعد خالد(ولادت دسمبر2001ء)یہ بچہ کالج میں اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
(4)عزیزہ اقراءخالد(ولادت دسمبر 2003ء)یہ بچی ابھییونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔

وجیہہ راجہ صاحبہ
وجیہہ راجہ طلعت میری تیسری بیٹی ہے۔یہ اگست 1979ء میں راولپنڈی پاکستان میں پیدا ہوئی۔اسکی پیدائش کے معاً بعد ہی ہم لیبیا ہجرت کر گئے۔اس وقت وجیہہ صرف ایک ماہ کی تھی۔اسکی ابتدائی تعلیم و تربیت لیبیا میں اسکی بڑی بہنوں کے ساتھ ہی ہوئی۔اس کو بھی تعلیم کے لئے ہم نے پاکستان کمیونٹی اسکول طرابلس میں داخل کیا جہاں سے اس نے میٹرک اور پھر بعد میں ایف اے تک تعلیم مکمل کی۔ چونکہ آگے کی تعلیم کے لئے دوسرے ممالک جانا پڑتا تھا لہٰذا انہی مجبوریوں کے چلتےایف اے کے آگے اپنی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکی اورطرابلس میں ایک اکائونٹ آفس میں ملازمت کرنے لگی۔یہ تینوں بہنیںالگ الگ جگہوں پر کام کیا کرتی تھیں۔میں صبح ان سب بچوں کو لیکر گھر سے نکلتا تھا اور پہلے اسکول جانے والے اپنے بچوں کو اسکول چھوڑتااور پھر ان تینوں بہنوں کو الگ الگ جگہ چھوڑ جایا کرتا تھا۔ایسے ہی شام کو بچوں کو اسکول سے واپس لاتا تو ان تینوں کو بھی واپس لے آتا۔وجیہہ ایک سال تک ملازمت کرتی رہی اوراسکے بعد ہم لندن ہجرت کر آئے۔
لندن میں آکر وجیہہ کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقعہ مل گیا۔سو اس نے یہاں این فیلڈ کالج میںداخلہ لیااور دو سال تک یہاں تعلیم حاصل کرتی رہی۔اس دوران مکرم راجہ طلعت وسیم صاحب کے ہمراہ اگست 2002ء میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں سے نوازا ہے۔

راجہ طلعت وسیم صاحب کا خاندانی تعارف
مکرم راجہ طلعت وسیم صاحب کے خا ندان میں احمدیت کا آغاز آپ کی والدہ کی دادی محترمہ فضل نور صاحبہ کے ذریعہ ہواجوگو جر خان کے گاؤں ’’چنگا بنگیال ‘‘ کی رہنے والی تھیں۔محترمہ فضل نور صاحبہ چوہدری غلام احمد صاحب کی زوجہ تھیںجنہوں نے اپنی ایک خواب کی بناء پر احمدیت قبول کی تھی۔انکی اس خواب کے بارہ میںمکرم راجہ طلعت وسیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ:
’’محترمہ فضل نور صاحبہ زوجہ چوہد ری غلام محمد صاحب نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ وہ ایک اندھیر ی گہر ی کھڈّ میں گرپڑی ہیں اور مدد کے لئے پکار رہی ہیں ۔ اسی دوران ایک طرف سے روشنی نمودار ہو تی ہے اور ایک ہاتھ مدد کے لئے نظر آتا ہے۔ وہ اس ہاتھ کوپکڑ کراس گہری کھڈّ سے باہر نکل آتی ہیں۔ اس کے بعد آنکھ کھل جاتی ہے اور فورا ًایک بزرگ کی تصویر ان کے سامنے آ جاتی ہے ۔ اس کے بعد کافی دیر تک وہ سوچتی ہیں کہ یہ بزرگ کون ہیں ۔ اس خواب کا تذکرہ وہ اپنے گاؤں کے ایک بزرگ سے کر تی ہیں ۔ غا لباً وہ بزرگ احمدی تھے۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر لاکر انہیں دکھائی۔ فضل نور صاحبہ یہ تصویر دیکھ کر فورا ًپہچان گئیںکہ یہ اسی بزرگ کی تصویر ہے جو خواب میں نظر آئے تھے اورانکوگہری کھڈّ سے نکالا تھا ۔ محترمہ فضل نورصاحبہ کو اس احمدی بزرگ نے بتایا کہ یہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی تصویر ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت محمد مصطفےٰﷺکی پیشگوئیوں کے مطابق امام مہدی اور مسیح موعود بنا کر بھیجا ہے۔محترمہ فضل نور صاحبہ اپنےبزرگوں سے درخواست کرکے بذریعہ خط بیعت کرکے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوگئیں ۔‘‘
مکرم راجہ طلعت وسیم صاحب کے گھر میں احمدیت ان کی امی کے خاندان سے آئی ۔آج ان کا سارا خاندان الحمد للہ احمدیت سے وابستہ ہے ۔مکرم راجہ طلعت وسیم صاحب کے والدمحترم راجہ محمد سلیم صاحب خلافت کے بڑ ے شیدائی اور جماعتی کاموں میں بڑ ھ چڑ ھ کر حصہ لینے والےاور نمازوں کے پابند ہیں۔ کئی سال تک اپنی جماعت قلع گوجر خان میں سیکریٹر ی رشتہ ناطہ کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ آپ روزگار کے سلسلہ میں پاکستان سے لیبیا کے شہر بن غا زی منتقل ہو گئے او ر پا نچ سال تک وہاں مقیم رہے ۔ راجہ طلعت وسیم صاحب کے ماموں راجہ منیر احمد صاحب راولپنڈی اور اسلام آباد میںبحیثیت ڈی۔ایس۔پی پولیس ایک طویل عرصہ ملازم رہے۔آپ جماعت کے ایک مخلص شیدائی تھے۔اپنی ڈیوٹی کے دوران تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔آپ نمازوں کے بہت پابند تھے۔اکثر ڈیوٹی کے دوران نماز کے وقت وردی میں ہی نماز کے لئے چلے جاتے تھے۔آپ بہت نڈر اور دلیر انسان تھے۔آپ کو سلسلہ کی بے شمار خدمات کا موقعہ ملتا رہا۔آپ کو جلسہ سالانہ برطانیہ میں شمولیت کا ہر سال موقعہ ملتا رہا۔ جلسہ میں اپنا زیادہ وقت جلسہ کی برکات سمیٹنے اور حضورکی اقتداء میں نمازیں ادا کرنے میں گزارتے۔آپ کی وفات اسلام آباد پاکستان میں ڈیوٹی کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔آپ کی تدفین آپ کے آبائی گائوں ’’چنگا بنگیال‘‘گوجرخان میں ہوئی۔
راجہ منیر احمد صاحب کے ایک بھائی راجہ خداداد صاحب کراچی میں قیام پذیر ہیں۔ایک ماموں زاد بھائی کرنل شاہد لطیف صاحب اور ماجد خورشید ہیں ۔کرنل شاہد لطیف صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد لندن برطانیہ کے کنگ بری ایریا میں قیام پذیر ہوئے۔حضور انور کے اسلام آباد ہجرت کر آنے کے بعد مکرم شاہد لطیف صاحب نے بھی اسلام آباد کے قریب ایک نیا گھر ’’ایش ویل‘‘کے ایریا میں خریدا تاکہ حضور کا قرب حاصل ہو اور حضور کی اقتدا میں نمازیں مسجد مبارک میں ادا کر نے کی سعادت ملتی رہے۔
مکرم راجہ طلعت وسیم صاحب کے ایک بھائی مکرم راجہ اشعر وسیم صاحب مقیم ٹورانٹو کینیڈا (پیس ولیج)ہیں۔ایک بہن محترمہ راعنا صاحبہ اہلیہ مکرم نذیر احمد صاحب مقیم ملیشیا ہیں اور ایک بہن محترمہ ثنا ثاقب صاحبہ اہلیہ مکرم ثاقب ادریس صاحب مقیم ٹورانٹو کینیڈا ہیں۔محترم راجہ محمد سلیم صاحب کی بیگم صاحبہ محترمہ فرحت خورشید صاحبہ وفات پا گئی ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔محترم راجہ محمد سلیم صاحب اس وقت ٹورانٹو کینیڈا میں مقیم ہیں۔

وجیہہ راجہ کی جماعتی خدمات
وجیہہ راجہ طلعت اپنے حلقہ ویسٹ ہل لندن کی لجنہ کی جنرل سیکر یٹر ی کے فرا ئض سر انجام دے رہی ہیں اور جماعتی کا موں میںاکثر مصروف رہتی ہیں۔اپنے حلقہ میں لجنہ کی مقبول رکن ہیںاورہر موقعہ پر ہر کسی کی ضرورت پراپنی خدمات پیش کرنے والی ہیں۔ صوم وصلوٰۃ کی پابند،بھائی بہنوں سےپختہ تعلق رکھنے والی ہیں۔اپنے بھائی کا اور میرا بہت خیال رکھنے والی ہیں۔اللہ تعالیٰ میری اس بیٹی کو خدمات دینیہ سے بھرپور فعال زندگی عطا فرمائے۔اور اسکی اولاد کو والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور مقبول خدمات دینیہ کی توفیق عطافرمائے۔آمین

اولاد
اللہ تعالیٰ نے وجیہہ کو اولاد کے رنگ میں چار بچوں سے نوازا ہے۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے:
(1)عزیزم آذان تسلیم راجہ (ولادت دسمبر 2003ء)یہ بچہ بہت ہی سلیقہ شعاراور ہمدردہے۔ میرا بہت خیال کرتا ہے اور اکثر میرا حال احوال معلوم کرنے کے لئے فون کرتا رہتا ہے۔اسکول سے آنے کے بعد سیدھا مسجد فضل چلا جاتا ہے اور وہاں سیکیورٹی والوں کا ڈیوٹی میں تعاون کرتا ہے۔اور نماز عشاء تک وہاں ہی رہتا ہے۔اور ہفتہ کے آخر میں اب اسلام آباد جاتا ہے اور مسجد مبارک میں سیکیورٹی کی ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔یہ بچہ وقف نو کی تنظیم میں شامل ہے۔اسکول سے چھٹیوں کے دوران اپنے ماموں عمران ظفر کے آفس میں ان کی معاونت بھی کرتا ہے۔
(2)عزیزم شایان امان راجہ(ولادت فروری 2006ء)یہ بچہ طبیعت کا ملنسار واقع ہوا ہے۔اپنے بھائی کے ساتھ یہ بھی اسی طرح ڈیوٹی کے لئے جاتا ہے۔یہ بچہ بھی وقف نو کی تنظیم میں شامل ہے۔ابھی اپنی تعلیم کے ساتھ چھٹیوں میں جماعتی کاموں کے علاوہ ایک اسٹور میں جاب بھی کرتا ہے۔
(3)عزیزم فیضان روحان راجہ(ولادت فروری 2008ء)یہ بچہ بہت ذہین ہے اور چنچل طبیعت رکھتا ہے۔ میرے ساتھ بہت لاڈ کرتا ہے۔یہ بچہ بھی وقف نو کی تنظیم میں شامل ہے۔اور اس وقت تعلیم کے ساتھ ساتھ جماعت کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔
(4)عزیزم شاران سلیم راجہ(ولادت مئی 2018ء)یہ بچہ بھی وقف نو کی تنظیم میں شامل ہے۔اور اپنی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ان بچوں کو نیک صالح خادم دین بنائے اور دینی و دنیاوی ترقیات سے نوازے آمین۔

ماریہ ثاقب رشید صاحبہ
ماریہ ثاقب رشید کی پیدائش فروری1983ءمیں لیبیا کے شہر طرابلس میں ہوئی۔ماریہ کی تعلیم وتربیت بھی دیگر بھائی بہنوں کی مانند طرابلس میں ہی ہوئی۔بچپن کاعرصہ لیبیا میں گزرا۔سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے ماریہ نے ماں باپ اور بھائی بہنوں کا خوب لاڈ پیار بٹورا۔بہنیں اسکول سے آنے کے بعد اسے سارا دن گود میں اٹھائے رہتی تھیں۔اس کے آنے سےسب بہنیں اپنی مصنوعی گڑیوںکے ساتھ کھیلنا بھول کر اسی کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں۔بچپن میںاسکا پھول سا چہرہ مجھے اب بھی یاد ہے۔یہ باتوں کو بہت غور سے سنا کرتی تھی ۔اسکے دائیں بائی دیکھنے کا انداز اور بچپن کی باتیں اور بھولا پن جاذب نظر تھا۔ بچپن میں مجھ سے بیٹھ کر باتیں کرنے کو کہتی ۔جب میں باتیں کرنا بند کر دیتا تو اس کا رونا شروع ہو جاتا۔ایسی ہی پیاری اَٹھ کھیلیوں میں اسکا بچپن گزرا۔
ماریہ نے لیبیا میں پاکستان کمیونٹی اسکول میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا ۔چار یا پانچ سال کی چھوٹی عمر میں پہلی بار اس کو ہم نے کچھ گنگناتے سنا،یہ اکثر ایسے ہی گنگنایا کرتی تھی۔اس کی والدہ نے اسکی آواز سن کر کہا کہ اسکی آواز بہت سریلی بن جائے گی۔یہ سریلی آواز اس کو اپنی والدہ کی طرف سےورثہ میں ملی۔اسکی والدہ بھی اپنی سریلی آواز میں نظمیں پڑھا کرتی تھیں۔
جب ماریہ ساتویں یا آٹھویں کلاس میں پہنچی تو اس نے نظمیں خوش الحانی کے ساتھ اسکول کے پروگراموں میں نیز جماعتی پروگراموں میں پڑھنی شروع کر دیں۔نظموں کی تیاری میں اس کی والدہ اس کو تیاری کروایا کرتی تھیں۔وہ بہت خوش ہوتی تھیں کہ ان کی ایک بیٹی انکی طرح ہی خوش گلو ہے۔ ایک مرتبہ جب عمران خان کی سرکردگی میں پاکستان ٹیم نے ورلڈ کپ کرکٹ میں چیمپئن کا خطاب اپنے نام کیا،اس وقت پاکستانی کمیونٹی اسکول لیبیا میں بھی ایک جشن کا اہتمام ہوا۔اس جشن کے موقعہ پر ماریہ نے اس موقعہ کی مناسبت سے ایک نہایت پیاری نظم پڑھی جس کی سامعین نے بہت پذیرائی کی۔اس موقعہ پر سفیر پاکستان کے ہاتھوں ماریہ کو انعام بھی دیا گیا۔چنانچہ ورلڈ کپ پر ماریہ کی نظم کے چند اشعار درج ذیل ہیں:

معرکہ سر کر لیا ہر سو چراغاں کردیا
ہر مقابل ٹیم کو تم نے دیوانہ کر دیا
رحمت ابر کرم ہے جوش میں آئی ہوئی
ورلڈ کپ نے ہر مسلماں کو مسلماں کر دیا
ایسا مستحکم عمران تم نے ٹیم کو کر دیا
اتحاد و نظم سے ہر ایک کو شاداں کر دیا

ماریہ نے میٹرک تک تعلیم لیبیا میں حاصل کی۔کچھ عرصہ بعد جب ہم لندن ہجرت کر آئےتب یہاں آکر ماریہ نے گورنمنٹ کالج این فیلڈ میں داخلہ لیا اور پھر گورنمنٹ کالج پٹنی ہِل میں ٹرانسفر کروا لیا۔یہاںتین سال پڑھائی کرنے کے بعد اس کا رشتہ مکرم ثاقب رشید وینس صاحب سے طے ہو گیا۔اور رخصتانہ کی تقریب ربوہ پاکستان میں ہوئی۔ماریہ مزید تعلیم حاصل نہ کر سکی۔اب جب بچے بڑے ہوئے تو تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ بو‘ٹس BOOTSکمپنی کی فارمیسی میں جاب کر رہی ہے۔

نکاح اور شادی کی تقریب
ربوہ مسجد مبارک میں ماریہ اور عزیزم ثاقب رشید وینس کے نکاح کی تقریب منعقد ہوئی۔نکاح 30؍جنوری 2008ء کو ناظر اعلیٰ صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب مرحوم نے پڑھایا۔ماریہ بیٹی کو ہم نے ربوہ پاکستان سے رخصت کیا۔رخصتانہ کی تقریب 8؍فروری 2008ء کوبنکویٹ شادی ہال ،فیکٹری ایریا ربوہ میں ہوئی۔تقریب میںوکیل اعلیٰ محترم چوہدری حمید اللہ صاحب مرحوم نے بھی شرکت فرمائی۔شادی کی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا ۔حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام پیش ہوا۔دعا محترم چوہدری حمید اللہ صاحب مرحوم نے کروائی۔چوہدری صاحب شادی کی آخری تقریب رخصتانہ تک رہے۔آپ خاکسار کے دادا جان ماسٹر محمد طفیل صاحب کو قادیان سے جانتے تھے۔ہم شادی کے دوران ان کی باتیں بغور سنتے رہے کہ میرے اور آپ کے دادا جان سے بہت قریبی تعلقات تھے۔بہت دعا گو اور نیک انسان تھے۔ہر شخص سے تعلق رکھتے۔حال احوال پوچھتے ۔آپ کے دادا جان کو میں نہیں بھول سکتا ۔ سلسلہ کے کام بڑی ذمہ داری سے کرتے تھے۔آپ کے دو چچا ناصر الدین خان اور صالح احمد خان میرے کلاس فیلو تھے۔ہم شام کے وقت اکثر ایک ساتھ گرائونڈ میں فٹ بال بھی کھیلتے اور گپ شپ لگاتے تھے۔چوہدری صاحب مرحوم نے شادی کے مہمانوں کی رہائش کے لئے انصاراللہ کے گیسٹ ہاؤس میں ایک پورا پارٹیشن ہمیں دلوادیا۔گیسٹ ہائوس کے انچارچ کو فون کرکے ہمارا بتایا کہ ظفر احمد خان صاحب لندن سے آئے ہیں۔ان کی بیٹی کی شادی ہے۔ ان کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ہمارے سارے مہمان راولپنڈی لاہور اور جھنگ سے آئے ہوئے تھے۔ان سب نے ہمارے ساتھ قیام کیا اورہم سب شادی میں ایک دوسرے کے قریب رہے۔اس طرح ماریہ کو ہم نے دعائوں کے ساتھ رخصت کیا۔
اگلے روز ہم سب دعوت ولیمہ میں شمولیت کے لئے سپیشل وین کے زریعہ منڈی بہائو الدین پہنچے۔ دعوت ولیمہ کا انتظام شاہ تاج شوگرمِلز کے احاطہ کے اندر گیسٹ ہائوس میں کیا گیا تھا۔مِلز کے افسران بھی دعوت ولیمہ میں شامل تھے۔
اس شوگر مِلز کےمالک شاہ نواز صاحب پرانے اور مخلص احمدی ہیں۔ کماد کے سیزن میں کام کرنے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔مِلز میں کام بھی 24گھنٹے ہو تا ہے اور تین شفٹوں میں ہوتا ہے۔مِلز کی انتظامیہ میں میجر اکائونٹ سیکیورٹی افسر اور کلیریکل سٹاف کا تعلق احباب جماعت سے ہے۔ مِلز کے احاطہ میں ہی احمدیہ مسجد قائم ہے اورپانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جمعہ کے علاوہ وہاں جماعت کے دوسرے پروگرام،اجتماعات ،وقف نو،خدام،اطفال،لجنہ اور انصار کے پروگرام ہوتے رہتے ہیں۔ خاکسار کے داماد ثاقب رشید وینس کے والد چوہدری عبد الرشید صاحب عرصہ چالیس سال تک مِلز کے اندر کھانے کی کینٹین چلاتے رہے۔ مِلز کے تمام ملازمین اسی کینٹین سے کھانا کھاتے۔کھانے کے بل کی ادائیگی بھی مِلز کی طرف سے کی جاتی ۔دعوت ولیمہ میں مِلز کے ملازمین اور انتظامیہ نے بھی شرکت کی۔چوہدری عبد الرشید صاحب اور مِلز کی انتظامیہ کے افراد مِلز کی کالونی میں ہی رہائش پذیرتھے۔ولیمہ کے بعد رات وہاں مِلز کے گیسٹ ہائوس میں ہم سب نے قیام کیا۔اگلے روز ناشتے کے بعد ہم نے واپسی کا پروگرام بنایا ۔دعا کے بعد بیٹی اور داماد کو خدا حافظ کہہ کر ہم راولپنڈی کے لئے واپس روانا ہوئے۔
بیٹی ماریہ شادی کے کچھ عرصہ بعداپنے خاوند کی رضامندی سے واپس لندن آ گئی اور لندن آکر برطانیہ کی ROYAL MAILمیں تقریباً ڈیڑھ سال ملازمت کرتی رہی اور کافی تجربہ حاصل کیا۔اور خاوند کے لندن آنے کے کچھ عرصہ بعد اس نے کام چھوڑ دیا۔کام چھوڑ دینے کے بعد بھی ماریہ کو دوبارہ آفس جوائن کرنے کے لئے کال آتی رہیں۔

مکرم ثاقب رشید وینس صاحب کا خاندانی تعارف
مکرم ثاقب رشید وینس صاحب کے والد صاحب چوہدری عبد الرشیدصاحب کا تعلق منڈی بہائوالدین سے ہے۔ ’’شاہ تاج ملز‘‘میں عرصہ 40 سال سےاپنی کینٹین چلاتے رہے۔ان کے دادا چوہدری نظیرصاحب ضلع گورداسپور پنجاب (انڈیا) کے رہنے والے تھے ،جو تقسیم ملک کے وقت ہجرت کرکےپاکستان آگئے۔آپ کے دادا نے احمدی گھرانے میں شادی کی اور یہ شادی ہی انکی ہدایت کا سبب بنی اوردادا نے بیعت کر لی۔
مکرم ثاقب رشید وینس صاحب کے نانا کا نام چوہدری نصیر اللہ خان کاہلوں تھا۔جو کہ سانگلہ ہِل کے قریب موضع قاضیاں کے رہنے والے تھے۔بعد میں یہاں سے ربوہ چلے گئے اور ربوہ میں ہی مستقل رہائش اختیار کر لی۔ثاقب صاحب کی والدہ کے عم زاد بھائی مکرم مبشر احمد صاحب کاہلوں مفتی سلسلہ ہیں۔ چوہدری عبد الرشید صاحب کی والدہ اور بہنیں لاہور میں رہائش پذیر ہیں۔
منڈی بہائوالدین میںجماعت کی شدید مخالفت کے چلتے ان کے والد صاحب نے اپنے بچوں کو باہر بھیجنے کا پروگرام بنایا اور خود بھی وہاں سےہجرت کرکےکینیڈا چلے گئے۔مکرم ثاقب صاحب شادی کے 6 ماہ بعد لندن ہجرت کر آئے۔اس وقت یہ پٹنی ہِل میں اپنی فیملی کے ساتھ قیام پذیر ہیں۔اپنا ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں۔جماعت سے بہت گہرا تعلق ہے اور جماعتی تقریبات و تحریکات کا حصہ بننا اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں۔جلسوں اور دیگر مواقع پر خدام کی عمومی ٹیم میں سیکیورٹی کی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے رہتےہیں۔

ماریہ ثاقب کی جماعتی خدمات
ماریہ نے یہاں لندن میں 2002ء میں لجنہ اور ناصرات کے پروگراموں اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اردو کلاس میں جانا شروع کیا۔پہلی مرتبہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ماریہ کی نظم سنی توبہت خوش ہوئے اور فرمایا’’ماشاء اللہ بہت پیاری آواز ہے۔ تم کس کی بیٹی ہو‘‘۔ماریہ نے جواب دیا ظفر احمد خان صاحب کی۔حضور نے فرمایا ’’کون ظفر احمد‘‘۔اس پر ماریہ نے بتایا کہ ہم ابھی حال ہی میں لیبیا سے لندن آئے ہیں۔حضور نے فرمایا ’’ٹھیک ہے،بیٹھ جائو۔‘‘
ماریہ اجتماعات کے علاوہ ایم ٹی اے کے پروگراموں میں بھی اپنی نظمیں ریکارڈ کرواتی ہے۔جو کبھی کبھی ایم ٹی اے پر نشر ہوا کرتی ہیں۔اسکی نظموں میں سے خاص نظمیں درج ذیل ہیں:
(1)ہمارا خلافت پہ ایمان ہے۔
(2)ہے عجب میرے خدا میرے پہ احساں تیرا۔
(3)اے خدا اے کارسازو عیب پوش و کردگار۔
ماریہ اپنے حلقہ کی سیکریٹری تبلیغ رہ چکی ہے۔لجنہ کی ڈاک ٹیم میں بھی خدمت انجام دیتی رہی ہے۔جماعتی کاموں میں ہمہ تن مصروف رہنے والی ہے۔اسکی آواز اور نظموں کے شوق کے پیش نظر اپنے حلقہ کے علاوہ دوسرے حلقہ کی لجنہ بھی اسے اپنے جلسوں اور اجلاسات میںنظم پڑھنے کے لئے لے جاتی رہیں۔

خلیفۂ وقت کی موجودگی میں نظم پڑھنے کی سعادت
برطانیہ کے جلسہ سالانہ کی شان ہی کچھ اور ہوتی ہے۔کیونکہ خلیفۂ وقت کی موجود گی اس جلسہ کو خاص بناتی ہے۔ یہ بڑی سعادت مند ی کی بات ہے کہ خاکسار کی بیٹی ماریہ ثاقب کو جلسہ سالانہ برطانیہ 2021ء کے دوسرے روز لجنہ اماء اللہ سے خطاب کے موقعہ پر پیارے حضور اقدس کی موجودگی میں حضرت مسیح موعودؑ کا منظوم کلام ’’حمد وثناء اُسی کو جو ذات جاودانی‘‘ پڑھنے کی توفیق ملی۔الحمد للہ علیٰ ذالک
ماریہ کی والدہ مرحومہ کی ہمیشہ یہ آرزو رہی کہ اس بیٹی کو یہ سعادت مندی حاصل ہو۔اللہ تعالیٰ نے اس کی والدہ کی یہ آرزو پوری کردی۔افسوس اس کی والدہ آج ہمارے درمیان نہیں ہے۔مگر یقیناً اس کی روح اس خوشی سے محظوظ ہوتی ہوگی۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری اس بیٹی کو نیکیوں میں ترقی کرنے والی بنائے۔آمین
ماریہ بھی اپنی دوسری بہنوں کی طرح ہی اپنی والدہ کی طبیعت پر مائل ہے۔اپنی ماں کی طرح ہنس مکھ،دوسروں کا احساس اور درد کرنے والی اور مہمان نواز۔بھائی بہنوں اور عزیز و اقارب کا خیال رکھنے والی ہے۔ اپنے ہمسایوں کا بھی حق ادا کرنے والی ہے۔اللہ تعالیٰ نے اسے ایک بیٹا اور تین بیٹیوں سے نوازا۔
اولاد
1. عزیزم مصطفیٰ ثاقب(ولادت2008-11-28)یہ بچہ وقف نو ہے اور ابھی اسکول میں7thکلاس میں تعلیم پا رہا ہے۔
(2)عزیزہ ماہ نور ثاقب(ولادت2010-03-30)یہ بچی بھی وقف نو ہے اوراسکول میں5thکلاس کی طالبہ ہے۔
(3)عزیزہ امان ثاقب(ولادت2013-05-06)یہ بچی بھی وقف نو ہے۔اور 3rdکلاس میں پڑھتی ہے۔
(4)عزیزہ اشعال ثاقب(ولادت2014-10-08)یہ بچی بھی وقف نو ہے اور اپنی تعلیم کے ابتدائی مراحل میں ہے۔
میری یہ بیٹی بھی میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ سچ کہیں توماریہ میں مجھے اسکی ماں کی جھلک نظر آتی ہے۔اسکے بچے بھی مجھ سے بہت پیار کرنے والے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ میری اس بیٹی کو ہمیشہ خوش رکھے اور اسکی اولاد کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے اور مقبول خدمات دینیہ سر انجام دینے کی توفیق دے۔آمین۔

باب پنجم اور باب ششم تربیت اولاد اور دعاؤں کی اہمیت سے متعلق مواد پر مشتمل ہے۔

حرف آخر

خاکساراپنے خاندانی حالات پر لکھی اس کتاب کے اختتام پر اللہ تعالیٰ کا بےحد شکر بجا لاتا ہے کہ بزرگوں کے حالاتِ زندگی کا ذکر اپنی تکمیل کو پہنچا۔ مگر اسکی اصل تکمیل یہ ہوگی کہ ہم سب اپنے بزرگوں کے نقش پا پر چلتے ہوئے ہمیشہ نیکیوں پر قدم ماریں۔اور آئندہ بھی اپنے بزرگوں کے ذکر خیر کو جاری رکھیں۔میرے کچھ دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے کتاب لکھنے کا کیوں اور کیسے سوچا؟یہ بڑا مشکل کام ہے بڑا لکھنا پڑتا ہے۔اس کو کیسے مکمل کریں گے؟اس کے جوا ب میں صرف یہ کہوں گا کہ اگرخدا تعالیٰ کی مدد اور میرے پیارے آقا حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دعائیں اور شفقت میرے شامل حال نہ ہوتیں تو اس کام کو مکمل کرنا میرے لئے بہت مشکل تھا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا ذکر خیر جاری رکھنے کی توفیق دیتا رہے۔آمین۔ میںتمام خاندان اور پڑھنے والوں سے معذرت خواہ ہوں ۔ممکن ہے کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود بعض واقعات ان کے نظرئیے کہ مطابق نہیں لکھ پایا۔مگر میں نے پوری کوشش کی ہے کہ واقعات کو ان کے سیاق و سباق کے ساتھ واضح طور پر بیان کروں ۔میری تہہ دل سے دعا ہےکہ اللہ تعالیٰ میرے آبائواجداد کی سرزمین میں بھیجے ہوئے مسیح پاک اور مہدی موعودؑ پر دنیا کوصدقِ دل سے ایمان لانے کی توفیق دےاور ہمارے بزرگوں کی قربانیوں کو قبول کرتے ہوئےاحمدیت کے طفیل یہ ملک بھی ترقی کرے جس میں ہم اب ہجرت کرکے رہنے پر مجبور کئے گئےہیں۔آمین
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری اس حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور ہر پڑھنے والے کے لئے یہ کتاب ایمان اور تقوی ٰمیں ترقی بخشنے والی ثابت ہو۔خدا تعالیٰ مجھے بھی جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لینے کی توفیق دے۔ محض اللہ کے فضل سے اب تک مجھے جماعت کی خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور میری اولاد بھی سلسلہ عالیہ احمدیہ کےسچے خادموں کے طور پر خدمت کرنے میں ہر وقت مستعد رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اسی جذبہ اور اخلاص کے ساتھ جماعت کی خدمت کی توفیق دیتا چلا جائے اور یہ خلیفۂ وقت کے سچے خادم بنیں۔آمین
میں تمام خاندان کے بزرگوں اور دوستوں کا مشکور ہوں خاص کرڈاکٹر نائلہ قادرصاحبہ، ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ، ڈاکٹر شہلا قادرصاحبہ، ڈاکٹر فائزہ رحمٰن صاحبہ ،ڈاکٹر رضوان قادر صاحب، ڈاکٹر صلاح الدین صاحب اور ڈاکٹر طاہر ملک صاحب جنہوں نے اہم معلومات فراہم کرنےمیں میری مدد فرمائی۔کیپٹن طاہر محمود خان صاحب نے بھی میری حوصلہ افزائی فرمائی۔اقبال احمد نجم صاحب مبلغ سلسلہ انگلستان نے مسودے کو ملاحظہ فرما کر قدردانی کے رنگ میں اپنے تاثرات اور مفید مشوروں سے نوازاجس کے لئے خاکسار ان کا بے حد ممنون ہے۔مکرم نسیم احمد باجوہ صاحب مشنری یوکے کا بھی خاکسار شکر گزار ہے کہ انھوں نے عمیق نظر کے ساتھ اس کتاب کے مسودہ کو د یکھا اور ضروری امور کی ظرف نشاندہی کی۔پھر خاکسار محترم منیرالدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التصنیف کا بھی تہہ دل سے مشکور ہے کہ آپ نے اپنی مصروفیت کے باوجود میری اس کاوش کو دیکھا اور اس کی اشاعت کے سلسلہ میں مناسب کارروائی بھی کی اور میری عمدہ رنگ میں رہنمائی بھی کی۔ خاکسار مکرم محمد محمود طاہر صاحب کا بھی شکرگزار ہے جنہوں نے اس کتاب کے مسودہ کے پروف پڑھ کر بہت سی تاریخی اغلاط کی درستی کی اور مفید مشورے دیئے اوران تمام دوستوں کا بھی ممنون ہوں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں میری مدد اور راہنمائی فرمائی ہے۔اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جزاکم اللہ احسن الجزا
آخر میں خاکسار اپنے پیارے آقا کا بھی بے حد شکر گزار ہے کہ حضور پُر نور کی دعائوں کے طفیل میرے لئے اس کتاب کی تصنیف کا یہ کام جو محالات میں سے تھا کر پانا ممکن ہوا ہے۔
اب آخر میں میری یہ بھی دعا ہے کہ یہ کتاب حقیقی رنگ میں ہماری نسلوں کے لئے مشعل راہ بنے اور ہمارے تمام بچے نسل در نسل اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے رہیں۔ میرے تمام بچے نواسے اور نواسیاں پوتے اور پوتیاں احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر تادم آخر قائم رہیں اور ان سب کا باہمی تعلق ایسا ہو کہ خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر ان سب پر رہے۔ایک دوسرے کے احساسات اور جذبات کی قدر کرنے والے ہوں۔ہمارے تمام بزرگان کی روحوں کو اللہ تعالیٰ اعلیٰ و ارفع مقام عطا فرمائے۔آمین
خاکسار
ظفر احمد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں