الفضل اخبار کی چند خوبصورت یادیں

(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، الفضل انٹرنیشنل 22؍نومبر2025ء)

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر 2013ء میں ابن کریم کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پچھلے دنوں حضرت مسیح موعودؑ کے ایک صحابی کے قبول احمدیت کا تذکرہ جب مَیں نے ایک غیراز جماعت دوست کے سامنے رکھا تو وہ باتیں سن کرانہیں جھرجھری سی آگئی اور انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کسی وقت میرے ڈیرے پر ضرور آئیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان صحابی کے بھائی نے احمد یت قبول کرلی تھی اور یہ ان کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ ایک دن خیال آیا کہ مخالفتوں سے مجھے کچھ حاصل تو ہوانہیں، کیو ں نہ دعا کروں۔ چنانچہ کبھی ویران جگہوں پر، کبھی جنگلوں میں اور کبھی قبرستانوں میں گریہ وزاری شروع کردی۔ خدا کے حضور روتا اور چلّاتا کہ مالک! اگر تو یہ سلسلہ تیری طرف سے ہے تو تُو میری راہنمائی فرما۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے ایسی راہنمائی فرمائی کہ قادیان خواب میں دکھا یا گیا، حضرت مسیح موعودؑ بھی اور آئندہ ہو نے والے خلیفہ بھی ۔ مَیں نے یہ ساری با تیں اُس معزز زمیندار کے سا منے رکھیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا۔ مَیں نے کہا خدا تو بےنیاز ہے اگر کسی نے حق سچ کو پہچاننا ہے تو اس طرح گریہ وزاری اُسے کرنا ہوگی ۔
ایک بار مومنؔ کے ایک شعر کی تلاش تھی جو الفضل کے ایک مضمون میں مل گیا۔ شعر یوں ہے ؎

زمانہ مہدیٔ موعود کا پایا اگر مومنؔ
تو سب سے پہلے تُو کہیو سلام پاک حضرت کا

الفضل کی جان، خلیفہ وقت کے خطبات ہیں۔ ایم ٹی اے کے ذریعے ہم دیکھ اور سُن تو لیتے ہیں مگر جب وہ تحریری طور پر سامنے آتے ہیں تو پہلی سنی ہوئی بات نظر میں آنے سے کالنقش فی الحجر کی مانند ہو جاتی ہے۔
مکرم حافظ عبدالوہاب صاحب بلتستانی مرحوم مربی سلسلہ کے والد صاحب کی قبولِ احمدیت کی داستان کچھ یوں ہے کہ وہ کسی دکان سے سوداسلف لائے تو دکان دار نے جس اخبار میں سودا لپیٹ کر دیا وہ ٹکڑا حضرت مسیح موعودؑ کے ملفوظات کا تھا، جو کسی اخبار ہی کا حصہ تھا۔ اس طرح انہیں ان چند بابرکت الفاظ سے جماعت کی طرف ترغیب ہوئی۔
ایک مخلص داعی الی اللہ نے مجھے بتایا کہ اُن کی والدہ محترمہ 95؍سال کی ہیں۔ الفضل سے عشق اور وابستگی کا ایسا تعلق ہے کہ صبح صبح اپنے پوتے پوتیوں کے دسیوں چکر دروازے کی طرف لگوادیتی ہیں کہ دیکھو الفضل نہیں آیا؟ ان کے اس انداز کی وجہ سے میری اہلیہ کو بھی الفضل سے اتنی محبت ہوگئی ہے کہ اب مَیں نے مجبوراً دو پرچے لگوالیے ہیں۔ دونوں علاوہ علم و عرفان کی باتوں کے دہرانے کے، مریضان کے لیے شفا کی دعائیں، مرحومین کے لیے بلندیٔ درجات کی دعائیں اور نومولودگان کے لیے درازیٔ عمر کی دعا ئیں کرتی جاتی ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ مَیں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں۔ ایک خدا کی توحید اور دوسرے مخلوقِ خدا کی ہمدردی۔ الفضل ان دونوں مقاصد کی تکمیل میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ آپؑ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس نے میری کتب کو کم از کم تین بار نہیں پڑھا اس میں تکبر کے اثرات پائے جانے کا اندیشہ ہے۔ اس مقصد کی تکمیل بھی الفضل کرتا ہے۔
چند سال پیشتر میری خوشدامن صاحبہ کا آپریشن ہوا اور الفضل میں دعا کا اعلان شائع ہوا تو محترم وکیل المال صاحب کا بھی دعاؤں سے پُر اور شفقت بھرا خط آیا۔ جسے پڑھ کر احساس ہوتا کہ خدا نے ہمیں کیسا عظیم الشان نظام دیا ہوا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے ایک مخلص جما عتی کارکن کی بچی بعمر14؍سال کے گینگرین سے متاثر پاؤں کے آپریشن کا اعلان بغرضِ دعا شائع کروایا۔ چند دن بعد وہی کارکن ایک چِٹ لے کر آئے۔ رقّت کے غلبے کی وجہ سے ان سے بات کرنا مشکل تھی۔ معلوم ہوا کہ اعلان پڑھ کر ایک دوست نے دفتر الفضل سے پوچھوایا اور بچی کے والد کو تلاش کرکے یہ پیغام بھجوایا کہ دعائیہ اعلان کو پڑھ کر مَیں بہت رویا، بہت دعا کی۔ مجھے چونکہ خود پاؤں میں یہ عارضہ تھا اس لیے مَیں بآسانی سمجھ سکتا تھا کہ تکلیف کیا ہوتی ہے۔ بہرحال میری درخواست ہے کہ آپ فلاں علاج کروائیں اس سے مجھے افاقہ ہوا ہے، ابھی آپریشن نہ کروائیں۔ اس کارکن نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا: ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ خدا نے خلافت کی برکت سے ہمیں ایک لڑی میں پرودیا ہے۔
ایک بزرگ اکثر و بیشتر الفضل کی بیان فرمودہ باتوں کے سحر میں گرفتار رہتے ہوئے بڑے مزے لے لے کر علم و معرفت کی باتوں کی جگالی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک دن بتانے لگے کہ اخبار کی ہر چیز حتّٰی کہ تمام اشتہار تک پڑھتا ہوں۔ گومجھے ان سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا مگر مَیں سمجھتا ہوں کہ احترام اور محبت کا تقاضا ہے کہ ان پر بھی نظر ڈالی جائے۔
ایک دوست نے بیان کیا کہ اُن کی عمر رسیدہ والدہ تو الفضل کی اتنی دیوانی ہیں کہ جب تک اخبار آ نہ جائے ان کو عجیب بےچینی طاری رہتی ہے اور جب مل جائے تو وارفتگی اور ایک گونہ بےخودی کی کیفیت میں اسے آغاز سے پڑھنا شروع کردیتی ہیں اور اختتام تک پہنچے بغیر نہیں چھوڑتیں۔ اور جس دن اخبار نہ ملے اس دن ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے گویا کوئی پسندیدہ چیز کہیں رکھ کر بھول گئی ہیں جس کی تلاش میں اُداس بھی ہیں اور پریشان بھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں