الفضل اور مَیں

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 26؍اگسست 2024ء)

میر غلام احمد نسیم صاحب

روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ کے صدسالہ جوبلی سوونیئر ۲۰۱۳ء میں مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب مربی سلسلہ کا مضمون شائع ہوا ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ میرے گاؤں میں ڈاک ہفتے میں ایک بار آیا کرتی تھی اور ہفتے بھر کے الفضل کے پرچے بھی اکٹھے ہی ملتے تھے جن کا شوق سے مطالعہ کیا جاتا۔ جب مَیں موضع چارکوٹ، راجوری ریاست جمّوں کے احمدیہ سکول میں زیرتعلیم تھا تو ہمارے استاد ماسٹر بشیر احمد صاحب تھے جنہوں نے قادیان میں بھی کچھ عرصہ تعلیم حاصل کی تھی۔ احمدیہ سکول میں بھی الفضل آتا تھا جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات بھی شائع ہوتے تھے۔ ۱۹۴۰ء کی دہائی میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبات میں تحریک جدید کے قیام کی غرض و غایت اور دین کی خاطر زندگی وقف کرنے کی ولولہ انگیز تلقین ہوا کرتی تھی۔ ایک ایسا ہی خطبہ جمعہ پڑھ کر مَیں نے اپنے والد سے وقف کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے فرمایا کہ کام صبر آزما ہے، اگر اس پر قائم رہنا ہے تو سوچ کر فیصلہ کرلو، یہ تمہاری مرضی ہے۔چنانچہ مَیں نے درخواست بھجوادی۔ ۱۹۴۷ء میں میرا وقف منظور ہوا اور ۱۹۴۸ء میں مَیں مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوگیا۔
جب مَیں جامعۃالمبشرین کے آخری سال میں تھا تو الفضل سے متاثر ہوکر ہی مضامین لکھنے شروع کیے جو الفضل میں شائع بھی ہونے لگے۔ الفضل نے مجھے اردو ادب کا ذوق دیا اور دینی علوم اور عام معلومات میں اضافے کا باعث بھی ہوا۔ چنانچہ جامعہ سے شاہد کرنے کے بعد مختلف ممالک مثلاً سیرالیون (مغربی افریقہ)، زیمبیا (وسطی افریقہ) اور گی آنا (جنوبی امریکہ) میں متعیّن رہا تو کئی جگہ ماہوار رسالے شائع کرنے کی توفیق بھی ملتی رہی۔ یہ سب الفضل کی برکت تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں