الفضل اور الفرقان — غیروں کی نظر میں
(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 26؍ جولائی 2023ء)

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں محترم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن تحریر کرتے ہیں کہ ۱۹۶۷ء میں مجھے مری میں دو دیگر دوستوں کے ہمراہ وقف عارضی پر جانے کا موقع ملا تو ایک روز خیال آیا کہ اس علاقے میں پیر صاحب موہڑہ شریف کا مرکز بھی دیکھا جائے۔ چنانچہ ہم تینوں کوہ مری کے نشیب میں پہاڑوں کے دامن میں اتر گئے اور کافی لمبا سفر کرنے کے بعد بالآخر منزل پر پہنچ گئے۔ پیر صاحب فرشی قالین پر گدی پر بیٹھے تھے۔ درمیانی عمر، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن کے مالک تھے۔ بہت اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ ہم نے اپنا تعارف کروایا تو بہت خوش ہوئے اور بتایا کہ وہ احمدیت سے خوب متعارف ہیں۔ یہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اس قالین کا (جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے) ایک کونہ اٹھایا تو ہم نے دیکھا کہ اس کے نیچے الفضل اور الفرقان کے تازہ پرچے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں جرائد اُن کے پاس باقاعدہ آتے ہیں اور وہ بڑے شوق سے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کہنے لگے کہ مَیں ان جرائد کو قالین کے نیچے رکھتا ہوں تاکہ باقی لوگوں کی نظر نہ پڑے۔
ایک اور بڑا دلچسپ اور یادگار فائدہ جو مَیں نے ذاتی طور پر الفضل سے حاصل کیا وہ یہ ہے کہ سکول میں اندراج کے وقت میری پیدائش کی تاریخ کا جو اندراج ہوا وہ کسی وجہ سے درست نہیں تھا۔ پیدائش کا سن تو قطعی طور پر معلوم تھا۔ ایک دن مَیں نے خلافت لائبریری جاکر ۱۹۴۳ء کی جلد نکالی اور جولائی سے اخبارات دیکھنے شروع کیے۔ ۱۲؍ستمبر کے اخبار میں مجھے یہ ذکر مل گیا تو بےحد خوشی ہوئی۔ اس میں میرا تاریخی نام مختارالملک (۱۳۶۲ھ) لکھا ہے۔ میرے اباجان (حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری) نے مجھے بتایا کہ میرا یہ تاریخی نام حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب مرحوم نے نکالا تھا۔ بہرحال الفضل کی برکت سے یہ خوشی کا موقع میسر آیا اور اُس وقت یہ خیال بھی آیا کہ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی ولادت کا اعلان خود اپنی آنکھوں سے پڑھا ہو۔