الفضل اخبار کی خوبصورت یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل …؍دسمبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں مکرمہ صفیہ بشیر سامی صاحبہ لکھتی ہیں کہ مَیں نے ربوہ میں جب سے اپنے شعور کی آنکھ کھولی تب سے ’’الفضل‘‘ کو اپنے گھر میں پایا۔ اُس وقت ہمیں ہر روز شام کو الفضل مل جایا کرتا تھا اور وقت کا بھی ہمیں اندازہ تھا کہ کس وقت تک اخبار والا اخبار پھینک کر جائے گا۔ چنانچہ ہم بہنیں اس انتظار میں ہوتیں کہ کب اخبار آتا ہے۔ اخبار آتا تو پھر ہر ایک کو شش کرتی کہ پہلے اخبار اُسے مل جائے ۔
اس کے بعد ہمارے ہاں دیگر اخبارات بھی آنے لگ گئے مگر دینی معلومات اور اپنی جماعت کی خبروں کے علاوہ دنیاوی خبریں بھی ہمیں صرف الفضل اخبار سے ہی ملتی تھیں۔ پھر شادی کے بعد مَیں پشاور آگئی جہاں میرے خاوند مکرم بشیرالدین احمد سامی صاحب ملازم تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں اکثر ہم پشاور سے مری چلے جاتے تھے جہاں میرے جیٹھ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔ میرے سُسراباجی بھی ہمارے ساتھ ہی ہوتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مَیں الفضل اخبار کتنے شوق سے پڑھتی ہوں اور وہ خود بھی اخبار کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ چنانچہ ہر روز وہ بہت دُور سے جاکر دو اخبارات لایا کرتے تھے جن میں سے ایک تو الفضل ہوتا اور دوسرا کوئی قومی اخبار۔ گھر پہنچ کر وہ الفضل پہلے مجھے دیتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مجھے ربوہ کی خبروں کی انتظار ہوتی تھی۔ میرے پڑھنے کے بعد پھر بعد میں وہ خود پڑھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرمائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں